حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں
جاتی رہی ہے آہ سے تاثیر کیا کروں
شورِ جنوں ہوا ہے گُلو گیر کیا کروں
ہے ٹوٹی جاتی پاؤں کی زنجیر کیا کروں
نا گفتنی ہے حالِ دلِ ناتواں مرا
آتی ہے شرم میں اسے تقریر کیا کروں
دل مانگتا ہے مجھ سے، مجھے بھی دیے بنی
اتنی سی چیز پر اسے دل گیر کیا کروں
دیکھا جو مجھ کو نزع میں، قاتل نے یوں کہا
اس جاں بہ لب پہ کھینچ کے شمشیر کیا کروں
بن دیکھے اس کے دل کو تسلی نہیں مرے
نقاش اس کی لے کے میں تصویر کیا کروں
اے یار دردِ دل کی مرے بات ہے کڈھب
مت پوچھو تم سے اس کی میں تقریر کیا کروں
پوچھا میں مصحفی سے ہوا کیوں تو در بدر
بولا کہ یوں ہی تھی مری تقدیر کیا کروں