01:33    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

غلام ہمدانی مصحفی کی شاعری

863 1 0 00

حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں

جاتی رہی ہے آہ سے تاثیر کیا کروں

 

شورِ جنوں ہوا ہے گُلو گیر کیا کروں

ہے ٹوٹی جاتی پاؤں کی زنجیر کیا کروں

 

نا گفتنی ہے حالِ دلِ ناتواں مرا

آتی ہے شرم میں اسے تقریر کیا کروں

 

دل مانگتا ہے مجھ سے، مجھے بھی دیے بنی

اتنی سی چیز پر اسے دل گیر کیا کروں

 

دیکھا جو مجھ کو نزع میں، قاتل نے یوں کہا

اس جاں بہ لب پہ کھینچ کے شمشیر کیا کروں

 

بن دیکھے اس کے دل کو تسلی نہیں مرے

نقاش اس کی لے کے میں تصویر کیا کروں

 

اے یار دردِ دل کی مرے بات ہے کڈھب

مت پوچھو تم سے اس کی میں تقریر کیا کروں

 

پوچھا میں مصحفی سے ہوا کیوں تو در بدر

بولا کہ یوں ہی تھی مری تقدیر کیا کروں

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

غلام ہمدانی مصحفی کی شاعری

مزید شاعری

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔