02:16    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

سفرنامے

3479 0 0 00

زندگی کا یادگار سفر - حیدر قریشی(جرمنی)

دلی اور کولکاتا کے سفر کا سفر نامہ

انسانی زندگی ایک سفر جیسی ہے۔۱۳ جنوری ۲۰۱۲ء کو اپنی زندگی کے سفر میں ساٹھ برس کا ہو چکا ہوں۔سال ۲۰۰۹ء میری زندگی میں ایسی بیماریوں،دکھوں اور تکالیف کا سال بن کر آیا تھا کہ اب ان کا سوچ کر بھی حیرت ہوتی ہے ۔ میں اور میری فیملی کیسے سنگین حالات سے کیسے حوصلے اور کیسے اطمینان کے ساتھ گزرتے چلے گئے،یہ سراسر خدا کا فضل و کرم تھا۔اُسی نے ابتلا اور آزمائش میں ڈالا تھا اور اسی نے اس میں سے کامیاب و سرخرو کر کے زندگی کے سفر کو جاری رکھا ہوا ہے۔میری اہلیہ دو بار موت کی سرحد تک پہنچ گئی تھیں،اور دونوں بار ہماری پوری فیملی اللہ میاں کی منت کر کے اسے واپس لے آئی۔دوسری بار واپسی تو ہو گئی لیکن ساتھ ہی ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز کی شرط لاگو ہو گئی۔ ہمارے خاندان میں جو عزیز و اقارب ڈائلے سز پر آئے چار سے چھ مہینے کے اندر وفات پا گئے۔خود مبارکہ کے والد اور میرے ماموں پروفیسر ناصر احمد بھی بمشکل چار مہینے ڈائلے سز پر رہے اور پھر وفات پا گئے۔مبارکہ نے سوا سال سے زیادہ عرصہ ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز کی مشقت اٹھائی۔اس دوران ہم نے گردوں کے عطیہ کے لیے درخواست دے دی تھی۔گردے مل جائیں تو ٹرانسپلانٹیشن کے بعد ڈائلے سز سے نجات مل جاتی ہے۔عام طور پر مطلوبہ گردوں کے ملنے میں کئی برس گزر جاتے ہیں لیکن خدا کے فضل سے مبارکہ کے لیے سوا سال کے اندر ہی اس کا انتظام ہو گیا۔ لیکن یہ انتظام بس خوشی کی ایک خبر جیسا ہی تھا۔ ایک طرف ڈائلے سز والے ڈاکٹر کا کہنا تھا ایسا لگتا ہے کہ ناکارہ گردے کام کرنے لگ گئے ہیں۔ڈاکٹر نے اپنی تسلی کے لیے مختلف قسم کے ٹیسٹ شروع کرائے۔ دوسری طرف فروری ۲۰۱۱ء میں فرینکفرٹ کے ڈونر ادارہ کی جانب سے فون آ گیا کہ آپ کے مطلوبہ گردے مل گئے ہیں۔میں نے انہیں ڈائلے سز والے کلینک کا نمبر دے دیا اور کہا کہ ان سے بات کر لیں۔وہاں سے ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ آپ اپریل ۲۰۱۱ء تک یہ گردے ریزرو رکھیں،لیکن ہو سکتا ہے ہمیں ان کی ضرورت پیش ہی نہ آئے۔اور یہی ہوا،خدا کی رحمتِ خاص نے معجزے جیسا ہی کچھ کر دیا۔ ٹرانسپلانٹیشن تو رہی ایک طرف ڈائلے سز کی بھی ضرورت نہ رہی۔سارے ٹیسٹ صحت میں بہتری کی نشان دہی کر رہے تھے۔سوا سال سے زیادہ عرصہ ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز پر رہنے کے بعد مبارکہ کو ڈائلےسز سے نجات مل گئی۔ الحمد للہ،ثم الحمد للہ۔ ۱۱ فروری ۲۰۱۲ء کو ڈائلے سز کے بغیر ایک سال مکمل ہو گیا ہے ،بغیر ڈائلے سز کے سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے۔صرف دواؤں سے ہی زندگی کا سفر جاری و ساری ہے۔۲۰۱۲ء کا آغاز اس خوشخبری کو مستحکم کرتا ہوا آیا۔

میری اپنی صحت کے مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ڈاکٹر ایک بار پھر انجیو گرافی وانجیو پلاسٹی کے لیے کہہ رہے ہیں۔میرے لیے اب لمبا سفر کرنا آسان نہیں رہا۔لیکن سال ۲۰۱۲ء میں ایک ایسا با ضابطہ دعوت نامہ ملا کہ اپنے بعض ادبی حالات و واقعات کے باعث اسے قبول کرنا ضروری ہو گیا۔دراصل دسمبر۲۰۱۱ء میں پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی کی طرف سے ای میل آئی کہ ایشیاٹک سوسائٹی کولکاتا کی طرف سے جلد آپ کو مدعو کیا جائے گا۔آپ نے ان کے فیض سیمینار میں شرکت کرنی ہے۔میں نے فوراََ انہیں ای میل بھیجی کہ میں جتنی بچت کر سکتا ہوں وہ جدید ادب کی اشاعت پر لگا دیتا ہوں۔اس لیے میرے پاس سفر کرنے کے لیے ائر ٹکٹ کی گنجائش نہیں ہے۔پروفیسر شہناز نبی کی طرف سے پھر ای میل آئی کہ آپ اطمینان کریں جب آپ کو مدعو کرا رہی ہوں تو کرایے کی ادائیگی بھی باضابطہ طور پر ہو جائے گی۔میں نے لکھا کہ ٹھیک ہے جب ائر ٹکٹ کی سہولت مل رہی ہے تو پھر انشاء اللہ ضرور شرکت کروں گا۔بیماری کے بعض معاملات کے باوجود اپنی جان پر کھیل کر بھی شرکت کروں گا۔پروفیسر شہناز نبی کے ذریعے کولکاتا میں فیض سیمینار کے سلسلہ میں یہ متوقع دعوت نامہ ’’ہمارے کر دئیے اونچے منارے‘‘ کا اعلان اور میری زندگی کا ایک یاد گار سفر بن جائے گا،اس کا مجھے اس حد تک اندازہ نہیں تھا۔

۳؍ جنوری ۲۰۱۲ء کی تاریخ تھی جب مجھے ایشیاٹک سوسائٹی کولکاتا کے جنرل سیکریٹری پروفیسر میہیر کمار چکرورتی کی طرف سے ای میل ملی کہ سوسائٹی کی جانب سے۲۰۔۲۱ مارچ کو فیض سیمینار منعقد کیا جا رہا ہے،اس سلسلہ میں مجھے مدعو کیا گیا تھا۔پروفیسر شہناز نبی کی یقین دہانی کے مطابق چونکہ ائر ٹکٹ کی سہولت موجود تھی ،اس لیے میں نے بخوشی شرکت کی حامی بھر لی۔ کولکاتا میرے لیے کئی پہلوؤں اور کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔اس لیے اس شہر سے آنے والا یہ دعوت نامہ میرے لیے ’’سفر وسیلۂ ظفر‘‘ کا پیغام تھا۔ انٹرنیٹ سے انڈیا کے ویزہ فارم کے حصول میں دقت پیش آ رہی تھی،جیسے تیسے یہ شکایت دور ہوئی،ویزہ فارم پُر کیا اور ۱۲جنوری کو فرینکفرٹ میں قائم انڈین قونصلیٹ پہنچا۔وہاں فائنل صورت یہ سامنے آئی کہ چونکہ میں جرمن شہریت کے باوجود پاکستانی اوریجن کا ہوں،اس لیے یہ فارم انکوائری کے لیے انڈیا جائیں گے اور انکوائری کی با ضابطہ کاروائی میں چار سے چھ مہینے لگ جائیں گے ۔میں نے کہا مجھے وسط مارچ تک ویزہ مطلوب ہے وگرنہ میرے لیے جانا بے معنی ہو جائے گا۔سو ویزہ فارم کے کاغذات واپس لیے اور اس اطمینان کے ساتھ گھر آ گیا کہ نہ جانے میں ہی کوئی بہتری ہو گی۔واپس آ کر پروفیسر میہیر کمار چکرورتی کو ایک ای میل کے ذریعے صورت حال سے آگاہ کر دیا۔ان کی طرف سے رسمی افسوس کی ای میل ملی اور بات آئی گئی ہو گئی۔میں نے اس ساری صورت حال سے کینیڈا میں اپنے دوست عبداللہ جاوید کو آگاہ رکھا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس میں بہتری ہی ہے۔انڈیا میں اردو کے دونوں بڑے آپ سے ناخوش ہیں،ایسی حالت میں آپ کا نہ جانا ہی اچھا ہے۔تب میں نے کہا تھا کہ نہیں ایسی صورت میں تو میں پھر ضرور جانا چاہوں گا۔میں تو صرف خدا کی طرف سے بھلے اور برے کے کسی بھی فیصلے پر خوش ہوں۔کسی بندے کی طرف سے کہیں کوئی برا سوچنے یا کرنے والی بات ہے تو پھر میں ضرور وہاں جانا چاہوں گا۔ تاکہ دیکھوں کہ جب خدا اچھا کرنا چاہے تو کوئی بندہ اسے کس حد تک روک سکتا ہے۔ یہ بات بھی آئی گئی ہو گئی۔

۲۵ جنوری کو پروفیسر میہیر کمار چکرورتی کی طرف سے اچانک ایک ای میل آ گئی۔اس میل سے اندازہ ہوا کہ ایشیاٹک سوسائٹی کی جانب سے میرے ویزہ کے لیے متعلقہ حکام سے درخواست کی گئی تھی اور اس کے نتیجہ میں مجھے فرینکفرٹ میں انڈین قونصلیٹ کے پنکج ترپاٹھی سے رابطہ کے لیے کہا گیا تھا۔ پنکج ترپاٹھی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ معمول کے مطابق ویزہ فارم جمع کرا دیں۔ہم ضابطہ کے مطابق آپ کے کاغذات بھیج دیں گے۔ مارچ کے وسط تک کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو ہم قونصل جنرل کی طرف سے خصوصی ویزہ دلا دیں گے۔چنانچہ میں نے کاغذات جمع کرا دئیے۔یہاں ویزہ فیس جمع کراتے ہوئے ایک اور مشکل کا سامنا تھا۔عام لوگوں کے لیے ویزہ فیس ۶۷ یورو تھی (یہ اب ۵۰ یورو کر دی گئی ہے)۔پاکستانی اوریجن والوں کے لیے مزید۲۷ یورو دینا لازم تھے اور کانفرنس ویزہ کے لیے مزید جرمانہ تھا۔۶۷ یورو ویزہ فیس کی جگہ مجھے ۱۳۷ یورو ادا کرنا پڑے۔میں نے اپنی روانگی کی تاریخ ۱۵ مارچ لکھی تھی،تاہم ٹکٹ ۱۶ مارچ کی بک کرائی۔ ۱۵ مارچ کو شام چار بجے مجھے ویزہ ملا۔عام طور پر ویزہ چھ مہینے کے لیے دیا جاتا ہے،لیکن چونکہ مجھے خصوصی ویزہ ملا تھا اس لیے اس کی میعاد پندرہ دن کی تھی۔۱۵ مارچ سے ۲۹ مارچ تک۔میں نے اس سہولت کو اپنے لیے مزید آسان کر لیا ہوا تھا۔روانگی ۱۵ مارچ کی بجائے احتیاطاََ ۱۶ مارچ کو اور واپسی مزید احتیاط کے ساتھ ۲۹ مارچ کی بجائے ۲۸ مارچ کو۔

اسی رات میں نے کولکاتا میں ایشیاٹک سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری کو ویزہ ملنے کی خوشخبری ای میل سے بھیجی۔۱۶ مارچ کو میں اپنی ڈیوٹی سے گھر واپس آیا تو سارے بچے مجھے خدا حافظ کہنے کے لیے گھر پر جمع تھے۔رات ساڑھے نو بجے ائر انڈیا کی فلائٹ سے جانا تھا۔سو بروقت ائر پورٹ پہنچے اور معمول کی کاروائی سے گزرتے ہوئے جہاز میں سوار ہو گیا۔طارق اور عادل مجھے ائر پورٹ تک چھوڑنے ساتھ آئے تھے۔ ۱۷ مارچ کو دہلی کے انٹرنیشنل ائر پورٹ پہنچا۔وہاں سے ضابطہ کی کاروائی سے گزرنے کے بعد اندرون ملک کی پروازوں والے ائر پورٹ جانا تھا۔دہلی سے کولکاتا کے لیے میری سیٹ انڈی گو نامی ایک ہوائی کمپنی میں بک تھی۔اگلی پرواز کے لیے ابھی کافی وقت تھا سو ایک ریستوران پر دوپہر کا کھانا کھایا۔لچھے دے پراٹھے اور دال مکھنی۔شوگر کے مریض کی بد پرہیزی کی انتہا۔بہر حال شام تک کولکاتا پہنچ گیا۔ وہاں ائر پورٹ پر روزنامہ عکاس کے چیف ایڈیٹر کریم رضا مونگیری مجھے لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔وہاں سے سیدھے ان کے گھر پہنچے۔رستے میں انہوں نے اپنا موبائل فون عنایت کیا کہ جرمنی میں اطلاع کر دیں کہ آپ خیریت سے کولکاتا پہنچ گئے ہیں۔سو اسی وقت مبارکہ سے بات ہو گئی،خیریت سے سفر طے ہو جانے کی خبر سن کر وہاں بھی اطمینان ہو گیا اور مجھے بھی تسلی ہو گئی ۔

کریم رضا مونگیری کے گھر پہنچے تو وہاں پہنچتے ہی کولکاتا کے اپنے خاص احباب کو فون کر کے اپنے آنے کی اطلاع دی۔ پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی،اور اردو دوست والے خورشید اقبال دونوں سے ملاقات کا طے کیا۔ اسی دوران کریم رضا مونگیری کی بیٹی ثنا اور داماد کاشف بھی آ گئے۔ان کا بیٹا عمیر بہت پیارا تھا اور اسے دیکھتے ہیں مجھے اپنے چھوٹے پوتے یاد آنے لگے۔ان سارے بچوں کے ساتھ کافی دیر گپ شپ رہی۔پھر یہ اپنے گھر چلے گئے۔مجھے بھی تھکاوٹ کا احساس ہونے لگا تھا۔گزشتہ دو روز میں دن بھر کی ڈیوٹی کے بعد ساری رات کا سفر اور پھر اگلا دن بھی کولکاتا پہنچنے تک مسافرت کی حالت میں گزرا تھا۔چنانچہ رات کا کھانا کھا کر اور بچوں کے جانے کے بعد جلد سو گیا۔۱۸ مارچ کو بروقت آنکھ کھل گئی۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر فرض فریضے ادا کیے۔کریم رضا مونگیری بیدار ہوئے تو ان کے ساتھ گپ شپ کے ساتھ بعض دوستوں سے رابطہ شروع کیا۔ادبی رسالہ ’’دستک‘‘ کے مدیر عنبر شمیم جوَ اب روزنامہ آبشار کا سارا کام سنبھالے ہوئے ہیں،ان سے رابطہ ہوا اور ان کے دفتر میں ملنا طے ہوا۔وہیں پہنچنے کے لیے نوشاد مومن مدیر مژگاں کو بھی کہہ دیا۔ناشتہ اطمینان سے کیا اور پھر کریم رضا مونگیری کے ساتھ دفتر آبشار میں پہنچ گئے۔ عنبر شمیم سے زندگی میں پہلی بار روبرو ملاقات ہو رہی تھی لیکن کہیں کوئی تکلف آڑے نہیں آیا،ہم برسوں کے شناسا دوستوں کی طرح بات کر رہے تھے۔نوشاد مومن پہنچے تو محفل کی رونق مزید بڑھ گئی۔میں نے انہیں علامہ اقبال کے اس شعر کی طرف توجہ دلائی جس میں انہوں نے مومن کے بارے میں دو مختلف آراء کو بیان کیا ہے۔

کہتے ہیں فرشتے کہ دلآویز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

کسی نے اس شعر کو دوسرے رنگ میں بھی بیان کر رکھا ہے۔

کہنا ہے فرشتوں کا کم آمیز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے بہت تیز ہے مومن

نوشاد مومن اپنی ادبی سرگرمیوں میں خاصے تیز ہیں۔ان کے ساتھ جوگندر پال جی کا افسانہ’’ سانس سمندر‘‘ اپنے افسانوی مجموعہ میں شامل کر لینے والے سلیم خان ہمراز کے دلیرانہ سرقہ کا ذکر ہوا۔نوشاد مومن بتانے لگے کہ وہ اتنے شرمندہ ہیں کہ کسی سے رابطہ میں ہی نہیں آرہے۔اس سرقہ کی نشان دہی جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۷ میں ارشد کمال کے ایک خط میں کی جا چکی ہے۔اس دوران شہناز نبی کا فون آ گیا،وہ مجھے لینے آ رہی تھیں۔کریم رضا مونگیری نے انہیں ملنے کا مقام بتایا اور پھر ہم آبشار کے دفتر سے نکل کر اس مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔وہاں ڈاکٹر شہناز نبی موجود تھیں،میں کریم رضا مونگیری کی گاڑی سے شہناز نبی کی گاڑی میں منتقل ہو گیا۔

پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی کے ساتھ میرا اولین تعارف ان کی اُن نظموں کے ذریعے ہوا تھا جو ’’اوراق‘‘ لاہور میں شائع ہوا کرتی تھیں۔یہ نوے کی دہائی کا اوائل تھا۔ہماری ادبی زندگی کا بھی ابتدائی دور ہی چل رہا تھا۔مجھے علم نہیں تھا کہ شہناز نبی کون ہیں اور کہاں رہتی ہیں،تاہم ان کی نظموں میں ایسی انوکھی چمک ہوا کرتی تھی کہ میں ’’اوراق‘‘ کے ’’آپس کی باتیں‘‘ سیکشن میں ہمیشہ ان نظموں کی تعریف کیا کرتا تھا۔اس سلسلہ میں ایک لطیفہ اس وقت ظاہر ہوا جب ’’اوراق‘‘ کے ایک شمارہ میں میری بہت اچھی دوست فرحت نواز کا خط شائع ہوا۔انہوں نے اپنے خط میں کچھ اس قسم کی بات لکھی تھی کہ حیدر قریشی کو اس بار بھی شہناز نبی کی نظمیں سب سے زیادہ پسند آئیں گی،لیکن وہ ان نظموں کا نام کیسے لکھیں گے،کیونکہ اس بار تو شہناز نبی کی کوئی نظم چھپی ہی نہیں۔۔۔میں نے اس خط کی لطیف برہمی کا مزہ لیا لیکن اس کے نتیجہ میں غیر شعوری طور پر جیسے شہناز نبی کے ساتھ ایک تعلق سا بن گیا۔پھر زمانے گزر گئے۔جرمنی آنے کے بعد انٹرنیٹ سے وابستہ ہونے کے بعد اردو دوست ڈاٹ کام والے اپنے خورشید اقبال سے شہناز نبی کا ذکر سنا تو میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کہ شہناز نبی کولکاتا میں رہتی ہیں؟۔پھر میں نے اُن سے ہی شہناز نبی کا فون نمبر حاصل کیا۔اور فوراََ انہیں فون کر دیا۔ایک عجیب سے جوش و خروش کی کیفیت کو قابو کرنے کی ناکام کوشش کے ساتھ میں ان سے بات کر رہا تھا اور وہ جیسے پوری طرح شانت ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میری باتوں کا جواب دے رہی تھیں۔یہ غالباً ۲۰۰۴ء کی بات ہے۔پھر ہم میسنجر پربھی چاٹ کرتے رہے۔فون پر بھی رابطہ رہا اور ای میل سے تو مستقل رابطہ ہو گیا۔ ۱۹۸۰ کے زمانے کا ابتدائی ادبی رابطہ جو ’’اوراق‘‘ سے غائبانہ طور پر شروع ہوا تھا،وہ اب اس مقام پر آ گیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے روبرو تھے ۔اور ایک دوسرے کے روبرو ہوتے ہوئے بھی بالکل خواب جیسے۔۔۔۔ پتہ نہیں کب آنکھ کھل جائے اور صرف اوراق میں چھپی نظمیں اور خطوط ہی رہ جائیں۔لیکن نہیں،بے شک یہ سب خواب جیسا تھا لیکن تعبیر سمیت خواب جیسا۔بہر حال ہم پہلے ایک ریستوران میں پہنچے۔وہاں دوپہر کا کھانا کھایا۔وہاں سے کولکاتا کی تاریخی عمارت وکٹوریہ میموریل ہال دیکھنے گئے۔اس عمارت کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو جہاں گراسی میدان ہونا چاہیے تھا،وہاں پتھر پھیلائے ہوئے تھے، وہاں چلنا مشکل ہو رہا تھا۔میں نے مشکل کا اظہار کرتے ہوئے شہناز نبی کی طرف سے خود ہی یہ شعر پڑھ دیا:

 

انہیں پتھروں پہ چل کر، اگر آ سکو تو آؤ

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

اس عمارت کو مختلف اطراف سے دیکھا اور ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر مجھے علامہ اقبال کا مرثیہ یاد آنے لگا۔یہ مرثیہ باقیات اقبال میں شامل ہے۔اس کا صرف ڈیڑھ شعر ہی بروقت یاد آ سکا۔ایک مصرعہ

’’اے ہند تیرے سر سے اُٹھا سایۂ خدا‘‘

سن کر پروفیسر شہناز نبی حیرت کا اظہار کرنے لگیں کہ علامہ نے ایسا لکھا؟۔ دوسرا شعر سنانے سے پہلے میں نے وضاحتاََ بتایا کہ ملکہ وکٹوریہ کی وفات عید سے اگلے روز ہوئی تھی،علامہ اقبال نے اس بات کو یوں لطیف پیرائے میں بیان کیا۔

آئی اِدھر نشاط،اِدھر غم بھی آ گیا

کل عید تھی تو آج محرم بھی آ گیا

وکٹوریہ میموریل ہال کی سیاحت سے نکلنے لگے تو اب شہناز نبی نے میرے حصے کا شعر پڑھ دیا:

کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

میموریل ہال سے نکلے تو رابندر ناتھ بھون میں ٹیگور کا مجسمہ دیکھنے گئے۔غالباً اسی مجسمہ کے حوالے سے لطیفہ مشہور ہے کہ جب سرکاری طور پر اس مجسمہ کی منظوری دی گئی اور ٹیگور کو بتایا گیا کہ ان کے مجسمہ کے بنانے پر لاکھ روپے سے اوپر لاگت آئے گی تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ یہ رقم مجھے دے دیں، میں خود مجسمہ ایستادہ کرنے کی جگہ پر کھڑا ہو جایا کروں گا۔رابندر ناتھ بھون کے ساتھ ہی ایک نکڑ پر بنگال کے سٹریٹ تھیٹر کی جھلک دیکھنے کو مل گئی۔گلی کے موڑ پر چند فنکاروں نے ایک پردا تان کر اسٹیج کی بیک گراؤنڈ بنا لی تھی اور سڑک کے اسٹیج پر ہی اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے۔دیکھنے والوں کا مجمع بڑا نہیں تھا لیکن پھر بھی لوگ اس تھیٹر کو دیکھ رہے تھے۔یہاں سے واپسی پر میں نے اپنی ساری کتابوں کا سیٹ پروفیسر شہناز نبی کے سپرد کیا،یہ ایشیاٹک سوسائٹی کی لائبریری کے لیے میری طرف سے تحفہ تھا۔شہناز نبی نے اگلے دن کتابیں وہاں پہنچا دی تھیں اور مجھے وہاں سے باضابطہ رسید مل گئی تھی۔پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی کے ساتھ آج آدھے دن کی پوری ملاقات بھرپور رہی۔ہم نے دنیا جہان کے موضوعات پر باتیں کر ڈالیں۔شہناز نبی اس وقت نہ صرف کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ ہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں سے اقبال چئیر کی پروفیسر بھی ہیں۔ یہ وہی سیٹ ہے جو فیض احمد فیض کو ملنا تھی،لیکن پھر وہ لوٹس کے مدیر بن کر بیروت چلے گئے۔ان کے بعد ڈاکٹر مظفر حنفی اس سیٹ پر پروفیسر رہے۔اب کچھ عرصہ سے شعبہ اردو کی سربراہی کے ساتھ اقبال چئیر کی پروفیسر شپ کا اعزاز بھی پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی کو حاصل ہے۔

شام کو کریم رضا مونگیری مجھے لینے کے لیے آ گئے۔ان کے ساتھ پہلے ثنا اور کاشف کے ہاں پہنچے۔وہاں سے ’’ہوڑہ‘‘ میں قائم مکمل طور پر مغربی طرز کی مارکیٹ دیکھنے گئے۔کلکتہ میں فرینکفرٹ کا نظارہ کر لیا،مارکیٹ کا مشرق و مغرب کا ایک فرق البتہ واضح تھا۔مغربی مارکیٹوں کے بر عکس اس مارکیٹ میں رش زیادہ تھا اور خریداری کم تھی۔زیادہ تر لوگ صرف رونق میلہ دیکھنے آرہے تھے۔کچھ لوگ گرمی کے باعث ایک طرف ائر کنڈیشنڈ کی سہولت کا لطف رہے تھے تو دوسری طرف آنکھیں سینکنے کا کام بھی لے رہے تھے۔فیملی کے ساتھ آنے والے افراد بھی تھے تو بعض نوجوانوں نے اسے میٹنگ پوائنٹ بھی بنا لیا تھا۔اس مارکیٹ کو دیکھنا اچھا لگا۔کریم رضا مونگیری نے اپنی ایک ریزرو  سِم مجھے عنایت کر دی،جس سے میرے لیے اندرون ہند اور جرمنی میں رابطہ کرنا بہت آسان ہو گیا۔

۱۹ مارچ سے۲۳ مارچ کی صبح تک میں باضابطہ طور پر ایشیاٹک سوسائٹی کا مہمان تھا۔سو ۱۹ مارچ کو ایشیاٹک سوسائٹی کے آفس میں پہنچے۔وہاں میہیر کمار چکرورتی سے ملاقات ہوئی۔سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے ان سے مراسلت کر چکا تھا۔کافی کے کپ پریہ ایک رسمی ملاقات تھی۔یہیں ڈاکٹر عقیل احمد عقیل سے پہلی ملاقات ہوئی۔انہوں نے سیمینار کا پروگرام عنایت کیا۔اس میں افتتاحی خطاب کے لیے شمس الرحمن فاروقی کا نام درج تھا۔خوشی ہوئی کہ جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۸ کی اشاعت کے بعد ان کے ساتھ ملاقات ہو سکے گی۔ سوسائٹی کے آفس کے جملہ امور کی دیکھ بھال کرنے والے دلیپ رائے سے ملے۔ انہوں نے مجھے گیسٹ ہاؤس بھیجنے کا انتظام کر دیا۔گیسٹ ہاؤس کا کمرہ نمبر ۲۰۲ مل گیا۔دن کا کچھ حصہ آرام کرتے ہوئے گزارا،کچھ وقت گھر پر اور دوست احباب کو فون کرتے ہوئے گزر گیا۔اسی دوران شام کے وقت ایشیاٹک سوسائٹی کے آفس سے دلیپ رائے کا فون آ گیا۔وہ بتا رہے تھے کہ کل سیمینار کی افتتاحی تقریر مجھے کرنا ہو گی۔یہ اطلاع میرے لیے دوہری حیرانی و پریشانی کا باعث تھی۔ایک تو یہ کہ ابھی چند گھنٹے پہلے تو شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام پڑھ کر آ رہا تھا کہ وہ افتتاحی خطاب کریں گے،پھر یکایک یہ کیا ماجرا ہو گیا؟دوسرے یہ کہ یہاں میرے پاس نہ صرف کمپیوٹر کی سہولت نہیں تھی،جس کے بغیر میرے لیے اب کچھ لکھنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے بلکہ میرے پاس کاغذ قلم بھی موجود نہیں تھے۔شام گہری ہوئی تو اللہ نے کرم کیا،کریم رضا مجھے ملنے آ گئے۔انہیں اپنی پریشانی سے آگاہ کیا تو انہوں نے اسی وقت اپنا قلم عنایت کر دیا اور اخبار کے ایک کارکن کو بھیج کر کاغذ بھی مہیا کر دیا۔میں نے سیمینار کے دوسرے دن اپنا مضمون ’’فیض صدی کی ایک جھلک‘‘ پیش کرنا تھا۔اسی کے بعض حصوں سے استفادہ کر کے رات ہی رات میں اپنی افتتاحی تقریر کا مضمون تیار کر لیا اور قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ایک طویل عرصہ کے بعد ہاتھ سے لکھنا پڑا تو ایسے لگا جیسے پرائمری کلاس کے زمانے کی اپنی ہینڈ رائٹنگ دیکھ رہا ہوں۔

۲۰ مارچ کو سیمینار ہال میں بروقت پہنچ گئے۔وہاں میں نے پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی سے پوچھا کہ فاروقی صاحب کیوں نہیں آرہے؟اتنا جواب ملا کہ الہٰ آباد سے تو دہلی آ چکے تھے لیکن اب اطلاع ملی ہے ان کی طبیعت ناساز ہے سو کولکاتا نہیں آ سکیں گے۔ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سیمینار کا دیدہ زیب بروشر تقسیم ہونے لگا۔اسے دیکھا تو افتتاحی تقریر کے لیے میرا نام لکھا ہوا تھا۔حیرانی ظاہر کی تو جواب ملا کہ یہ بروشر آج رات میں ہی شائع کرایا گیا ہے۔ اس پر مزید حیرانی ہوئی لیکن یہاں ہر حیرانی کا جواب نہیں تھا،سو چپ ہو رہا۔افتتاحی پروگرام میں پہلے خاص مہمانوں کو ڈائس پر بلایا گیا،انہیں پھول پیش کیے گئے۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل نے کلامِ فیض سے افتتاحی گیت پیش کیا۔جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے پروفیسر میہیر کمار نے ویلکم ایڈریس کیا۔سیمینار کے مرکزی خیال کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی نے تعارف پیش کیا۔ان کے بعد مجھے افتتاحی تقریر کے لیے بلایا گیا۔میرے بعد علی گڑھ سے آئے قاضی جمال حسین نے کلیدی مقالہ پیش کیا۔ان کے بعد ایشیاٹک سوسائٹی کے صدر پروفیسر بپلب سین گپتا نے صدارتی تقریر کی۔انہوں نے اس سیمینار کے انعقاد کا بڑا کریڈٹ ڈاکٹر شہناز نبی کو دیا اور توقع ظاہر کی کہ یہ سیمینار فیض احمد فیض کے حوالے سے اہمیت کا حامل ثابت ہوگا۔ آخر میں ووٹ آف تھینکس کی رسمی کاروائی ہوئی اور افتتاحی سیشن اختتام پذیر ہوا۔

پہلے اکیڈمک سیشن میں ابوذر ہاشمی،پروفیسر ندیم احمد اور ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے کے مقالات اہمیت کے حامل رہے۔ان کے بعد دوپہر کے کھانے کا وقفہ دیا گیا۔اسی دوران دیکھا کہ خورشید اقبال اور بلند اقبال دونوں دوست آئے ہوئے ہیں۔ان سے ملاقات ہوئی اور کم سے کم وقت میں جتنا جی بھر کے ملاقات ہو سکتی تھی وہ ہوتی رہی۔خورشید اقبال ۲۴ پرگنہ میں بیٹھ کر اردو دوست ڈاٹ کام جیسی عمدہ ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔میری ذاتی ویب سائٹ بھی انہیں کی ہنر مندی کا نتیجہ ہے۔ان کے ساتھ طے ہوا کہ ہم سیمینار کے بعد گیسٹ ہاؤس میں میرے روم میں ملیں گے۔ فہیم انور ملنے آئے،یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی اور نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ ملتی رہی اور تصویریں بناتی رہی۔

کھانے کے وقفہ کے بعد سیمینار کا دوسرا سیشن شروع ہوا۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل، پروفیسر وہاج الدین،پروفیسر خالد سعید کے مقالات اور صاحب صدر پروفیسر حسین الحق کی تقریر نے اس سیشن کو گرما دیا ۔ تیسرے سیشن کی صدارت وہاج الدین علوی نے کی۔ان کی صدارتی تقریر کے علاوہ حسین الحق اور ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے نے بھی فیض کے حوالے سے بڑی اچھی اچھی باتیں کیں لیکن پروفیسر مظہر مہدی کا انگریزی کا مقالہ دوہرے طور پر پسند آیا۔ایک تو انہوں نے فیض کے ہاں ارضِ وطن کے ساتھ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ارضِ وطن کے رہنے والوں کے لیے محبت کے زاویے کو ابھارا۔اپنے نفسِ مضمون کے لحاظ سے انہوں نے ایک نازک مگر اہم نکتہ کو ابھارا تھا جس پر ابھی مزید کام کرنے کی گنجائش ہے۔مظہر مہدی کا مقصد بھی یہی تھا کہ فیض کے مطالعہ میں روایتی باتوں سے ہٹ کر کسی نئے زاویے سے نظر ڈالی جائے۔

دوسری دلچسپ بات جو مجھے شدت سے محسوس ہوئی۔ایک تو مظہر مہدی چہرے مہرے سے دیو آنند سے ملتے جلتے لگتے ہیں،دوسرے ان کے بولنے کا بلکہ عام بات کرنے کا انداز بھی بار بار دیو آنند کی یاد دلاتا ہے۔اس خوشگوار احساس کے ساتھ یہ سیشن اختتام پذیر ہوا تو میں نے بلا تکلف انہیں اپنے تاثر سے آگاہ کر دیا، مظہر مہدی میرے دیو آنند اسٹائل والے انکشاف پر تھوڑا سا حیران ہوئے اور پھر مسکرا کر رہ گئے۔

سیمینار کے بعد خورشید اقبال کے ساتھ گیسٹ ہاؤس پہنچے۔وہاں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ کولکاتا کے ارد گرد رہنے والے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ میری ایک ملاقات کرانا چاہتے ہیں۔

اس کے لیے ۲۳ مارچ کی شام طے پا گئی۔وہاں دیر تک خورشید اقبال،بلند اقبال اورمحمد انتخاب عالم کے ساتھ گپ شپ ہوتی رہی۔

۲۱ مارچ کو سیمینار کا دوسرا دن تھا۔گیسٹ ہاؤس سے بروقت سیمینار ہال میں پہنچ گیا۔یہاں پھر ایک بری خبر سننے کو ملی۔علی احمد فاطمی اور علی جاوید جنہیں اس سیمینار میں آنا تھا۔ان میں سے علی احمد فاطمی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ واقعی گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکیں گے،جبکہ علی جاوید نے کل شام تک وعدہ کیا تھا کہ وہ ۲۱ مارچ کو سیمینار کے دوسرے دن لازماََ پہنچیں گے۔تھوڑی سی خوشی تھی کہ چلو فاروقی صاحب سے نہیں تو علی جاوید سے تو ملاقات ہوہی جائے گی۔ انہوں نے ۲۰ مارچ کی شام کو اپنا آنا کنفرم کیا تھالیکن ۲۱ مارچ کو ان کی طرف سے اطلاع آ گئی کہ ان کی فلائیٹ مس ہو گئی ہے۔ایسا ہی ہوا ہوگا۔چونکہ اتنے اہم شرکا غیر حاضر ہو گئے تھے اس لیے طے ہوا کہ ۲۱ مارچ کے تینوں سیشنز کو ایک سیشن میں مکمل کر لیا جائے اور دوسرے مرحلہ میں مشاعرہ کر لیا جائے۔چنانچہ قاضی جمال حسین کی صدارت میں یہ تھری ان ون سیشن شروع ہوا۔پروفیسر منصورعالم،پروفیسرایم فیروز،فاطمہ حسن اور حیدر قریشی کے مضامین کے بعد قاضی جمال حسین نے صدارتی تقریر کی۔ ڈاکٹر شہناز نبی نے تمام شرکاء اور حاضرین کاتہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔اس کے ساتھ ہی سیمینار اختتام پذیر ہوا۔

حیدر آباد دکن سے آئے ہوئے پروفیسر خالد سعیدکے ساتھ ابھی حاضرین کی صف میں ہی بیٹھا تھا،فاطمہ حسن بھی ساتھ تھیں۔ خالد سعید کہنے لگے کہ آج شام کو ہم گیسٹ ہاؤس میں ملیں گے اوراطمینان سے گفتگو ہو گی۔فاطمہ حسن سے بھی کہا کہ آج شام کو ہم تینوں مل کر بیٹھیں گے۔لیکن ابھی تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ مجھے کہنے لگے میری طبیعت خراب ہو رہی ہے،طبی امداد کے لیے کسی سے کہیں۔میں نے فوراََ شہناز نبی کو آگاہ کیا اور چند منٹ کے اندر ڈاکٹر خالد سعید کو طبی امداد کے لیے لے جانے کا انتظام ہو گیا۔بعد میں اللہ کے فضل سے وہ ٹھیک ہو گئے،تاہم سیمینار کے دوران ایسی صورت حال کا پیش آنا سب کے لیے فکر مندی کا باعث بن گیا۔میں نے میہیر کمار چکرورتی کو اس سلسلہ میں سب سے زیادہ پریشان ہوتے دیکھا۔بہر حال اس ساری پریشان کن صورت حال کے باوجود سیمینار خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔سیمینار کے بعد مشاعرہ کا اعلان کیا گیا۔ مشاعرہ کی صدارت فاطمہ حسن نے کی۔میں اس وجہ سے مشکل میں پڑ گیا کہ سیمینار کی بھاگم بھاگ میں مجھے اپنا کوئی شعر یاد نہیں آرہا تھا۔ڈائس چھوڑ  کرایشیاٹک سوسائٹی کی لائبریری کے شبیر احمدکو ڈھونڈتا پھرا،وہ ملے تو ان سے اپنی کتاب’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘مستعار مانگی۔انہوں نے میری مشکل آسان کر دی اور یوں میرے لیے اس اچانک مشاعرہ کو بھگتانے میں آسانی ہو گئی۔

مشاعرہ کے بعد ڈائس سے اترا تو بہت سارے دوست احباب کے ساتھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے بہت سارے طلبہ و طالبات مجھ سے ملنا چاہ رہے تھے۔کلکتہ کے شاعرحسن آتش تو جیسے آتشِ شوق کے ساتھ ملنے آئے ہوئے تھے۔ایک طرف طلبہ و طالبات آٹو گراف لینے اور تصویر بنوانے کے لیے گھیرے ہوئے تھے،دوسری طرف پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی دور سے کھڑی ڈانٹ کر بلا رہی تھیں کہ سارے مندوبین پہنچ گئے ہیں ،صرف آپ رہ گئے ہیں،جلدی آجائیں۔بہر حال پانچ چھ طلبہ و طالبات کو بمشکل آٹو گراف دے سکا،دو چار کے ساتھ تصاویربن سکیں اور پھر جانا پڑ گیا۔وہاں سارے مندوبین کی جنرل سکریٹری ایشیاٹک سوسائٹی سے ملاقات تھی۔وہ سب سے سیمینار کے بارے میں ان کے تاثرات معلوم کر رہے تھے۔ڈاکٹر خالد سعید کی علالت بھی موضوع گفتگو رہی۔اس ملاقات کے بعد ایشیاٹک سوسائٹی کا میوزیم دیکھنے گئے ۔ اسی دوران دلیپ رائے نے میرے ہوائی سفر کے جملہ اخراجات،ویزہ فیس سمیت ادا کر دئیے،لیکن یہ رقم انڈین روپوں میں تھی۔میں نے انہیں بتایا کہ مجھے یہ رقم یورو میں ہی چاہیے۔تنگ وقت کے باوجود ڈاکٹر عقیل احمد عقیل کی خصوصی توجہ سے دلیپ رائے نے ہمت سے کام لیا اور با ضابطہ طور پر رقم کی یورو میں تبدیلی کرا کے مجھے ادائیگی کر دی گئی۔میوزیم کی انچارج میتالی چٹر جی نے خاص طور کرم فرمایا، میں جو رقم کی وصولی کے چکر میں باقی ساتھیوں سے کچھ لیٹ ہو گیا تھا، انہوں نے مجھے خودلے جا کر میوزیم کے مخطوطات کے حصے کودیکھنے کا موقعہ دیا۔

کولکاتا کے حوالے سے ہماری درسی معلومات فورٹ ولیم کالج کی حد تک رہی ہے۔ایشیاٹک سوسائٹی کے بارے میں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ ادارہ ۱۷۸۴ء میں قائم کیا گیا تھا تو اپنی کم علمی کا افسوس ہوا۔پھر اس ادارہ کی ویب سائٹ سے لے کر وکی پیڈیا تک اس کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو افسوس میں شرمندگی بھی شامل ہو گئی۔لیکن اس سب کے باوجود میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ مجھے اس ادارہ نے نہ صرف باوقار طریقے سے بلایا،بلکہ میرے سفر کی راہ میں حائل ویزہ کے حصول کی رکاوٹوں کوبھی دور کیا اور مجھے نہایت عزت و احترام کے ساتھ اس سیمینار میں شریک کیا۔اس کے لیے میں پروفیسر میہیر کمار چکر ورتی،پروفیسر بپلب سین گپتا، اور ڈاکٹر شہناز نبی سب کا انتہائی شکر گزار ہوں۔ اسی ادارہ کے دلیپ رائے، میتالی چتر جی،شبیر احمد اور یہیں پر ملنے والے ڈاکٹر عقیل احمد عقیل سب کا شکریہ ادا کرنا واجب سمجھتا ہوں کہ جن کی رفاقت نے میرے لیے اس سیمینار میں شرکت کو مزید خوشگوار بنا دیا۔

۲۲ مارچ کو مجھے کریم رضا مونگیری اپنے گھر لے گئے۔وہاں کچھ دیر انٹرنیٹ پر کام کیا۔اپنی تقریر کو ان پیج فائل میں لکھ کر انٹرنیٹ کے دو فورمز پر ریلیز کیا۔ہوا یہ تھا کہ ایک اخبار نے افتتاحی تقریر کو خاصی کوریج دی،میرے لیے چار کالمی سرخی خوشی کا باعث تھی لیکن رپورٹنگ میں بہت سارا خلط ملط ہو گیا تھا۔نوجوان رپورٹر کی رپورٹنگ کے سقم میرے اپنے حوالے سے کنفیوژن پیدا کر سکتے تھے۔اب اخبار کی تردید کرنا یا کسی نوعیت کی وضاحت کرنا مناسب نہ تھا، کیونکہ جو کچھ ہوا تھا،اس میں بد نیتی کا کوئی دخل نہ تھا،اس کا حل مجھے یہی مناسب لگا کہ میں اپنی تقریر کا متن ہی جاری کر دوں۔تقریر کا متن جاری کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سارے دوست احباب انٹرنیٹ کے ذریعے میرے اس سفر میں ہم رکاب ہو گئے۔

شام کو مسلم انسٹی ٹیوٹ کولکاتا کی جانب سے ان کے لائبریری ہال میں فاطمہ حسن اور میرے ساتھ ایک استقبالیہ اور مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔صدارت میرے حصہ میں آئی،مہمانِ خصوصی فاطمہ حسن تھیں۔میرے ہاتھ سے ایک دو کتابوں کی رونمائی بھی کرائی گئی۔سلیمان خورشید نے بڑی محبت کے ساتھ فاطمہ اور میرے ادبی کام کے بارے میں بات کی،مسلم انسٹی ٹیوٹ کی جملہ خدمات کا ایک خاکہ سا بیان کیا۔پھر مشاعرہ ہوا۔مشاعرہ میں ہم دونوں مہمانوں کے علاوہ عنبر شمیم، ف۔س۔ اعجاز،فراغ روہوی،نوشاد مومن،احمد معراج،خواجہ احمد حسین،وقیع منظر،دمیق القادری،معراج احمد معراج،ارم انصاری،جمیل حیدر شاد،شمیم انجم وارثی،ڈاکٹر عقیل احمد عقیل،کوثر پروین،نیر اعظمی،حلیم صابر،انجم عظیم آبادی نے اپنے کلام سے نوازا۔ماہیا نگار دوستوں نے اپنے دوسرے کلام کے ساتھ چند ماہیے بھی پیش کیے۔نعیم انیس نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دئیے۔یہاں مجھے دو خوشگوار تجربات سے دوچار ہونا پڑا۔ نعیم انیس نے یونیورسٹی کے زمانے میں میرے پہلے شعری مجموعہ ’’سلگتے خواب‘‘ پر ایک مضمون لکھا تھا،انہوں نے اسے اپنے مضامین کے مجموعہ میں بھی شامل رکھا تھا۔مضامین کا مجموعہ ’’اظہار‘‘ ۱۹۹۹ء میں چھپ گیا تھا۔اور آج جب میں مسلم انسٹی ٹیوٹ میں پہنچا تو نعیم انیس نے مجھے اپنی کتاب کا تحفہ عنایت کیا۔دوسرا تجربہ یہ ہوا کہ تقریب کے حوالے سے ایک بینر آویزاں کیا ہوا تھا جس پر دائیں اور بائیں جانب فاطمہ حسن کی اور میری تصویریں بنائی گئی تھیں۔میں ایسی خوشیوں کو کسی مصنوعی شانِ استغنا کے اظہار کی خاطر دبا لینے کا قائل نہیں ہوں۔اس طرح بینر پر اپنی تصویر دیکھ کر بچوں جیسی خوشی ہوئی۔

میں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کلکتہ شہر سے میرا ادبی و قلبی تعلق بہت پرانا ہے۔پہلا حوالہ شہناز نبی کا بنتا ہے،پھر عنبر شمیم کے دستک میں مجھے چھپنے کا موقعہ ملتا رہا۔وہاں ایک دو ایسی چیزیں بھی چھپیں جو بعد میں کسی ہنگامہ خیز بحث میں بطور حوالہ درج ہوئیں۔ف۔س۔اعجاز کے رسالہ میں گاہے بگاہے چھپ جاتا ہوں لیکن ’’انشاء‘‘ میں میرے وہ مباحث خاص اہمیت کے حامل رہے جو ماہیا کے بانی کی تحقیق میں کلیدی نوعیت کے مضمون شمار ہوئے۔اردو ماہیا کے بانی ہمت رائے شرما۔۔۔میری کتاب چھپنے سے پہلے ’’انشا‘‘ میں شائع ہوا۔اسی طرح نوشاد مومن کے مژگاں میں بھی مجھے ماہیا کے خد و خال واضح کرنے کے لیے ایک اہم مضمون لکھنے کی توفیق ملی۔کلکتہ وہ شہر ہے جہاں خالصتاََ ماہیا مشاعرہ بھی برپا ہوا ،عبدالرزاق ملیح آبادی اور قیصر شمیم نے اس مشاعرہ کی صدارت کی تھی۔فراغ روہوی،نسیم فائق ،شمیم انجم وارثی،اور متعدد دیگر اچھے شعرا نے ماہیا نگاری میں اپنے امکانات کو آزمایا اور ماہیے کے دامن کو وسیع کرنے میں قابلِ ذکر کام کیا۔یہ وہی سال ہے جب پاکستان میں سرگودھا میں ایک ماہیا مشاعرہ ہوا تھا اور ڈاکٹر وزیر آغا نے اس کی صدارت کی تھی۔اردو دوست ڈاٹ کام والے خورشید اقبال کو بھی کولکاتا میں ہی شمار کیا جانا چاہیے۔ان کے ساتھ میرا تعلق کئی جہات پر پھیلا ہوا ہے۔خورشید اقبال کے ذریعے مجھے کلکتہ سے انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہونے کا موقعہ ملا۔یہاں کے ماہیا نگاروں سے اور دوسرے شعرا و ادبا سے میرا رابطہ کسی نہ کسی رنگ میں بنا رہا ہے۔اب نعیم انیس سے مل کر جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی رابطے کے بغیر بھی ادبی محبت کرنے والے دوست موجود ہیں۔ میں یہاں ایشیاٹک سوسائٹی کی جانب سے بلایا گیا ہوں لیکن مجھے خوشی ہے کہ اس بہانے مجھے یہاں کے دوسرے دوستوں سے ملنے کا موقعہ بھی مل رہا ہے۔اسے میں اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں۔

اس پروگرام کے دوران ہی کینیڈا سے عبداللہ جاوید اور شہناز خانم عابدی کا فون آ گیا لیکن مختصر بات کر کے فون بند کرنا پڑا۔کل ۲۳ مارچ کو کامٹی،ناگپور سے ڈاکٹر صبیحہ خورشید مجھے ملنے کے لیے اپنے بڑے بھائی شاہد یوسفی کے ساتھ لگ بھگ چوبیس گھنٹے کا سفر کر کے کولکاتا پہنچ رہی ہیں۔اس سلسلہ میں کریم رضا مونگیری نے ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔انہوں نے کہا کہ میں علی الصبح انہیں اسٹیشن سے لے کر گھر کے قریب کسی ہوٹل میں ٹھہرانے کا انتظام کروں گا اور جب وہ تازہ دم ہو جائیں گے تو انہیں لے کر یونیورسٹی میں پہنچ جاؤں گا۔کریم رضا مونگیری اس کے بعد گھر چلے گئے اور ہماری بھی گیسٹ ہاؤس میں واپسی ہوئی۔فاطمہ حسن نے کل علیٰ الصبح دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا،اس لیے انہوں نے بھی اپنا کھانا میرے کمرے میں منگا لیا۔کھانا کھانے کے دوران ہی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر مظہر مہدی بھی میرے کمرے میں آ گئے۔دیر تک گپ شپ ہوتی رہی۔فاطمہ حسن نے چونکہ کل صبح سویرے ہی چلے جانا تھا ،اس لیے وہ سونے چلی گئیں اور ان کے جانے کے بعد بھی میری کافی دیر تک مظہر مہدی کے ساتھ مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔اور گفتگو کا مزہ بھی آتا رہا۔

۲۳مارچ کو مجھے گیسٹ ہاؤس چھوڑ دینا تھا۔سو میں سارا سامان پیک کر کے تیار ہو کر بیٹھ گیا۔ساڑھے نو بجے ڈاکٹر شہناز نبی مجھے لینے کے لیے آ گئیں۔رستے میں کہیں سے ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے کو بھی ساتھ لیااور ہم کلکتہ یونیورسٹی پہنچے۔یہاں شعبہ اردو نے دو روزہ ٹیگور سیمینار کا اہتمام کیا ہوا تھا۔۲۲ اور ۲۳ مارچ کو۔لیکن ۲۲ مارچ کو تقسیم اسناد کی تقریب کے باعث سیمینار کو ایک دن میں محدود کرنا پڑا ۔ لیکن یہ ایک دن پوری طرح پورے دن پر محیط تھا۔شہناز نبی نہ خود ادھر اُدھر ہوئیں نہ مندوبین یا حاضرین میں سے کسی کو ہلنے دیا۔ایشیاٹک سوسائٹی کے صدر بپلب سین گپتا بھی پہلے سیشن میں تشریف فرما تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے بارے میں اچھی اچھی باتیں سننے کو ملیں۔مجھے ٹیگور سے متعارف ہونے کا موقعہ مل رہا تھا۔شاعر،نثر نگار،مصور ٹیگور کو اس کے اپنوں نے بری طرح نظر انداز کیا لیکن اس کا فن اپنے زور پر آگے بڑھا۔بر صغیر کی واحد ادبی شخصیت جسے۱۹۱۳ء میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔انور ظہیر کے مقالہ سے ٹیگور سے صحیح معنوں میں ملاقات ہو سکی۔وہ بتا رہے تھے کہ ٹیگور مذہبی جکڑ بندیوں کو توڑ کر خدا سے محبت اور تعلق قائم کرنے کے قائل تھے۔میں اس بات کو ہلکی سی ترمیم کے ساتھ یوں مانتا ہوں کہ کسی توڑ پھوڑ کی ضرورت نہیں ہے،انسان کسی بھی مسلک کا ہو،اگر اس کی جستجو سچی ہے تو مذہب کی ظاہری سطح سے اوپر اُٹھ کر خدا سے محبت اور تعلق کو قائم کر سکتا ہے۔انور ظہیر میری طرح جوگندر پال کے چاہنے والے نکلے اور ہم دونوں ٹیگور سیمینار کے ڈائس پر بیٹھے دیر تک جوگندر پال کی باتیں کرتے رہے۔

سیمینار کے دوران یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر ممتا رئے کچھ دیر کے لیے تشریف لائیں۔میری خوش قسمتی کہ وہ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھیں۔لیکن اس وقت میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے جب انہوں نے بتایا کہ وہ صرف بنگالی یا انگریزی میں بات کر سکتی ہیں۔اب کیا کیا جائے؟بہر حال جیسے تیسے بولنے کی کوشش کی۔میں اسے ممتا رئے کے ساتھ بیٹھنے کا اثر ہی کہوں گا۔میرے جیسا بندہ جس کی انگریزی ’’ہاؤ ڈو یو ڈو ‘‘کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے،ممتا رئے نے انگریزی میں گفتگو شروع کی تو پتہ نہیں کیسے میں بھی فر فر انگریزی بولنے لگا۔سچ ہے پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت کا اچھا اثر ہوتا ہے۔

اسی دوران کریم رضا مونگیری دو نوجوانوں کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے تو میں نے اندازہ کر لیا کہ ان میں ایک ڈاکٹر صبیحہ خورشید ہیں اور دوسرے ان کے بھائی شاہد یوسفی۔ان سے دور سے ہی سلام دعا ہو سکی۔دن بھر سیمینار چلتا رہا فیض سیمینار ہو یا ٹیگور سیمینار ان سب تقریبات کی روحِ رواں پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی ہیں۔۔میں کچھ دیر کے لیے ہال کی آخری سیٹ پر صبیحہ خورشید کے ساتھ بیٹھا تو پانچ منٹ کے بعد ہی اسٹیج سے اعلان کیا گیا کہ حیدر قریشی ڈائس پر تشریف لے آئیں۔سو جانا پڑا۔دوسرے سیشن میں مجھے پریزیڈیم میں شامل کر دیا گیا۔گویا اسٹیج سے ہلنا نہیں۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل بھی ڈائس پر آ گئے تھے۔میں کچھ ریلیکس ساہو گیا۔اس دوران میرے حصے کے آئے ہوئے میرے دوستوں کے فون کریم رضا مونگیری وصول کرتے رہے اور وہی انہیں جواب دیتے رہے۔سیمینار کے آخر میں مجھے اپنے تاثرات بیان کرنے کے لیے بلایا گیا تو ٹیگور کے مجسمہ والا لطیفہ یہاں سنا دیا۔ادب میں روحانی حوالے سے میں خود کو ٹیگور کے قریب سمجھ سکتا ہوں۔انہیں جانے بغیر میں جس انداز میں لکھ رہا ہوں،وہ لگ بھگ ویسا ہی ہے جیسا ٹیگور کے ہاں ذکر کیا جاتا ہے۔مجھے یاد آیا اور میں نے ذکر کر دیا کہ کہیں پڑھا تھا کہ ٹیگور کو نوبل پرائز ملنے کی ٹائم لکیر کھینچ لی جائے۔تو اس کے ایک طرف علامہ اقبال ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کہہ رہے ہیں۔کیا واقعی ایسا ہے؟یہ تحقیق طلب معاملہ ہے۔اسے سنجیدگی کے ساتھ تفتیشی انداز کے بغیر جو کوئی بھی کر لے،اقبالیات کے حوالے سے ایک اچھا کام ہو گا۔

یہ سیمینار ختم ہوا تو صبیحہ خورشید اور ان کے بھائی شاہد یوسفی سے ملاقات ہوئی۔ہمیں اب ایک اور سفر پر جانا تھا۔آج ہی ۲۳مارچ کی شام کو شِب پور میں اردو دوست ڈاٹ کام اور ہوڑہ میں ایم نصراللہ نصر کی ادبی تنظیم کی جانب سے ایک خاص تقریب ’’حیدر قریشی سے ایک ملاقات‘‘ کا انتظام کیا گیا تھا۔یہاں کلکتہ کے مضافات کے بیشتر اہم شعراء قیصر شمیم،خورشید اقبال،ڈاکٹر مشتاق انجم،ایم نصراللہ نصر، رحمت امین، احمد کمال حشمی،بلند اقبال،عظیم انصاری،فراغ روہوی ،نور پیکار،فیروز مرزا،جاوید مجیدی،وفا صدیقی،شمس افتخاری،احسن شفیق،ارشاد آرزو،ڈاکٹر شبیر ابروی،فہیم انور،علیم الدین علیم،ڈاکٹر نور بھارتی ،ارشد نیاز،نجم العالم،اور متعدد دیگر احباب آئے ہوئے تھے۔کلکتہ کے بزرگ اور اہم شاعر قیصر شمیم خصوصی طور پر شرکت کے لیے تشریف لائے۔ان کی صدارت میں یہ تقریب ہوئی۔پہلے تو دوستوں نے محبت کے پھولوں سے لاد دیا۔پھر خورشید بھائی نے شال کا خاص تحفہ عطا کیا۔پھر تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ یہاں جب میری تعریف و توصیف میں پانچویں تقریر ہونے لگی تو میں نے قیصر شمیم صاحب کے کان میں درخواست کی کہ ان ساری محبتوں کا بوجھ بہت بڑھتا جارہا ہے،اس سلسلہ کو رکوائیے۔انہوں نے کرم کیا اور میری کیفیت سے اسی وقت حاضرین کو آگاہ کر دیا گیا۔صبیحہ خورشید نے اردو ماہیا پر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تیاری کے دوران اپنے تجربات میں سے چند خاص باتیں بتائیں اور بتایا کہ کس طرح انہوں نے ثابت قدمی سے اس پروجیکٹ کو مکمل کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔اس ضمن میں میرا بھی ذکر ہونا تھا،سو ہوا۔جب ہم شِب پور پہنچے تھے تب ڈاکٹر صبیحہ خورشید نے اپنا مقالہ ہاتھوں میں اُٹھا رکھا تھا۔دھان پان سی بچی کے ہاتھ میں اتنا بھاری بھرکم مقالہ دیکھ کر قیصر شمیم صاحب آگے بڑھے ،صبیحہ کے ہاتھ سے مقالہ لیتے ہوئے کہنے لگے بیٹے! آپ نے اپنے وزن سے زیادہ بڑا کام کر لیا ہے۔ ماشاء اللہ۔ بہرحال اب تک کی تقاریر کے بعد طے پایا کہ مزید تقاریر کی بجائے جن احباب نے مجھے پڑھ رکھا ہے وہ اس حوالے سے کوئی سوال کریں اور اس طرح براہ راست مکالمہ کی صورت بن سکے۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دوستوں نے میری بیشتر تحریروں کو پڑھ رکھا تھا اور ان کے سوالات بھی بڑے نپے تلے تھے۔ چنانچہ مجھے ان ساری باتوں کا جواب دیتے ہوئے بہت خوشی ہوئی۔یہی کیفیت سارے دوستوں کی تھی۔یہاں بہت سارے شعرائے کرام کی موجودگی کے باوجود کوئی مشاعرہ نہیں کیا گیا،بلکہ ادبی حوالے سے مکالمہ جیسی صورت حال بن گئی، مجھے کسی بھی مشاعرہ سے زیادہ ایسی تقریب کا مزہ آتا ہے۔یہاں میرے ساتھ ہونے والی تقریب کا بینر پہلے والی تقریب کے بینر سے بھی زیادہ خوبصورت بنا ہوا تھا۔سو اسے دیکھ کر پہلے سے بھی زیادہ خوشی ہوئی۔میں خورشید اقبال کے سارے دوستوں کی محبت سے جھولی ہی نہیں جیبیں بھی بھر کر لے جا رہا تھا۔ کریم رضا مونگیری اس پورے دن کی تقریبات میں ہمہ وقت ساتھ رہے۔اپنے سارے کام کاج کو تج کر وہ ہر جگہ میرے میزبان تھے۔تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو سارے دوستوں سے مل کر کریم رضا مونگیری کے ساتھ واپسی کا سفر شروع ہوا۔صبیحہ خورشید اور شاہد یوسفی ہوٹل میں گئے اور ہم کریم رضا مونگیری کے گھر پہنچے۔دن بھر کی مصروفیت نے کسی حد تک تھکا دیا تھا سو تھکن کے باعث اچھی نیند آئی۔

۲۴ مارچ کو اطمینان سے بیدار ہوئے۔اس سے بھی زیادہ اطمینان کے ساتھ ناشتہ کیا۔دوپہر کے کھانے کے لیے فراغ روہوی نے اپنے گھر پر مدعو کر رکھا تھا۔ اطمینان سے ان کے گھر پہنچے۔مہمان نوازی کے کتنے ہی لوازمات موجود تھے، ادھر میں شوگر اور دل کے معاملات سے بچنے کے لیے بہت پرہیز کرنے پر مجبور تھا۔پھر بھی گھر والوں نے انواع و اقسام کے اتنے کھانے تیار کیے تھے، اب انہیں کچھ نہ کچھ تو چکھنا تھا۔کریم رضا مونگیری،صبیحہ خورشید،شاہد یوسفی کو میرے جیسے پرہیز کا کوئی مسئلہ نہیں تھا،سو انہوں نے اطمینان سے اور مزے سے کھانا کھایا۔بعد میں فراغ روہوی کی صاحب زادی ملنے آئیں۔ایم اے کی طالبہ ہیں اور شعر بھی کہتی ہیں۔یہ جان کر خوشی ہوئی۔اللہ شاعری کے میدان میں بھی اور عملی زندگی میں بھی کامیاب و کامران کرے۔

فراغ روہوی سے اجازت لے کر وہاں سے روانہ ہوئے۔ویسے تو کریم رضا مونگیری چیف ایڈیٹر روزنامہ عکاس کولکاتا ہمہ وقت میرے ساتھ تھے۔جب میں ایشیاٹک سوسائٹی کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھا تب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو کریم رضا ہی کرم فرماتے۔تاہم آج شام کو انہوں نے ادارہ عکاس کولکاتا کی جانب سے ’’ایک شام حیدر قریشی کے نام‘‘ کر رکھی تھی۔آج کے عکاس میں اس سلسلہ میں ایک رنگین با تصویر اشتہار صفحہ اول پر دیا گیا تھا۔تقریب کے لیے مسلم انسٹی ٹیوٹ کولکاتا کا لائبریری ہال لیا گیا تھا۔جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ عکاس میں جو دیدہ زیب اشتہار چھپا ہوا تھا،اسی کا بینر وہاں سجا ہوا تھا۔میرے ساتھ ذاتی حیثیت میں یہ تیسری تقریب تھی اور ہر تقریب منانے والوں نے اپنا الگ بینر بنوا یا تھا۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل نے نظامت کے فرائض ادا کیے۔کریم رضا مونگیری تقریب کے صدر تھے۔ حیدر قریشی صاحبِ شام اور ڈاکٹر صبیحہ خورشید مہمان خصوصی تھیں۔ شبیر اصغر کی کتاب ’’معصوم کہانیاں‘‘ کی رونمائی بھی اس موقعہ پر کی گئی۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل کے تعارفی و توصیفی کلمات کے بعد مشاعرہ کا آغاز ہوا۔انجم عظیم آبادی،حلیم صابر،عنبر شمیم،فراغ روہوی،احمد کمال حشمی،خورشید اقبال،خواجہ احمد حسین،مجسم ہاشمی،ارم انصاری،نوشاد مومن،انجم نایاب،طالب صدیقی،اگم شرما،فیروز اختر،نسیم فائق،بشریٰ سحر نے اپنے کلام سے نوازا۔ڈاکٹر صبیحہ خورشید نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔میں نے اپنا کلام سنانے سے پہلے کہا کہ مرزا غالب کلکتہ میں آئے تھے۔جب واپس دہلی گئے تو کلکتہ کو یاد کر کے ہائے ہائے کرتے رہے۔ میرا جی تو کلکتہ بھی نہیں گئے اور لاہور میں ہی کلکتہ کے’’ میرا سین ‘‘نامی تیر کے ایسے گھائل ہوئے کہ ثناء اللہ ڈار سے ہمیشہ کے لیے میرا جی بن گئے۔میں نے یہاں اتنی اپنائیت،اتنا خلوص اور اتنی محبت پائی ہے کہ باقی کی ساری زندگی اسی کے سرور میں گزر جائے گی۔کولکاتا کا یہ سفر میری زندگی کا یادگار سفر بن گیا ہے۔میرے کلام سنانے کے بعد کریم رضا مونگیری نے صدارتی کلمات سے نوازا۔اور یوں یہ خوبصورت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔تقریب کے بعد بہت سارے دوست ملنا چاہ رہے تھے۔اسی دوران ایک انگریزی اخبار سے منسلک لیڈی اور ایک اردو اخبار کے رپورٹر کچھ انٹرویو کرنا چاہ رہے تھے۔میں نے انگریزی والی لیڈی کے چند سوالوں کے جواب دے کر کہا کہ بہتر ہے آپ مجھے ای میل سے سوالات بھیج دیں، میں ایک ہی دن میں جواب لکھ کر بھیج دوں گا۔یہی بات اردو اخبار والے صحافی سے کہی۔لیکن بعد میں کسی کی کوئی ای میل نہیں آئی۔

۲۵ مارچ کو صبح سویرے دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔کریم رضا مونگیری نے سارا انتظام کر رکھا تھا۔صبیحہ خورشید اور ان کے بھائی شاہد یوسفی بھی بیدار ہو کر اور تیار ہو کر آ گئے تھے۔سو بروقت ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔بروقت وہاں پہنچے۔کریم رضا مونگیری،ڈاکٹر صبیحہ خورشید،شاہد یوسفی سب کو خدا حافظ کہا۔اور بورڈنگ کارڈ کے حصول کے لیے اندر داخل ہو گیا۔سارے مرحلے خیر و خوبی سے طے ہوئے اور مقررہ وقت پر جہاز میں سوار ہو گیا۔دہلی پہنچ کر بارہ بجے کے لگ بھگ غالب انسٹی ٹیوٹ میں پہنچا۔وہاں کے گیسٹ ہاؤس میں میری رہائش کا انتظام کر دیا گیا تھا۔جاتے ہی شاہد ماہلی سے ملاقات ہوئی۔ہم ایک مدت کے بعد لیکن چوتھی بار ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔انسٹی ٹیوٹ میں ’’غالب کے عہد میں فارسی‘‘ کے موضوع پر سیمینار ہو رہا تھا۔میں اپنے کمرہ میں چلا گیا اور کچھ تازہ دم ہو کر وہاں سے پھر انسٹی ٹیوٹ میں آ گیا۔سیمینار جاری تھا تاہم اس وقت کھانے کا وقفہ تھا۔کھانا کھایا۔سیمینار کے آخری سیشن میں شرکت کی۔ ڈاکٹر صادق وہاں آ گئے۔ڈاکٹر شاہینہ پہلے سے موجود تھیں۔عمر کیرانوی سے ملاقات ہوئی ۔یہ نوجوان جدید ادب کے ابتدائی شماروں میں میرے ساتھ تھے۔ان کے تعاون سے کافی سہولت میسر رہی تھی۔ایک عرصہ سے یہاں انسٹی ٹیوٹ میں کمپیوٹر سیکشن کو سنبھالے ہوئے ہیں اور تن تنہا سنبھالے ہوئے ہیں۔ جرمنی سے روانہ ہونے سے پہلے جب میں نے مظفر گڑھ میں افضل چوہان کو انڈیا جانے کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا کہ وہاں میرے ایک دوست ہیں بابو لال شرما۔گاندھی فاؤنڈیشن کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔وہ آپ سے ملنے آئیں گے۔ان سے رابطہ ہو گیا تھا،چنانچہ وہ بھی ملنے کے لیے تشریف لے آئے۔کچھ عرصہ قبل ہی ان کا دل کا بائی پاس ہوا ہے۔اس کے باوجود ۲۵ سے ۲۷ مارچ کو ہر روز ملنے کے لیے غازی آباد سے تشریف لاتے رہے۔میں شاہد ماہلی کے دفتر میں تھا جب ڈاکٹر شاہینہ نے آ کر کہا کہ باہر چند طلبہ آپ کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتے ہیں۔باہر آ کر طلبہ کی فرمائش پوری کی۔پھر دفتر میں جا کر بیٹھے تو ایک صاحب اندر آئے اور کہنے لگے آپ کا فون ہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ کسی انجان بندے کے موبائل پر میرا فون کیسے آ سکتا ہے۔سنا تو دوسری طرف سکریتا پال کمار بول رہی تھیں اور بتا رہی تھیں کہ پاپا آپ سے ملنے کے لیے بہت زیادہ بے چین ہیں۔اس لیے آپ کو ڈھونڈ کر بتا رہی ہوں۔اب بتائیے کب ہمارے ہاں آنا ہے؟۔میں نے انہیں بتایا کہ میں پہلے ہی سے طے کر چکا ہوں کہ کل یعنی ۲۶ مارچ کا آدھا دن جوگندر پال جی کے ساتھ گزاروں گا۔ان کے بعد ترنم ریاض سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں آج ڈنر کا انتظام کر چکی ہیں۔ترنم ریاض کے ایک صاحب زادے علیل تھے۔ ان کے شوہر پروفیسر ریاض کی طبیعت بھی کچھ ناساز تھی۔ایسی حالت میں ڈنر کا انتظام کرنا،خاصا مشکل کام تھا ۔انڈیا انٹرنیشنل سنٹر اعلیٰ سوسائٹی کا ثقافتی مرکز ہے۔یہاں کانفرنس ہال کی سہولت کے علاوہ ریستوران سروس بھی ہوتی ہے لیکن صرف ممبران کے لیے۔میں سرسوں کا ساگ اور دال کھانے کے موڈ میں تھا ۔ اونچی دوکان پھیکا پکوان کے برعکس کھانا بھی بہت عمدہ تھا۔ساگ اور دال کو ملا کر کھانا مجھے ہمیشہ اچھا لگا ہے۔یہاں ایک ادیب دوست سید محمد اشرف سے ملاقات ہوئی۔واپسی کے وقت سید محمد اشرف نے مجھے انسٹی ٹیوٹ میں ڈراپ کرنے کی پیش کش کر دی جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ وہاں پہنچے تو میں نے ’’عمرِ لا حاصل کا حاصل‘‘ کی ایک جلد ان کی نذر کی۔انہوں نے بلا تکلف کہا کہ آپ دو دن کے لیے دہلی میں آئے ہیں،کہیں آنے جانے کے لیے گاڑی کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیں،میں انتظام کر دوں گا۔میں نے ہلکی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ کہہ دیا کہ ہاں کل مجھے جوگندر پال جی کے ہاں جانا ہے۔انہوں نے وقت پوچھا۔ میں نے ساڑھے دس اور گیارہ بجے کے درمیان کا وقت دے دیا۔ ۲۶ مارچ کو پونے گیارہ بجے کے قریب ان کی طرف سے گاڑی آ گئی۔اور میں اطمینان سے جوگندر پال جی سے ملنے چلا گیا۔

۲۶مارچ کو صبح سویرے نوجوان صحافی مطیع الرحمن عزیز مجھے ملنے کے لیے آ گئے تھے۔نوجوان اور تازہ دم ہیں اس لیے بہت کچھ کر گزرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ان کی یہی خوبی مجھے ہمیشہ اچھی لگی۔ان کے ساتھ بہت ساری باتیں ہوئیں۔ جب جوگندر پال جی کے ہاں جانے کا وقت ہوا تو انہیں گاڑی میں ساتھ بٹھا لیا اور رستے میں ان کے کسی قریبی مقام پر انہیں ڈراپ کر دیا۔

جوگندر پال جی کے ہاں پہنچا تو وہ گھر کے دروازے کے باہر بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔بڑی محبت کے ساتھ ملے۔گھر کے اندر جا کر بیٹھے۔بھابی کرشنا پال کچھ دیر کے لیے کسی کام سے گئی تھیں،کچھ دیر کے بعد وہ بھی آ گئیں۔جوگندر پال جی کے ساتھ بہت ساری باتیں ہوئیں لیکن مجھے احساس ہوا کہ وہ بات کر کے بھول جاتے ہیں اور پھر اسی بات کو بتانے لگتے ہیں۔ایک بات پوچھتے،جواب ملنے کے کچھ دیر بعد پھر وہی سوال پوچھنے لگتے۔اس سے اندازہ ہوا کہ یادداشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔لیکن ایک اور تجربہ ایسا ہوا کہ بہت اداس کرنے والا بھی تھا اور خوشی کا ایک رنگ بھی اس میں شامل تھا۔میرے سامنے ایک دوست کا فون آیا۔ان کا نام راجکمار ملک تھا،میں نے تھوڑی سی بات کر کے فون جوگندر پال جی کو دے دیا۔ان سے کچھ دیر بات کرتے رہے۔بات ختم کر کے فون واپس کیا تو بھابی کرشنا نے ریسیور لے لیا،انہیں ریسیور دیتے ہوئے کہنے لگے ’’حیدر قریشی کا فون تھا‘‘۔اس پر بھابی کرشنا نے بتایا کہ پہلے بھی کئی بار ایسا ہوا ہے کہ فون پر کسی اور سے بات کرتے رہتے ہیں اور جب بات ختم ہوتی ہے تو کہتے ہیں حیدر قریشی کا فون تھا۔میں دہلی شہر میں جوگندر پال جی کو آج کے عہد کے ادبی تخلیقی سطح کے دلی کا دل سمجھتا ہوں،اور مجھے یہ دیکھ کر ایک لحاظ سے خوشی ہوئی کہ میں ادب کی دلی کے دل میں اس حد تک بستا ہوں۔تاہم یہ دکھ کی بات بھی تھی کہ ایسا ذہین تخلیق کار عمر گزرنے کے ساتھ اپنی یادداشت کھو رہا تھا۔دراصل بعض باتیں ان کے اندر کھب کر رہ گئی تھیں ورنہ باقی ساری باتیں معمول کے مطابق ہی کر رہے تھے۔مثلاً ڈاکٹر وزیر آغا کی باتیں،اکبر حمیدی کی باتیں،رشید امجد اور منشا یاد کا ذکر،اور بھی بہت ساری باتیں معمول کے حساب سے کر رہے تھے،بس چند باتیں اور سوال ایسے تھے جنہیں وقفے کے بعد پھر بتانے یا پوچھنے لگتے تھے۔ دوپہر کا کھانا جوگندر پال جی کے ہاں کھایا۔وہیں چند تصویریں بنائیں۔ جوگندر پال جی کے سٹڈی روم میں،ڈرائنگ روم میں اور ڈائننگ ٹیبل سے تھوڑا سا ہٹ کر ۔۔۔۔تصویریں بنائیں۔بھابی کرشنا پال بہت زیادہ کمزور ہو گئی ہیں ،تاہم ان کی یادداشت ذرا بھی کمزور نہیں ہوئی۔اردو فکشن کے جدید تر اور اہم ترین فکشن رائٹر جوگندر پال جی سے زندگی میں ایک بار پھر ملنا میری خوش بختی تھی۔یہ ایک یادگار ملاقات تھی، خوشی اور اداسی کی مختلف کیفیتوں سے بھیگی ہوئی ملاقات۔چار بجے کے قریب ان کے گھر سے جانے کی اجازت طلب کی۔وہ نہ صرف گھر سے باہر تک بلکہ گلی کی سڑک کے آخری سرے تک چھوڑنے آئے۔ انہیں خدا حافظ کہا اور میری گاڑی منداکنی انکلیو سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف روانہ ہو گئی۔

غالب انسٹی ٹیوٹ میں پہنچا تو عمر کیرانوی کے ذریعے انٹرنیٹ کی سہولت میسر آئی۔میں اپنے کولکاتا کے سفر کی جو مختصر خبریں انٹرنیٹ پر ریلیز کرتا رہا تھا، ان پر ردِ عمل آیا ہوا تھا۔دوستوں نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا تھا۔ابھی انٹرنیٹ پر ہی تھا کہ ڈاکٹر صادق آ گئے۔سو کمپیوٹر کو چھوڑ کر دوسرے کمرے میں آ گئے۔ بابو لال شرما،عبدالرحمن ایڈووکیٹ،کیول دھیر،ڈاکٹر خالد علوی،شاہد ماہلی،دوست آتے گئے اور ایک کشادہ کمرے میں گفتگو کا دلچسپ سلسلہ چلتا رہا۔ بعض حساس علمی مسائل پر سنجیدہ گفتگو سے لے کر بعض باتوں پر بے تکلفانہ گپ شپ بھی ہوتی رہی۔ڈاکٹر خالد علوی اور عبدالرحمن ایڈووکیٹ کے درمیان نوک جھونک کا اپنا ایک انداز تھا۔اس گپ شپ سے اس وقت اٹھنا پڑا جب معلوم ہوا کہ تقریب کا وقت ہو گیا ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی جانب سے یہ میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام تھا۔شاہد ماہلی کی محبت کا اظہار تھا۔اس تقریب کی صدارت ڈاکٹر صدیق الرحمن قدوائی نے کی۔ ڈاکٹر رضا حیدر نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ادا کیے۔ جیسے ہی پروگرام شروع ہوا،میرے موبائل پر مبارکہ کا فون آ گیا۔میں نے صورت حال سے آگاہ کیا کہ پروگرام شروع ہو گیا ہے۔اور ساتھ ہی کہا کہ چلیں اسی بہانے آپ بھی فون کر کے پروگرام کا حصہ بن گئی ہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کی روایت کے مطابق مجھے شاہد ماہلی نے انسٹی ٹیوٹ کی کتابوں کے سیٹ کا تحفہ عنایت کیا، جبکہ صاحبِ صدر نے محبت کے پھول عطا کیے۔رضا حیدر،شاہد ماہلی، عبدالرحمن ایڈووکیٹ،ڈاکٹر صادق،ڈاکٹر خالد علوی،ڈاکٹر خلیق انجم،ڈاکٹر کیول دھیر اور صدیق الرحمن قدوائی نے میرے بارے میں اپنے اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ توصیف کا پہلو یہاں بھی نمایاں تھا تاہم یہ سب دوست ایک توازن کے ساتھ بات کر رہے تھے،جو مجھے خود بھی اچھی لگ رہی تھی۔اہم بات یہ تھی کہ سارے دوست میری تازہ ترین ادبی سرگرمیوں سے نہ صرف پوری طرح با خبر تھے بلکہ ان کی تعریف بھی کر رہے تھے۔میں نے اپنی چند غزلیں،نظمیں ،ماہیے سنانے کے ساتھ اپنے افسانہ ’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘ کے آخری دو پیراگراف سنائے۔یہ تقریب خیرو خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔کولکاتا میں تین دن دو سیمینارز میں مصروف گزرے اور مختلف اداروں کی جانب سے تین تقریبات میرے اعزاز میں ہوئیں ۔ دہلی میں دو روزہ قیام کے دوران بھی ایک تقریب ہو گئی۔گیارہ دنوں کے سفر میں سات دن مسلسل تقریبات میں گھرے رہنا،میری زندگی کا بھرپور اور یادگار سفر بن گیا ہے۔باقی وقت بھی دوست احباب سے ملاقاتوں میں ہی بسر ہوا۔ یہ سارے پروگرام اگر خود ہی دوستوں کو خرچہ دے کر سجائے گئے ہوتے یا کسی دوسرے دوست کو اشارا کر کے ترتیب دلائے ہوتے،(جیسا کہ ہمارے’’ بین الاقوامی‘‘ شاعر ، ادیب اپنے اعزاز میں کراتے رہتے ہیں) تو میرے لیے یہ سب کچھ بے معنی ہوتا۔فیض سیمینار کے علاوہ باقی سارے پروگرام از خود اور میری دستیابی کے باعث ہنگامی طور پر ترتیب پاتے چلے گئے۔اسی لیے میں اس سفر کو اپنی زندگی کا یادگار سفر سمجھتا ہوں۔

۲۶ مارچ کو تقریب کے بعد معید رشیدی کا فون آ گیا۔ان سمیت چند اور دوستوں کے ساتھ مراسم میں ایک خاموش سا کھچاؤ آ گیا تھا۔میری کوشش رہی ہے کہ اچھے دوستوں کے ساتھ تعلقات میں کوئی خرابی آ جائے تو خاموشی اختیار کر لینی چاہیے۔ اگر غلط فہمی دور ہو سکے تو اچھا ہے ورنہ معاملہ دشمنی کی حد تک نہیں جانا چاہیے۔ہاں البتہ اگر کوئی دوست بے لحاظی کی ساری حدیں پار جائے اور حقائق کو مسخ کرنے لگے تو پھر ریکارڈ درست رکھنے کے لیے تھوڑا بہت حساب سامنے لانا پڑتا ہے۔معید رشیدی کے ساتھ تو بہت ہلکا سا کھچاؤ تھا۔اس لیے میں نے دہلی آ کر بھی انہیں اطلاع نہیں دی۔انہیں جیسے ہی میری آمد کا علم ہوا،فوراََ فون کیا۔اور بڑی اپنائیت کے ساتھ کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ دہلی آئیں اور ہماری ملاقات نہ ہو۔۲۷ مارچ کو میری کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی ،چنانچہ دن کا پہلا حصہ ان کے نام ہوا۔

۲۷ مارچ کو علی الصبح اردو اخبارات دیکھے۔ گزشتہ شام کو ہونے والی تقریب کی خبر تقریباً ہر اخبار نے شائع کی تھی۔تاہم نادیہ ٹائمز نے تو کمال کر دیا۔اس اخبار کی ہیڈ لائن تھی ’’حیدر قریشی کے اعزاز میں جلسے کا اہتمام‘‘۔اسی دن کے اخبار کے اندر کے صفحہ نمبر ۴ پر میری فیض سیمینار والی افتتاحی تقریر کا پورا متن دیا ہوا تھا اور ساتھ ہی وہ ساری رپورٹس شائع کی گئی تھیں جو میں کولکاتا سے انٹرنیٹ پر جاری کرتا رہا تھا۔اس خصوصی توجہ کے لیے نادیہ ٹائمز کے احمد رئیس صدیقی اور مطیع الرحمن عزیز دونوں کا شکر گزار ہوں۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل نے نادیہ ٹائمز کی کوریج کے حوالے سے بہت ہی مزے کی ایک میل بھیجی ۔۲۷  مارچ کو ابھی ان خبروں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ معید رشیدی، فیاض وجیہہ، اظہار ندیم اور طارق اقبال کے ساتھ آ گئے۔ان کے ساتھ مل کر بہت اچھا لگا۔جن باتوں کی غلط فہمی تھی،ان پر کھل کر بات ہوئی۔موضوع زیر بحث کے کئی اور پرت کھلے،کچھ نئے انکشاف ان کی طرف سے ہوئے تو ایک دو دلچسپ اور افسوسناک قصے میں نے بھی انہیں بتائے۔(بعد میں کہیں سے ملنے والی ایک ای میل انہیں فارورڈ بھی کر دی)۔اسی دوران معلوم ہوا کہ فیاض وجیہہ ،ڈاکٹر مظہر مہدی کے شاگرد ہیں۔ڈاکٹر مظہر مہدی کے ساتھ طے ہوا تھا کہ دہلی میں ملاقات کی کوئی صورت دیکھیں گے۔انہیں دہلی میں موجود اپنی کتاب ’’عمرِ لا حاصل کا حاصل‘‘ کی ایک جلد دینا تھی۔فیاض وجیہہ نے اسی وقت فون پر رابطہ کرا دیا۔ان کے ساتھ طے ہوا کہ میں ان کے حصے کی کتاب فیاض وجیہہ کو دے دوں۔سو سپردم بہ تو مایۂ خویش را!

دوپہر کا کھانا ہم سب نے ایک ساتھ کھایا۔ دوپہر کو دوستوں کا یہ گروپ مل کر چلا گیا تو میں نے تھوڑا سا آرام کیا۔پھر انسٹی ٹیوٹ میں آیا تو ڈاکٹر صادق،ڈاکٹر خالد علوی اور بابو لال شرما جی آ گئے،شاہد ماہلی پہلے ہی سے موجود تھے۔ان سب کے ساتھ گفتگو رہی۔بابو لال شرما بتا رہے تھے کہ پاکستان جانے کے لیے انہیں روانگی سے ایک دن پہلے ویزہ دیا گیا۔ دونوں ملکوں کے سفارت خانے اپنی کسی خاموش پالیسی کے تحت اسی طرح ویزے جاری کر رہے ہیں۔جانے والے آخری دن تک بے یقینی اور تذبذب کا شکار رکھے جاتے ہیں۔ دونوں طرف کے سفارت خانوں کا یہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر دیکھنے کے آرزومند ہیں۔

عبدالرحمن ایڈووکیٹ نے آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وعدہ کے باوجود نہیں آئے،سو ان کے اور ڈاکٹر خالد علوی کے درمیان ہونے والی مزید نوک جھونک کے لطف سے محروم رہ گئے۔لیکن اتفاق سے مجھے نہرو فیملی کے حوالے سے پڑھے گئے ایک تازہ مضمون کا خیال آ گیا اور میں نے ڈاکٹر خالد علوی سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اس مضمون کے بعض حساس مندرجات کو یکسر غلط قرار دیا۔پھر انہوں نے دلیل کے طور پر ایسے شواہد اور حوالہ جات پیش کیے کہ ان کی بات کا قائل ہونا پڑا۔اسی گفتگو کے تناظر میں آج کے بعض سیاست دانوں اور بعض معروف ایکٹریسوں کے جنسی سکینڈلز کی بات بھی نکل آئی۔ایک دو شادی شدہ اور مشہور ترین ایکٹریسوں کے بارے میں جان کر شدید حیرانی ہوئی۔ اسی کا نام دنیا ہے،بلکہ فلمی دنیا ہے۔آج کا الوداعی ڈنر ڈاکٹر صادق کی طرف سے تھا۔ایک مقامی ہوٹل میں گئے۔کھانا بہت عمدہ تھا، میری تمام تر احتیاط کے باوجود بد پرہیزی ہو گئی۔پھر شاہد ماہلی اور ڈاکٹر صادق کو خدا حافظ کہا۔رات کو آرام سے سوئے۔اگلے دن ۲۸ مارچ کو میری جرمنی کے لیے روانگی تھی۔مطیع الرحمن عزیز مجھے ائر پورٹ تک الوداع کرنے کے لیے آ گئے۔ائر پورٹ تک کا سفر ان کے ساتھ ہند میں اردو صحافت کے موضوع پر بات کرتے گزرا۔

انڈیا میں صحافت کے مرکزی دھارے پر انگریزی،ہندی اور لگ بھگ ہر صوبے کی صوبائی زبان کے اخبارات کی کمانڈ ہے۔عمومی طور پر ان سب میں تال میل کی ایک صورت بھی موجود ہے۔اردو صحافت کے معاملہ میں ایسا لگا کہ یہ مرکزی دھارے سے بالکل الگ تھلگ دنیا ہے۔بے شک انہیں نظر انداز کیے جانے میں کئی عوامل کارفرما ہوں گے،لیکن اردو صحافیوں کو خود آگے بڑھ کر مرکزی دھارے کا حصہ بننے کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے۔کوٹہ سسٹم کے تحت چند مراعات پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانا اخبارات کے مالکان کے لیے ’’چلو یہ بھی غنیمت ہے‘‘ جیسا ہو سکتا ہے،لیکن اردو صحافت کا مجموعی کردار اور تاثر اس سے بہت محدود ہوتا جا رہا ہے۔یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کئی اردو اخبارات کے مالکان ہندو ہیں لیکن یہ دیکھ کر تشویش بھی ہوئی کہ ہندو مالکان کے اخبارات بھی مسلمانوں میں سستی جذباتیت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔مسلمانوں کو حال مست بنائے رکھنے کی بجائے انہیں زمانے کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کاوشیں کی جائیں تو یہ ہند کے مسلمانوں کے لیے مفید ہو سکیں گی۔مطیع الرحمن عزیز نے مجھے اور میں نے انہیں دہلی ائر پورٹ پر خدا حافظ کہا اور پھر میں ائر انڈیا کی فرینکفرٹ والی پرواز کے لیے معمول کی کاروائی سے گزرتا گیا۔مقررہ وقت پر جہاز روانہ ہوا اور آدھے گھنٹے کی تاخیر سے فرینکفرٹ پہنچ گیا۔ بڑے بیٹے شعیب نے ائر پورٹ سے مجھے لیا اور ہم خیر و عافیت سے اپنے گھر پہنچ گئے۔

کولکاتا اور دہلی کا یہ سفر میری زندگی کا یادگار سفر ثابت ہوا ہے ۔اس سے ادبی کانفرنسوں،سیمینارس اور تقریبات کے سلسلہ میں میرے پہلے خیالات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ان تقریبات کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ ادیب دوست ایک دوسرے سے مل بیٹھتے ہیں۔باقی نشستند،خوردند،برخواستند۔میری کتاب ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘ کے صفحہ نمبر ۴۳۲ ۔۴۳۳ پر کلکتہ میں مجھ سے ادبی محبت رکھنے والوں کا ہلکا سا ذکر ہے۔بارہ تیرہ برس پہلے لکھا گیا یادوں کا باب(اَن دیکھے ،پر جانے دوست)تب گلبن میں چھپا تھا۔اس میں رؤف خیر کے ایک خط کا اقتباس بھی شامل تھا۔انہوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ حیدرآباد دکن سے کلکتہ گئے تو وہاں کے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔وہاں کے دوستوں کے سلسلہ میں انہوں نے لکھا:

’’حکومتِ مغربی بنگال کی دعوت پر کلکتہ گیا جہاں ٹیپو سلطان صدی تقاریب کے سلسلے میں ایک کُل ہند مشاعرہ ۳ مئی کو منعقد ہوا۔وہیں ماہیا نگاروں سے ملاقاتیں رہیں۔فراغ روہوی،ضمیر یوسف، نسیم فائق، نوشاد مومن، محسن باعشن حسرت وغیرہ وغیرہ سب آپ کے عشق کے گرفتار نکلے‘ یعنے ؂

ہم ہوئے ‘تم ہوئے کہ مِیرؔ ہوئے

اُن کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

آپ پر بڑا رشک آتا ہے کہ آپ رہتے کہاں ہیں اور کہاں کہاں اپنے چاہنے والے پیدا کر رکھے ہیں‘‘

اپنی یادوں کے اس باب میں کلکتہ کے حوالے سے میں نے جو کچھ شامل کیا ہے،یہ سفر اس سے کہیں زیادہ بڑی سطح پر اس کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔تو اصل بات تو وہی ہے جو میں نے بارہ تیرہ برس پہلے سے لکھی ہوئی تھی،۲۰۱۲ء میں ایسے شواہد سامنے آ گئے جن سے اس لکھے کی توثیق ہوئی۔تو نتیجہ کیا نکلا ؟ یہی کہ اچھا تخلیق کار اپنے گھر میں بھی بیٹھا رہے تو اس کا لکھا ہوا اپنی واضح شناخت رکھتا ہے۔کسی تقریب میں شرکت یا عدم شرکت سے کسی کے قد کاٹھ میں کوئی علمی و ادبی اضافہ نہیں ہوتا۔ہر ادیب بنیادی طور پر وہی کچھ ہے اور اتنا ہی ہے جتنا وہ اپنی تخلیقات میں موجود ہے۔

میں نا شکر گزاری نہیں کر رہا،ایک بار پھر ایشیاٹک سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری پروفیسر میہیر کمار چکرورتی،پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی،کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے لیے ہر سطح پر اس سفر کو آسان اور ممکن بنایا ۔کریم رضا مونگیری ،خورشید اقبال اور شاہد ماہلی کا بہت زیادہ شکریہ کہ انہوں نے مجھے اس سفر میں ویسی ہی عزت بخشی جیسی ہمارے روابط میں پہلے سے دیا کرتے ہیں۔فرداََ فرداََ اُن تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں جن کی رفاقت نے میرے اس سارے سفر کو اتنا خوشگوار، شاندار اور یادگار بنا دیا۔اللہ سب کو خوش رکھے۔ اور اب ایک خاص نوعیت کی ادبی سیاسی فضا کے پس منظر کے باعث یہ بات اظہار تشکر کی سرشاری کے ساتھ بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ ربِ کریم نے نے ’’ہمارے کر دئیے اونچے منارے!‘‘

یہاں ان دوستوں کا شکریہ ادا کرنا بھی واجب سمجھتا ہوں جنہوں نے میرے اس سفر کے دوران انٹرنیٹ پر میری مصروفیات کی خبریں پڑھ کر مجھے اپنی خوشی اور دلی جذبات سے آگاہ کیا۔اور اس طرح سے اس سفر میں کسی نہ کسی طور میرے ساتھ شریک رہے۔ ان دوستوں کے چند اہم اسماء یہاں درج کر رہا ہوں۔

راجہ محمد یوسف خان(جرمنی)،سعید شباب(خانپور)،حسن چشتی(شکاگو)،ارشد خالد(اسلام آباد)،جبار واصف(رحیم یار خاں)، کاوش عباسی(سعودی عرب)،مبشر میر (گجرات)، راحت سعید(کراچی ) ، یعقوب نظامی(انگلینڈ)،پروفیسر وارث شیر(کینیڈا) ،پروین شیر(کینیڈا)،عبداللہ جاوید (کینیڈا)،شہناز خانم عابدی(کینیڈا)، عبدالرب استاد (گلبرگہ) ،ہاجرہ بانو (اورنگ آباد)،ماسیمو بون (اٹلی)، میخائل گرابر(فرینکفرٹ)،ناصر عباس نیر(لاہور)،ناصر نظامی(ہالینڈ)،ناصر علی سید (پشاور) ،خادم علی ہاشمی(ملتان)،واجد علی(بھاولپور)،ڈاکٹر رضیہ حامد(بھوپال)، ڈاکٹر امجد پرویز (لاہور)،نصر ملک(ڈنمارک)،خورشید علی(جرمنی)، خلیق الرحمن (انگلینڈ) ، محمدافضل چوہان(مظفر گڑھ)،ڈاکٹر فریاد آزر(دہلی)،اویس جعفری، صادق باجوہ(امریکہ) ،ڈاکٹر ریاض اکبر (آسٹریلیا) ، عبدالحئی ، ڈاکٹر پنہاں (امریکہ)، سریندر بھوٹانی (پولینڈ)،معید رشیدی(دہلی)،اظہار ندیم(دہلی)،ڈاکٹر عقیل احمد عقیل (کولکاتا) ،سید انور جاوید ہاشمی(کراچی)،ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (برمنگھم)،قاسم یعقوب(اسلام آباد)،احمد حسین مجاہد(ایبٹ آباد)،اسحاق ساجد (جرمنی)،مقصود الہٰی شیخ(بریڈ فورڈ)،مستبشرہ ادیب(علی گڑھ)،خالد ملک ساحل(جرمنی)،طاہر ملک(جرمنی)،ڈاکٹر حامد اشرف(اودگیر)،سہیل اختر (بھوبھنیشور)،ڈاکٹر مظہر مہدی(دہلی)،شاہد جمیل(گوجرانوالہ)،طاہر عدیم (جرمنی) ،ارم ہاشمی(میانوالی)

 

جب سے میں نے اس سفر کی روداد کا یہ بلاگ بنایا ہے،

 http://haiderqureshi-in-kolkata-delhi.blogspot.de

خوشی کا ردِ عمل ظاہر کرنے والے دوستوں کی ای میلز کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔سو سب بہی خواہوں کا اور محبت کرنے والوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی کے اس یادگار سفر کی روداد کو مکمل کرتا ہوں۔

٭٭٭

 

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔