مہا لکشمی اسٹیشن کے اس پار مہا لکشمی جی کا ایک مندر ہے اسے لوگ ریس کورس بھی کہتے ہیں ، اس مندر میں پوجا کرنے والے لوگ ہارتے زیادہ ہیں جیتتے کم ہیں ، مہا لکشمی کے اسٹیشن کے اس پار ایک بہت بڑی بدرو ہے جو انسانی جسموں کی غلاظت کو اپنے متعفن پانیوں میں گھولتی ہوئی شہر سے باہر چلی جاتی ہے، مندر میں انسان کے دل کی غلاظت دہلتی ہے اور بد رو میں انسان کے جسم کی غلاظت اور ان دونوں کے بیچ میں مہا لکشمی کا پل ہے۔
مہا لکشمی کے پل کے اوپر بائیں طرف لوہے کے جنگلے پر چھ ساڑھیاں لہرا رہی تھی، پل کے اس طرف ہمیشہ اس مقام پر چند ایک ساڑھیاں لہرا رہی ہیں ، یہ ساڑھیاں کوئی بہت قیمتی نہیں ہیں ، یہ لوگ یہاں ہر روز ان ساڑھیوں کو دھو کر سوکھنے کے لئے ڈال دیے ہیں ، اور ریلوے لائن کے آر پار جاتے لوگ مہا لکشمی اسٹیشن پر گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے لوگ گاڑی کی کھڑکی اور دروازوں سے جھانک کر باہر دیکھنے والے لوگ اکثر ان ساڑھیوں کو ہوا میں جھولتا ہوا دیکھتے ہیں ۔ وہ ان کے مختلف رنگ دیکھتے ہیں ، بھورا، گہرا بھورا، نیلا، قرمزی بھورا، گندا سرخ گہرا نیلا اور لال، وہ لوگ اکثر انہیں رنگوں کو فضا میں پھلیے ہوئے دیکھتے ہیں ، ایک لمحے کے لئے دوسرے لمحے میں گاڑی پل کے نیچے سے گزر جاتی ہے، ان ساڑھیوں کے رنگ اب جاذب نظر نہیں رہے۔ کسی زمانے میں ممکن ہے جب یہ نئی نئی خریدی گئی ہوں ، ان کے رنگ خوبصورت اور چمکتے ہو رہے ہوں ، مگر اب نہیں ہیں متواتر دھوئے جانے سے ان کے رنگوں کی آب و تاب مر چکی ہے، اور اب یہ ساڑھیاں اپنے پھیکے سیٹھے روز مرہ کے انداز کو لئے بڑی بے دلی سے جنگلے پر پڑی نظر آتی ہیں ، آپ دن میں انہیں سو بار دیکھئے یہ آپ کو کبھی خوبصورت دکھائی نہیں دیں گی۔ ان کا رنگ و روپ اچھا ہے، نہ ان کا کپڑا، یہ بڑی سستی، گھٹیا قسم کی ساڑھیاں ہیں ، ہر روز دھلنے سے ان کا کپڑا بھی تار تار ہو رہا ہے، ان میں کہیں کہیں روزن بھی نظر آتے ہیں ، کہیں ادھڑے ہوئے ٹانکے ہیں کہیں بد نما چتلے داغ جو اس قدر پائدار ہیں کہ دھوئے جانے سے بھی نہیں دھلے بلکہ اور گہرے ہوتے جاتے ہیں ، میں ان ساڑھیوں کی زندگیوں کو جانتا ہوں ، کیونکہ میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ان ساڑھیوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ یہ لوگ مہا لکشمی کے پل کے قریب ہی بائیں طرف آٹھ نمبر کی چال میں رہتے ہیں یہ چال متوالی نہیں ، بڑی غریب سی چال ہے، میں بھی اس میں رہتا ہوں ، اس لئے آپ کو ان ساڑھیوں اور ان کے پہننے والوں کے متعلق سب کچھ بتا سکتا ہوں ، ابھی وزیر اعظم کی گاڑی آنے میں بہت دیر ہے آپ انتظار کرتے کرتے اکتا جائیں گے، اس لئے اگر آپ ان چھ ساڑھیوں کی زندگی کے بارے میں سن لیں تو وقت آسانی سے کٹ جائے گا۔ ادھر یہ جو بھورے رنگ کی ساڑھی لٹک رہی ہے یہ شانتا بائی کی ساڑھی ہے، اس کے قریب جو ساڑھی لٹک رہی ہے وہ بھی آپ کو بھورے رنگ کی دکھائی دیتی ہو گی، مگر وہ تو گہرے بھورے رنگ کی ہے۔ آپ نہیں میں اس کا گہرا بھورا رنگ دیکھ سکتا ہوں ، کیوں کہ میں اسے اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کا رنگ چمکتا ہو گہرا بھورا تھا، اب اس دوسری ساڑھی کا رنگ بھی ویسا ہی بھورا ہے، جیسا شانتی بائی کی ساڑھی کا اور شاید آپ ان دونوں ساڑھیوں میں بڑی مشکل سے فرق محسوس کر سکیں گے، میں بھی جب ان کے پہننے والوں کی زندگیوں کو دیکھتا ہوں ، تو بہت کم فرق محسوس کرتا ہوں ، مگر یہ پہلی ساڑھی ہے اور جس کا گہرا رنگ ہے، وہ شانتا بائی کی ساڑھی ہے اور جو دوسری بھورے رنگ کی ساڑھی ہے اور جس کا گہرا بھورا رنگ صرف میری آنکھیں دیکھ سکتی ہیں وہ جیونا بائی کی ساڑھی ہے۔ شانتا بائی کی زندگی بھی اس ساڑھی کے رنگ کی طرح بھوری ہے شانتا بائی برتن مانجھنے کا کام کرتی ہے، اس کے تین بچے ہیں ، ایک بڑی لڑکی ہے دو چھوٹے چھوٹے لڑکے ہیں ، بڑی لڑکی کی عمر چھ سال کی ہو گی، سب سے چھوٹا لڑکا دو سال کا ہے، شانتا بائی کا خاوند سیون مل کے کپڑے کھاتے میں کام کرتا ہے۔ اسے بہت جلد جانا ہوتا ہے، اس لئے شانتا بائی اپنے خاوند کے لئے دوسرے دن کی دوپہر کا کھانا رات ہی کو پکا رکھتی ہے، کیوں کہ صبح اسے خود برتن صاف کرنے کے لئے اور پانی ڈھونے کے لئے دوسرے گھروں مین جانا ہوتا ہے، اور اب وہ ساتھ میں اپنی برس کی بچی کو بھی لے جاتی ہے، اور دوپہر کے قریب چال میں واپس آتی ہے، واپس آ کے وہ نہاتی ہے اور اپنی ساڑھی دھوتی ہے اور سکھانے کے لئے پل کے جنگلے پر ڈال دیتی ہے اور پھر ایک بے جد غلیظ اور پرانی دھوتی پہن کر کھانا پکاتی ہے۔ شانتا بائی کے گھر چولھا اس وقت سلگ سکتا ہے جب دوسروں کے ہاں چولھے ٹھنڈے ہو جائیں ، یعنی دوپہر کو دو بجے اور رات کے نو بجے،ان اوقات کے ادھر اور ادھر اسے دونوں وقت گھر سے باہر برتن مانجھنے اور پانی ڈھونے کا کام کرنا ہوتا ہے، اب تو چھوٹی لڑکی اس کا ہاتھ بٹا تی ہے۔ شانتا بائی برتن صاف کرتی ہے، چھوٹی لڑکی برتن دھوتی جاتی ہے، دو تین بار ایسا بھی ہوا کہ چھوٹی لڑکی کے ہاتھ سے چینی کے برتن کر کر ٹوٹ گئے، اب مین جب چھوٹی لڑکی کی آنکھیں سوجی ہوئی دیکھتا ہو اور اس کے گال سرخ دیکھتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں کہ کسی بڑے گھر میں چینی کے برتن ٹوٹے ہیں ۔ اس دن شانتا بائی بھی میرے نمستے کا جواب نہیں دیتی ہے، جلتی بھنتی بڑبڑاتی چولھا سلگانے میں مصروف ہو جاتی ہے، اور چولھے میں آگ کم اور دھواں زیادہ نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، چھوٹا لڑکا جو دو سال کا ہے دھوئیں سے اپنا دم گھٹتا دیکھ کر چیختا رہتا ہے، تو شانتا بائی اس کے چینی ایسے نازک رخساروں پر زور زور سے چپتیں لگانے سے باز نہیں آتی ہے۔ اس پر بچہ اور زیادہ چیختا ہے، یوں تو یہ دن بھر روتا ہے کیوں کہ اسے دودھ نہیں ملتا، اور اسے اکثر بھوک لگتی ہے اور دو سال کی عمر ہی میں اسے باجرے کی روٹی کھانا پڑتی ہے، اسے پانیماں کا دودھ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح صرف پہلے چھ سات ماہ نصیب ہوا اور وہ بھی بڑی مشکل سے، پھر یہ بھی خشک باجری اور ٹھنڈے پانی پینے لگا ہماری چال کے سارے بچے اسی خوراک پر پلتے ہیں وہ دن بھر ننگے رہتے ہیں اور رات کو گدڑی اوڑھ کر سو جاتے ہیں سوتے میں بھی وہ بھوکے رہتے ہیں ۔ اور جب شانتا بائی کے خاوند کی طرح بڑے ہو جاتے ہیں تو دن بھر خشک باجری اور ٹھنڈا پانی پی پیکر کام کرنے جاتے ہیں ، اور ان کی بھوک بڑھ جاتی ہے اور ہر وقت معدے کے اندر اور دل کے اندر اور دماغ کے اندر ایک بوجھ سی دھمک محسوس کرتے ہیں اور جب پگار ملتی ہے تو ان میں سے کئی اک سیدھے تاڑی خانے کا رخ کرتے ہیں ، تاڑی پی کر چند گھنٹوں کے لئے یہ دھمک زائل ہو جاتے ہیں لیکن آدمی ہمیشہ تو تاڑی پی نہیں سکتا، ایک دن پئے گا دو دن پئیے گا، تیسرے دن کی تاڑی کے لئے پیسے کہاں سے لائے گا، آخر کھولی کا کرایہ دیتا ہے، راشن کا خرچہ ہے۔ بھاجی ترکاری ہے، تیل اور نمک ہے، بجلی اور پانی ہے، شانتا بائی کی بھوری ساڑھی ہے جو چھٹے ساتویں ماہ تار تار ہو جاتی ہے، کبھی سات ماہ سے زیادہ نہیں چلتی، یہ مل والے بھی پانچ روپے چار آنے میں کیسی کھدری نکمی ساڑھی دیتے ہیں ۔ اس کپڑے میں ذرا جان نہیں ہوتی چھٹے ماہ سے جو تار تار ہونا شروع ہوتا ہے تو ساتویں ماہ بڑی مشکل سے سی کے، جوڑ کے، گانٹھ لگا کے، ٹانکے لگا کے کام دیتا ہے، اور پھر وہ ہی پانچ روپے چار آنے خرچ کرنے پڑتے ہیں ، اور وہ ہی بھورے رنگ کی ساڑھی آ جاتی ہے، شانتا کو یہ رنگ بہت پسند ہے۔ اس لئے کہ یہ میلا بہت دیر میں ہوتا ہے اسے گھروں میں جھاڑو دینا ہوتی ہے، برتن صاف کرنے ہوتے ہیں تیسری چوتھی منزل تک پانی ڈھونا ہوتا ہے، وہ بھورا رنگ نہیں پسند کرے گی تو کیا کھلتے رنگ گلابی، بسنتی، نارنجی پسند کرے گی، وہ اتنی بیوقوف نہیں ہے، لیکن کبھی اس نے یہ شوخ رنگ بھی دیکھے تھے پہنے تھے، انہیں اپنے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پیار کیا تھا، جب وہ دھاروار میں اپنے گاؤں میں تھی۔ جہاں اس نے بادلوں میں شوخ رنگوں والی دھنک دیکھی تھی، جہاں میلوں میں اس نے شوخ رنگ ناچتے دیکھے جہاں کہ باپ کا دہان کے کھیت تھے، ایسے شوخ ہرے ہرے رنگ کے کھیت اور آنگن میں پیرو کا پیڑ جس کے ڈال ڈال سے وہ توڑ توڑ کے کھایا کرتی تھی، جانے اب وہ پیروؤں میں مزا ہی نہیں وہ شیرینی اور گھلاوٹ ہی نہیں ، وہ رنگ، وہ چمک و دمک کہاں جا کے مر گئی۔ وہ سارے خواب رنگ کیوں یک لخت بھورے رنگ کے ہو گئے، شانتا بائی کبھی برتن مانجتے مانجتے، کھانا پکاتے پکاتے، اپنی ساڑھی سے پانی کے قطرے آنسوؤں کی طرح ریل کی پٹری پر بہتے جاتے ہیں اور دوسرے دیکھنے والے لوگ ایک بھورے رنگ کی بدصورت عورت کو پل کے اوپر جنگلے پر ایک بھوری ساڑھی کو پھیلا ہوئے دیکھتے ہیں اور بس دوسرے لمحے میں گاڑی پل کے نیچے سے گزر جاتی ہے۔ جیونا بائی کی ساڑھی جو شانتا بائی کی ساڑھی کے ساتھ لٹک رہی ہے گہرے بھورے رنگ کی ہے، بظاہر اس کا رنگ شانتا بائی کی ساڑھی سے بھی پھیکا نظر آئے گا، لیکن اگر آپ اسے غور سے دیکھیں گے تو اس کے پھیکے پن کے باوجود یہ آپ کو گہرے رنگ کی نظر آئے گی۔ یہ ساڑھی بھی پانچ روپے چار آنے کی ہے،اور بڑی ہی بوسیدہ ہے، دو ایک جگہ سے پھٹی ہوئی تھی لیکن اب وہاں سے ٹانکے لگ گے تھے، اور اتنی دور سے معلوم بھی ہوتے تھے، ہاں آپ وہ بڑا ٹکرا ضرور دیکھ سکتے ہیں جو گہرے نیلے رنگ کا ہے اس ساڑھی کے بیچ میں جہاں سے یہ ساڑھی بہت پھٹ چکی ہے، لگایا گیا، یہ ٹکڑا جیونا بائی کی اس پہلی ساڑھی کا ہے اس دوسری ساڑھی کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا گیا، جیونا بائی بیوہ ہے۔ اس لئے وہ ہمیشہ پرانی چیزوں سے نئی چیزوں کو مضبوط بنانے کے ڈھونگ سوچا کرتی ہے پرانی یادوں سے نئی یادوں کی تلخیوں کو بھول جانے کی کوشش کیا کرتی ہے، جیونا بائی اپنے اس خاوند کے لئے روتی ہے،جس نے ایک دن نشے میں مار مار کر اس کی ایک آنکھ کانی کر ڈالی تھی، وہ اس لئے نشے میں تھا کہ وہ اس روز مل سے نکالا گیا تھا، بڈھا ڈھونڈو اب مل میں کس کام کا نہیں رہا تھا۔ گو وہ بہت تجربہ کار تھا لیکن اس کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ وہ جو ان مزدوروں کا مقابلہ کر سکتا، بلکہ وہ تو اب دن رات کھانسی میں مبتلا رہنے لگا تھا، کپاس کے ننھے ننھے ریشے اس کے پھیپڑوں میں جا کے ایسے دھنس گئے تھے، جیسے چرخیوں اور اینٹوں میں سوت کے چھوٹے چھوٹے مہین تاگے پھنس جاتے ہیں ، جب برسات آتی تو یہ ننھے ننھے ریشے اسے دمے میں مبتلا کر دیتے اور جب برسات نہ ہوتی تو وہ دن بھر اور رات بہ کھانستا، ایک خشک اور مسلسل کھنکھار گھر مین اور کارخانے میں جہاں وہ کام کرتا تھا۔ سنائی دیتی رہتی، مل کے مالک نے اس کھانسی کی خطرناک گھنٹی کو سنا اور ڈھونڈو کر مل سے نکال دیا، ڈھونڈو اس کے چہ ماہ بعد مر گیا، جیونا بائی کو اس کے مرنے کا بہت غم ہوا تھا، کیا ہوا اگر ایک دن غصہ میں آ کر اس نے جیونا بائی کی ایک آنکھ نکال دی تو، تیس سال کی شادی شدہ زندگی ایک لمحے کے غصے پر قربان نہیں کی جا سکتی اور اس کا غصہ بجا تھا۔ اگر مل مالک ڈھونڈو کو یوں بے قصور نوکری سے الگ نہ کرتا تو کیا جیونا کی آنکھ نکل سکتی تھی، ڈھونڈو ایسا نہ تھا، اسے اپنی بے کاری کا غم تھا، اپنی سالہ سے برطرف ہونے کا غم تھا، اسی طرح خالی ہاتھ واپس لٹا، اور دروازے سے باہر نکلنے پر اور اپنا نمبری کارڈ پیچھے چھوڑ آنے پر اسے ایک دھچکا سا لگا۔ باہر آ کے اسے ایسا معلوم ہوا جیسے ان سالوں میں کسی نے اس کا سارا رنگ، سارا خون، اس کا سارا رس چوس لیا ہو، اور اسے بیکار کر سمجھ کر باہر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا ہو، جو بالکل اس کے سر پر ایک خوفناک دیو کی طرح آسمان سے لگی کھڑی تھی،یکا یک ڈھونڈو نے غم اور غصے سے اپنے ہاتھ ملے، زمین پر زور سے تھوکا اور پھر تاڑی خانے میں چلا گیا۔ لیکن جیونا کی ایک آنکھ جب بھی نہ جاتی، اگر ا سکے پاس علاج کے لئے پیسے ہوتے، وہ آنکھ تو گل گل کر، سڑ سڑ کر، خیراتی اسپتالوں میں ڈاکٹروں ، کمپونڈروں اور نرسوں کی بد احتیاطی اور گالیوں اور لا پروائیوں کا شکار ہو گئی، اور جب جیونا اچھی ہو گئی تو ڈھونڈو بیمار پڑ گیا۔ اور ایسا بیمار پڑا کہ پھر بستر سے نہ اٹھ سکا، ان دنوں میں جیونا اس کی دیکھ بھال کرتی تھی، شانتا بائی نے مدد کے طور پر اسے چند گھروں میں برتن مانجنے کا کام دلوایا تھا، اور گوہ وہ اب بوڑھی تھی، اور مشاقی اور صفائی سے برتنوں کو صاف نہ رکھ سکتی تھی، پھر بھی وہ آہستہ آہستہ رینگ رنگ کر اپنے کمزور ہاتھوں میں جھوٹی طاقت کے بودے سہارے پر جیسے تیسے کام کرتی رہتی، خوبصورت لباس پہنے والی، خوشبو دار تیل لگانے والی بیویوں کی گالیاں سنتی رہی، اور کام کرتی رہی۔ کیونکہ اس کا ڈھونڈو بیمار تھا اور اسے اپنے آپ کو اور اپنے خاوند کو زندہ رکھنا تھا لیکن ڈھونڈو زندہ نہ رہ سکا اور اب جیونا بائی اکیلی تھی، خیریت اس میں تھی کہ اکیلی تھی، اور اب اسے صرف اپنا دھندا کرنا تھا، شادی کے دو سال بعد اس کے اس کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی، لیکن جب وہ جوان ہوئی تو سکی بدمعاش کے ساتھ بھاگ گئی اور اس کا آج تک پتہ نہیں ہے، پھر کسی نے بتایا کہ وہ اور پھر بعد میں بہت سے لوگوں نے بتایا کہ جیونا بائی کی بیٹی فارس روڈ پر چمکیلا بھڑکیلا لباس پہنے بیٹھی ہے۔ لیکن جیونا بائی کو یقین نہ آیا، اس نے اپنی ساری زندگی پانچ روپے چار آنے کی دھوتی پہنے بسر کر دی، اور اسے یقین تھا کہ اس کی لڑکی بھی ایسا کرے گی، وہ ایسا نہ کرے گی، اس کا اسے کبھی خیال نہ آیا تھا، وہ کبھی فارس روڈ نہیں گئی، کیونکہ اسے اس کا یقین تھا کہ اس کی بیٹی وہاں نہیں ہے، بھلا اس کی بیٹی وہاں کیوں جانے لگی، یہاں اپنی کھولی میں کیا نہیں ہے پانچ روپے چار آنے والی دھوتی تھی، باجرے کی روٹی تھی۔ ٹھنڈا پانی تھا، سوکھی عزت تھی، اور یہ سب کچھ چھوڑ کر کے وہ فارس روڈ کیوں جانے لگی، اسے تو کوئی بد معاش اپنی محبت کا سبز باغ دکھا کے لے گیا، کیونکہ عورت محبت کے لئے سب کچھ کر گزرتی ہے، خود وہ تیس سال پہلے اپنے ڈھونڈو کے لئے اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر یہیں چلی آئی، جس دن ڈھونڈو مرا اور جب لوگ اس کی لاش کو جلانے کے لئے جانے لگے اور جیونا نے اپنی سیندور کی ڈبیا اپنی بیٹی کی انگیا پر انڈیل دی، جو اس نے بڑی مدت سے ڈھونڈو کی نظروں سے چھپا کر رکھی تھی۔ عین اسی وقت ایک گدرائے ہوئے جسم کی بھاری عورت چمکیلا لباس پہنے اس سے آ کے لپٹ گئی، اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اسے دیکھ کر جیونا کو یقین آگیا، جیسے اب سب کچھ مرگیا، اس کا پتی، اس کی بیٹی، اس کی عزت، جیسے وہ زندگی بھر روٹی نہیں ، غلاظت کھاتی رہی ہے، جیسے اس کے پاس کچھ نہیں تھا، شروع ہی سے کچھ نہیں تھا، پیدا ہونے سے پہلے ہی اس سے سب کچھ چھین لیا گیا، اے تنہا، ننگا اور بے عزت کر دیا گیا، اور جیونا کا خاوند زندگی بھر کام کرتا رہا اور وہ جہاں اس کی آنکھ اندھی ہو گئی اور وہ جگہ جہاں اس کی بیٹی اپنی دکان سجا کر بیٹھ گئی۔ ایک بہت بڑا اندھا کارخانہ ہے جس میں کوئی ظالم جابر ہاتھ انسانی جسموں کے لئے گنے کا رس نکالنے والی مشین میں ٹھونستا جاتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے توڑ مروڑ کر دوسری طرف پھینکتا جاتا ہے، اور یکا یک جیونا اپنی پیٹ کو دھکا دے کر چیخ مار مار کر رونے لگتی ہے۔ تیسری ساڑھی کا رنگ مٹ میلا نیلا ہے، یعنی نیلا بھی ہے، اور میلا بھی ہے، اور مٹیالا بھی ہے کچھ ایسا عجیب رنگ ہے جو بار بار دھونے پر بھی نہیں نکھرتا اور غلیظ ہوتا جاتا ہے، یہ میری بیوی کی ساڑھی ہے میں فورٹ میں دھنو بھائی کی فرم میں کلرکی کرتا ہوں ، پینسٹھ روپے تنخواہ ملتی ہے، سیون مل اور بکسریا مل کے مزدوروں کو بھی یہی تنخواہ ملتی ہے، اس لئے میں بھی انہیں کے ساتھ آٹھ نمبر چال کی ایک کھولی میں رہتا ہوں ، مگر میں مزدور نہیں ہوں ، کلرک ہوں ، میں انگریزی میں لکھ سکتا ہوں ، میں فورٹ میں نوکر ہوں ، میں دسویں پاس ہوں ، ٹائپ کر سکتا ہوں ۔ میں انگریزی میں لکھ سکتا ہوں ، میں اپنے وزیر اعظم کی تقریر جلسے میں سن کر سمجھ سکتا ہوں ، آج تھوڑی دیر بعد ان کی گاڑی مہا لکشمی آئے گی، نہیں وہ ریس کورس نہیں جائیں گے، وہ سمندر کے کنارے ایک شاندار تقریر کریں گے۔ اس موقع پر لاکھوں آدمی جمع ہوں گے، ان لاکھوں میں میں بھی ایک ہوں گا، میری بیوی کو اپنے وزیر اعظم کی باتیں سننے کا بڑا شوق ہے، مگر میں اسے اپنے ساتھ لے نہیں جا سکتا کیونکہ ہمارے آٹھ بچے ہیں اور گھر میں ہر وقت پریشانی سی رہتی ہے، جب دیکھو کوئی نہ کوئی چیز کم ہو جاتی ہے۔ راشن تو روز کم پڑتا ہے، اب نل میں پانی بھی کم آتا ہے، رات کو سونے کے لئے جگہ بھی کم پڑتی ہے اور تنخواہ تو اس قدر کم پڑتی ہے کہ مہینے میں صرف پندرہ دن چلتی ہے باقی پندرہ دن سود خور پٹھان چلاتا ہے، اور رہ بھی کیسے گالیاں بکتے بکتے، گھسٹ گھسٹ کر کسی سست رفتار مال گاڑی کی طرح یہ زندگی چلتی ہے۔ میرے آٹھ بچے بچے ہیں مگر یہ ا سکول میں نہیں پڑہتے ہیں اس کی فیس کے پیسے کبھی نہ ہوں گے، پہلے پہلے جب میں نے بیان کیا تھا تو ساوتری کو اپنے گھر یعنی کھولی میں لایا تھا، تو میں نے سوچا تھا ان دنوں ساوتری بھی بڑی اچھی اچھی باتیں سوچا کرتی تھی، گوبھی کے نازک نازک پتوں کی طرح پیاری پیاری باتیں ، جب وہ مسکراتی تو سنیما کی تصویر کی طرح خوبصورت دکھا دیتی تھی، اب وہ مسکراہٹ نہ جانے کہاں چلی گئی، ا سکی جگہ ایک مستقل تیوری نے لے لی ہے، وہ ذرا سی بات پر بچوں کو بے تحاشہ پیٹنا شروع کر دیتی، اور میں تو کچھ بھی کہوں کسی بھی کہوں وہ تو مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے، پتہ نہیں ساوتری کو کیا ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے میں دفتر میں سیٹھ کی گالیاں سنتا ہوں ، گھر پر بیوی کی گالیاں سنتا ہوں ، اور ہمیشہ خاموش رہتا ہوں ، کبھی کبھی سوچتا ہوں شاید میری بیوی کو ایک نئی ساڑھی کی ضرورت ہے، شاید اسے صرف ایک نئی ساڑھی ہی نہیں ایک نئے چہرے ایک نئے گھر ایک نئے ماحول ایک نئی زندگی کی ضرورت ہے، مگر اب ان باتوں کو سوچنے سے کیا ہوتا ہے، اب تو آزادی آ گئی ہے اور ہمارے وزیر اعظم نے بھی کہہ دیا ہے کہ اس نسل کو یعنی ہم لوگوں کو اپنی زندگی میں کوئی آرام نہیں مل سکتا۔ میں نے ساوتری کو اپنے وزیر اعظم کی تقریر جو اخبار میں پڑھی تھی، سنائی تو وہ اسے سن کر آگ بگولہ ہو گئی اور اس نے غصے میں آ کر چولے کے قریب پڑا ہوا چمٹا میرے سر پر دے مارا، یہ زخم کا نشان جو آپ میرے ماتھے پر دیکھ سکتے ہیں اسی کا نشان ہے، مگر آپ انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ میں دیکھ سکتا ہوں ، ان میں سے ایک فشان تو اس مونگیا رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی کا ہے جو اس نے اپنے اوپیرا ہاؤس کے نزدیک بھنجی مل بھوندو رام پارچہ فروش کی دکان پر دیکھی تھی، ایک نشان اس کھلونے کا ہے جو پچیس روپے کا تھا اور جسے دیکھ کر میرا پہلا بچہ خوش سے کلکاریاں مانے لگا تھا، لیکن جسے ہم خرید نہ سکے، اور جسے پا کر میرا بچہ دن بھر روتا رہا ایک نشان اس تار کا ہے جو ایک دن جبل پور سے آیا تھا، جس میں ساوتری کی ماں کی شدید علالت کی خبر تھی، ساوتری جبل پور جانا چاہتی تھی، لیکن ہزار کوشش کی بعد بھی کسی سے روپے ادھار نہ مل سکے اور ساوتری جبل پور نہ جا سکی۔ ایک نشان اس تار کے ہے جس میں اس کی ماں کی موت کا ذکر تھا، ایک نشان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر میں کس کس نشان کا ذکر کروں ، اس سے چتلے چتلے گدلے گدلے غلیظ داغوں سے ساوتری کی پانچ روپے چار آنے والی ساڑھی میں منتقل ہوتے جائیں گے۔ چوتھی ساڑھی قرمزی رنگ کی ہے اور قرمزی رنگ میں بھورا رنگ بھی جھلک رہا ہے، یوں تو یہ سب مختلف رنگوں کی ساڑھیاں ہیں لیکن بھورا رنگ ان سب میں جھلکتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان سب کی زندگی ایک ہے، جیسے ان سب کی قیمت ایک ہے، جیسے یہ سب زمین سے کبھی اوپر نہیں اٹھیں گی، جیسے انہوں نے کبھی ہنستی ہوئی دھنک افق پر چمکتی ہوئی شفق، بادلوں میں لہراتی ہوئی برق نہیں دیکھی ہے، جیسے شانتا بائی کی جوانی ہے وہ جیونا کا بڑھاپا ہے، وہ ساوتری کا ادھیڑ پن ہے، جیسے یہ سب ساڑھیاں زندگیاں ، ایک رنگ ایک سطح، ایک تواتر ایک مسلسل یکسانیت لئے ہوئے ہوا میں جھولتی ہے۔ یہ قرمزی بھورے رنگ کی ساڑھی جھبو بھئیے کی عورت کی ہے، اس عورت سے میری بیوی کبھی بات نہیں کرتی، کیونکہ کہ ایک تو اس کے پاس کوئی بچہ وچہ نہیں ہے،اور ایسی عورت جس کے ہاں کوئی بچہ نہ ہو بڑی نجس ہوتی ہے، وہ جادو ٹونے کر کے دوسرے کے بچوں کو مار ڈالتی ہے، اور بد روحوں کو بلا کر اپنے گھر میں بسا لیتی ہے، میری بیوی اسے کبھی منہ نہیں لگاتی ہے، یہ عورت جھبو بھیا نے خرید کر حاصل کی تھی۔ جھبو بھیا مراد آباد کا رہنے والا ہے، لیکن بچپن ہی سے اپنا دیس چھوڑ کر ادھر چلا آیا، وہ مراٹھی اور گجراتی زبان میں بڑے مزے سے گفتگو کر سکتا تھا، اسی وجہ سے اسے بہت جلد پورا وائل کے گنی کھاتے میں جگہ مل گئی، جھبو بھیا کو شروع ہی سے بیاہ کا بہت شوق تھا، اسے بیڑی کا تاڑی کا کسی چیز کا شوق نہیں تھا، شوق تھا تو صرف اس بات کا کہ ا سکی شادی جلد سے جلد ہو جائے، جب اس کے پاس ستر اسی روپے اکھٹا ہو گئے تو اس نے اپنے دیس جانے کی ٹھانی، تاکہ وہاں سے اپنی برادری میں سے کسی کو بیاہ لے، مگر پھر اس نے سوچا ان ستر اسی روپے میں کیا ہو گا، آنے جانے کا کرایہ بھی بڑی مشکل سے پورا ہو گا۔ چار سال کی محنت کے بعد اس نے یہ رقم جوڑی تھی، لیکن اس رقم سے وہ مراد آباد جا سکتا تھا، جا کے شادی نہیں کر سکتا تھا، اس لئے جھبو بھیا نے یہیں ایک بد معاش سے بات چیت کر کے اس عورت کو سو روپے میں خرید لیا، اسی روپے اس نے نقد دئیے، بیس روپے ادھار میں رہے جو اس نے ایک سال کے عرصے میں ادا کئے، بعد میں جھبو کو معلوم ہو کہ یہ عورت بھی مراد آباد کی رہنے والی تھی، اور ا سکی برادری کی تھی، جھبو برا خوش ہوا، چلو یہیں بیٹھے بیٹھے سب کام ہو گیا، اپنی ذات برادری کی اپنے ضلع کی اپنے دھرم کی عورت یہیں بیٹھے بیٹھے سو روپے میں مل گئی۔ اس نے بڑے چل چلاؤ سے اسے اپنا بیاہ رچایا، اور پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی لڑیا بہت اچھی گاتی ہے، وہ خود بھی اپنی پاٹ دار آواز میں زور سے گانے بلکہ گانے سے زیادہ چلانے کا شوقین تھا، اب تو کھولی میں دن رات گویا کسی نے ریڈیو کھول دیا ہو، دن میں کھولی میں لڑیا کا کام کرتے ہوئے گاتی تھی، رات کو جھبو اور لڑیا دونوں گاتے تھے۔ ان کے ہاں کوئی بچہ نہ تھا، اس لئے انہوں نے ایک توتا پال رکھا تھا، لڑیا میں ایک اور بات بھی تھی، جھبو بیٹری پیے سگریٹ پئیے نے تاڑی لڑیا بیڑی سگریٹ سبھی کچھ پیتی تھی، کہتی تھی پہلے وہ سب نہیں جانتی تھی، مگر جب سے بد معاش کے پلے پڑی اسے یہ سب باتیں سیکھنا پڑیں ، اور اب وہ اور سب باتیں تو چھوڑ سکتی ہے مگر بیڑی اور تاڑی نہیں چھوڑ سکتی، کئی بار تاڑی پی کر لڑیا نے جھبو پر جملہ کیا، اور جھبو نے اسے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا، اس موقع پر توتا بہت شور مچاتا تھا اور رات کو دونوں کو گالیاں بکتے دیکھ کر خود بھی پنجرے میں ٹنگا ہوا زور زور سے چلا کر وہ ہی گالیاں بکتا جو وہ دونوں بکتے تھے۔ ایک بار تو اس کی گالی سن کر جھبو غصہ میں آ کر طوطے کو پنجرے سمیت بدرو میں پھینکنے لگا تھا، مگر جیونا نے بیچ میں پڑ کر توتے کو بچا لیا، توتے کو مارنا بڑا پاپ ہے، مگر جیونا نے کہا برہمنوں کو بلا کے پرایشچت کرنا پڑے گا، اور تمھیں پندرہ بیس روپے کھل جائیں گے، یہ سوچ کر جھبو نے توتے کو بدرو میں غرق کرنے کا خیال ترک کر دیا۔ شروع شروع میں تو جھبو کو ایسی شادی پر چاروں طرف سے گالیاں پڑیں ، وہ خود بھی لڑیا کو بڑے شبہہ کی نظروں سے دیکھتا رہا، اور کئی بار اسے بلاوجہ پیٹا، اور خود بھی مل سے غیر حاضر رہ کر اس کی نگرانی کرتا رہا، مگر آہستہ آہستہ لڑیا نے اپنا اعتبار ساری چال میں قائم کر لیا، لڑیا کہتی ہے کہ عورت سچے دل سے بدمعاشوں کے پلے پڑنا پسند نہیں کرتی، وہ تو ایک گھر چاہتی ہے چاہے وہ چھوٹا ہی سا گھر ہو۔ وہ ایک خاوند چاہتی تھی جو اس کا اپنا ہو چاہے وہ جھبو بھیا ایسا شور مچانے والا زبان دراز، شیخی خوار ہی کیوں نہ ہو، وہ ایک ننھا بچہ چاہتی ہے چاہے وہ کتنا ہی بدصورت کیوں نہ ہو، اور اب لڑیا کے پاس گھر بھی تھا اور جھبو بھی تھا اور اگر بچہ نہیں تھا تو کیا ہو جائے گا، اور اگر نہیں ہوتا تو بھگوان ان کی مرضی یہ میاں مٹھو ہی اس کا بیٹا بنے گا۔ ایک روز لڑیا اپنے میاں مٹھو کا پنجرہ جھلا رہی تھی اور اسے چوری کھلا رہی تھی، اور اپنے دن کے سپنوں میں اس ننھے سے بالک کو دیکھ رہی تھی، جو فضا میں ہمکتا ہمکتا اس کی آغوش کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا کہ چال میں شور سا بڑھنے لگا، اور اس نے دروازے سے جھانک کر دیکھا کہ چند مزدور جھبو کو اٹھائے چلے آ رہے ہیں ، اور ان کے کپڑے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ لڑیا کا دل دھک سے رہ گیا، وہ بھاگتی ہوئی نیچے گئی، اس نے بڑی درشتی سے اپنے خاوند کو مزدوروں سے چھین کر اپنے کندھے پر اٹھا لیا، اور اپنی کھولی میں لے آئی، پوچھنے پر پتہ چلا کہ جھبو سے گنی کھاتے کے مینیجر نے کچھ ڈانٹ ڈپٹ کی، اس پر جھبو نے بھی اسے دو ہاتھ جڑ دئیے، اس پر بہت واویلا مچا، زور مینجر نے اپنے بدمعاشوں کو بلا کر جھبو کی خوب ٹھکائی کی اور اسے مل سے باہر نکال دیا، خیریت ہوئی کہ جھبو بچ گیا، ورنہ اس کی مرنے کی کوئی کسر نہیں تھی۔ لڑیا نے بڑی ہمت سے کام لیا، اس نے اسی روز سے اپنے سر پر ٹوکری اٹھا لی اور گلی گلی ترکاری بھاجی بیچنے لگی، جیسے وہ زندگی میں یہی دھندا کرتی آئی ہو، اس نے اسی طرح محنت مزدوری کر کے اس نے اپنے جھبو کو اچھا کر لیا، جھبو اب بھلا چنگا ہے مگر اب اسے کسی مل میں کام نہیں ملتا، وہ دن بھر اپنی کھولی میں کھڑا مہا لکشمی کے اسٹیشن کے چاروں طرف بلند و بالا کارخانوں کی چمنیوں کو تکتا رہتا ہے، سیون مل، نیو مل، اولڈ مل، پورا مل، معراج مل، لیکن اس کے لئے کسی مل کی جگہ نہیں ہے۔ کیونکہ مزدور کو گالی کھانے کا جق ہے گالی دینے کا جق نہیں ہے، آج کال لڑیا بازاروں اور گلیوں میں آوازیں دے کر بھاجی ترکاری فروخت کرتی ہے اور گھر کا سارا کام کاج کرتی ہے، اس نے بیٹری تاڑی سب چھوڑ دی ہے ہاں اس کی ساڑھی قرمزی بھورے رنگ کی ساڑھی جگہ جگہ سے پھٹی جا رہی ہے، تھوڑے دنوں تک اور اگر جھبو کو کام نہ ملا تو لڑیا کو اپنی ساڑھی میں پرانی ساڑھی کے ٹکڑے جوڑنا پڑیں گے، اور اپنے میاں مٹھو کو چوری کھلانا بند کرنا پڑے گا۔
پانچویں ساڑھی کا کنارہ گہرا نیلا ہے، ساڑھی کا رنگ گدلا سرخ ہے، لیکن کنارا گہرا نیلا ہے، اور اس نیلے میں اب بھی کہیں کہیں چمک باقی ہے، یہ ساڑھی دوسری ساڑھیوں سے بڑھیا ہے، کیونکہ یہ ساڑھی پانچ روپے چار آنے کی نہیں ہے، اس کا کپڑا، اس کی چمک، دمک کہے دیتی ہے، کہ یہ ان سے ذرا مختلف ہے، آپ کو دور سے یہ مختلف معلوم نہیں ہو گی، مگر میں یہ جانتا ہوں کہ یہ ان سے ذرا مختلف ہے اس کا کپڑا بہتر ہے، ا سکا کنار چمک دار ہے، اس کی قیمت پونے نو روپے ہے، یہ ساڑھی منجولا کی ہے، یہ ساڑھی منجولا کے بیاہ کے ہے، منجولا کے بیاہ کو ابھی چھ ماہ ہوئے تھے۔ اس کا خاوند گذشتہ ماہ چرخی کے گھومتے ہوئے پٹے کی لپیٹ میں آ کر مارا گیا، اور اب سولہ برس کی خوبصورت منجولا بیوہ ہے، اس کا دل جوان ہے، اس کا جسم جوان ہے، اس کی مانگیں جوان ہیں لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتی ہے کیوں کہ اس کا خاوند مل کے ایک حادثے میں مر گیا ہے وہ پٹہ بڑا ڈھیلا تھا اور گھومتے ہوئے بار بار پھٹپھٹاتا تھا اور کام کرنے والوں کے احتجاج کے باوجود اسے مل مالکوں نے نہیں بدلا تھا، کیوں کہ کام چل رہا تھا اور دوسری صورت میں تھوڑی دیر کے لئے کام بند کرنا پڑتا، پتہ کو تبدیل کرنے کے لئے روپیہ بھی خرچ ہوتا، مزدور تو کسی وقت بھی تبدل کیا جا سکتا ہے، اس کے لئے روپیہ تھوڑی خرچ ہوتا ہے لیکن پٹہ تو بڑی قیمتی چیز ہے جب منجولا کا خاوند مارا گیا تو منجولا نے ہرجانے کی درخواست دی جو نامنظور ہوئی کیونکہ منجولا کا خاوند اپنی غفلت کی وجہ سے مرا تھا، اس وجہ سے منجولا کو کوئی ہرجانہ نہ ملا، اور وہ اپنی وہی نئی دلہن کی ساڑی پہنے رہی جو اس کے خاوند نے پونے نو روپے میں اس کے لئے خریدی تھی۔ کیوں کہ اس کے پاس کوئی دوسری ساڑھی نہیں تھی، جو وہ اپنے خاوند کی موت کے سوگ میں پہن سکتی، وہ اپنے خاوند کے مر جانے کے بعد بھی دلہن کا لباس پہننے پر مجبور تھی، کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسری ساڑھی نہ تھی، اور جو ساڑھی تھی وہ یہ ہی گدلے سرخ رنگ کی پونے نو روپے کی ساڑھی جس کا رنگ گہرا نیلا تھا۔ شاید اب منجولا بھی پانچ روپے چار آنے کی ساڑھی پہنے گی، اس کا خاوند زندہ رہتا جب بھی وہ دوسری ساڑھی پانچ روپے چار آنے میں لاتی، اس لحاظ سے اس کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا، مگر فرق انتا ضرر ہوا ہے کہ وہ یہ ساڑھی آج پہننا چاہتی ہے، ایک سفید ساڑھی اسے دن رات کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے اس ساڑھی سے جیسے ا سکے مرحوم خاوند کی مضبوط باہیں لپٹی ہیں ، جیسے اس کے ہر تار پر اس کے شفاف بو سے مرتسم ہیں ۔ جیسے اس کے تانے بانے میں اس کے خاوند کی گرم گرم سانسوں کی حدت آمیز غنودگی ہے، اس کے سیاہ بالوں والی چھاتی کا سارا پیار دفن ہے، جیسے یہ ساڑھی نہیں ہے، ایک گہری قبر ہے، جس کی ہولناک پہنائیوں کو ہر وقت اپنے جسم کے گرد لپیٹ لینے پر مجبور ہے، منجولا زندہ قبر میں گاڑی جا رہی ہے۔
چھٹی ساڑھی کا رنگ لال ہے، لیکن اسے یہاں نہیں ہونا چاہئیے کیوں کہ اسے پہننے والی مر چکی ہے، پھر بھی یہ ساڑھی یہاں جنگلے پر بدستور موجود ہے، روز کی طرح دہل دہلی ہوا میں جھول رہی ہے، یہ مائی کی ساڑھی ہے جو ہماری چال کے دروازے کے قریب اندر کھلے آنگن میں رہا کرتی تھی، مائی کا ایک بیٹا تھا۔ سیتو، وہ اب جیل میں ہے، سیتو کی بیوی اور اس کا لڑکا یہیں نیچے آنگن میں دروازے کے قریب دیوار کے نیچے پڑے رہتے ہیں ، سیتو اور سیتو کی بیوی اور ا سکی لڑکی اور بڑھیا مائی یہ سب لوگ ہماری چال کے بھنگی ہیں ، ان کے لئے کھولی بھی نہیں ہے، اور ان کے کے لئے اتنا کھانا کپڑا بھی نہیں ملتا جتنا ہم لوگوں کو ملتا ہے اس لئے یہ لوگ آنگن میں رہتے ہیں وہیں کھانا پکاتے ہیں ، وہیں پڑ کے سوتے ہیں ، یہیں یہ بڑھیا مار دی گئی تھی۔ وہ بڑا سوراخ تھا، آپ اس ساڑھی میں دیکھ سکتے ہیں ، پلو کے قریب یہ گولی لگی تھی، نہیں وہ اس ہڑتال میں حصہ نہیں لے رہی تھی، وہ بے چاری تو بہت بوڑھی تھی، چل پھر نہ سکتی تھی، اس ہڑتال میں تو اس کا بیٹا سیتو اور دوسرے بھنگی شامل تھے، یہ لونگ مہنگائی مانگتے تھے، اور کھولی کا کرایہ مانگتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ہڑتال کی تہی اور جب ہڑتال خلاف قانون قرار دے دی گئی، تو ان لوگوں نے جلوس نکالا اور اس جلوس میں مائی کا بیٹا سیتو آگے آگے تھا اور خوب زور شور سے نعرے لگاتا تھا۔ اور پھر جب جلوس بھی خلاف قانون قرار دے دیا گیا تو گولی چلی اور ہماری چال کے سامنے چلی ہم لوگوں نے تو اپنے دروازے بند کر لئے لیکن گھبراہٹ میں چال کا دروازہ بند کرنا کسی کو یاد نہ رہا، اور پھر ہم کو اپنے بند کمروں میں ایسا معلوم ہوا گویا گولی ادھر سے ادھر سے چاروں طرف سے چل رہی تھی، تھوڑی دیر بعد بالکل سناٹا ہو گیا اور جب ہم لوگوں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا اور باہر جھانکا تو جلوس تتر بتر ہو گیا تھا اور ہماری چال کے دروازے کے قریب بڑھیا پڑی تھی۔ یہ اسی بڑھیا کی لال ساڑھی ہے جس کا بیٹا سیتو اب جیل میں ہے، اس لال ساڑھی کو اب بڑھیا کی بہو پہنتی ہے، اس ساڑھی کو بڑھیا کے ساتھ جلا دینا چاہئے تھا مگر کیا کیا جائے تن ڈھکنا ضروری ہے، مردوں کی عزت اور احترام سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہے کہ زندوں کا تن ڈھکا جائے۔ یہ ساڑھی جلنے جلانے کے لئے نہیں ہے تن ڈھکنے کے لئے ہے، ہاں کبھی کبھی سیتو کی بیوی ا سکے پلو سے اپنے آنسو پونچھ لیتی ہے، کیوں کہ اس میں پچھلے اسی برسوں کے سارے آنسو اور ساری امنگیں اور ساری فتحیں اور شکستیں جذب ہیں آنسو پونچھ کر سیتو کی بیوی پھر اسی ہمت سے کام کرنے لگتی ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ، گولی چلی ہی نہیں ، کوئی جیل نہیں گیا، بھنگن کی جھاڑو اسی طرح چلنے لگی۔ اے لو باتوں باتوں میں وزیر اعظم صاحب کی گاڑی نکل گئی، وہ یہاں نہیں ٹھہری میں سمجھا تھا، وہ یہاں ضرور ٹھہرے گی، وزیر اعظم صاحب درشن دینے کے لئے گاڑی سے نکل کر تھوڑی دیر کے لئے پلیٹ فارم پر ٹہلیں گے، اور شاید ہوا میں جھولتی ہوئی ان ساڑھیاں جو بہت ہی معمولی عورتوں کی ساڑھیاں ہیں ، ایسی معمولی عورتیں جو ہمارے دیس کے چھوٹے چھوٹے گھر بنتے ہیں جہاں ایک کونے میں چولھا سلگتا ہے۔ ایک کونے میں پانی کا گھڑا رکھا ہے اور ہر طاقچے میں شیشہ ہے کنگھی ہے اور سیندور کی ڈبیہ ہے کھاٹ پر ننھا بچہ سو رہا ہے، الگنی پر کپڑے سوکھ رہے ہیں ، ان چھوٹے چھوٹے لاکھوں کروڑوں گھروں کو باننے والی عورتوں کی ساڑھیاں جنہیں ہم ہندوستانی کہتے ہیں یہ عورتیں جو ہمارے پیارے پیارے بچوں کی مائیں ہیں ، ہمارے بھولے بھائیوں کی عزیز بہنیں ہیں ، ہماری معصوم محبتوں کا گیت ہیں ، ہماری پانچ ہزار سالہ تہذیب کا سب سے اونچا نشان ہیں ، وزیر اعظم صاحب یہ ہوا میں جھولتی ہوئی ساڑھیاں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہیں ، تم سے کچھ مانگتی ہیں ، یہ کوئی بہت بڑی قیمتی چیز نہیں تم سے نہیں مانگتی ہیں ۔ یہ کوئی برا عہدہ،کوئی بڑی موٹر کار، کوئی پرمٹ کوئی ٹھیکا کوئی پراپرٹی،یہ ایسی کسی چیز کی تم سے طالب نہیں ہیں ، یہ تو زندگی کی بہت ہی چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتی ہیں ، دیکھئیے یہ شانتا بائی کی ساڑھی ہے جو اپنے بچپن کی کھوئی ہوئی دھنک تم سے مانگتی ہے، یہ جیونا بائی کی ساڑھی ہے جو اپنی آنکھ کی روشنی اور اپنی بیٹی کی عزت مانگتی ہے۔ یہ ساوتری کی ساڑھی ہے جس کے گیت مر چکے ہیں اور جس کے پاس اپنے بچوں کے ا سکول کے لئے فیس نہیں ہے، یہ لڑیا ہے جس کا خاوند بے کار ہے اور جس کے کمرے میں ایک توتا ہے جو دو دن سے بھوکا ہے، یہ نئی دلہن کی ساڑھی ہے جس کے خاوند کی زندگی چمڑے کے پٹے کی قیمت سے بھی کم ہے، یہ بڑی بھنگن کی لال ساڑی ہے، جو بندوق کی گولی کو ہل کی پھال میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ دھرتی سے انسان کا لہو پھول بن کر کھل اٹھے اور گندم کے سنہرے خوشے ہنس کر لہرانے لگیں ۔ لیکن وزیر اعظم صاحب کی گاڑی نہیں رکی اور وہ ان چہ ساڑیوں کو نہیں دیکھ سکے اور تقریر کرنے کیلئے، چوپاٹی چلے گئے، اس لئے اب میں آپ سے کہتا ہوں کہ اگر کبھی آپ کی گاڑی ادھر سے گزرے تو آپ ان چھ ساڑھیوں کو ضرور دیکھئے جو مہا لکشمی کے پل کے بائیں جانب لٹک رہی ہیں ، اور پھر آپ ان رنگا رنگ ریشمیں ساڑھیوں کو بھی دیکھیں جنھیں دھوبیوں نے اسی پل کے دائیں طرف سوکھنے کے لئے لٹکایا ہے۔ اور جو ان گھروں سے آئی ہیں جہاں اونچی اونچی کمپنیوں والے یا کارخانے والے یا اونچی اونچی تنخواہ پانے والے رہتے ہیں ، آپ اس پل کے دائیں بائیں دونوں طرف دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے پوچھئے کہ آپ کس کی طرف جانا چاہتے ہیں ، دیکھئیے میں آپ سے اشترا کی بننے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں ، میں آپ کو جماعتی جنگ کی تلقین کر رہا ہوں ، میں صرف یہ جانتا ہوں ، کہ آپ مہا لکشمی کے پل کے دائیں طرف ہیں یا بائیں طرف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔