02:10    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ناول / افسانے

1957 1 0 00

ایک زخم اور سہی۔۔۔۔ - ڈاکٹر اشفاق احمد

اپنا دکھ

صبح ہوتے ہی بیٹے نے ملازمہ کے ہاتھوں ایک چٹھی دیکر اپنی والدہ کے پاس بھیجا۔۔۔چھٹی میں لکھا تھا ۔ ’’امی جان ! کل آپ ہمارے گھر آئیں اور ہمارے بیٹے عاصم کو لیکر چلی گئیں۔ اگر ہم موجود ہوتے تو شاید اُسے آپ کے ہمراہ جانے نہ دیتے کیوں کہ وہ ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے، اس کے بغیر ایک دن گزارنا ہمارے لئے محال ہے۔ وہ نہیں تھا تو کل شام کا کھانا بھی کھایا نہ جا سکا۔ رات میں اس کی امی اور میں سو نہ سکے۔ ملازمہ کو بھیج رہا ہوں ہمارا بیٹا لوٹا دو۔‘‘

ماں نے اپنے پوتے کو لوٹا دیا۔ مگر ساتھ میں ایک چھٹی بھی دی۔ جس میں لکھا تھا ۔

’’تمھیں اپنے بیٹے سے دوری کا کس قدر احساس ہوا۔ اب تمہیں معلوم ہوا ہوگا کہ بیٹے کی جدائی کا غم کیا ہوتا ہے۔ اپنی شادی ہو جانے کے بعد تم نے ہمارا چہرہ بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔ تمہارا ایک دن میں یہ حال ہوا ہے۔۔۔۔

’’ذرا سوچو ! تم مجھ سے دس سال سے جدا ہو، میرا کیا حال ہو رہا ہوگا؟ ‘‘۔!!

خواب کبھی سچ نہیں ہوتے

لوگوں کی بھیڑ اُس جگہ جمع تھی جہاں ایک مزدور دو منزلہ عمارت سے گر کر مر چکا تھا زمین پر دو پوسٹ کارڈ بھی اسکی جیب سے گر پڑے تھے ایک خط اسکی بیوی نے لکھا تھا۔’’ کل رات میں نے ایک بھیانک خواب دیکھا ہے آپ کام کرتے کرتے بہت اونچائی سے گر کر مالک حقیقی سے جا ملے ہیں خدا نہ کرے ایسا ہو لیکن جب سے خواب دیکھا ہے میں بہت پریشان ہوں آپ فوراً چلے آؤ۔ ‘‘

دوسرا خط مزدور نے اپنی بیوی کے خط کے جواب میں لکھا تھا جسے وہ پوسٹ نہیں کر پایا تھا۔ خط میں لکھا تھا ۔

’’ میں یہاں خیریت سے ہوں تم پریشان کیوں ہوتی ہو۔

 یاد رکھو خواب کبھی سچ نہیں ہوتے ۔.!!‘‘

سمجھوتہ

اس نے اپنے خط میں لکھا تھا ۔۔۔ ’’ میں نے اجنبی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اب مجھے ساری خوشیاں مل گئی ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔ اب تم میرے بارے میں سوچا نہ کرو۔ خدا کرے تمہاری زندگی بھی تمہیں خوشیاں دیں‘‘۔۔۔۔ اس کا خط میں مشکل سے پڑھ پاتا ہوں۔ کیونکہ سیاہی جگہ جگہ سے پھیلی ہوئی ہے۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک ہلکی سی کرن نمودار ہوتی ہے اور پھر اس کے خیال کے دو موٹے موٹے آنسو میری پلکوں پر چمکتے ہیں اور خط پر بنے ہوئے باقی حرفوں کو بھی سیاہی بنا دیتے ہیں۔

شاید یہ لکھنے کے لئے کہ ’’ میں بھی بہت خوش ہوں، مجھے بھی ساری خوشیاں مل گئی ہیں۔

پلیز تم میرے بارے میں سوچا نہ کرو۔.!!‘‘

فرق

دونوں بھائیوں نے جب ایک دوسرے کی بغل میں مکانات بنائے تو ایک نے تین منزلہ عمارت کھڑی کردی اور دوسرا بھائی تین کمروں پر مشتمل سادہ سا مکان بڑی مشکلوں سے بنا سکا۔

یوں تو دونوں بھائی ایک ہی محکمہ میں کلرک کے عہدے پر فائز تھے۔۔ فرق صرف ٹیبل کا تھا۔

نابینا مسافر

وہ جس راستے پر چل رہا تھا خود نہیں جانتا تھا کہ وہ صراط مستقیم ہے یا پھر گمراہی کا راستہ ۔ اسے راہ میں ایک شخص ملا بھی تھا اس نے یہ کہہ کر اسے اپنے ساتھ لیا تھا کہ تم راستہ بھول گئے ہو۔ آؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا دوں۔

بے چارہ نابینا مسافر کر تا بھی کیا وہ تو اپنے راستے کے نشانات خود نہیں دیکھ سکتا تھا چپ چاپ اس کے پیچھے ہو لیا۔ لیکن راستہ چلتے چلتے جب منزل قریب آ گئی تو پتہ چلا کہ وہ جس راستہ سے چل کر آیا ہے وہ تو گمراہی کا راستہ تھا اور راہ میں جس شخص نے اس کی راہ نمائی کی تھی وہ خضر نہیں بلکہ شیطان تھا وہ حواس کھو بیٹھا۔ حیف ۔ ۔ ! دنیا تو دنیا آخرت بھی تباہ ہو گئی۔

اب وہ پچھتا رہا تھا اے کاش کہ وہ جاہل نہ ہوتا علم کی آنکھیں اس کے پاس ہوتیں تو وہ ان آنکھوں کی روشنی میں اپنی کامیاب زندگی اور آخرت کے لئے سفر کا آغاز صراط مستقیم سے کرتا۔ صحیح اور غلط سے واقف ہوتا سفر میں وہ نہ راستہ بھولتا اور نہ ہی کوئی بہکا سکتا۔۔۔ لیکن اب پچھتا نے سے کیا حاصل ؟ بہت دیر ہو چکی تھی زندگی کا سفر ختم ہو چکا تھا۔ اب تو جہنم اس کا انتظار کر رہی تھی!!

بچپن

اخبار فروش نے جب تازہ اخبار دروازے کی دہلیز پر ڈالا تو میرا بیٹا اور میرے ضعیف والد دونوں دوڑ پڑے۔ مجھے یاد آیا. آج بد ھ ہے اخبار میں بچوں کا خصوصی صفحہ ’’بچپن‘‘ شائع ہوتا ہے۔

بیٹے نے جلدی سے دوڑ کر اخبار جھپٹ لیا اور بچوں کا صفحہ نکالنے لگا۔ ضعیف والد نے بھی اس صفحہ کو چھیننے کی کوشش کی۔

دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کا صفحہ پھٹ گیا ۔

اور پھر وہ دونوں لڑ پڑے !!

ایک ہی کشتی کے سوار

’’فوزیہ تم آج بھی مجھے پریشان دکھائی دے رہی ہو۔ کہو  کیا بات ہے ؟‘‘

’’میرے سر تاج میں ۔۔ میں آج بھی شاید خواب ہی دیکھ رہی ہوں کہ شہر کے مشہور و معروف دولت مند وکیل نے مجھ غریب اور مجبور لڑکی کو اپنایا۔‘‘

’’نہیں فوزیہ .یہ خواب نہیں حقیقت ہے تم جانتی ہو بیوی کا انتقال ہو جانے کے بعد میں نے دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کیونکہ مجھے اپنے بچوں سے بے انتہا محبت ہے اور میں اپنے بچوں کو ذہنی اذیت کا شکار ہونے نہیں دینا چاہتا تھا لیکن جب والدین کی ضد بڑھتی گئی تو مجھے مجبور ہونا پڑا اور میں نے تمہیں شریک حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

تم حیران ہو کہ آخر میں نے تمہیں ہی پسند کیوں کیا ہے۔ فوزیہ وجہ یہ ہے کہ میں نے پڑوس میں رہ کر تمہیں بچپن ہی سے اپنی سوتیلی ماں کے ہاتھوں پل پل دکھ جھیلتے اور اذیتیں اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے، تم ہمیشہ سلگتی اور بکھرتی رہی ہو۔

میں نے سوچا تم نے سوتیلے پن کا کرب سہا ہے تم اس درد کو محسوس کرتی ہو لہذا ان معصوم بچوں کو وہ دکھ کبھی نہیں دو گی جو تم نے جھیلے ہیں۔!! ‘‘

بہت دیر کر دی

جب بھی اسے کوئی نماز پڑھنے کی تلقین کرتا تو وہ یہی کہتا۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے دو۔ پھر داڑھی رکھ کر ایک مسجد کا کونا سنبھال لوں گا۔ ملازمت سے سبکدوش ہوا تو اس نے بچوں کے لئے ایک عالیشان مکان بنانے کا ارادہ کیا تقریباً ایک سال کا عرصہ اپنی مرضی کے بام و در بنانے میں گزر گیا۔

آج مکا ن کا ا فتتاح تھا۔ برقی قمقموں سے عالیشان عمارت جگمگا رہی تھی۔ اس کے قدم سجدہ شکر کے لئے مسجد کی جانب چل پڑے ۔ اس نے اب طے کر لیا تھا کہ وہ کل سے اپنا زیادہ تر وقت مسجد میں گزارے گا اور ا ﷲ تعالیٰ کی عبادت کرے گا۔

ابھی وہ مسجد کی سیٹرھیاں چڑھ ہی رہا تھا کہ اس کی حرکت قلب بند ہو گئی اور مسجد کے باہر ہی اس کی روح پرواز کر گئی !!

مصلحت

گاؤں کے اس فقیر کی شادی ہو گئی جو دونوں آنکھوں سے اندھا تھا۔ لیکن افسوس کہ جس لڑکی سے اس کی شادی ہوئی اﷲ تعالیٰ نے اس کی آنکھیں بھی بچپن ہی میں چھین لی تھیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہوئے بھی بے سہارا تھے لیکن جب میں چھ سات سال بعد اپنے گاؤں واپس لوٹا تو دیکھا کہ وہ دونوں اپنے بچہ کے سہارے چل رہے تھے. جس کی آنکھیں بڑی خوبصورت تھیں!!

خدمت گار

بس اپنا توازن کھو چکی تھی چالیس مسافر جان بحق ہو چکے تھے بس کھائی میں گرتے ہی خدمت گار وہاں پہنچ گئے زندگی اور موت کے بیچ سانسیں گن رہے جسموں سے بچاؤ بچاؤ کی آوازیں آ رہی تھیں۔

لیکن خدمت گار انھیں بچانے کی بجائے وہ ان مردہ عورتوں کو اپنے کاندھوں پر لیے اسپتال کی جانب دوڑ رہے تھے جو زیورات سے لدی پھندی تھیں!!

دکھتی رگ

’’تم خاموش کیوں رہتی ہو۔۔۔ ؟‘‘

’’میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ اُس نے مصنوعی ہنسی ہونٹوں پر چسپاں کرنے کی کوشش کی۔

’’ نہیں تم ضرور کچھ نہ کچھ سوچتی رہتی ہو۔ اور تمہارے وہ خیالات تمہارے چہرے پر اداسی کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے تم اُسے ابھی تک نہیں بھولیں۔ آخر تم اُسے بھول کیوں نہیں جاتیں۔‘‘

یہ سن کر اسکے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’کون کس کو بھولتا ہے راکیش۔۔۔؟‘‘

اُس نے رومال آنکھوں کے قریب لے جاتے ہوئے کہا۔

’’رادھا ۔۔۔ آج ۔۔۔۔ آج تم نے میرے دل کی بات کہہ دی۔۔۔!!‘‘

بھوِش وانی

میں جب بھی اُس طرف سے گزرتا جیوتش کو ہمیشہ ہی آدمیوں کے بیچ گھرا پاتا۔ وہ ہاتھوں میں کھینچی آڑی ترچھی لکیروں کو پڑھ کر لوگوں کو اُن کی قسمت کے فیصلوں سے آگاہ کرتا تھا۔

ایک دن میں بھی اس بھیڑ میں چلا گیا لیکن میری باری آنے تک بہت رات ہو چکی تھی۔ وہ ہماری جانب دیکھ کر کہنے لگا۔

’’ تم لوگوں کی ’’بھوش وانی‘‘ میں کل بتاؤں گا کل تم ضرور آنا۔ میں تمہیں یہیں ملوں گا۔‘‘

دوسرے دن جب ہم وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ دوسروں کی قسمت کی لکیروں کو پڑھنے والا خود اپنی قسمت کی لکیروں سے نا آشنا تھا۔

وہ تو آج صبح ہی اِس دنیا سے کوچ کر چکا!!

تبدیلی

وہ غریبوں کی بستی اندرا نگر میں پیدا ہوا تھا۔ بچپن بھی اسی بستی میں گزرا لیکن جب بڑا ہو ا تو خوش نصیبی سے سعودی عرب چلا گیا۔ دس سال بعد جب و ہ وطن لوٹ کر اپنی بستی میں پہنچا تو اسکے منہ پر سفید رومال تھا اور وہ پیشانی پر بل ڈالے اپنے ہی بچپن کے ساتھیوں سے ان کا تعارف پوچھ رہا تھا۔

جنازہ

وہ اردو زبان کا مشہور و معروف محقق ادیب و شاعر تھا اس نے اپنی زندگی میں اردو زبان و ادب کی ترقی اسکی اشاعت اور مادری زبان کی اہمیت اور ضرورت پر سینکڑوں مقالے لکھے تھے۔ ایک دن اچانک اس کا انتقال ہو گیا اس کی حادثاتی موت کے دو  ماہ بعد انکے فرزندوں نے اپنے والد کی کتابوں کا اثاثہ باہر نکالا۔ کتابوں سے کئی الماریاں پُر تھیں پاس پڑوس کے لوگ کتابوں کی الماریوں کے اطراف ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور ان کے بچے اس اثاثہ کو کباڑی کی دکان پر لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اثاثہ اب انکے کسی کام کا نہ تھا کیونکہ انکی پوری تعلیم انگلش میڈیم سے ہوئی تھی۔!!!!

قربتوں کی دوریاں

’’میں تمہیں کیسے سمجھاؤں فرح.؟

یہ تو ایک بے جوڑ رشتہ ہے جس سے مجھے زبردستی باندھ دیا گیا ہے۔ میں نے نہ تو کبھی اُسے چاہا اور نہ ہی کبھی چا ہوں گا۔ یہ روشن حقیقت ہے کہ میں نے تم سے محبت کی ہے۔ میرے دل کے نہاں خانے میں بس تم ہی تم ہو۔ میں ہمیشہ تمہارا ہی رہوں گا۔ وہ کتنی بد نصیب ہے کہ میری ہو کر بھی میں اسکا نہ ہو سکوں گا ۔ وہ زندگی بھر سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہے گی مگر قربتوں کی یہ دوریاں ختم نہ کر سکیں گی۔

فرح  محبت جسم سے نہیں روح سے ہوتی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے فریب تمہیں نہیں بلکہ اُسے دیا ہے شاید کہ تم سمجھ سکو۔۔۔!!‘‘

خود شناسی

کانٹا کہہ رہا تھا ۔

۔۔’’میں بظاہر بہت چھوٹا ہوں لیکن بہت طاقتور ہوں میری فطرت میں چبھنا ہے میں کسی بھی شئے کو تکلیف پہنچا کر اُسے مٹا سکتا ہوں . یہ پھول . یہ شاخ. یہ درخت سب میرے نزدیک حقیر و کمتر ہیں پھر ایک دن اُس نے جس شاخ پر جنم لیا تھا اُسے ہی چبھ کر تکلیف دینے لگا لیکن اُسے مٹانے کی کوشش میں وہ خود ہی زمین پر آرہا ۔ تب اُسے معلوم ہوا کہ درخت تو بڑا تناور ہے وہ شاخ جس پر اُس نے جنم لیا تھا اب بھی سر سبز و شاداب ہے۔ پھول اپنی خوشبو سے ماحول کو حسب معمول معطر کر رہے ہیں۔ وہ جنھیں حقیر و ذلیل سمجھتا تھا وہ تو بلند و برتر ہیں۔

حقیر و ذلیل تو وہ خود ہے۔ !!.‘‘

لمحۂ فکریہ

وہ نو مسلم رشتہ ازدواج میں بندھ چکا تھا میں جب مبارک باد دینے اسکے گھر پہنچا تو دیکھا اسکی بیوی جسے دین فطرت وراثت میں ملا تھا اپنے نو مسلم شوہر سے قرآن پڑھنا سیکھ رہی تھی۔ !!

نیا رشتہ

بیوی کے مر جانے کے بعد اُس کے اکلوتے بیٹے راجیش کا بھی انتقال ہو گیا اور گھر میں صرف وہ اور اسکی بہو رہ گئی چونکہ بہو کا بھی کوئی وارث نہیں تھا اس لئے وہ کہیں جانے کی بجائے گھر ہی میں رہنے لگی۔

وقت بیتتا گیا ۔

دو ماہ بعد

دونوں گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے وہاں ایک نئے رشتہ نے جنم دیا۔

اور پھر

نئے شہر میں وہ دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے پکارے جانے لگے!!

جب وقت پڑا

الیکشن سے پہلے.

’’کیا تم نے مزدوروں کی مدد کے لئے سارا انتظام کر لیا ہے  ؟‘‘

’’جی سر ‘‘

’’جاؤ انھیں ہمارے اسٹیج کے سامنے بٹھاؤ.اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھنا ۔ وہ ہمارا ووٹ بینک ہے۔‘‘

الیکشن کے بعد

’’کیا پروگرام کی ساری تیاریاں ہو چکی ہیں؟ ‘‘

’’جی سر .‘‘

’’ میرے پروگرام میں کم از کم آٹھ دس ہزار سامعین ہونے چاہئے.‘‘

’’ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں سر۔‘‘

’’ لیکن خیال رہے اسٹیج کے سامنے سبھی سوٹ بوٹ والے لوگوں کو بٹھانا اور مزدور پیشہ لوگوں کو نعرے لگانے اور تالیاں بجانے کے لئے پیچھے کھڑے کر دینا !!‘‘

’’جی سر ۱۱‘‘

ایک زخم اور سہی

’’تم یہاں کیوں آتی ہو ؟‘‘

’’تم سے ملنے‘‘

’’لیکن روزانہ آنے کی وجہ؟‘‘

’’میں نہیں جانتی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ سے ملنے کے بعد ہی میرے دل کو قرار آتا ہے۔‘‘

’’سنو ۔ یہ پاگلوں کی سی باتیں نہ کرو میں نے محبت سے توبہ کر لی ہے یوں بھی میرے دل میں کئی درد پل رہے ہیں۔ میرا دل زخموں سے چور ہے۔‘‘

’’ میں جانتی ہوں اسی لئے اُن زخموں کو مندمل کرنے کے لئے کہہ رہی ہوں۔

ایک زخم اور سہی  !!‘‘

یہ رشتے یہ موڑ

میں اس راستے پر چل پڑا جس راستے پر تم مجھے ہمیشہ ملا کرتی تھیں لیکن اس مرتبہ جب تم مجھے نہیں ملیں تو میں پریشان ہو گیا اور پھر نا امید ہو کر اس راستے پر نکل پڑا جسے نہ تم پسند کرتی تھیں اور نہ ہی میں۔

لیکن اسی راستے پر تم مجھے اچانک مل گئیں!!

پہلُو کا دکھ

جنازہ کے پیچھے پیچھے جانے والے لوگوں کو حیرت تھی کہ شریک حیات کا انتقال ہو جانے پر بھی اسکی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلے بھیڑ میں کسی نے سر گوشی کی ہو سکتا ہے اس سانحہ پر اُسے کوئی غم ہی نہ ہوا ہو لیکن شاید لوگوں کو اس کا علم نہ تھا کہ اُسے غم کھانے اور آنسو پینے کا ہنر بھی آتا ہے۔

دوسرے دن وہ تنہائی کی چادر اوڑھے خاموش رہنے لگا۔ روزانہ صبح اٹھ کر قبرستان جاتا ، اس کا معمول بن گیا اور پھر چار ماہ بعد یہ خبر بھی حیرت و استعجاب میں ڈوبے لوگوں کو سنا دی گئی کہ شریک حیات کی موت پر آنسو نہ بہانے والا حرکت قلب بند ہو جانے پر اس دار فانی سے کوچ کر گیا ہے۔

فارملٹی

’’میں نے سنا ہے۔ آج خالی اسامیوں کے لئے آپ نے امیدواروں کا انٹر ویو لیا ہے۔‘‘

’’جی ہاں ۔‘‘

’’ تو کیا امیدواروں کا سلیکشن ہو گیا۔ ؟‘‘

’’جی نہیں۔ یہ تو فارملٹی ہے قانون کے دائرے میں رہنے کے لئے امیدواروں کا انٹر ویو لینا ہی پڑتا ہے۔ اصل انٹرو یو تو والدین کا ہوتا ہے۔ اور وہ ابھی ہونا باقی ہے!!‘‘

تعلق کا راز

آج صبح ہی پولس آئی اور انکوائری کر کے سڑک کے کنارے پتلے کپڑے میں لپٹے نوزائیدہ بچہ کو پولس اسٹیشن لے جا کر انسپکٹر کے سامنے حاضر کر دیا۔

’’ صاحب یہ بچہ سڑک کے کنارے پڑا ملا ہے‘‘۔

’’پوچھ تاچھ کی ہے ؟‘‘

’’ یس سر یہ بچہ دیپا نام کی لڑکی کا ہے۔ بچے کے سینے پر سفید داغ ہے اور بس.بس.خاموش ہو جاؤ تم جا سکتے ہو۔‘‘

انسپکٹر کا سر چکرا گیا۔ وہ کسی پاگل کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔ اور پھر ایک لمحہ بعد اپنی حالت پر قابو پا کر وہ شرٹ کا بٹن لگا رہا تھا تا کہ کوئی اسکے سینے کا سفید داغ نہ دیکھ لے۔

وقت کی کروٹ

معصوم بچہ جب روکھی سوکھی روٹی کھا کر اچھل کود کرتا تو ماں کہتی بیٹا زیادہ اچھل کود نہ کرور نہ تجھے بھوک لگ جائے گی تو میں پھر روٹی کہاں سے لاؤں گی۔

لیکن آج بچہ کا چہرہ خوشی سے کھلا ہو ا تھا وہ پیٹ بھر کھانا کھا کر خوب دھوم دھڑکا اور شرارتیں کر رہا تھا۔ ماں بھی اسے ڈانٹنے کی بجائے اس کی شرارتوں پر ہنس رہی تھی۔ بچہ اپنی ماں کو خوش دیکھ کر کہنے لگا۔

’’ماں تو سچ کہتی تھی کہ سبھی دن ایک جیسے نہیں رہتے۔ ماں جب سے زلزلہ آیا ہے ہمارے مصیبت کے دن گئے اب تو ہر ٹینٹ میں کھانا ملتا ہے اور میں دن بھر کھاتا رہتا ہوں !!‘‘

موت

وہ اب جینا نہیں چاہتا تھا زندگی کے مسائل حل کرتے کرتے وہ پریشان ہو چکا تھا لہذا اپنی پریشان کن زندگی سے چھٹکارہ پانے کے لئے اس نے خودکشی کر لی ۔ جیسے ہی اس نے اپنے آپ کو کنویں کے حوالے کیا لوگ دوڑ پڑے اور اسے زندہ سلامت نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن وہ زندہ رہ جانے پر پچھتا رہا تھا۔ اسے ان لوگوں پر غصہ آ رہا تھا جنھوں نے اسے بچا یا تھا۔

لیکن لوگوں نے اسے زندگی سے پیار کرنا سکھایا زندگی سے مقابلہ کرنے اور سلیقہ سے جینے کا حوصلہ دیا۔ دوسرے دن سے وہ نئے حوصلے اور نئے عزم کے ساتھ زندگی گزارنے لگا اسے زندگی سے پیار ہو گیا تھا اب وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔

لیکن چوتھے دن اسے ٹھوکر لگی وہ نیچے گر ا اور اس کی روح پرواز کر گئی!!

مردہ پرست

صبح سے ہی گھر کے سامنے شامیانہ لگا دیا گیا تھا گھر میں بہت چہل پہل تھی آج شام اُسی بیٹے نے اپنے مرحوم باپ کے ایصال ثواب کے لئے سینکڑوں لوگوں کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا جس نے مرحوم کو اپنی حیات میں ایک ایک وقت کے کھانے کے لئے تر سایا تھا۔ .!!

ہمدردی

وارڈ میں ایک مریض اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا۔’’ میں جب سے اس وارڈ میں ایڈ مِٹ ہو ا ہوں، دیکھ رہا ہوں یہ ڈاکٹر صاحب گو کہ رات میں ڈیوٹی پر نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر و بیشتر مریضوں کی بیمار پرسی کے لئے راؤنڈ  پر آ جاتے ہیں۔ یہ بیچارے بڑے فرض شناس اور نیک دل انسان ہیں۔ انہیں مریضوں سے بڑی ہمدردی ہے۔ ورنہ رات میں مریضوں کی فکر کو ن کرتا ہے .؟‘‘

پھر وہ نرس سے مخاطب ہوا.

’’کیا ڈاکٹر صاحب کا یہی معمول ہے ؟

نرس نے لاپرواہی سے جواب دیا

’’ جی نہیں  ڈاکٹر صاحب وارڈ میں ایک ڈیڑھ گھنٹے کے لئے ضرور آتے ہیں، لیکن .‘‘.

’’لیکن کیا. ؟‘‘

نرس نے آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔

’’لیکن ان راتوں میں جب یہ ڈاکٹر صاحبہ ڈیوٹی پر ہوتی ہیں. !!‘‘

انا کی موت

راہ پر رکھے چراغ نے کہا

’’میں بھٹکے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھاتا ہوں میں سب سے بڑا ہوں۔‘‘

مجلس میں رکھے چراغ نے کہا۔۔

’’لوگ میری روشنی کے اردگرد بیٹھ کر اچھی اور نیک باتیں کرتے ہیں لوگ ایک دوسرے کو نیک راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں میں نہ رہوں تو یہ نیک کام انجام نہ پائے لہذا میں بڑا ہوں۔‘‘

مندر میں رکھے چراغ نے کہا۔

’’میں تو مندر میں رہتا ہوں اور بھگوان کو روشنی میں میں نے ہی رکھا ہے ورنہ وہ تو کب کا اندھیروں میں ڈوب جاتا اس لئے میں تم سب سے بڑا ہوں۔‘‘

اتنے میں ایک ہلکا سا ہوا کا جھونکا آیا اور تینوں چراغوں کو بجھا کر چلا گیا۔۔!!

قربت

سفر میں وہ جیسے ہی پہلو بدل کر بیٹھ گئی میرے چہرے پر غصّہ کی چند لکیریں ابھر آئیں اور میں خاموش ہوگیا۔اور پھر دیر رات وہ پہلو بدلنے پر پچھتائی میں خاموش ہو جانے پر پچھتایا۔

لیکن۔۔۔۔ صبح ہوتے ہوتے خاموشی کا سکوت ٹوٹا۔ اور قہقہے بلند ہونے لگے۔

اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ میں پہلے سے زیادہ اُس سے محبت کرنے لگا ہوں۔!!

نا خلف بیٹے

وہ بے حد غریب سات چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ تھا ہمیشہ دو وقت کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے تگ ودو کرتا رہتا تھا لیکن اُسے ذہنی سکون تھا۔

وقت نے کروٹ بدلی۔ اسکی غربت کے دن ختم ہوئے بچّے اسکے قد کے برابر ہو گئے لیکن اب وہ ذہنی طور سے پریشان ہے کیونکہ اسکی زندگی کا سکون اسکے نا خلف اور آوارہ بیٹوں نے چھین لیا ہے۔

دو عکس

ایک اسٹیشن پر وہ بس میں سوار ہوا تو دیکھا تمام نشستیں پُر تھیں صرف ایک خاتون کے بازو والی نشست خالی تھی وہ وہاں بیٹھنا ہی چاہ رہا تھا کہ خاتون نے کہا۔

’’میں آپ کو یہاں بیٹھنے نہیں دوں گی۔ میرے بازو خاتون ہی بیٹھے گی۔‘‘

ایک آواز ابھری۔۔۔’’ اگر ایسا ہی تھا تو اپنا ریزرویشن کر وا لیتی۔‘‘

کسی دوسرے نے کہا۔۔۔’’ جب اپنے بازو خاتون ہی بٹھانا مقصود ہے تو سفر میں اپنے ہمراہ ایک خاتون رکھتی۔ ‘‘

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک خاتون جو پچھلی نشست پر بیٹھی تھی بول پڑی۔

’’یہاں گنجائش تو نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ میرے بازو آ جائیے میں ایڈجسٹ کر لیتی ہوں!!‘‘

اجالوں کا کرب

وہ بہت غریب تھا لیکن ایک دن اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور اسے لاٹری مل گئی دو لاکھ روپیہ ہاتھ آیا تو اس نے اپنے اور گھر کے افراد سے متعلق سو چنا شروع کیا ہزاروں خواہشوں نے سر اٹھایا اور پھر ان ڈھیر ساری خواہشوں کے درمیاں اس نے محسوس کیا کہ وہ تو اب پہلے سے بھی زیادہ غریب ہو گیا ہے!!

متّقی

وہ اپنی ڈاڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

’’میں جانتا ہوں اسلم  ساجد تمہارا اچھا دوست ہے لیکن وہ مجھے ایک پل نہیں بھا تا وہ نہایت بد تمیز ، جھوٹا ، مطلب پرست اور فریبی ہے ہمیشہ دوسروں کی برائیاں گنواتا رہتا ہے کیا وہ نہیں جانتا کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اُسکی برائیاں بیان کرنا اپنے بھائی کا کچا گوشت کھانے کے مترادف ہے

مجھے دیکھو میں تو کبھی کسی کی برائی نہیں کرتا۔ !!‘‘

مہلت

’’دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا کاروبار کافی بڑھ گیا ہے‘‘

’’جی ہاں ! یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل اور آپ کی دعاؤں کا طفیل ہے۔ ‘‘

’’لیکن اب آپ کو حج بیت اﷲ کے لئے چلے جانا چائیے۔‘‘

’’بات دراصل یہ ہے کہ میرے کاروبار میں مجھے ہر وقت جھوٹ بولنا پڑتا ہے ۔ حج سے واپسی کے بعد میں جھوٹ نہیں بول پاؤں گا اور میرا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا ۔ لہذا میں تھوڑی مہلت چاہتا ہوں۔ ‘‘

سچ

وہ اجنبی مجھے ٹرین میں ملا تھا۔ گفتگو کا آغاز اسی نے کیا تھا۔ تھوڑی دیر بات چیت کے بعد وہ میری برتھ پر آگیا۔ اور رازدارانہ لہجہ میں کہنے لگا۔

’’ تم  تم  بہت خوبصورت ہو۔ تم شعلہ و شبنم کا امتزاج ہو۔ تم گل ِلالہ  کا عکس ہو تم حسن و جمال کی دیوی

ہو ۔۔۔۔۔ سنو میں سچ کہہ رہا ہوں !

میں نے اسے اسکی برتھ پر بٹھا دیا اور کہا۔۔

’’ اس سے بھی زیادہ سچ یہ ہے کہ جیسے ہی تمھارا اسٹیشن آئے گا تم چپ چاپ اپنا سوٹ کیس لئے مجھے تنہاہ چھوڑ کر ٹرین سے اتر جاؤ گے. اور بھیڑ میں گم ہو جاؤ گے۔

سنو میں سچ کہہ رہی ہوں نا .!‘‘

احساس ندامت

وہ اداس ہو کر اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی

’’پتہ نہیں ہمیں آخر کس عمل کی سزا مل رہی ہے آج ہم اپنے بیٹے سلیم اور بہو کے لئے بوجھ بن چکے ہیں وہ ہمیں حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں لمحہ لمحہ زندگی اُن کے احسانوں کی مرہون منت ہو گئی ہے جی چاہتا ہے زمین پھٹ جائے اور ہم سما جائیں آخر پڑوس میں اُس کا دوست رحمن بھی تو ہے اپنے والدین کو کتنا خوش رکھتا ہے۔ اسکی بیوی اُن کی ہر خواہش کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ مجھے تو رحمن کی آدابِ فرز ندگی پر رشک ہوتا ہے۔ کاش ہمارا بیٹا بھی رحمن کی طرح ہوتا ۔ ‘‘

’’ بیگم شاید ہماری قسمت ہی ایسی ہے کاش میں بھی کسی اچھے سرکاری محکمہ میں سروس کرتا اور سبکدوش ہونے کے بعد ہمیں پینشن کے طور پر ہر ماہ موٹی رقم ملتی تو شاید رحمن کی طرح سلیم بھی ہمیں خوش رکھتا.!!‘‘

قیمتی دولت

پچیس سال قبل وہ گاؤں سے شہر آیا تھا یہاں اُس  نے ہیرا پھیری کی خوب دولت جمع کی پھر اُس نے اپنے گاؤں لوٹ جانے کا یہ سوچ کر فیصلہ کر لیا کہ وہاں وہ سر بہ فلک عمارت تعمیر کر کے آرام و آرائش کی زندگی گزارے گا ۔ وہ گاؤں کا سب سے بڑا آدمی کہلائے گا۔ گاؤں کے لوگ اُسکی عزت کریں گے۔

گاؤں لوٹا تو اسکے ساتھ مکاری فریب ، عیاری اور بے ایمانی جیسی برائیاں بھی لوٹیں لیکن وہاں اُس نے جب لوگوں کے پاس ایمانداری ، سچائی، اصول پسندی وعدہ کی پاسداری ، وفاداری اور فرض شناسی جیسی قیمتی دولت دیکھی تو مکر و فریب سے کمائی ہوئی دولت کے باوجود وہ اپنے آپ کو آئینے جیسے صاف و شفاف اور پاکیزہ دل رکھنے والے لوگوں کے درمیان بونا محسوس کرنے لگا۔

پس پردہ

اسکول میں بچوں کے داخلے نہیں ہو رہے تھے اس لئے اسکول کے اساتذہ بچوں کا داخلہ کروانے آس پاس کے علاقوں میں نکل پڑے۔ والدین و سرپرست حضرات سے اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دلوانے کی پیش کش کرنے لگے اس ضمن میں انھوں نے طرح طرح کی تاویلیں بھی پیش کیں۔ علاوہ ازیں اپنی اسکول کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے ۔ والدین اُن کی باتیں غور سے سنتے رہے پھر ایک بچہ کے والد نے آگے بڑھ کر اُن سے پوچھا۔

’’ اساتذہ صاحبان ۔۔ ابھی آپ نے باتوں باتوں میں اپنی اسکول کو شہر کا بہترین اسکول قرار دیا اس لئے یقیناً آپ تمام کے بچّے بھی آپ ہی کی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے۔۔‘‘

تمام اساتذہ خاموش تھے اور اُن کے سر شرمندگی کے بوجھ سے جھکے ہوئے تھے کیونکہ اُن تمام کے بچے مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی بجائے شہر کی مختلف انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ !!

افسوس

وہ شاپنگ کر کے جب اپنے گھر لوٹی تو بہت اداس تھی سامان رکھ کر وہ فوراً ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آئی اور سراپا جائزہ لیا۔ میک ا پ دوبارہ کیا ۔ بالوں کے اسٹائل کو بدلا ۔ آج اُسے اس بات کا بے حد افسوس تھا کہ پہلی بار کسی نوجوان نے اُسے دیکھ کر کوئی کمینٹ نہیں کیا تھا۔!!

خوش حال گھرانے

مالک بہت خوش تھا کہ اُسے کم تنخواہ پر ایک فرمانبردار فل ٹائم کار ڈرائیور مل گیا تھا۔ مالکن بھی بہت خوش تھی کہ ڈرائیور ایک خوب رو نوجوان تھا جو مالک کو آفس چھوڑ آنے کے بعد سارا وقت بنگلہ پر ہی گزارتا تھا۔

مالک کی جانب سے ملنے والی تنخواہ تو ڈرائیور کی جیب خرچ کے لئے کافی نہیں ہوتی تھی۔ اسکے گھر کا خرچ تو مالکن ہی پورا کرتی تھی اس لئے ڈرائیور کی بیوی سب سے زیادہ خوش تھی کہ اسکی مہربانیوں کی وجہ سے اسکی گھر گرہستی اچھی چل رہی تھی۔ !!

طوطا

وہ روزانہ ہی فٹ پاتھ پر تاش کے پتوں کو پھیلائے بیٹھتا تھا۔ جو کوئی شخص اس کے پاس آتا اور اپنی تقدیر کا حال جاننا چاہتا تو وہ پنجرے کا دروازہ کھول دیتا۔ طوطا پنجرہ سے نکل کر ایک تاش کا پتہ اپنی چونچ میں پکڑ کر اسے دے دیتا۔ گویا آنے والے ہر شخص کی تقدیر سے وہ واقف تھا۔

ایک دن طوطا کسی کی تقدیر کا حال بتانے کے لئے پنجر ہ سے باہر نکلا ۔ اتنے میں ایک چیل اوپر سے اڑتی ہوئی آئی اور طوطے کو اپنی چونچ میں دبا کر پُھر سے اُڑ گئی !!!

حصّہ کا رزق

فقیر کی جھولی میں روٹی کے چند ٹکڑے آتے ہی اسکے چہرے پر زندگی کے آثار نمایاں ہو گئے وہ میدان میں لگے میلے کی بھیڑ کو چیرتا ہوا خوشی خوشی اپنے گھر بچوں کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے نکل پڑا۔ گھر آنے پر جب اُس نے جھولی میں اپنے روٹی کے چند ٹکڑے تلاش کئے تو اُسے بہت مایوسی ہوئی۔ روٹی کے ٹکڑے جھولی سے غائب تھے اُس نے اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیا اور خود بھی یہ سوچ کر اطمینان کر لیا کہ جھولی میں میرا نہیں بلکہ مجھ سے بھی زیادہ بھوکے شخص کا رزق تھا جس نے میرے قریب سے گزر کر حاصل کر لیا۔

نیا دُکھ

پروفیسر نے اپنے لیکچر کے دوران گریجویشن کر رہی لڑکیوں سے پوچھا۔

’’ذرا مجھے بتائیے کہ اس ہال میں بیٹھی کتنی لڑکیوں کے بوائے فرینڈس ہیں۔‘‘؟

یہ سن کر ہال میں بیٹھی لڑکیاں خوشی خوشی کھڑی ہو گئیں اور اکیلی بیٹھی خاموش اس لڑکی کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھ کر قہقہے لگانے لگیں۔ جس کا کوئی بوائے فرینڈ نہ تھا۔

پہچان

انتخابات ہونے کا اعلان ہو چکا تھا ۔ وہ پندرہ دن سے اپنی فائل لئے ہائی کمان سے ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کر رہا تھا۔ ہائی کمان تک رسائی ہوئی تو فائل کی ورق گردانی کی گئی۔

’’تم کہاں رہتے ہو؟‘‘

’’سر . میں ڈول پور میں . ! ‘‘

’’لیکن تم نے لکھا ہے کہ میں الیکشن گول پور سے لڑنا چاہتا ہوں‘‘۔۔۔ ’’ جی سر ‘‘

’’ کیوں بھلا؟‘‘

’’سر وہاں سے الیکشن میں منتخب ہونا میرے لئے زیادہ آسان ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ میں وہاں سے کثیر ووٹوں سے منتخب ہو جاؤں گا۔ ‘‘

’’لیکن آپکے وطن ڈول پور سے کیوں نہیں. ؟‘‘

سر وہاں کے لوگ مجھے اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں !!

نیا سبق

وہ شہر مسلسل پندرہ دن تک فساد کی آگ میں جلتا رہا۔ روزانہ پولس کا پہرہ۔ کرفیو اور پھر شہر کے کسی سمت سے اٹھتا ہو ا دھواں۔ بھڑکتے ہوئے شعلے۔ گولیوں کی آوازیں۔ بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار سناٹے میں دور تک سنائی دیتی تھی۔ پندرہ دن بعد جب امن قائم ہوا اور زندگی معمول پر آ گئی تو بچوں نے اپنے اسکول کے بیگ نکالے۔ بڑی بہن نے چھوٹے بھائی سے کہا ’’ پڑھو .‘‘ بچہ نے پہلی جماعت کی کتاب نکالی اور اپنی تو تلی زبان میں پڑھنے لگا۔

الف سے آگ . ب سے بندوت. پ سے پولت . ت سے تینشن!!

روشنی کا اندھیرا

آج مولانا نے عید الفطر کی نماز سے قبل اتحاد و اتفاق موضوع پر بڑے ہی فصیح و بلیغ انداز میں تقریر کی تھی مولانا کی تقریر سن کر کئی لوگوں کی آنکھیں گیلی ہو گئیں اور دل پگھل گئے نماز کے بعد لوگ برسوں سے قائم آپسی اختلافات و رنجشوں کو بھول کر کھلے دل سے عید گاہ میں گلے مل رہے تھے۔ میں بھی اُن کی تقریر سے بے حد متاثر ہوا۔ میں نے مولانا کو اپنے ہمراہ لیا اور گھر کی جانب چل پڑا ۔ ابھی ہم اُس گلی کے موڑ پر آئے تھے جہاں سے میرے گھر کا فاصلہ بہت قریب تھا۔ مولانا نے رُک کر کہا۔

’’ہم دوسری گلی سے ہو کر آپ کے گھر چلتے ہیں ، تمہیں تو معلوم ہی ہوگا اس طرف میر ے بھائی کا مکان ہے اور میں اس سے بات کرنا تو درکنار اُس کا چہرہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ !!‘‘

خواہش

’’ سنیئے .! ‘‘

’’ جی  ؟‘‘

’’ میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’کہئے ‘‘

’’لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘

 ڈر  ؟ کس بات کا ڈر  ؟

مجھ جیسے انسان سے ڈر  ارے میں تو تمہارے بڑے بھائی کی طرح ہوں کہو نا

’’ نہیں اب میں وہ بات کبھی نہیں کہوں گی !!‘‘

جہیز کی آگ

اسٹو بھڑکنے سے جب اسکی والدہ جل کر انتقال کر گئی تو وہ اپنی نانی کے یہاں چلی آئی۔ اور یہیں رہنے لگی۔

وہ تو ابھی بہت چھوٹی تھی لیکن بوڑھی نانی اسکے تعلق سے فکر مند تھی وہ اسکے لئے جہیز کا سامان جٹانے میں ابھی سے مصروف ہو گئی تھی تاکہ اسٹو بھڑکنے کا عمل اسکی نواسی کے ساتھ بھی نہ دہرایا جائے!!

نئی امّی

اس نے چند روز پیشتر ہی نکاح ثانی کر لیا تھا۔ ایک دن جب اسکی بیٹی غزالہ کالج سے بارش میں بھیگتی ہوئی گھر آئی تو اس نے اپنے کپڑے چینج کر کے امی کے نئے کپڑے پہننے چاہے۔

لیکن جب نئی امّی کے کپڑے اسے چھوٹے ہو گئے تو اسکی زبان سے بے ساختہ نکلا۔

امّی ، تم مجھ سے کتنی چھوٹی ہو۔۔ !!

کھلونا

چنٹو رو رہا تھا شاید اُسے بھوک لگی تھی۔ میں نے اسکی امّی کو آواز دی۔

’’ چنٹو کو خاموش کراؤ میں نیوز نہیں سن پا رہا ہوں۔‘‘

اسکی امی آئی اور دور پڑے کھلونا کو اسکے ہاتھوں میں تھما کر چلی گئی۔

چنٹو اب خاموش ہو چکا تھا۔ مجھے نیوز ریڈر کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔

وہ کہہ رہا تھا ’’ اب دیش میں بہت جلد خوشحالی آئے گی کیونکہ تمام پارٹیوں نے کسانوں کو فصلوں کے اچھے دام غریبوں کو روٹی ، کپڑا ، مکان اور مفت تعلیم دینے کے وعدے کئے ہیں۔ ‘‘

دوسری خبر تھی

الیکشن آفیسر نے کہا ہے ’’الیکشن چار ماہ بعد ماہ ِ اکتوبر میں ہونے کے امکانات ہیں۔‘‘

چنٹو ہاتھ میں کھلونا پکڑے پھر رونے لگا تھا ۔

شاید اُسے سچ مچ بھوک لگی تھی !!

بدلتے موسم

اسکے والد عرصہ سے ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا تھے آٹھ دس روز قبل ڈاکٹروں کی جانب سے ناامیدی ظاہر ہو جانے پر انھیں گھر لا لیا گیا تھا مگر آج اُن کے نوجوان بیٹے کی آفس میں حرکت قلب بند ہو جانے پر موت واقع ہو گئی جو گھر سے اپنی والدہ سے آفس یہ کہہ کر نکلا تھا کہ مجھے ضروری کام سے دہلی جانا تھا مگر والد صاحب کی طبیعت دیکھ کر قصد نہیں کر پا رہا ہوں!!

نام کا پردہ

وہ تینوں بس اسٹاپ پر کھڑے آپس میں گفتگو کر رہے تھے’’. دیکھو راشد  لڑکی نے ہوائی آلودگی سے بچنے کے لئے پورا دوپٹہ اپنے چہرے پر لپیٹ رکھا ہے۔ ‘‘

’’نہیں ایسی بات نہیں ہے دراصل وہ لڑکی بڑی با حیا ہے اپنے چہرے کی نمائش پسند نہیں کرتی۔‘‘

تیسرے نے کہا۔ ’’سچ تو یہ ہے کہ وہ جس نوجوان کی اسکوٹر پر سوار ہے وہ اسکا عاشق ہے اور محترمہ اپنے ماں باپ کا نام دوپٹہ میں چھپا رہی ہے تاکہ اُن کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے !!‘‘

تیری میری روشنی

دُور بہت دُور اونچی چوٹی پر عرصہ دراز سے کئی چراغ شام میں خود ہی روشن ہو جاتے تھے اور رات دیر تک اپنی روشنی سے بھٹکے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھاتے تھے۔ لیکن اُس دن چند لوگ شام کے وقت اُس چوٹی پر چڑھ آئے اور چراغوں کے لئے لڑنے لگے۔ پھر جب تیرے میرے چراغوں کی ضد حد سے تجاوز کر گئی تو ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا اور تمام چراغوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بجھا کر چلا گیا۔

اب وہ مایوس خالی ہاتھ چوٹی سے نیچے اتر رہے تھے۔!!

دیکھتے ہی دیکھتے

وہ معلّمہ انگلش میڈیم سے پڑھ رہے اپنے خوبصورت بچوں کا ہمیشہ ذکر کرتے ہوئے کہتی ’’ ’’میں اپنے بچوں کو خوب پڑھاؤں گی۔ ان کے والد کی طرح ڈاکٹر بناؤں گی ‘‘ اس نے اپنے بچوں کی پرورش اور نگہداشت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ دونوں بچوں کی تعلیم اور ان کے رکھ رکھاؤ پر وہ خوب روپیہ خرچ کرتی تھی۔

لیکن حالات نے اچانک رخ بدلا ۔ معلّمہ کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو گئی اور ایک ماہ کے عرصہ میں ہی اس دنیا سے چل بسی۔ ماں کے رخصت ہو جانے پر معصوم بچے باپ کی زیر نگرانی پلنے لگے۔ ایک سال بعد باپ نے دوسری شادی کر لی۔ بچے انگلش اسکول سے اردو اسکول میں آ گئے اور پھر ایک دن وہ لاچار اور مجبور بچے اسکول کے احاطے میں اس لائن میں کھڑے تھے جہاں زکوٰۃ کے پیسوں سے غریب مستحق بچوں کو اسکول یونیفارم تقسیم کئے جا رہے تھے۔

نیا زمانہ

صوم صلوٰۃ کی پابند ایک ضعیف عورت نے چھ سالہ پڑوسی بچہ سے ایک دن پوچھا۔

’’ بیٹا  تمہارے ابو جان نماز کے اوقات میں کبھی مسجد جاتے دکھائی نہیں دیتے کیا تمہارے ابو گھر ہی میں نماز پڑھتے ہیں ؟‘‘

’’ نہیں آنٹی  میرے پاپا تو ہینڈ سم ہیں وہ نماز کیوں پڑھنے لگے بھلا۔۔؟ نماز تو بوڑھے لوگ پڑھتے ہیں نا ؟

بچہ نے بڑی معصومیت سے کہا اور اپنا رُخ ٹی۔وی کی جانب کر کے ٹی ۔ وی پر رقص کر رہی عورتوں کی طرح خود بھی رقص کرنے لگا۔ !!

ہم سفر کی تلاش

ٹرین اپنی رفتار سے دوڑ رہی تھی میرے سامنے کی برتھ پر بیٹھی عورت اپنے بغل میں بیٹھے شخص سے باتیں کرتے کرتے اسکے شانے پر سر رکھ کر سو گئی تھی ایک گھنٹہ بعد جب ٹرین کی رفتار سُست ہوئی تو اُس نے اسکا سر اپنے شانے سے اٹھایا اور پھر اُسے الوداعی بوسہ دیکر یہ کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔

’’میں بھی مسافر۔ تم بھی مسافر ۔ اب بھگوان جانے کب ملاقات ہو‘‘۔ اُس نے بھی اُسے بخوشی رخصت کیا۔ ٹرین پلیٹ فارم پر لگ چکی تھی۔ وہ اترا اور بھیڑ میں گم ہو گیا۔ اور وہ ٹرین کے دروازے پر کھڑی پھر کسی نئے ہم سفر کا انتظار کرنے لگی۔

دھواں دھواں آرزو

شاید وہ دس گیارہ سال کی بچی ہوگی اُس نے ہاتھ ہلا کر مجھ سے لفٹ مانگی میں نے گاڑی روک کر اُسے بٹھا لیا لیکن مجھے اسکا اسطرح لفٹ مانگنا اچھا نہیں لگا۔

میں نے کہا۔ ’’کہاں جانا چاہتی ہو ؟ ‘‘ ’’درپن نگر.‘‘

’’درپن نگر جانا ہی تھا تو بس کا انتظار کر لیتی‘‘۔ ۔۔’’بس سے جانے کے لئے پیسے چاہیے اور میرے پاس ‘‘. وہ کہتے کہتے رک گئی ۔

’’اچھا ۔۔ درپن نگر میں کہاں ڈراپ کروں۔؟ ’’ بیئر بار کے پاس ‘‘’’. کیا تم بیئر بار میں کام میں کرتی ہو؟ نہیں میں بئیر بار کے سامنے کھڑی کاریں صاف کرتی ہوں ۔ کتنا مل جاتا ہے۔

’’یہی بیس پچیس روپئے۔ لیکن مینجر نے کہا ہے تم جلدی بڑی ہو جاؤ ۔ میں تمہیں بیئر بار میں رکھ لوں گا تب مجھے تنخواہ بھی ملے گی اور ٹپس الگ۔۔!

’’آپ بھگوان سے میرے لئے پرارتھنا کرو کہ میں جلدی بڑی ہو جاؤں‘‘’’ میں نے کہا۔ ہاں ۔ ہاں کیوں نہیں۔‘‘

تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وہ خود ہی کہنے لگی ۔’’ میری ترقی ہو جائے۔ پھر دیکھنا میں اپنے بوڑھے پتا جی کو کچھ نہیں کرنے دوں گی‘‘۔

میں سوچنے لگا۔ یہ غریبی بھی کیسی مجبوری ہے جہاں بچے اپنا انمول بچپن بے چینی سے جوانی کے انتظار میں گزارتے ہیں۔

درپن نگر کا بیئر بار آیا تو میں نے دیکھا میری اسکوٹی سے اتر کر بیئر بار جاتی ہوئی وہ دس گیارہ سال کی چھوٹی سی بچی مجھے یوں بھی بہت بڑی معلوم ہو رہی تھی۔ !!

اصل جہیز

شادی کے دوسرے دن صائمہ خالہ کے گھر محلہ کی عورتوں کا تانتا لگ گیا تھا۔ کل صائمہ خالہ کے بڑے لڑکے کی شادی ہوئی تھی۔

صائمہ خالہ گھر آنے والی خواتین کی خاطر داری میں مصروف تھیں۔

اتنے میں کسی خاتون نے کہا۔

’’صائمہ خالہ خاطر تواضع تو شام میں بھی ہوتی رہے گی ابھی تو ہم بڑی بہو کا جہیز دیکھنے آئے ہیں۔‘‘

خالہ نے کہا ۔

’’ ٹھیک ہے۔ اﷲ کا کرم ہے کہ مجھے جہیز میں سب کچھ مل گیا ہے۔ دلہن کے کمرے میں آؤ میں تمہیں جہیز دکھاتی ہوں۔ ‘‘

پھر انھوں نے دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا اور کہا۔

’’دیکھو یہ ہے میرا اصل جہیز!!‘‘

غریب آدمی

وہ امیر شہر تھا اُس نے اپنی پوری زندگی دولت بٹورنے میں لگا دی۔ شہر میں اسکی کئی فلک بوس عمارتیں تھیں۔ لاکھوں روپیہ بینک بیلنس تھا۔ وہ کہتا تھا دنیا میں دولت ہی سب کچھ ہے لیکن جب اُسے جان لیوا لاحق ہوا اور ڈاکٹر وں نے جواب دے دیا تو وہ دولت مند شخص بہت مجبور اور بے بس پلنگ پر پڑا اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔

بیٹا اس دنیا میں آرام و آسائش کے ساتھ جینے کے لئے میں نے بہت دولت بٹوری لیکن آج مجھے زندہ رکھنے کے لئے یہ دولت بھی کام نہ آئی اور اب جہاں مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا ہے وہاں کے لئے میں نے کچھ نہ کیا۔

بیٹا۔ آج میرے سامنے دولت کا انبار ہے لیکن اسکے باوجود میں زندہ نہیں رہ سکتا ۔ میں کتنا بے بس اور غریب ہوگیا ہوں کہ جا رہا ہوں تو میرا سیدھا ہاتھ خالی ہے ‘‘

خدارا میری غربت پر رحم فرما!!

قول و فعل

اُس کا رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے اور اسکے والدین نے جہیز میں قیمتی چیزوں کی فرمائش شروع کر دی تھی لڑکے کی فرمائش تھی کہ اُسے جہیز میں رنگین ٹی وی اور بائک بھی ملے۔

اسکے والد اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ سبکدوشی کے بعد جو بھی روپیہ ہاتھ آیا تھا اُن روپیوں سے اسکی تین بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے تھے لیکن چونکہ رشتہ طے ہو چکا تھا۔ دعوت نامے تقسیم ہو چکے تھے لہذا اسکے والد نے لڑکے اور اسکے والدین کی خواہشوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

شادی کے دوسرے دن اُس نے جب اپنے شوہر کے کمرے کا جائزہ لیا تو اُسے بہت سے انعامات الماریوں میں سجے نظر آئے۔ اسکے شوہر نے اُسے بتایا کہ یہ سب انعامات اُسے مختلف مقابلوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے پر ملے ہیں۔ اُس نے ایک شیلڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’دیکھو یہ شِلڈ مجھے بین المدارس مضمون نویسی مقابلہ میں اوّل مقام حاصل کرنے پر ملی ہے۔‘‘

اُس نے پوچھا۔۔۔’’ مضمون کا عنوان آپ کو یاد ہے۔‘‘

شوہر نے کہا.’’ جی ہاں. آج کے دور کا سلگتا مسئلہ جہیز ایک سماجی لعنت ہے۔‘‘

تم وہی ہو

میرے دوست۔۔ آج اُس لڑکی کا انتقال ہوا جسے باون سال پہلے میں نے سر راہ دیکھا تھا اُسے دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ کاش یہ خوبصورت لڑکی میری شریک حیات بن جائے اسی وقت میں نے آسمان کی جانب نگاہیں اٹھا کر اﷲ تعالیٰ سے اُس لڑکی کو اپنے لئے مانگا وہ بڑی بے تکلف تھی میرے دل کے نہاں خانہ میں چپ چاپ چل آئی لیکن میں نے یہ بات چھپائے رکھی۔ میں اس بات کا اظہار کرتا بھی کیسے والدین کی مرضی مقدم تھی ۔ دو سال بعد والدین نے میرے لئے لڑکی تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق میرے لئے لڑکی پسند کی پھر وہ وقت بھی آگیا جس دن میری شادی ہوئی تھی۔ عقد ہو جانے کے بعد جیسے ہی میری نگاہ اس پر پڑی میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور میں بہت جذباتی ہو گیا۔ اور خوشی و مسرت کے جذبات میں بے ساختہ چلّایا ’’ تم وہی ہو  تم وہی ہو ‘‘ !!

یہ ترقی پسند لوگ

وہ تمام مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد دامن اسلام میں داخل ہوا تھا اور دین فطرت کے عین مطابق اپنی از سر نو زندگی کا آغاز کر چکا تھا۔

ایک دن پاس پڑوس کے چند لوگوں نے اس سے کہا اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے ۔ ہم نے ایک لڑکی دیکھی ہے وہ لوگ تعلیم یافتہ اور خاندانی مسلمان ہیں۔

دوسرے دن ۔۔۔ وہ اُن لوگوں کے ساتھ ایک عالیشان مکان میں داخل ہوا۔ اُسے چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں، اُسے ہر طرف مغربی تہذیب کی جھلکیاں دکھائی دیں۔

بغل کے روم سے ڈانس میوزک کی آواز آ رہی تھی والدہ نے اپنی لڑکی کو آواز دی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد میوزک بند ہو گئی اور لڑکی مختصر کپڑوں میں ملبوس روم سے باہر نکل آئی۔

’’ہیلو ڈیڈ۔۔۔ مجھے کیوں بلایا؟‘‘

اس سے قبل کہ والد بیٹی کو بلانے کی وجہ بتاتے نو مسلم لڑکا یہ کہہ کر کھڑا ہو گیا۔

’’ مجھے معاف کیجئے میں دو سال قبل جس معاشرے سے لوٹ آیا ہوں دوبارہ اسی معاشرہ میں نہیں جانا چاہتا۔‘‘

یہ سن کر لڑکی کی والدہ کے چہرے پر پسینے کی بوندیں ابل پڑیں اور چہرے پر غازہ کی پرت کو دھونے لگیں۔

اپنا گریباں

سمیر اپنے گاؤں سے شہر تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آیا تھا شہر کے کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اُسے تقریباً پانچ سال کا عرصہ ہو چکا تھا۔ ان پانچ سالوں میں وہ اسکی ہم جماعت غزالہ کی محبت میں بھی گرفتار ہو اتھا۔ اب وہ غزالہ کو کسی طرح اپنے سے دور نہیں دیکھنا چاہتا تھا ، غزالہ بھی اُسے چاہنے لگی تھی۔

ایک دن جب غزالہ نے اپنی امّی سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ سمیر سے ہی شادی کرنا چاہتی ہے تو اسکے والدین آگ بگولہ ہو گئے اور انھوں نے اسکی خواہش کو ٹھکرا دیا۔والدین کے انکار کے بعد سمیر نے غزالہ کو چپ چاپ شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر اسکے ہمراہ چلنے کے لئے راضی کر لیا۔

اب سمیر اپنے کمرے میں بکھرے سامان کو سمیٹ رہا تھا انھیں آج رات ایک بجے آنے والی ٹرین سے شہر چھوڑ نا تھا۔

ابھی وہ اپنے سامان کی پیکنگ کر ہی رہا تھا کہ اسکے موبائل کی میوزک بج اٹھی ۔ موبائل پر آیا فون نمبر اسکے گھر کے پڑوس کا تھا ۔ اُس نے موبائل اپنے کانوں سے لگا لیا۔ اسکے والد درد بھری آواز میں اس سے کہہ رہے تھے۔

’’ بیٹا تمہاری بہن شہر سے آئے ایک نوجوان کے ساتھ پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے تم فوراً چلے آؤ خاندان کی آبرو خطرے میں ہے۔!!‘‘

گاؤں کا وکاس

گاؤں کے لوگ بہت خوش تھے ۔ اُن کے گاؤں کا لڑکا وزیر بن چُکا تھا۔ وزیر بنتے ہی اُس نے اپنے گاؤں جا کر وہاں کے لوگوں کے حالات جاننے اور وہاں ایک عام سبھا لے کر گاؤں کا وکاس کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اپنے وزیر کی آمد پر استقبال کے لیے زور و شور سے تیاریاں شروع کر دیں۔ حکومت کے ذمہ داران بھی وہاں پہنچے ۔ گاؤں اور گاؤں کے باہر کا جائزہ لے کر عام سبھا کے لئے میدان تیار کرنے کا حکم دے دیا۔

دوسرے دن سینکڑوں مزدور گاؤں کے باہر گھنے جنگل کو کاٹ کر چٹیل میدان میں تبدیل کرنے لگے تاکہ منتری جی کی عام سبھا میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوں اور وکاس کے کاموں کا اعلان کیا جا سکے!!

ذرہ آفتاب ہوا

عمران روزگار کے سلسلے میں اپنے گاؤں سے شہر آیا تھا اور گذشتہ دو سال سے جمیل سیٹھ کی چار منزلہ عمارت میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر رہ رہاتھا۔ جمیل سیٹھ کا بڑا لمبا چوڑا کاروبار تھا ۔ لیکن اُنھیں کوئی اولاد نہ تھی۔

ایک دن اچانک جمیل سیٹھ کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دنیا سے چل بسے۔ ایک سال بعد عمران نے مرحوم کی بیوی سے نکاح کر لیا۔ اور مرحوم جمیل سیٹھ کے لمبے چوڑے کاروبار کو سنبھال لیا۔ اب لوگ اُسے عمران سیٹھ کے نام سے پُکارنے لگے تھے۔

مصلحت پسند

اُن کی محکمہ تعلیمات میں آفیسر کی حیثیت سے ترقی ہوئی تھی دو روز بعد انھوں نے آفس کے ٹیبل پر رکھے فائلوں کا جائزہ لیا، چند فائلوں پر دستخط کرنے کے بعد انھوں نے اپنے متعلقہ کلرک کو بُلا کر کہا۔ ’’میں ان فائلوں پر دستخط نہیں کروں گا، تم اُن لوگوں سے کہہ دو کہ میں قانون کے دائرے میں رہ کر ہی کام کرنے کا عادی ہوں‘‘۔ یہ سن کر کلر ک مایوس ہو کر کیبن سے باہر آگیا۔

دوسرے دن صاحب اُداس نظر آئے تو کلرک نے اُداسی کی وجہ پوچھی ۔

صاحب نے کہا، ’’ میری بیٹی کے لیے رشتہ آیا ہے لڑکا اچھا ہے لیکن وہ لوگ پچاس ہزار نقد مانگ رہے ہیں۔مگر میرے پاس‘‘

وہ کہتے کہتے رُک گیا۔

پھر کلرک نے سر گوشی والے انداز میں صاحب سے گفتگو کی۔

دوسرے دن سبھی فائلوں پر صاحب کی دستخط ہو چکی تھی اور صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کی تیاری کے لئے محکمہ سے ایک ماہ کی رخصت بھی لے لی تھی۔

کیئر آف

وہ اس شہر کا مشہور و معروف محقق، ادیب و شاعر تھا ۔ ادبی دنیا کے نقشے میں وہ شہر اُسی کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔

لیکن اُس کی عظمت کے نام سے منسوب اس بڑے شہر میں اُس کا اپنا ذاتی ایک چھوٹا سا مکان بھی نہ تھا۔ وہ کرایہ کے مکان میں اپنا خون ِ دل جلا کر شہر کے ادبی وقار کو قائم رکھے ہوئے تھا۔

مسیحا

وہ دو لاکھ روپے کا قرض دار تھا، روزانہ ہی لوگ اپنا روپیہ پانے کے لئے اُس کے دروازے پر دستک دیتے ، ایک دن اُس نے اُن لوگوں سے نجات پانے کا راستہ ڈھونڈ نکالا اور اس زندگی سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک کھیت کے ویران کنویں کی جانب خود کشی کے ارادے سے چل پڑا۔ وہاں پہنچنے پر اُس نے دیکھا کہ کنویں کے قریب لوگوں کی بھیڑ جمع ہے۔ لوگ ایک شخص کا ہاتھ پکڑے اُسے سمجھا رہے ہیں لیکن وہ خود کشی کرنے پر بضد ہے وہ جیسے ہی بھیڑ کو چیر کر اُس کے قریب پہنچا ایک شخص نے اُس سے کہا ’’ذرا اس شخص کو سمجھائیے یہ خود کشی کرنا چاہتا ہے‘‘ وہ آگے بڑھا اور پھر اُس نے اُسے زندگی کو زندہ دلی کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیا۔

کنویں میں اپنے پیر لٹکائے شخص نے اُس کی باتیں غور سے سنی اور خود کشی کرنے کا ارادہ ترک کرکے اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس سے گلے ملتے ہوئے کہنے لگا ۔

’’ دوست تم واقعی زندہ دل انسان ہو تمھاری باتیں مجھ پر اثر کر گئیں ، تم میرے لئے مسیحا بن کر آئے ‘‘

پھر و ہ دونوں ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے لوگوں کے ہجوم سے نکل کر گاؤں کی جانب چل پڑے۔

٭٭٭

مصنف کی اجازت سے

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید، پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔