سمجھتا ہے دنیا کو گھر آدمی
ہے انجام سے بے خبر آدمی
مجھے ڈر ہے اس کی تباہی کا اب
خدا سے ہوا ہے نڈر آدمی
گریزاں ہے سونے کے خالق سے اب
بنا ہے پرستارِ زر آدمی
وہ فکرِ زمانہ سے بے فکر ہو
اسی فکر میں گم ہے ہر آدمی
نصیحت تو کرتا ہے قرآں اسے
نہیں باز آتا مگر آدمی
یہی آدمیت کی پہچان ہے
نہ دے آدمی کو ضرر آدمی
بڑا قرب مولیٰ کا پاتا ہے جب
جھکاتا ہے سجدے میں سر آدمی
جو خود اپنے عیبوں پہ رکھے نظر
ہے دراصل وہ با ہنر آدمی
جبھی اس میں موجود ہے شر اثرؔ
کہ ہے درحقیقت بشر آدمی