03:26    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ پہلا سلام

1405 0 0 03




میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا

نئی زمیں، نیا آسماں بھی مل جائے

نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا

کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں

تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا

٭٭٭






تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

آنکھوں میں نمی , ہنسی لبوں پر

کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو

بن جائیں گے زہر پیتے پیتے

یہ اشک جو پیے جا رہے ہو

جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے

تم کیوں انکو چھیڑے جا رہے ہو

ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر

ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

٭٭٭






اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک

یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے

اِک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے

اِک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے

ساقی سبھی کو ہے غمِ تشنہ لبی مگر

مے ہے اسی کی نام پہ جس کے ابل پڑے

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ

جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

٭٭٭






خارو خس تو اٹھیں راستہ تو چلے

خارو خس تو اٹھیں راستہ تو چلے

میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے

چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم

خیر بجھنے دو ان کو ہوا تو چلے

حاکم شہر، یہ بھی کوئی شہر ہے

مسجدیں بند ہیں، میکدہ تو چلے

اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو

خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے

اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا

آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے

بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں

میں کہاں دفن ہوں پتہ تو چلے

٭٭٭






تقدیر بگڑتی جاتی ہے ،گو بات بنائے جاتے ہیں

تقدیر بگڑتی جاتی ہے ،گو بات بنائے جاتے ہیں

وہ اُتنے ہی روٹھے جاتے ہیں، ہم جتنا منائے جاتے ہیں

وہ جا کے نہیں اب آنے والے، طور یہ پائے جاتے ہیں

ہنستے ہیں تسلّی دینے کو ، پر اشک بھی آئے جاتے ہیں

صد شکر کہ فرقِ حُسن و عشق، اعجازِ وفا نے مٹا دیا

میں جلوؤں میں کھویا جاتا ہوں، وہ مجھ میں سمائے جاتے ہیں

محفل بھی وہی، ساقی بھی وہی، قسمت ہے مگر اپنی اپنی

کچھ ہیں جو بلائے جاتے ہیں، ہم ہیں کہ اُٹھائے جاتے ہیں

ہے باغ سے ہم کو کیا مطلب، اب پھول کھلیں یا آگ لگے

جن تنکوں نے رشتہ جوڑا تھا، چُن چُن کے جلائے جاتے ہیں

بیتاب نگاہیں لوٹ رہی ہیں، پردۂ در پر حسرت سے

اور آنے والے آنکھ بچا کر دل میں سمائے جاتے ہیں

ہے پیرہنِ صد پارہ میں خوشبو یہ کسی کے گیسو کی

بیگانہ ہوا جاتا ہوں جہاں سے غش پہ غش آئے جاتے ہیں

باتوں سے مروت کے رشتے وہ توڑ رہے ہیں ہنس ہنس کر

آنکھوں سے محبت کے ساغر بھر بھر کے پلائے جاتے ہیں

رہ رہ کے دھڑک اُٹھتا ہے کلیجہ، سانس الجھتی جاتی ہے

اے موت ٹھہر، تعجل نہ کر، دم بھر میں وہ آئے جاتے ہیں

کیفی کوئی اس کو جی سے مرے پوچھے کہ شب ِ وعدہ میں چراغ

کس طرح جلائے جاتے ہیں، کس طرح بجھائے جاتے ہیں

٭٭٭






ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی

ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی

میرا چھپر اُٹھا گیا کوئی

لگ گیا اک مشین میں میں بھی

شہر میں لے کے آ گیا کوئی

میں کھڑا تھا کہ پیٹھ پر میری

اشتہار اِک لگا گیا کوئی

یہ صدی دھوپ کو ترستی ہے

جیسے سورج کو کھا گیا کوئی

ایسی مہنگائی ہے کہ چہرہ بھی

بیچ کے اپنا کھا گیا کوئی

اب وہ ارمان ہیں نہ وہ سپنے

سب کبوتر اُڑا گیا کوئی

وہ گئے جب سے ایسا لگتا ہے

چھوٹا موٹا خدا گیا کوئی

میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا

گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی

٭٭٭






پتھر کے خدا وہاں بھی پائے

پتھر کے خدا وہاں بھی پائے

ہم چاند سے آج لوٹ آئے

دیواریں تو ہر طرف کھڑی ہیں

کیا ہو گئے مہربان سائے

جنگل کی ہوائیں آ رہی ہیں

کاغذ کا یہ شہر اڑ نہ جائے

لیلیٰ نے نیا جنم لیا ہے

ہے قیس کوئی جو دل لگائے

ہے آج زمیں کا غسلِ صحت

جس میں ہو جتنا خون لائے

صحرا صحرا لہو کے خیمے

پھر پیاسے لبِ فرات آئے

٭٭٭






سنا کرو مری جاں اِن سے اُن سے افسانے

سنا کرو مری جاں اِن سے اُن سے افسانے

سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے

یہاں سے جلد گزر جاؤ قافلے والو !

ہیں میری پیاس کے پھونکے ہوئے یہ ویرانے

مرے جنونِ پرستش سے تنگ آ گئے لوگ

سنا ہے بند کئے جا رہے ہیں بت خانے

جہاں سے پچھلے پہر کوئی تشنہ کام اٹھا

وہیں پہ توڑے ہیں یاروں نے آج پیمانے

بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا

مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے

ہوا ہے حکم کہ کیفی کو سنگسار کرو

مسیح بیٹھے ہیں چھپ کے کہاں خدا جانے

٭٭٭






شور یونہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا

شور یونہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا

کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو ہو گا

جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا

بانیِ جشنِ بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں

کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہوگا

بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی

سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا

اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اڑے تھے پیاسے پیاسے

ہر سراب ان کو سمندر نظر آیا ہوگا

٭٭٭






وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد

وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد

دادِ سخن ملی مجھے ترکِ سخن کے بعد

دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے

ٹھہرا نہ دل کہیں بھی تری انجمن کے بعد

ہونٹوں کو سی کے دیکھئے پچھتائے گا آپ

ہنگامے جاگ اٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد

غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ

قدرِ وطن ہوئی ہمیں ترکِ وطن کے بعد

انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں

دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد

اعلانِ حق میں خطرۂ دارو رسن تو ہے

لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد

٭٭٭






جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا

مری طرح تیرا دل بے قرار ہے کہ نہیں

وہ پَل کہ جس میں محبت جواں ہوتی ہے

اس اک پَل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو

تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں

٭٭٭






آج سوچا تو آنسو بھر آئے

آج سوچا تو آنسو بھر آئے

مدتیں ہو گئیں مسکرائے

دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں

یاد اتنا بھی نہ کوئی آئے

رہ گئی زندگی درد بن کے

درد دل میں چھپائے چھپائے

ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا

ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے

٭٭٭






ساون میں برسات ضروری ہوتی ہے

ساون میں برسات ضروری ہوتی ہے

دل سے دل کی بات ضروری ہوتی ہے

جگمگ کرتے چاند کے روشن پہلو میں

تاروں کی بارات ضروری ہوتی ہے

اس جیون میں ہر پل جیتنے والوں کو

کبھی کبھی تو مات ضروری ہوتی ہے

دن کی شان و شوکت قائم رکھنے کو

اندھی کالی رات ضروری ہوتی ہے

پیار نوید ضروری ہے یوں جینے کو

جیسے اپنی ذات ضروری ہوتی ہے

٭٭٭






کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ

گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو

ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ

منزل سے وہ دور تھا اور ہم بھی دور تھے

ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہنما کے ساتھ

رقصِ صبا کے جشن میں ہم تم بھی ناچتے

اے کاش تم بھی آ گئے ہوتے صبا کے ساتھ

اکیسویں صدی کی طرف ہم چلے تو ہیں

فتنے بھی جاگ اٹھے ہیں آوازِ پا کے ساتھ

ایسا لگا غریبی کی ریکھا سے ہوں بلند

پوچھا کسی نے حال کچھ ایسی ادا کے ساتھ

٭٭٭






کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں

دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار

کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں

ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

پیمانہ ٹوٹنے کا کوئی غم نہیں مجھے

غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں بکھر گئیں

پایا بھی ان کو کھو بھی دیا چپ بھی یہ ہو رہے

اک مختصر سی رات میں صدیاں گزر گئیں

٭٭٭






کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا

کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا

ستارے زیرِ قدم رات آئے ہیں کیا کیا

نشیبِ ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے

فرازِ دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا

جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا

تمام زخمِ جگر مسکرائے ہیں کیا کیا

چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل

وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا

اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے

کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا

میں کچھ سمجھ گیا اور کچھ سمجھ نہیں سکا

جھُکی نظر نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا

جو ہو لیا تھا مرے ساتھ چاند چوری سے

اندھیرے راستے کے جگمگائے ہیں کیا کیا

کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب

چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا

٭٭٭






میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

نئی زمیں نیا آسماں نہیں ملتا

نئی زمیں، نیا آسماں بھی مل جائے

نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

وہ تیغ مل بھی گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا

کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولہے

کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں

مجھے خود اپنے قدم کا نشاں نہیں ملتا

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں

تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا

٭٭٭






کلی کا روپ پھول کا نکھار لے کے آئی تھی

کلی کا روپ پھول کا نکھار لے کے آئی تھی

وہ آج کل خزانۂ بہار لے کر آئی تھی

تمام رات جاگنے کے بعد چشم مست میں

یقیں کا رس امید کا خمار لے کے آئی تھی

بسنتی ساڑی میں چھپا سا وہ جواں بدن

جواں بدن پہ ریشمی بہا رلے کے آئی تھی

٭٭٭






خار و خس تو اٹھیں، راستا تو چلے

خار و خس تو اٹھیں، راستا تو چلے

میں اگر تھک گیا، قافلہ تو چلے

چاند سورج بزرگوں کے نقشِ قدم

خیر بُجھنے دو ان کو ہوا تو چلے

حاکمِ شہر، یہ بھی کوئی شہر ہے

مسجدیں بند ہیں، میکدہ تو چلے

اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو!

خودکشی کا ہنر تم سِکھا تو چلے

اتنی لاشیں میں کیسے اُٹھا پاؤں‌گا!

آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے

بیلچے لاؤ، کھولو زمیں کی تہیں!

میں کہاں دفن ہوں، کچھ پتہ تو چلے

٭٭٭






شام

مست گھٹا منڈلائی ہوئی ہے

باغ پہ مستی چھائی ہوئی ہے

جھوم رہی ہیں آم کی شاخیں

نیند سی جیسے آئی ہوئی ہے

بولتا ہے رہ رہ کے پپیہا

برق سی اک لہرائی ہوئی ہے

لہکے ہوئی ہیں پھول شفق کے

آتشِ تر چھلکائی ہوئی ہے

شعر مرے بن بن کے ہویدا

قوس کی ہر انگڑائی ہوئی ہے

رینگتے ہیں خاموش ترانے

موجِ ہوا بل کھائی ہوئی ہے

رونقِ عالم سر ہے جھکائے

جیسے دلہن شرمائی ہوئی ہے

گھاس پہ گم صم بیٹھا ہے کیفی

یاد کسی کی آئی ہوئی ہے

٭٭٭






پہلا سلام

اٹھتی جھکتی نگاہوں میں کوئی پیام

کیسے بھولوں کسی کا وہ پہلا سلام

پھول رخسار کے رسمسانے لگے

ہاتھ اُٹھا قدم لڑکھڑانے لگے

رنگ سا خال و خد سے چھلکنے لگا

سر سے رنگین آنچل ڈھلکنے لگا

اجنبیت نگاہیں چرانے لگی

دل دھڑکنے لگا لہر آنے لگی

سانس میں اک گلابی گرہ پڑ گئی

ہونٹ تھرائے، سمٹے، نظر گڑ گئی

رہ گیا عمر بھر کے لئے یہ حجاب

کیوں نہ سنبھلا ہوا دے سکا میں جواب

کیوں میں بے قصد و بے عزم و بے واسطہ

دوسری سمت گھبرا کے تکنے لگا

٭٭٭






دوسرا بن واس

رام بن واس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے

یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے

رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگا

چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا

اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے

جگمگاتے تھے جہاں رام کے قدموں کے نشاں

پیار کی کہکشاں لیتی تھی انگڑائی جہاں

موڑ نفرت کے اسی راہ گزر میں آئے

دھرم کیا ان کا ہے کیا ذات ہے یہ جانتا کون

گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون

گھر جلانے کو مرا لوگ جو گھر میں آئے


شاکا ہاری ہیں مرے دوست تمہارے خنجر

تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر

ہے مرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے

پاوں سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے

کہ نظر آئے وہاں خون کے گہرے دھبے

پاوں دھوئے بنا سریو کے کنارے سے اٹھے

رام کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے

راجدھانی کی فضا آئی نہیں راس مجھے

چھ دسمبر کو ملا دوسرا بن واس مجھے

٭٭٭






اندیشے

روح بے چین ہے اک دل کی اذیت کیا ہے

دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوز محبت کیا ہے

وہ مجھے بھول گئی اس کی شکایت کیا ہے

رنج تو یہ ہے کہ رو رو کے بھلایا ہوگا

جھک گئی ہوگی جواں سال امنگوں کی جبیں

مٹ گئی ہو گی للک، ڈوب گیا ہو گا یقیں

چھا گیا ہوگا دھواں، گھوم گئی ہوگی زمیں

اپنے پہلے ہی گھروندے کو جو ڈھایا ہوگا

دل نے ایسے بھی کچھ افسانے سنائے ہوں گے

اشک آنکھوں نے پئے اور نہ بہائے ہوں گے

بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے

ایک اک حرف جبیں پر ابھر آیا ہوگا

اس نے گھبرا کے نظر لاکھ بچائی ہوگی

مٹ کے اک نقش نے سو شکل دکھائی ہوگی

میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہوگی

ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہوگا

بے محل چھیڑ پہ جذبات ابل آئے ہوں گے

غم پشیماں تبسم میں ڈھل آئے ہوں گے

نام پر میرے جب آنسو نکل آئے ہوں گے

سر نہ کاندھے سے سہیلی کے اٹھایا ہو گا

زلف ضد کر کے کسی نے جو بنائی ہوگی

روٹھے جلووں پہ خزاں اور بھی چھائی ہوگی

برق عشووں نے کئی دن نہ گرائی ہوگی

رنگ چہرے پہ کئی روز نہ آیا ہوگا

٭٭٭






عورت

اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں

نبضِ ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں

اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خمِ گیسو میں نہیں

جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں

اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے

اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لئے

فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لئے

قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لئے

زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لئے

رُت بدل ڈال اگر پھلنا پھولنا ہے تجھے

اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں

تجھ میں شعلے بھی ہیں، اشک فشانی ہی نہیں

تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں

تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں

اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے

اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ کر رسم کے بت بندِ قدامت سے نکل

ضعفِ عشرت سے نکل وہمِ نزاکت سے نکل

نفس کے کھینچے ہوئے حلقۂ عظمت سے نکل

قید بن جائے محبت، تو محبت سے نکل

راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے

اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تو فلاطون و ارسطو ہے، تو زہرہ پروین

تیرے قبضے میں ہے گردوں تری ٹھوکر میں زمیں

ہاں اُٹھا جلد اُٹھا، پائے مقدر سے جبیں

میں بھی رکنے کا نہیں تو بھی رکنے کا نہیں

لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے

اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

٭٭٭






یقینِ شکست

مری آنکھ کھُل گئی یک بیک ، مِری بے خودی کی سحر ہوئی

کہ مآلِ عشق سے آشنا یہ فریب خوردہ نظر ہوئی

وہ حسین رُت بھی بدل گئی، وہ فضا بھی زیر و زبر ہوئی

ہوئی موت مجھ سے قریب تر، مجھے آج اِس کی خبر ہوئی

ترے التفات نے کر دیا تھا مجھے نصیب سے بے خبر

میں تمام کیف و سرور تھا ، مری حد میں غم کا نہ تھا گذر

مرے دل کو تجھ پہ غرور تھا، مجھے ناز تھا ترے پیار پر

ترا پیار ہائے، تھا مختصر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی

وہ حسیں سحر، وہ شب حسیں، وہ وفورِ شوق، وہ زندگی

وہ نوازشیں، وہ عنایتیں، وہ کرم، وہ لطف، وہ دلدہی

ترا روٹھنا، ترا ماننا، تری بےرخی، تری بےخودی

کبھی اب نہ دیکھ سکوں گا عمر بھر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی

ہے کسی کا اور تو کیا گلہ ، میں خود اپنی آنکھ میں خوار ہوں

کبھی مجھ پہ بار ہے زندگی، کبھی زندگی پہ میں بار ہوں

جو اُتر گیا وہ خمار ہوں، جو خزاں ہوئی وہ بہار ہوں

تمہیں میری کچھ بھی نہیں خبر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی

وہی آہ جس نے کبھی زمیں کو فلک سے اُٹھ کے ہلا دیا

وہی آہ جس نے مرے نصیب کی تیرگی کو مٹا دیا

وہی آہ جس نے بدل کے خو تری لطف تجھ کو سکھا دیا

اُسی آہ میں نہیں اب اثر ، مجھے آج اس کی خبر ہوئی

وہ زمانہ کیف و نشاط کا ، وہ خودی میں ایک سرور سا

وہ شکست عقل و شعور کی، وہ جنوں میں جیسے غرور سا

وہ غریبِ عشق بھی چُور سا، وہ غیور حسن بھی چُور سا

وہ سرور مٹ کے رہا مگر مجھے آج اس کی خبر ہوئی

نہ سکوں میں بھی وہ ملے گا اب کہ جو کیف دردِ جگر میں تھا

کبھی چُور عیش و خوشی میں تھا کبھی چُور غم کے اثر میں تھا

ترا کیفی آج بھی ہے وہی کہ جو پہلے تیری نظر میں تھا

مگر اب نہیں وہ تری نظر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی

٭٭٭

ماخذ:

اور دوسری ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


3.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔