ساغر چڑھائے پھول کے ہر شاخسار نے
دریا بہا دئے خم ابر بہار نے
روشن کئے چراغِ لحد لالہ زار نے
اس مرتبہ تو آگ لگا دی بہار نے
اودی گھٹائیں چھائی ہیں اے میکشو چلو
پریوں کے تخت روک لئے سبزہ زار نے
اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں ایک آہ کی
بے آس ہو کے اس دل امیدوار نے
سینہ تک آئے سوتے میں کب میری دست شوق
دھوکا دیا تجھے تیرے پھولوں کے ہار نے
صبح شب وصال مجھے منفعل کیا
تو نے تو کیا تری نگہ شرمسار نے
بے شغل جام و بادہ جواں ہو گئے ریاض
ڈالا اثر یہ آمدِ فصل بہار نے
٭٭٭
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے، خلد مقام ہو گئی ہے
قابو میں ہے ان کے وصل کا دن
جب آئے ہیں شام ہو گئی ہے
آتے ہی قیامت اس گلی میں
پامالِ خرام ہو گئی ہے
توبہ سے ہماری بوتل اچھی
جب ٹوٹی ہے، جام ہو گئی ہے
مے نوش ضرور ہیں وہ نا اہل
جن پر یہ حرام ہو گئی ہے
بجھ بجھ کے جلی تھی قبر پر شمع
جل جل کے تمام ہو گئی ہے
ہر بات میں ہونٹ پر ہے دشنام
اب حسنِ کلام ہو گئی ہے
٭٭٭
جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
یاں بھی پیدا ہوئے پھر آپ پہ مرنے والے
ہے اداسی شب ماتم کی سہانی کیسی
چھاؤں میں تاروں کی نکلتے ہیں سنورنے والے
ہم تو سمجھے تھے کے دشمن پہ اٹھایا خنجر
تم نے جانا کی ہمیں تم پہ ہیں مرنے والے
صبر کی میرے، مجھے داد ذرا دے دینا
او میرے حشر کے دن فیصلہ کرنے والے
عمر کیا ہے ابھی کم سن ہیں، نہ تنہا لیتیں
سو رہیں پاس میرے خواب میں ڈرنے والے
٭٭٭
میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں
میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں
ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل
کبھی ایسی گھٹا اُٹھی ہی نہیں
کس قدر ہے بنا ہوا زاہد
جیسے اس نے ’’وہ چیز‘‘ پی ہی نہیں
صبح کا جھٹ پٹا تھا، شام نہ تھی
وصل کی رات، رات تھی ہی نہیں
کون لیتا بلائیں پیکاں کی
آرزو دل میں کوئی تھی ہی نہیں
کوئی ناخوش ریاض سے کیوں ہو
اس روش کا وہ آدمی ہی نہیں
٭٭٭
مئے رہے، مینا رہے، گردش میں پیمانہ رہے
میرے ساقی تُو رہے آباد میخانہ رہے
حشر بھی تو ہو چکا، رخ سے نہیں ہٹتی نقاب
حد بھی آخر کچھ ہے کب تک کوئی دیوانہ رہے
رات کو جا بیٹھتے ہیں روز ہم مجنوں کے پاس
پہلے اَن بن رہ چکی ہے اب تو یارانہ رہے
زندگی کا لطف ہو، اڑتی رہے ہر دم ریاض
ہم ہوں شیشے کی پری ہو، گھر پری خانہ رہے
٭٭٭
ہوشیاری ہے فریبِ عاشقی کھانے کا نام
عاشقی ہے بند آنکھیں کر کے لُٹ جانے کا نام
قیس اور فرہاد نے تعظیم کا سجدہ کیا
بزم وحشت میں جو آیا تیرے دیوانے کا نام
سرفروشی عاشقی میں کامیابی کا ہے راز
شمع کل روتی رہی سُن سُن کے پروانے کا نام
خام کارِ عشق ہیں دلدادۂ شہرت ریاض
عاشقی ہے بندہ پرور گھُٹ کے مر جانے کا نام
٭٭٭
بہار نام کی ہے، کام کی بہار نہیں
کہ دستِ شوق کسی کے گلے کا ہار نہیں
رہے گی یاد اُنہیں بھی ، مجھے بھی، وصل کی رات
کہ اُن سا شوخ نہیں، مجھ سا بیقرار نہیں
سحر بھی ہوتی ہے چلتے ہیں اے اجل ہم بھی
اب اُن کے آنے کا ہم کو بھی انتظار نہیں
مُجھے یہ ڈر ہے نہ ہو اور طول محشر کو!
مرے گناہوں کا مالک مرے شمار نہیں
جناب شیخ نے مے پی تو مُنہ بنا کے کہا
مزا بھی تلخ ہے، کچھ بو بھی خوشگوار نہیں
اذیت اس دل مردہ کو کیوں ہے پہلو میں
عذاب گور نہیں قبر کا فشار نہیں
یہی چراغِ لحد تھے، یہی تھے قبر کے پھول
اب اُن کے نقشِ قدم بھی سرِ مزار نہیں
حنا لگا کے پہنچتے ہیں گل رخوں میں ریاض
کچھ اُن کی ریش مبارک کا اعتبار نہیں
٭٭٭
خیالِ شبِ غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آرہے ہیں
دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں
لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلے میں
جنازہ لئے دل کا ہم جا رہے ہیں
یہ اُلجھے ہیں رندوں سے کیا شیخ صاحب
بڑھاپے میں کیوں ڈاڑھی رنگوا رہے ہیں
قیامت بچھی جاتی ہے ہر قدم پر
یہ کون آ رہا ہے، وہی آرہے ہیں ؟
دعا دے رہا ہوں یہ دیوانگی میں
چُنیں پھول تِنکے جو چُنوا رہے ہیں
کمر سیدھی کرنے ذرا میکدے میں
عصا ٹیکتے کیا ریاض آرہے ہیں
٭٭٭
لَو دل کا داغ دے اٹھے ایسا نہ کیجیے
ہے ڈر کی بات آگ سے کھیلا نہ کیجیے
کہتا ہے عکس حُسن کو رسوا نہ کیجیے
ہر وقت آپ آئینہ دیکھا نہ کیجیے
کہتی ہے مے فروشوں سے میری سفید ریش
دے دیں گے دام، اُن سے تقاضا نہ کیجیے
اچھی نہیں یہ آپ کی محشر خرامیاں
دُنیا کو اِس طرح تہ و بالا نہ کیجیے
ہے زیرِ بحث فرق سفید و سیاہ کا
بندِ نقاب اپنے ابھی وا نہ کیجیے
اُٹھنے کو اُٹھّے آپ کے کوچے سے روزِ حشر
ایسے کو آنکھ اُٹھا کے بھی دیکھا نہ کیجیے
اپنی حنا کو دیکھیے، نازک سے ہاتھ کو
وہ ڈر رہی ہے خونِ تمنّا نہ کیجیے
آئے گی خُم میں غیب سے وہ دے گا اے ریاض
تلچھٹ بھی کُچھ ہو تو غمِ فردا نہ کیجیے
٭٭٭
ٹائپنگ: فرخ منظور، مبارز کاشفی
اردو محفل/ اردو ویب داٹ آرگ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید