02:37    , پیر   ,   20    مئی   ,   2024

مجموعہ انتخاب حسرت موہانی

1811 1 0 00




اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے

اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل

ہم نے ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے

تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں

شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے

سخت بے درد ہے تاثیر محبت کہ انہیں

بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے

آہ وہ یادیں کہ اس یاد کو ہو کر مجبور

دل مایوس نے مدت سے بہلا رکھا ہے

کیا تامل ہے مرے قتل میں اے بازوئے یار

اک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے

حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھ، کہ اسے

یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے

تیری نسبت سے ستم گر ترے مایوسوں نے

دل حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے

کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو

نام اسی کا مضطر نے دوا رکھا ہے

نگہ یار سے پیکان قضا کا مشتاق

دل مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے

اسے کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرت

تو نے ربط ان سے جو درجہ بڑھا رکھا ہے

٭٭٭






جہاں تک ہم ان کو بہلاتے رہے ہیں

جہاں تک ہم ان کو بہلاتے رہے ہیں

وہ کچھ اور بھی یاد آتے رہے ہیں

انہیں حال دل ہم سناتے رہے ہیں

وہ خاموش زلفیں بناتے رہے ہیں

محبت کی تاریکی یاس میں بھی

چراغ ہوس جھلملاتے رہے ہیں

جفا کار کہتے رہے ہیں جنہیں ہم

انہیں کی طرف پھر بھی جاتے رہے ہیں

وہ سوتے رہے ہیں الگ ہم سے جب تک

مسلسل ہم آنسو بھاتے رہے ہیں

بگڑ کر جب آئے ہیں ان سے تو آخر

انہیں کو ہم الٹے مناتے رہے ہیں

وہ سنتے رہے مجھ سے افسانہ غم

مگر یہ بھی ہے مسکراتے رہے ہیں

نہ ہم ہیں نہ ہم تھے ہوس کار حسرت

وہ ناحق ہمیں آزماتے رہے ہیں

٭٭٭






توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے

بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

میرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کیجیے التفات

بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے

خاطرِ محروم کو کو کر دیجیے محوِ الم!

درپے ایذائے جانِ مبتلا ہو جائیے

راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم

ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جائیے

گر نگاہِ شوق کو محوِ تماشا دیکھئیے

قہر کی نظروں سے مصروف سزا ہو جائیے

میری تحریرِ ندامت کا نہ دیجیے کچھ جواب

دیکھ لیجیے اور تغافل آشنا ہو جائیے

مجھ سے تنہائی میں گر ملیے تو دیجیے گالیاں!

اور بزمِ غیر میں جانِ حیا ہو جائیے

ہاں یہی میری وفائے بے اثر کی ہے سزا

آپ کچھ اس سے بھی بڑھ کر پُر خفا ہو جائیے

جی میں آتا ہے کہ اس شوخ تغافل کیش سے

اب نہ ملیے پھر کبھی اور بے وفا ہو جائیے

کاوشِ دردِ جگر کی لذّتوں کو بھول کر

مائلِ آرام و مشتاقِ شفا ہو جائیے

ایک بھی ارماں نہ رہ جائے دل مایوس میں

یعنی آ کر بے نیازِ مدّعا ہو جائیے

بھول کر بھی اس ستم پرور کی پھر آئے نہ یاد

اس قدر بیگانۂ عہدِ وفا ہو جائیے

ہائے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر

اس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے

چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے

تیرے اس طرزِ تغافل کے فدا ہو جائیے

کشمکش ہائے الم سے اب یہ حسرت دل میں ہے

چھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمانِ قضا ہو جائیے

٭٭٭






چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق

تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے

بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق

اور ترا غصے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانے مرا

اور ترا دانتوں میں وہ انگلی کو دبانا یاد ہے

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً

اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

جان کر سوتا تجھے وہ قصد پا بوسی مرا

اور ترا ٹھکرا کے سر، وہ مسکرانا یاد ہے

تجھ کو جب تنہا کبھی پایا تو از راہ لحاظ

حال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے

جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا

سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کار خانہ یاد ہے

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف

وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

آگیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق

وہ ترا رو رو کر مجھ کو بھی رلانا یاد ہے

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لئے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

آج کی نظروں میں وہ صحبت راز و نیاز

اپنا جان یاد تیرا بلانا یاد ہے

میٹھی میٹھی چھیڑ کے باتیں نرالی پیار کی

ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے

دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ، تو سو سو ناز سے

جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ

مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے

شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا

اور مرا وہ چھیڑنا و ہ گد گدانا یاد ہے

باوجود ادعائے اتقا حسرت مجھے

آج تک عہد ہوس کا وہ فسانہ یاد ہے

٭٭٭






رنگ لایا ہے ہجوم ساغر و پیمانہ آج

رنگ لایا ہے ہجوم ساغر و پیمانہ آج

بھر گئیں سیرابیوں سے محفل رندانہ آج

بسکہ زیب محفل ہے وہ جلوہ جانانہ آج

ہے سراپا آرزو ہر عاشق دیوانہ آج

یہ ہوا بے تابیوں پر نشۂ مے کا اثر

کہہ دیا سب ان سے حال شوق گستاخانہ آج

رشک سے مٹ مٹ گئے ہم تشنہ کا مان وصال

جب ملا لب ہائے ساقی سے لب پیمانہ آج

ہے فروغ بزم یکتائی جو وہ شمع جمالی

آ گئی ہے دل میں بھی تابی پروانہ آج

ہیں سرور و وصل سے لبریز مشتاقوں کے دل

کر رہی ہیں آرزوئیں سجدۂ شکرانہ آج

حسرتیں دل کی ہوئی جاتی ہیں پامال نشاط

ہے جو وہ جان تمنا رونق کاشانہ آج

غرق ہے رنگنیوں میں مستیوں سے چور چور

ہے سراپا بے خودی وہ نرگس مستانہ آج

میہمانِ خانۂ دل ہے جو وہ رشک بہار

ہو گیا ہے غیرت فردوس یہ ویرانہ آج

مل گیا اچھا سہارا عذر مستی کا ہمیں

لے لیا آغوش میں اس گل کو بے باکانہ آج

خم لگا دے ہم بلا نوشوں کے منہ سے ساقیا

کام آئے گا نہ ساگر آج نے پیمانہ آج

دیکھئیے اب رنگ کیا لائے وہ حسن دلفریب

آئینہ پیش نظر ہے ہاتھ میں ہے کاشانہ آج

میں ہی اے حسرت نہیں محو جمال روئے یار

پڑ رہی ہیں سب کی نگاہیں وہ مشتاقانہ آج

٭٭٭






ہم عاشق فاسق تھے ہم صوفی صافی ہیں

ہم عاشق فاسق تھے ہم صوفی صافی ہیں

پی لیں جو کہیں اب بھی در خورد معافی ہیں

بیگار بھی ململ بھی گرمی میں شب فرقت

کام آئیں گے جاڑے میں فردیں جو لحافی ہیں

عقلوں کو بنا دے گا، دیوانہ جمال ان کا

چھا جائیں گی ہوشوں پر آنکھیں وہ غلافی ہیں

ہم شکر ستم کرتے ، کیوں شکوہ کیا ان سے

آئین محبت کے شیوے یہ منافی ہیں

جھوٹی بھی گورا تہی باقی بھی غنیمت ہے

دو گھونٹ بھی ساقی سے مل جائیں تو کافی ہیں

ہم ان کی جفا سے بھی راضی تھے مگر نا حق

اب ہو کے وہ خود نادم سرگرم تلافی ہیں

جدت میں ہے لاثانی حسرت کی غزل خوانی

کیا طرفہ مطالب ہیں، کیا تازہ قوانی ہیں

٭٭٭






روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب

دل نے بھی تیرے سیکھ لئے ہیں چلن تمام

اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خود بخود

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیر ہن تمام

دل خون ہو چکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک

باقی ہوں میں مجھے بھی کر اے تیغ زن تمام

دیکھو تو چشمِ یار کی جادو نگاہیاں

بیہوش اِک نظر میں ہوئی انجمن تمام

ہے نازِ حُسن سے جو فروزاں جبینِ یار

لبریز آبِ نور سے ہے چاہِ ذقن تمام

نشو و نمائے سبزہ و گُل سے بہار میں

شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام

اُس نازنیں نے جب سے کیا ہے وہاں قیام

گلزار بن گئی ہے زمینِ دکن تمام

اچھا ہے اہلِ جور کیے جائیں سختیاں

پھیلے گی یوں ہی شورشِ حُبِّ وطن تمام

سمجھے ہیں اہلِ مشرق کو شاید قریبِ مرگ

مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام

شیرینیِ نسیم ہے سوز و گدازِ میر

حسرتؔ ترے سخن پہ ہے لطفِ سخن تمام

٭٭٭






نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا

نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا

محبت کا یہ بھی ہے کوئی قرینا

وہ کیا قدر جانیں دلِ عاشقاں کی

نہ عالم، نہ فاضل، نہ دانا، نہ بینا

وہیں سے یہ آنسو رواں ہیں، جو دل میں

تمنا کا پوشیدہ ہے اک خزینا

یہ کیا قہر ہے ہم پہ یارب کہ بے مے

گزر جائے ساون کا یوں ہی مہینا

بہار آئی سب شادماں ہیں مگر ہم

یہ دن کیسے کاٹیں گے بے جام و مینا

٭٭٭






چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی

چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی

انتہا تھی یہ دل ربائی کی

مائلِ غمزہ ہے وہ چشمِ سیاہ

اب نہیں خیر پارسائی کی

دام سے اُس کے چھوٹنا تو کہاں

یاں ہوس بھی نہیں رہائی کی

ہوکے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش

صلح میں شان ہے لڑائی کی

اس تغافل شعار سے حسرت

ہم میں طاقت نہیں جدائی کی

٭٭٭






بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

الٰہی ترکِ الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں

نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفیتِ صہبا کے افسانے

شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں

رہا کرتے ہیں قید ہوش میں اے وائے ناکامی

وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یا د آتے ہیں

حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترکِ محبت کی

تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

٭٭٭






کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں

کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں

دل کی تپش کو کیا کروں، سوزِ جگر کو کیا کروں

غیر ہے گرچہ ہمنشیں، بزم میں ہے تو وہ حسیں

پھر مجھے لے چلا وہیں، ذوقِ نظر کو کیا کروں

شورشِ‌ عاشقی کہاں، اور مری سادگی کہاں

حُسن کو تیرے کیا کہوں، اپنی نظر کو کیا کروں

غم کا نہ دل میں‌ ہو گزر، وصل کی شب ہو یوں بسر

سب یہ قبول ہے مگر، خوفِ سحر کو کیا کروں

حال میرا تھا جب بتر، تب نہ ہوئی تمہیں خبر

بعد مرے ہوا اثر، اب میں‌ اثر کو کیا کروں

دل کی ہوس مٹا تو دی، ان کی جھلک دکھا تو دی

پر یہ کہو کہ شوق کی "بارِ دگر" کو کیا کروں

حسرتِ نغز گو ترا، کوئی نہ قدرداں ملا

اب یہ بتا کہ میں ترے ، عرضِ ہنر کو کیا کروں

٭٭٭






سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں

سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں

سیرِ گلشن وہ کریں شوق سے ، تنہا نہ کریں

اب تو آتا ہے یہی جی میں کہ اے محو جفا

کچھ بھی ہو جائے مگر تری تمنّا نہ کریں

میں ہوں مجبور تو مجبور کی پرسش ہے ضرور

وہ مسیحا ہیں تو بیمار کو اچھا نہ کریں

دردِ دل اور نہ بڑھ جائے تسلی سے کہیں

آپ اس کام کا زنہار ارادہ نہ کریں

شکوۂ جور تقاضائے کرم عرض وفا

تم جو مل جاؤ کہیں ہم کو تو کیا کیا نہ کریں

نورِ جاں کے لئے کیوں ہو کسی کامل کی تلاش

ہم تری صورت زیبا کا تماشا نہ کریں

حال کھل جائے گا بیتابیِ دل کا حسرت

بار بار آپ انہیں شوق سے دیکھا نہ کریں

٭٭٭






یاد ہیں سارے وہ عیشِ با فراغت کے مزے

یاد ہیں سارے وہ عیشِ با فراغت کے مزے

دل ابھی بھولا نہیں، آغازِ الفت کے مزے

وہ سراپا ناز تھا ،بے گانۂ رسمِ جفا

اور مجھے حاصل تھے لطفِ بے نہایت کے مزے

حسن سے اپنے وہ غافل تھا، میں اپنے عشق سے

اب کہاں سے لاؤں وہ نا واقفیت کے مزے

میری جانب سے نگاہِ شوق کی گُستاخیاں

یار کی جانب سے آغازِ شرارت کے مزے

یاد ہیں وہ حسن و الفت کی نرالی شوخیاں

التماسِ عذر و تمہیدِ شکایت کے مزے

صحتیں لاکھوں مری بیماریِ غم پر نثار

جس میں اٹھے بار ہا ان کی عیادت کے مزے

٭٭٭






چاہت مری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک

چاہت مری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک

کچھ میری حقیقت ہی نہیں آپ کے نزدیک

کچھ قدر تو کرتے مرے اظہارِ وفا کی

شاید یہ محبت ہی نہیں آپ کے نزدیک

یوں غیر سے بے باک اشارے سرِ محفل

کیا یہ مری ذلت ہی نہیں آپ کے نزدیک

عشاق پہ کچھ حد بھی مقرر ہے ستم کی

یا اس کی نہایت ہی نہیں آپ کے نزدیک

اگلی سی نہ راتیں ہیں، نہ گھاتیں ہیں نہ باتیں

کیا اب میں وہ حسرت ہی نہیں آپ کے نزدیک

٭٭٭






پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو

مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنّا دیکھو

جرمِ نظارہ پہ کون اتنی خوشامد کرتا

اب وہ روٹھے ہیں لو اور تماشا دیکھو

دو ہی دن میں وہ بات ہے نہ وہ چاہ نہ پیار

ہم نے پہلے ہی یہ تم سے نہ کہا تھا دیکھو؟

ہم نا کہتے تھے بناوٹ سے ہے سارا غصّہ

ہنس کے لو پھر انھوں نے ہمیں دیکھا دیکھو

مستیِ حسن سے اپنی بھی نہیں تم کو خبر

کیا سنو عرض میری،حال میرا کیا دیکھو

گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال

شام دیکھو نہ میری جان سویرا دیکھو

خانۂ جان میں نمودار ہے اک پیکرِ نور

حسرتو آؤ رخِ یار کا جلوہ دیکھو

سامنے سب کے مناسب نہیں ہم پر یہ عتاب

سر سے ڈھل جائے نہ غصّے میں‌ ڈوپٹہ دیکھو

مر مٹے ہم تو کبھی یاد بھی تم نے نہ کیا

اب محبّت کا نہ کرنا کبھی دعویٰ دیکھو

دوستو ترکِ محبّت کی نصیحت ہے فضول

اور نہ مانو تو دلِ زار کو سمجھا دیکھو

سر کہیں،بال کہیں،ہاتھ کہیں‌،پاؤں کہیں

اس کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو

اب وہ شوخی سے یہ کہتے ہیں ستمگر جو ہیں‌ہم

دل کسی اور سے کچھ روز بہلا دیکھو

ہوَسِ دل مٹی ہے نہ مٹے گی حسرت

دیکھنے کے لیئے چاہو انہیں جتنا دیکھو

٭٭٭






رسمِ جفا کامیاب ، دیکھئیے ، کب تک رہے

رسمِ جفا کامیاب ، دیکھئیے ، کب تک رہے

حُبِ وطن، مستِ خواب، دیکھئیے ، کب تک رہے

دل پہ رہا مدتوں غلبۂ یاس و ہراس

قبضۂ خرم و حجاب، دیکھئیے ، کب تک رہے

تابہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب

ضبط کی، لوگوں میں تاب، دیکھئیے ، کب تک رہے

پردۂ اصلاح میں کوششِ تخریب کا

خلقِ خدا پر عذاب، دیکھئیے ، کب تک رہے

نام سے قانون کے ، ہوتے ہیں کیا کیا ستم

جبر، بہ زیرِ انقلاب، دیکھئیے ، کب تک رہے

دولتِ ہندوستان قبضۂ اغیار میں

بے عدد و بے حساب، دیکھئیے ، کب تک رہے

ہے تو کچھ اُکھڑا ہوا بزمِ حریفاں کا رنگ

اب یہ شراب و کباب، دیکھئیے ، کب تک رہے

حسرتِ آزاد پر جورِ غلامانِ وقت

از رہِ بُغض و عناد، دیکھئیے ، کب تک رہے

٭٭٭






نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے

نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے

وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

دلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد

ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی

مجھے وہ شاملِ اربابِ امتیاز کرے

غمِ جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش

وہ ان کے دردِ محبت سے ساز باز کرے

امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ

تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت

اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

٭٭٭






خوبرویوں سے یاریاں نہ گئیں

خوبرویوں سے یاریاں نہ گئیں

دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں

عقل صبر آزما سے کچھ نہ ہوا

شوق کی بے قراریاں نہ گئیں

دل کی صحرا نوردیاں نہ چھٹیں

شب کی اختر شماریاں نہ گئیں

ہوش یاں سدِّ راہِ علم رہا

عقل کی ہرزہ کاریاں نہ گئیں

تھے جو ہم رنگِ ناز ان کے ستم

دل کی امّید واریاں نہ گئیں

حسن جب تک رہا نظّارہ فروش

صبر کی شرمساریاں نہ گئیں

طرزِ مومن میں مرحبا حسرت

تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں

٭٭٭






بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس

بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس

اب ہوں میں اور بے دلی کی ہوس

کہ رہے دل نہ بے قراریِ دل

عاشقی ہو نہ عاشقی کی ہوس

وہ ستمگر بھی ہے عجیب کوئی

کیوں ہوئی دل کو پھر اسی کی ہوس

پھرتی رہتی ہے آدمی کو لئے

خوار دنیا میں آدمی کی ہوس

دونوں یکساں ہیں بے خودی میں ہمیں

فکرِ غم ہے نہ خمریِ کی ہوس

واقفِ لذّتِ جنوں جو ہوا

نہ رہی اس کو آگہی کی ہوس

ان کو دیکھا ہے جب سے گرمِ عتاب

آرزو کو ہے خود کشی کی ہوس

کر سکیں بھی تو ہم فقیر ترے

نہ کریں تاجِ خسرویِ کی ہوس

ہجرِ ساقی کے دور میں حسرت

اب نہ مے ہے نہ مے کشی کی ہوس

٭٭٭






آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے

آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے

تم یہ تو خوب کارِ پسندیدہ کر چلے

مایوس دل کو پھر سے وہ شوریدہ کر چلے

بیدار سارے فتنہ و خوابیدہ کر چلے

اظہار التفات کے پردے میں اور بھی

وہ عقدہ ہائے شوق کو پیچیدہ کر چلے

ہم بے خودوں سے چھپ نہ سکا راز آرزو

سب اُن سے عرضِ حال دل و دیدہ کر چلے

تسکینِ اضطراب کو آئے تھے وہ مگر

بے تابیوں کی روح کو بالیدہ کر چلے

یہ طرفہ ماجرا ہے کہ حسرت سے مل کے وہ

کچھ جان و دل کو اور بھی شوریدہ کر چلے

٭٭٭






کیا یا کام انہیں پرسشِ اربابِ وفا سے

کیا یا کام انہیں پرسشِ اربابِ وفا سے

مرتا ہے تو مر جائے کوئی ان کی بلا سے

مجھ سے بھی خفا ہو ، میری آہوں سے بھی برہم

تم بھی عجب چیز ہو، کہ لڑتے ہو ہوا سے

دامن کو بچاتا ہے وہ کافر کہ مبادا

چھو جائے کہیں پاکی خون شہدا سے

دیوانہ کیا ساقی محفل نے سبھی کو

کوئی نہ بچا اس نظر ہوش ربا سے

اک یہ بھی حقیقت میں ہے شان کرم ان کی

ظاہر میں وہ رہتے ہیں جو ہر وقت خفا سے

آگاہ غم عشق نہیں ، وہ شہ خوباں

اور یہ بھی جو ہو جائے فقیروں کی دعا سے

قائل ہوئے رندان خرابات کے حسرتؔ

جب کچھ نہ ملا ہم کو گروہ عرفا سے

٭٭٭






وہ قامتِ بلند نہیں در قبائے ناز

وہ قامتِ بلند نہیں در قبائے ناز

اک سروِ ناز ہے جو بنا ہو برائے ناز

اُس نازنیں پہ ختم ہیں سب شیوہ ہائے ناز

جس کو بنا کے خود بھی ہے نازاں خدائے ناز

کیا کیا نہ آرزو کے بڑھیں دل میں حوصلے

رکھ دیں کبھی جو فرقِ ہوس پردہ پائے ناز

اربابِ اشتیاق ہیں اور انتہائے شوق

حالانکہ حُسن یار ہے اور ابتدائے ناز

کچھ یوں ہی اپنے حُسن پر مغرور تھا وہ شوخ

کچھ لے اُڑی ہے اور بھی اسکو ہوائے ناز

٭٭٭






بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا

بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا

اب تو اظہارِ محبت برملا ہونے لگا

کیا کہا میں نے جو ناحق تم خفا ہونے لگے

کچھ سنا بھی یا کہ یونہی فیصلہ ہونے لگا

اب غریبوں پر بھی ساقی کی نظر پڑنے لگی

بادۂ پس خوردہ ہم کو بھی عطا ہونے لگا

کچھ نہ پوچھو حال کیا تھا خاطرِ بیتاب کا

اُن سے جب مجبور ہو کر میں جدا ہونے لگا

یاد اُس بے وفا کی ہر گھڑی رہنے لگی

پھر اُسی کا تذکرہ صبح و مسا ہونے لگا

کیا ہوا حسرت وہ تیرا ادّعائے ضبطِ غم

دو ہی دن میں رنجِ فرقت کا گلا ہونے لگا

٭٭٭






مستی کے پھر آ گئے زمانے

مستی کے پھر آ گئے زمانے

آباد ہوئے شراب خانے

ہر پھول چمن میں زر بہ کف ہے

بانٹے ہیں بہار نے خزانے

سب ہنس پڑے کھلکھلا کے غنچے

چھیڑا جو لطیفہ صبا نے

سر سبز ہوا نہالِ غم بھی

پیدا وہ اثر کیا ہوا نے

رندوں نے پچھاڑ کر پلا دی

واعظ کے نہ چل سکے بہانے

کر دوں گا میں ہر ولی کو میخوار

توفیق جو دی مجھے خدا نے

ہم نے تو نثار کر دیا دل

اب جانے وہ شوخ یا نہ جانے

بیگانۂ مئے کیا ہے مجھ کو

ساقی کی نگاہِ آشنا نے

مسکن ہے قفس میں بُلبلوں کا

ویراں پڑے ہیں آشیانے

اب کاہے کو آئیں گے وہ حسرتؔ

آغازِ جنوں کے پھر زمانے

٭٭٭






ہے مشق سخن جاری چکّی کی مشقت بھی

ہے مشق سخن جاری چکّی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھُل کھیلو

پر ہم سے قسم لے لو کہ ہو جو شکایت بھی

خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا لے گی

اے حُسن حیا پر ور شوخی بھی شرارت بھی

عُشّاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک

نازک اسی نسبت سے ہے کار محبت بھی

اے شوق کی بے باکی وہ کیا تری خواہش تھی

جس پر انہیں غصّہ ہے انکار بھی حیرت بھی

٭٭٭






وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں

وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں

آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں

بے زبانی ترجمانی شوق بے حد ہو تو ہو

ورنہ پیشِ یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں

مِٹ رہی ہیں دل سے یادیں روز گارِ عیش کی

اب نظر کاہے کو آئیں گی یہ تصویریں کہیں

التفات یار تھا اک خوابِ آغازِ وفا

سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں

تیری بے صبری ہے حسرتؔ خامکاری کی دلیل

گریۂ عشاّق میں ہوتی ہیں تاثیریں کہیں

٭٭٭






گھِر کے آخر آج برسی ہے گھٹا برسات کی

گھِر کے آخر آج برسی ہے گھٹا برسات کی

میکدوں میں کب سے ہوتی تھی دعا برسات کی

موجبِ سوز و سرور و باعثِ عیش و نشاط

تازگی، بخش دل و جاں ہے ہوا برسات کی

شامِ سرما دل رُبا تھا، صبح گرماب خوش نما

دل رُبا تر خوشنما تر، ہے فضا برسات کی

گرمی و سردی کے مٹ جاتے ہیں سب جس سے مرض

لال لال ایک ایسی نکلی ہے دوا برسات کی

سُرخ پوشش پر ہے زرد و سبز بوٹوں کی بہار

کیوں نہ ہوں رنگینیاں تجھ پر فدا برسات کی

دیکھنے والے ہوئے جاتے ہیں پامالِ ہوس

دیکھ کر چھب تیری اے رنگیں ادا برسات کی

٭٭٭






حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا

حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا

کیا کیا میں نے کہ اظہارِ تمنا کر دیا

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتابیاں

ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی

اضطرابِ شوق نے اک حشر برپا کر دیا

ہم رہے یاں تک تری خدمت میں سرگرمِ نیاز

تجھ کو آخر آشنائے ناز بیجا کر دیا

اب نہیں دل کو کسی صورت کسی پہلو قرار

اس نگاہِ ناز نے کیا سحر ایسا کر دیا

عشق سے تیرے بڑھے کیا کیا دلوں کے مرتبے

مہر ذرّوں کو کیا قطروں کو دریا کر دیا

تیری محفل سے اُٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال

دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا

سب غلط کہتے تھے لطفِ یار کو وجہِ سکوں

دردِ دل اُس نے حسرتؔ اور دونا کر دیا

٭٭٭

ماخذ: مختلف ویب سائٹس سے

انتخاب اور ترتیب: اعجاز عبید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔