کسی حال میں نہیں ہوں کوئی حال اب نہیں ہے
جو گئی پلک تلک تھا وہ خیال اب نہیں ہے
میں سکون پا سکوں گا یہ گماں بھی کیوں کیا تھا
ہے یہی ملال کیا کم کہ ملال اب نہیں ہے
نہ رہے اب اس کے دل میں خلشِ شکستِ وعدہ
کہ یہاں کوئی حسابِ مہ و سال اب نہیں ہے
یہ دیارِ دید کیا ہے گئے دشتِ دل سے بھی ہم
کہ ختن زمین میں بھی وہ غزال اب نہیں ہے
جو لیے لیے پھری ہے تجھے روز اک نگر میں
مرے دل ترے نگر میں وہ مثال اب نہیں ہے
لبِ پُر سوال لے کے ہمیں کُو بہ کُو ہے پھِرنا
ہو کوئی جواب بر لب یہ سوال اب نہیں ہے
ہونے کا دھوکا ہی تھا
جو کچھ تھا وہ تھا ہی تھا
اب میں شاید تہہ میں ہوں
پر وہ کیا دریا ہی تھا
بُود مری ایسی بِکھری
بس میں نے سوچا ہی تھا
بھُولنے بیٹھا تھا میں اُسے
چاند ابھی نِکلا ہی تھا
ہم کو صنم نے خوار کیا
ورنہ خدا اچھا ہی تھا
کیسا ازل اور کیسا ابد
جس دَم تھا لمحہ ہی تھا
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو
اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو
کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو
تم نے کیسے بُلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو
خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو
سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو
خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو
تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو
راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تُو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع
میں تیرے ساتھ بُجھ نہ سکا حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع
میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع
اِک رودِ نا شناس میں ہے ڈوبنا مجھے
سو اے کنارِ رود ، بیابان الوداع
خود اپنی اک متاعِ زبوں رہ گیا ہوں میں
سو الوداع، اے مرے سامان الوداع
سہنا تو اک سزا تھی مرادِ محال کی
اب ہم نہ مل سکیں گے ، میاں جان الوداع
اے شام گاہِ صحنِ ملالِ ہمیشگی
کیا جانے کیا تھی تری ہر اک آن ، الوداع
کِس کِس کو ہے علاقہ یہاں اپنے غیر سے
انسان ہوں میں ، تُو بھی ہے انسان الوداع
نسبت کسی بھی شہ سے کسی شے کو یاں نہیں
ہے دل کا ذرہ ذرہ پریشان الوداع
رشتہ مرا کوئی بھی الف ، بے سے اب نہیں
امروہا الوداع سو اے *بان* الوداع
اب میں نہیں رہا ہوں کسی بھی گمان کا
اے میرے کفر ، اے مرے ایمان الوداع
تھی گر آنے میں مصلحت حائل
یاد آنا کوئی ضروری تھا
دیکھیے ہو گئی غلط فہمی
مسکرانا کوئی ضروری تھا
لیجیے بات ہی نہ یاد رہی
گُنگُنانا کوئی ضروری تھا
گُنگُنا کر مری جواں غزلیں
جھُوم جانا کوئی ضروری تھا
مجھ کو پا کر کسی خیال میں گُم
چھُپ کے آنا کوئی ضروری تھا
اُف وہ زلفیں ، وہ ناگنیں ، وہ ہنسی
یوں ڈرانا کوئی ضروری تھا
اور ایسے اہم مذاق کے بعد
رُوٹھ جانا کوئی ضروری تھا
تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی
بِلا کا دن نکلنا تھا بَلا کی رات ہونا تھی
بلا کا دن بھی نکلا اور بَلا کی رات بھی گزری
عذابِ ذات بھی گزرا فنائے ذات بھی گزری
O
مگر معلوم نامعلوم میں جانے نہ جانے کیوں
تمہارے اور میرے درمیاں وہ بات جانم جاں
کسی صورت نہ ہو پائی کسی صورت نہ ہو پائی
میرے دل اور میری جان کے گزرے زمانے کیوں
تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی
میں لمحوں کا گدا گر تھا
تمہارے جاوداں افروز لمحوں کی پذیرش کا گداگر تھا
سراسر اک گداگر
ایک بے کشکول و کاسہ ایک بے کوچہ بہ کوچہ
بے صدا و بے دعا از خود گزشتہ اک گداگر تھا
جو گمانِ پُر سرو سودا کے جاں پرور سراغ آرزو آگیں میں
رفتہ اور آئندہ کے خوابوں کی گدائی پیشہ کرتا ہے
خیالوں کو ، نفس بودش خیالوں کو ، ابد اندیشہ کرتا ہے
یہ اک تمثیل تھی بے صحنۂ تمثیل
اور جو کچھ تھا یہی تھا بس یہی کچھ تھا
پھر اس کے بعد جانانہ
تمہاری جاودانہ آرزو کے بازوانِ مرمریں
میرے، مرے آغوش کے مرگِ سفیدِ بے فغاں میں
میری دل جُو زندگی تھے ارجمندی تھے
میں جن میں خرم و خُرسند رہتا تھا
یہ میری دم بہ دم کی زندگی کی صحنہ تابی تھی
مری ہر آرزو پہلو بہ پہلو سبزہ گوں تھی اور شہابی تھی
پھر اس کے بعد کے منظر میں
(یعنی اس گھڑی)
جو پیش آیا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ میں تم میں
تمہارے جاں فزا آغوش کی نزدیک تر خوشبوئی میں
اور اس کے گرداگرد میں دم توڑ دیتا ہوں
پھر اس کے بعد زندہ ہو کے اُٹھتا ہوں
قیامت کی ہنسی ہنستا ہوں
پھر سکتے میں رہ جاتا ہوں
آخر اک نہایت خندہ آور گریہ کرتا ہوں
ہم سے بے واسطہ نہیں ہے وہ
وہ یہیں تھا یہیں کہیں ہے وہ
کر گیا ہے وہ رَم کسی جانب
اک غزالِ غزل زمیں ہے وہ
میرا جاوید، معنی جاوید
خود بھی ایک شعر دل نشیں ہے وہ
میں ہوں اپنا حریفِ سخت کماں
روزِ ہیجاں مری کمیں ہے وہ
در شبِ کوچ یارِ من فروخت
کہ مرا سالکِ گزیں ہے وہ
آخرش میرا ہی تو ہے شاگرد
سب جہاں ہیں، وہیں نہیں ہے وہ
کیسے میں سہہ سکوں گا ہجر اس کا
کہ میرا ناز و نازنیں ہے وہ
خاک گنجینۂ زمیں ہو خاک
زیرِ گنجینۂ زمیں ہے وہ
غم میں غالب کا سہہ رہا ہوں آج
آج عارف کا ہم نشین ہے وہ
اب زمیں بوس آستاں ہوں میں
آسماں مرتبہ جبیں ہے وہ
اُس نے مارا ہے اپنے مرشد کو
کِس بَلا کا جہنمیں ہے وہ
اب رگوں میں مری بچا ہے جو خوں
مالِ مژگاں و آستیں ہے وہ
پڑ گیا چین، دل ہوا یک سو
وہ جو تھا اب کہیں نہیں ہے وہ
نالہ ہا، شور ہا، تپیدن ہا
میرے ہوتے کفن گزیں ہے وہ
آج کا دن نہیں شراب کا دن
آج ہے جونؔ زہرِ ناب کا دن
تم
تمہارا نام
لیکن میں نے یہ نام پہلی بار تم سے ہی سُنا ہے
کون ہو تم
کون تھیں تم
اب رہا میں یعنی میں
میں تو کبھی تھا ہی نہیں
تھا ہی نہیں میں
اور سارے کاغذوں پر صرف انگارے لکھے ہیں
صرف انگارے
تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا
O
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
O
مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ!
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے
تم مجھے بتاؤ تو ۔۔۔۔۔
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیے تم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے
حقیقت مجھ کو راس آتی نہیں ہے
غزالہ! تم فقط اک خواب ہو کیا
تمہاری جاودانہ جستجو ہے
مری جاں! تم جو ہو نایاب ہو کیا
سراپا سحر، یکسر بے نیازی
تم اِک آہنگِ بے مضراب ہو کیا
O
مری زیبُ النسائے شعر ہو تم
تمہارا سحر میری شاعری ہے
تمہاری آرزوئے جاودانہ
جمالِ جاودانِ زندگی ہے
تمہیں ہے پر دیکھا نہیں ہے
تمہارے خواب کو سجدے کیے ہیں
تمہارے ہجرِ بے وعدہ میں میں نے
تمہاری یاد کے بوسے لیے ہیں
بدن ہو تم خیالِ جاوداں کا
بدن کو پیرہن بھی چاہیے
شمیمِ جاں نوازِ یاسمن کو
نہالِ یاسمن بھی چاہیے ہے
نظر ہے خواب کی بے ساز و ساماں
نظر کو بھی تو کچھ بخشو مری جاں
تم سے جو میری جانِ جاں تھیں فارہہ
کون تھیں تم اور کہاں تھی فارہہ
ہوں میں اب اور اک جہانِ نا شناس
تم ہی بس میرا خیال تھیں فارہہ
کیا ہوا وہ رودِ خوابِ جاں کہ تم
جس میں دست و پا زناں تھیں فارہہ
میں غریقِ رودِ زہرِ ناب ہوں
تم جو تھیں نوشیں زباں تھیں فارہہ
اور کہہ سکتا ہوں کیا میں یعنی میں
تم زمین و آسماں تھیں فارہہ
اب تو میں ہوں خزاں اندر خزاں
تم بہارِ بے خزاں تھیں فارہہ
اب میں ہوں خانہ بدوش اور تم مرا
اک مکانِ جاوداں تھیں فارہہ
میں تھا میرِ داستاں یعنی کہ تم
داستانِ داستاں تھیں فارہہ
کیا بھلا میرا وجود اور کیا عدم
تم *نہیں* تھیں اور *ہاں* تھیں فارہہ
ہاں میں شاید تھا بہت نا مہرباں
تم بَلا کی مہرباں تھیں فارہہ
تھی وہ اپنی درمیانی بھی عجیب
یعنی تم نا درمیاں تھیں فارہہ
کیوں نہ تھوکا جائے اب خونِ جگر
یعنی تم میرا زیاں تھیں فارہہ
ہائے وہ بادِ برینِ سبز کوک
پر تم اک رودِ دُخاں تھیں فارہہ
کیسی خوش بینی خوش اُمیدی کہاں
تم تو حشر بے اماں تھیں فارہہ
کچھ نہیں تھیں تم نہیں تھیں کچھ بھی تم
پر مرا ہندوستاں تھیں فارہہ
سب کنیزیں تھیں تمہاری جانِ من
تم مری نورِ جہاں تھیں فارہہ
جو بدل ٹھہریں تمہارا وہ سبھی
کتنی گھٹیا لڑکیاں تھیں فارہہ
میں جو ہوں اب میں ہوں بے نام و نشاں
تم مرا نام و نشاں تھیں فارہہ
تم نوائے جاودانِ جاں ہو جاں
تم نوائے جاوداں تھیں فارہہ
ایک دل تھا جو کہ تھا اور ایک جاں
اور تم ان کے درمیاں تھیں فارہہ
میں تمہیں میں ٹھوکریں کھاتا رہا
کیوں تم اتنی مہرباں تھیں فارہہ
اک جہانِ بے جہانِ خواب تھا
اور تم اس کا آسماں تھیں فارہہ
میں نے تم کو اپنے دل کا گھر دیا
تم جو تھیں بے خانماں تھیں فارہہ
شکوہ ہا شوریدگی ہا شور ہا
تم بہت کمتر گماں تھیں فارہہ
O
اب مجھے آزاد کر دو چھوڑ دو
جان و دل کے سارے رشتے توڑ دو
جب کوئی منزل نہیں میری تو پھر
رُخ کسی جانب بھی میرا موڑ دو
O
کچھ نہیں تھا کیا حقیقت کا خیال
صرف افسانے تھے ممکن اور محال
اک *عبث* میں خونِ دل تھوکا گیا
کوئی بھی حالت نہیں تھی اور حال
O
اک گمانِ بے گماں ہے زندگی
داستاں کی داستاں ہے زندگی
دَم بہ دَم ہے اک فراقِ جاوداں
اک جبیں بے آستاں ہے زندگی
کہکشاں بر کہکشاں ہے اک گریز
بودِ بے سود و زیاں ہے زندگی
ہے مری تیرہ نگاہی اک تلاش
تم کہاں ہو اور کہاں ہے زندگی
O
دل تھا درہم اور برہم رایگاں
تھے تمہاری زُلف کے خم رایگاں
اپنی ساری آرزوئیں تھیں فریب
اپنے خوابوں کا تھا عالم رایگاں
جونؔ شاید کچھ نہیں کچھ بھی نہیں
ہے دوام اک وہم اور دم رایگاں
زندگی بس رایگانی ہی تو ہے
میں بہت خوش ہوں کہ تھے ہم رایگاں
ہم رَسا اور نارسا کچھ بھی نہ تھے
یعنی جونؔ و فارہہ کچھ بھی نہ تھے
نشۂ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
اپنے ہی زور میں کمزور ہوئی جاتی ہو
میں کوئی آگ نہیں، آنچ نہیں، دھوپ نہیں
کیوں پسینہ میں شرابور ہوئی جاتی ہو
O
بات ہی کب کسی کی مانی ہے
اپنی ہٹ پوری کر کے چھوڑو گی
یہ کلائی یہ جسم اور یہ کمر
تم صراحی ضرور توڑو گی
O
عجب تھا اس کی دلداری کا انداز
وہ برسوں بعد جب مجھ سے مِلا ہے
بَھلا میں پوچھتا اس سے تو کیسے
متاعِ جاں! تمہارا نام کیا ہے
O
کیا ہو گئیں اپنی وعدہ گاہیں
ہر چیز بدل گئی یہاں تو
میں شہرِ وفا سے آ رہا ہوں
کوئی بھی نہیں مِلا وہاں تو
O
لہو روتے نہ اگر ہم دمِ رخصت یاراں
کیا عجب تھا کہ کوئی اور تماشہ کرتے
چلو اچھا ہے کہ وہ بھی نہیں نزدیک اپنے
وہ جو ہوتا تو اُسے بھی نہ گوارا کرتے
O
جو رعنائی نگاہوں کے لئے فردوسِ جلوہ ہے
لباسِ مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی
چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو پھر بھی میں اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا
اِن کی لذت اور اذیت سے میں اپنا عہد نہیں توڑوں گا
تیز نظر نابیناؤں کی آبادی میں ،
کیا میں اپنے دھیان کی یہ پونجی بھی گنوا دوں
ہاں میرے خوابوں کو تمھاری صبحوں کی سرد اور سایہ گوں تعبیر
اِن صبحوں نے شام کے ہاتھوں اب تک جتنے سورج بیچے
وہ سب اک برفانی بھاپ کی چمکیلی اور چکر کھاتی گولائی تھے
سو میرے خوابوں کی راتیں جلتی اور دہکتی راتیں
ایسی یخ بستہ تعبیر کے ہر دن سے اچھی ہیں اور سچی بھی ہیں
جس میں دھندلا چکر کھاتا چمکیلا پن چھ اطراف کا روگ بنا ہے
میرے اندھیرے بھی سچے ہیں
اور تمھارے روگ اُجالے بھی جھوٹے ہیں
راتیں سچی ، دن جھوٹے
جب تک دن جھوٹے ہیں جب تک
راتیں سہنا اور اپنے خوابوں میں رہنا
خوابوں کو بہانے والے دن کے اجالے سے اچھے ہیں
ہاں میں بہکاؤں کی دھند سے اڑوں گا
چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو میں پھر بھی اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا
اپنا عہد نہیں توڑوں گا
یہی تو بس میرا سب کچھ ہے
ماہ و سال کے غارت گر سے میری ٹھنی ہے
میری جان پر آن بنی ہے
چاہے کچھ ہو میرے آخری سانس تلک اب چاہے کچھ ہو
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
مری ہر بات بے اثر ہی رہی
نَقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
خود کو دنیا سے مختلف جانا
آگیا تھا مرے گمان میں کیا
ہے نسیمِ بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تُو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
اے صبح! میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں
کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
میں جُرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھُپا گیا ہوں
میں اور فقط اسی کی تلاش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں
رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں
اے شخص! میں تیری جستجو میں
بےزار نہیں ہوں، تھک گیا ہوں
حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی
بعد بھی تیرے جانِ جاں ، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تیری یہاں، پھر تیری یاد بھی گئی
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی
اس کے وصال کے لئے، اپنے کمال کے لئے
حالتِ دل، کہ تھی خراب ،اور خراب کی گئی
تیرا فراق جانِ جاں! عیش تھا کیا میرے لئے
یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے
میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت
دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے
تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں
خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے
اس کی گُل گشت سے روش بہ روش
رنگ ہی رنگ یار اٹھتا ہے
تیرے جاتے ہی اس خرابے سے
شورِ گریہ ہزار اٹھتا ہے
کون ہے جس کو جاں عزیز نہیں؟
لے ترا جاں نثار اٹھتا ہے
صف بہ صف آ کھڑے ہوئے ہیں غزال
دشت سے خاکسار اٹھتا ہے
ہے یہ تیشہ کہ ایک شعلہ سا
بر سرِ کوہسار اٹھتا ہے
کربِ تنہائی ہے وہ شے کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے
تو نے پھر کَسبِ زَر کا ذکر کیا
کہیں ہم سے یہ بار اٹھتا ہے
لو وہ مجبورِ شہر صحرا سے
آج دیوانہ وار اٹھتا ہے
اپنے ہاں تو زمانے والوں کا
روز ہی اعتبار اٹھتا ہے
جون اٹھتا ہے، یوں کہو، یعنی
میر و غالب کا یار اٹھتا ہے
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تُو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
سفر کرنا ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بے بستر نہ رہیو
ہر اک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھیرا
سو میرے ساتھ تُو دن بھر نہ رہیو
بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تُو ذات کے اندر نہ رہیو
سویرے ہی سے گھر آ جائیو آج
ہے روزِ واقعہ باہر نہ رہیو
کہیں چھپ جاؤ تہ خانوں میں جا کر
شبِ فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں
جون مجھ کو جلا وطن کر کے
وہ مرے بِن بھلا رہا مجھ میں
مجھ سے اُس کو رہی تلاشِ امید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں
تھا قیامت سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں
پسِ پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھِنچا رہا مجھ میں
مجھ میں آ کے گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں
اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں
ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
پاؤں پھسلا تو آسمان میں تھے
ہے ندامت لہو نہ رویا دل
زخم دل کے کسی چٹان میں تھے
میرے کتنے ہی نام اور ہمنام
میرے اور میرے درمیان میں تھے
میرا خود پر سے اِعتماد اُٹھا
کتنے وعدے مری اُٹھان میں تھے
تھے عجب دھیان کے در و دیوار
گرتے گرتے بھی اپنے دھیان میں تھے
واہ! اُن بستیوں کے سنّاٹے
سب قصیدے ہماری شان میں تھے
آسمانوں میں گر پڑے یعنی
ہم زمیں کی طرف اُڑان میں تھے
اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور یہ سب دریچہ ہائے خیال
جو تمہاری ہی سمت کھلتے ہیں
بند کر دوں کہ کچھ اسطرح کہ یہاں
یاد کی اک کرن بھی آنہ سکے
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں
جیسے تم صرف اک کہانی تھیں
جیسے میں صرف اک فسانہ تھا
سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے
جو ہم نے گلے مل کر بہائے تھے
نہ جانے وقت ان آنکھوں سے پھر کس طور پیش آیا
مگر میری فریب وقت کی بہکی ہوئی آنکھوں نے
اس کے بعد بھی
آنسو بہائے ہیں
مرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ہیں
مگر یوں ہے کہ ماہ و سال کی اس رائیگانی میں
مری آنکھیں
گلے ملتے ہوئے رشتوں کی فرقت کے وہ آنسو
جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں
اور شام کو
ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے ہیں
مگر ہم نے اک دوسرے سے
کبھی حال پرسی نہیں کی
نہ اک دوسرے کو
کبھی نام لے کر مخاطب کیا
جانے ہم کون ہیں؟
عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
کیاری میں پانی ٹھہرا ہے دیواروں پر کائی ہے
حسن کے جانے کتنے چہرے حسن کے جانے کتنے نام
عشق کا پیشہ حسن پرستی عشق بڑا ہرجائی ہے
آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے
ایک تو اتنا حبس ہے پھر میں سانسیں روکے بیٹھا ہوں
ویرانی نے جھاڑو دے کے گھر میں دھول اڑائی ہے
کون سا قافلہ ہے یہ ، جس کے جرس کا ہے یہ شور
میں تو نڈھال ہو گیا ، ہم تو نڈھال ہو گئے
خار بہ خار گل بہ گل فصل بہار آ گئی
فصل بہار آ گئی ، زخم بحال ہو گئے
شور اٹھا مگر تجھے لذت گوش تو ملی
خوں بہا مگر ترے ہاتھ تو لال ہو گئے
ہم نفسان وضع دار ، مستمعان برد بار
ہم تو تمہارے واسطے ایک وبال ہو گئے
جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہو چکے اب کئی سال ہو گئے
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے
پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں
اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا
ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں
کیا مل گیا ضمیر ہنر بیچ کر مجھے
اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں
کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی
بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں
میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
تم نے سانچے میں جنوںکے ڈھال دیں
کر لیا تھا میں نے عہدِ ترکِ عشق
تم نے پھر بانہیںگلے میںڈال دیں
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
کیا تکلف کریںیہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
ہے اُسے دُور کا سفر درپیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں
تم بنو رنگ،تم بنو خوش بُو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی!!!!
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی !!
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو، رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمھاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھروسا کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچا
تمھیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
ہم تیرا ہجر منانے کے لئے نکلے ہیں
شہر میں اگ لگانے کے لئے نکلے ہیں
شہر کُوچوں میں کارِ حشر بپا کہ آج ہم
اُس کے وعدوں کو بھُلانے کے لئے نکلے ہیں
ہم سے جو روٹھ گیا ہے وہ بہت ہے معصوم
ہم تو اوروں کو منانے کے لئے نکلے ہیں
شہر میں شور ہے وہ یُوں کے گمان کے سفاری
اپنے ہی اپ آنے کے لئے نکلے ہیں
وہ جو تھے شہرِ تحیر ترے پُر فن معمار
وہی پُر فن تجھے ڈھانے کے لئے نکلے ہیں
رہگزر میں تیری قالین بچھانے والے
خون کے فرش بچھانے کے لئے نکلے ہیں
ہمیں کرنا ہے خداوند کی اِمداد سو ہم
دین و کعبہ کو لڑانے کے لئے نکلے ہیں
سرِ شب ایک نئی تمثیل بپا ہونی ہے
اور ہم پردہ اُٹھانے کے لئے نکلے ہیں
ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لئے نکلے ہیں
ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے رُوداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نا جانے کے لئے نکلے ہیں
تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا
پسند آنا ہی تھا جاناں
ہمیں اپنے سے اتنی دور تک جانا ہی تھا جاناں
بجا ہے خانماں سوز آرزوؤں ، تیرہ امّیدوں،
سراسر خوں شدہ خوابوں ، نوازش گر سرابوں،
ہاں سرابوں کی قَسم یک سر بجا ہے
اب ہمارا جان و دل کے جاوداں ، دل جان رشتے کو
اور اس کی زخم خوردہ یاد تک تو بے نیازانہ
بھُلا دینا ہی اچھا ہے
وہ سرمایا ، وہ دل سے بے بہا تر جاں کا سرمایا
گنوا دینا ہی اچھا ہے
زیانِ جاودانی کے گلہ افروز داغوں کو
بجھا دینا ہی اچھا ہے
تمہارا فیصلہ جاناں! مجھے بےحد پسند آیا۔ ۔ ۔
کہاں ہے سمتِ گماں وہ جہانِ جاں پرور
کہ جس کی شش جہتی کا فسونِ چشم کشا
دلوں میں پھیلتا ہے منزلوں میں پھیلتا ہے
جہاں سخن ہے سماعت ، نظر ہی منظر ہے
جہاں حروف لبوں سے کلام کرتے ہیں
جہاں وجود کے معنی خرام کرتے ہیں
ہم بصد ناز دل و جاں میں بسائے بھی گئے
پھر گنوائے بھی گئے اور بھلائے بھی گئے
ہم ترا ناز تھے ، پھر تیری خوشی کی خاطر
کر کے بے چارہ ترے سامنے لائے بھی گئے
کج ادائی سے سزا کج کُلہی کی پائی
میرِ محفل تھے سو محفل سے اٹھائے بھی گئے
کیا گلہ خون جو اب تھوک رہے ہیں جاناں
ہم ترے رنگ کے پرتَو سے سجائے بھی گئے
ہم سے روٹھا بھی گیا یم کو منایا بھی گیا
پھر سبھی نقش تعلق کے مٹائے بھی گئے
جمع و تفریق تھے ہم مکتبِ جسم و جاں کی
کہ بڑھائے بھی گئے اور گھٹائے بھی گئے
جون! دل َ شہرِ حقیقت کو اجاڑا بھی گیا
اور پھر شہر توّہم کے بسائے بھی گئے
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو
میں تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مرّوت ہو
تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو
تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو
کس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو
کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو
داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو
دھُند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرندے ٹیلوں پر
سب کا رُخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف
اپنے گَلوں کو لے کے چرواہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دلِ ناکام میں کہاں جاؤں
اجنبی شام، میں کہاں جاؤں
ہے ضرورت بہت توجّہ کی
یاد آؤ تو کم نہ یاد آؤ
چاہیے مجھ کو جان و دل کا سکوں
میرے حق میںعذاب بن جاؤ
خود سے ہم اک نفس ہلے بھی کہاں
اس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں
خیمہ خیمہ گزار لے یہ شب
صبح دم یہ قافلہ بھی کہاں
اب تامّل نہ کر دلِ خود کام
روٹھ لے پھر یہ سلسلے بھی کہاں
آؤ آپس میں کچھ گِلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گِلے بھی کہاں
خوش ہو سینو، ان خراشوں پر
پھر تنفّس کے یہ صلے بھی کہاں
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
بِن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا میری نیند بھی تمھاری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتطاری ہے
ایک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تیری سواری ہے
خوش رہے تُو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امیدواری ہے
ایک سایہ میرا مسیحا تھا
کون جانے، وہ کون تھا، کیا تھا
وہ فقط صحن تک ہی آتی تھی
میں بھی حُجرے سے کم نکلتا تھا
تجھ کو بھُولا نہیں وہ شخص کے جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا
بات تو دل شکن ہے پر، یارو
عقل سچی تھی، عشق جھُوٹا تھا
اپنے معیار تک نہ پہنچا میں
مجھ کو خود پر بڑا بھروسہ تھا
جسم کی صاف گوئی کے با وصف
روح نے کتنا جھوٹ بولا تھا
رنگ بادِ صبا میں بھرتا ہے
میرا ایک زخم شام کرتا ہے
سب یہی پوچھتے ہیں مجھ سے کہ تو
کیوں سُدھارے نہیں سُدھرتا ہے
روز شام و سحر کی راہوں سے
ایک انبوہ کیوں گزرتا ہے؟
آئینے تیرے سامنے وہ شخص
اب بھلا کیوں نہیں سنورتا ہے
ایلیا جون کچھ نہیں کرتا
صرف خوشبو میں رنگ بھرتا ہے
بیمار پڑوں تو پوچھیو مت
دل خون کروں تو پوچھیو مت
میں شدتِ غم سے حال اپنا
کہہ بھی نہ سکوں تو پوچھیو مت
ڈر ہے مجھے جنون نہ ہو جائے
ہو جائے جنوں تو پوچھیو مت
میں شدتِ غم سے عاجز آ کر
ہنسنے لگوں تو پوچھیو مت
آتے ہی تمھارے پاس اگر میں
جانے بھی لگوں تو پوچھیو مت
دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
ساری دنیا فقط کہانی ہے
تو میری جان داستان تھا کبھی
اب تیرا نام داستانی ہے
سہہ چکے زخمِ التفات تیرا
اب تیری یاد آزمانی ہے
اک طرف دل ہے، اک طرف دنیا
یہ کہانی بہت پرانی ہے
تھا سوال ان کی اداس آنکھوں کا
زندگی کیا نہیں گنوانی ہے
کیا بتاؤں میں اپنے پاسِ انا
میں نے ہنس ہنس کر ہار مانی ہے
ہوس انگیز ہے بدن میرا
ہائے میری ہوس کہ فانی ہے
زندگی کس طرح سے گزاروں میں
مجھ کو روزی نہیں کمانی ہے
بے یک نگاہ بے شوق بھی، اندازہ ہے، سو ہے
با صد ہزار رنگ، وہ بے غازہ ہے، سو ہے
ہوں شامِ حال یک طرفہ کا امیدِ مست
دستک؟ سو وہ نہیں ہے، پہ دروازہ ہے، سو ہے
آواز ہوں جو ہجرِ سماعت میں ہے سکوت
پر اس سکوت پر بھی اک آوازہ ہے، سو ہے
اک حالتِ جمال پر جاں وارنے کو ہوں
صد حالتی میری، میری طنازہ ہے، سو ہے
شوقِ یقیں گزیدہ ہے اب تک یقیں میرا
یہ بھی کسی گمان کا خمیازہ ہے، سو ہے
تھی یک نگاہِ شوق میری تازگی رُبا
اپنے گماں میں اب بھی کوئی تازہ ہے، سو ہے
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
زہر جیسی کچھ دوائیں چاہییں
پوچھتی ہیں آپ، آپ اچھے تو ہیں
جی میں اچھا ہوں، دعائیں چاہییں
**
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
کتنی آنکھیں ہوئیں ہلاکِ نظر
کتنے منظر نہیں رہے آباد
ہم کہ اے دل سخن تھے سر تا پا
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد
شہرِ دل میں عجب محلے تھے
جن میں اکثر نہیں رہے آباد
جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ
اپنے اندر نہیں رہے آباد
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا، خود کو فدا نہیں کیا
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
جو بھی ہو تم پہ معترض، اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خُدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں با خُدا نہیں کیا
نسبت علم ہے بہت حاکمِ وقت کو ہے عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا
مل رہی ہو بڑ ے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں
مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا
بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا
سوچتی ہو ، تو سوچتی ہو کیا
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
کیا کہا عشق جاودانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا
اب نکل آؤ اپنے اندر سے
گھر میں سامان کی ضرورت ہے
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے
خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے
لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
ہاں میرا غم ہی میری فرصت ہے
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سا پا تک بدن سلامت ہے
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے
ایک زندانِ بے دلی اور شام
یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے
تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے
تیری یادوں کے راستے کی طرف
اک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں
دل تڑپتا ہے تیرے خط پڑھ کر
اب ترے خط نہیں پڑھوں گا میں
کسی لباس کی خوشبو جب اڑ کے آتی ہے
تیرے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے
ترے گلاب ترستے ہیں تیری خوشبو کو
تیری سفید چنبیلی تجھے بلاتی ہے
تیرے بغیر مجھے چین کیسے پڑتا
مرے بغیر تجھے نیند کیسے آتی ہے
جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہوگی
شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی
اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی
ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہوگی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہوگی
اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہوگی
کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہوگی
میں نے ہر بار اس سے ملتے وقت
اس سے ملنے کی آرزو کی ہے
اور اس کے جانے کے بعد بھی میں نے
اس کی خوشبو سے گفتگو کی ہے
کتنے عیش اڑاتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
یاروں کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
ہم جان و دل سے یار تھے ، ہم کون تھے ، ہم کون تھے
ہم میں کچھ دلدار تھے ، ہم کون تھے ، ہم کون تھے
آسان تھے سب کے لیئے جیسے سخن لب کے لئے
اپنے دشوار تھے ،ہم کون تھے ، ہم کون تھے
اپنے سے ہم کو بیر تھا، خود اپنا آپا غیر تھا
اپنے سے ہم بیزار تھے ، ہم کون تھے ، ہم کون تھے
ہم کون تھے ہم کون تھے ، اندر سے گلزار ہم
باہر سے ہم پر خار تھے ، ہم کون تھے ، ہم کون تھے
چار سُو مہرباں ہے چوراہہ
اجنبی شہر ، اجنبی بازار
میری تحویل میں ہیں سمتیں
کوئی رستہ کہیں تو جاتا ہے
چار سُو مہرباں ہے چوراہہ
فراق کیا ہے اگر ، یادِ یار دل میں رہے
خزاں سے کچھ نہیں ہوتا ، بہار دل میں رہے
گزار روز و شبِ وصل اک نگار کے ساتھ
وہ ہے ایک شبِ انتظار ،دل میں رہے
تو اپنی ذات کے باہر نہ بکھریو زنہار
فضا کو صاف رکھیو ، غبار دل میں رہے
نہ ہو اگر نہیں دیوار ہائے نقش و نگار
خیالِ پرتوِ نقش و نگار ، دل میں رہے
لبوں کا یہ ہے کہ رشتہ سبھی سے ہے انکا
بنے نہ جس سے لبوں کی وہ خار دل میں رہے
تو بیچ دے سرِ بازار ہوش دل اپنا
ہو اک خیال جو دیوانہ وار دل میں رہے
مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دن
مجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن
اب نہ کوئی دن مرے گھر جائے گا
جانئے کس کے گھر گئے مرے دن
اب نہیں ہیں مرے کوئی دن رات
کہ مجھ ہی کو بسر گئے مرے دن
ساری راتیں گئیں مری بے حال
مرے دن ! بے اثر گئے مرے دن
خوشا اب انتظار ہے نہ امید
یار یاراں ! سدھر گئے اب دن
اب میں بس رہ گیا ہوں راتوں میں
مر گئے جون ! مر گئے مرے دن
بے یک نگاہ ہے شوق بھی ، اندازہ ہے ، سو ہے
با صد ہزار رنگ ، وہ بے غازہ ہے ، سو ہے
ہوں شامِ حال یک طرفہ کا امیدِ مست
دستک ؟ سو وہ نہیں ہے ، پہ دروازہ ہے ، سو ہے
آواز ہوں جو ہجرِ سماعت میں ہے سکوت
پر اس سکوت پر بھی اک آوازہ ہے ، سو ہے
اک حالتِ جمال پر جاں وارنے کو ہوں
صد حالتی مری ، مری طنازہ ہے ، سو ہے
شوقِ یقیں گزیدہ ہے اب تک یقیں مرا
یہ بھی کسی گمان کا خمیازہ ہے ، سو ہے
تھی یک نگاہِ شوق مری تازگی رُبا
اپنے گماں میں اب بھی کوئی تازہ ہے ،سو ہے
دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش
اور چاروں طرف ہے گھر درپیش
ہے یہ عالم عجیب اور یہاں
ماجرا ہے عجیب تر درپیش
دو جہاں سے گزر گیا پھر بھی
وہ رہا خود کو عمر بھر درپیش
اب میں کوئے عبث چلوں
کئی اک کام ہیں ادھر درپیش
اس کے دیدار کی امید کہاں
جبکہ ہے دید کو نظر درپیش
اب مری جاں بچ گئی یعنی
ایک قاتل کی ہے سپر درپیش
خلوتِ ناز اور آئینہ
خود نگر کو ہے ،خود نگر درپیش
یارو نگہ یار کو ، یاروں سے گلہ ہے
خونیں جگروں ، سینہ فگاروں سے گلہ ہے
جاں سے بھی گئے ، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی
جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گلہ ہے
اب وصل ہو یا ہجر ، نہ اب تک بسر آیا
اک لمحہ ، جسے لمحہ شماروں سے گلہ ہے
اڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی
صحراؤں پر شور دیاروں سے گلہ ہے
بیکار کی اک کارگزاری کے حسابوں
بیکار ہوں اور کار گزاروں سے گلہ ہے
بے فصل اشاروں سے ہوا خونِ جنوں کا
ان شوخ نگاہوں کے اشاروں سے گلہ ہے
ایک سایہ میرا مسیحا تھا
کون جانے وہ کون تھا ، کیا تھا
وہ فقط صحن تک ہی آتی تھی
میں بھی حجرے سے بھی کم نکلتا تھا
تجھ کو بھُولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
وہ جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا
بات تو دل شکن سی ہے یارو
عقل سچی تھی ، عشق سچا تھا
اپنے معیار تک نہ پہنچا میں
مجھ کو خود پر بڑا بھروسہ تھا
جسم کی صاف گوئی کے با و صف
روح نے کتنا سچ بولا تھا
ہر خراشِ نفس ، لکھے جاؤں
بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں
ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس
روشنی کے برس لکھے جاؤں
اُن بسی بستیوں کا سارا لکھا
ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں
مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں
بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں
ہے جہاں تک خیال کی پرواز
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں
ہیں خس و خارِ دید ، رنگ کے رنگ
رنگ پر خارو خس لکھے جاؤں
تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو اور میں دل میں شرمندہ ہوں
اپنے جھوٹے دکھ سے تم کوکب تک دکھ پہنچاؤں گا
تم تو وفا میں سرگرداں ہو شوق میں رقصاں رہتی ہو
مجھ کو زوالِ شوق کا غم ہے میں پاگل ہو جاؤں گا
جیت کے مجھ کو خوش مت ہونا میں تو اک پچھتاوا ہوں
کھوؤں گا ، کڑھتا رہوں گا ، پاؤں گا ، پچھتاؤں گا
عہدِ رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں گا
شام کہ اکثر بیٹھے بیٹھے دل کچھ ڈوبنے لگتا ہے
تم مجھ کو اتنا نہ چاہوں میں شاید مر جاؤں گا
عشق کسی منزل میں آ کر اتنا بھی بے فکر نہ رہو
اب بستر پر لیٹوں گا میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا
میرا میری ذات میں سودا ہوا
اور میں پھر بھی نہ شرمندہ ہوا
کیا سناؤں سرگزشتِ زندگی
اک سرائے میں تھا میں ٹھیرا ہوا
پاس تھا رشتوں کا جس بستی میں عام
میں اس بستی میں بے رشتہ ہوا
اک گلی سے جب سے روٹھن ہے مری
میں ہوں سارے شہر سے روٹھا ہوا
پنج شنبہ اور دکانِ مے فروش
کیا بتاؤں کیسا ہنگامہ ہوا
وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں
ترکِ الفت ہے کس قدر آسان
آج تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
ہے کہاں موجۂ صبا و شمیم
جیسے تو موجۂ صبا ہی نہیں
جس سے کوئی خطا ہوئی ہو کبھی
ہم کو وہ آدمی ملا ہی نہیں
وہ بھی کتنا کٹھن رہا ہو گا
جو کہ اچھا بھی تھا ، برا بھی نہیں
کوئی دیکھے تو میرا حجرۂ ذات
یاں سبھی کچھ وہ تھا جو تھا ہی نہیں
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
دل کا دیارِ خواب میں ، دور تلک گُزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں ، آج بڑا سفر رہا
ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا ، لوحِ خیال پر رہا
نقش گروں سے چاہیے ، نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو رنگ بہت بکھر رہا
جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں پھر وہیں جا کے مر رہا
شہرِ فراقِ یار سے آئی ہے اک خبر مجھے
کوچہ یادِ یار سے ، کوئی نہیں اُبھر رہا
نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چُھپا
غنیمت کہ میں اپنے باہر چُھپا
مجھے یاں کسی پہ بھروسہ نہیں
میں اپنی نگاہوں سے چھپ کر چُھپا
پہنچ مخبروں کی سخن تک کہاں
سو میں اپنے ہونٹوں میں اکثر چُھپا
مری سن! نہ رکھ اپنے پہلو میں دل
اسے تو کسی اور کے گھر چُھپا
یہاں تیرے اندر نہیں میری خیر
مری جاں مجھے میرے اندر چُھپا
خیالوں کی آمد میں یہ آرجار
ہے پیروں کی یلغار تو سر چُھپا
ناروا ہے سخن شکایت کا
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا
تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
تو نہیں تھا ہماری قیمت کا
صبح سے شام تک میری دُنیا
ایک منظر ہے اس کی رخصت کا
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
اک فقط کھیل ہے مروت کا
آ گئی درمیان روح کی بات
ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا محبت کا
شکوہ اول تو بے حساب کیا
اور پھر بند ہی یہ باب کیا
جانتے تھے بدی عوام جسے
ہم نے اس سے بھی اجتناب کیا
تھی کسی شخص کی تلاش مجھے
میں نے خود کو ہی انتخاب کیا
اک طرف میں ہوں ، اک طرف تم ہو
جانے کس نے کسے خراب کیا
آخر اب کس کی بات مانوں میں
جو مِلا ، اس نے لاجواب کیا
یوں سمجھ تجھ کہ مضطرب پا کر
میں نے اظہارِ اضطراب کیا
نشۂ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
اپنے ہی زور میں کمزور ہوئی جاتی ہو
میں کوئی آگ نہیں، آنچ نہیں، دھوپ نہیں
کیوں پسینہ میں شرابور ہوئی جاتی ہو
----------------------------------------
بات ہی کب کسی کی مانی ہے
اپنی ہٹ پوری کر کے چھوڑو گی
یہ کلائی یہ جسم اور یہ کمر
تم صراحی ضرور توڑو گی
----------------------------------------
عجب تھا اس کی دلداری کا انداز
وہ برسوں بعد جب مجھ سے مِلا ہے
بَھلا میں پوچھتا اس سے تو کیسے
متاعِ جاں! تمہارا نام کیا ہے
----------------------------------------
کیا ہو گئیں اپنی وعدہ گاہیں
ہر چیز بدل گئی یہاں تو
میں شہرِ وفا سے آ رہا ہوں
کوئی بھی نہیں مِلا وہاں تو
----------------------------------------
لہو روتے نہ اگر ہم دمِ رخصت یاراں
کیا عجب تھا کہ کوئی اور تماشہ کرتے
چلو اچھا ہے کہ وہ بھی نہیں نزدیک اپنے
وہ جو ہوتا تو اُسے بھی نہ گوارا کرتے
دُکھ ہیں اور میں ہوں
میں ہوں اور دُکھ ہیں
قاتل تر سُکھ ہیں
شنکر جی، گونگے شنکر جی
ہونٹ میرے کُکھ ہیں
میں ہوں اور دُکھ ہیں
تم ہو جاناں شباب و حسن کی آگ
آگ کی طرح اپنی انچ میں گم
پھر مرے بازوں پہ جھُک آئیں
لو مجھے اب جلا ہی ڈالو تم
آپ کی تلخ نوائی کی ضرورت ہی نہیں
میں تو ہر وقت ہی مایوسِ کرم رہتا ہوں
آپ سے مجھ کو ہے اک نسبتِ احساسِ لطیف
لوگ کہتے ہیں ، مگر میں تو نہیں کہتا ہوں
چڑھ گیا سانس جھک گئیں نظریں
رنگ رخسار میں سمٹ آیا
ذکر سن کر مری محبت کا
اتنے بیٹھے تھے ، کون شرمایا ؟
تم زمانے سے لڑ نہیں سکتیں
خیر یہ راز آج کھول دیا
وہ اجازت کہ جا رہو ہوں میں
تم نے باتوں میں زہر کھول دیا
دور نظروں سے خلوتِ دل میں
اس طرح آج اُن کی یاد آئی
ایک بستی کے پار شام کا وقت
جیسے بجتی ہو شہنائی
ہیں بے طور یہ لوگ تمام
ان کے سانچہ میں نہ ڈھلو
میں بھی یہاں سے بھاگ چلوں
تم بھی یہاں سے بھاگ چلو
***
ٹائپنگ: اردو کی مختلف فورموں کے مختلف ارکان
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید