آنگن میں ستاروں کو سجانے کے یہ دن تھے!
عباس مری ترے جانے کے یہ دن تھے؟
جانے کی تجھے کونسی عجلت تھی یہاں سے؟
گلشن میں نئے پھول کھلانے کے یہ دن تھے !
تجھ کو تو رہ شوق میں جانا تھا بہت دور
آغوش میں دھرتی کی سمانے کے یہ دن تھے ؟
یہ عمر ترے روٹھ کے جانے کی نہیں تھی
عباس ترے ناز اٹھانے کے یہ دن تھے
کیا ظلمت دوراں نے بھی تجھ کو نہیں روکا؟
اس شمع رفاقت کو بجھا نے کے یہ دن تھے؟
اے میرے جوانمرگ! تری قبر پہ آ کر
گل پاشی کے اور شمعیں جلانے کے یہ دن تھے؟
٭٭٭
یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں
ہمارے بھولنے والے بھی اس عذاب میں ہیں
اسی خیال سے ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں
وہی ہے رنگِ جنوں ، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تری ہی دھن میں ہیں اب تک اسی سراب میں ہیں
عزیز کیوں نہ ہو ماضی کا ہر ورق ہم کو
کہ چند سوکھے ہوئے پھول اس کتاب میں ہیں
شناوروں کی رسائی کے منتظر ساجد
ہم اپنے عہد کے اک شہرِ زیر آب میں ہیں
٭٭٭
تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے
خدا مجھے یہ تحمل یہ حوصلہ بھی نہ دے
مرے بیان صفائی کے درمیاں مت بول
سنے بغیر مجھے اپنا فیصلہ بھی نہ دے
یہ عمر میں نے ترے نام بے طلب لکھ دی
بھلے سے دامن دل میں کہیں جگہ بھی نہ دے
یہ دن بھی آئیں گے ایسا کبھی نہ سوچا تھا
وہ مجھ کو دیکھ بھی لے اور مسکرا بھی نہ دے
یہ رنجشیں تو محبت کے پھول ہیں ساجد
تعلقات کو ا س بات پر گنوا بھی نہ دے
٭٭٭
تھی جس سے روشنی ، وہ دیا بھی نہیں رہا
اب دل کو اعتبارِ ہوا بھی نہیں رہا
تو بجھ گیا تو ہم بھی فروزاں نہ رہ سکے
تو کھو گیا تو اپنا پتہ بھی نہیں رہا
کچھ ہم بھی ترے بعد زمانے سے کٹ گئے
کچھ ربط و ضبط خدا سے بھی نہیں رہا
گویا ہمارے حق میں ستم در ستم ہوا
حرفِ دعا بھی ، دستِ دعا بھی نہیں رہا
کیا شاعری کریں کہ ترے بعد شہر میں
لطف کلام ، کیفِ نوا بھی نہیں رہا
٭٭٭
کوئی رُقعہ نہ لفافے میں کلی چھوڑ گیا
بس اچانک وہ خموشی سے گلی چھوڑ گیا
جب دیا ہی نہ رہا،خوف ہو کیا معنی؟
خالی کمرے کی وہ کھڑکی بھی کھلی چھوڑ گیا
گونجتے رہتے ہیں سناٹے اکیلے گھر میں
در و دیوار کو وہ ایسا دُکھی چھوڑ گیا
بس اُسی حال کی تصویر بنا بیٹھا ہوں
مجھ کو جس میں وہ میرا سخی چھوڑ گیا
پہلے ہی درہم دینار محبت کم تھے
اک تہی دست کو وہ اور تہی چھوڑ گیا
کہیں تنہائی کے صحرا میں نہ پیاسا مر جاؤں
جانے والا مری آنکھوں میں نمی چھوڑ گیا
٭٭٭
معلوم نہ تھا ہم کو ستائے گا بہت وہ
بچھڑے گا تو پھر یاد بھی آئے گا بہت وہ
اب جس کی رفاقت میں بہت خندہ بہ لب ہیں
اس بار ملے گا تو رلائے گا بہت وہ
چھوڑ آئے گا تعبیر کے صحرا میں اکیلا
ہر چند ہمیں خواب دکھائے گا بہت وہ
وہ موج ہوا بھی ہے ذرا سوچ کے ملنا
امید کی شمعیں تو جلائے گا بہت وہ
ہونٹوں سے نہ بولے گا پر آنکھوں کی زبانی
افسانے جدائی کے سنائے گا بہت وہ
٭٭٭
میں جانتا تھا ایسا بھی اک دور آئے گا
دیوان بھی مرا ، تو ہر اک سے چھپائے گا
پوچھے گا جب کوئی ترا دکھ ، از راہِ خلوص
تو اس کو دوسروں کے فسانے سنائے گا
جو بات بھولنے کی ہے یاد آئے گی تجھے
رکھنا ہے جس کو یاد اسے بھول جائے گا
دل سوختہ ملے گا تجھے جب کوئی کہیں
شدت سے ایک شخص تجھے یاد آئے گا
چھوڑا ہے اس کا شہر فقط اس خیال سے
جب ہم نہ ہوں گے اور وہ کس کو ستائے گا
اس نے بھی کر لیا ہے یہ وعدہ کہ عمر بھر
کچھ بھی ہو ، اب وہ دل نہ کسی کا دکھائے گا
٭٭٭
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں ،مرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو ، مرے سارے زنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو ، میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذاب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا ، مری دھڑکنوں کو قرار دو
تمہیں صبح کیسی لگی ، مری خواہشوں کے دیار کی
جو بھلی لگے تو یہیں رہو ، اسے چاہتوں سے نکھار دو
وہاں گھر میں کون ہے منتظر کہ ہو فکر دیر سویر کی
بڑی مختصر سی یہ رات ہے اسی چاندنی میں گزار دو
کوئی بات کرنی ہے چاند سے کسی شاخسار کی اوٹ میں
مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنج گل میں اتار دو
٭٭٭
کبھی تو نے خود بھی سوچا، کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے
تجھے پا کے بھی مرا دل جو اداس ہے تو کیوں ہے
مجھے کیوں عزیز تر ہے یہ دھواں دھواں سا موسم
یہ ہوائے شام ہجراں، مجھے راس ہے تو کیوں ہے
تجھے کھو کے سوچتا ہوں، مرے دامن طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے کوئی آس ہے تو کیوں ہے
میں اجڑ کے بھی ہوں تیرا، تو بچھڑ کے بھی ہے میرا
یہ یقین ہے تو کیوں ہے، یہ قیاس ہے تو کیوں ہے
مرے تن برہنہ دشمن، اسی غم میں گھل رہے ہیں
کہ مرے بدن پہ سالم، یہ لباس ہے تو کیوں ہے
کبھی پوچھ اس کے دل سے کہ یہ خوش مزاج شاعر
بہت اپنی شاعری میں جو اداس ہے تو کیوں ہے
ترا کس نے دل بجھایا، مرے اعتبار ساجد
یہ چراغ ہجر اب تک، ترے پاس ہے تو کیوں ہے
٭٭٭
تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لئے کریں
دنیا کی بے رُخی تو نہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لئے کریں
تا عمر قربتوں کو تو امکان ہی ناں تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لئے کریں
اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
پھر بے خودی کا حال رقم کس لئے کریں
جن کے لئے افق پہ چمکتے ہیں راستے
مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لئے کریں
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لئے کریں
ساجد کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
آخر ملالِ شامِ الم کس لئے کریں
٭٭٭
یہ نہیں کہ میری محبتوں کو کبھی خراج نہیں ملا
مگر اتفاق کی بات ہے ،کوئی ہم مزاج نہیں ملا
مجھے ایسا باغ نہیں ملا،جہاں گل ہوں میری پسند کے
جہاں زندہ رہنے کا شوق ہو مجھے وہ سماج نہیں ملا
کسی داستان قدیم میں، مرے دو چراغ بھی دفن ہیں
میں وہ شاہ زادہ بخت ہوں جسے طاق و تاج نہیں ملا
میں اک ایسی موت ہوں جس کے سوگ میں کام بند نہیں ہوئے
کوئی شور گریہ نہیں اٹھا کہیں احتجاج نہیں ملا
کوئی آس کوئی اُمید ہو کہیں اُس کی کوئی نوید ہو
کئی دن ہوئے مرا خوش خبر مرا خوش مزاج نہیں ملا
تری گفتگو میں نہیں ملی وہ مٹھاس پیار کے شہد کی
سو،قرار جیسا قرار بھی مرے دل کو آج نہیں ملا
٭٭٭
انہی رسموں سے رواجوں سے بغاوت کی تھی
آپ نے بھی تو جوانی میں محبت کی تھی
کوچہ گردی کی روش مجھ سے بھی کب چھوٹے گی ؟
آپ کو بھی تو بزرگوں نے نصیحت کی تھی
میں بھی کانوں کو لپیٹے ہوئے چپ بیٹھا ہوں
آپ کی بھی تو یہی طرز سماعت کی تھی
ہاں،دریاں کے درباں سے مری یاری ہے
آپ نے بھی تو اسی ڈھب کی سیاست کی تھی
بولتے بولتے رو پڑتا ہوں میں جس کے لیے
آپ نے بھی اسی جذبے کی وکالت کی تھی
میں ہوں شعلہ تو شرربار کبھی آپ بھی تھے
آپ کی بھی تو یہی عمر قیامت کی تھی
٭٭٭
کھو چکے ہیں جس کو،وہ جاگیر لے کر کیا کریں
اک پرائے شخص کی تصویر لے کر کیا کریں
ہم زمیں زادے،ستاروں سے ہمیں کیا واسطہ؟
دل میں ناحق خواہش تسخیر لے کر کیا کریں
عالموں سے زائچے بنوائیں کس اُمید پر
خواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لے کر کیا کریں
اعتبارِ حرف کافی ہے تسلی کیلے
پکے کاغذ پر کوئی تحریر لے کر کیا کریں
اپنا اک اسلوب ہے ،اچھا برا جیسا بھی ہے
لہجہ غالب، زبان میر لے گر کیا کریں
شمع اپنی ہی بھلی لگتی ہے اپنے طاق پر
مانگے تانگے کی کوئی تنویر لے کر کیا کریں
٭٭٭
مشکل یہ آ پڑی تھی ہمارے نباہ میں
دنیا فریق بن گئی چاہت کی راہ میں
ایسا تھا دل کا حال ترے بعد جس طرح
بجھتا ہوا چراغ کسی خانقاہ میں
اک ایسی کشمکش میں گرفتار یہ دل
راحت ثواب میں تھی نہ لذت گناہ میں
کتنا میں پھوٹ پھوٹ کے رویا تھا اس گھڑی
اس نے لیا تھا جب مجھے اپنی پناہ میں
ہاتھوں میں پھول، آنکھ میں آنسو لئے ہوئے
کہتے ہیں وہ بھی آئی تھی میرے بیاہ میں
ہاں تیرا اعتبار ملا، خستہ و خراب
کل شام اک اُجاڑ سے جنگل کی راہ میں
٭٭٭
اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے
زور سب اس کا فقط اپنے مفادات پہ ہے
اپنے آئندہ تعلق کا تو اب دارومدار
تیری اور میری ہم آہنگی جذبات پہ ہے
دل کو سمجھایا کئی بار کہ باز آ جائے
پھر بھی کمبخت کو اصرار ملاقات پہ ہے
اس کا کہنا ہے مجھے بھی کبھی دیکھو مڑ کر
کیا کروں میری نظر صورت حالات پہ ہے
بے حسی کے مجھے الزام عطا اس نے کئے
جس کے احساس کا سایہ مرے دن رات پہ ہے
چارہ گر اس کے سوا کون ہے ساجد میرا
قبضہ جس کا مری تنہائی کے لمحات پہ ہے
٭٭٭
کسی کا نام سنتے ہی لرز اٹھتے ہیں لب اس کے
کہ اس کے ساتھ بھی شاید نہیں اعصاب ان اس کے
ہمارے ہوش بھی آخر ٹھکانے آ ہی جائیں گے
اسے بھی راس آ جائیں گے شائد روز و شب اس کے
سر ساحل وہ اپنی بالکونیاں میں ہی آ جاتا
اور آ کر دیکھتا کس حال میں ہیں تشنہ لب اس کے
رہی ہے دھڑکنوں تک فاصلوں میں بھی ہم آہنگی
ذرا بھی مختلف ہم سے رہے جذبات کب اس کے
نجانے ایسا کیا دکھ دے دیا ہے اس کی چاہت نے
کہ لوگ اس شہر میں شکوہ کناں ہیں سب کے سب اس کے
دکھانے کیا چلے جاتے ہو ساجد ٹاٹیٹل اپنے
ابھی نزدیک سے گذرا نہیں ذوق ادب اس کے
٭٭٭
نہ اب وہ گھر کے مکیں ہیں نہ بام و در ویسے
تو کیا کریں کسی امید پر سفر ویسے
تکلف، تصنع بناوٹی باتیں
سفر میں لطف ہے ویسا نہ ہم سفر ویسے
یہ جانتے نہیں آداب پر سش احوال
کہاں سے ڈھونڈ کے ہم لائیں چارہ گر ویسے
نہ ویسے کنج چمن ہیں نہ چاندنی راتیں
نہ وحشتوں کا وہ عالم نہ باغ و در ویسے
کسی سے ویسے مراسم نہیں رہے پھر بھی
چلو، وہ شہر تو دیکھ آئیں اک نضر ویسے
تجھے جدائی کا صدمہ سہی مگر اے دل!
کسی کے ساتھ رہا کون عمر بھر ویسے؟
٭٭٭
کتنی سخت سردی ہے
کیسی دھند ہے ہر سو
ایسی بیکرانی میں
برف کی کہانی میں
آگ ہے نہ شعلہ ہے
اور دل اکیلا ہے
٭٭٭
یہ موسم کاغذی پھولوں سے ٹالا جا رہا ہے
ہمیں گملوں سے آخر کب نکالا جا رہا ہے
ہوا کے بات میں ہیں کنجیاں سخت رسا کی
بہت اس شہر میں سکہ اچھالا جا رہا ہے
مبادا بیچ سے اکھوے نہ پھوٹ آئیں ہمارے
زمینیں کھود کر ہم کو نکالا جا رہا ہے
جلیں گے کیا خبر ہم قبر پر یا انجمن میں
ابھی تو موم کو سانچوں میں ڈھالا جا رہا ہے
ہوا ارشاد آلودہ ہیں باہر کی فضائیں
ہمیں پر کاٹ کے کابک میں ڈالا جا رہا ہے
شب صحرا! ترے ماتھے پہ اک بند یا سجانے
کف پا سے ستارہ بن کے چھالا جا رہا ہے
مرے قدموں کو اے ماں اے مری مٹی جکڑ لے
بڑی مشکل سے اب پرچم سنبھالا جا رہا ہے
٭٭٭
ابھی آگ پوری جلی نہیں، ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں
سو کہاں کا ہوں میں غزل سرا مرے خال و خد بھی بنے نہیں
ابھی سینہ زور نہیں ہوا، مرے دل کے غم کا معاملہ
کوئی گہرا درد نہیں ملا ابھی ایسے چرکے لگے نہیں
اس سیل نور کی نسبتوں سے مرے دریچہ دل میں آ
مرے طاق چو ں میں ہے درشنی ابھی یہ چراغ بجھے نہیں
نہ مرے خیال کی انجمن نہ مرے مزاج کی شاعری
سو قیام کرتا میں کس جگہ مرے لوگ مجھ کو ملے نہیں
مری شہرتوں کے جو داغ ہیں مری محنتوں کے یہ باغ ہیں
یہ متاع و مال شک تگا ں ہیں، زکوٰۃ میں تو ملے نہیں
ابھی بیچ میں ہے یہ ماجرا سو رہے گا جاری یہ سلسلہ
کہ بساط حرف و خیال پر ابھی پورے مہرے سجے نہیں
٭٭٭
میرے سرہانے
چائے کی پیالی رکھتے رکھتے
جھک کر
میری بند آنکھوں پر
اپنے ہو نٹوں کے دو پھول بھی رکھ دو
تاکہ سارا دن
مجھ کو احساس رہے
آج کی صبح بہت سندر تھی
آج کا دن بھی اچھا ہو گا !
٭٭٭
مال و زر کے کسی انبار سے کیا لینا ہے
عشق کو گرمی بازار سے کیا لینا ہے
تیرے کنبے کی وراثت سے ہمیں کیا مطلب؟
تجھ سے مطلب ہے پریوار سے کیا لینا ہے
عمر بھر ساتھ نا ہے تو پھر بات کرو
ہم کو مہمان اداکار سے کیا لینا ہے
کونسے ہم بھی فرشتے ہیں کہ تجھ کو جانچیں
تیری سیرت، ترے کردار سے کیا لینا ہے
جھونپڑی اپنی بنا لیں گے کسی گوشے میں
قصر شاہی !ترے معمار سے کیا لینا ہے
اپنے اشکوں کے لیے جیب میں رومال رکھو
کام اپنا کسی غمخوار سے کیا لینا ہے
برف باری کا وہ شیدائی ہے ساجد اس کو
تیرے جلتے ہوئے اشعار سے کیا لینا ہے
٭٭٭
مجھے کیا خبر تھی سچ مچ یہ سمے گذر رہا ہے
میں یہی سمجھ رہا تھا وہ مذاق کر رہا ہے
ذرا مہلت تو دے دو، مرے بخت نارسا کو
یہ ابھی بدل رہا ہے یہ ابھی سنور رہا ہے
تری چاپ سننے والا ترا منتظر ہے اب تک
ابھی کل تلک یہ رستہ تری رہگذر رہا ہے
تجھے مل سکے جو فرصت تو یہ دیکھ تیری خاطر
کوئی کیسے جی رہا ہے کوئی کیسے مر رہا ہے
نئے ہم سفر کیا ہے کوئی ایسی خاص خوبی
کہ مری رفاقتوں کا بھی نشہ اتر رہا ہے
اسے جانے خوف کیا ہے مری جان ناتواں سے
کہ قفس میں لانے والا مرے پر کترے رہا ہے
٭٭٭
ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر
چاند ہنسا تھا دیکھ کے ہم کو پاس ندی کے پانی پر
جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں مجھ کو اچھی لگتی ہیں
قصہ لمبا کر دیتا ہوں بچوں کی حیرانی پر
یہ بھی کوئی باتیں ہیں جن پر آنکھیں کھل جاتی ہیں
میں حیران ہوا کرتا ہوں دنیا کی حیرانی پر
ہوش و خرد ایسے کھوتے ہیں، باپ بھلا ایسے ہوتے ہیں
بچہ بن کر چیخ رہے ہو بچوں کی نادانی پر
اے اس عہد کے بوڑھے بچو!آؤ ہمارے ساتھ چلو
لال گلابی ناؤ چلائیں ہرے سنہرے پانی پر
شام کے بعد ہی کھلتا ہے ہر بھید نشیلی خوشبو کا
دن کو توجہ کب دیتا ہے کوئی رات کی رانی پر
٭٭٭
میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا
فیصلہ کن موڈ آ پہنچا ہے تم بھی سوچنا
سوچنا ممکن ہے کیسے اس جدائی کا علاج ؟
حال ہم دونوں کا اک جیسا ہے تم بھی سوچنا
پل تعلق کا شکستہ کیوں ہوا؟ سوچوں گا میں
دور نیچے ہجر کا دریا ہے تم بھی سوچنا
کس قدر برہم ہیں لہریں،سوچ کر آتا ہے خوف
اور پانی کس قدر گہرا ہے تم بھی سوچنا
اپنے روز و شب گذر سکتے ہیں تنہا کس طرح
تجربہ میرا بھی یہ پہلا ہے تم بھی سوچنا
ہاں نہیں کے درمیانی راستے پر بیٹھ کر
کس کے حق میں کیا نہیں اچھا ہے ،تم بھی سوچنا
٭٭٭
مجھے سارے رنج قبول ہیں اُسی ایک شخص کے پیار میں
مری زیست کے کسی موڈ پر جو مجھے ملا تھا بہار میں
وہی اک امید ہے آخری اسی ایک شمع سے روشنی
کوئی اور اس کے سوا نہیں، مری خواہشوں کے دیار میں
وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں،کے فیصلے ہیں کچھ اور ہی
سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے مجھے تیری بانہوں کے ہار میں
یہ تو صرف سوچ کا فرق ہے یہ تو صرف بخت کی بات ہے
کوئی فاصلہ تو نہیں ،تری جیت میں مری ہار میں
ذرا دیکھ شہر کی رونقوں سے پرے بھی کوئی جہان ہے
کسی شام کوئی دیا جلا کسی دل جلے کے مزار میں
کسی چیز میں کوئی ذائقہ کوئی لطف باقی نہیں رہا
نہ تری طلب گداز میں نہ مرے ہنر کے وقار میں
٭٭٭
ہیں دھوپ کے نیزے بھی جعلی اشجار بھی یونہی لگتے ہیں
احباب بھی ہیں ناکارہ سے ،اغیار بھی یونہی لگتے ہیں
اس عہد کے گدلے پانی میں تصویر کوئی شفاف نہیں
محکوم بھی یونہی لگتے ہیں مختار بھی یونہی لگتے ہیں
ادوار بدلتے رہتے ہیں ،تاریخ کی تبدیلی کے لئے
حکام وہی خدام وہی دربار بھی یونہی لگتے ہیں
موسم کے بدلنے پر اب تک بدلے تو نہیں مظلوم ترے
مایوس بھی یونہی لگتے ہیں، بیزار بھی یونہی لگتے ہیں
بیکار نہیں جاتی آہیں،کچھ ہو کے رہے گا دیکھنا تم
اُمید تو ہے انشاء اللہ، آثار بھی یونہی لگتے ہیں
جب غالب و میر کو پڑھتے ہیں ہم راتوں کی تنہائی میں
تب اپنے قلم سے نکلے ہوئے اشعار بھی یونہی لگتے ہیں
٭٭٭
ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
کوئی سیف تھے کہ بازار میسر آتے
کیسا ہر جائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
اس گلی میں ابھی تل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دوچار میسر آتے
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
ایسا ہوتا کہ کسی حرف میں جاں پڑ جاتی
کاش پیرایہ اظہار میسر آتے
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دیا کام آیا
نہ یہ جلتا نہ یہ اشعار میسر آتے
٭٭٭
ملیں پھر آ کے اسی موڑ پر دعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر دعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا
چراغ جاں پہ اس آندھی میں خیریت گزرے
کوئی امید نہیں ہے مگر دعا کرنا
تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
مسافتوں میں نہ آزار جی کو لگ جائے
مزاج داں نہ ملیں ہم سفر دعا کرنا
دکھوں کی دھوپ میں دامن کشا ملیں سائے
ہر ے رہیں یہ طب کے شجر دعا کرنا
نشاطِ قرب میں آئی ہے ایسی نیند مجھے
کھلے نہ آنکھ میری عمر بھی دعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا
چراغ جاں پہ اس آندھی میں خیریت گزرے
کوئی امید نہیں ہے مگر دعا کرنا
تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
مسافتوں میں نہ آزار جی کو لگ جائے
مزاج داں نہ ملیں ہم سفر دعا کرنا
دکھوں کی دھوپ میں دامن کشا ملیں سائے
ہر ے رہیں یہ طب کے شجر دعا کرنا
نشاطِ قرب میں آئی ہے ایسی نیند مجھے
کھلے نہ آنکھ میری عمر بھر دعا کرنا
٭٭٭
میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی
کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی
کوئی باغ جل رہا ہے ، یہ مگر مری دعا ہے
مرے پھول تک نہ پہنچے یہ ہوا تمازتوں کی
مرا کون سا ہے موسم مرے موسموں کے والی!
یہ بہار بے دلی کی ، یہ خزاں مروتوں کی
میں قدم بام و در میں انہیں جا کے ڈھونڈتا ہوں
وہ دیار نکہتوں کے ، وہ فضائیں چاہتوں کی
کہیں چاند یا ستارے ہوئے ہم کلام مجھ سے
کہیں پھول سیڑھیوں کے ، کہیں جھاڑیاں پتوں کی
مرے کاغذوں میں شاید کہیں اب بھی سو رہی ہو
کوئی صبح گلستاں کی ، کوئی شام پربتوں کی
کہیں دشت دل میں شاید مری راہ تک رہی ہو
وہ قطار جگنوں کی ، وہ مہک ہری راتوں کی
یہ نہیں کہ دب گئی ہے کہیں گرد روز و شب میں
وہ خلش محبتوں کی ، وہ کسک رفاقتوں کی
٭٭٭
فصل پک جائے تو کیا اس کی حفاظت نہ کریں
کھیت آوارہ بٹیروں کے حوالے کر دیں؟
صرف اس جرم شرافت پہ کر مجبور ہیں ہم
کیا محبت کو وڈیروں کے حوالے کر دیں
٭٭٭
وہ جو تاج ور تھے سبک قدم اُنہیں شور و غل نے اڑا دیا
مری بستیوں کے جو مور تھے کہیں جنگلوں میں نکل گئے
مرے بچپنے کے جو پیڑ تھے انہیں کون لے گیا کا ٹ کے
وہ عمارتوں میں بدل گئے کہ کسی الاؤ میں جل گئے
٭٭٭
ماخذ: مختلف ویب سائٹس سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل اعجاز عبید