01:45    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ یہ میری نظمیں

2802 2 0 00




محاصرہ

مرے غنیم نے مجھکو پیام بھیجا ہے

کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اُسکے

فصیل شہر کے ہر برج، ہر منارے پر

کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُسکے

وہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش

وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی

بچھا دیا گیا بارود اسکے پانی میں

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے

سپردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے

تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام

امیدِ لطف پہ ایوانِ کج کلاہ میں ہیں

معززینِ عدالت حلف اٹھانے کو

مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں

تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے

وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں

بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا

گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں

قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو

تمھارے ساتھ ہے کون؟‌آس پاس تو دیکھو

تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا

بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو

یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے

تو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے

کہ مجھکو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ

اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت

اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ

مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے

مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا

جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے

مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے

اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا

جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے

میں کٹ گروں یا سلامت رہوں ، یقیں ہے مجھے

کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم

مرے قلم کا سفر رائگاں نہ جائے گا






نوحہ گر چُپ ہیں

نوحہ گر چُپ ہیں کہ روئیں بھی تو کِس کو روئیں

کوئی اس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو

کون سا دل ہے کہ جس کے لئے آنکھیں کھولیں

کوئی بِسمل کسی شب خوں کی علامت بھی تو ہو

شُکر کی جا ہے کہ بے نام و نسب کے چہرے

مسندِ عدل کی بخشش کے سزاوار ہوئے

کتنی تکریم سے دفنائے گئے سوختہ تن

کتنے اعزاز کے حامِل یہ گنہگار ہوئے

یوں بھی اِس دور میں جینے کا کِسے تھا یارا

بے نوا بازوئے قاتِل سے گِلہ مند نہ ہوں

زندگی یوں بھی تو مُفلِس کی قبَا تھی لیکن

دلفگاروں کے کفن میں بھی تو پیوند نہ ہوں

ناوکِ ظِلّ الٰہی اجل آہنگ سہی

شُکر کی جا ہے کہ سَونے کی انی رکھتے ہیں

جاں گنوائی بھی تو کیا مَدفن و مَرقد تو ملا

شاہ جم جاہ طبیعت تو غنی رکھتے ہیں






معبود

بہت حسین ہیں تیری عقیدتوں کے گلاب

حسین تر ہے مگر ہر گلِ خیال ترا

ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں

تجھے عزیز مرا فن مجھے جما ل ترا

مگر تجھے نہیں معلوم قربتوں کے الم

تری نگاہ مجھے فاصلوں سے چاہتی ہے

تجھے خبر نہیں شاید کہ خلوتوں میں مری

لہو اگلتی ہوئی زندگی کراہتی ہے

تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں

یہ فن نہیں ہے اذیت ہے زندگی بھر کی

یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے

یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی






سوال؟

(فراق کی تصویر دیکھ کر)

اک سنگ تراش جس نے برسوں

ہیروں کی طرح صنم تراشے

آج اپنے صنم کدے میں تنہا

مجبور نڈھال زخم خوردہ

دن رات پڑا کراہتا ہے

چہرے پہ اجاڑ زندگی کے

لمحات کی ان گنت خراشیں

آنکھوں کے شکستہ مرقدوں میں

روٹھی ہوئی حسرتوں کی لاشیں

سانسوں کی تھکن بدن کی ٹھنڈک

احساس سے کب تلک لہو لے

ہاتھوں میں کہاں سکت کہ بڑھ کر

خود ساختہ پیکروں کو چھو لے

یہ زخم طلب یہ نامرادی

ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم

اے تیشہ بد ست دیوتاؤ

انسان جواب چاہتا ہے






اے دل ان آنکھوں پر نہ جا

اے دل ان آنکھوں پر نہ جا

جن میں وفورِ رنج سے

کچھ دیر کو تیرے لیئے

آنسو اگر لہرا گئے

یہ چند لمحوں کی چمک

جو تجھ کو پاگل کر گئ!

ان جگنوؤں کے نور سے

چمکی ہے کب وہ زندگی

جس کے مقدر میں رہی

صبحِ طلب سے تیرگی

کس سوچ میں گم سم ہے تو

اے بے خبر! ناداں نہ بن

تیری فسردہ روح کو

چاہت کے کانٹوں کی طلب

اور اس کے دامن میں ‌فقط

ہمدردیوں کے پھول ہیں






یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں

یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں یہ شعر تیری شکایتیں ہیں

میں سب تری نذر کر رہا ہوں ، یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں

جو زندگی کے نئے سفر میں تجھے کسی روز یاد آئیں

تو ایک اک حرف جی اٹھے گا پہن کے انفاس کی قبائیں

اداس تنہائیوں کے لمحوں میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں

مجھے ترے درد کے علاوہ بھی اور دکھ تھے ، یہ جانتا ہوں

ہزار غم تھے جو زندگی کی تلاش میں تھے ، یہ جانتا ہوں

مجھے خبر ہے کہ تیرے آنچل میں درد کی ریت چھانتا ہوں

مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر یہ ریت رنگِ حنا بنی ہے

یہ زخم گلزار بن گئے ہیں یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے

یہ درد موجِ صبا ہوا ہے ، یہ آگ دل کی صدا بنی ہے

اور اب یہ ساری متاعِ ہستی، یہ پھول، یہ زخم سب ترے ہیں

یہ دکھ کے نوحے ، یہ سکھ کے نغمے ، جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں

جو تیری قربت، تری جدائی میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں

وہ تیرا شاعر، ترا مغنی، وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں

وہ جس کے انداز خسروانہ تھے اور ادائیں غریب سی تھیں

وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں

نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے

وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے

وہ تھک چکا ہے اور اس کا تیشہ اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے






وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے

تمہاری پوروں کا لمس اب تک

مری کفِ دست پر ہے

اور میں سوچتا ہوں

وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے

وہ کہہ گئے تھے

کہ اب کے جو ہاتھ تیرے ہاتھوں کو چھو گئے ہیں

تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہیں

وہ کہہ گئے تھے

تمہاری پوریں

جو میرے ہاتھوں کو چھو رہی تھیں

وہی تو قسمت تراش ہیں

اور اپنی قسمت کو

سارے لوگوں کی قسمتوں سے بلند جانو

ہماری مانو

تو اب کسی اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا

میں اُس سمے سے

تمام ہاتھوں

وہ ہاتھ بھی

جن میں پھول شاخوں سے بڑھ کے لطف نمو اٹھائیں

وہ ہاتھ بھی جو سدا کے محروم تھے

اور ان کی ہتھیلیاں زخم زخم تھیں

اور وہ ہاتھ بھی جو چراغ جیسے تھے

اور رستے میں سنگ فرسنگ کی طرح جا بجا گڑھے تھے۔

وہ ہاتھ بھی جن کے ناخنوں کے نشان

معصوم گردنوں پر مثال طوق ستم پڑے تھے

تمام نا مہربان اور مہربان ہاتھوں سے

دست کش یوں رہا ہوں جیسے

یہ مٹھیاں میں نے کھول دیں تو

وہ ساری سچائیوں کے موتی

مسرتوں کے تمام جگنو

جو بے یقینی کے جنگلوں میں

یقین کا راستہ بناتے ہیں

روشنی کی لکیر کا قافلہ بناتے ہیں

میرے ہاتھوں سے روٹھ جائیں گے

پھر نہ تازہ ہوا چلے گی

نہ کوئی شمع صدا جلے گی

میں ضبط اور انتظار کے اس حصار میں مدتوں رہا ہوں

مگر جب اک شام

اور وہ پت جھڑ کی آخری شام تھی

ہوا اپنا آخری گیت گا رہی تھی

مرے بدن میں مرا لہو خشک ہو رہا تھا

تو مٹھیاں میں نے کھول دیں

اور میں نے دیکھا

کہ میرے ہاتھوں میں

کوئی جگنو

نہ کوئی موتی

ہتھیلیوں پر فقط مری نامراد آنکھیں دھری ہوئی تھیں

اور ان میں

قسمت کی سب لکیریں مٹی ہوئی تھیں۔






اب کس کا جشن مناتے ہو

اب کس کا جشن مناتے ہو، اس دیس کا جو تقسیم ہوا

اب کس کے گیت سناتے ہو، اس تن من کا جو دونیم ہوا

اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں کی تقدیر ہوا

اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا

اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی

اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی

اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں

اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہیں

اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہا یا تن میں رہا

اس پھول کا جو بے قیمت تھا، آنگن میں کھلا یا بن میں رہا

اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی، مرہم سمجھا

اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا، کم سمجھا

ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں کیں

یا ان مظلوموں کا جس سے خنجر کی زباں میں باتیں کیں

اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں

اس عیسیٰ کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غم خواروں میں

ان نوحہ گروں کا جس نے ہمیں خود قتل کیا خود روتے ہیں

ایسے بھی کہیں دم ساز ہوئے، ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں

ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سر بازار کریں

یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں

یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے

یا ان بے بس لاچاروں کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے

اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں

کیوں ننگ وطن کی بات کرو، کیا رکھا ہے اس قصے میں

آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو، ہونٹوں میں وفا کے بول لیے

اس جشن میں میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرا کشکول لیے






وہ شام کیا تھی

وہ شام کیا تھی جب اس نے بڑی محبت سے

کہا کہ تو نے یہ سوچا بھی ہے کبھی احمد

خدا نے کتنی تجھے نعمتیں عطا کی ہیں

وہ بخششیں کہ ہیں بالا تر از شمار و عدد

یہ خال و خد یہ وجاہت یہ تندرست بدن

گرجتی گونجتی آواز استوار جسد

بسان لالۂ صحرا تپاں تپاں چہرہ

مثال نخل کہستاں دراز قامت و قد






اے عشق جنوں پیشہ

عمروں کی مسافت سے

تھک ہار گئے آخر

سب عہد اذیّت کے

بیکار گئے آخر

اغیار کی بانہوں میں

دلدار گئے آخر

رو کر تری قسمت کو

غمخوار گئے آخر

یوں زندگی گزرے گی

تا چند وفا کیشا

وہ وادیِ الفت تھی

یا کوہ الَم جو تھا

سب مدِّ مقابل تھے

خسرو تھا کہ جم جو تھا

ہر راہ میں ٹپکا ہے

خونابہ بہم جو تھا

رستوں میں لُٹایا ہے

وہ بیش کہ کم جو تھا

نے رنجِ شکستِ دل

نے جان کا اندیشہ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ اہلِ ریا بھی تو

ہمراہ ہمارے تھے

رہرو تھے کہ رہزن تھے

جو روپ بھی دھارے تھے

کچھ سہل طلب بھی تھے

وہ بھی ہمیں پیارے تھے

اپنے تھے کہ بیگانے

ہم خوش تھے کہ سارے تھے

سو زخم تھے نَس نَس میں

گھائل تھے رگ و ریشہ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جو جسم کا ایندھن تھا

گلنار کیا ہم نے

وہ زہر کہ امرت تھا

جی بھر کے پیا ہم نے

سو زخم ابھر آئے

جب دل کو سیا ہم نے

کیا کیا نہ مَحبّت کی

کیا کیا نہ جیا ہم نے

لو کوچ کیا گھر سے

لو جوگ لیا ہم نے

جو کچھ تھا دیا ہم نے

اور دل سے کہا ہم نے

رکنا نہیں درویشا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یوں ہے کہ سفر اپنا

تھا خواب نہ افسانہ

آنکھوں میں ابھی تک ہے

فردا کا پری خانہ

صد شکر سلامت ہے

پندارِ فقیرانہ

اس شہرِ خموشی میں

پھر نعرۂ مستانہ

اے ہمّتِ مردانہ

صد خارہ و یک تیشہ

اے عشق جنوں پیشہ

اے عشق جنوں پیشہ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔






من و تو

معاف کر مری مستی خدائے عز و جل

کہ میرے ہاتھ میں ساغر ہے میرے لب پہ غزل

کریم ہے تو مری لغزشوں کو پیار سے دیکھ

رحیم ہے تو سزا و جزا کی حد سے نکل

ہے دوستی تو مجھے اذن میزبانی دے

تو آسمان سے اتر اور مری زمین پہ چل

بہت عزیز ہے مجھ کو یہ خاکداں میرا

یہ کوہسار یہ قلزم یہ دشت یہ دلدل

مرے جہاں میں زمان و مکان و لیل و نہار

ترے جہاں میں ازل ہے ابد ہے نہ آج نہ کل

تو اپنے عرش پہ شاداں ہے سو خوشی تیری

میں اپنے فرش پہ نازاں ہوں اے نگار ازل

مجھے نہ جنت گم گشتہ کی بشارت دے

کہ مجھ کو یاد ابھی تک ہے ہجرت اول

ترے کرم سے یہاں بھی مجھے میسر ہے

جو زاہدوں کی عبادت میں ڈالتا ہے خلل

وہ تو کہ عقدہ کشا و مسب اللا سباب

یہ میں کہ آپ معمہ ہوں آپ اپنا ہی حل

میں آپ اپنا ہی ہابیل اپنا ہی قابیل

مری ہی ذات ہے مقتول و قاتل و مقتل

برس برس کی طرح تھا نفس نفس میرا

صدی صدی کی طرح کاٹتا رہا پل پل

ترا وجود ہے لاریب اشرف و اعلیٰ

جو سچ کہوں تو نہیں میں بھی ارذل و اسفل

یہ واقعہ ہے کہ شاعر وہ دیکھ سکتا ہے

رہے جو تیرے فرشتوں کی آنکھ سے اوجھل

یہی قلم ہے جو دکھ کی رتوں میں بخشتا ہے

دلوں کو پیار کا مرہم سکون کا صندل

یہی قلم ہے کہ جس کے ہنر سے نکلے ہیں

رہ حیات کے خم ہوں کہ زلف یار کے بل

یہی قلم ہے کہ جس کی عطا سے مجھ کو ملے

یہ چاہتوں کے شگوفے محبتوں کے کنول

تمام سینہ فگاروں کو یاد میرے سخن

ہر ایک غیرت مریم کے لب پہ میری غزل

اسی نے سہل کئے مجھ پہ زندگی کے عذاب

وہ عہد سنگ زنی تھا کہ دور تیغ اجل

اسی نے مجھ کو سجھائی ہے راہ اہل صفا

اسی نے مجھ سے کہا ہے پل صراط پہ چل

اسی نے مجھ چٹانوں کے حوصلے بخشے

وہ کربلائے فنا تھی کہ کار گاہ جدل

اسی نے مجھ سے کہا اسم اہل صدق امر

اسی نے مجھ سے کہا سچ کا فیصلہ ہے اٹل

اسی کے فیض سے آتش کدے ہوئے گلزار

اسی کے لطف سے ہر زشت بن گیا اجمل

اسی نے مجھ سے کہا جو ملا بہت کچھ ہے

اسی نے مجھ سے کہا جو نہیں ہے ہاتھ نہ مل

اسی نے مجھ سے قناعت کا بوریا بخشا

اسی کے ہاتھ سے دست دراز طمع ہے شل

اسی نے مجھ سے کہا بیعتِ یزید نہ کر

اسی نے مجھ سے کہا مسلک حسین پہ چل

اسی نے مجھ سے کہا زہر کا پیالہ اٹھا

اسی نے مجھ سے کہا، جو کہا ہے اس سے نہ ٹل

اسی نے مجھ سے کہا عاجزی سے مات نہ کھا

اسی نے مجھ سے کہا مصلحت کی چال نہ چل

اسی نے مجھ سے کہا غیرت سخن کو نہ بیچ

کہ خون دل کے شرف کو نہ اشرفی سے بدل

اسی نے مجھ کو عنایت کیا ید بیضا

اسی نے مجھ سے کہا سحر سامری سے نکل

اذیتوں میں بھی بخشی مجھے وہ نعمت صبر

کہ میرے دل میں گرہ ہے نہ ماتھے پہ بل

تری عطا کے سبب یا میری انا کے سبب

کسی دعا کا ہے موقع نہ التجا کا محل

کچھ اور دیر ابھی حسرت وصال میں رہ

کچھ اور دیر آتش فراق میں جل

سو تجھ سا ہے کوئی خالق نہ مجھ سی ہے مخلوق

نہ کوئی تیرا ہی ثانی نہ میرا کوئی بدل

فراز تو بھی جنوں میں کدھر گیا ہے نکل

ترا دیار محبت تری نگار غزل






کنیز

حضور آپ اور نصف شب میرے مکان پر

حضور کی تمام بلائیں میری جان پر

حضور خیریت تو ہے حضور کیوں خموش ہیں

حضور بولئے کہ وسوسے وبال ہوش ہیں

حضور ہونٹ اس طرح سے کپکپا رہے ہیں کیوں

حضور آپ ہر قدم پہ لڑکھڑا رہے ہیں کیوں

حضور شاید آج دشمنوں کو کچھ بخار ہے

حضور آپ کی نظر میں نیند کا خمار ہے

حضور مسکرا رہے ہیں میری بات بات پر

حضور کو نہ جانے کیا گماں ہے میری ذات پر

حضور منہ سے بہہ رہی ہے پیک، صاف کیجیے

حضور آپ تو نشے میں ہیں، معاف کیجیے

حضور کیا کہا میں آپ کو بہت عزیز ہوں

حضور کا کرم ہے ، ورنہ میں بھی کوئی چیز ہوں

حضور چھوڑئیے ہمیں ہزار اور روگ ہیں

حضور جائیے کہ ہم بہت غریب لوگ ہیں






شکست

بارہا مجھ سے کہا دل نے کہ اے شعبدہ گر

تو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ہے

کبھی اس حسنِ دل آرا کی بھی تصویر بنا

جو تری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ہے

بارہا دل نے یہ آواز سنی اور چاہا

مان لوں مجھ سے جو وجدان میرا کہتا ہے

لیکن اس عجز سے ہارا میرے فن کا جادو

چاند کو چاند سے بڑھ کر کوئی کیا کہتا ہے






روزنا جرمن نژاد

روزنا جرمن نژاد

اس کے ہونٹوں میں حرارت

جسم میں طوفاں

برہنہ پنڈلیوں میں آگ

نیت میں فساد

رنگ و نسل و قامت و قد

سرزمین و دین کے سب تفرقوں سے بے نیاز

ہر کسی سے بے تکلف، ایک حد تک دلنواز

وہ سبھی کی ہم پیالہ، ہم نفس

عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس

روزنا جرمن نژاد

اور دیکھنے والوں میں سب

اس کی آسودہ نگاہی، بے محابا میگساری کے سبب

پیکر تسلیم و سر تا پا طلب

ان میں ہر اک کی متاع کل

بہائے التفات نیم شب

روزنا جرمن نژاد

اور اس کا دل۔ ۔ ۔ زخموں سے چُور

اپنے ہمدردوں سے ہمسایوں سے دور

گھرکی دیواریں نہ دیواروں کے سایوں کا سرور

جنگ کے آتش کدے کا رزق کب سے بن چکا

ہر آہنی بازو کا خوں

ہر چاند سے چہرے کا نور

خلوتیں خاموش و ویراں

اور دہلیز پر اک مضطرب مرمر کا بت

ایستا وہ ہے بچشم ناصبور

کون ہے اپنوں میں باقی

تو سن راہ طلب کا شہسوار

ہر دریچے کا مقدر، انتظار

اجنبی مہمان کی دستک خواب

شاید خواب کی تعبیر بھی

چند لمحوں کی رفاقت جاوداں بھی

حسرت تعمیر بھی

الوداعی شام، آنسو، عہد و پیماں

مضطرب صیاد بھی، نخچیر بھی

کون کر سکتا ہے ورنہ ہجر کے کالے سمندر کو عبور

اجنبی مہماں کا اک حرف فوار

نومید چاہت کا غرور

روزنا اب اجنبی کے ملک میں خود اجنبی

پھر بھی چہرے پر اداسی ہے نہ آنکھوں میں تھکن

اجنبی کا ملک جس میں چار سو

تاریکیاں ہی خیمہ زن

سب کے سایوں سے بدن

روزنا مرمر کا بت

اور اس کے گرد

ناچتے سائے بہت

سب کے ہونٹوں پر وہی حرف وفا

ایک ہی سب کی صدا

وہ سبھی کی ہم پیالہ، ہم نفس

عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس

اس کی آنکھوں میں تجسس اور بس






؟؟؟

اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو

جب کوئی عہد و پیماں سلامت نہیں

اب کسی کنج میں بے اماں شہر کی

کوئی دل کوئی داماں سلامت نہیں

تم نے دیکھا ہے سر سبز پیڑوں پہ اب

سارے برگ و ثمر خار و خس ہو گئے

اب کہاں خوبصورت پرندوں کی رت

جو نشیمن تھے اب وہ قفس ہو گئے

صحن گلزار خاشاک کا ڈھیر

اب درختوں کے تن پر قبائیں کہاں

سرو و شمشاد سے قمریاں اڑ گئیں

شاخ زیتون پر فاختائیں کہاں

شیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکا

رند بدنام کوئے خرابات میں

فاصلہ ہو تو ہو فرق کچھ بھی نہیں

فتوہ دیں میں ہو اور کفر کی بات میں

اب تو سب رازداں ہمنوا نامہ بر

کوئے جانا ں کے سب آشنا جا چکے

کوئی زندہ گواہی بچی ہی نہیں

سب گنہگار سب پارسا جا چکے

اب کوئی کس طرح قم بہ اذنی کہے

اب کہ جب شہر کا شہر سنسان ہے

حرف عیسیٰ نہ صور اسرافیل ہے

حشر کا دن قیامت کا میدان ہے

مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں

اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا

کب سے توقیر لالہ قبائی گئی

کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا






ایسا نہیں ہونے دینا

میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے

پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا

آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے

میرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا

پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا

پھر وہی عام وہ ہی اہل رِیا کی باتیں

نعرہ حبِ وطن مالِ تجارت کی طرح

جنسِ ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی

صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح

اس سے پہلے بھی تو عہد و پیمانِ وفا ٹوٹے تھے

شیشۂ دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح

پھر کہاں ہیں مری ہونٹوں پہ دعاؤں کے دئے

پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی وِداع

صندلی پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گئی

ململی ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا

دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا

شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا

مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے

جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر

اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا ندیم

نوکِ دشتاں سے کھنچی تھی میری مٹی کی لکیر

آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا

اے میری سوختہ جانوں، میرے پیارے لوگو

اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی

میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو

کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لیے

خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو

نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا

نہیں ایسا نہیں ہونے دینا

ایسا نہیں ہونے دینا






ترانہ

میرا بدن لہو لہو

مرا وطن لہو لہو

مگر عظیم تر

یہ میری ارض پاک ہو گئی

اسی لہو سے

سرخرو

وطن کی خاک ہو گئی

مرا بدن لہو لہو

بجھا جو اک دیا یہاں

تو روشنی کے کارواں

رواں دواں رواں دواں

یہاں تلک کے ظلم کی

فصیل چاک ہو گئی

عظیم تر یہ ارض پاک ہو گئی

مرا بدن لہو لہو

غنیم کس گماں میں تھا

کہ اس نے وار کر دیا

اسے خبر نہ تھی ذرا

کہ جب بھی ہم بڑھے

تو پھر رکے نہیں

یہ سر اٹھے تو کٹ مرے

مگر جھکے نہیں

اسی ادا سے رزمگاہ تابناک ہو گئی

عظیم تر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ارض پاک ہو گئی

مرا بدن لہو لہو

مرا وطن لہو لہو

ہر ایک زخم فتح کا نشان ہے

وہی تو میری آبرو ہے آن ہے

جو زندگی وطن کی راہ میں ہلاک ہو گئی

عظیم تر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ارض پاک ہو گئی






شہر آشوب

اپنی بود و باش نہ پُوچھو

ہم سب بے توقیر ہوئے

کون گریباں چاک نہیں ہے

ہم ہوئے تم ہوئے میر ہوئے

سہمی سہمی دیواروں میں

سایوں جیسے رہتے ہیں

اس گھر میں آسیب بسا ہے

عامل کامل کہتے ہیں

دیکھنے والوں نے دیکھا ہے

اک شب جب شب خون پڑا

گلیوں میں بارود کی بُو تھی

کلیوں پر سب خون پڑا

اب کے غیر نہیں تھا کوئی

گھر والے دشمن نکلے

جن کو برسوں دودھ پلایا

ان ناگوں کے پھن نکلے

رکھوالوں کی نیت بدلی

گھر کے مالک بن بیٹھے

جو غاصب تھے محسن کُش تھے

صوفی سالک بن بیٹھے

جو آواز جہاں سے اُٹھی

اس پر تیر تبر برسے

ایسے ہونٹ سلے لوگوں کے

سرگوشی کو بھی ترسے

گلی گلی میں بندی خانے

چوک چوک میں مقتل ہیں

جلادوں سے بھی بڑھ چڑھ کر

منصف وحشی پاگل ہیں

کتنے بے گنہوں کے گلے پر

روز کمندیں پڑتی ہیں

بُوڑھے بچے گھروں سے غائب

بیبیاں جیل میں سڑتی ہیں

اس کے ناخن کھینچ لئے ہیں

اس کے بدن کو داغ دیا

گھر گھر قبریں در در لاشیں

بجھا ہر ایک چراغ دیا

ماؤں کے ہونٹوں پر ہیں نوحے

اور بہنیں کُرلاتی ہیں

رات کی تاریکی میں ہوائیں

کیسے سندیسے لاتی ہیں

قاتل اور درباری اس کے

اپنی ہٹ پر قائم ہیں

ہم سب چور لُٹیرے ڈاکو

ہم سب کے سب مجرم ہیں

ہمیں میں کوئی صبح سویرے

کھیت میں مُردہ پایا گیا

ہمیں سا دہشت گرد تھا کوئی

چھُپ کے جسے دفنایا گیا

سارا شہر ہے مُردہ خانہ

کون اس بھید کو جانے گا

ہم سارے لا وارث لاشیں

کون ہمیں پہچانے گا






ہم اپنے خواب کیوں بیچیں

فقیرانہ روش رکھتے تھے

لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے

کہ اپنے خواب بیچیں

ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے

لیکن رو کشِ بازار کب تھے

ہمارے ہاتھ خالی تھے

مگر ایسا نہیں پھر بھی

کہ ہم اپنی دریدہ دامنی

الفاظ کے جگنو

لئے گلیوں میں آوازہ لگاتے

"خواب لے لو خواب"

لوگو

اتنے کم پندار ہم کب تھے

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں

کہ جن کو دیکھنے کی آرزو میں

ہم نے آنکھیں تک گنوا دی تھیں

کہ جن کی عاشقی میں

اور ہوا خواہی میں

ہر ترغیب کی شمعیں بجھا دی تھیں

چلو ہم بے‌نوا

محرومِ سقف و بام و در ٹھہرے

پر اپنے آسماں کی داستانیں

اور زمیں کے انجم و مہتاب کیوں بیچیں

خریدارو!

تم اپنے کاغذی انبار لائے ہو

ہوس کی منڈیوں سے درہم و دینار لائے ہو

تم ایسے دام تو ہر بار لائے ہو

مگر تم پر ہم اپنے حرف کے طاؤس

اپنے خون کے سرخاب کیوں بیچیں

ہمارے خواب بے‌وقعت سہی

تعبیر سے عاری سہی

پر دل‌زدوں کے خواب ہی تو ہیں

نہ یہ خوابِ زلیخا ہیں

کہ اپنی خواہشوں کے یوسفوں پر تہمتیں دھرتے

نہ یہ خوابِ عزیزِ مصر ہیں

تعبیر جن کی اس کے زندانی بیان کرتے

نہ یہ ان آمروں کے خواب

جو بے‌آسرا خلقِ خدا کو دار پر لائیں

نہ یہ غارت‌گروں کے خواب

جو اوروں کے خوابوں کو تہہ شمشیر کر جائیں

ہمارے خواب تو اہلِ صفا کے خواب ہیں

حرف و نوا کے خواب ہیں

مہجور دروازوں کے خواب

محصور آوازوں کے خواب

اور ہم یہ دولتِ نایاب کیوں بیچیں

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟






میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے

میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے

اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں

پا بہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں

اپنے گیتوں کی عظمت سے شرمندہ ہوں

سرحدوں نے کبھی جب پکارا تمہیں

آنسووں سے تمہیں الوداعیں کہیں

تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے

ہار کر بھی نہ جی سے اتارا تمہیں

جس جلال و رعونت سے وارد ہوئے

کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے

تیغ در دست و کف در دہاں آئے تھے

طوق در گردنوں پا بہ جولاں گئے

سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے

جن کا خوں منہ کو ملنے کو تم آئے تھے

مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے

یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے

انکی تقدیر تم کیا بدلتے مگر

انکی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے

جیسے برطانوی راج میں ڈوگرے

جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں

تم بھی ان سے ذرا مختلف تو نہیں

حق پرستوں پہ الزام انکے بھی تھے

وحشیوں سے چلن عام انکے بھی تھے

رائفلیں وردیاں نام انکے بھی تھے

آج سرحد سے پنجاب و مہران تک

تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو

اتنی غارتگری کس کے ایما پر ہے

کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو

کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے

کس کے آگے ہو تم سرنگوں غازیو

آج شاعر پہ ہی قرض مٹی کا ہے

اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں۔

آج تم آئینہ ہو میرے سامنے

پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں

(نامکمل)






؟؟؟

اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو

جب کوئی عہد و پیماں سلامت نہیں

اب کسی کنج میں بے اماں شہر کی

کوئی دل کوئی داماں سلامت نہیں

تم نے دیکھا ہے سر سبز پیڑوں پہ اب

سارے برگ و ثمر خار و خس ہو گئے

اب کہاں خوبصورت پرندوں کی رت

جو نشیمن تھے اب وہ قفس ہو گئے

صحن گلزار خاشاک کا ڈھیر

اب درختوں کے تن پر قبائیں کہاں

سرو و شمشاد سے قمریاں اڑ گئیں

شاخ زیتون پر فاختائیں کہاں

شیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکا

رند بدنام کوئے خرابات میں

فاصلہ ہو تو ہو فرق کچھ بھی نہیں

فتوۂ دیں میں ہو اور کفر کی بات میں

اب تو سب راز داں ہمنوا نامہ بر

کوئے جانا ں کے سب آشنا جا چکے

کوئی زندہ گواہی بچی ہی نہیں

سب گنہگار سب پارسا جا چکے

اب کوئی کس طرح قم بہ اذنی کہے

اب کہ جب شہر کا شہر سنسان ہے

حرف عیسیٰ نہ صور اسرافیل ہے

حشر کا دن قیامت کا میدان ہے

مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں

اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا

کب سے توقیر لالہ قبائی گئی

کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا






رباعی

جب روح کسی بوجھ سے تھک جاتی ہے

احساس کی لَو اور بھڑک جاتی ہے

میں بڑھتا ہوں زندگی کی جانب لیکن

زنجیر سی پاؤں میں چھنک جاتی ہے

****

ماخذ: مختلف اردو فورمس، بطور خاص

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔