بہت عرصے کی بات ہے۔ لبنان میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کو اپنے بادشاہ سے بڑی محبّت تھی۔ اور بادشاہ بھی رعایا کا بےحد خیال رکھتا تھا۔ وہ اپنے بزرگوں کی تقلید کرتے ہوئے روزانہ سادہ کپڑوں میں شہر کی گلیوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے بارے میں معلوم کرتا رہتا تھا کہ لوگ کس طرح دن گزار رہے ہیں۔ اگر کوئی دکھی ہوتا تو بادشاہ اس کی مدد بھی کر دیا کرتا۔ایک رات بادشاہ حسب معمول شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ جیل کے دروازے تک پہنچ گیا۔ جیل کے پاس سپاہی ایک چور کو پکڑ کر اندر لے جا رہا تھا۔ بادشاہ نے سوچا آج جیل کے اندر جا کر دیکھنا چاہیے کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔
یہ سوچ کر بادشاہ جیل کے دروازے کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ کو دیکھتے ہی سپاہیوں نے پہچان لیا اور تعظیم سے سر جھکا دیے۔ بادشاہ نے جب سپاہیوں کو بتایا کہ وہ جیل کا معائنہ کرنا چاہتا ہے تو سپاہی بادشاہ کو لے کر اندر چلے گئے۔
قیدیوں کو جب پتا چلا کہ بادشاہ سلامت خود چل کر ان سے ملنے آئے ہیں تو وہ سب بادشاہ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ بادشاہ نے باری باری ان سے ان کے حالات پوچھے۔ بادشاہ نے ایک قیدی سے پوچھا، "تمہیں کس جرم کی سزا ملی ہے؟"
وہ آدمی کہنے لگا، "بادشاہ سلامت! میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں بےگناہ ہوں۔ مجھے چوری کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ حالانکہ میں نے زندگی میں کبھی چوری نہیں کی۔"
بادشاہ نے جب دوسرے قیدی سے پوچھا کہ تمہارا قصور کیا ہے تو اس نے بھی روتے ہوئے بادشاہ سے کہا کہ میں بے قصور ہوں، میں نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن یہ سپاہی پھر بھی مجھے پکڑ کر لے آئے ہیں۔ غرض جتنے بھی قیدی تھے سب ہی نے بادشاہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ بےگناہ ہیں۔ بادشاہ سلامت سب کی باتیں سنتے رہے اور مسکراتے رہے۔ اتنے میں بادشاہ کی نظر ایک ایسے قیدی پر پر جو سر جھکائے الگ بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے سپاہیوں سے کہا کہ اس آدمی کو ہمارے پاس لاؤ، یہ کیوں منہ چھپائے بیٹھا ہے؟ سپاہی جب اس آدمی کو بادشاہ کے پاس لائے تو بادشاہ نے پوچھا، "اے نوجوان! کیا بات ہے؟ تم منہ چھپائے کیوں بیٹھے ہو؟"
اس آدمی نے روتے ہوئے کہا، "بادشاہ سلامت! میں بےحد گناہ گار ہوں۔ میرے گناہ نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ میں کسی کو منہ دکھا سکوں۔"
بادشاہ نے کہا، "ہمیں بتاؤ تو سہی تم نے کیا جرم کیا ہے؟"
اس شخص نے کہا، "میں ایک اچھا آدمی تھا۔ ہمیشہ ایمانداری سے کام کرتا تھا۔ ایک دن نجانے کیوں میرے دل میں شیطان نے گھر کر لیا اور میں نے ایک آدمی کے پیسے چرا لیے اور یوں مجھے جیل بھیج دیا گیا۔"
بادشاہ نے سوچتے ہوئے کہا، "یہاں یہ سب بے گناہ ہیں سواے تمہارے۔ صرف تم ہی ایک ایسے آدمی ہو جس نے اپنے آپ کو گناہ گار بتایا ہے۔ لہذا اتنے بے گناہ لوگوں میں ایک گناہ گار کو نہیں رکھنا چاہیے۔ میں تمہیں رہا کرتا ہوں۔"
کچھ عرصہ گزر گیا۔ ایک دفعہ بادشاہ پھر جیل کا معائنہ کرنے آیا اور باری باری قیدیوں سے ملاقات کی۔ اس دفعہ ہر قیدی نے بادشاہ کو اپنے جرم کی تفصیل سنائی۔ بادشاہ نے یہ سننے کے بعد حکم جاری کیا کہ یہ لوگ واقعی گناہ گار ہیں۔ انہیں ابھی تک شرمندگی کا احساس نہیں۔ یہ بڑے فخر سے اپنے جرموں کی کہانی مزے لے لے کر سناتے ہیں۔ لہذا ان کی سزا اور بڑھا دی جائے۔
یہ سن کر وہ لوگ بےحد حیران ہوئے اور بادشاہ کے جانے کے بعد اس کے وزیر سے پوچھنے لگے کہ جب اس شخص نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا تھا تو بادشاہ نے اسے چھوڑ دیا تھا لیکن جب ہم نے گناہ کا اعتراف کیا ہے تو بادشاہ نے ہمیں اور سزا دی ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کا وزیر جو بےحد عقلمند تھا اور بادشاہ کے مزاج کو سمجھتا تھا، کہنے لگا، "پہلے آدمی کو اس لیے چھوڑا گیا کہ اس نے جرم کا اعتراف اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ آزاد ہونا چاہتا تھا، بلکہ اس لیے کیا تھا کہ وہ اپنے کیے پہ نادم تھا۔ لیکن تم لوگوں نے پہلی دفعہ بادشاہ کو اپنی بےگناہی کی کہانی سنائی تاکہ وہ تمہیں آزاد کر دے۔ اس دفعہ گناہ کا اعتراف بھی اس لیے کیا کہ شاید بادشاہ تمہیں چھوڑ دے، اس لیے بادشاہ نے تمہیں آزاد نہیں کیا۔"
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال مارچ ١٩٨٨ سے لیا گیا۔