سوئزرلینڈ کے اونچے پہاڑوں کے دامن میں ایک آدمی رہتا تھا، جس کا نام ولیم ٹیل تھا۔ ولیم ٹیل ایک بہادر اور زبردست شکاری تھا۔ وہ اپنے تیر کمان سے صحیح نشانہ لگانے کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور تھا۔ اس وقت سوئزرلینڈ میں ایک ظالم شخص کی حکومت تھی، جس کا نام گیسلر تھا۔ گیسلر اپنی طاقت کے مظاہرے کر کے لوگوں پر رعب جماتا تھا۔ اس نے بہت سے سخت قوانین
بنائے تھے، جن پر وہ لوگوں سے زبردستی عمل کراتا تھا۔ اس نے اپنا ہیٹ اونچی جگہ پر لٹکوا دیا تھا اور یہ حکم جاری کر دیا تھا کہ سب لوگ گزرتے وقت اس ہیٹ کو سلام کریں۔
سوئزرلینڈ کے لوگوں کو گیسلر کا یہ حکم پسند نہیں آیا۔ ان کو یہ گوارا نہیں تھا کہ ایک معمولی ہیٹ کو سلام کریں، اس لیے انہوں نے اس طرف سے گزرنا بند کر دیا۔ شکاری ولیم ٹیل پہاڑ کے دامن میں رہتا تھا۔ اس کو اس نئے قانون کے بارے میں علم نہیں تھا کہ ہیٹ کو سلام کیے بغیر وہاں سے گزرنا قانوناً جرم ہے۔
ایک دن ولیم تیل کسی کام سے گاؤں آیا۔ اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔ ولیم جب گیسلر کے ہیٹ کے نیچے سے بغیر سلام کیے گزر گیا تو اسے ایک سپاہی کی آواز سنائی دی، جو وہاں اس چیز کو دیکھتا تھا کہ کوئی شخص ہیٹ کو سلام کیے بغیر تو نہیں چلا گیا۔ سپاہی زور سے چیخا، "رک جاؤ! تم نے یہاں سے گزرتے وقت اپنے حکمران کے ہیٹ کو سلام کیوں نہیں کیا؟"
ولیم ٹیل نے کہا، "میں اس ہیٹ کو سلام کیوں کروں؟"
"یہ ہیٹ تمہارے حکمران گیسلر کا ہے۔ اس نے اس ہیٹ کی تعظیم میں اسے سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔" سپاہی نے جواب دیا۔
ولیم ٹیل نے فوراً جواب دیا، "مگر میں نے تو یہ حکم نہیں سنا۔ میں اس ہیٹ کی کوئی تعظیم نہیں کروں گا۔"
"تب تمہیں میرے ساتھ چلنا پڑے گا۔" سپاہی نے اکڑ کر کہا۔
"نہ میں اس ہیٹ کو سلام کروں گا اور نہ میں تمہارے ساتھ کہیں جاؤں گا۔" ولیم ٹیل پیچھے ہٹتے ہوئے بولا اور ترکش میں رکھا ہوا ایک تیر نکالنے لگا۔
اسی وقت گیسلر اپنے سپاہیوں کے ایک دستے کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔
"یہ کیا شور ہو رہا ہے؟" اس نے غصّے سے پوچھا۔
"یہ شخص ولیم ٹیل آپ کے ہیٹ کو سلام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔" سپاہی نے ادب سے جواب دیا۔
"اچھا تو تم ہو ولیم ٹیل؟" گیسلر نے کہا اور اس کے قریب اپنے گھوڑے کو لے آیا۔
"میں نے سنا ہے کہ تم بہت اچھے نشانے باز ہو اور پورے ملک میں تمہارے مقابلے کا کوئی نہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟"
"میں بہت سے لوگوں سے بہتر نشانے باز ہوں۔" ولیم ٹیل نے ادب اور عاجزی سے جواب دیا۔
گیسلر نے کہا، "مجھے تمہاری مہارت آزمانے کے لیے ایک خیال سوجھا ہے۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم نشانہ لگانے میں کامیاب ہو گئے تو تم کو چھوڑ دیا جائے گا۔"
"میں تمہاری شرط پوری کر کے خوشی محسوس کروں گا۔ مجھے کیا کرنا ہے؟" ولیم نے کہا۔
"کیا یہ تمہارا بیٹا ہے؟" گیسلر نے پاس کھڑے ہوئے اس کے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں۔"
"کیا یہ بھی بہادر ہے؟"
"میرے خیال میں یہ بہادر ہے۔"
"پھر یہ تمہاری مدد کر سکتا ہے۔ اس لڑکے کو شاہ بلوط کے درخت کے نیچے کھڑا کر دو۔ یہ سیب اس کے سر پر رکھ دو۔ اگر تم ایک ہی تیر میں اس سیب کو گرا سکے تو میں تم کو آزاد کر دوں گا۔" مکار گیسلر یہ کہتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
گیسلر کے سب سپاہی بھی خوف و دہشت سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔
ولیم ٹیل زور سے چیخا، "کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دوں؟ میں یہ نہیں کروں گا۔"
لیکن اس کا بیٹا ذرا بھی خوفزدہ نہیں تھا۔ وہ اپنے والد سے بولا، "میرے پیارے ابّو! میں بالکل سیدھا کھڑا رہوں گا۔ آپ اپنے اوسان خطا نہ کیجیے۔ میں جانتا ہوں آپ سیب گرا سکتے ہیں۔"
اس بہادر لڑکے نے گیسلر کے پاس پہنچ کر اپنا ہاتھ بڑھایا اور سیب لے لیا۔ پھر قدم بڑھاتا ہوا درخت کے پاس پہنچا۔ اس نے بڑی احتیاط سے سیب کو اپنے سر پر رکھا اور کہا، "میں تیار ہوں۔"
ولیم ٹیل نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے ترکش میں سے دو لمبے اور سیدھے تیر نکال لیے۔ ایک اس نے اپنی پیٹی میں اڑس لیا اور دوسرا اپنی کمان میں چڑھانے لگا۔ نہایت احتیاط اور مضبوط ارادے کے ساتھ اس نے کمان کھینچی اور تیر چھوڑ دیا۔ تیر سنسناتا ہوا اپنے نشانے پر جا لگا۔ سیب درمیان سے دو ٹکڑے ہو گیا۔ بہادر لڑکا اپنے باپ کی طرف دوڑا جس نے اسے مضبوط بازوؤں میں چھپا لیا۔
گیسلر ولیم کی طرف مڑا، "تم نے اپنی پیٹی میں دوسرا تیر کیوں رکھا تھا؟ یہ تم نے مجھے مارنے کے لیے رکھا تھا؟ بتاؤ۔"
ولیم ٹیل گیسلر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا، "دوسرا تیر تمہارے دل کے لیے تھا۔ اگر میرے بیٹے کا بال بھی بیکا ہوتا تو میں تمہیں نہ چھوڑتا۔"
گیسلر یہ سن کر غصّے سے کھول گیا اور اپنے سپاہیوں کی طرف مڑتے ہوئے بولا، "اس شخص کو لے جاؤ اور جھیل کے پار میرے قلعے کے سب سے مضبوط کمرے میں بند کر دو۔"
اس سے پہلے کہ ولیم حرکت میں آتا، سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور لے جا کر ایک کشتی میں بیٹھا دیا۔ کشتی چل پڑی۔ یہ لوگ کشتی چلاتے ہوئے جب جھیل کے درمیان پہنچے تو زبردست طوفان آگیا۔ پانی کی لہریں زور زور سے اچھلنے لگیں۔ کشتی کے ڈوب جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ کشتی سپاہیوں کے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد محافظوں کے سردار نے ولیم ٹیل کی طرف مڑتے ہوئے کہا، "تم ایک ملاح ہو اور تم ہم سے بہتر اس جھیل کے بارے میں جانتے ہو۔ اگر ہم تمہارے ہاتھ کھول دیں تو کیا تم اس کشتی کو بچانے میں ہماری مدد کرو گے؟"
"ہاں کروں گا!" ولیم نے کہا۔
تب انہوں نے ولیم کے ہاتھوں کی رسیاں کھول دیں۔ ولیم نے جلدی سے کشتی کو سنبھالا اور اسے ایک چھوٹے سے جزیرے کی طرف لے آیا۔ ابھی کشتی کنارے سے دور ہی تھی کہ ولیم نے اپنی کمان پانی میں پھینکی اور چھلانگ لگا کر کشتی کو زور دار دھکّا مارا اور اسے پانی میں دوبارہ دھکیل دیا۔ ولیم کے بیٹے نے بھی اسی کے ساتھ پانی میں چھلانگ لگا دی تھی۔
"روکو اسے، مارو اسے!" سپاہیوں کا سردار چلایا۔
مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ولیم ٹیل پہلے ہی جزیرے کے کنارے اگی ہوئی جھاڑیوں میں چھپ گیا تھا۔ وہ اسے نہ ڈھونڈ سکے۔ ولیم ٹیل پہاڑوں پر چڑھ کر اپنے مکان پر پہنچ گیا، جہاں وہ ظالم گیسلر کے بنے ہوئے قانون سے آزاد تھا۔
اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ عوام نے گیسلر کے خلاف بغاوت کر دی۔ گیسلر کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور لوگوں نے ولیم ٹیل کو اپنا نیا حاکم منتخب کر لیا اور اس کی حکومت میں پرامن اور خوش حال زندگی بسر کرنے لگے۔
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، دسمبر ١٩٩٠ء سے لیا گیا۔