01:43    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1408 1 0 00

اظہارِ حقیقت

کبھی کبھی سچائی جھوٹ کی گرد میں اس طرح چھپ جاتی ہے کہ بہت تلاش کرنے پربھی نظر نہیں آتی لیکن جھوٹ کی گرد وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے اور سچائی کا روشن چہرہ سب کے سامنے آ جاتا ہے کچھ ایساہی مرحوم نواب خان صاحب بنڈی والے کے ساتھ ہوا۔ ورثے میں ملی ہوئی لاکھوں کی دولت بے تحاشہ خرچ کرنے لگے۔ نرم دل انسان ہونے کی وجہ سے جو مانگنے والا آیا اسے دیتے چلے گئے۔ یہی فیاضی ان کے لئے مصیبت بن گئی ایک احسان فراموش نے قرض واپس کرنے کے بجائے ان کے ساتھ ایک سازش کی جس کے نتیجے میں وہ دولت جو انھیں اپنے پرکھوں سے ملی تھی پولس کی تحویل میں چلی گئی اور اس سے ابھرا جھوٹ کا ایک افسانوی واقعہ جس نے حقیقت کو پوری طرح سے چھپا دیا۔

جھوٹ سچ سے زیادہ دلکش اور دل پذیر ہوتا ہے لہٰذا اس جھوٹ نے بڑی مقبولیت حاصل کی اور لوگ اسی جھوٹ کوسچ سمجھنے لگے۔ جھوٹ کا یہ واقعہ اپنے اندر کافی کشش رکھتا تھا اسی کی بنیاد پر فرضی کرداروں کی مددسے میں نے یہ ناول تخلیق کیا ہے۔ اس ناول کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ پوری ایک فرضی کہانی ہے جس کے سارے کردار میرے تخلیق کردہ ہیں۔ حقیقت سے اس کی مطابقت بالکل اتفاقی سمجھی جائے۔

میں نواب خان صاحب مرحوم کی بیوی محترمہ صغرا بی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انھوں نے بہت سے صدمے اٹھانے کے باوجود سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اپنے بچوں کی پرورش کی اور اب تک سچ کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔

ایسے موقعوں پر عموماً قریبی لوگ کنارہ کش ہو جاتے ہیں ، اپنا دامن بچا لیتے ہیں ایسا ہی کچھ نواب خان صاحب کے ساتھ اور بعد میں محترمہ صغرا بی صاحبہ کے ساتھ بھی ہوا۔ پھر بھی انھوں نے صداقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پوری فیملی کے افراد کو ثابت قدمی سے اپنی نگرانی میں لے کر چلتی رہیں۔

یہ ناول مرحوم نواب خان صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے لکھا گیا ہے حالانکہ سوائے ان کے نام کے اس ناول کا ہر کردار فرضی ہے۔ مجھے نواب صاحب کا نام استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اس کے لئے میں محترمہ صغرا بی کا دل کی گہرائیوں سے شکرگزار ہوں۔

وکیل نجیب

تعارف

نام : عبد الوکیل

قلمی نام : وکیل نجیب

والد کا نام : نجیب اﷲ مقادم مرحوم

تعلیم : ایم۔ اے ،بی ایڈ

مصروفیات۔ : سماجی ادبی کام

پتہ : نجیب منزل، نزد لال اسکول،مومن پورہ

ناگپور ۴۴۰۰۱۸(مہاراشٹر)

Mobile: 09373114213

تخلیقات :

۱۔ بے زبان ساتھی ناول ترقی اردو بیورو، نئی دہلی

۲۔ جنگل کی امانت کہانیوں کا مجموعہ مالی تعاون فخر الدین احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ

۳۔ مہربان جن ناول دہلی اُردو اکادمی، نئی دہلی

۴۔ خوفناک حویلی ناول ماہنامہ امنگ، نئی دہلی

۵۔ خطرناک راستے ناول ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی

۶۔ جانباز ساتھی ناول ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی

۷۔ غدّار وزیر ناول ماہنامہ امنگ، نئی دہلی

۸۔ جانباز شہزادے ناول نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی

۹۔ پانچ بھائی ناول نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی

۱۰۔ واپسی ناولٹ ماہنامہ ھلال، رامپور

۱۱۔ سنگریزے افسانوں کا مجموعہ نجیب پبلی کیشنز مومن پورہ، ناگپور

۱۲۔ شمالی ہندوستان کے چند خوبصورت مقامات کی سیر۔ سفرنامہ نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی

۱۳۔ انوکھی دوا ناول بزمِ اطفال ہفت روزہ مالیگاؤں

۱۴۔ سازش ناول قومی کونسل برائے فروغِ اُردو  زبان ،نئی دہلی۔

۱۵۔ کمپیوٹان ناول نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی

۱۶۔ ایک عجیب حادثہ ناول قسط وار اشاعت ماہنامہ گل بوٹے ، ممبئی

۱۷۔ ماں کی بد دعا کہانیوں کا مجموعہ بزمِ اطفال پبلی کیشنز ، مالیگاؤں

اعتراف

میری نئی تخلیق ’’نواب بنڈی والا‘‘ پیشِ خدمت ہے۔ یہ ناول کامٹی کی سرزمین پر واقع ہونے والے ایک حیرت انگیز واقعے سے متعلق ہے جس کی گونج ملک کے طول و عرض میں سنی گئی اور جس نے کامٹی کو ہندوستان کے نقشے میں نمایاں کر دیا۔ یہ بڑا ہی عجیب و غریب واقعہ تھا۔ غالباً۶۷۔ ۱۹۶۶ کی بات ہے۔ اُنھیں دنوں اسلامیہ ہائی اسکول میں بحیثیت مدرس میرا تقرر ہوا تھا۔ کامٹی کے ایک ٹیچر اس واقعہ کے متعلق روزانہ کوئی نہ کوئی نئی بات بتاتے تھے۔ اخبارات میں بھی اِس واقعہ کی تفصیلات شائع ہوا کرتی تھیں۔

جب بچّوں کی ناول نگاری کی طرف میرا رُجحان بڑھا تو میں نے اِس واقعہ کا ذکر متعدد بار اپنے دوست ہارون رشید عادلؔ سے کیا۔ میں نے کہا کہ اِس واقعہ پر ایک اچھا ناول لکھا جا سکتا ہے ، لیکن چونکہ مجھے ناول بچّوں کے لیے لکھنا تھا لہٰذا نئے کیریکٹر تخلیق کرنا پڑا اور بہت سے نئے کردار بھی زیبِ داستان کے لیے شامل کرنا پڑا۔ کافی دنوں کی ذہنی مشقت کے بعد اِس ناول کے نکات ترتیب دیئے اور پھر یہ میرا ایک نیا ناول معرض وجود میں آیا۔

میں جب ناول لکھنے کی شروعات کرتا ہوں تو مکمّل خاکہ میرے ذہن میں موجود ہوتا ہے اور فرصت کے اوقات میں جلدی جلدی اُسے صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا چلا جاتا ہوں۔ اِس عجلت کی وجہ سے تحریر میں کبھی کبھی زبان کی کچھ خامیاں بھی باقی رہ جاتی ہیں۔ مجھے اس کا اعتراف ہے۔

مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ اِس ناول کی نوک پلک درست کرنے میں ربّانی ہائی اسکول کے سابق مدرّس جناب حفظ الرحمن نے کافی محنت کی ہے۔ انھوں نے اِس ناول کا مطالعہ اِس باریکی سے کیا ہے کہ میں ان کی خورد بینی کا معترف ہو گیا۔ اس ناول کے اندر جتنی کثافتیں تھیں ماسٹر حفظ الرحمن صاحب نے اُنھیں پوری طرح نکال باہر کیا ہے۔ ماسٹر حفظ الرحمن صاحب کے مشوروں پر، حالانکہ میں پوری طرح عمل نہیں کر  سکا اور نہ ہی میری تحریر میں انھوں نے کہیں زبر دستی اپنی ٹانگ اڑائی ہے ، لیکن اُن کے مشوروں کی صداقت کا میں دل سے قائل ہوں۔

ڈاکٹر الیاس صدیقی، شہر مالیگاؤں کی ایک مستند، مشہور و معروف ادبی شخصیت ہیں۔ سیدھے سادے ، بے ریا، بے باک، صاف گو، ہر فن مولا آدمی۔ میں اُنھیں بے حد عزیز مانتا ہوں۔ اس ناول کی عبارت کی تخلیص میں اُن کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

ماسٹر حفظ الرحمن صاحب اور ڈاکٹر الیاس صدیقی صاحب ، ان دونوں افراد میں بڑی مماثلتیں ہیں۔ دونوں ریٹائرڈ ٹیچر ہیں ، دونوں خاموشی سے ادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ دونوں بے لوث اور صاف گو ہیں ، دونوں ہی زبان کی باریکیوں سے پوری طرح واقف ہیں ، دونوں اچھی نثر لکھنے میں مکمّل مہارت رکھتے ہیں۔ اِن دونوں با وقار ادبی شخصیتوں کے مختصر لیکن جامع مضامین نے میرے اِس چھوٹے سے ناول کو با وقار، معتبر اور گرانقدر بنا دیا ہے۔ میں اِن دونوں با کمال حضرات کا شکر گزار ہوں !

اِس کتاب کے مختلف واقعات کے لیے جناب آصف بختیار سعید صاحب نے جو تصاویر بنائی ہیں میں اس کے لیے ان کا احسان مند ہوں۔ اپنی خرابیِ صحت اور مصروفیات کے بعد بھی انھوں نے میری محبت میں اس کام کو انجام دیا جس کی وجہ سے اس کتاب کی افادیت اور خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

۔ ۔ ۔ وکیل نجیب

وکیل نجیب کا ناول نواب بنڈی والا

اردو کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے ادبِ اطفال کی ضرورت اور اہمیت سے کسے اِنکار ہو  سکتا ہے۔ بچپن کی سنہری یادوں کا احساس ہی کچھ الگ ہوتا ہے۔ یہی دور ہوتا ہے جس میں جینے کے طریقے غیر محسوس طریقے سے سیکھے جاتے ہیں ، ذہنی نشو و نما ہوتی ہے۔ اخلاق و عادات کی نیو پڑتی ہے ، جس کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں زندگی کے مختلف مراحل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماہرین تعلیم کے بمو جب بڑوں کی طرح بچّوں کی بھی ذہنی ضرورتیں ہوتی ہیں لہٰذا اُن کے لیے اچھّا ادب اِس انداز میں پیش کیا جائے جو سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہو، اور یہی دلچسپی انھیں خوشی خوشی آخر تک مطالعہ کرنے کی تحریک اور ترغیب دیتی رہے۔

دادی ماں اور نانی ماں کی کہانیاں ، بزرگوں کی باتیں اور تھوڑا بڑا ہونے پر چھوٹی موٹی کہانیاں جو کتابوں اور رسالوں میں پڑھی جاتی ہیں ، اب خواب ہوتی جا رہی ہیں۔ مشترکہ خاندان کا شیرازہ (تقریباً) منتشر ہو جانے کی وجہ سے اور بچوّں کے رسالوں اور کتابوں کی کمیابی یا عدم دستیابی کے باعث بچپن اب کہیں کھو سا گیا ہے۔ اس کی کھٹّی میٹھی باتیں خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے محو ہو گئی ہیں۔

 ’’سازش‘‘ابھی ٹھیک طرح سے بے نقاب بھی نہیں ہوئی تھی کہ وکیل نجیب ’’نواب بنڈی والا‘‘ کے ساتھ قارئین کے سامنے آ گئے۔ پے درپے ، ایک کے بعد ایک ناول،کہانی بچوّں کی نرالی دنیا میں پیش کر کے بچوّں کے ساتھ بڑوں کو بھی حیرت میں ڈالنے والے وکیل نجیب ادبِ اطفال میں نئی بلندیوں کو چھوتے جا رہے ہیں۔ تقریباً پچیس برسوں سے بچوّں کو بڑا بنانے کے کام میں تن من دَھن سے لگے ہوئے ہیں۔ اب تو اپنی تخلیقات کے باعث انھوں نے اُردو دنیا بالخصوص ادبِ اطفال میں علاحدہ شناخت بھی بنا لی ہے۔

تخلیق کار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے سماج کا حساّس ترین شخص ہوتا ہے۔ اس کی نگاہیں آس پاس کے واقعات ، سانحات اور حادثات کا جائزہ لیتی رہتی ہیں۔ اپنے حساّس دل و دماغ کے باعث وہ ان سب کا سب سے زیادہ اثر لیتا ہے اور انھیں اپنی تخلیق کا حصہّ بناتا ہے۔

برسوں پہلے کامٹی میں ایک ایسا واقعہ، حادثہ پیش آیا تھا جس کی گونج پورے ملک میں سنی گئی۔ میری مراد نواب بنڈی والے واقعے سے ہے۔ اِس واردات کو وکیل نجیب نے بڑے دلچسپ انداز میں کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ڈرامائی انداز میں لکھی گئی یہ کہانی اور اس کے کردار اس طرح سامنے آتے ہیں کہ کہانی کا تسلسل کہیں ٹوٹنے نہیں پاتا اور دلچسپی کسی جاسوسی کہانی کی طرح آخر تک برقرار رہتی ہے۔ اِس واردات میں کہانی کا تانا بانا کچھ اس طرح کا ہے کہ اس میں سچاّئی، دیانت داری اور محنت کا جذبہ ازخود اُبھرتا ہے۔ اصلاحی پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا۔ نقصان میں بھی فائدے کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ بُرے کام کا انجام بُرا ہوتا ہے ، یہ تو کہانی کے واقعات سے ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ مصنّف نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ فرضی کہانی ہے ، لیکن واقعہ حقیقی ہے۔ نواب بنڈی والے کے ذریعے انجام دی جانے والی واردات کو وسیلۂ اظہار بنانا مصنّف کا جرأت مندانہ اقدام ہے ، اور ایسا اقدام یقیناً قابلِ ستائش ہے۔

کامٹی                                                                                                      محمد حفظ الرحمٰن

۱۴ نومبر ۲۰۰۵ء

معتبر ادیب ، وکیل نجیب

وکیل نجیب کے ساتھ ’’ادیب‘‘ کا سابقہ دیکھ کر شاید بہت سے ناقدین ناک بھوں چڑھائیں گے ، کیونکہ اکثر نقاد نہ تو بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں اور نظموں کو ’’ادب‘‘ میں شمار کرتے ہیں اور نہ ان کے لکھنے والوں کو ’’ادیب‘‘ کے خانے میں رکھنا گوارا کرتے ہیں ، میں کوئی ناقد تو ہوں نہیں کہ اِس عنوان پر بحث کروں ، البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ سارے مشہور ادباء، شعراء اور نقادانِ فن نے اپنے ادبی سفر کا آغاز بچوں کے لیے تحریر کردہ انھیں تحریروں سے کیا تھا۔ ہم ایسے کئی ادیبوں سے واقف ہیں جنھوں نے اپنے مطالعے کا آغاز اردو کو مک، کھلونا،کلیاں وغیرہ بچوں کے رسائل سے کیا۔ خود میرا بچپن رسالہ ’’نور‘‘ کے باقاعدہ مطالعے میں صَرف ہوا۔ کئی ادیبوں نے روایت کی ہے کہ ان کا نو جوانی کا زمانہ جاسوسی ناولوں اور مہماتی کہانیوں کے مطالعے میں گزرا۔ عمر گزرنے کے ساتھ جاسوسی ناولوں اور مہماتی کہانیوں سے بتدریج دوری ہوتی گئی اور سنجیدہ ادب کے مطالعے میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ غیر فطری بات یہ ہے کہ جن تحریروں کے مطالعے نے انھیں بڑا ادیب و شاعر بنایا، بڑے ہو کر اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ جس ماں نے انھیں جنم دیا، اس کے وجود سے ہی انکار کر دیا جائے۔ میرے خیال میں بچوں کے لیے لکھی گئیں تحریریں بہر حال ’’ادب‘‘ ہیں۔ ناقدین کو اس کا انکار کرنے کی بجائے اس کے اصول دریافت اور متعین کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

بچوں کے ادب میں وکیل نجیب ایک مشہور نام ہے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کی شروعات افسانوں سے کی جو ملک کے نامور رسائل میں شائع ہوئے اور ریڈیوسے نشر بھی ہوئے۔ اُن کے افسانوں کا مجموعہ ’’سنگریزے ‘‘کے نام سے شائع ہو  چکا ہے۔ بہت جلد ان کا قلم بچوں کے ادب کی سمت مڑ گیا، جس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انھوں نے بچوں کے رسائل میں کہانیوں کی اشاعت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے دامن بچا کر بچوں کے ناول کا میدان اپنے لیے منتخب کر لیا اور اب ’’ بچوں کے ناول نگار‘‘ کی حیثیت سے ان کی شناخت بن چُکی ہے۔

وکیل نجیب کی دسویں کتاب ’’جانباز شہزادے ‘‘ کے اجراء کے وقت میں نے لکھا تھا کہ بچّے ، بچّے ہوتے ہیں ، بڑوں کا Miniature نہیں ہوتے۔ ان کی دلچسپیاں ، نفسیات، عادات، ضروریات، مسائل اور تقاضے بڑوں سے جداگانہ ہوتے ہیں۔ جو ادیب جتنا بہتر طور پر ان سے واقفیت رکھتا ہے ، اتنا ہی کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ وکیل نجیب تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔ ان سے زیادہ بچوں کی نفسیات، جبلّت اور فطرت سے کون واقف ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ان کی تخلیقات کو بچوں سے قریب تر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئی ہے۔

ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی ہر تخلیق میں کولمبس کی طرح ایک نئی دنیا دریافت کرتے ہیں ، اور پھر بچوں کو اپنے قلم کے جادوئی تخت پر بٹھا کر ایک ایک گوشے کی سیر کرواتے ہیں۔ بچوں کی سیماب صفتی کے عین مطابق ان کی کہانیوں کے واقعات بھی تیزی سے کروٹ بدلتے ہیں اور ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلّی، پر تصدیق کی مہر ثبت کرتے ہیں۔ بے شک وہ بھی بچوں کے اندر اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا کرنے کے داعی ہیں لیکن راست نصیحت اور خشک وعظ سے گریزاں رہتے ہوئے اپنی تحریر کو بے کیفی اور بے لطفی سے محفوظ رکھنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔

زیر نظر ناول ’’نواب بنڈی والا‘‘ غالباً ان کا پہلا ناول ہے جو بادشاہوں ، شہزادوں ، جنوں اور پریوں کی تخیلاتی دنیا کی بجائے انسان کی حقیقی زندگی کا عکاس ہے۔ یہ ایک خوش آیند قدم ہے۔ آسمان کی بلندی سے اتر کر زمین پر قدم رکھنے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ تجسس،استعجاب، لمحہ بہ لمحہ بدلتی حیرت انگیز کیفیات باقی نہ رہ سکیں گی لیکن یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اِس ’’زمینی ناول‘‘ میں وہ ساری خصوصیات موجود ہیں جو عموماً مافوق الفطرت عناصر سے وجود میں آتی ہیں۔ اِس کی مبارکباد نہ دینا نا انصافی ہو گی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ناول کے محنت کش کردار اور ہیرو، نواب کو انھوں نے فرشتہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ بلکہ انسانی زندگی کے عین مطابق اس کے اندر بھی ’’زمانہ سازی‘‘ کی کئی خصوصیات اور بشری کمزوریاں موجود ہیں مثلاً وہ پولس انسپکٹر کو رشوت دینے میں جھجک محسوس نہیں کرتا، خالو کا کیس جیتنے کے لیے مخالف وکیل کو خریدنے میں اُسے عار نہیں ہے ، وغیرہ۔ صرف یہی ایک کردار نہیں ناول میں موجود تمام ہی کرداروں میں انسانی خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں ، اس کے علاوہ عصرِ حاضر کے ماحول کا واضح عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ البتہ ایک حقیقت کا اشارہ دینا ضروری ہے۔ انسانی زندگی کی اتنی دلچسپ کہانی تخلیق کرنے کے باوجود وہ مافوق الفطرت عناصر سے پوری طرح پیچھا نہیں چھڑا پائے ہیں ، بابا کا پر اسرار کردار، خزانے کی دریافت اور کتھئی رنگ کے بیل کی غیر متوقع حرکات، اِس کے ثبوت ہیں۔

قصّہ مختصر یہ کہ گذشتہ بیس برسوں میں وکیل نجیب نے اپنی محنت، تخلیقی صلاحیت، مستقل مزاجی اور ’’وفاداری بشرطِ استواری‘‘ کی بدولت اپنی پندرہ کتابوں کے وسیلے سے بچوں کے ادب میں بڑا اعتبار اور استناد حاصل کیا ہے۔ بچوں کے ادب کی کوئی بھی تاریخ، کسی بھی سطح پر مرتب کی جائے ، وکیل نجیب کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

میری تمام تر نیک خواہشات ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے لیے۔ ۔ ۔

الیاس صدیقی                                                                     مالیگاؤں

 ( ایم اے بی ایڈ، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی)                                   ۱۲، جنوری ۲۰۰۶ء

باب ۱

ہما چل پردیس کے خوبصورت مقامات کی سیر کرتے ہوئے ہم جب شملہ سے منا لی پہنچے تو ہمارے ٹریولنگ ایجنٹ کی معرفت ہمیں پوٹالا ہوٹل میں رہنے کے لئے کمرے مل گئے۔ ہوٹل نہایت شاندار ، سلیقہ سے بنا ہوا اور بازار سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ ہوٹل پہاڑیوں کے دامن میں تھا۔ ایک چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا جو چاروں طرف پہاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر سفید سفید برف جمی ہوئی تھی جو مئی کی تیز دھوپ میں آہستہ آہستہ پگھل رہی تھی اور پہاڑیوں کے چاروں طرف سے ٹھنڈا ٹھنڈا صاف ستھرا پانی مسلسل بہہ رہا تھا۔ پہاڑیوں سے لگ کر بڑی بڑی نالیاں بنا دی گئی تھیں۔ نیچے آنے کے بعد پانی اُن نالیوں میں کافی تیز رفتار سے بہتا تھا۔ پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے نالیاں بالکل صاف ستھری رہتیں اور اُن میں بہتا پانی جھلمل جھلمل چمکتا رہتا۔ دھوپ مشرقی پہاڑیوں سے بارہ بجے کے بعد نیچے اترتی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے مسلسل چلتے رہتے۔ پہاڑ کی نچلی سطح پر جھاڑیاں اور دیودار کے بے شمار درخت حدِ نظر تک پھیلے ہوئے تھے۔ سفر کی تھکان دور ہو جانے کے بعد ہمیں بھوک کا احساس ہوا۔ شام ہو  چکی تھی۔ یوں تو پوٹالا ہوٹل میں بھی ایک چھوٹا سا کھانے کا ہوٹل تھا لیکن وہاں ہمیں اپنی پسند کی چیزیں نظر نہیں آئیں اس لئے ہم نے ہوٹل کے ری سیپ شنسٹ (Receptionist) سے پوچھا ’’یہاں کہیں کھانے کا اچھا ہوٹل ہے جہاں ہمیں حلال گوشت کا کھانا مل سکے ؟‘‘

ری سیپ شنسٹ نے کہا ’’بازار میں ایک ہوٹل ہے ’’ہوٹل نوابس بُلک کارٹ "Hotel Nawab's Bullock Cart"۔ وہ ایک مسلمان کا ہوٹل ہے۔ آپ کو وہاں آپ کی من پسند چیزیں مل جائیں گی۔ ہم سب تیار ہو کر شام کا کھانا کھانے کے لئے ہوٹل کی تلاش میں نکلے ، تھوڑی تلاش کے بعد ہوٹل کا پتہ مل گیا۔ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر خاصی بڑی زمین پر بنا ہوا خوبصورت ہوٹل تھا۔ صدر دروازے کے سب سے اوپری حصّے پر ہوٹل کا نام چمکدار روشنی Neon Light میں لکھا ہوا تھا اور نیچے ایک ’’ بیل گاڑی بنی ہوئی تھی جسے ایک آدمی ہانکتا ہوا دکھایا گیا تھا‘‘ نہایت خوبصورتی سے بنی ہوئی تصویر تھی۔ سیڑھیاں چڑھ کر ہم صدر دروازے سے اندر ہال میں داخل ہوئے۔ دروازے سے لگ کر ہی کاؤنٹر بنا ہوا تھا اور کاؤنٹر کے سامنے ایک نہایت خوبصورت غیر ملکی عورت کھڑی ہوئی تھی۔ اس کی پشت پر ہوٹل کا نام اُسی طرح ایک شیشے پر لکھا ہوا تھا جیسا کہ ہوٹل کی عمارت پر لکھا ہوا تھا اور بیل گاڑی کی ویسی ہی تصویر شیشے پر بنی ہوئی تھی۔ بازو میں کرسی پر ایک صحت مند، بے حد خوبصورت لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے ہوٹل کا جائزہ لیا۔ ہر چیز میں ایک خاص سلیقہ تھا۔ کافی صاف ستھرا ہوٹل تھا۔ میں نے کاؤنٹر پر پہنچ کر غیر ملکی عورت سے گوشت کے حلال ہونے کی تصدیق کرنی چاہی۔ اُس نے اردو زبان میں نہایت شُستہ لہجے میں کہا ’’جی جناب، آپ بالکل اعتماد سے کھائیے ہمارے یہاں مسلمان قصائی ہی جانوروں کو ذبح کرنے اور گوشت صاف کرنے کا کام کرتے ہیں ؟‘‘

میں نے میڈم سے پوچھا۔ ’’میڈم یہ نواب کی بیل گاڑی "Nawab's Bullock Cart" سے کیا مطلب ہے۔ کیا کسی ریاست کے نواب کی بیل گاڑی کے نام پر یہ نام رکھا گیا ہے ؟‘‘

غیر ملکی خاتون نے مسکرا کر کہا ’’جی نہیں میرے شوہر کا نام نواب ہے ، وہ کسی زمانے میں اپنے گاؤں میں بیل گاڑی چلایا کرتے تھے۔ اُسی کی یاد میں ہم نے اس ہوٹل کا نام "Hotel Nawab's Bullock Cart" رکھا ہے۔

اُس غیر ملکی خاتون کی بات سن کر مجھے اپنے علاقے کے میرے ہم جماعت نواب بنڈی والے کی یاد آ گئی۔ بیل گاڑی چلاتے ہوئے ایک بہت بڑا خزانہ اُس کے ہاتھ لگ گیا تھا لیکن وہ اُس خزانہ کو محفوظ نہ رکھ سکا اور پورا خزانہ پولس کے قبضے میں چلا گیا۔ اُس پر مقدمہ چلا، پھر سزا بھی ہوئی، سزا کاٹنے کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ کہیں چلا گیا۔ اس کے بعد اُس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ آج جب اِس ہوٹل کو دیکھا تو مجھے نواب بنڈی والے کی یاد آ گئی۔ میں نے بازو کی کرسی پر بیٹھے ہوئے پانچ چھ سال کے بچے کی بابت دریافت کیا ’’کیا یہ نواب صاحب کا بچہ ہے ‘‘

 ’’جی ہاں یہ ہمارا ہی بچہ ہے ، چھوٹا نواب!‘‘

 ’’نواب صاحب سے کب ملاقات ہو گی؟‘‘

 ’’جی بس ابھی وہ آتے ہی ہوں گے ، اُن کی ڈیوٹی کا وقت ہو گیا ہے۔ لیجئے وہ اِدھر ہی آ رہے ہیں۔ ‘‘

میں نے دیکھا سامنے کے زینے سے اتر کر ایک وجیہ اور با وقار شخص نہایت ہی اچھے لباس میں ملبوس کاؤنٹر کی طرف آ رہا تھا۔ میں نے اُسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ وہ نواب تھا۔ نواب بنڈی والا۔ حالانکہ اُس کی شخصیت میں ، ڈیل ڈول میں کافی فرق آ گیا تھا لیکن وہ نواب ہی تھا۔ میں نے اُسے دیکھ کر سلام کیا۔ اُس نے سلام کا جواب دیا۔ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا ،تب میں نے کہا ’’ میرا نام نجیب ہے۔ وکیل نجیب۔ میں کامٹی سے آیا ہوں۔ ‘‘

یہ سن کر نواب کے چہرے پر ایک لمحہ کے لئے تردّد کے آثار پیدا ہوئے اور پھر معدوم ہو گئے۔ اس نے بے اعتنائی سے میری طرف دیکھا اور کہا ’’کہیے میں آپ کی کیا خدمت کر  سکتا ہوں۔ ‘‘

میں نے کہا ’’ جی ہم لوگ یہاں کھانا کھانے آئے ہیں ، گوشت کی بابت دریافت کر رہے تھے !‘‘

نواب نے کہا ’’ ہمارے یہاں حلال گوشت کا استعمال ہوتا ہے ، بے فکر ہو کر آپ کھانا کھا سکتے ہیں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ کاؤنٹر کی طرف چلا گیا اور جا کر کاؤنٹر کی کرسی پر بیٹھ گیا اپنے بچے کو پیار کرنے لگا۔ اُس کی غیر ملکی بیوی نے اس سے انگریزی زبان میں کچھ بات کی اور بچے کو لے کر وہاں سے چلی گئی۔

نواب کی بے اعتنائی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اس سے مزید کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور جہاں میرے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے میں بھی وہاں آ کر بیٹھ گیا۔ میرے تصور میں بارہ سال پہلے کا وہ منظر بیدار ہو گیا جب میں اسکول میں پڑھتا تھا۔ اسکول کا وہ میدان یاد آ گیا جہاں سردیوں میں کلاس ہوا کرتی تھی۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ وہ دسمبر کی بڑی خوشگوار صبح تھی۔ ۔ ۔ جمعہ کا دن تھا۔ بچے صبح سویرے ہی تیار ہو کر اسکول آ گئے تھے۔ شدید سردی ہونے کی وجہ سے کچھ اساتذہ بچوں کو میدان میں لے کر آ گئے تھے۔ صبح کی نرم گرم دھوپ میں تعلیم دے رہے تھے۔ ابھی تیسرا پیریڈ شروع ہوئے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک لڑکا تیزی سے دوڑتا ہوا اُس گروہ کی طرف بڑھا جس میں نواب بیٹھا ہوا تھا۔ نواب دسویں جماعت کا طالبِ علم تھا۔ لڑکا تیزی سے اُس کی طرف آیا۔ وہ نواب کے پڑوسی کا لڑکا تھا۔ اُس نے نواب کو مخاطب کر کے کہا ’’نواب جلدی چل تیرے ابّو کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے کسی ٹرک والے نے ان کی بیل گاڑی کو ٹھوس ماردی ہے تیری امّی رو رہی ہیں تجھے جلدی سے بُلایا ہے۔ ‘‘

اِس ہیبت ناک خبر نے نواب کے ہوش اُڑا دیے۔ اُس نے اپنی ساری چیزیں وہیں میدان میں چھوڑ دیں اور آنے والے ل ڑکے کے ساتھ تیزی سے روانہ ہو گیا۔ موقع کی نوعیت دیکھ کر سبجیکٹ ٹیچر نے بھی اُس سے کچھ نہیں کہا۔

اسکول سے نکل کر دوڑتے بھاگتے وہ اپنے گھر آیا۔ گھر میں مجمع لگا ہوا تھا۔ عورتیں ، مرد اور بچے اس کے گھر کے اطراف جمع تھے۔ اس کی والدہ گھر کے ایک کونے میں چلّا چلّا کر رو رہی تھیں۔ نواب کو دیکھ کر اُن کی آواز میں اور تیزی آ گئی۔ وہ زور زور سے رونے لگیں اور نواب کو پکڑ کر کہنے لگیں ’’نواب تیرے ابّو ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔ نواب ہم بے سہارا ہو گئے۔ ہم برباد ہو گئے اب ہمارا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’امّی آپ ہمت سے کام لیجئے۔ صبر کیجئے۔ کیا ہوا ابّو کو! کہاں ہیں وہ؟

 ’’ٹرک والے نے اُنھیں کچل دیا۔ بیٹا ان کی لاش سڑک پر پڑی ہوئی ہے۔ میں لُٹ گئی میں برباد ہو گئی اب میرا تیرے سوا دنیا میں کوئی نہیں ہے !‘‘

امّی آپ حوصلہ رکھیے۔ میں دیکھ کر آتا ہوں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اُس کے ایک پڑوسی نے اُسے بتایا کہ گرجا گھر کے پاس موڑ پر ایک ٹرک نے اس کے والد کی بیل گاڑی کو ٹکّر ماردی، جس کی وجہ سے دونوں بیل اور اس کے ابّو جگہ پر ہی ختم ہو گئے۔ ٹرک والا وہاں سے فرار ہو گیا۔ لاش وہیں پڑی ہوئی ہے۔

نواب نے اُس لڑکے کو جو اُسے اسکول میں بلانے آیا تھا، اپنے ساتھ لیا اور گرجا گھر کی جانب روانہ ہوا۔

وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا دونوں طرف کا ٹرافک رُکا ہوا تھا۔ سڑک پر ایک جگہ کافی مجمع لگا ہوا تھا۔ پولس کی گاڑی اور چند سپاہی وہاں موجود تھے اور لوگوں کو جائے حادثہ سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے

نواب کسی طرح مجمع میں سے راستہ بناتا ہوا اس جگہ پہنچ گیا جہاں سڑک پر اُس کے ابّو کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ سر سے خون بہہ کر سڑک پر جمع ہو گیا تھا اور جم گیا تھا۔ دونوں بیل بھی وہیں مرے پڑے ہوئے تھے۔ بیل گاڑی جگہ جگہ سے ٹوٹ گئی تھی۔ سپاہی نے اُسے آگے بڑھنے سے روکا تو اُس کے دوست نے سپاہی سے کہا ’’اِسے دیکھنے دو یہ اس کے ابّو کی لاش ہے ‘‘

سپاہی نے ایک نظر نواب پر ڈالی اور پولس انسپکٹر کی طرف دیکھنے لگا۔ پولس انسپکٹر نے نواب کے قریب پہنچ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور اُسے ایک طرف کھڑے رہنے کا اشارہ کیا۔ اپنے والد کی لاش دیکھ کر بے اختیار اُس کا دل بھر آیا اور آنسو اس کی آنکھوں سے جاری ہو گئے اور پھر وہ سسک سسک کر رونے لگا۔

پنچ نامہ کی کار روائی پوری ہونے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ بالآخر لاش پوسٹ مارٹم کے لئے روانہ کر دی گئی۔ نواب بھی اپنے والد کی لاش کے ساتھ اسپتال گیا۔ اسپتال میں کافی لوگ جمع تھے۔ پوسٹ مارٹم کی کار روائی پوری ہو جانے کے بعد لاش رشتے داروں کے حوالے کر دی گئی۔ وہاں سے لاش گھر لائی گئی اور رات میں عشاء کی نماز کے بعد میّت کی تجہیز و تکفین کر دی گئی۔

قبرستان سے گھر آنے کے بعد رشتے داروں نے ، پڑوسیوں نے ، نواب اور اس کی امّی کو صبر کی تلقین کی، پھر ایک ایک کر کے سب وہاں سے چلے گئے صرف قریبی رشتے دار رہ گئے۔

جب سے اُس نے اپنے والد کی موت کی خبر سنی تھی تب سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ رشتے داروں کے گھروں سے آیا ہوا کھانا اُس نے سب کے ساتھ مل کر کھایا اور اپنی والدہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ بیٹے کو قریب دیکھ کر اُس کی امّی پھر سے رونے لگیں۔ موجود عورتوں نے انھیں کسی طرح خاموش کرایا۔ پھر ایک ایک کر کے سبھی لوگ وہاں سے چلے گئے۔ چند قریبی رشتے دار ہی باقی رہ گئے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے نواب نیند کی آغوش میں گم ہو گیا۔ یہ نواب کی زندگی کا سب سے غمناک دن تھا۔ انتہائی المناک دن!

دوسرے دن سویرے وہ جلدی اُٹھ گیا۔ اس کی والدہ پہلے ہی جاگ چُکی تھیں اور گھر کی صفائی میں لگی ہوئی تھیں۔ جب وہ منھ ہاتھ دھو کر تیار ہو گیا تو اس کی والدہ نے اُسے اس کے چچا کے گھر سے دری اور مدرسے سے قرآن شریف کے پارے لانے کو کہا‘‘ وہ پہلے اپنے چچا کے گھر گیا وہاں سے دری لے کر آ گیا اور قرآن پاک کے پارے لانے کے لئے مدرسہ چلا گیا۔ مدرسے میں مولوی صاحب سے قرآن خوانی کی بات کہی اور مدرسے کے بچوں کو وہاں بھیجنے کو کہا

گھر پہنچا تو کافی لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے۔ اگر بتیاں سلگا دی گئیں اور لوگ قرآن خوانی میں مصروف ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں مدرسے کے بچے اور مولوی صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔ اُس کے چچا بازار سے جلیبی لے کر آ گئے تھے۔ قرآن خوانی کے بعد فاتحہ ہوئی اور سب لوگوں میں جلیبی تقسیم کر دی گئی اور سارے لوگ وہاں سے چلے گئے۔

نواب ،اس کی والدہ، اُس کے چچا اور کچھ دیگر رشتے دار گھر میں رُکے رہے تب اس کے چچا نے نواب کی طرف دیکھا اور اس کی والدہ کو مخاطب کر کے کہا

 ’’بھابی! تم پر یہ مصیبت کا پہاڑ ٹوٹا ہے ، اﷲ تعالیٰ تمھیں صبر کی توفیق عطا کرے۔ ہمارے بھائی نے بھی اپنی زندگی میں جو کچھ کمایاسب خرچ کر دیا۔ ایک سہارا تھا بیل گاڑی کا سو وہ بھی اب ہاتھ سے جاتا رہا۔ اب تمھارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ یہی ایک لڑکا ہے۔ سو یہ بھی ابھی زیادہ سمجھ دار نہیں ہے زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے لئے یا تو تمھیں کچھ کام دھندا کرنا پڑے گا یا پھر۔ ۔ ۔ ‘‘

نواب کی والدہ نے ان کی بات کاٹ کر کہا ’’ بھیّا۔ اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ خدا نے ہمیں یہ دُکھ دیا ہے تو وہی ہمیں راستہ بھی دکھائے گا۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’امّی اب میں اسکول نہیں جاؤں گا،میں کچھ بھی کام دھندا کروں گا میں آپ کے اور اپنے کھانے کا انتظام کروں گا۔ آپ کو کچھ کام نہیں کرنے دوں گا۔ ‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’بیٹا تم ابھی چھوٹے ہو تم کیا کام کرو گے ؟ کونسا دھندا کرو گے۔ دھندا کرنے کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور تم تو اپنے گھر کی حالت سے اچھی طرح واقف ہو میں نے بیل لانے کے لئے جو پیسے تمھارے والد کو دیے تھے وہ ہی اب تک مجھے واپس نہیں ملے ہیں۔ اس سے پہلے بھی مکان کی مرمّت کے لیے تمھارے والد مجھ سے قرض لے چُکے ہیں اور اب تو وہ دونوں بیل بھی مر گئے۔ اﷲ رحم کرے ! تم لوگوں کو کچھ نہ کچھ راستہ نکالنا ہو گا۔ اچھا بھابی جان، میں چلتا ہوں شام میں آؤں گا۔ ‘‘

اتنا کہہ کر نواب کے چچا وہاں سے چلے گئے۔ نواب ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا اور صرف ایک دن میں اُس کے گھر کی حالت میں جو تبدیلی آئی تھی اور گھرکے حالات جس طرح بدل گئے تھے اُس پر غور کرنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور گھر سے نکل کر باہر آیا۔ باہر سردی کے مہینے کی خوشگوار دھوپ چاروں طرف بکھری ہوئی تھی۔ سارے لوگ ہمیشہ کی طرح اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ بچّے کھیل کود میں لگے ہوئے تھے۔ زندگی کی ساری رونقیں جوں کی توں نظر آ رہی تھیں لیکن خود اس کی زندگی میں جو ایک بہت بڑا انقلاب آ گیا تھا اُس سے باہر کی دنیا کے سبھی لوگ بے خبر تھے۔ اِسی طرح گھومتے پھرتے اچانک اُسے اپنے والد کی بیل گاڑی کا خیال آیا۔ جِسے پولس والے اپنے ساتھ لے کر چلے گئے تھے۔ وہ غیر ارادی طور پر پولس تھانے پہنچ گیا اور ایک سپاہی سے کہا ’’کل کامٹی روڈ پر گرجا گھر کے پاس جس آدمی کا ایکسی ڈنٹ میں انتقال ہو گیا تھا میں ان کا لڑکا ہوں ، میں اپنے والد کی بیل گاڑی لینے آیا ہوں۔

سپاہی نے اُسے پہچان لیا اور اُسے اپنے ساتھ لے کر تھانہ انچارج کے کیبن میں داخل ہوا اور نواب کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’سر! یہ اپنے پِتا کی بیل گاڑی لینے آیا ہے۔ ‘‘

انسپکٹر نے اس کی طرف دیکھا اور پھر سپاہی سے کہا ’’ارے ہاں۔ اُس ٹرک کا کچھ پتہ چلا جس سے ایکسی ڈنٹ ہوا تھا۔ ‘‘

سپاہی نے کہا ’’نہیں سر اب تک اِس کی کچھ خبر نہیں ملی ہے۔ ‘‘

 ’’اچھا ٹھیک ہے اور دیکھو کاغذات پر اس لڑکے کے دستخط لے لو اور اِس کی بیل گاڑی اِس کے حوالے کر دو۔ ‘‘

 ’’جی بہت اچھا۔ ‘‘ اتنا کہہ کر سپاہی نے سیلوٹ کیا اور نواب کو لے کر کیبن سے باہر آ گیا۔

حوالات کے پیچھے ایک جگہ بیل گاڑی رکھی ہوئی تھی۔ اُس نے نواب سے کہا ’’اِسے اچھی طرح دیکھ لو۔ جس حالت میں ہے اُسی حالت میں ہم اُسے تمھارے سپرد کر دیں گے ، آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘

سپاہی اُسے تھانے کے اندر بنے ایک کمرے میں لایا جہاں الماریوں میں مختلف طریقے کی بہت ساری چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک سپاہی ٹیبل کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ سپاہی اُس کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور سپاہی سے کہا ’’میجر کل جو بیل گاڑی ہم اُٹھا کر لائے تھے کاغذات پر دستخط لے کر وہ اس لڑکے کو دے دو۔ پی۔ آئی صاحب نے کہا ہے ‘‘۔

اُس سپاہی نے ایک رجسٹر کھولا اور اُس میں کچھ باتیں لکھیں اور پھر نواب سے ایک جگہ دستخط کرنے کو کہا۔ نواب نے سپاہی کی بتائی ہوئی جگہ پر دستخط کر دی اور پھر سپاہی نے سامنے کھڑے سپاہی سے ایک جگہ دستخط کرنے کو کہا اس نے بھی دستخط کر دی تو اُس نے اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے کہا ’’ میں پی آئی صاحب کے دستخط لے کر آتا ہوں۔ ‘‘

سامنے کھڑے سپاہی نے کہا ’’جاؤ میں یہیں ہوں ‘‘ وہ رجسٹر لے کر چلا گیا اور تھوڑی دیر میں واپس آ گیا۔ ’’ ٹھیک ہے گاڑی اس لڑکے کو دے دو لیکن یہ اُسے لے جائے گا کیسے ؟‘‘

 ’’ارے ہاں۔ تم گاڑی کیسے لے جاؤ گے ‘‘

نواب نے کہا ’’صاحب۔ اس کے دونوں چکّے صحیح سلامت ہیں میں اُسے چلاتے ہوئے لے کر چلا جاؤں گا‘‘

 ’’ٹھیک ہے۔ دیکھ لو نہیں تو ہم کچھ انتظام کر دیتے ہیں۔ ‘‘

 ’’نہیں صاحب۔ میں لے کر چلا جاؤں گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے تو آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘

وہ نواب کو اپنے ساتھ لے کر اس جگہ آیا جہاں اس کے والد کی بیل گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ نواب نے سامنے کے دونوں ڈنڈوں کو ہاتھ سے پکڑ کر اُٹھا لیا اور پھر اُسے کھینچتا ہوا لے کر آگے بڑھا۔ سپاہی نے بھی گاڑی کو آگے بڑھانے میں اس کی مدد کی۔ وہ کسی طرح گاڑی کو کھینچ کر تھانے کے باہر کولتار سے بنی سڑک پر لے آیا اور پھر کولتار کی ہموار سڑک پر کھینچتا ہوا گاڑی کو لے کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا۔ اُس کا گھر پولس تھانے سے زیادہ دور نہیں تھا پندرہ منٹ میں وہ گاڑی لے کر اپنے گھر پہنچ گیا۔

گاڑی کے دونوں پہیے اور سامنے کے ڈنڈے ، جو بیلوں کی گردن پر رکھے ہوتے ہیں ،بالکل صحیح سلامت تھے۔ بنڈی کے گرد لگی ہوئی کچھ لکڑیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ بیل گاڑی کا بغور جائزہ لینے کے بعد وہ گھر کے اندر گیا۔ اوزار گھر میں موجود تھے۔ کچھ لکڑیاں بھی موجود تھیں ان سب کی مدد سے وہ اپنی بیل گاڑی کو درست کرنے بیٹھ گیا۔ چند گھنٹوں کی مشقت کے بعد گاڑی پوری طرح تیار ہو گئی۔ لیکن بغیر بیلوں کے گاڑی چل نہیں سکتی تھی۔ بیل کہاں سے آئیں گے اِس کا اُسے کچھ علم نہیں تھا۔

شام میں اس کے چچا اُس کے گھر آئے تو انھیں گھر کے دروازے پر بیل گاڑی کھڑی نظر آئی وہ گھر کے اندر آئے اور دری پر بیٹھ گئے۔ نواب کی امّی نے ان سے کہا ’’بھائی صاحب نوا ب پولس تھانے سے بیل گاڑی لے آیا ہے اور اُسے درست بھی کر لیا ہے۔‘‘

 ’’وہ تو ٹھیک ہے بھابی، لیکن بغیر بیلوں کے گاڑی کیسے چلے گی اور نواب بھی ابھی کچھ اتنا بڑا نہیں ہے کہ گاڑی چلا سکے۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’چچا جان میں گاڑی اچھی طرح چلا لیتا ہوں۔ کبھی کبھی میں بھی اپنے ابّو کے ساتھ گاڑی پر جایا کرتا تھا۔

 ’’وہ تو ٹھیک ہے۔ ‘‘ اس کے چچا نے کہا ’’ لیکن صرف گاڑی چلانے سے ہی تو سب کچھ نہیں ہو جاتا۔ اُس پر سامان چڑھانا اور اُتارنا پڑتا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانا پڑتا ہے۔ بڑی محنت کا کام ہے۔ بیل گاڑی چلانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے؟‘‘

نواب نے کہا ’’چچا جان! اگر بیلوں کا کچھ انتظام ہو جائے تو میں دھیرے دھیرے سارے کام سیکھ جاؤں گا۔ ‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’دیکھو بیلوں کا انتظام ہونا بے حد مشکل ہے۔ معمولی بیلوں کی جوڑی بھی آٹھ دس ہزار روپئے سے کم میں نہیں آئے گی۔ میں نے ہی جو جوڑی تمھارے والد کو دلائی تھی اس کی قیمت ۱۱ ہزار روپئے تھی، جس کے پیسے اب تک مجھے نہیں ملے ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ تم کسی دوکان میں نوکری کر لو اور گزر بسر کا انتظام کرو، مجھ سے کوئی امید نہیں رکھنا۔ ابھی تمھارے والد کی طرف جو پچھلا باقی ہے وہ ہی مجھے نہیں مِلا ہے اوپر سے یہ کفن دفن میں جو خرچ ہوا وہ الگ!‘‘

نواب کی والدہ نے کہا ’’بھائی صاحب ہماری قسمت ہی خراب ہے۔ ایک کے بعد ایک مصیبت ہم پر ٹوٹی پڑ رہی ہے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ہے۔ ابھی اس بچے کے کھیلنے کودنے کے ، پڑھنے لکھنے کے دن ہیں۔ پھر بھی وہ ہمّت کر رہا ہے۔ خدا نے چاہا تو کچھ نہ کچھ راستہ نکل ہی آئے گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔ میں بھی ان دنوں بڑی تنگی میں ہوں۔ اگر میرے حالات اچھے ہوتے تو میں ضرور تمھاری مدد کرتا لیکن پچھلے چند مہینوں سے میری بھی کاروباری حالت ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مصیبت کی اِس گھڑی میں میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر  سکوں گا۔ ‘‘ اتنا کہہ کر نواب کے چچا اُٹھ کر چلے گئے۔

اُن کے اس طرح صاف صاف کہہ دینے کے بعد کمرے میں ایک سنّاٹا سا چھا گیا۔ کچھ دیر تک کوئی کچھ نہیں بولا تبھی نواب کی خالہ جو ساؤنیر میں رہتی تھیں ، انھوں نے نواب سے کہا۔ ’’بیٹا! تو ہمّت سے کام لے۔ حوصلہ نہیں ہارنا جہاں چاہ ہے وہاں راہ ہے۔ خدا نے چاہا تو کوئی نہ کوئی اچھا راستہ ضرور نکلے گا۔ تیرے خالوکسی کام سے بمبئی گئے ہوئے ہیں وہ دو تین دن میں واپس آ جائیں گے ان سے آ کر ملنا، میں بھی کہہ دوں گی۔ ضرور کوئی راستہ نکل آئے گا، آج میں بھی یہاں سے چلی جاؤں گی جس دن تیرے خالو آ جائیں گے میں فون سے تجھے خبر کر دوں گی۔ بیٹا! اب تو ہی اپنی اس بے سہارا ماں کا سہاراہے تجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ ‘‘

 ’’جی خالہ جان۔ میں محنت کرنے کو تیار ہوں میں ضرور کمائی کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لوں گا میں اپنی امّی کو بھوکا نہیں رہنے دوں گا۔ ‘‘

اُسی وقت اُس کی اسکول کے صدر مدرس، کلاس ٹیچر، اور کچھ اساتذہ اس کے گھر آئے انھوں نے نواب کو اور اس کی امّی کو تسلّی دی اور نواب سے کہا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھے۔ تعلیم کے تمام اخراجات اسکول کی جانب سے ادا کیے جائیں گے۔

تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔ جاتے جاتے انھوں نے ایک لفافہ نواب کی والدہ کے ہاتھ میں دیا۔ اس کی والدہ نے اُس لفافہ کو کھول کر دیکھا، ایک کاغذ پر تعزیت نامہ تحریر تھا اورساتھ ہی سو سو روپئے کے پانچ نوٹ بھی اس میں رکھے ہوئے تھے۔ نوٹوں کو ہاتھ میں لے کر کچھ دیر تک وہ دیکھتی رہیں ، پھر ان کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔ شام میں اُس کی خالہ بھی اپنے گاؤں واپس چلی گئیں۔ تیسرے دن پڑوس کے گھر میں نواب کے لیے فون آیا۔ نواب نے فون اُٹھایا تو دوسری طرف سے اُس کی خالہ کی آواز تھی انھوں نے کہا ’’بیٹا !نواب تیرے خالو آ گئے ہیں ،تو کل صبح یہاں آ جانا میں نے اُن سے تیرے والد کے انتقال کی اور بیلوں کے مرنے کی بات بتا دی ہے۔ وہ خود کامٹی آنا چاہتے تھے لیکن میں نے کہا کہ نواب یہاں آ جائے گا اپ اُس سے بات کر لیجئے ؟ اچھا کل صبح تو کسی بھی طرح میرے گھر پہنچ جا۔ ‘‘

دوسرے دن صبح جب نواب اپنی خالہ کے گھر پہنچا تو صبح کے دس بج رہے تھے۔ گھر میں داخل ہوا تو دیوان پر اُس کے خالو بیٹھے نظر آئے۔ اُس نے اُنھیں سلام کیا اور ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے خالو نے نواب کے سرپر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’بیٹا! تمھارے والد اچانک چلے گئے ، مجھے فون پر خبر مل گئی تھی لیکن میں اتنی دور تھا اتنے ضروری کام میں تھا کہ یہاں وقت پر پہنچنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ کل میں آیا تو تمہارے گھر آنا چاہتا تھا لیکن تمھاری خالہ نے مجھ سے کہا کہ تم خود یہاں آنے والے ہو، اس لئے میں یہاں رُک گیا۔ ‘‘اتنا کہہ کر انھوں نے اندر کھلنے والے دروازے کی طرف منھ کر کے آواز لگائی ’’ارے بھائی، دیکھو کون آیا ہے ، اور حامد ہو گا تو اُس کے ہاتھ سے پانی بھیجو۔ ‘‘

تھوڑی دیر میں اُس کی خالہ اس کمرے میں آئیں جہاں نواب بیٹھا ہوا تھا۔ انھیں دیکھ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور خالہ کو سلام کیا۔

اس کی خالہ نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا نواب اچھا ہوا تو آ گیا۔ بیٹھ میں تیرے ناشتے کے لیے کچھ بناتی ہوں۔

اتنا کہہ کر وہ اندر چلی گئیں ، تبھی ایک ٹرے میں پانی کے گلاس لے کر اُسی کی عمر کا ایک لڑکا آیا اور اُس نے ٹی ٹیبل پر ٹرے رکھ دی اور پھر نواب سے کہا ’’ ہاں نواب کہو کیسے ہو اور خالہ جان کیسی ہیں ؟

ٹھیک ہیں ! آج تم اسکول نہیں گئے

نہیں میرا اسکول ۱۲ بجے لگتا ہے۔ حامد نے کہا ’’اور کہو تمھارے اسکول کا کیا حال ہے ؟

 ’’بس ٹھیک ہے ‘‘ نواب نے کہا۔

اتنے میں نواب کی خالہ نے ناشتہ کے لیے کچھ چیزیں لا کر ٹی ٹیبل پر رکھ دیں اور نواب سے کہا ’’لے بیٹا کھا، بالکل تکلف نہیں کرنا ، یہ بھی تیرا ہی گھر ہے ‘‘

ناشتہ سے فارغ ہو جانے کے بعد نواب کی خالہ نے مختصر مختصر نواب کے گھر کی کیفیت بیان کر دی اور نواب کی گاڑی کے لیے دو بیلوں کی ضرورت ہے یہ بھی بتا دیا۔

نواب کے خالو گاؤں کے سرپنچ تھے اور بہت با اثر آدمی تھے۔ ان کی کھیتی تھی، پھلوں کے باغ تھے اور گاؤں میں بڑی عزّت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔

سارے حالات سن لینے کے بعد انھوں نے کہا ’’دیکھو نواب میری بات کا بُرا مت ماننا تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ بیل گاڑی چلا کر گزر بسر کرنا تمھارے بس کی بات نہیں ہے۔ تم کہو تو میں ناگپور میں اپنے کسی جان پہچان والے کے یہاں تمھیں نوکری پر رکھوا دیتا ہوں۔ ‘‘

اپنے خالو کے منھ سے یہ بات سن کر نواب کے چہرے پر غم کی ایک پرت سی چھا گئی۔ پھر اُس نے کہا ’’خالو جان نوکری اور پڑھائی کرنا اب مجھ سے نہیں ہو گا۔ میں تو بس اپنے والد کی چھوڑی ہوئی بیل گاڑی ہی چلاؤں گا،چاہے بیلوں کی جگہ مجھے ہی کیوں نہ گاڑی کھینچنی پڑے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر نواب اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

 ’’ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ، بیٹھ جاؤ۔ ‘‘ نواب کے خالو نے اُس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ دیکھو، اب جبکہ تم فیصلہ کر ہی چُکے ہو تو بڑی اچھی بات ہے۔ آدمی کوئی بھی دھندہ عزت سے ، محنت سے اور ایمانداری سے کرے تو دیر سے ہی سہی اُسے ترقی ضرور ملتی ہے۔ اس عمر میں تم میں فیصلہ کرنے کی قوت ہے ، تمھارے حوصلے بھی بلند ہیں ،یہ بڑی اچھی بات ہے۔ اچھا، دیکھو آنے والی جمعرات کو تم ناگپور میں کلمنا مارکٹ چلے جانا اور میں ابھی تمہیں چٹھی لکھ کر دے رہا ہوں اور جس دلال کے نام سے یہ چٹھی ہے اس سے جا کر مل لینا وہ تمھیں دو بیل دلا دے گا لیکن اسکی جو بھی رقم ہو گی وہ دھیرے دھیرے تمھیں ادا کرنی ہو گی یہ سمجھ لو یہ رقم تم کو قرضِ حسنہ کے طور پر مل رہی ہے یعنی میں اس کا تقاضہ نہیں کروں گا اور جب تمھارے پاس رقم جمع ہو جائے اور کسی کا کچھ دینا باقی نہ رہے تو تم مجھے واپس کر دینا۔ چا ہو تو تھوڑی تھوڑی کر کے بھی یہ رقم تم مجھے دے سکتے ہو۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘

 ’’جی آپ کی مہربانی ہے ؟‘‘

 ’’نہیں ، میں مہربانی نہیں کر رہا ہوں۔ مہربانی سے ملی ہوئی رقم سے لوگ کاہل اور سست بن جاتے ہیں۔ اُن کے اندر کی حِس مر جاتی ہے پیسے واپس کرنے کا جذبہ تمھیں محنت کرنے پر اکساتا رہے گا اور میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی محنت سے کچھ بن کر دکھاؤ مجھے یقین ہے کہ تمھارے اندر کی خود اعتمادی تمھیں زندگی میں ضرور کامیاب کرے گی‘‘ اتنا کہہ کر نواب کے خالو نے آواز لگائی

 ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حامد !ذرا میرا بیگ تو لے آؤ۔ ۔ ‘‘

اندر سے آواز آئی ’’جی ابوّ جی !‘‘

تھوڑی دیر بعد حامد کمرے میں آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا جو اس نے اپنے والد کو دے دیا۔ شاہد علی خاں نے اس میں سے ایک لیٹرپیڈ نکالا۔ پین نکالا اور اس لیٹر پیڈ کے سفید کاغذ پر، جس پر انکا نام چھپا ہوا تھا، انھوں نے ایک تحریر لکھنی شروع کی۔ تحریر مراٹھی میں تھی۔ تحریر مکمل ہو جانے کے بعد آخر میں انھوں نے اپنے دستخط کئے اس پر ربر اسٹمپ لگا کر اُس کاغذ کو موڑ دیا، اور اوپری طرف کسی کا نام لکھ کر کاغذ نواب کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’دیکھو اِس پر میں نے دلال کا نام لکھ دیا ہے جمعرات کو بیل بازار میں اس سے جا کر مل لینا اور یہ کاغذ اُسے دے دینا تمھارا کام ہو جائے گا۔ ‘‘

نواب نے وہ کاغذ اپنے خالو کے ہاتھ سے لے لیا اور شکریہ کہہ کر اُسے اپنی شرٹ کی جیب میں رکھ لیا، پھر وہ اندر کمرے میں چلا گیا۔ اُس کی خالہ نے کہا ’’کھانا تیار ہو رہا ہے کھا کر جانا‘‘ پھر انھوں نے حامد کو بازار سے کچھ سامان لانے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ نواب کو بھی اپنے ساتھ لے جائے۔

دونوں بازار میں آئے انھوں نے فہرست کے مطابق چیزیں خریدیں اور گھر واپس آ گئے۔

کھانا تیار ہو جانے کے بعد سب نے مل کر کھانا کھایا اور تھوڑی دیر رک کر نواب وہاں سے کامٹی کے لئے روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچا تو شام ہو  چکی تھی اُس کی والدہ اور چند عورتیں گھر میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میّت کا گھر تھا۔ ایک عجیب طرح کی اُداسی اور خاموشی کمرے میں چھائی ہوئی تھی۔ نواب ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا، تب اُس کی امّی نے کہا ’’ہاں بیٹا ہو آئے اپنے خالو کے گھر سے۔ ‘‘

 ’’ جی ہاں امّی! انھوں نے مجھے چٹھی دی ہے اﷲ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

تبھی اس کے چچا آئے اور سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے کہا ’’نواب بازار میں میرے دوست کی کباڑی کی دوکان ہے میں ابھی اُس سے بات کر کے آ رہا ہوں۔ وہ تمھیں اپنی دوکان میں رکھنے کو تیار ہو گیا ہے۔ ابھی پچاس روپئے ہفتہ تمھیں دے گا، بعد میں تمھاری تنخواہ بڑھا دے گا۔

نواب نے کہا۔ ۔ ’’چچا جان میری بیل گاڑی کے لئے بیلوں کا انتظام ہو گیا ہے۔ اب مجھے کسی نوکری کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’بیٹا تم ابھی چھوٹے ہو یہ کام تمھارے بس کا نہیں ہے۔ اِس کام میں کافی محنت ہے اور خطرہ بھی بہت ہے آخر اِسی کام میں تمھارے والد کی جان گئی ہے۔ ‘‘

نواب کی والدہ نے کہا ’’اب نواب کی تمنّا ہے تو اُسے یہ بھی کر کے دیکھ لینے دو۔ اگر اس کام میں کچھ فائدہ نہیں ہوا تو پھر کہیں نوکری پر رکھوا دینا۔

 ’’بھابی تم ٹھیک کہتی ہو۔ ‘‘ نواب کے چچا نے کہا ’’لیکن بیل بھی یونہی کسی نے مفت میں تو نہیں دیئے ہوں گے ‘‘ اس کی رقم تو لوٹانی ہو گی۔ ابھی میری رقم ہی نہیں مل پائی ہے ، دوسروں کی رقم کس طرح ادا کرو گے۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’چچا جان آپ بے فکر رہیں آپ کی رقم بھی لوٹا دوں گا اور دوسروں کی رقم بھی لوٹا دوں گا، رات دن محنت کروں گا میں۔ اﷲ میری مدد کرے گا میری ماں کی دعائیں میرا ساتھ دیں گی۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے بیٹا اگر تمھاری یہی تمنّا ہے تو یہی ٹھیک ہے لیکن بیل تمھیں مل کہاں سے رہے ہیں۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’جی میرے خالو۔ ساؤنیر والے شاہد علی خاں وہ مجھے دلا رہے ہیں۔

 ’’ہاں تب تو ٹھیک ہے وہ بڑے آدمی ہیں ، گاؤں میں ان کی دھاک ہے۔ کافی کھیتی باڑی ہے لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ کچھ سرکاری الجھنوں میں پڑ گئے ہیں ، دلّی بمبئی کے چکّر لگ رہے ہیں۔

نواب کی والدہ نے کہا ’’بھائی صاحب پریشانیاں تو سب کے ساتھ لگی ہوتی ہیں۔ چھوٹے لوگوں کے ساتھ چھوٹی پریشانی، بڑے لوگوں کے ساتھ بڑی پریشانی۔ پھر بھی انھوں نے مدد کی ورنہ وہ بھی پریشانیوں کا بہانہ بنا کر دامن جھاڑ سکتے تھے۔ ‘‘

 ’’ہاں چلو ٹھیک ہے۔ نواب کے چچا نے کہا۔ کام جلدی شروع کرو۔ اﷲ تمھیں کامیاب کرے۔ اچھا بھابی میں چلتا ہوں۔ خدا حافظ،‘‘ اتنا کہہ کر وہ چلے گئے۔

جمعرات کے دن صبح دس بجے نواب نے اپنے خالو کی دی ہوئی چٹھی جیب میں رکھی اور کلمنا مارکیٹ کی طرف روانہ ہوا۔ وہ ایک آٹو رکشہ سے کلمنا مارکیٹ پہنچ گیا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اُسے وہ دلال مل گیاجس کے نام سے اُس کے خالو نے چٹھی دی تھی۔ اُس نے چٹھی کھول کر پڑھی اور اُسے اپنے ساتھ لے کر گیا اور ایک آفس میں بیٹھا دیا اور کہا ’’ بابو تم یہیں بیٹھو میں تمہارے لئے جانور تلاش کرتا ہوں ، سر پنچ صاحب نے مجھے ٹیلی فون سے بتا دیا تھا۔ ‘‘

نواب آفس میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا ایک گھنٹہ بیٹھا رہا۔ ساڑھے بارہ بجے کے قریب دلال وہاں آیا اور نواب کو اُس نے اپنے ساتھ آنے کو کہا۔ نواب اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ بازار میں ایک جگہ ایک آدمی دو بیلوں کو لے کر کھڑا ہوا تھا، دلال اُس کے قریب پہنچ کر رُک گیا پھر نواب سے کہا ’’دیکھو یہ دونوں بیل تمھارے ہیں کیا تم اِنہیں کامٹی لے جا سکو گے یا میں کسی کے ذریعہ کامٹی بھجوا دوں !‘‘

نواب نے کہا ’’جی نہیں کا کا، میں ان بیلوں کو خود لے جاؤں گا، مجھے یقین ہے میں انھیں آسانی سے لے کر چلا جاؤں گا۔

ٹھیک ہے۔ دلال نے کہا ’’ دیکھو یہ خریدی کی چٹھی اور یہ ٹیکس کی رسید اپنے پاس رکھ لو راستے میں کوئی روکے تو اُسے یہ دِکھا دینا اور ان چٹھیوں کوسنبھال کر رکھنا، بہت اہم کاغذ ہیں یہ ! ‘‘

 ’’جی، بہت اچھا، کیا میں جان سکتا ہوں کہ اس جوڑی کی قیمت کیا ہے ؟‘‘

 ’’نہیں یہ تمھیں جاننے کی ضرورت نہیں ہے میں سرپنچ صاحب کو بتا دوں گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ نواب نے کہا اور دونوں بیلوں کی رسّیاں تھام لیں۔ دونوں بیل بڑے ہی خوبصورت اور صحت مند تھے۔ ایک بیل کتھئی رنگ کا تھا جبکہ دوسرا سفید تھا۔

کتھئی رنگ کا بیل نہایت گٹھیلا اور خوبصورت نظر آ رہا تھا ،اُس کی جلد سورج کی روشنی میں جھلمل جھلمل چمک رہی تھی، یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایک رنگ نمودار ہوتا ہے اور اُسی جگہ دوسرا رنگ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اُس بیل کی آنکھیں اتنی روشن اور چمکدار تھیں کہ وہاں سے روشنی پھوٹتی محسوس ہوتی تھی اور ان آنکھوں سے وہ چہار جانب یوں دیکھتا تھا گویا شکاری شکار کی تلاش کر رہا ہو۔ اُس کے سینگ حیرت انگیز حد تک نکیلے ، تلوار کے مانند مڑے ہوئے اور خمیدہ تھے۔ پیر اُس کے اتنے کسدار تھے کہ لگتا تھا بیل کے پیر نہ ہوں کسی اعلیٰ نسل کے گھوڑے کے پیر ہوں۔ جب دلال نے وہ بیل اُس کے سپرد کیا تو نواب سے کہا ’’دیکھو یہ کتھئی رنگ کا بیل ایک بیوہ عورت کا بیل ہے۔ اُس کا شوہر اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ اِسے کسی بات کی تکلیف نہیں ہونے دیتا تھا لیکن ایک حادثے میں اُس کا انتقال ہو گیا۔ گھر میں اتنی تنگی ہوئی کہ مجبوراً بیل اُسے بیچنا پڑا، اِس بیل کا بے حد خیال رکھنا۔

نواب نے اُس بیل کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’ہاں میں اس کا بے حد خیال رکھوں گا۔ میرا دوست ہے یہ!‘‘

دونوں بیلوں کی رسیّاں تھام کر اُس نے اُنھیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ تھوڑی سی کوشش سے بیل آگے بڑھنے لگے۔ بازار کی حد سے نکل کر بیل کولتار سے بنی سڑک پر آ گئے ، تھوڑی دیر میں وہ ریلوے کراسنگ پر آ گئے۔ کوئی گاڑی آنے والی تھی۔ اس کا پھاٹک بند تھا۔ بہت سے ٹرک، گاڑیاں اور ہاتھ ٹھیلے پھاٹک کے کھلنے کا انتظار کرتے کھڑے تھے۔ نواب بھی اپنے دونوں بیلوں کو لے کر سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا۔ سائیکل والے اور اسکوٹر والے اپنی گاڑیوں کو آڑے لگے ہوئے لوہے کے ڈنڈے سے نکال کر لے جا رہے تھے۔ جہاں نواب اپنے دونوں بیلوں کو لے کر کھڑا تھا، اُس کی داہنی طرف ایک ٹرک تھا اور بائیں طرف اُس کے جانور کھڑے تھے ، اس کے بازو میں بائیں طرف ایک گڑھا سا تھا کہ کسی گاڑی کے نکلنے کی جگہ نہیں تھی۔ تبھی پیچھے سے ایک نوجوان ہیرو ہونڈا گاڑی پر سوار نواب کے پیچھے آیا اور زور زور سے ہارن بجانے لگا۔ نواب کو نہ تو خود ہٹنے کی جگہ تھی اور نہ ہی اُس کے بیل کہیں سرک سکتے تھے۔ اُس نوجوان کو آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ملا تو اُس نے اپنی گاڑی سڑک کے بازو کے گڑھے میں اتار دی لیکن وہ گاڑی سنبھال نہیں پایا اور گاڑی لے کر گِر گیا۔ سب لوگ اُسے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ بڑی مشکل سے وہ اُٹھا اور کافی طاقت لگا کر وہ اپنی گاڑی اُٹھا سکا۔ اُس نے گاڑی اسٹینڈپر کھڑی کر دی، اور نواب کی طرف آیا اور اُسے گالیاں دینے لگا۔ نواب نے کہا ’’ہٹنے کی کوئی جگہ نہیں ہے ، میں کدھر سرکتا‘‘ نوجوان نے جوش میں آ کر نواب کا گریبان پکڑ لیا اور چاہتا تھا کہ نواب کو ایک طمانچہ مار دے لیکن اِس سے بھی پہلے کتھئی رنگ کے بیل نے جو اپنی گردن گھمائی تو اس کے نوکیلے سینگ نوجوان کے پیر پر لگے جھٹکا اتنا شدید تھا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا ،جا کر اپنی گاڑی پر گِر ا اور گاڑی سمیت گڑھے میں گر گیا۔ بیل کی سینگ لگنے سے اس کی پینٹ بھی پھٹ گئی تھی۔ یہ دیکھ کر لوگ اور ہنسنے لگے۔ اب تو نوجوان کا غصّہ کے مارے بُرا حال ہو گیا۔ اُس نے وہیں سے ایک پتھر اُٹھایا اور پوری طاقت سے نواب کو مارا۔ نواب نے پتھر کی زد سے اپنے آپ کو بچا لیا۔ پتھر جا کر بازو میں کھڑے ہوئے ٹرک کی کھڑکی کی کانچ سے ٹکرایا۔ کانچ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر سڑک پر گِر پڑی۔ یہ دیکھ کر ٹرک ڈرائیور نیچے اُترا اور اُس نے نوجوان کا گلا پکڑ لیا اور اُس سے اپنے نقصان کے پیسے مانگنے لگا۔ اُسی دوران ٹرین وہاں سے گزری اور پھاٹک کھل گیا۔ سامنے کے لوگوں نے اپنی اپنی گاڑیاں آگے بڑھائیں اور نواب بھی اپنے بیلوں کو لے کر نکل گیا۔ یہاں نوجوان اور ٹرک والے میں توتو میں میں ہو رہی تھی۔

نواب اپنے بیلوں کو ہانکتا ہوا کلمنا بستی کے آگے کی پلیا پر پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے نوجوان تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے آیا اور نواب کے سامنے گاڑی کھڑی کر کے کھڑا ہو گیا اور نواب سے کہا ’’تیری وجہ سے میں گاڑی سے گِرا، میری پینٹ پھٹی اور ٹرک والے کو پیسے دینے پڑے۔ مجھے یہ رقم واپس کر نہیں تو میں تجھے جانے نہیں دوں گا۔ چل میرا نقصان پورا کر پیسے نکال۔

نواب نے کہا ’’بھیّا، میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور میری وجہ سے تمھارا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے ، میں تمھیں پیسے کیوں دوں ؟‘‘

نوجوان نے کہا ’’پیسے تجھے دینے پڑیں گے ، ورنہ میں یہ جانور تجھے لے جانے نہیں دوں گا۔ ‘‘ اتنا کہہ کر اُس نے بیلوں کی رسّیاں نواب کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ نواب نے اُس کے ہاتھوں سے رسّی لینے کی کوشش کی تو اس نے نواب کے منھ پر ایک گھونسہ مار دیا۔ نواب نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گرنے سے بچایا اور پھر سے نوجوان کے ہاتھ سے رسّیاں لینے کے لئے اُس کی طرف بڑھا۔ نوجوان اُس کی طرف بڑھا۔ نوجوان نے اُسے مارنے کے لئے دوسری بار گھونسہ تانا۔ بس اُسی لمحہ کتھئی رنگ کے بیل نے ایک جھٹکے سے اپنی رسّی چھڑا لی اور اپنی دونوں سینگوں سے اُٹھا کر نوجوان کو زور سے اُچھال دیا، نوجوان ہوا میں لہراتا ہوا نالے میں جا گِرا۔ نالے میں تھوڑا پانی تھا۔ اُس کے پورے کپڑے کیچڑ میں لت پت ہو گئے۔ کسی طرح وہ نالے سے نکل کر پھر سڑک پر آ گیا اور نواب کو گندی گندی گالیاں دینے لگا۔ وہ پھر نواب کی طرف آگے بڑھا۔ تبھی کتھئی رنگ کے بیل نے نوجوان کی طرف دوڑنا شروع کیا۔ نوجوان نے بیل کو اپنی طرف آتے دیکھا تو بے تحاشہ ایک سمت بھاگنے لگا۔ اب نوجوان آگے آگے اور بیل اُس کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ ببول کی جھاڑیوں کو پھلانگتا ہوا نوجوان جب بہت دور نکل گیا تو بیل واپس آیا اور نواب کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ نوجوان کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ نواب نے دونوں بیلوں کی رسّیاں تھامیں اور تیزی سے آگے بڑھا۔ ۔ پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھتا بھی جاتا تھا کہ کہیں نوجوان پیچھے تو نہیں آ رہا ہے لیکن پھر نوجوان واپس نہیں آیا۔ چار بجے کے قریب وہ گھر پہنچ گیا اور گھر کے سامنے بیلوں کو باندھنے کا جو کھونٹا تھا نواب نے دو الگ الگ کھونٹوں سے بیلوں کو باندھ دیا اور اپنی والدہ کو جا کر بتایا کہ اُسے بیل مل گئے ہیں۔ اُس کی امّی گھر سے نکل کر آئیں۔ انھوں نے بیلوں کو دیکھا،پھر اندر سے کچھ بھوسی اور گھاس بیلوں کے سامنے لا کر ڈال دی۔ نواب کے گھرسے لگا ہوا ایک پرانا کنواں تھا۔ نواب نے بالٹی سے پانی کھینچا اور دونوں بیلوں کے سامنے پانی کی بالٹی رکھ دی۔

نواب نے اپنی امّی سے کہا ’’ امّی میں خالو جان کو فون کر کے بتا دیتا ہوں کہ بیل مجھے مل گئے ہیں۔ ‘‘

نواب کی امّی نے کہا ’’ٹھیک ہے جاؤ انھیں بتا دو اور ان کا شکریہ بھی ادا کر دینا۔ ‘‘

 ’’جی امّی!‘‘ اتنا کہہ کر نواب وہاں سے چلا گیا۔

پاس کی ایک دوکان سے اُس نے ٹیلی فون کیا۔ فون اُس کے خالو نے ہی اٹھایا۔

نواب نے اپنے خالو کو سلام کیا اور کہا ’’خالو جان مجھے بیل مل گئے ہیں دونوں بیل بہت اچھے ہیں !‘‘

ہاں ٹھیک ہے۔ دلال نے بھی مجھے فون پر خبر دے دی ہے۔ بیٹا بڑی ہوشیاری سے کام کرنا۔ جلد بازی میں کچھ غلط کام نہیں کرنے لگنا۔

 ’’جی بہت اچھا خالو جان!‘‘

اور دیکھو تمھارے چچا کا مجھے فون آیا تھا،اُن کا قرض پہلے ادا کرنا، اُن کی نیّت تمھارے مکان پر لگی ہوئی ہے۔ جیسے ہی پیسے تمھارے پاس آئیں پہلے اُن کا قرض ادا کر دینا اور خبر دار کسی کاغذ پر اُنھیں کچھ لکھ کر مت دینا اور نہ ہی ان کے کسی کاغذ پر دستخط کرنا۔ ان کی نیت کچھ ٹھیک نظر نہیں آ رہی ہے۔

 ’’جی ہاں خالو جان، بار بار وہ اپنے پیسوں کا ذکر کرتے ہیں۔ میں ان کا قرض پہلے ادا کروں گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے بیٹا۔ محنت اور ایمانداری سے کام کرو ہر مشکل آسان ہو جائے گی۔ اچھا فون رکھتا ہوں ‘‘

اتنا کہہ کر اُنھوں نے فون رکھ دیا نواب وہاں سے گھر آیا۔ شام ہو چکی تھی۔ اُس کی امّی کھانا بنا چُکی تھیں ؟ اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھ کر اُس نے کھانا کھایا۔ اپنے چچا کی بات اُس نے اپنی امّی کو نہیں بتائی۔

کھانا کھا کر بیٹھا ہی تھا کہ باہر سے کسی نے اس کا نام لے کر آواز لگائی۔ وہ باہر آیا تو اُس نے دیکھا ،پڑوس کے ایک آدمی اس کے گھرکے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ نواب نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے نواب سے کہا۔

 ’’نواب! اِیرکھیڑا میں ہمارا نیا گھر بن کر تیار ہو گیا ہے اگر تمھاری بیل گاڑی ٹھیک ہو گی تو سارا گھر کا سامان وہاں پہنچا دو۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ہاں کیوں نہیں میری گاڑی تیار ہے لیکن سامان چڑھانے اور اُتارنے کا مسئلہ ہے۔ ‘‘

انھوں نے کہا ’’یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ، میرے لڑکے ہیں نا۔ وہ سامان چڑھا بھی دیں گے اتار بھی دیں ‘‘گے۔

ٹھیک ہے چچا چلیے میں آپ کے ساتھ چل رہا ہوں۔

اتنا کہہ کر وہ گھر میں گیا اور اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ پڑوس کے انصاری بابو کا سامان ایر کھیڑا پہنچا نے جا رہا ہے۔

اُس کی امّی نے کہا ’’ٹھیک ہے بیٹا آرام سے جانا اور احتیاط سے گاڑی چلانا۔ بیل ابھی نئے ہیں۔ ‘‘

 ’’جی امّی آپ بے فکر رہیں ، میں بہت آرام سے گاڑی چلاؤں گا‘‘

اُسی وقت اُس نے دونوں بیلوں کو گاڑی میں جوتا۔ رسّی اپنے ہاتھوں میں تھام لی اور بیلوں کو ہانکتا ہوا انصاری بابو کے گھر کی جانب لے کر چلا۔

انصاری بابو کے لڑکوں نے جلدی جلدی سارا سامان گاڑی پر لاد دیا اور نواب کو گاڑی آگے بڑھانے کو کہا۔ وہ خود سائیکلوں پرسوار ہو گئے۔ اِس طرح دو بار میں اُن کا پورا سامان نئے گھر میں منتقل ہو گیا۔ انصاری بابو نے نواب سے کہا ’’ہاں بیٹا۔ تم نے سارا سامان ہمارے گھر پہنچا دیا کہو تمھاری مزدوری کتنی ہوئی۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’چچا جان! آج یہ میری زندگی کی پہلی کمائی ہے ، آپ جو خوشی سے دیں گے میں آنکھ بند کر کے لے لوں گا۔ ‘‘

انصاری بابو نے کہا ’’ ہاں بیٹا۔ تمھارے والد کی موت کے بعد اب گھر کی ذمّہ داری تمھارے ہی سر پر ہے۔ اچھا ہوا تم نے اپنے والد کا کام سنبھال لیا۔ پھر انھوں نے سو روپئے کا ایک نوٹ نواب کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ نواب نے اس نوٹ کو دیکھا بھی نہیں اور اپنی جیب میں رکھ لیا اور انصاری بابو کو سلام کر کے وہاں سے واپس اپنے گھر چلا آیا۔

رات میں جب گھر واپس آیا تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ اُس کی والدہ اُس کا انتظار کر رہی تھیں۔ نواب نے وہ نوٹ جیب سے نکالا اور اپنی امّی کے ہاتھ پر رکھ دیا اور کہا ’’لیجئے امّی یہ میری زندگی کی پہلی کمائی ہے ‘‘

اُس کے امّی نے نوٹ کو دیکھا اور خدا کا شکر ادا کیا اور کہا ’’کل میں محلّے کے بچوں کو ان پیسوں کا زردہ بنا کر کھلاؤں گی، یہ میرے لال کی محنت کی پہلی کمائی ہے۔ ‘‘

پھر انھوں نے اپنے بچے کو ڈھیر ساری دعائیں دیں اور دونوں ماں بیٹے سو گئے۔

اس طرح نواب کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ روزانہ سویرے وہ اپنی گاڑی لے کر نکل جاتا تھا اور جب شام میں لوٹتا تھا تو اس کی جیب میں دو چار سو روپئے ہوتے تھے وہ ساری کی ساری رقم اپنی والدہ کے ہاتھ میں رکھ دیتا تھا۔ اُن کی زندگی ہنسی خوشی گزرنے لگی۔ کچھ پیسے بھی گھر میں رہنے لگے۔

اسکول سے نواب کو بلانے کے لئے کئی بار بچے آئے لیکن اس کی والدہ نے ان سے کہہ دیا کہ اب نواب کا اسکول آنا ممکن نہیں ہے۔ سر سے کہہ دیں کہ اُس کا نام رجسٹر سے کاٹ دیں۔

ایک بار اسکول سے ٹیچر بھی ان کے گھر آئے اور جب انھیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ نواب اسکول نہیں آ  سکے گا، تو اسکول سے اس کا نام کاٹ دیا گیا۔

چند مہینوں میں ہی نواب کی والدہ کے پاس اچھے خاصے پیسے جمع ہو گئے۔ نواب کے چچا برابراس کے گھر آتے تھے اور اپنا احسان جتانا نہیں بھولتے تھے۔ دو دو ہزار روپئے مہینہ کر کے نواب کی والدہ نے انھیں چھ ہزار روپئے واپس کر دیے تھے۔ لیکن اب بھی تقریباً پندرہ ہزار روپئے کا قرض باقی تھا۔

نواب کے بنڈی چلانے سے اُن کے گھر میں جو آسودہ حالی ہو گئی تھی، نواب کے چچا کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، وہ کسی طرح نواب کے گھرکو اپنے قبضے میں کرنا چاہتے تھے ، ممکن تھا کہ نواب کے والد زندہ رہتے تو قرض ادا ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا کیونکہ نواب کے والد بیل گاڑی چلانے میں زیادہ محنت نہیں کرتے تھے۔ بس سو پچاس روپئے مل گئے ، تو سمجھتے تھے بہت کمائی ہو گئی۔ اُنھیں شراب پینے کی بھی عادت تھی۔ روزانہ رات میں دارو پی کر آتے ، کھاتے اور سوجاتے۔ پھر سویرے کام پر چلے جاتے۔ ضرورت پڑتی تو اپنے بھائی سے ہزار پانچ سو روپئے قرض لے کر آ جاتے تھے۔

نواب کے چچا کی بازار میں بڑی کرانہ کی دوکان تھی۔ دوکان بھی اچھی چلتی تھی۔ کافی آمدنی تھی۔ اس سے انھوں نے اپنا اچھا خاصا سیمنٹ کانکریٹ کا مکان بنا لیا تھا۔ ان کی بیوی نواب کی والدہ سے بے حد نفرت کرتی تھیں اور انھیں کسی بھی طرح اپنے برابر کا نہیں سمجھتی تھیں ، وہ خود کبھی نواب کے گھر نہیں جاتی تھیں اور یہ چاہتی تھیں کہ نواب کے گھر کا کوئی فرد اُن کے گھر نہ آئے۔

گرمی کے دن تھے ایک روز نواب اناج کی بوریاں فوجی چھاؤنی پہنچا کرواپس آ رہا تھا، شام ہو چُکی تھی۔ اچانک ایک ویران جنگل جیسی جگہ پر اس کا کتھئی رنگ کا بیل رُک گیا لاکھ کوشش کے آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ پھر اُس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا اور پھر اپنی پوری طاقت لگا کر اپنی گردن کی رسّی توڑ ڈالی اور جھاڑیوں میں ایک سمت تیزی سے اندر گھس گیا۔ نواب نے یہ دیکھا تو وہ بھی بیلوں کو ہانکنے والا ڈنڈا لے کر اس کے پیچھے دوڑا بیل جھاڑیوں کو پھلانگتا ہوا ایک جگہ جا کر رُک گیا وہاں ایک آدمی ایک چھوٹے سے لڑکے کو مارتے پیٹتے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا جیسے ہی بیل اس کے قریب آیا بیل نے اپنے سینگوں سے اس آدمی کو رگید دیا۔ کافی دور تک رگیدتا ہوا لے کر چلا گیا۔ پھر اُسے سینگوں سے اُٹھایا اور ہوا میں اُچھال دیا ادمی جا کر ایک درخت سے ٹکرایا اور گِر کر بے ہوش ہو گیا۔ تب تک نواب بھی وہاں پہنچ چکا تھا۔ وہ چھوٹے لڑکے کے قریب پہنچا، وہ اسکول یونیفارم پہنے ہوئے تھا۔ لڑکا اس سے لپٹ گیا اور چلّا چلّا کر رونے لگا، نواب نے اُسے کسی طرح خاموش کرایا۔ تب لڑکے نے بتایا کہ وہ اسکول سے واپس آ رہا تھا تو اِس آدمی نے اُسے اُٹھا لیا اور اُسے اُٹھا کر اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔

آدمی بے ہوش ہو گیا تو بیل نواب کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ نواب نے بے ہوش آدمی کو اُٹھا کر کتھئی رنگ کے بیل کی پیٹھ پر لاد دیا اور لڑکے کو اپنی گود میں اُٹھا لیا۔ بے ہوش آدمی کو اپنی بیل گاڑی میں ڈال دیا۔ لڑکے کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اپنی گاڑی تیزی سے دوڑائی اور تھوڑی دیر میں وہ پولس تھانے پہنچ گیا۔ اُس نے لڑکے کو اور بے ہوش آدمی کو پولس کے حوالے کیا اور پورا واقعہ تفصیل سے بتا دیا۔ پولس تھانے میں نواب کا نام پتہ لکھ کر اُسے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

گھر آ کر اُس نے کھانا کھایا اور اس کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا۔ اس نے اپنی والدہ کو بتا یا اور باہر چار پائی پر آ کر بیٹھا ہی تھا کہ پولس کا ایک سپاہی آیا اس نے نواب سے کہا ’’چلو تم کو صاحب بلا رہے ہیں۔ ‘‘

پولس کے سپاہی کو دیکھ کر نواب کی والدہ بھی گھر سے نکل کر آ گئیں۔ پڑوس کے بھی چند لوگ جمع ہو گئے سپاہی نے کہا ’’ گھبرا نے کی کوئی بات نہیں ہے جس لڑکے کو نواب نے بچا یا ہے اس کے والد نواب سے ملنا چاہتے ہیں۔ شاید کچھ انعام دینا چاہتے ہیں بہت بڑے آدمی ہیں۔ چلو میں خود تمھیں یہاں لا کر چھو ڑ دوں گا۔ ‘‘

نواب سپا ہی کی سائیکل پر بیٹھ کر پولس تھانے روانہ ہوا۔ پولس تھانے پہنچا تو اس نے دیکھا باہر دو بڑی بڑی کاریں کھڑی تھیں اور اندر پی۔ آئی کے کیبن میں پانچ چھ لوگ نہایت عمدہ لباسوں میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سپاہی نے نواب کو اندر کیبن میں ایک طرف کھڑا کر دیا اور پی۔ آئی سے کہا ’’سر! یہی لڑکا ہے جو بے ہوش آدمی اور لڑکے کو لے کر یہاں آیا تھا۔ ‘‘

سارے لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے ، پھر ایک آدمی اپنی کرسی سے اُٹھا اور اُس نے نواب کے قریب پہنچ کر کہا ’’بیٹا ،تم نے بڑا نیک کام کیا ہے بڑے پنیہ کا کام کیا ہے۔ اگر ہمارا بیٹا ہمیں نہ ملتا تو پتہ نہیں اس کی امّی کا کیا حال ہو جاتا۔ تم نے دو لوگوں کی جان بچائی ہے۔ تم نے بڑے پنیہ کا کام کیا ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر اس نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا پچاس کے نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور نواب کے ہاتھ پر رکھ دی اور کہا ’’حالانکہ تم نے جو کام کیا ہے اُس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک چھوٹی سی بھینٹ ہے اِسے سویکار (قبول) کر کے ہمیں شکریے کا موقع دو!

نواب نے نوٹوں کی گڈی ہاتھ میں لے لی اور پی۔ آئی کی طرف دیکھنے لگا۔ پولس انسپکٹر نے کہا ’’ رکھ لو یہ تمھاری نیکی ، تمھاری ایمانداری اور بہادری کا انعام ہے۔ رکھ لو اِسے اور کل چل کر ہمیں وہ جگہ دکھا دینا جہاں سے تم اِس بچے کو اور غنڈے کو لے کر آئے تھے ‘‘

 ’’جی صاحب۔ بہت اچھا۔ ‘‘

پھر پولس انسپکٹر نے سپاہی سے کہا ’’جاؤاس لڑکے کو اس کے گھر پہنچا کر آ جاؤ۔

نواب وہاں سے باہر آیا، پولس والے نے اپنی سائیکل سے اُسے اس کے گھر پہنچا دیا اور خود واپس چلا گیا۔

نواب نے وہ پانچ ہزار روپئے اپنی والدہ کو دے دیے اور پوری بات انھیں بتا دی۔

نواب کی امّی نے وہ پیسے الماری میں رکھ دیے اور باہر آ کر وہ کتھئی رنگ کے بیل کی پیٹھ پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگیں اور کہا ’’یہ میرا بیٹا ہے۔ میرے بیٹے کا محافظ ہے۔ ‘‘ پھر انھوں نے کچھ روٹی بیل کے آگے لا کر ڈال دی۔

دوسرے دن صبح تھانے میں پہنچ کر نواب نے وہ جگہ پولس والوں کو دِکھا دی جہاں سے وہ لڑکے کو اور غنڈے کو اُٹھا کر لایا تھا۔ وہاں پر پولس والوں کو ایک پرس اور ڈائری پڑی ہوئی ملی جو شاید اُس غنڈے کی جیب سے گری تھی جِسے بیل نے زمین پر پٹک دیا تھا۔ پولس والوں نے وہ چیزیں اپنے قبضے میں کر لیں اور جگہ کا معائنہ کر کے وہاں سے واپس آ گئے نواب کو اس کے گھر چھوڑ دیا اور وہ لوگ پولس تھانے چلے آئے۔

نواب اپنے بیلوں کو گاڑی میں جوت ہی رہا تھا کہ اُس کے چچا آ گئے اور رات کے واقعہ کے متعلق پوچھنے لگے نواب نے ساری باتیں اُنھیں تفصیل سے بتا دیں۔ اُس کے چچا نے کہا ’’بیٹا ویسے تو تم نے کام اچھا کیا ہے تمھیں انعام بھی مِلا ہے لیکن غنڈے بدمعاشوں کا کچھ بھروسہ نہیں ہے۔ وہ کب تک حوالات یا جیل میں رہیں گا؟ وہ جب بھی باہر آئے گا تو تم سے بدلہ لینے کی کوشش کرے گا۔ کبھی کبھی نیکی بھی انسان کو مصیبتوں میں پھنسا دیتی ہے۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’چچا جان جو قسمت میں لکھا ہوا ہے وہ تو ہو کر رہے گا،اُس کو سوچ سوچ کر پریشان ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس کے چچا نے کہا ’’چلو بڑے اچھے وقت پر تمھیں پیسے ملے ہیں ابھی مجھے ایک بیوپاری کو پانچ ہزار روپئے دینا ہے کئی بار وہ آدمی بھیج چکا ہے وہ رقم مجھے دے دو تو میں بھی قرض سے چھٹکارا پا جاؤں۔

نواب کی امّی نے وہ پانچ ہزار کی گڈی نواب کے چچا کے ہاتھ میں دے دی۔ وہ اُسے لے کر چلے گئے نواب نے اپنی بیل بنڈی وہاں سے آگے بڑھائی اور بازار میں لا کر کھڑی کر دی۔

اغوا ہونے والے لڑکے کی خبر کئی لوگوں کو معلوم ہو چکی تھی اور یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ نواب کو انعام میں پانچ ہزار روپئے ملے ہیں۔ کئی لوگ آ کر اُس کو مبارکباد دینے لگے اور مٹھائی کھلانے کی فرمائش کرنے لگے ، ایک ہوٹل میں لے جا کر اُس نے اپنے ساتھیوں کو ناشتہ کروا دیا۔

نواب کے ہاتھ میں گھر کا کاروبار آ جانے سے اور اُسے بیلوں کی نئی جوڑی مل جانے سے اس کے گھر میں آسودہ حالی آ گئی تھی نواب ایک مضبوط ارادے کا گٹھے ہوئے جسم کا نوجوان تھا محنت کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔ رات کے کسی وقت بھی اگر کوئی اس کے گھر آ جاتا تو فوراً تیار ہو جاتا اور سامان جہاں پہنچا نا ہوتا وہاں پہنچا دیتا تھا۔ خاص طور سے اناج کی بوریاں اتواری بازار یا کلمنا بازار سے دوکانداروں کی دوکان پر نہایت حفاظت اور ایمانداری سے پہنچا دیتا، تین چار مہینے میں ہی اُسے اتنی مہارت ہو گئی تھی کہ بوریاں بیل گاڑی پر اکیلا ہی لاد لیا کرتا تھا اور جس جگہ اتارنی ہوتی تھی اکیلا ہی اتار دیا کرتا تھا۔ بھاؤ تاؤ میں حیل حجّت نہیں کرتا ، دوکاندار خوشی سے جو رقم دیتا، وہ رکھ لیا کرتا تھا۔

پڑھنے لکھنے میں وہ کوئی خاص ہوشیار نہیں تھا، آٹھویں اور نویں میں ایک ایک سال فیل ہو  چکا تھا۔ اس لئے وہ اپنی کلاس کے لڑکوں میں کا فی زیادہ عمر کا تھا۔ اُس کا قد و قامت بھی کافی نکلا ہوا تھا۔ نواب کو فٹ بال کھیلنے کا کافی شوق تھا اپنے اسکول کی جانب سے اُس نے کئی ٹورنامنٹ میں حصہ لیا تھا اور ہر جگہ اس کے کھیل کی تعریف ہوتی تھی۔ اپنے طویل قامت جسم، لمبی لمبی ٹانگوں اور مضبوط ،کسے ہوئے بدن کی وجہ سے میدان میں اُس کی دھاک بیٹھ جاتی تھی اور) (Backپر کھیلتے ہوئے وہ مخالف ٹیم کے تمام حملوں کو پوری طرح ناکام بنا دیا کرتا۔ دسویں تک تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اُسے ہندی، انگریزی اور حساب کی کافی معلومات ہو گئی تھی جس کی وجہ سے حساب کرنے اور پتہ معلوم کرنے میں اُسے کافی مدد ملتی تھی۔

نواب کے گھر کے ان سدھرتے ہوئے حالات سے اُس کے چچا اور خاص طور سے اس کی چچی کافی پریشان تھیں۔ اُس کے چچا کی نظر ان کے مکان پر تھی کشادہ زمین پر بنے ہوئے اُس مکان کو وہ کسی بھی طرح حاصل کرنا چاہتے تھے ، گو کہ مکان بہت بڑا اور پختہ نہیں تھا لیکن زمین کافی زیادہ تھی، تقریباً تین ہزار اسکوئر فٹ رقبہ زمین اُن کی تحویل میں تھی اور اُسی میں پرانے وقتوں کا کالے پتھروں سے بنا ہوا ایک کنواں تھا، جو شدید سے شدید گرمی میں بھی خشک نہیں ہوتا تھا۔ اس کا پانی کافی میٹھا تھا۔ جہاں نواب رہتا تھا اُس سے تھوڑے فاصلے پر کنہان ندی بہتی تھی بچپن سے ہی اُسے ندی میں تیرنے اور نہانے کا شوق تھا ہفتے میں ایک یا دو بار اُس کے امّی اور وہ صبح ہی ندی پر چلے جاتے تھے اور سارے کپڑے ، چادر، غلاف، بستر وغیرہ دھو لیا کرتے تھے اور نہا کر گھر آ جایا کرتے تھے۔

کنہان ندی کا پاٹ کافی چوڑا ہے اور ندی کے دونوں کناروں پر کافی دور تک ریت ہی ریت پھیلی ہوئی ہے ، ٹھنڈی نرم اور چمکدار ریت۔ اس ریت کے بیچ سے ندی کا پانی گزرتا تو خود بخود صاف ہوتا چلا جاتا ہے۔ بارش کے موسم میں جب پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے تو ندی کافی خطرناک ہو جاتی ہے۔ ندی کے اس پار امّاں کی درگاہ ہے جہاں ہر روز عام طور سے ، جمعرات اور اتوار کو خاص طور سے ، کافی لوگ آتے ہیں۔ فاتحہ پڑھتے ہیں ، چادر چڑھاتے ہیں ، پکاتے کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

نواب کے چچا کو ان کے قرض کی رقم کی ادائیگی ہونا شروع ہو  چکی تھی اور یوں لگتا تھا کہ نواب چند مہینوں میں ہی ان کا سارا قرض ادا کر دے گا۔ اِس بابت اُن کی بیوی سے گھر میں اکثر بات ہوا کرتی تھی۔ کہاں تو وہ یہ سوچ رہے تھے کہ نواب کے والد کے انتقال کے بعد گھر کے حالات اور خراب ہو جائیں گے اور انھیں تھوڑا تھوڑا قرض دے کر یا تو پورا مکان اپنے قبضے میں کر لیں گے یا اس کی خالی پڑی ہوئی زمین پر قبضہ کر لیں گے ، لیکن یہاں تو یکسر حالات اس کے خلاف ہوتے جا رہے تھے۔ ایک دن نواب کے چچا سے ان کی بیوی نے کہا ’’نواب نے تو اب تمھارا قرض دینا شروع کر دیا ہے اگر وہ یونہی محنت کرتا رہا اور کمائی کرتا رہا تو مکان ہمارے ہاتھ میں نہیں آ  سکے گا۔

نواب کے چچا نے کہا ’’ہاں اُسے جو بیل ملے ہیں کافی صحت مند اور تندرست ہیں۔ وہ خود بھی محنت کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ روزانہ سو دو سو روپئے تو کما کر لے ہی آتا ہے اور اسے بیڑی سگریٹ تک پینے کا شوق نہیں ہے۔ ‘‘

چچی نے کہا ’’تو اُسے کچھ پینے کھانے کا شوق لگاؤ تاکہ وہ اپنی کمائی ان کاموں میں اُڑانے لگے۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والے کچھ لڑکوں کو اُس کے پیچھے لگا دو۔ شراب پینے کی عادت پڑ گئی تو وہ خود بخود برباد ہو جائے گا۔ شراب اچھے اچھوں کی زندگی کو برباد کر چکی ہے ! نوابوں کی نوابی کھا گئی ہے ، تو یہ کِس کھیت کی مولی ہے۔ ‘‘

چچا نے کہا ’’ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں !‘‘

چچی نے کہا ’’دیکھتا ہوں نہیں کچھ اوباش لڑکوں کو پیسے دے کر اُس کے ساتھ لگا دو۔ بس ذرا عادت لگنے کی دیر ہے ، پھر وہ خود ہی اُس لعنت کا شکار بنتا چلا جائے گا۔ ‘‘

چچا نے کہا ’’ہاں میں ضرور اس سلسلے میں کچھ کرتا ہوں ، ویسے بھی اس کے باپ کا لکھا ہوا، دستخط کیا ہوا اسٹمپ پیپر ہمارے پاس ہے اُس کی مدد سے ہم مکان پر اپنا قبضہ ثابت کر  سکتے ہیں۔ ‘‘

چچی نے کہا ’’ارے اُس کے پاس پیسے رہیں گے اور مکان پر اُس کا قبضہ رہے گا تو پھر ہمیں کافی دقت ہو گی۔ راستہ ایسا تلاش کرو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ‘‘

 ’’ہاں ، ایسا راستہ تلاش کرنا ضروری ہے۔ بیلوں کی جوڑی اگر چوری ہو جائے یا یہ بیل مر جائیں تو پھر نواب کو اپنے قبضے میں کرنے سے ہمیں کوئی روک نہیں سکے گا۔ ‘‘

چچی نے کہا ’’تو کسی کے ذریعے سے بیلوں کو چوری کروا دو۔ نہ رہیں گے بیل نہ چلے گی گاڑی۔ پھر ہمارے پاس آئے گا قرض مانگنے اور ہم اس سے بھی اسٹمپ پیپر پر دستخط کروا کے روپئے دے دیں گے۔ ‘‘

چچا نے کہا ’’ہاں ، ہم کسی روز ماں بیٹے کو رات کے کھانے پر بلاتے ہیں اور کسی کو بیل کھول کر لے جانے کے لیے لگا دیتے ہیں۔ میرا ایک دوست قصائی ہے ، اس طرح کے ہی کام کرتا ہے۔ میں اُس سے بات کرتا ہوں۔ ‘‘

چچی نے کہا ’’ٹھیک ہے اس سے کہو کہ بیلوں کو لے کر ناگپور چلا جائے اور کاٹ کر اُن کا گوشت بیچ ڈالے معاملہ صاف ہو جائے گا!‘‘

چچا نے کہا ’’ٹھیک ہے میں یہ کام کرتا ہوں۔ ‘‘

چچی نے کہا ’’ہاں یہ کام کرو اور جلدی کرو۔ ‘‘

دوسرے دن نواب کے چچا نے اُس قصائی سے بات کی اور کہا ’’کل رات میں ہم نواب اور اُس کی والدہ کو اپنے گھر کھانے پر بلوا رہے ہیں۔ تم بیل وہاں سے غائب کرا کے ناگپور بھجوا دو ، میں ان کو اپنے گھر پر دیر تک روکے رکھوں گا، تب تک تم یہ کام کر لینا، پیچھے کی سڑک سے جے این روڈ پر لے جانا اور کسی گاڑی میں ڈال کر رات ہی رات ناگپور پہنچا دینا اور جو لوگ ہوٹلوں میں گوشت دیتے ہیں ان کے ذریعے رات میں ہی ان کا کام تمام کروا دینا۔ ‘‘

معاملہ طے ہو گیا اس کام کو انجام دینے کے لئے نواب کے چچا نے اپنے پاس سے دو سو روپئے قصائی کو دیے ، وہ چلا گیا تو نواب کے چچا شام میں نواب کے گھر پہنچے ، نواب بھی گھر واپس آ  چکا تھا۔ انھوں نے نواب سے کہا ’’ہاں ، نواب کیسی چل رہی ہے تمھاری بیل گاڑی؟‘‘

نواب نے کہا ’’اﷲ کا کرم ہے چچا بس چند مہینوں میں آپ کا قرض ادا کر دوں گا۔

ارے بیٹا، اس کی کوئی جلدی نہیں ہے ، آرام سے کام کرو۔ پیسے کوئی بھاگے تھوڑا ہی جا رہے ہیں ، تمھارے پاس ہیں یعنی میرے پاس ہیں ، میں اِس وقت تمھارے پاس یہ کہنے آیا ہوں کہ کل ہماری چھوٹی بیٹی کی سالگرہ ہے۔ ہم نے گھر میں چھوٹا سا پروگرام رکھا ہے ، تم اپنی امّی کے ساتھ ہمارے گھر آؤ اور کھانا ہمارے ساتھ ہی کھاؤ۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے چچا جان ہم مغرب بعد آ جائیں گے۔ ‘‘

چچا نے کہا ’’ہاں دیکھو اپنی امّی کو اپنے ساتھ لانا مت بھولنا۔ ‘‘

 ’’نہیں چچا جان ہم مغرب بعد حاضر ہو جائیں گے۔ ‘‘

دوسرے دن شام میں کام سے واپس آ کر نواب نے بیلوں کو چارہ پانی دیا، منھ ہاتھ دھو کر کپڑے تبدیل کیے۔ اس کی امّی بھی تیار تھیں چچا کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ انھوں نے گھر کے دروازے میں تالا لگایا اور پیدل ہی چچا کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

اِدھر بیلوں کو لے جانے والے لڑکے موقع کی تاک میں تھے۔ نواب کا گھر نسبتاً غیر آباد علاقے میں تھا اور روشنی بھی اس طرف کچھ زیادہ نہیں تھی، مکانات بھی دور دور تھے۔

ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد، دو لڑکے مکان کے سامنے کی خالی زمین پر، جہاں بیل بندھے تھے ، وہاں پہنچ گئے۔ دونوں لڑکوں نے ایک ایک بیل کی رسّی کھونٹے سے کھول لی اور پھر انھیں کھینچتے ہوئے پیچھے کے راستے سے آگے بڑھے۔ بیلوں نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی اور وہ انھیں ہانکتے ہوئے ناگپور جانے والی سڑک پر لے آئے۔ وہاں ایک چھوٹا ٹرک کھڑا ہوا تھا۔ قصائی وہاں موجود تھا۔ جلدی سے دو بڑے تختے گاڑی سے لگا دیے اور بیلوں کو گاڑی میں چڑھانے کے لئے انھیں ڈنڈوں سے مارنے لگے۔

کتھئی رنگ کے بیل نے اوپر چڑھنے میں دیر کی تو دونوں لڑکوں نے اُس پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیئے بس اُسی وقت بیل پیچھے مڑا اور اُس نے پہلے ایک لڑکے کو اپنی سینگوں پر اُٹھا کر اُچھال دیا،وہ کافی دور جا کر گِرا، پھر دوسرے لڑکے کی طرف مڑا اُسے بھی اُس نے سینگ سے زوردار ٹکر ماری وہ بھی زمین پر جا گرا یہ دیکھ کر قصائی نے ڈنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کتھئی رنگ کے بیل کو مارنے کے لیے آگے بڑھا لیکن اس سے پہلے کہ اس کا ڈنڈا بیل کو لگتا بیل نے اپنی پوری طاقت سے اس کے پیٹ میں سینگ مارے۔ سینگ کافی گہرائی تک اس کے پیٹ میں پیوست ہو گئے ایک بھیانک چیخ اس کے منھ سے نکلی۔ وہ بے تحاشا ایک طرف بھاگنے لگا۔ لڑکے بھی خوفزدہ ہو کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ گاڑی کے ڈرائیور نے یہ حالت دیکھی تو اس نے جلدی سے تختے گاڑی کے اوپر چڑھا لیے اور گاڑی لے کر فرار ہو گیا۔

اب دونوں بیلوں کے سوا وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ کتھئی رنگ کے بیل نے ایک طرف چلنا شروع کیا۔ سفید بیل بھی اُس کے ساتھ ہو گیا اور تھوڑی دیر میں دونوں بیل اپنے ٹھکانے پر آ گئے اور اپنے اپنے کھونٹوں کے پاس بیٹھ گئے۔

رات میں نواب کے چچا نے اپنے گھر میں نواب کی اور اس کی امّی کی کافی خاطر تواضع کی اور انھیں کافی دیر تک گھر میں روکے رکھا۔ جب وہ لوگ گھر واپس آئے تو رات کے گیارہ بج چکے تھے ، نواب نے بیلوں کی طرف دیکھا دونوں بیل اپنی اپنی جگہ بیٹھے جگالی کر رہے تھے اُسے کچھ بھی نیا پن محسوس نہیں ہوا اندھیرے میں اُسے بیلوں کی کھونٹوں سے کھلی ہوئی رسیّاں بھی نظر نہیں آئیں ، وہ گھر میں جا کر سو گیا۔

سویرے جب وہ بیلوں کو گاڑی میں جوتنے کے لئے آیا تو اس نے دیکھا کہ دونوں بیلوں کی رسیاں کھلی ہوئی تھیں۔ اُسے بڑی حیرت ہوئی پھر اُس نے سوچا کہ اپنے چچا کے گھر جانے کی جلدی میں وہ بیلوں کو باندھنا بھول تو نہیں گیا تھا۔ اِس بات کو اس نے زیادہ اہمیت نہیں دی اور حسبِ معمول اپنی گاڑی لے کر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔

صبح دوکان کی طرف جاتے ہوئے نواب کے چچا نواب کے گھر کی طرف آئے انھیں وہاں کوئی انوکھی بات نظر نہیں آئی نہ وہاں بیل موجود تھے اور نہ ہی بیل گاڑی۔ وہ گھر میں آئے نواب کی والدہ کو سلام کیا اور کہا ’’بھابی نواب کہاں ہے ؟ ‘‘

نواب کی والدہ نے کہا ’’وہ تو گاڑی لے کر بازار چلا گیا، کیوں ، کچھ کام تھا؟‘‘

 ’’ہاں اتواری سے کچھ سامان منگوانا تھا۔ ‘‘

وہ آپ کو بازار میں مل جائے گا۔ رات میں کہہ دیتے تو سیدھے آپ کے یہاں چلا آتا۔

 ’’خیر کوئی بات نہیں میں بازار میں اُسے دیکھ لیتا ہوں ‘‘ اتنا کہہ کر نواب کے چچا وہاں سے نکلے اور بازار کی طرف روانہ ہو گئے۔

گھر سے تو یہ سوچ کر نکلے تھے کہ نواب کے گھر کہرام مچا ہو گا، بیلوں کی تلاش ہو رہی ہو گی لیکن یہاں ایسا لگ رہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔

بازار میں انھوں نے دیکھا نواب اپنی بیل گاڑی کے پاس کھڑا ہوا تھا۔ دونوں بیل اُس کی گاڑی میں جُتے ہوئے تھے اور پوری طرح صحیح سلامت تھے۔ وہ اُسے دور سے ہی دیکھ کر اپنی دوکان کی طرف روانہ ہو گئے اور دل ہی دل میں قصائی کو گالیاں دینے لگے کہ پیسے لے کر چلا گیا اور اُن کا کام نہیں کیا۔ ادھر دعوت میں بھی ان کے کافی روپئے خرچ ہو گئے تھے۔

دن بھر وہ قصائی کی کھوج خبر لیتے رہے۔ آخر شام میں اُس کے ایک ساتھی نے بتایا کہ وہ تو اسپتال میں پڑا ہوا ہے ، کسی بیل نے اُسے ایسا سینگ مارا کہ پیٹ میں کافی گہرا زخم آ گیا ہے۔ وہ فوراً اُس اسپتال میں پہنچے۔ وہاں دیکھا تو قصائی کے پورے پیٹ پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور وہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ اُس کے گھر کے لوگ پلنگ کے اطراف موجود تھے۔

نواب کے چچا اس کے سرہانے جا کر کھڑے ہو گئے پھر انھوں نے اس سے کہا ’’ارے قادر بھائی! یہ سب کیا ہو گیا کیسے ہو گیا؟ ‘‘

قادر نے کہا ’’بس، پوچھو مت۔ بیلوں کو گاڑی پر چڑھا رہا تھا کہ ایک بیل نے میرے پیٹ میں سینگ مار دی۔ ‘‘

 ’’ارے یہ کب کی بات ہے۔ ‘‘

 ’’یہ کل رات کی بات ہے۔ ‘‘

 ’’اور بیل کا کیا ہوا؟‘‘

 ’’بیل مجھے مار کر بھاگ گیا۔ کسی طرح گرتے پڑتے میں یہاں اسپتال میں آ گیا اُسی وقت میرا آپریشن ہوا اب ایک مہینہ یہیں بستر پر پڑے رہنا ہے۔

ارے ،یہ تو بہت بُرا ہوا۔ ‘‘

تھوڑی دیر رُک کر نواب کے چچا اپنی دوکان میں واپس آ گئے اور سوچنے لگے کہ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا اور نواب اور اس کی والدہ کو اس کی کچھ خبر بھی نہیں ہے۔

رات میں دوکان بند کر کے جب نواب کے چچا گھر گئے تو ان کی بیوی ان کے منھ سے کوئی اچھی خبرسننے کے لئے بے قرار تھی لیکن جب اُسے معلوم ہوا کہ بیل صحیح سلامت ہیں اور قصائی زخمی ہو گیا ہے تو ان کے ارادوں پر پانی پھر گیا ان کا منھ لٹک گیا انھوں نے منھ بسور کر کہا ’’کمینے دو بیل بھی اُٹھا کر نہیں لے جاسکے ، مفت میں اتنے پیسے برباد ہو گئے۔ اور اُنھیں دعوت کھلانے کی ذلّت اُٹھانی پڑی سو الگ۔

چچا نے کہا ’’خیر، دیکھیں گے کوئی اور ترکیب نکالیں گے ، اچھا ہوا پولس کیس نہیں بنا، نہیں تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ لوگوں کو اصلیت کا علم ہوتا تو بستی میں ہماری بدنامی ہو جاتی۔ چلو اچھا ہے معاملہ جہاں کا تہاں رفع دفع ہو گیا۔ نواب کو اور اس کی والدہ کو تو خبر ہی نہیں ہے کہ ان کے بیلوں کے ساتھ اتنا بڑا واقعہ گزر چکا ہے۔ بیل بھی اتنے وفادار کہ سیدھے اپنے گھر واپس چلے آئے۔

چچی نے کہا ’’ان بیلوں کا ہی کام تمام کرنا پڑے گا۔ ‘‘

دن اسی طرح گزرتے رہے وہ گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔ جون کا مہینہ تھا۔ بارش ابھی شروع نہیں ہوئی تھی دن بے حد گرم ہوتے تھے اور رات میں بھی گرم ہوا کے جھکّڑ چلتے رہتے تھے ایسی ایک دوپہر کو نواب ایک جگہ سے مال خالی کر کے آ رہا تھا کہ سڑک کے کنارے ببول کی جھاڑیوں کے ہلکے ہلکے سائے میں اُسے ایک بزرگ بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ سر، داڑھی اور بھنووں کے پورے بال سفید ہو  چکے تھے۔ اُن کے پاس ایک گٹھری تھی، ایک ڈنڈا تھا اور وہ دھوپ سے بے حال جھاڑیوں کے سائے میں سیدھے پڑے ہوئے تھے۔ نواب کے پاس پانی کی چھاگل تھی اور چھاگل میں ٹھنڈا پانی موجود تھا۔ کافی دور دور تک بستی نہیں تھی، نواب نے اپنی گاڑی روک دی اور گاڑی سے نیچے اتر آیا۔ بزرگ کے پاس پہنچا تو ان کا برا حال تھا۔ لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے۔ نواب نے چھاگل سے پانی نکالا اور اُس کے چھینٹے بزرگ کے منھ پر مارے۔ انھوں نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں حیرت سے نواب کی طرف دیکھنے لگے۔ نواب نے انھیں سہارا دے کر بٹھا یا اور گلاس میں پینے کے لئے پانی دیا۔ بزرگ نے پانی کا گلاس منھ سے لگا لیا۔ گلاس کا پورا پانی انھوں نے پی لیا ، تھوڑی دیر تک تو ان کے منھ سے کوئی آواز نہیں نکلی پھر انھوں نے مدھم لہجے میں کہا ’’بیٹا! تو نے مجھے مرنے سے بچا لیا ،اگر کچھ دیر اور مجھے پانی نہ ملتا تو میں مر جاتا۔ ‘‘

 ’’نہیں بابا۔ ایسی بات نہیں ہے۔ آپ کو کچھ بھی نہیں ہوا ہے لیکن آپ یہاں آئے کیسے ؟‘‘

’’بس والے نے مجھے یہاں ا اتار دیا اور چلا گیا بہت دیر سے یہاں پڑا ہوا ہوں کسی نے مجھے ایک گھونٹ پانی نہیں پلایا۔ تو نے میری جان بچا لی بیٹا۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’بابا آپ کو جانا کہاں ہے ؟ میں آپ کو پہنچا دیتا ہوں۔ ‘‘

بابا نے کہا ’’بیٹا! فقیر کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، جہاں وہ رُک گیا وہی اُس کا آستانہ ہے۔ کہیں بھی چلا جاؤں گا مجھے کہیں بھی پہنچا دو۔ ‘‘

اچھا، ٹھیک ہے۔ آپ اُٹھیے ؟ ‘‘اُس نے سہارا دے کر بابا کو اُٹھایا اور اپنی گاڑی میں ایک بورے پر بابا کو آرام سے بٹھا دیا۔ گاڑی آگے بڑھائی۔ تقریباً دو گھنٹے بعد وہ اپنے گھر پہنچا۔ شام قریب تھی۔ اُس نے گھر کے احاطے میں گاڑی کھڑی کی اور گھر کے بازو کے سائبان میں بابا کو اتار دیا۔ گھر میں سے ایک دری لایا، بچھا دیا۔ ایک تکیہ لایا، بابا کے سرہانے رکھ دیا۔ ایک جگ میں پانی اور گلاس لا کر وہاں رکھ دیا۔ نواب کی والدہ نے پوچھا ’’ یہ سب سامان کہاں لے جا رہا ہے ؟‘‘

نواب نے کہا ’’امّی، بابا کے لیے لے جا رہا ہوں۔ ‘‘

 ’’بابا کے لیے ! کون سے بابا کے لیے ؟‘‘

وہ اپنے سائبان میں بیٹھے ہیں راستے میں بے سُدھ پڑے ہوئے تھے ، میں اُنھیں اُٹھا لایا۔

اس کی والدہ نے سائبان میں آ کر دیکھا بزرگ کی نظر اس کی والدہ پر پڑی تو انھوں نے اپنا ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھا دیا۔ نواب کی والدہ نے انھیں سلام کیا اور گھر میں چلی آئیں۔ جلدی جلدی انھوں نے کھیر پکائی اور پیالے میں ٹھنڈی کر کے کھیر نواب کو دی اور نواب سے کہا ’’بیٹا ان کی حالت اچھی نہیں ہے لگتا ہے کئی دنوں سے کچھ کھایا نہیں ہے لے یہ کھیر چمچے سے انھیں کھلا دے۔ ‘‘

نواب نے پیالے کی کھیر بابا کے پاس لائی اور چمچے سے آہستہ آہستہ کھیر اُنھیں کھلانے لگا۔ کھیر کھانے کے بعد انھوں نے پانی پیا اور تکیہ پہ سر رکھ کر شطرنجی پر لیٹ گئے پھر ان کی آنکھیں بند ہو گئیں۔

نواب وہاں سے اُٹھ کر آیا۔ کنوئیں سے پانی نکالا۔ دن بھر کی گرمی اور مشقت سے اس کا بدن چپچپا ہو گیا تھا۔ اُس نے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہایا۔ گھر میں آیا تو اُس کی والدہ اس کے لیے کھانا نکال چکی تھیں ، کھانا کھایا، کھیر بھی کھائی اور پھر باہر آ کر چارپائی پر بیٹھ گیا، بابا آرام سے سو رہے تھے وہ بھی چار پائی پر لیٹ گیا ، تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد جب شام گہری ہو گئی، تو اُٹھا اور چوک پر آ کر دوستوں کے درمیان بیٹھ گیا، کافی دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔

بابا کافی دیر تک آرام سے سوتے رہے اور رات سے پہلے بیدار ہو گئے ان کے کھانسنے اور کھنکارنے سے نواب کی والدہ کو پتہ چلا کہ بابا جاگ چکے ہیں۔ انھوں نے ایک برتن میں پانی اور ایک تولیہ ان کے قریب لا کر رکھ دیا۔ بابا نے برتن کے پانی سے اچھی طرح منھ ہاتھ دھویا وضو بنایا اور وہیں شطرنجی پر تولیہ بچھا کر بیٹھے بیٹھے ہی انھوں نے نماز پڑھی۔

نواب کی والدہ نے دال میں چورا کر کے روٹی ملا دی اور ایک پیالے میں وہ دال میں بھیگی ہوئی روٹی بابا کے سامنے رکھ دی۔ پینے کے لئے پانی لا کر رکھ دیا۔ بابا نے روٹی کھائی نواب کی والدہ کو خوب دعائیں دیں ، وہ برتن اُٹھانے لگیں تو شفقت سے اُن کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’تیرا بیٹا نواب ہے وہ نواب بنے گا۔ وہ نواب رہے گا۔ تیرا بیٹا قسمت والا ہے۔ راجہ ہے۔ راج کرے گا۔ ‘‘

رات ہو گئی تو نواب کی والدہ نے ایک چادر ان کی دری کے پائتانے رکھ دی، گھر میں آ کر بیٹھ گئیں۔ ابھی انھیں بیٹھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ نواب کے چچا گھر پر آ گئے۔ انھوں نے گھر کی خیر خیر یت دریافت کی، حال پوچھا اور تھوڑی دیر بیٹھ کر جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ، باہر اندھیرا تھا دونوں بیل کھونٹے سے بندھے بیٹھے تھے۔ نواب کے چچا نے اِدھر اُدھر دیکھا تیزی سے چلتے ہوئے اُس جگہ آئے جہاں بیل بندھے ہوئے تھے انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا جیب میں روٹیاں تھیں۔ انھوں نے دو روٹیاں ایک بیل کے آگے اور دو روٹیاں دوسرے بیل کے آگے ڈال دیں اور تیزی سے نکل کر چلے گئے۔ بابا سائبان میں لیٹے ہوئے یہ پورا منظر دیکھ رہے تھے نواب کے چچا کو علم نہیں تھا کہ سائبان میں کوئی موجود ہے۔

نواب کے چچا کے چلے جانے کے بعد بابا جلدی سے اپنی لکڑی کے سہارے اُٹھے اور انھوں نے وہ چاروں روٹیاں اُٹھا لیں جو نواب کے چچا بیلوں کے آگے ڈال کر چلے گئے تھے۔ ان چاروں روٹیوں کو انھوں نے تکیے کے نیچے دبا کر رکھ دیا اور لیٹ گئے۔ رات میں نواب آیا۔ سائبان کی طرف جھانک کر دیکھا بابا نیند میں تھے ، اُس نے ان کے پیروں پر چادر ڈال دی اور گھر میں آ کر وہ بھی سوگیا۔ 

باب۔ ۲

سویرے جب نواب سوکر اُٹھا تو اُس نے دیکھا بابا جاگ چکے تھے ، وظیفہ کر رہے تھے ، اس نے بھی منھ ہاتھ دھویا، ناشتہ کے لیے بابا کے سامنے کچھ چیزیں لا کر رکھ دیں اور خود بھی گھر میں جا کر ناشتہ کیا۔

ناشتہ سے فارغ ہو کر وہ بابا کے پاس آ کر بیٹھ گیا، بابا کی حالت کافی سدھر چکی تھی۔ اُس نے بابا کی طرف دیکھا اور دھیرے سے آواز دی۔ بابا!

بابا نے اُس کی آواز سن کر آنکھیں کھول دیں اُس کی طرف دیکھنے لگے۔

نواب نے کہا ’’بابا۔ آپ کے کپڑے گندے ہو گئے ہیں ، میں آپ کو نہلا دیتا ہوں آپ کپڑے تبدیل کر لیجئے۔

بابا نے سر کے اشارے سے اقرار کیا‘‘

نواب نے بابا کا ہاتھ پکڑا، اُنھیں کنوئیں کے پاس لایا اور ایک پتھر پر اُنھیں بٹھا دیا۔ کنوئیں سے پانی نکال کر بالٹیوں میں رکھ لیا۔ اُن کا کُرتا اُتار دیا۔ اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے صابن لگا لگا کر بابا کو اچھی طرح سے نہلا دیا۔ بابا کا جسم بے حد دُبلا پتلا تھا۔ پسلیوں کی تمام ہڈیاں صاف نظر آتی تھیں۔ پورے جسم پر سفید بال چاندی کے دھاگوں کی طرح چمک رہے تھے۔ سر کے بال کاندھے پر بکھرے ہوئے تھے۔ بابا کے جسم کی ساری گندگی، سارا میل صاف ہو گیا، چہرہ روشن نظر آنے لگا اور پورا بدن چم چم چمکنے لگا۔

نواب نے ٹاول سے اچھی طرح بابا کا بدن صاف کیا، ان کے بال پونچھے اور اپنے والد کا سفید کرتا پائجامہ جو الماری میں رکھا ہوا تھا، وہ نکال کر لایا اور بابا کو پہنا دیا۔

بابا کا پورا حلیہ ہی تبدیل ہو گیا۔ اُن میں پھرتی اور چستی آ گئی، وہ آ کر اپنی دری پر بیٹھ گئے ، پھر انھوں نے نواب کو اپنے سامنے بٹھا یا۔ اُس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بہت دیر تک کچھ پڑھ پڑھ کر اُس پر دم کرتے رہے ، پھر نواب سے کہا ’’ایمان کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑنا۔ ایمانداری سے کام کرنا تیرا بھلا ہی بھلا ہے۔ ‘‘

نواب وہاں سے اُٹھا، تیار ہوا پانی کی چھاگل، روٹی کا ڈبّہ لیا، بیلوں کو گاڑی میں جوتا اور جانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ اُس کے چچا آ گئے۔ انھوں نے گھر کا ماحول اچھا بھلا دیکھا تو حیران رہ گئے۔ بیلوں کی طرف دیکھا تو وہ تندرست و توانا نظر آئے۔ انھوں نے سوچا کہ اُن کی زہر آلود روٹیوں نے بھی کچھ کام نہیں کیا۔ پھر انھوں نے نواب سے پوچھا ’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

نواب نے کہا ’’جی، بازار جا رہا ہوں۔ آج سیٹھ گردھاری مل کی اناج کی پچاس بوریاں اتواری سے لانا ہے۔ تین چکّر کرنا پڑے گا۔

نواب کے چچا نے کہا ’’ٹھیک ہے بیٹا! سنبھل کے جاؤ اور اپنے جانوروں کا خیال رکھنا۔ یہ ٹھیک تو ہیں نا۔ انھیں کچھ ہوا تو نہیں ؟‘‘

نہیں چاچا جان، یہ بالکل ٹھیک ہیں ، ایکدم صحیح سلامت ‘‘ اتنا کہہ کر وہ بیلوں کے قریب آیا ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’ بڑے پیارے جانور ہیں یہ جب سے آئے ہیں ہمارے گھر کی کایا ہی پلٹ گئی ہے۔ ‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’ہاں بیٹا۔ اچھے جانور ہیں اتنا کہہ کر انھوں نے بیلوں کی طرف غور سے دیکھا اور اپنی دوکان کی سمت روانہ ہو گئے نواب گاڑی لے کر بازار چلا گیا۔

نواب کے جانے کے بعد بابا نے وہیں سائبان کے ایک کونے میں ایک گڑھا کھودا اور وہ چاروں روٹیاں وہاں گاڑ دیں !

نواب کے گھر میں رہتے ہوئے بابا کی صحت روز بروز اچھی ہوتی چلی گئی۔ محلّے پڑوس کے لوگوں کو نواب کے گھر میں بابا کے رہنے کا علم ہو گیا تھا۔ لوگ بچوں پر دعا کرانے پانی پڑھانے اور فاتحہ کروانے کے لئے بابا کے پاس آنے لگے۔

بابا صبح اٹھ جاتے ، فجر کی نماز پڑھتے اور مکان کے احاطے کی صفائی کرتے اور پھر آرام سے دری پر بیٹھ جاتے۔ کچھ دیر وظیفہ کرتے۔ صبح ہی سے لوگوں کی آمدورفت شروع ہو جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔

نواب کی والدہ بابا کا ہر طریقے سے خیال رکھتیں ، کھانے پینے نہانے دھونے میں ان کی مدد کرتیں۔ بابا کے چہرہ پر ایسا رعب، ایسا وقار تھا کہ ان کے چہرہ کو دیکھ کر ہی سامنے والا شخص مرعوب ہو جاتا تھا وہ کسی سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے تھے۔ لوگ جو کچھ دیتے تھے بخوشی قبول کر لیتے تھے۔

نواب کے کاروبار میں بھی کافی ترقی ہو گئی تھی۔ اُس نے اپنے چچا کا پورا قرضہ ادا کر دیا تھا۔ کچھ پیسے ہمیشہ اس کے گھر میں پڑے رہتے تھے۔ لوگوں کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا تھا اور کچھ پرانا مال سستے داموں میں مل جاتا تھا تواُسے بھی خرید لیتا تھا اور گھر کے آنگن میں رکھ دیا کرتا تھا۔ لوگوں کو ضرورت ہوتی تھی تو اُس سامان کو نواب سے خرید کر لے جاتے تھے۔ اِس کام میں بھی اُسے کچھ نفع مل جاتا تھا۔ اب اُسے فکر تھی تو اپنے خالو کا قرض ادا کرنے کی جن کی بروقت مدد سے آج وہ اِس مقام تک پہنچا تھا۔ وہ ہفتہ پندرہ دن میں ٹیلی فون کے ذریعہ اپنی خیریت سے اُنھیں آگاہ کر دیا کرتا تھا، اور ان کی بھی خیریت دریافت کر لیا کرتا تھا۔

ایک دن صبح ہی صبح اُس کے خالو اُس کے گھر آ گئے۔ نواب نے اُنھیں دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اُس کی امّی بھی حیرت زدہ رہ گئیں نواب کے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں وہ پیسوں کا مطالبہ کرنے تو اس کے گھر نہیں آئے ہیں۔

نواب نے اُنھیں آرام سے شطرنجی پر بٹھا دیا۔ ٹھنڈا پانی اُنھیں پینے کو دیا اُس کی امّی چائے بنانے میں مصروف ہو گئیں تب نواب نے کہا ’’خالو جان خیریت تو ہے آپ یوں اچانک ہمارے گھر چلے آئے۔

نواب کے خالو شاہد علی خان نے گہری نظروں سے نواب کی طرف دیکھا اور پھر اُسے مخاطب کر کے کہا ’’نواب! تمھیں شاید علم ہو گا کہ میں پچھلے چند برسوں سے ہمارے والد صاحب کی چھوڑی ہوئی ۴۵ ایکڑ زمین کو حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہا ہوں جس پر گاؤں کے ایک شخص نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس سلسے میں میں نے اپنا سماجی اور سیاسی اثر رسوخ استعمال کر کے دیکھ لیا کورٹ کچہری میں معاملہ چل ہی رہا ہے ، کل رات میں نے خواب دیکھا جیسے کوئی حضرت مجھے بار بار تمھارے گھر جانے کا اشارہ کر رہے ہیں صبح میں نے اس کا ذکر تمھاری خالہ سے کیا تو انھوں نے بتایا کہ کوئی بزرگ تمھارے گھر میں قیام کیے ہوئے ہیں ، سو میں اُن کی زیارت کے لئے یہاں چلا آیا۔

نواب نے کہا ’’جی خالو جان ، بابا بہت دنوں سے ہمارے گھر میں ہیں اور ان کی موجودگی سے ہمارے گھر کی ساری نحوست دور ہو گئی ہے۔ شہر کے بہت سے لوگ اپنی پریشانیوں کے سلسلے میں آ کر بابا سے ملاقات کرتے ہیں ، لوگوں کو کافی فائدہ ہوا ہے۔

نواب کے خالو نے کہا ’’بس تو میری ان سے ملاقات کرا دو پھر میں جاؤں گا ، وکیل سے ملنا ہے آج کورٹ میں تاریخ بھی ہے۔ ‘‘

اُسی وقت نواب کی امّی نے چائے اور ایک طشتری میں بسکٹ لا کر ان کے سامنے رکھ دیے اور کہا ’’لیجیے بھائی صاحب ناشتہ کر لیجئے۔ ‘‘

نواب کے خالو نے چائے کی پیالی اپنے ہاتھ میں لے لی اور ایک بسکٹ اُٹھا کر منھ میں ڈال لیا اور نواب کی امّی سے کہا ’’اور کیا آپا، سب ٹھیک تو چل رہا ہے نا۔ ‘‘

نواب کی امّی نے کہا ’’نواب کے والد کے انتقال کے وقت مجھے ایسا لگا تھا کہ مصیبتوں کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا ہے لیکن آپ کی مدد سے میرے بچّہ نے گھر کو ہر طریقے سے سنبھال لیا ہے۔ آج ہم ہر طریقے سے آسودہ ہیں ایسی آسودگی تو نواب کے ابّو کے زمانے میں بھی میں نے نہیں دیکھی۔ ‘‘

نواب کے خالو نے کہا ’’کبھی کبھی جب ہمارا نقصان ہوتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا سب کچھ برباد ہو گیا ہے لیکن اُسی نقصان سے اﷲ تعالیٰ فائدے کا ایسا راستہ پیدا کرتا ہے جس کا ہم گمان بھی نہیں کر  سکتے۔ ایک عورت کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ وہ کم عمری میں بیوہ ہو جائے لیکن تمھارے لڑکے نے جس ہمّت اور مستقل مزاجی سے کام سنبھالا ہے ، میں سمجھتا ہوں بیوگی کا سارا دکھ تمھارے دل سے نکل گیا ہو گا۔ اﷲ نواب کے والد کے گناہوں کو معاف کرے ، اُنھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔

نواب نے کہا ’’چلیے خالو جان میں آپ کو بابا سے ملا دیتا ہوں !‘‘

 ’’ہاں۔ چلو بیٹے مجھے بھی ذرا جلدی ہے۔ ‘‘

مکان سے نکل کر وہ سائبان میں آئے جہاں ایک قالین پر گاؤ تکیہ کے سہارے بابا بیٹھے ہوئے تھے اور چند لوگ ان کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک دو عورتیں بھی اپنے چھوٹے بچوں کو گود میں لیے بیٹھی ہوئی تھیں۔ نواب اپنے خالو کے ساتھ گاؤ تکیہ کے بازو بچھی ہوئی شطرنجی پر بیٹھ گیا۔ بابا دعا سے فارغ ہوئے تو انھوں نے نواب کے خالو کی طرف دیکھا۔ نواب کے خالو نے اُنھیں سلام کیا اور ان کے سیدھے ہاتھ کا بوسہ لیا، اِس سے پہلے کہ نواب بابا سے ان کا تعارف کراتا بابا نے نواب کے خالو سے کہا ’’مجھے تیری آمد کی خبر مل چکی تھی اور تجھے یہاں پہنچنے کا اشارہ دیا جا چکا تھا۔ حالات ابھی ٹھیک نہیں ہیں وقت لگے گا، لیکن فیصلہ انشاء اﷲ تیرے حق میں ہو گا۔ ‘‘ پھر بابا نواب کی طرف مڑے ‘‘ یہ بچہ تیرے لئے راستہ ہموار کرے گا۔ وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا، حق کی جیت ہو گی سچائی کا پرچم لہرائے گا۔ تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جا بے فکر ہو کر یہاں سے چلے جا۔ خدا تیرے ساتھ ہے۔ اِس فقیر کی دعائیں تیرے ساتھ ہیں۔ ‘‘

اتنا کہہ کر بابا دوسرے شخص کی طرف متوجہ ہو گئے۔ نواب کے خالو نے سو کے چند نوٹ بابا کے قدموں میں رکھ دیے اور وہاں سے اُٹھ کر پھر گھر میں آ گئے۔

نواب نے کہا ’’خالو جان بابا نے آپ سے پوچھے بغیر سب کچھ آپ کو بتا دیا۔ پریشانی میں خود کو نہ ڈالیے۔ ‘‘

نواب کے خالو نے کہا ’’بیٹا۔ میرے دل میں جو ایک اندیشہ گھر کر چکا تھا، اِس ملاقات سے وہ دھواں بن کر اُڑ گیا ہے ، یہاں آنے سے پہلے میرا دل بہت بھاری تھا، اب بالکل ہلکا ہو گیا ہے۔ ہوا کی طرح ہلکا، خوشبو کی طرح لطیف، اچھا میں چلتا ہوں !‘‘

اتنا کہہ کر نواب کے خالو وہاں سے نکلے اپنی کار میں بیٹھ کر چلے گئے۔

نواب کی والدہ نے نواب سے پوچھا ’’کیا ہوا؟ کیا کہا بابا نے ؟

نواب نے کہا ’’خالو جان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی بابا نے سب کچھ بتا دیا اور اُنھیں روانہ کر دیا۔

 ’’چلو ٹھیک ہے۔ بیٹا اب کچھ پیسے جمع ہو جائیں تو اپنے خالو کے گھر دے آنا۔ اُن کا احسان ہم زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ ‘‘

 ’’جی امّی۔ میں خود بھی یہی سوچ رہا تھا۔ اچھا امّی میں کام پر جاتا ہوں۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے بیٹا ! جا۔ ‘‘

نواب وہاں سے چلا گیا۔ اِدھر بابا کے سائبان میں آنے جانے والوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ کوئی کار سے آ رہا تھا تو کوئی اسکوٹر سے۔ سائیکل سے ، رکشہ سے اور پیدل آنے والے بھی بے شمار لوگ تھے۔

نواب نے اُس سائبان کو بڑھئی کے ذریعہ درست کروا دیا تھا۔ بابا کے لئے اچھے کپڑے اور ضرورت کا سارا سامان وہاں رکھوا دیا تھا۔ بڑی رونق رہتی تھی اُس سائبان میں !

دن اسی طرح گزرتے رہے۔ ایک دن فجر کی نماز کے بعد بابا نے آواز دے کر نواب کو اپنے پاس بلایا۔ اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ اُس وقت وہاں کوئی رہتا بھی نہیں تھا کیونکہ وہ وقت ان کے وظیفے کا ہوتا تھا۔ نواب جلدی جلدی منھ ہاتھ دھو کر باہر نکلا اور بابا کے سامنے ادب سے بیٹھ گیا، بابا کے پاس جو تھیلی تھی اُسے انھوں نے کھولا اور ہاتھ ڈال کر بہت سارے نوٹ نکالے اور نواب سے دامن پھیلانے کو کہا۔ اُس نے اپنی قمیص کو دونوں ہاتھوں سے پھیلا کر بابا کے سامنے کر دیا۔ تھیلی میں موجود سارے نوٹ انھوں نے اس کے دامن میں ڈال دیے اور کہا ’’امّاں کی درگاہ کی طرف جا۔ کوئی سودا ملے تو کر لینا پیچھے نہیں ہٹنا، اِس رقم سے دوگنا بھی مانگے تو دینے کو تیار ہو جانا۔ تیار ہو کر جا۔ خبردار! خالی ہاتھ نہ آنا۔ گاڑی بھر کر لانا جا چلے جا۔ ورنہ ستارے اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے ، قسمت تجھ پر مہربان ہے ، یہ وقت ہی تیرے عروج کا ہے۔ جلدی کر خبردار! کسی کو خبر نہ ہونے دینا، اکیلے ہی سارا کام کرنا۔ جا فقیر کی دعائیں تیرے ساتھ ہیں۔

نواب نے اپنے دامن میں سارے نوٹ سمیٹے ، اپنے گھر میں آیا اپنی والدہ کو ساری بات بتائی۔ دونوں ماں بیٹوں نے مل کر نوٹوں کو جمایا اور گِنا،وہ ۲۱ ہزار روپئے تھے۔ اُس نے ان روپیوں کو ایک رومال میں باندھ لیا اور جس تھیلی میں روٹی کا ڈبّہ رکھتا تھا، اُسی تھیلی میں اُس نے نوٹوں کا رومال ڈال دیا، بابا کی کچھ باتیں اُس کی سمجھ میں آئیں کچھ نہیں آئیں۔ اُس نے اپنی بیل گاڑی تیار کی اور گھر کے احاطے سے نکل کر باہر آیابس ا ُسے اتنا یاد تھا کہ امّاں کی درگاہ کی طرف جانا ہے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کس راستے سے جائے کہ کتھئی رنگ کے بیل نے آگے بڑھنا شروع کر دیا اس کے ساتھ سفید بیل بھی آگے بڑھا۔ نواب نے بھی بیلوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا۔ بیل خراماں خراماں چلے جا رہے تھے۔ صبح کا وقت تھا، نیلے نیلے آسمان پر بادلوں کے سفید سفید ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی سورج کی نرم اور زرد روشنی درختوں کی شاخوں پر اپنا نور بکھیر رہی تھی۔ پرندوں کا شور راہوں میں گونج رہا تھا۔ تتلیاں نامعلوم مقامات کی طرف سفر کر رہی تھیں۔ طوطوں کا مسلسل شور آسمان سے زمین کی طرف آ رہا تھا اور املی کے درختوں کی کھٹی میٹھی خوشبو سارے ماحول میں پھیلی ہوئی تھی۔ کئی چوراہوں کو پار کر کے اس کی گاڑی کنہان ندی سے تھوڑے فاصلے پر ہی تھی کہ ایک چوراہے پر دا ہنی طرف بنے ہوئے ایک پرانے اور ویران بنگلے کے دروازے پر تین آدمی کھڑے ہوئے نظر آئے جن میں سے دو آدمیوں نے بڑے قیمتی لباس پہن رکھے تھے جبکہ تیسرا آدمی معمولی سے میلے کچیلے کپڑوں میں تھا۔ بازو میں ہی ایک کار کھڑی ہوئی تھی۔ سڑک یہاں سے لے کر وہاں تک، حدِ نظر تک ویران پڑی ہوئی تھی آس پاس مکانات بھی نہیں تھے۔ دور امّاں کی درگاہ کا گنبد نظر آ رہا تھا اور اُسی کے قدموں میں کنہان ندی کا پانی سنہری ریت کے درمیاں آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ دونوں آدمیوں نے ہاتھ کے اشارے سے نواب کو گاڑی روکنے کو کہا ’’لیکن نواب کے روکنے سے پہلے ہی گاڑی خود بخود وہاں رُک چکی تھی۔ ایک آدمی جو بہت اونچا پورا تھا، گول گول اس کا چہرہ تھا، پیٹی باہر نکلی ہوئی تھی، گلے میں سونے کی چین اور ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنے ہوئے تھا، کلائی پر نہایت قیمتی گھڑی بندھی ہوئی تھی اُس نے نواب کو مخاطب کر کے کہا ’’کیوں اِدھر کوئی کباڑی رہتا ہے پرانے سامان لینے والا!‘‘

نواب نے کہا ’’جی ہاں صاحب میں ہوں نا، کیا سامان ہے ، کتنا سامان ہے ، مجھے بتائیے۔ ‘‘

بات کرنے والے نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا، اُس نے آنکھوں سے بات آگے بڑھانے کو کہا، تب اُس آدمی نے اپنے قیمتی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور نواب سے کہا ’’مال زیادہ ہے ، آفس کا سامان ہے ، لکڑی کے تختے اور پرانی الماریاں ہیں۔ ‘‘

چلئے نا صاحب مجھے دکھائیے میں یہی کام کرتا ہوں۔ ابھی ایک پارٹی کو مال بیچ کر آ رہا ہوں۔ دیکھئے یہ رقم میرے پاس ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے رومال کی رقم کھول کر انھیں دکھائی، سونے کی چین والے آدمی نے اپنی سفید شرٹ کی جیب میں سے سگریٹ کا پاکٹ نکالا اور لائٹر سے سگریٹ جلا کر ایک زوردار کش لیا۔ دھواں ہوا میں چھوڑ دیا اور نواب سے پوچھا کتنے پیسے ہیں ؟

صاحب اکیس ہزار ہے اور بھی پیسے گھر میں ہیں ، آپ مجھے مال دکھائیے ، میں رقم نقدی ادا کروں گا۔ ‘‘

 ’’اچھا ٹھیک ہے۔ گاڑی کو یہیں رہنے دو اور ہمارے ساتھ آؤ۔ ‘‘ نواب نے تھیلی جس میں رقم تھی اپنے ہاتھ میں لے لی اور دونوں آدمیوں کے ساتھ آگے بڑھا تیسرا آدمی بھی ان کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔ گیٹ پار کر کے وہ بنگلے کے دروازے کے قریب آئے ، بنگلے کا دروازہ بہت پرانا اور بہت مضبوط شیشم کی لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس پر ایک بہت مضبوط تالا لگا ہوا تھا، سونے کی چین والے آدمی نے پیچھے آنے والے آدمی کو اشارہ کیا، اُس نے ایک بڑی سی چابی سے دروازہ کھولا۔ چاروں اندر داخل ہوئے۔ اُس کمرے میں زیادہ روشنی نہیں تھی۔ سامنے ایک ٹیبل رکھا ہوا تھا اور اس ٹیبل پر ایک ماچس اور موم بتی کا پاکٹ رکھا ہوا تھا۔

موٹے آدمی نے موم بتی اُٹھائی اور ماچس کی تیلی سے اُسے جلا دیا۔ کمرے میں روشنی ہو گئی۔ اُسی موم بتی کو لے کر وہ آگے کے دوسرے کمرے میں آئے۔ یہ ایک بہت بڑا ہال تھا اور اس ہال میں لکڑی کے شہتیر، بڑے بڑے سائبانوں کی لکڑی کی قینچیاں ، دروازے ، کھڑکیاں ، الماریاں ، ٹیبل اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں ، پورا ہال ساگوان کی لکڑی کے سامان سے بھرا ہوا تھا۔ سونے کی چین پہنے ہوئے آدمی نے اپنے گھنگھریالے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور مونچھوں پر دو بار انگوٹھا اور بیچ کی انگلی پھیری اور نواب سے کہا ’’یہ سارا مال بیچنا ہے ایک ہفتہ میں خالی ہونا۔ کتنے پیسے دو گے ؟‘‘

 ’’صاحب یہ اکیس ہزار روپئے ہیں اتنے ہی اور دوں گا۔ ‘‘

 ’’۴۲ ہزار کم ہیں ! پورے پچاس دے دینا۔ بولو منظور!‘‘

نواب نے کہا ’’منظور!‘‘

اُس نے ۲۱ ہزار روپئے سونے کی چین والے آدمی کو دیئے جس نے بہت موٹے تلوے کے کالے چمکدار جوتے پہن رکھے تھے۔

باقی رقم تین دن بعد اِس پتہ پر پہنچا دینا۔ یہ کہہ کر سونے کی چین والے نے ایک کارڈ نواب کے حوالے کیا اور چوکیدار سے کہا ’’دیکھو یہ جب بھی آئے یہ کمرہ کھول دیا کرنا۔ یہ سارا سامان لے جانے دینا۔ چوکیدار نے اقرار میں سر ہلایا، پھر موٹے آدمی نے کہا۔ جلدی کرنا ہمیں بنگلہ نئے مالک کے حوالے کرنا ہے۔

جی صاحب بہت اچھا‘‘ اتنا کہہ کر دونوں آدمی بنگلے سے باہر آئے اپنی گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے چلے گئے۔

نواب چوکیدار کے ساتھ بنگلے میں رہ گیا۔ بنگلہ ایک عرصہ سے بند پڑا ہوا تھا۔ اُس کی دیواروں پر جگہ جگہ مکڑیوں کے جالے تنے ہوئے تھے۔ دیواروں پر دھول جمی ہوئی تھی۔ بنگلہ بہت مضبوط بنا ہوا تھا دروازے بہت اچھی ساگوان کی لکڑی سے بنے ہوئے تھے۔ یہ انگریزوں کے زمانے کی بنی ہوئی عمارت تھی۔

فوجی چھاؤنی کا علاقہ ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کی سواریاں ، گاڑیاں اور ٹرک وغیرہ اِس طرف نہیں آتے تھے۔ دور دور تک عام لوگوں کے مکانات نہیں تھے۔ فوجیوں کے بنگلے بنے ہوئے تھے جو ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر تھے۔ بنگلہ بہت ہی وسیع و عریض زمیں پر بنا ہوا تھا۔

کچھ دیر تک وہ سامنے کے کمرے میں چوکیدار کے ساتھ کھڑا رہا اور سوچنے لگا کہ بابا نے یہ کونسا گورکھ دھندا اُس کے پیچھے لگا دیا ہے۔ لکڑیاں جو ہال میں رکھی ہوئی تھیں اس سے لاکھ دو لاکھ روپئے کمائے جاسکتے تھے اِس کا کچھ اندازہ تو نواب کو بھی ہو گیا تھا۔ اُس نے سوچا کہ بابا نے جب اُس سے یہ کام کرنے کو کہا ہے تو ضرور اِس میں کچھ فائدہ ہی ہو گا۔

نواب نے چوکیدار سے کہا ’’کیوں بابا۔ کب سے ہیں آپ یہاں ؟‘‘

چوکیدار نے کہا ’’تین سال سے۔ ‘‘

 ’’یہاں کوئی آتا ہے ؟‘‘

 ’’آتے ہیں ایسے ہی کبھی کبھار،دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ‘‘

 ’’کہاں رہتے ہیں آپ؟‘‘

 ’’میں یہاں کمہار ٹولی میں رہتا ہوں۔ ‘‘

 ’’کھانا وغیرہ کہاں کھاتے ہیں ؟‘‘

 ’’دو پہر میں گھر جاتا ہوں کھانا کھا کر اور رات کا کھانا لے کر آ جاتا ہوں بس یہیں پڑا رہتا ہوں۔ ‘‘

 ’’ڈر نہیں لگتا؟‘‘

 ’’شروع میں لگتا تھا اب تو عادت ہو گئی ہے۔ ‘‘

اچھا تو ٹھیک ہے۔ مالک سے بات ہو گئی ہے ، میں لکڑیاں لے جانا شروع کر دیتا ہوں۔ ‘‘

چوکیدار نے کہا ’’تمھاری مرضی!‘‘

نواب بنگلے سے نکل کر گیٹ پر آیا۔ اُس نے اپنی بیل گاڑی بنگلے کے دروازے کے سامنے کھڑی کر دی چوکیدار دروازے کے سامنے بچھی ہوئی چار پائی پر آ کر بیٹھ گیا۔ نواب اندر ہال میں داخل ہوا اور شہتیر کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو اُٹھا کر گاڑی میں لادنا شروع کر دیا۔ چوکیدار ایک دبلا پتلا سا کمزور آدمی تھا۔ اُس نے اس کام میں نواب کی کوئی مدد نہیں کی۔ شہتیر کے ٹکڑے کافی لمبے اور موٹے تھے چونکہ نواب کو محنت کرنے کی عادت تھی وہ اناج کی سو کلو کی بوری اکیلے ہی اُٹھا لیتا تھا لہٰذا اُسے ان بھاری لکڑی کے ٹکڑوں کو اُٹھانے میں کچھ زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ دو گھنٹے کی سخت محنت کے بعد اُس نے ۱۵ ٹکڑے کسی طرح بیل گاڑی پر لاد دیے۔ اُس سے زیادہ بوجھ شاید بیل اُٹھا بھی نہ پاتے۔ اُس نے رسّی سے لکڑی کے ٹکڑوں کو اچھی طرح باندھ دیا۔ چوکیدار سے کہا ’’کاکا میں جا رہا ہوں۔ ‘‘چوکیدار نے سر ہلا کر حامی بھری اور نواب بیل گاڑی کو چلاتا ہوا پھاٹک سے باہر لایا۔ اپنی گاڑی کو ہانکتا ہوا اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا۔

دوپہر میں نواب اپنے گھر پہنچ گیا۔ گھر کے احاطے میں اُس نے لکڑی کے شہتیروں کو اتارنا شروع کیا۔ اُس کی والدہ نے دیکھا تو وہ گھر سے نکل کر آ گئیں اور انھوں نے بھی شہتیر اتارنے میں نواب کی مدد کی۔

پوری لکڑیاں اتار دینے کے بعد نواب گھر میں گیا، منھ ہاتھ دھویا اور بابا کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اتفاق سے اُس وقت بابا کے قریب کوئی موجود نہیں تھا۔ بابا نے اُس کی طرف دیکھا تو انھوں نے اشارے سے اطمینان ہونے کا اظہار کیا اور کہا ’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔ فکر نہیں کرنے کا۔ اﷲ بہت بڑا ہے۔ جاتو آرام کر باقی کام کل کرنا۔ ‘‘

بابا کے منھ سے یہ کلمات سن کر وہ وہاں سے اُٹھا گھر میں آیا کھانا کھایا اور لیٹ گیا، اُسے نیند لگ گئی۔

جب وہ سو کر اُٹھا تو مغرب کا وقت قریب تھا۔ منھ ہاتھ دھو کر باہر جانا ہی چاہتا تھا کہ ایک آرا مشین کا مالک اُس کے پاس آیا۔ وہ اُسے پہچانتا تھا۔ اُس کے کارخانے کا مال بھی نواب لایا کرتا تھا اُس نے نواب سے کہا ’’نواب یہ مال کہاں سے اُٹھا لایا۔ کتنے میں لایا؟

نواب نے کہا ’’ایک فوجی کے پاس مل گیا، لے آیا۔ کتنے میں لایا یہ مت پوچھو، تم کو خریدنا ہے تو بات کرو!‘‘

 ’’چلو مجھے چل کر لکڑی دکھاؤ،‘‘ آرا مشین والے نے کہا۔

 ’’ٹھیک ہے آؤ میرے ساتھ،‘‘ یہ کہہ کر نواب اُسے اپنے ساتھ لے کر وہاں آیا جہاں شہتیر پڑے ہوئے تھے۔ اُس نے لکڑی کے تمام ٹکڑوں کو دیکھا اور کہا ’’بولو کتنے میں دیتے ہو!‘‘

نواب نے کہا ’’بیس ہزار!‘‘

آرا مشین والے نے کہا ’’نہیں اتنے کا مال نہیں ہے۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’خالص ساگوان ہے وہ بھی برما کا۔ لال رنگ کا۔ ‘‘

ہاں ہے تو لیکن یہ قیمت زیادہ ہے۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے تم بولو۔ ‘‘

 ’’میں اس کے دس ہزار دیتا ہوں۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’اچھا! ٹھیک ہے جاؤ۔ کل آ کر بات کرنا۔ ‘‘

بیوپاری نے کہا ’’اب آج کیا اور کل کیا، مجھے کل باہر گاؤں جانا ہے بات کر لو ابھی نقدی تم کو دے دیتا ہوں۔ مال بھی تم ہی پہنچا دینا۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’آخری اور فائنل بات ۱۵ ہزار دے دو میں خود ساری لکڑیاں تمھارے کارخانے میں پہنچا دوں گا۔ ‘‘

بیوپاری نے کہا ’’ٹھیک ہے۔ اتنا کہہ کر اُس نے اپنی جیب سے پرس نکالا اور دو ہزار روپئے نواب کو دیے اور کہا ’’مال لے آؤ، پیسے میں تم کو دے دیتا ہوں۔

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے آپ چلئے میں مال لے کر پہنچ رہا ہوں۔

نواب کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنی لکڑی کے اُسے پندرہ ہزار روپئے مل جائیں گے۔ اُس نے اپنی امّی کی مدد سے مال گاڑی میں چڑھایا اور بیوپاری کے کارخانے میں پہنچا کر آ گیا۔ بیوپاری نے اُسے سات ہزار روپئے دیے اور باقی رقم دوسرے دن دینے کا وعدہ کیا۔ نواب وہاں سے چلا آیا۔ وہ سات ہزار روپئے اُس نے اپنی امّی کے پاس رکھوا دیے۔

اس طرح نواب روزانہ جاتا تھا لکڑی کا سامان اُٹھا کر لاتا تھا اور کسی نہ کسی ضرورت مند کو بیچ دیتا تھا۔ دو تین لکڑی کے بیوپاریوں نے اُس سے بہت سا مال خرید لیا۔ چوتھے دن وہ بنگلہ مالکوں کے بتائے ہوئے پتہ پر گیا۔ اُس نے بیس ہزار روپئے اور وہاں جمع کرا دیے ، باقی رقم ایک ہفتہ میں دینے کا وعدہ کر کے وہاں سے واپس آ گیا۔

تین چار دنوں میں بہت ساری لکڑیاں وہاں سے اُٹھا کر لے آیا۔ کچھ فروخت ہو گئیں بہت ساری اُس کے مکان کے احاطے میں پڑی ہوئی تھیں۔

نواب کے چچا کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اُس کے گھر آئے اور باریکی سے لکڑیوں کی بابت پوچھ تاچھ کرنے لگے۔ نواب نے کہا ’’دوسرے کا مال ہے بیچ کر پیسے اُس کو دینا ہے مجھے دس فیصد کمیشن مل رہا ہے۔ ‘‘

نواب کے چچا نے لکڑی کا بغور معائنہ کیا اُنھیں دال میں کچھ کالا نظر آیا۔ اوپری دل سے انھوں نے اُس کی حوصلہ افزائی کی اور دل میں وسوسوں کا طوفان لیے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ گھر میں اِس کا ذکر انھوں نے اپنی بیوی سے کیا۔ بیوی نے کہا ’’کہیں سے چُرا کر لایا ہو گا۔ پولس کو ٹیلی فون کر دو ابھی اندر ہو جائیگا۔

بیوی کی بات سن کر وہ دور ایک ٹیلی کام سینٹر میں گئے اور وہاں سے انھوں نے ٹیلی فون پر نواب کا پتہ بتایا اور چوری کا مال ہونے کی خبر دی اور اپنا نام غلط بتا کر ٹیلی فون بند کر دیا۔

رات دس بجے دو سپاہی نواب کے گھر آئے اور لکڑی کی بابت پوچھ تاچھ کرنے لگے نواب نے وہ کارڈ اُنھیں دکھا دیا۔ اُس پر ٹیلی فون کا نمبر بھی درج تھا۔ اُسی وقت انھوں نے ٹیلی فون پر بات کی اور مطمئن ہو کر وہاں سے چلے گئے۔

نواب بنگلے کے اندر سے لکڑیاں لاتا تھا تو چوکیدار اندر آ کر جھانکتا بھی نہیں تھا، بس اپنی چارپائی پر لیٹے لیٹے دیکھتا رہتا تھا۔ نواب آتے وقت اُس کے لیے کبھی کچھ ناشتہ لے کر آ جاتا تھا۔ اُسے دارو پینے کی عادت تھی نواب سے اس نے ایک دن اشارے میں یہ بات کہی۔ نواب سمجھ گیا پھر وہ جب بھی آتا تھا اس کے پینے کھانے کا انتظام کر دیتا تھا۔ کاکا سرور میں آ کر اپنی چار پائی پر لیٹ جاتے تھے اور تھوڑی دیر میں نیند کی آغوش میں گم ہو جاتے تھے۔ نواب کا کام ختم ہوتا تو انھیں جگا دیا کرتا تھا۔ اور گاڑی لے کر چلا جاتا تھا۔

ایک دن اُس نے لکڑی کی بڑی الماری جو دیوار سے لگ کر کھڑی ہوئی تھی اُسے اس کی جگہ سے ہٹایا، الماری خالی تھی اور کافی مضبوط تھی، الماری جگہ سے ہٹی تو نواب کو وہاں ایک دروازہ نظر آیا۔ دروازہ میں ایک تالا لگا ہوا تھا۔ نواب کے پاس چابیوں کا ایک گچھّا تھا اُس میں سے ہر چابی کو اُس نے استعمال کر کے دیکھ لیا لیکن تالا نہیں کھلا۔ بالآخر اُس نے ایک کھیلے کو ہتھوڑی سے چپٹا کیا اور اس کی مدد سے تالا کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ آخر تھوڑی محنت سے تالا کھل گیا۔ اندر اندھیرا تھا۔ اُس نے باہر جھانک کر دیکھا چوکیدار سو رہا تھا، اُس نے ایک موم بتی جلائی اور اُسے لے کر اندر داخل ہوا وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا اور اُس کمرے سے بائیں طرف ایک زینہ بنا ہوا تھا۔ وہ اُس زینے سے آہستہ آہستہ نیچے اُترنے لگا۔ بیس بائیس پائیدانوں کے بعد زینہ ختم ہو گیا اور لمبی سرنگ سی بنی ہوئی تھی سرنگ کی دوسری سمت سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔ اُس نے اندازہ لگایا کہ یہ سرنگ نزدیک ہی کھلتی ہو گی۔ آخر ہمت کر کے وہ آگے بڑھا۔ پندرہ منٹ کے بعد وہ سرنگ کے دہانے پر کھڑا تھا۔ سامنے بے شمار ببول کی جھاڑیاں تھیں۔ ڈھلان زمین تھی اور سامنے ہی کنہان ندی بہہ رہی تھی۔ سرنگ کے دہانے پر جھاڑیاں اس طرح اگی ہوئی تھیں کہ دوسری سمت سے اس کا دہانہ نظر ہی نہیں آ  سکتا تھا۔ ان جھاڑیوں میں چھپ کر ندی کا دور تک کا منظر دیکھا جاسکتا تھا۔

نواب تھوڑی دیر تک وہاں کھڑا رہا پھر وہاں سے واپس ہوا۔ واپس جب چھوٹے کمرے میں آیا تو اُس نے موم بتی کی روشنی میں اُس کمرے کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ دائیں طرف اُسے ایک اور دروازہ نظر آیا اس میں بھی تالا لگا ہوا تھا۔ کھیلے کی مدد سے اُس نے وہ تالا بھی کھول لیا۔ یہ ایک ہال تھا اِس میں دیواروں سے لگ کر الماریاں رکھی ہوئی تھیں۔ اُس نے ایک الماری کا دروازہ کھولا اور اندر کا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پوری الماری سونے چاندی کے زیورات اور سونے کے بسکٹ اور چاندی کی اینٹوں سے بھری ہوئی تھی۔ موم بتی کی روشنی میں سونے چاندی کے زیورات چمک رہے تھے۔ پھر اُس نے دوسری الماری کھولی۔ اُس میں سو کے ، ہزار کے نوٹوں کے بنڈل رکھے ہوئے تھے۔ تیسری الماری بھی نوٹوں سے بھری ہوئی تھی۔ اتنی دولت تو اُس نے خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ چند منٹ تک وہ سکتے کی حالت میں کھڑا رہا۔ پھر وہ باہر کے کمرے میں آیا۔ پہلے تو جھانک کر چوکیدار کی طرف دیکھا، وہ بے سدھ چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ نواب نے ایک کونے میں پڑی ہوئی ایک چھوٹی الماری اُٹھائی وہ بالکل خالی تھی اُسے لا کر چھوٹے دروازے کے قریب رکھ دیا پھر اندر کی الماری سے نوٹوں کے بنڈل لالا کر اُس چھوٹی الماری میں رکھنے لگا۔ جب پوری الماری نوٹوں کے بنڈلوں سے بھر گئی تو اُس نے اس کے دروازوں کو لوہے کے تاروں سے باندھ دیا۔ بڑی الماری پھر سے خفیہ کمرے کے دروازے کے سامنے لا کر کھڑی کر دی۔ پھر اُس نے نوٹوں سے بھری الماری کو اُٹھایا اور اپنی بیل گاڑی پر چڑھا دیا۔ اُس کے بعد لکڑی کی چند کرسیاں اور ٹیبل اُس پر جما کر رکھ دیا۔ پورے سامان کو اچھی طرح رسّی سے باندھ کر دروازے میں تالا لگا دیا، چابی چوکیدار کو دے کر نکل پڑا۔ دوپہر میں گھر پہنچا فرنیچر کا سارا سامان احاطے میں اُتار دیا اور اپنی امّی کی مدد سے نوٹوں سے بھری ہوئی الماری اُس نے گھر کے اندر پہنچا دی اور ایک کونے میں کھڑی کر دی۔ پھر اُس نے اپنی گاڑی میں چاول کے دو تین مضبوط خالی بورے رکھے۔ چوکیدار کے شوق پانی کا سامان لیا اور گاڑی لے کر سیدھے بنگلے میں پہنچا۔ الماریوں میں رکھے ہوئے سونے چاندی کے تمام زیورات اور دیگر چیزیں بوروں میں ڈال لیں اور اُنھیں سامنے کے کمرے میں لے آیا۔ خفیہ کمرے کے دروازے کو اُس نے پھر سے اُسی طرح بند کر دیا۔ اُس نے اُن بوروں کو گاڑی پر لاد دیا اور اُس کے اوپر لکڑی کے ٹکڑے اچھی طرح لا کر رکھ دیے۔ رسّی سے پورے سامان کو باندھا، چابی چوکیدار کے حوالے کر کے اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچا تو شام ہو  چکی تھی۔ لکڑی کا سارا سامان احاطہ میں اتار دیا ، اور بوروں کو گھر کے اندر پہنچا دیا۔

نواب کی امّی نے اُن چیزوں کو دیکھا تو حیران رہ گئیں پھر نواب سے اُس کی بابت دریافت کیا، نواب نے کہا ’’امّی یہ سب بابا کا مال ہے انھیں کے حکم سے میں نے یہ کام شروع کیا ہے ، اُنھیں کے ذریعہ اور انھیں کی دعاؤں سے مجھے یہ سب حاصل ہوا ہے۔ بابا جیسا کہیں گے ہم اس کا استعمال کریں گے۔ ‘‘

نواب کی والدہ نے اس سلسلے میں زیادہ بحث نہیں کی اور خاموشی سے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔

پندرہ بیس دنوں میں نواب نے اُس ویران بنگلے میں پڑا ہوا پورا سامان اور تین الماریوں میں رکھی ہوئی ساری دولت اُٹھا کر لے آیا۔ باقی الماریوں کو اُس نے کھول کر بھی نہیں دیکھا اس دوران کسی نے جھانک کر بھی بنگلہ میں نہیں دیکھا اور نہ ہی اس سے سامان کی بابت سوالات کیے۔

جیسے جیسے لکڑی کا سامان نواب کے گھر آتا گیا نواب اُسے بیچتا چلا گیا۔ بڑے بڑے لکڑی کے ٹکڑے تو فرنیچر والوں نے یا آرا مشین والوں نے خرید لیے ، چھوٹے سامان کرسی، ٹیبل، الماری وغیرہ جو بھی گاہک آیا اُنھیں واجبی قیمت میں فروخت کرتا چلا گیا اس ایک سودے میں ہی اُس نے ایک لاکھ سے زیادہ روپئے کمائے۔

جب بنگلے کے سامان کی پوری صفائی ہو گئی تو اُس نے باقی رقم بھی بنگلے کے مالک کو لے جا کر دے دی۔

اب نواب کو یہ فکر ہوئی کہ گھر میں یہ جو لاکھوں روپیوں کے زیورات ، سونے چاندی کے سکّے اور اینٹیں ہیں ان کو حفاظت سے رکھا جائے۔ ایک الماری بھر کے جو دس کے بیس کے سواور ہزار نوٹ تھے اُنھیں اس طرح رکھا جائے کہ اُن پر کسی کی نظر نہ پڑے۔

اُس کے چچا اکثر اس کے گھر آ جایا کرتے تھے اور ایک ایک چیز کی بابت باریکی سے سوالات کیا کرتے تھے۔ اپنے کام کی بہت سی چیزیں مانگ مانگ کر وہ اپنے گھر لے گئے تھے۔ اُن کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ لکڑی کے اس سودے میں نواب کو کافی کمائی ہوئی ہے۔

پورا مال بنگلے سے لے آنے کے بعد بھی جب اُس دولت کے بارے میں اُس سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا تو نواب نے اُسے محفوظ رکھنے کی ترکیب سوچنی شروع کی۔

سب سے پہلے تو وہ بازار سے پلاسٹک کی مضبوط تھیلیاں لے آیا اور اُن تھیلیوں میں سونے کے زیورات رکھے اور ایک کے بعد ایک تھیلیوں میں اُسے یوں رکھتا گیا کہ کئی تھیلیوں کی پرت میں وہ زیورات محفوظ ہو گئے۔ پھر اُس نے اُن تھیلیوں کو نائیلون کی رسیّوں سے باندھ دیا۔ سارے نوٹ اور سارے زیورات ، سونے کے بسکٹ اور چاندی کی اینٹیں اچھی طرح تھیلیوں میں پیک کر لینے کے بعد ایک صبح چار بجے ہی بیدار ہو گیا اور ایک ایک تھیلی کو لے کر سیڑھیوں سے کنوئیں میں اُتر جاتا تھا، تھیلیوں کو تہہ میں ڈال کر رسّی کا ایک سرا پانی کی سطح کے قریب کھیلے سے گاڑ دیتا تھا۔ اس طرح اُس نے سارے نوٹ اور سونے چاندی کا سارا سامان کنوئیں کے اندر محفوظ کر دیا۔

گھریلو ضرورت کے لئے اُس نے کچھ رقم اپنے پاس رکھ لی پھر اُس نے اُس سائبان کی تعمیر کا کام شروع کروا دیا جس میں بابا رہا کرتے تھے۔ نہایت سلیقے سے اور خوبصورت طریقے سے سائبان کو ایک نئے طرز سے تعمیر کروا دیا اُس میں بابا کے بیٹھنے کا کمرہ ، آرام کا کمرہ ، نماز کا کمرہ اور غسل خانہ وغیرہ بنا دیا۔ خوبصورت ٹائلس فرش پر لگوا دیئے اور اندر سے تمام کمروں میں خوبصورت پینٹ کروا دیا۔ بابا کے لئے ایک خادم رکھوا دیا جو اُس کے والد کے دوست تھے اور بہت دنوں سے بے کار تھے وہیں اُس نے اپنے مکان سے لگ کر ایک کمرہ بھی بنوا لیا جس کا راستہ اُس کے گھر سے ہو کر جاتا تھا۔ اُس کا دروازہ اس طرح بنوایا جیسے دیوار سے لگ کر ایک الماری کھڑی ہوئی ہے۔ اُسی الماری کے دروازے سے گزر کر خفیہ کمرے میں پہنچا جا سکتا تھا۔ یہ سب ہو جانے کے بعد اُس نے اپنے گھر کی تعمیر کا کام بھی شروع کروا دیا۔ لاکھوں روپئے خرچ کر کے اُس نے اپنے لیے ایک نہایت شاندار اور عالی شان مکان بنوا لیا۔

کنوئیں کے بازو میں ایک چھوٹا سا مکان بنوا دیا جس میں اُس کے دونوں بیل پڑے رہتے تھے اور وہیں وہ گاڑی بھی رکھی رہتی تھی جس پر اُس نے یہ سارا سامان لاد کر لایا تھا، جس نے اس کی زندگی یکسر بدل دی تھی۔

بابا کا آستانہ اور اُس کا مکان تیار ہو جانے کے بعد اُس نے گھر میں قرآن خوانی کروائی تمام مدرسوں کے بچوں کو قرآن خوانی پر بلایا اور مغرب کے بعد اُنھیں کھانے کی دعوت دی ساتھ ہی شہر کے تمام جاننے پہچاننے والوں اور پورے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی مع اہل و عیال دعوت کا اہتمام کیا۔ اِس موقع پر اُس نے بابا کے دربار میں قوالی کا پروگرام بھی رکھا اور بمبئی کے دو بہت مشہور قوالوّں کی قوالّی کا پروگرام کروایا۔ وہ دن اُس بستی کا یاد گار دن بن گیا۔ رات بھر قوالّی چلتی رہی۔ موجود لوگوں کے لیے چائے پان کا انتظام نواب نے اپنی طرف سے کیا تھا۔ قوّالی کے دوران نواب نے رات میں ہزاروں روپئے قوالّوں کے اوپر نچھاور کر دیے۔

چند ہی مہینوں میں نواب کی بدلی ہوئی حالت پر بستی کے لوگ تبصرہ کرتے رہتے تھے کسی نے اُسے کباڑی کے کاروبار میں ہونے والا نفع سمجھا، کسی نے بابا کی برکت قرار دیا۔ کچھ لوگ سوچنے لگے کہ ضرور اِسے کہیں سے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے ، ورنہ ایک بیل گاڑی چلانے والا صرف ایک رات میں ہزاروں روپئے کیسے خرچ کر  سکتا ہے۔

اِس پروگرام میں نواب نے خاص طور سے اپنے خالو کو اور ان کے گھر کے تمام افراد کو بلایا تھا۔ وہ بھی اس کی شان دیکھ کر حیران رہ گئے کہاں تو چند مہینے پہلے یہ حالت تھی کہ بیل خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے اور کہاں یہ حال ہے کہ سینکڑوں لوگوں کی دعوت اور قوالی کا عظیم الشان پروگرام!

دوسرے دن صبح جب اُس کے خالو اور گھر کے دیگر افراد جانے لگے تو نواب نے ایک تھیلی میں پچیس ہزار روپئے اپنے خالو کو دیے اور کہا ’’خالو جان آپ نے جو بیل دلوائے تھے اُنھیں کی برکت سے آج میں اِس مقام پر پہنچا ہوں یہ رقم اُسی کی قیمت ہے آپ اِسے لینے سے انکار مت کیجئے۔

اُس کے خالو نے کہا ’’بیٹا ہر آدمی اپنی قسمت سے کماتا ہے۔ تم کو اﷲ نے ایک ذریعہ سے اتنی دولت دی ہے کہ لوگوں کو یقین نہیں آ رہا ہے۔ مجھے تم سے یہ رقم لینے میں کوئی تامّل نہیں ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر انھوں نے تھیلی نواب کے ہاتھ سے لے لی اور اپنی بیوی کے حوالے کر دی۔

نواب نے اپنے خالو سے پوچھا ’’اور آپ کی زمین کا کیس کہاں تک پہنچا؟‘‘

اس کے خالو نے کہا ’’چل رہا ہے۔ تاریخیں ہوتی رہتی ہیں دیکھو اِس پریشانی سے کب چھٹکارا ملے گا۔ ‘‘

نواب نے پوچھا ’’اگلی تاریخ کب کی ہے ؟‘‘

اس کے خالو نے کہا ’’اِسی مہینے کی ۲۶ تاریخ کی ہے۔ ‘‘

نواب نے پوچھا ’’کونسے کورٹ میں ہے۔ ‘‘

نواب کے خالو نے کہا ’’کورٹ نمبر 32 میں پانچویں مالے پر ہے۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے میں بھی اس تاریخ کو کورٹ میں آ جاؤں گا۔ ‘‘

نواب کے خالو نے کہا ’’ٹھیک ہے آ جانا۔ ‘‘

پھر وہ لوگ وہاں سے روانہ ہو گئے۔

اس پروگرام کے بعد نواب کے چچا اور چچی کی راتوں کی نیند اُڑ گئی اور دن کا چین حرام ہو گیا بس انھیں یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ نواب کے پاس چند مہینوں میں اتنا مال کہاں سے آ گیا۔ دونوں میاں بیوی نے بیٹھ کر اندازہ لگایا کہ گھر کے افتتاح کے اِس پروگرام میں کم سے کم ایک لاکھ روپئے ضرور خرچ ہوئے ہوں گے اور بابا کے آستانے اور نواب کے مکان کی تعمیر میں کم سے کم آٹھ لاکھ روپئے کا خرچ آیا ہو گا۔ ایک بیل گاڑی چلانے والا یا کباڑی کا دھندا کرنے والا چند مہینوں میں اتنا مال تو کما ہی نہیں سکتا۔ ضرور کہیں نہ کہیں کوئی خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ نواب کی چچی نے اپنے شوہر سے کہا کہ پتہ لگاؤ آخر اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے ؟

نواب کے چچا نے کہا ’’ہاں میں اِسی ٹوہ میں لگا ہوا ہوں۔ اُس نے اپنے خالو کو بھی ایک تھیلی بھر کر نوٹ دیے ہیں پچاس ہزار سے کم رقم نہیں رہی ہو گی۔ اب تو اِس کا بھید معلوم ہی کرنا ہو گا کہ آخر اس کے پاس اتنی دولت آئی تو کہاں سے آئی۔

۲۶ تاریخ کو نواب کورٹ میں پہنچ گیا۔ اُس کے خالو اور ان کا بیٹا حامد دونوں اُسے ایک جگہ نظر آئے۔ نواب نے اپنے خالو کو سلام کیا اور وہ کورٹ کے باہر بینچ پر بیٹھ گئے۔ ۲ بجے کے قریب اُن کا وکیل آیا کچھ کاغذات پر دستخط لیا اور اندر چلا گیا یہ لوگ بھی اندر بینچ پر جا کر بیٹھ گئے۔ جس آدمی سے زمین کا کیس چل رہا تھا وہ بھی وہاں موجود تھا۔ نواب کے خالو نے اُس کی بابت کچھ باتیں نواب کو بتائیں۔ اُس کا وکیل بڑا ہی شاطر اور چلتا پرزہ نظر آ رہا تھا۔ دونوں وکیلوں نے جج کے سامنے اپنی اپنی دلیلیں رکھیں جج نے دونوں کی باتیں سننے کے بعد اگلے مہینے کی ۱۶ تاریخ کی سنوائی رکھ دی۔

تاریخ مل جانے کے بعد نواب کے خالو اور ان کا لڑکا وہاں سے چلے گئے نواب نے بھی کہا کہ میں بھی چلتا ہوں۔ لیکن وہ وہیں رُکا رہا وہ اپنے خالو کے مخالف وکیل کے کمرے کے پاس ہی بیٹھا رہا جب وہ ۵ بجے بار روم سے نکل کر جانے لگا تو اسکوٹر اسٹینڈ پر اُس نے اس وکیل کو نمستے کیا۔ وکیل نے نمستے کا جواب دیا اور پھر کہا کہیئے آپ کو مجھ سے کچھ کام ہے ؟

نواب نے کہا ’’جی ہاں ساؤنیر کی جس زمین کا کیس آپ لڑ رہے ہیں مجھے اس سلسلے میں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔

ہاں بولو! وکیل نے کہا

یہاں نہیں ، کسی ہوٹل میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں

وکیل نے کہا ’’ٹھیک ہے جگت ہوٹل میں بیٹھتے ہیں میں وہیں پہنچ رہا ہوں آپ بھی وہیں آ جایئے۔ ‘‘

ٹھیک ہے۔ نواب نے کہا اور اپنی گاڑی لے کر وہ جگت ہوٹل میں پہنچ گیا۔ ایک الگ سلگ ٹیبل پر وکیل بیٹھا ہوا۔ تھا نواب بھی وہیں جا کر بیٹھ گیا۔ بیرے کو ناشتے کا آرڈر دے کر نواب نے وکیل سے کہا ’’دیکھیے وکیل صاحب! آپ جس زمین کا کیس لڑ رہے ہیں وہ زمین دراصل میرے خالو کی زمین ہے۔ جس پر آپ کے موکّل نے دھوکے سے قبضہ کر لیا ہے۔ اور اس کی رجسٹری کے جعلی دستاویز بنا لیے ہیں۔

وکیل نے کہا ’’یہ ثابت کہاں ہوا ہے۔ ہاں میں جانتا ہوں کہ دستاویز جعلی ہے پھر بھی اپنے موکّل کا اُس زمین پر قبضہ برقرار رکھواؤں گا۔

نواب نے کہا ’’وکیل صاحب۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ کیس ہار جائیں وکیل نے کہا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

نواب نے کہا ’’ہو کیوں نہیں سکتا۔ اگر آپ اپنی طرف سے کیس کمزور کر دیں تو آپ کیس ہار جائیں گے۔

وکیل نے کہا ’’لیکن مجھے اس سے کیا فائدہ ہو گا؟

نواب نے کہا ’’آپ کیا فائدہ چاہتے ہیں ؟

وکیل نے کہا ’’مجھے کار چاہئے بولو دلاتے ہو میں یہ کیس ہار جاتا ہوں ؟‘‘

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے کار آپ کی ہوئی!‘‘

 ’’لیکن کار آپ نے نہیں دلائی تو۔ ‘‘

 ’’کار کی جو بھی قیمت ہے اس کی آدھی رقم آپ آج کل میں مجھ سے لے لیں ، باقی رقم کیس ہارنے کے بعد۔ ‘‘

 ’’مجھے منظور ہے ! مجھے رقم آج ہی ملنی چاہیے۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے رقم آپ کو آج ہی مل جائے گی۔ بولیے کہاں لا کر دوں۔ ‘‘

 ’’آپ مجھے اپنا فون نمبر دے دو پتہ میں بتاؤں گا وہاں لا کر رقم مجھے دے دینا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔ ‘‘

نواب نے اپنا ٹیلی فون نمبر اُسے دے دیا اور گھر چلا آیا۔

رات میں ۹ بجے اُسے وکیل کا فون آیا اُس نے نواب کو رقم لے کر کامٹی روڈ کی ایک ہوٹل میں بلایا تھا۔

رات میں ۹ بجے نواب رقم لے کر اُس ہوٹل میں پہنچ گیا لیکن وکیل اُسے کہیں دکھائی نہیں دیا۔

دس منٹ کے بعد ہوٹل میں اُس کے لئے فون آیا۔ وہ فون پر آیا تو وکیل نے اُسے اندورا چوک پر آنے کو کہا‘‘ نواب وہاں سے اندورا چوک روانہ ہوا۔ تھوڑی تلاش کے بعد وکیل اُسے ایک جگہ کھڑا ہوا مل گیا، وکیل نے نواب کو اشارے سے اپنی طرف بلایا اور اُس سے کہا ’’رقم لائے ہو!

نواب نے کہا ’’ہاں کیوں نہیں میں وعدے کے مطابق رقم لایا ہوں آپ بھی وعدے کے مطابق میرا کام کر دیجئے۔ یہ کہہ کر اُس نے رقم کا بیگ وکیل کو دے دیا۔ وکیل نے بیگ اپنی گاڑی کی ڈکی میں رکھا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔ جاتے جاتے اس نے کہا بس دو تین پیشی میں آپ کا کام ہو جائے گا۔

اگلی تین پیشیوں میں مخالف وکیل نے کچھ اس انداز سے گول مول باتیں کہیں کہ جج نے جھنجلا کر فیصلے کی تاریخ دے دی اور فیصلے کی تاریخ پر اُس نے فیصلہ نواب کے خالو کے حق میں دے دیا۔

شام میں وکیل نے فون کر کے نواب کو کامٹی روڈ کی اُسی ہوٹل میں بلایا جہاں پہلی بار بلایا تھاپھر وہاں سے اُسے گاندھی باغ کی ایک ہوٹل میں آنے کو کہا، وہ ہوٹل میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ سامنے کی سڑک سے وکیل کی آواز آئی نواب اس کے قریب پہنچا تو وکیل نے کہا ’’لیجیے آپ کا کام ہو گیا۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’شکریہ!‘‘اور بیگ اس کے حوالے کر دیا۔

وکیل نے کہا ’’پوری رقم ہے ؟‘‘

نواب نے کہا ’’آپ نے ایمانداری سے کیس لڑا ہے۔ میں نے ایمانداری سے رقم آپ کو دی ہے۔

اچھا میں چلتا ہوں۔ اتنا کہہ کر وکیل وہاں سے چلا گیا، نواب بھی اپنے گھر واپس آ گیا۔

جج کا فیصلہ اتنا واضح تھا کہ دوسری عدالت میں جانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ تھوڑی سی کوشش سے نواب کے خالو کو اُس زمین پر قبضہ مل گیا اور ان کے سر پر پڑا ہوا ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا۔

دوسرے دن نواب کے خالو نواب کے گھر آئے وہ بابا کے لیے کپڑے اور رومال لائے تھے۔ مٹھائی کا ایک ڈبہ بھی تھا۔ بابا کو انھوں نے بتایا کہ وہ کیس جیت گئے ہیں اور زمین پر اُنھیں قبضہ بھی مل گیا ہے۔ بابا نے کہا ’’اﷲ بڑا مُسبب الاسباب ہے۔ سب کو اپنے اپنے وقت پر دیتا ہے۔ خدا تمھاری مدد کرے۔ خوش رہو،آباد رہو!‘‘

نواب کے خالو تھوڑی دیر وہاں بیٹھے رہے پھر وہاں سے نواب کے گھر میں آئے اور تھوڑی دیر بیٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ اُس کام کو انجام تک پہنچانے میں نواب نے جو کام کیا تھا اس کا انھیں اور ان کے وکیل کو علم تک ہونے نہیں پایا!

نواب کے نئے گھر کے افتتاح کے موقع پر جو عالیشان پروگرام ہوا تھا اس کے بعد سے ہی نواب کے چچا چوری چھپے مکان میں آتے تھے اور نواب کی دولت کا راز جاننے کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔ بالآخر انھیں ایک دن موقع مل ہی گیا۔ شام کا وقت تھا۔ نواب ایک رشتہ دار کو پیسے دینے کے لیے خفیہ بنے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کی امّی کسی سے ملنے کے لئے پڑوس میں گئی ہوئی تھیں اُسی وقت نواب کے چچا گھر میں داخل ہوئے۔ گھر میں کوئی دکھائی نہیں دیا۔ وہ آواز دینا ہی چاہتے تھے کہ اچانک ایک ہلکی سی آواز انھیں سنائی دی۔ آواز الماری کی پشت سے آ رہی تھی انھوں نے دیکھا الماری کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا اور اندر روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ انھوں نے آہستہ سے الماری کا دروازہ تھوڑا اور کھولا اور اندر کا منظر دیکھ کر وہ سکتے میں آ گئے انھوں نے دیکھا کہ اندر ایک کمرہ بنا ہوا ہے اور اُس کمرے میں رکھی ہوئی ایک الماری میں سے نواب نوٹوں کے بنڈل نکال رہا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ پھر اچانک انھوں نے ایک جھٹکے سے الماری کا دروازہ پورا کھول دیا اور اُس سے گزر کر اندر کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ نواب نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تو فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا اور اپنے چچا کو دیکھ کر تو اس کے ہاتھوں سے نوٹوں کی گڈیاں نیچے فرش پر گِر پڑیں اور دہشت سے اُس کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اُس نے جلدی سے سامنے کی الماری کا دروازہ بند کر دیا اور جھک کر گِرے ہوئے نوٹوں کے بنڈل اٹھانے لگا۔ اُس کے چچا اس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ نواب نے ان سے کہا ’’ارے چچا جان آپ یہاں اندر کیسے آ گئے ؟

 ’’بس اتفاق سے آ گیا ہوں اور مجھے سچ سچ بتاؤ کہ یہ دولت تمھیں کہاں سے ملی ہیں ؟‘‘

نواب نے کہا ’’یہ میری کمائی ہے جو مجھے لکڑیاں بیچ کر حاصل ہوئی ہیں ؟‘‘

 ’’اتنی دولت ہزار ہزار کے نوٹوں کے بنڈل، بینک کی سیل لگے ہوئے بنڈل ایسے نوٹ تو بیوپاری نہیں دے سکتے۔ ‘‘پھر آگے بڑھ کر انھوں نے ایک جھٹکے سے اُس الماری کا دروازہ کھول دیا جس میں نوٹوں کے بنڈل رکھے ہوئے تھے۔ اندر الماری میں نوٹوں کی گڈیاں جمی ہوئی تھیں۔ اتنی دولت دیکھ کر ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ انھوں نے ہاتھ آگے بڑھا کر دو بنڈل اُٹھا لیے۔ نواب نے انھیں روک دیا اور نوٹوں کے بنڈل اُن کے ہاتھوں سے چھین لیے نواب کے سانولے چہرے پر غصہ کے آثار نظر آئے اور اس کے مضبوط ہاتھوں کی قوت کا اس کے چچا کو اندازہ ہو گیا، وہ دو قدم پیچھے ہٹے اور انھوں نے نواب سے کہا ’’میں نہیں جانتا کہ اتنی دولت تمھیں کہاں سے ملی ہے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اِس میں میرا بھی حصہ ہے اگر میرا حصہ مجھے نہیں ملا تو میں پولس تھانے میں جا کر خبر دوں گا!‘‘

نواب نے کہا ’’چچا جان یہ سارا مال بابا کا ہے اُن کے پاس کہاں سے آیا، میں نہیں جانتا انھوں نے ہی مجھے لکڑی کا ٹھیکہ لینے کا مشورہ دیا تھا اور اُسی سے یہ سارا مال مجھے حاصل ہوا ہے۔ یہ بابا کی امانت ہے ، لیکن کیونکہ تم اس راز سے واقف ہو  چکے ہو اس لئے میں تمھیں یہ ایک لاکھ روپئے دے رہا ہوں اِسے لے لو اور چلے جاؤ اور اس کے متعلق کسی سے بات بھی نہیں کرنا۔ ‘‘ یہ کہہ کر نواب نے ہزار کے نوٹوں کی ایک گڈی اپنے چچا کے ہاتھ میں رکھ دی۔

نواب کے چچا نے وہ گڈی اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لی اور کہا ’’میں ابھی تو یہ لے کر جا رہا ہوں لیکن مجھے ضرورت کے وقت اور پیسے نہیں ملے تو میں تمھارا راز فاش کر دوں گا۔ ‘‘ اتنا کہہ کر انھوں نے نوٹوں کی گڈی رومال میں لپیٹی اور جلدی سے وہاں سے چلے گئے۔

نواب اِس تھوڑے سے وقت میں پسینے پسینے ہو گیا۔ جلدی سے اُس نے الماری بند کی۔ الماری نما دروازے سے باہر نکل کر آیا۔ اُس میں تالا لگایا۔ سامنے کے کمرے کے صوفے پر آ کر بیٹھ گیا۔ تولیہ سے اُس نے اپنا چہرہ صاف کیا اور اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔

تھوڑی دیر میں اُس کی والدہ گھر میں آ گئیں۔ نواب کو حواس باختہ دیکھا تو اُس سے کہا ’’کیوں نواب کیا ہوا۔ ایسے گم صُم کیوں بیٹھا ہے۔

 ’’نہیں امّی کوئی بات نہیں ہے۔ لاؤ ذرا مجھے ایک گلاس پانی دو۔ ‘‘ اس کی والدہ نے اُسے پانی دیا اور اس کے بازو صوفے پر بیٹھ گئیں۔ پھر انھوں نے نواب سے کہا ’’تجھے میری قسم سچ سچ بتا کیا بات ہے ؟ تو اتنا گھبرایا ہوا کیوں ہے ؟

امّی چچا جان نے مجھے خفیہ کمرے سے نوٹ نکالتے ہوئے دیکھ لیا؟

 ’’ارے یہ کیسے ہو گیا؟‘‘

 ’’بس میں جیسے ہی اندر گیا وہ گھر میں آ گئے اور انھوں نے الماری کے دروازے سے مجھے اندر دیکھ لیا اور پھر خود کمرے میں داخل ہو گئے۔ ‘‘

 ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

 ’’انھوں نے مجھ سے کہا اِس دولت میں سے مجھے بھی حصہ چاہئے ورنہ میں پولس کو خبر کر دوں گا میں نے انھیں ایک لاکھ روپئے دے دیئے اور اُنھیں چلتا کر دیا۔ لیکن جاتے جاتے انھوں نے کہا کہ اگر مجھے ضرورت پڑنے پراور پیسے نہیں ملے تو یہ راز پوشیدہ نہیں رہنے پائے گا۔ ‘‘

نواب کی امّی نے کہا ’’یہ تو بہت بُرا ہوا۔ تیرے چچا بے حد لالچی آدمی ہیں اور وہ آسانی سے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے تو ایسا کر ابھی ایک بیگ کے اندر سارے نوٹ بھر کر مجھے دے دے میں اُسے ایسی جگہ لے جا کر رکھ دیتی ہوں کہ کسی کو خبر بھی نہ ہونے پائے گی۔ ‘‘

اُسی وقت انھوں نے ایک سوٹ کیس لا کر نواب کو دیا۔

نواب نے الماری کی ساری رقم اُس سوٹ کیس میں رکھ دی اور وہ سوٹ کیس اُس نے اپنی امّی کو دے دیا۔ اُس کے امّی نے ایک مضبوط تالا اُس میں لگایا اور کہا ’’میں جا رہی ہوں مجھے دیر ہو جائے تو میرا انتظار مت کرنا، ہو  سکتا ہے مجھے آنے میں صبح ہو جائے اتنا کہہ کر وہ گھر سے نکل پڑیں۔ ‘‘

نواب تھوڑی دیر تک تو گھر میں بیٹھا رہا۔ پھر اُس نے اپنے پاس رکھی ہوئی رقم ایک پلاسٹک کی تھیلی میں ڈالی اور اپنے رشتے دار کے گھر چلا گیا جنھیں اُس نے ایک نیا کاروبار شروع کرنے کے لئے پیسے دینے کا وعدہ کیا تھا۔

رات میں دس بجے کے قریب گھر آیا اُس وقت تک اُس کی والدہ گھر واپس نہیں آئی تھیں۔ اُس نے دروازہ اندر سے بند کیا اور سو گیا۔

سویرے اُس کی آنکھ کھلی تو کافی اُجالا ہو  چکا تھا لیکن اُس کی والدہ کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ اُس نے ناشتہ کیا بیلوں کو چارہ دیا اور آفس میں آ کر بیٹھ گیا۔ صبح دس بجے کے قریب اس کی والدہ گھر واپس آ گئیں اور گھر میں جا کر پلنگ پر لیٹ گئیں۔

نواب نے اپنی والدہ سے کہا ’’امّی میں ذرا بازار سے ہو کر آتا ہوں۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے بیٹا، جا۔ میں بھی ذرا آرام کر لیتی ہوں۔ ‘‘

نواب وہاں سے نکلا اور اُس جگہ آیا جہاں سے وہ بیل گاڑی چلایا کرتا تھا۔ لکڑی کا ٹھیکہ ملنے کے بعد اس کا اس طرف آنا کم ہی ہوتا تھا۔ اُس کے پرانے ساتھیوں نے اُسے دیکھا تو آواز لگانے لگے ، آئیے نواب سیٹھ صاحب۔ نواب نے مسکرا کر سب کے سلام کا جواب دیا اور ایک ہوٹل کے سامنے بچھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ساتھیوں نے چائے ناشتے کی فرمائش کی نواب نے ہر ایک کے لئے کھارا میٹھا بلوایا چائے کا آرڈر دیا، پھر دنیا بھر کی باتیں ہوتی رہیں نواب کچھ دیر وہاں بیٹھ کر گھر واپس آ گیا۔ بابا کے پاس لوگ آ رہے تھے۔ جا رہے تھے نواب بابا کے حجرے میں گیا اور اُن کے بازو بیٹھ گیا۔

بابا نے خادم سے اشارے میں کہا کہ ابھی کسی کو اندر نہ آنے دے۔ خادم نے بعد میں آنے والوں کو دروازے کے باہر ہی روک لیا۔ جب بابا کے حجرے سے تمام لوگ باہر چلے گئے ، تو بابا نے نواب کی طرف دیکھا۔ نواب کے چہرے پر فکر و تردّد کے اثرات نمایاں تھے جو اُس کے چچا کی حرکت سے پیدا ہو گئے تھے۔ بابا نے نواب کے سر پر ہاتھ رکھا، کچھ دیر تک پڑھ پڑھ کر اُس کے جسم پر پھونکتے رہے۔ پھر نواب سے کہا ’’اپنے چچا کو پتہ بتا دے۔ اﷲ مہربان ہے۔ خوف نہ کر۔ سب ٹھیک ہو جائے گا، دوکانداری کر۔ ‘‘ اتنا کہہ کر بابا نے خادم کو اشارہ کیا اور باہر کھڑے ہوئے لوگ اندر آنے لگے۔

نواب بابا کے پاس سے اُٹھا اور اُس جگہ آ کر بیٹھ گیا جہاں اُس نے ایک چھوٹا سا آفس بنا لیا تھا۔ ابھی اُسے وہاں بیٹھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ اُس کے دروازے پر ایک کار آ کر رُکی اور ایک شخص کار میں سے نکل کر نواب کے آفس میں داخل ہوا۔ اُس نے بتایا کہ وہ ناگپور سے آیا ہے اُس کا فلیٹ کا کام چل رہا ہے کھڑکی دروازوں کے لئے اُسے لکڑیوں کی ضرورت ہے۔

نواب نے احاطے میں رکھی ہوئی لکڑیاں اُسے دکھا دیں اور پوری لکڑی کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپئے بتائی۔ آنے والے شخص نے بغور لکڑیوں کو دیکھا اور نواب سے کہا ’’اتنے میں تو مجھے نیا مال بھی مل سکتا ہے لیکن یہ کوالیٹی نہیں ملے گی میں ایک ہی بات بولتا ہوں سوا لاکھ میں پوری لکڑیاں مجھے دے دو رقم ابھی دے دیتا ہوں اور اپنا ٹرک بلوا لیتا ہوں دو گھنٹے میں مال یہاں سے چلا جائے گا۔

نواب نے کہا ’’ٹھیک لیکن مجھے رقم کیش چاہئے ‘‘

 ’’رقم آپ کو کیش ملے گی لیکن رسید بنا کر دینا ہو گا، راستے میں نا کہ ہے۔ چنگی دینا ہو گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے وہ آپ کو مل جائے گی۔ ‘‘

اُسی وقت آنے والے شخص نے کسی سے فون پر بات کی۔ پیسے اور ٹرک لانے کی بات اُس سے کہی اور وہ وہیں آفس میں بیٹھ گیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد ایک ٹرک نواب کے احاطے کے سامنے رُکا اور ایک آدمی ایک اٹیچی لے کر نیچے آیا۔ اُس میں سو سو کے نوٹوں کی گڈیاں جمی ہوئی تھیں۔ نواب نے اٹیچی میں رکھی ہوئی گڈیوں کو گِنا اور رسید بنا کر اُس شخص کے حوالے کر دی۔

ٹرک میں مزدور موجود تھے سب نے مل کر جلدی جلدی احاطے میں رکھی ہوئی ساری لکڑیاں ٹرک پر لاد دیں اور ٹرک وہاں سے روانہ ہو گیا۔ اب نواب کا پورا احاطہ خالی ہو گیا تھا۔

نواب نے وہ اٹیچی اپنی والدہ کے سپرد کر دی۔ انھوں نے برتنوں کی الماری میں اٹیچی رکھ دی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۳

نواب کے چچا نواب سے ایک لاکھ روپئے کے نوٹوں کے بنڈل لے کر جب گھر پہنچے تو اُن کا چہرہ خوشی سے تمتمایا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے انھوں نے کوئی بہت بڑا معر کہ سر کر لیا ہے۔ اپنی بیوی کے سامنے انھوں نے نوٹوں کی گڈی رکھی اور کہا ’’آج مجھے نواب کی دولت کا راز معلوم ہو گیا، نوٹوں کی گڈیوں سے پوری الماری بھری ہوئی تھی میں نے نواب سے اس رقم میں اپنا حصہ مانگا تو اُس نے مجھے یہ ایک لاکھ روپئے دیے۔ ‘‘

ان کی بیوی نے کہا ’’اُس نے کچھ بتایا کہ یہ رقم اُسے کہاں سے ملی ہے ؟‘‘

 ’’نواب نے بتایا کہ وہ دولت بابا کی امانت ہے۔ انھوں نے ہی اُسے دی ہے۔ ‘‘

ان کی بیوی نے کہا ’’وہ ہمیں بے وقوف سمجھ رہا ہے اور تم یہ ایک لاکھ روپئے لے کر آ گئے اور سمجھ رہے ہو کہ تم نے بہت بڑا تیر مار دیا۔ ارے کم سے کم آدھی رقم لیے بغیر وہاں سے ہٹنا ہی نہیں تھا۔ اب اُس کی ماں وہ ساری دولت غائب کر دے گی اور ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا!

نواب کے چچا نے کہا ’’ میں نے نواب سے کہہ دیا ہے کہ ضرورت کے وقت مجھے پیسے نہیں ملے تو میں پولس میں خبر کر دوں گا۔

غصے میں بھر کر ان کی بیوی نے کہا ’’ارے بے وقوف آدمی تجھے کب ضرورت پڑے گی اور تو کب اُس سے پیسے مانگے گا۔ دیکھ لینا اُس کی ماں راتوں رات ساری رقم غائب کر دے گی۔ ‘‘پھر تھوڑے نرم لہجے میں کہا تم ایسا کرو کہ ابھی جاؤ اور نواب کے گھر کے قریب کہیں چھپ کر کھڑے رہنا اور اگر نواب کی ماں کہیں جاتی نظر آئے تو اُس کا پیچھا کرنا اور جہاں جاتی ہے اُس مکان کی شناخت کر لینا۔ جاؤ جلدی کرو اور خبر دار پوری خیر لیے بغیر گھر واپس نہیں آنا۔ ‘‘

نواب کے چچا اپنی بیوی کی بات سن کر اُٹھے اور ایک ایسی جگہ آ کر کھڑے ہو گئے جہاں سے وہ نواب کے مکان کی پوری طرح نگرانی کر سکتے تھے۔ اُنھیں وہاں کھڑے آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ انھوں نے دیکھا نواب کی امّاں ایک شال اوڑھے اور ہاتھ میں ایک سو ٹ کیس لیے گھر سے نکلیں۔ تھوڑی دور پیدل چل کر آگے بڑھیں اور ایک آٹو رکشے پر سوار ہو گئیں۔ نواب کے چچا بھی ایک رکشہ پر بیٹھے رکشہ والے سے سامنے والے رکشہ کے پیچھے پیچھے چلنے کو کہا۔

تھوڑی دیر میں نواب کی والدہ بڑے بس اسٹاپ پر پہنچ گئیں وہاں رکشہ سے اتر گئیں۔ نواب کے چچا بھی کچھ دوری پر اپنے رکشہ سے نیچے اتر گئے۔ رکشہ والے کو پیسے دیئے اور ایک اندھیری جگہ میں کھڑے ہو گئے۔ نواب کی والدہ نے ایک دو آدمیوں سے کچھ پوچھا پھر وہ وہاں کھڑی ہوئی ایک بس میں سوار ہو گئیں۔ وہ بھی پیچھے سے اُس بس کے قریب پہنچے۔ کنڈکٹر نیچے کھڑا ہوا تھا اُس سے انھوں نے پوچھا ’’یہ بس کہاں جا رہی ہے ؟

کنڈکٹر نے کہا ’’وردھا؟‘‘

نواب کے چچا نے دیکھا نواب کی والدہ سامنے کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کا رُخ سامنے تھا۔ انھوں نے بھی وردھا کا ٹکٹ خریدا اور بس میں سب سے پیچھے کی کونے والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ سردی کا موسم تھا انھوں نے شال اوڑھ رکھی تھی شال میں انھوں نے اپنے چہرہ چھپا لیا۔ تھوڑی دیر میں بس وہاں سے روانہ ہوئی۔ نواب کے چچا نواب کی والدہ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ایک اسٹاپ پر بس رُکی تو نواب کی والدہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ سوٹ کیس اُٹھایا اور نیچے اتر گئیں۔ اور کچھ مسافر اُس اسٹاپ پر اترے۔ نواب کے چچا سب سے آخر میں باہر نکلے۔ نواب کی والدہ تیزی سے ایک طرف بڑھی چلی جا رہی تھیں۔ رات کا وقت تھا وہ ایک رکشہ والے کے پاس گئیں اور پھر اُس کے رکشہ پر سوار ہو گئیں۔ نواب کے چچا نے بھی ایک رکشہ ٹھہرایا اور نواب کی والدہ کے رکشے کے پیچھے فاصلے سے چلنے کو کہا، تھوڑی دیر میں رکشہ ایک بستی میں داخل ہو گیا اور ایک خاص مکان کے سامنے نواب کی والدہ کا رکشہ رُک گیا، وہ جلدی سے رکشے سے اتریں۔ رکشے والے کو پیسے دیئے اور دروازہ کھٹکھٹانے لگیں۔ دروازہ کھلا اور وہ اندر چلی گئیں۔ نواب کے چچا اپنے رکشے میں بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے انھوں نے پہچان لیا کہ یہ گاؤں دھامن گاؤں تھا اور جس گھر میں وہ داخل ہوئی تھیں وہ نواب کی والدہ کا مکان تھا۔ اچھی طرح پہچان لینے کے بعد انھوں نے رکشہ والے کو بس اسٹاپ کی طرف واپس چلنے کو کہا بس اسٹاپ پر اتر کر انھوں نے رکشے والے کو پیسے دیئے اور بس اسٹاپ پر کھڑے ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں اُنھیں ناگپور جانے والی بس مل گئی۔ اُس بس سے وہ ناگپور آ گئے۔ ناگپور پہنچے تو رات کے ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔ کامٹی جانے کے لئے کوئی بس نہیں تھی۔ انھوں نے ایک آٹو رکشہ والے سے بات کی اور اُسے منھ مانگے پیسے دے کر کامٹی کے لئے روانہ ہو گئے۔ سوا بجے رات میں وہ اپنے گھر آئے اور اپنی بیوی کو پوری تفصیل بتا دی۔ ان کی بیوی نے اُن کی اِس کاروائی پر اُنھیں شاباشی دی کھانے کو کھانا دیا اور کھا پی کر دونوں سوگئے۔

 ’’سویرے جب نواب کے چچا نہا دھو کر دوکان جانے کے لئے تیار ہو گئے تو ان کی بیوی نے کہا ’’دیکھو آج نواب کے گھر مت جانا آج دن بھر ہم کوئی منصوبہ تیار کرتے ہیں اور پھر اُس پر اطمینان سے عمل کریں گے۔ ‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’ٹھیک ہے تو میں دوکان جاتا ہوں !

 ’’ہاں ہاں تم جاؤ اور دل لگا کر دوکانداری کرو اور اس بات کا ذکر غلطی سے بھی کسی سے نہیں کرنا۔ ‘‘

 ’’ہاں۔ کیا میں اتنا بھی نہیں سمجھتا۔ ‘‘

 ’’میں سمجھتی ہوں کہ تمھیں کتنا سمجھتا ہے۔ اب جاؤ۔ ‘‘

نواب کے چچا وہاں سے اُٹھے اور دوکان میں آ کر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ رات میں جب گھر گئے تو بیوی بے چینی سے ان کا انتظار کر رہی تھی اُنھیں دیکھتے ہی بولی۔ ’’اچھا ہوا تم آ گئے ایک بہت اچھی ترکیب میرے دماغ میں آئی ہے کل ہم اس پر عمل کریں گے۔ ‘‘

 ’’کونسی ترکیب ہے ؟‘‘

 ’’ابھی نہیں میں کل ہی تمھیں بتاؤں گی۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

دوسرے دن جب نواب کے چچا ناشتے سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اپنی بیوی سے کہا ’’ہاں بتاؤ کونسی ترکیب تم نے سوچ رکھی ہے۔ ‘‘

نواب کی چچی نے کہا ’’اِسی وقت تم نواب کے گھر جاؤ اور کسی طرح سے ان کے گھر کے فون خراب کر دو۔ وہاں سے نکل کر دھامن گاؤں جاؤ اور اُن سے کہنا کہ نواب کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے اُس کی امّی نے وہ سوٹ کیس منگوایا ہے جو انھوں نے تمھارے گھر میں رکھوایا ہے۔ ‘‘

وہ اگر فون سے حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں گے تو فون انھیں نہیں لگے گا اور تم کسی بھی طرح ضد کر کے وہ سوٹ کیس لے کر آ جانا، وہ سیدھے سادھے انپڑھ لوگ ہیں ضرور تمھاری بات مان لیں گے۔ ‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’واہ بیگم تم نے نہایت عمدہ ترکیب نکالی ہے۔ میں ابھی جا کر ان کے گھر کے دونوں فون خراب کر دیتا ہوں ؟‘‘

ہاں لیکن ذرا ہوشیاری سے کام کرنا۔ جلد بازی میں گڑ بڑ مت کر دینا۔ ‘‘

 ’’بے فکر رہو میں بہت ہوشیاری سے یہ کام انجام دوں گا۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ اُٹھے اور سیدھے نواب کے گھر آئے۔ صبح کے نو بجے تھے۔ نواب گھر میں تھا۔ اس کے چچا سیدھے گھر میں داخل ہو گئے اور نواب سے کہا ’’کہو نواب کیسے ہو تمھاری امّی کہاں ہیں ؟

نواب نے اُنھیں دیکھا تو چہرے پر ناگواری کے اثرات نمایاں ہو گئے۔ اس نے اپنے چچا سے کہا ’’چچا جان ایسے بے تحاشہ گھر میں مت گھس آیا کرو۔ آواز دے کر آیا کرو، اور امّی کسی مریض کو دیکھنے اسپتال گئی ہوئی ہیں کہیے کیا کام ہے ‘‘؟

ٹھیک ہے تم کہتے ہو تو میں دروازہ پر دستک دے کر آیا کروں گا۔ ابھی تک میں اسی طرح گھر میں آیا کرتا تھا۔ ذرا مجھے ایک بیوپاری کو ایک فون کرنا ہے۔ ‘‘

 ’’نواب نے کہا ٹھیک ہے۔ کر لو فون۔ ‘‘

وہ فون کے ٹیبل کے قریب گئے انھوں نے کسی کے فون نمبر ملائے۔ فون نہیں لگا، پھر سے فون لگانے کے لئے اتنی تیزی سے نمبر گھمائے کہ فون ٹیبل پر سے گِر کر فرش پر آ رہا۔ اُس کا وائر ٹوٹ گیا اور فون بھی ٹوٹ گیا۔ انھوں نے افسوس کے انداز میں تیزی سے فون اُٹھایا پھر سے فون لگانے کی کوشش کی لیکن فون کام نہیں کر رہا تھا۔ انھوں نے نواب سے کہا ’’نواب یہ فون تو بند ہو گیا۔ مجھے بہت ضروری فون کرنا ہے اگر بیوپاری نے مال بھجوا دیا تو میرا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ میں آفس کے فون سے بات کر لیتا ہوں۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے ‘‘اور یہ کہہ کر اُس نے آفس کی چابی اپنے چچا کو دے دی۔ اُس کے چچا آفس میں آئے۔ آفس کا دروازہ کھولا، اور جلدی سے انھوں نے آفس کے فون کا تار کھینچ کر توڑ دیا اور تھوڑی دیر بعد نواب کو آفس کی چابی دے دی اور کہا کہ ان کی بات بیوپاری سے ہو گئی ہے اور وہ دوکان جا رہے ہیں۔ اتنا کہہ کر وہ چلے گئے۔ نواب تھوڑی دیر تک گھر میں بیٹھا رہا اور پھر آ کر اپنے آفس میں بیٹھ گیا۔

نواب نے اپنے چچاسے اپنی امّی کے بارے میں جھوٹ کہا تھا کہ وہ اسپتال گئی ہیں۔ دراصل لکڑی بیچ کر نواب کو جو روپئے ملے تھے وہ اُسے لے کر دھامن گاؤں چلی گئی تھیں تاکہ یہ رقم بھی وہاں حفاظت سے رکھوا دیں۔

نواب کے چچا نواب کے گھر سے نکلے تو بس اسٹاپ پہنچے اور وردھا جانے والی بس میں سوار ہو گئے۔ دو گھنٹے بعد بس دھامن گاؤں پہنچی۔ وہ اتر گئے اور رکشہ کر کے نواب کے نانا کے گھر پہنچ گئے۔ جب رکشہ رُکا تو نواب کی والدہ نے کھڑکی میں سے نواب کے چچا کو رکشہ سے اترتے ہوئے دیکھ لیا اور دوسرے کمرے میں چلی گئیں اور موجود لوگوں سے کہہ دیا کہ نواب کے چچا کو ان کی موجودگی کی بابت نہیں بتائیں !

نواب کے چچا نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک لڑکے نے دروازہ کھولا وہ اندر داخل ہوئے۔ نواب کی نانی سامنے ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے بیٹھتے ہی کہا ’’چچی غضب ہو گیا، نواب کا صبح ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے ، وہ اسپتال میں پڑا ہوا ہے اُس کی امّی نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے کہ وہ سوٹ کیس لے آؤں جو پرسوں انھوں نے تمھارے پاس رکھوایا تھا۔ ‘‘

نواب کی نانی نے کہا ’’ہمارے گھر میں تو ایسا کوئی سوٹ کیس نہیں ہے۔ تم کونسے سوٹ کیس کی بات کر رہے ہو؟‘‘

ارے وہی کالا سوٹ کیس جو پرسوں شام میں وہ تمھارے گھر چھوڑ گئی تھیں ،وہ فوراً مجھے دے دو نواب کی حالت بہت خراب ہے۔ ‘‘

لیکن نواب کو کیا ہواکیسے اس کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا اور وہ کونسے اسپتال میں ہے ؟‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’ایک ٹرک والے نے اُس کے اسکوٹر کو ٹکّر ماردی ،وہ میو اسپتال ناگپور میں ہے اور اُس کے امّی بھی صبح سے اسپتال میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ انھوں نے مجھے صبح ہی بلوایا اور سوٹ کیس لانے کے لیے تمھارا نام بتایا اور مجھے یہاں بھیجا ہے۔ جلدی کرو ورنہ دیر ہو جائے گی اور نواب کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ چاہو تو ٹیلی فون کر کے نواب کے گھر سے معلومات کر سکتی ہو!‘‘

نواب کی والدہ بازو کے کمرے میں چھپ کر یہ ساری باتیں سن رہی تھیں۔ آخر ان سے برداشت نہیں ہوا اور غصّے میں تمتما کر وہ اُس کمرے میں آئیں جہاں نواب کے چچا بیٹھے ہوئے تھے۔ نواب کی امّی کو دیکھ کر ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ نواب کی امّی نے کڑک کر کہا ’’تم نے یہاں آنے کی ہمّت کیسے کی اور میرے بیٹے کو کون سے اسپتال میں چھوڑ کر یہاں آئے ہو اور کونسا سوٹ کیس میں نے تم سے منگوایا ہے۔ نکل جاؤ یہاں سے ورنہ جوتے مار کر تمھارا منھ لال کر دو گی۔ ‘‘

نواب کی والدہ کے منھ سے یہ باتیں سن کر وہ سکتے میں آ گئے۔ اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور پھر نواب کی امّاں کو مخاطب کر کے کہا ’’بھابی چوری کا پورا مال تم اکیلے ہی نہیں دبا سکتیں مجھے میرا حصّہ چاہئے نہیں تو پورے گھر کو جیل کی ہوا کھلوا دوں گا۔ ہاں سیدھی طرح مجھے میرا حصّہ دے دو، ورنہ سارے مال سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور جیل بھی جانا پڑے گا۔ میں جا رہا ہوں شام میں گھر میں آؤں گا، اور اگر مجھے میرا حصّہ نہیں ملا تو پھر تم سمجھ لینا ،تمھارا اور تمھارے بیٹے کا کیا انجام ہو  سکتا ہے !‘‘

اتنا کہہ کر وہ تیزی سے گھر سے باہر چلے گئے۔ یہاں سارے لوگ سمجھ ہی نہیں پائے کہ دراصل معاملہ کیا ہے۔ نواب کی امّاں نے بھی سوچا کہ واقعی اگر اُس نے پولس میں خبر کر دی تو سارے کے سارے لوگ حوالات میں بند ہو جائیں گے۔ وہ تھوڑی دیر وہاں رُکی رہیں۔ جس بات کو وہ راز رکھنا چاہتی تھیں وہ بات عیاں ہو گئی تھی اور اتنے روپئے وہاں رکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ کچھ دیر تک وہ وہاں بیٹھی اطمینان سے ہر چیز پر غور کرتی رہیں ، پھر انھوں نے سوٹ کیس اور اٹیچی لی اور وہاں سے روانہ ہو گئیں۔

شام میں گھر پہنچ کر نواب کی والدہ نے نواب کو اُس کے چچا کی ساری بات بتا دی۔ تب نواب کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ آخر دونوں فون خراب کیسے ہو گئے۔ نواب بے حد پریشان ہو گیا۔ اُس نے اپنی امّی سے کہا ’’امّی اِس فتنے کو ٹالنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ اُنھیں ہمارا راز معلوم ہو گیا ہے لیکن شاید ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہمیں کتنی دولت ملی ہے اب بہتر یہی ہو گا کہ اس معاملے کو کسی بھی طرح رفع دفع کیا جائے بات جتنی پھیلے گی، اتنا زیادہ ہمارا نقصان ہو گا۔ ‘‘

نواب کی والدہ نے کہا ’’نواب، تیرا کہنا ٹھیک ہے لیکن ہم کب تک اُن کی مانگ مانتے رہیں گے۔

نواب نے کہا ’’امّی کچھ دے دلا کے اُنھیں فی الحال تو خاموش کر دیتے ہیں۔ آگے جیسے بھی حالات ہوں گے اس مطابق ہم کام کریں گے اور تم ایسا کرو کہ کہیں چلی جاؤ۔ میں اکیلے میں چچا جان سے اطمینان سے بات کروں گا۔

نواب کی والدہ نے کہا ’’ہاں بیٹا تو ٹھیک کہتا ہے ، اُسے دیکھ کر ہی میرا خون کھول اُٹھے گا۔ تجھے جیتے جی مارنے پر لگا ہوا ہے وہ۔ اچھا میں جاتی ہوں۔ ‘‘

اُسی وقت نواب کی والدہ نے شال اوڑھی اور گھر سے نکل گئیں۔ ابھی اُس کی والدہ کو گئے پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ نواب کی اسکول کے صدر مدرس اور تین اساتذہ اُس کے گھر آ گئے۔ نواب نے اُنھیں عزت سے بٹھایا۔ ان کے لئے کافی منگوائی۔ صدر مدرس نے نواب سے کہا ’’نواب ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے جب ہم تمھاری ترقی کی باتیں سنتے ہیں۔ اﷲ نے تمھیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ بچوں کو ہم تمھاری مثال دیتے ہیں۔ آنے والے اتوار کو اسکول کی سوشل گیدرنگ کا جلسۂ  تقسیمِ انعامات ہے ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم اس جلسہ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرو۔

نواب نے کہا ’’سر یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے کہ میں اپنے اساتذہ کے سامنے مہمانِ خصوصی بن کر بیٹھوں ، میں آؤں گا ضرور لیکن اسٹیج پر نہیں بیٹھوں گا اور مہربانی کر کے میرا نام بھی جلسہ کے کارڈ میں مت چھاپیے۔‘‘

ہیڈماسٹرصاحب نے کہا ’’نہیں یہ کیسے ہو  سکتا ہے ہم تمھارا نام کارڈ میں دیں گے اور تمھیں اسٹیج پر بیٹھنا بھی پڑے گا۔

نواب نے کہا ’’نہیں یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ میں آؤں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔ جس ادارہ سے میں نے تعلیم حاصل کی ہے میری ہمدردیاں اس سے جڑی ہوئی ہیں اور ان سب سے بڑھ کر جب میرے والد کا انتقال ہوا تھا تو اسٹاف کی جانب سے جو پانچ سو روپئے کی مجھے امداد دی گئی تھی وہ کسی بھی طرح ہزاروں سے کم نہیں تھی۔ اُس پانچ سو روپئے نے مجھے کس قدر سہارا دیا ہے میں بیان نہیں کر  سکتا۔ میں آؤں گا اور ضرور آؤں گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے تو ہم چلتے ہیں۔ پروگرام کا کارڈ ایک دو دن میں تم کو مل جائے گا،‘‘

ہیڈماسٹر صاحب اور ان کے ساتھی اساتذہ اٹھنے لگے تو نواب نے انھیں دو منٹ رُکنے کو کہا پھر اندر کمرے میں گیا اور اسکول کے نام سے ڈھائی لاکھ روپئے کا چیک لا کر صدر مدرس کو دیا اور کہا ’’سر یہ ایک چھوٹی سی رقم کا چیک ہے ، اس سے آپ اسکول میں جو بھی کام چاہیں کرواسکتے ہیں۔ بارہ سال میں نے اس اسکول میں تعلیم حاصل کی لیکن مجھے کبھی فیس تک ادا نہیں کرنی پڑی، یہاں تک کہ ڈریس اور کاپی کتابیں بھی اسکول سے مل جایا کرتی تھیں۔ آج اﷲ کے فضل و کرم سے میں اِس قابل ہوں کہ اسکول کا یہ قرض اتار سکوں ‘‘

صدر مدرس صاحب نے چیک لے لیا نواب کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چلے گئے۔ نواب اپنے چچا کا انتظار کرنے لگا۔

شام کے سات بجے تھے۔ اس کے چچا گھر کے دروازے پر آئے اور زور زور سے دروازہ تھپتھپانے لگے۔ نواب اُٹھ کر دروازہ پر آیا اپنے چچا کو سلام کیا اور ہاتھ پکڑ کر انھیں گھر میں لایا اور صوفے پر بٹھا دیا۔ نواب کے چچا کے چہرے پر غصّے اور کرختگی کے آثار نمایاں نظر آ رہے تھے۔

نواب نے اپنے چچا سے کہا ’’چچا جان دھامن گاؤں میں جو واقعہ ہوا امّی نے اُس کی بابت مجھے بتا دیا ہے دراصل انھیں غصّہ اِس بات پر آیا کہ آپ نے میرے ایکسی ڈنٹ کی جھوٹی بات میرے نانا نانی کو بتائی۔ بتائیے یہ کہاں تک مناسب ہے ؟‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’پورا مال تم ہضم کر جاؤ اور میں منھ دیکھتا رہ جاؤں۔ راتوں رات تم دونوں نے رقم غائب کر دی وہ تو اچھا ہوا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے بھابی جان کو سوٹ کیس لے جاتے ہوئے دیکھ لیا، اب یہ بتاؤ کہ میرا حصّہ مجھے دیتے ہو یا نہیں !‘‘

نواب نے کہا ’’پہلی بات تو یہ کہ میری کمائی میں آپ کا حصّہ بنتا ہی نہیں۔ رہی باقی رقم کی بات تو وہ بابا کی امانت ہے ، چلیے بابا سے چل کر بات کر لیجئے ، کہیں گے تو میں دے دوں گا۔

نواب کے چچا نے کہا ’’نہیں ! نہیں !! میں بابا کے پاس کیوں جاؤں۔ میں بابا کے پاس نہیں جاؤں گا۔ وہ تم جانو اور بابا جانیں۔ مجھے میرا حصہ ملنا چاہئے۔ بس۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے ، آپ کو آپ کا حصّہ مل جائے گا۔ آپ کوئی پلان (منصوبہ) بنا کر لائیے میں اس میں پیسہ لگاؤں گا۔

پلان ! میں کیا پلان بناؤں بس مجھے تو پیسے چاہئے۔

پلان سے میرا مطلب یہ ہے کہ کوئی بزنس کرنا ہے۔ کوئی مکان بنانا ہے یا کہیں لاج یا ہوٹل وغیرہ بنانا ہے تو مجھے بتا دیجیے میں آپ کو دھیرے دھیرے پیسے دیتا چلا جاؤں گا، آپ کی ایک چیز بھی ہو جائے گی۔ آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں میرے جو بھی رشتے دار آ رہے ہیں سب کو میں کام دھندے سے لگاتا جا رہا ہوں۔ پھر آپ نے میرے والد کی مدد کی ہے میں آپ کو کیسے انکار کر  سکتا ہوں۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ میری بات!

نواب کے چچا نے کہا ’’ہاں وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ابھی مجھے دو لاکھ روپئے چاہیے بعد کی بات بعد میں سوچیں گے۔

نواب نے کہا ’’چچا جان ابھی تو پیسے میرے پاس نہیں ہیں۔ امّی کے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ابھی غصّہ میں ہیں۔ میرے ایکسی ڈنٹ کی بات سن کر وہ غصّہ سے بے قابو ہو گئی ہیں۔ آپ ابھی جایئے پرسوں میں آپ کو پیسے دے دوں گا اور مہربانی کر کے گھر مت آیئے میرے آفس میں آیئے آپ کو دیکھ کر امّی کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ میرے ایکسی ڈنٹ کی بات آپ کو نہیں کرنی چاہئے تھی!‘‘

 ’’ہاں مجھے بھی اس بات کا افسوس ہے میں شرمندہ ہوں اچھا میں چلتا ہوں پرسوں میں آؤں گا‘‘

 ’’ہاں ٹھیک ہے جایئے اور آفس میں آ کر مجھ سے ملاقات کیجئے۔ ‘‘

اُس کے چچا اُٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد اس کے ساتھ بیل گاڑی چلانے والا ایک شخص آیا اور اُس نے بتایا کہ ملٹری کے ایک پرانے بیرک کی لکڑیوں کی نیلامی ہونے والی ہے۔ پرانی ساگوان اور شیشم کی لکڑیوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ کامٹی میں تو کوئی اُسے لینے کی ہمت بھی نہیں کر  سکتا۔ ناگپور کے بیوپاری اونے پونے داموں میں لے کر چلے جائیں گے۔

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے کل میرے ساتھ چل کر مجھے دکھا دینا پھر دیکھیں گے کہ مال لے سکتے ہیں یا نہیں۔‘‘

نواب کے پاس جب سے دولت آئی تھی اس نے بیل گاڑی چلانا بند کر دیا تھا۔ بیل گاڑی ایک کونے میں پڑی ہوئی تھی اور بیل ایک سائبان میں بندھے رہتے تھے۔ نواب بیلوں کا بے حد خیال رکھتا تھا، نواب نے ایک موٹر سائیکل اور جیپ گاڑی خرید لی تھی۔ لکڑیاں لانے لے جانے کے لیے ایک ٹرک بھی اُس نے خرید لیا تھا۔

رات میں اس کی والدہ گھر آئیں تو اُس نے چچا سے ہونے والی بات تفصیل سے اُنھیں بتا دی۔ وہ اپنی جگہ مطمئن ہو گئیں۔

دوسرے دن صبح اپنے ساتھی کے ساتھ وہ ملٹری کے بیرک گیا۔ بڑے بڑے کمروں سے نکلے ہوئے بتّے ، شہتیر دروازے ، کھڑکیاں اور فرنیچر کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ نواب نے دل میں سوچا کہ اپنے پیسے کو کاروبار میں لگائے گا تو کسی کو اُس پر شک بھی نہیں ہو گا۔ اُس نے طے کر لیا کہ چاہے جتنی بھی بولی لگانی پڑے مال تو وہ ہی خریدے گا۔

ملٹری ایریا سے واپس آنے کے بعد نواب نے سوچا کہ اگر سارا مال اُس نے خرید لیا تو اس مال کو رکھنے کے لئے اس کے گھر کے اطراف کی جگہ نا کافی ہو گی۔ پھر یہاں کام کرنے سے بابا کو بھی ان کے کاموں میں خلل پڑے گا۔ اُس کے گھر سے تھوڑی دوری پر پانچ ہزار اسکوئر فٹ کا ایک خالی پلاٹ فروخت ہونے کو نکلا تھا دلال اس کے پاس کئی بار آ کر کاغذات دکھا چکے تھے۔ جگہ بہت موقع کی تھی۔ قریب بھی تھی اُس نے سوچا کہ وہ جگہ خرید کر بابا کے لیے وہاں ایک اچھا سا آستانہ بنا دے گا اور اپنے گھر کے اطراف کی پوری جگہ کباڑ کا سامان رکھنے میں استعمال کرے گا۔ اِس بات کے دماغ میں آتے ہی اُس نے دلال کی معرفت بات چلائی اور پوری زمین پانچ لاکھ میں بابا کے نام سے خرید لی۔ وہاں پر بابا کے لیے عالیشان آستانہ بنوانے کا کام شروع کروا دیا۔

تیسرے دن نواب کے چچا شام میں اس کے آفس میں آ گئے۔ نواب نے انھیں دو لاکھ روپئے دیئے اور کہا اب مجھ سے یوں پیسے مانگنے مت آیئے۔ کوئی پلان بنے تو مجھے آ کر خبر دینا۔ ‘‘ دو لاکھ روپئے پا کر نواب کے چچا کا دل خوشی سے بلیّوں اچھلنے لگا۔ وہ بولے۔ نہیں بیٹا اب کوئی بہت ضروری کام ہو گا تو ہی میں آؤں گا۔ اتنا کہہ کر وہ چلے گئے۔ ‘‘

اِدھر اُس کی بیل گاڑی کے بیل بھی اُس کے لئے غیر ضروری ہو گئے تھے۔ اُس نے اپنی والدہ سے بیلوں کی بابت بات کی، تو اُس کی والدہ نے کہا ’’بیٹا ان بیلوں نے ہم کو بہت سہارا دیا ہے۔ ایسا کر یہ بیل جن کے ہیں ان کو واپس کر دے ، پتہ نہیں کیسے حالات میں انھوں نے یہ جانور بیچے ہوں گے۔ ‘‘

نواب کو اپنی امّی کی یہ بات بے حد پسند آئی۔ اُسی وقت وہ گاڑی لے کر کلمنا مارکیٹ گیا اُس نے اُس دلال کو تلاش کیا جس سے بیل لیے تھے۔ اُس سے مل کر نواب نے کہا ’’کاکا آپ نے ساؤنیر کے سرپنچ شاہد علی خان کے کہنے پر مجھے دو بیل دیے تھے ایک کتھئی رنگ کا اور ایک سفید!

دلال نے کہا ’’ہاں مجھے یاد ہے اچھی طرح یاد ہے۔ کاکا مجھے اب ان بیلوں کی ضرورت نہیں ہے یہ بیل جن کے ہیں اُنھیں واپس کر دو۔ ‘‘

 ’’لیکن وہ لیں گے تب نا۔ ‘‘

 ’’ارے کاکا۔ مجھے ان سے پیسے نہیں لینا ہے۔ بس ان کے بیل ان کے پاس چلے جائیں۔ ان بیلوں سے میں نے لاکھوں روپئے کمائے۔ انھیں بیچ کر میں بیلوں کی نظروں میں ذلیل نہیں ہونا چاہتا۔ آپ دونوں بیلوں کے مالکوں کو میرے گھر لے آؤ میں رسّی انھیں تھما دوں گا۔ ‘‘

دلال نے کہا ’’ٹھیک ہے میں سمجھ گیا۔ یہ بڑی نیکی کا کام ہے تمھیں جانوروں اور ان کے مالکوں کی بہت دعائیں ملیں گی! میں کل ہی دونوں کو لے کر تمھارے گھر آ جاؤں گا۔ تم مجھے اپنا پتہ بتا دو۔ ‘‘

 ’’پتہ کیا ہے کاکا کولسا ٹال میں کسی سے بھی پوچھ لینا نواب بنڈی والا کہاں رہتا ہے کوئی بھی تمھیں بتا دے گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے بیٹا۔ کل میں آ رہا ہوں !‘‘

نواب نے کہا۔ ’’اچھا کاکا میں چلتا ہوں میں تمھارا انتظار کروں گا۔ ‘‘

دوسرے دن جانوروں کا دلال دونوں جانوروں کے مالکوں کو نواب کے گھر لے آیا۔ ایک تو بیوہ عورت تھی جس کا کتھئی رنگ کا بیل تھا اور دوسرا ایک غریب کسان تھا جس نے قرضہ ادا کرنے کے لئے اپنا بیل بیچ دیا تھا۔ دونوں کو ان کے جانور مل گئے ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا وہ نواب کے پیر چھونے لگے۔ نواب نے انھیں منع کیا اور وہ لوگ اپنے جانوروں کو لے کر خوشی خوشی وہاں سے چلے گئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۴

نیلام میں سب سے اونچی بولی لگا کر نواب نے ملٹری کے بیرک کی پوری لکڑیاں خرید لیں اور ٹرکوں میں ڈال کر اپنے گھر کے احاطے میں لا کر ڈھیر کر دیا۔ ناگپور کامٹی کے بیوپاری، آرا مشین والے اور لکڑی کے فرنیچر بنانے والے اس کے پاس آتے مال خرید کر لے جاتے۔

اِس طرح پرانی چیزوں کا جہاں کہیں اُسے پتہ چلتا تھا خرید کر لے آتا تھا۔ لوگ بھی یہ سمجھنے لگے کہ نواب کو کباڑ کے کاروبار میں کافی نفع حاصل ہو رہا ہے۔

دوست احباب، رشتہ دار، پڑوسی اور جان پہچان کا کوئی بھی آدمی اپنی کسی ضرورت سے آتا تو نواب اُن کی مدد کر دیا کرتا تھا۔ اس لئے پوری بستی میں اُس کی بڑی عزت تھی لوگ نہایت احترام سے اس کا نام لیتے تھے اور اُس کا گن گان کرتے رہتے تھے۔

ایک روز رات میں جب وہ کھانا کھا رہا تھا تو اُس کی والدہ نے کہا ’’بیٹا اگلے مہینے تیرے ابّو کی پہلی برسی ہے !

 ’’ارے ہاں مجھے تو یاد ہی نہیں دسمبر کی ۲۴ تاریخ کو ان کا انتقال ہوا تھا۔ میں اِس موقع پر بڑا پروگرام کروں گا۔ شہر کے ہر چھوٹے بڑے کو دعوت دوں گا ملک کے مشہور میلاد خوانوں کی میلاد کرواؤں گا۔ تب تک بابا کا آستانہ بھی بن کر تیار ہو جائے گا۔ اُسی روز انھیں ان کے نئے آستانے میں منتقل کر دیں گے۔ ‘‘

 ’’ہاں بیٹا۔ یہ بہت اچھا ہو جائے گا۔ نواب کی امّی نے کہا۔

***

اِسی دوران ایک دن نواب کو اس کے خالو شاہد علی خاں کا فون آیا۔ انھوں نے بتایا کہ اگلے ہفتہ گاؤں کی گرام پنچایت کا الیکشن ہے پرچار کے لئے وہ بھی اپنی گاڑی لے کر گاؤں میں آ جایا کرے۔

نواب نے کہا ’’خالو جان آپ بے فکر رہیں میں روزانہ اپنے آدمیوں کے ساتھ وہاں آ جایا کروں گا۔ ‘‘

نواب کی شہرت کامٹی سے نکل کر ناگپور اور اطراف کے تمام گاؤں کھیڑوں میں پھیل چکی تھی۔ شہر میں یا اطراف و جوانب میں کہیں بھی چھوٹا بڑا کوئی بھی پروگرام ہوتا تھا تو لوگ چندہ لینے کے لئے نواب کے پاس ضرور پہنچ جاتے تھے اور کچھ نہ کچھ لے کر ہی جاتے تھے۔ درگاہوں کے عرس ، غریب بچیوں کی شادی، مسجدوں اور مدرسوں کی تعمیر کھیل کود کے پروگرام ، مشاعرے اور ادبی پروگراموں کے لئے چندہ مانگنے والوں کی اس کے دروازے پر بھیڑ لگی رہتی تھی۔

اُس کی فیّاضی اور عنایتوں کی وجہ سے اُس کے چاہنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی۔ کچھ لوگ ہمیشہ اُسے گھیرے رہتے تھے۔

جب اُس کے خالو کا اُسے فون آیا تو دوسرے دن سے روزانہ وہ اپنی گاڑیوں میں دس پندرہ لوگوں کو  بِٹھا کر لے جاتا۔ گاؤں کے ایک ایک آدمی سے اپنے خالو کے لئے ووٹ مانگتا۔ گاؤں کے لوگوں کی جو کوئی ضرورت ہوتی وہ پوری کر دیتا۔ اُس کے پرچار کی وجہ سے اُس کے خالو کی پوزیشن ایسی ہو گئی تھی کہ ان کا چُن کر آنا بالکل طے مانا جا رہا تھا۔ اس کام کے لیے نواب نے پیسہ پانی کی طرح بہا دیا تھا۔

الیکشن کا نتیجہ نکلا تو نہ صرف نواب کے خالوزبردست اکثریتی ووٹوں سے چن کر آئے بلکہ گاؤں میں ان کے گروپ کے زیادہ لوگ بھی بہت ووٹوں سے چُن کر آئے۔ سب نے مل کر انھیں پھر سے پانچ سال کے لئے سر پنچ چن لیا۔

نواب نے ان کی جیت کا بہت شاندار جلوس نکالا۔ جلوس نے پورے گاؤں کا گشت کیا۔ جگہ جگہ اِس جلوس کا استقبال کیا گیا، شاہد علی خاں نے اپنی تقریر میں اپنی کامیابی کے لئے نواب کی کوششوں کی تعریف کی۔

الیکشن سے فرصت پا کر نواب اپنے والد کی برسی کے پروگرام میں مصروف ہو گیا۔ یوپی، بہار حیدر آباد اور دلّی تک سے مشہور و نامور میلاد خوانوں کو دعوت دی گئی۔ ان کے آنے جانے کا کرایہ، رہنے کھانے پینے کا عمدہ بندوبست کیا گیا۔ نذرانے کے طور پر ایک بڑی رقم دینا طے کیا گیا۔

طرح طرح کے کھانے ، مٹھائیاں ، چائے ، پان، کافی، آئس کریم ہر چیز کی تیاری کا انتظام کر لیا گیا تھا۔ اسی دوران بابا کے نئے آستانے کی تعمیر اور رنگ و روغن کا کام بھی چلتا رہا بالآخر ۲۴ تاریخ کو بعد نمازِ مغرب قرآن خوانی ہوئی اُس کے بعد طعام کا سلسلہ شروع ہوا۔ شہر کا ہر چھوٹا بڑا مرد، عورت، امیر، غریب اِس پروگرام میں شریک تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ شہر میں دعوتِ عام ہے۔ ہر کوئی آ رہا ہے ، فیضیاب ہو کر جا رہا ہے۔ بعد نمازِ عشاء میلاد خوانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس پروگرام کے لیے ایک بہت وسیع و عریض شامیانہ لگایا گیا تھا۔ ایک سمت مسَند تھی جس پر بابا بیٹھے ہوئے تھے ، اُسی کے بازو ایک اسٹیج پر تمام میلاد خواں موجود تھے۔ شامیانے کے ایک کونے میں حلوائی بیٹھا ہوا جلیبیاں تل رہا تھا۔ اُسی کے بازو ایک کاریگر گرما گرم بھجیے بنا رہا تھا۔ اُس سے تھوڑے فاصلے پر چائے اور کافی کا انتظام تھا اور وہیں پر ایک پان ٹھیلہ تھا جس میں ہر طرح کے پانوں کے ساتھ بیڑی سگریٹ موجود تھی۔ ہر شخص کو جتنا لگ رہا تھا۔ کھا رہا تھا، پی رہا تھا، سینکڑوں لوگ رات بھر میلاد خوانی کے جلسے میں موجود رہے اور حسبِ ضرورت جلیبی، بھجیے ، چائے ، پان اور سیگریٹ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

میلاد خوانوں پر نواب نے نوٹوں کی بوچھار کر دی بابا کے پاس دس، بیس اور سو کے نوٹوں کی گڈیاں رکھی ہوئی تھیں جس کے نوٹ وہ ہر میلاد خواں ہر نچھاور کر رہے تھے۔

شہر کے لوگوں نے کسی شخص کی برسی کا ایسا پروگرام نہ تو دیکھا تھا اور نہ سنا تھا۔ رات بھر پروگرام چلتا رہا اور فجر کی اذان کے وقت پروگرام ختم کر دیا گیا۔ وہیں سے بابا کو اُن کے نئے آستانے میں پہنچا دیا گیا۔

پروگرام ختم ہونے کے بعد نواب گھر میں آیا اور سو گیا، کافی دن چڑھے تک سوتا رہا۔ وہ سو کر اُٹھا ہی تھا کہ ۱۱ بجے کے قریب پولس کے دو سپاہی نواب کے گھر آئے اور انھوں نے نواب سے کہا کہ پی آئی صاحب نے اُسے تھانے میں بُلایا ہے۔

نواب نے سپاہیوں سے کہا ’’ٹھیک ہے میں منھ ہاتھ دھو کر پہنچ رہا ہوں ‘‘

سپاہی چلے گئے تو نواب کی والدہ نے کہا ’’کیوں نواب کیا بات ہے ؟یہ پولس والے کیوں آئے تھے ؟‘‘

نواب نے کہا ’’پولس انسپکٹر نے مجھے تھانے بلوایا ہے۔ ہو  سکتا ہے کچھ پوچھ تاچھ کرنا چاہتا ہو میں جا کر دیکھتا ہوں۔ ‘‘

 ’’کہیں بیٹا تیرے چچا نے تو شکایت نہیں کر دی؟‘‘

 ’’نہیں امّی وہ کیوں شکایت کریں گے انھیں تو ان کی منھ مانگی رقم مل گئی ہے۔ امّی آپ فکر نہ کریں میں معاملے کو سمجھ لوں گا۔ ‘‘

نواب نے غسل کیا، ناشتہ کیا، اپنے دو دوستوں کو لیا اور تھانے پہنچ گیا۔ جو سپاہی اُسے بلانے آئے تھے انھوں نے نواب کو پی آئی کے کیبن میں پہنچا دیا۔

نواب پی آئی کے کیبن میں داخل ہوا تو پی آئی نے اُسے کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور اُس کے ساتھ جو لوگ گئے تھے اُن سے کہا کہ وہ باہر رُکیں نواب سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔ اس کے دونوں دوست باہر آ کر بینچ پر بیٹھ گئے۔

نواب کرسی پر بیٹھ گیا تو پی آئی نے سپاہی سے کہا ’’دیکھو باہر کھڑے رہو کسی کو اندر مت آنے دینا۔ ‘‘

سپاہی سلام کر کے باہر نکلا اور دروازے پر آ کر کھڑا ہو گیا۔

پی آئی نے نواب کو مخاطب کر کے کہا ’’نواب صاحب! شہر میں آجکل بڑے چرچے ہیں آپ کے !‘‘

نواب نے کہا ’’بس صاحب یونہی! کوئی خاص بات نہیں ہے !‘‘

 ’’خاص بات تو ہے۔ کل رات جو پروگرام تم نے کیا اس کا چرچا تو شہر ہی میں نہیں شہر سے باہر بھی ہے۔ بہت شاندار پروگرام کیا تم نے !‘‘

 ’’بس صاحب! امّی کی تمنّا تھی کہ والد صاحب کی برسی مناؤ، منا لی۔ ‘‘

 ’’اور گذشتہ دنوں ساؤنیر میں اپنے خالو کے لئے بھی پرچار کا زبردست کام کیا تم نے۔ کافی محنت کی کافی پیسہ بھی خرچ کیا۔ ‘‘

 ’’صاحب اُن کے میرے اوپر کئی احسانات ہیں۔ ان کے لئے کام کرنا میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔ ‘‘

 ’’اور مومن پورہ بکرا منڈی میں تمھارا کوئی رشتہ دار ہے اُسے تم نے مکان دلوایا اور اس کے لئے سوٹ کیس بنانے کا کارخانہ بھی لگا دیا۔ ‘‘

 ’’نہیں صاحب میں نے صرف مکان خریدنے اور کارخانہ لگانے میں اُسے صلاح مشورہ دیا ہے باقی سب اُس کا ہے۔ ‘‘

 ’’اچھا! اور بابا کے لئے آستانہ کی تعمیر اور جگہ کی خریدی؟‘‘

وہ تو بابا کے پیسوں کا ہے۔ لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے ، بابا کو نذرانے دیتے ہیں۔ اُنھیں پیسوں سے وہ سب بنا ہے ؟‘‘

دیکھو نواب صاحب۔ تمھاری سخاوت اور فیاضی کے کافی قصّے مشہور ہو چکے ہیں لوگ تمھیں دورِ حاضر کا حاتم طائی سمجھ رہے ہیں۔ صرف ایک سال میں بیل گاڑی چلانے والے ایک معمولی سے لڑکے کے پاس اتنا کچھ ہو جانا لوگوں کو شک میں ڈال دیتا ہے۔ تم سے جو لوگ جلتے ہیں وہ میرے پاس آ کر شکایت بھی کرتے ہیں اور اب مجھے آ کر تمھارے گھر کی تلاشی لینی پڑے گی تحقیقات کرنی پڑے گی، کہ یہ لاکھوں روپئے تمھارے پاس کیسے آئے ؟ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اِس کمائی پر تم نے اِنکم ٹیکس دیا ہے یا نہیں۔ تمھارے گھر کے احاطے میں جو مال رکھا ہوا ہے وہ خریدا ہوا ہے ، یا کہیں سے چُرا کر لایا گیا ہے۔ اُس کی رسید ہے یا نہیں اور جو مال فروخت ہو  چکا ہے اس کا حساب کتاب ٹھیک سے رکھا گیا ہے یا نہیں !‘‘

نواب نے کہا ’’صاحب پورے مال کا حساب ہے ، ایک ایک پیسے کا حساب ہے ، آپ آ کر چیک کر لیجئے۔ ‘‘

 ’’اور انکم ٹیکس کی ادائیگی کا حساب، مکان کی تعمیر کا حساب، گاڑیوں کی خرید کا حساب، ڈھائی لاکھ روپئے جو تم نے اسکول کو دیے ہیں اس کا حساب!‘‘

ہے نا صاحب، ہر ایک چیز کا حساب ہے۔ میں نے ان کاموں کے لئے ایک بابو رکھا ہوا ہے ، وہ ہر چیز کا حساب رکھتا ہے۔ ‘‘

اور ہاں گجری بازار میں ایک سائیکل کی دوکان شروع ہوئی ہے 50 بالکل نئی سائیکلیں ہیں۔ دوکان میں معلوم ہوا ہے کہ دوکان تمھارے بھانجہ کی ہے ؟

 ’’ہاں صاحب وہ میرا بھانجہ ہے لیکن اُس نے اپنے پیسوں سے دوکان لگائی ہے۔ ‘‘

 ’’لیکن اُس کا باپ تو ہاتھ ٹھیلا چلاتا ہے اُس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آ گئے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے سائیکل والے کو چیک دیا ہے۔ ‘‘

 ’’وہ صاحب ! ان کے پیسے میرے پاس جمع تھے۔ اس کے والد میرے پاس روزانہ پیسے جمع کرا دیا کرتے تھے اُنھیں کے پیسوں سے وہ دوکان لگی ہے۔ ‘‘

پی آئی نے کہا ’’کل تمھارے گھر میں دعوت تھی ہزاروں لوگوں کو تم نے دعوت دی۔ ہم بھی تو اِسی بستی میں رہتے ہیں ؟ کیا تم نے ہم کو اس لائق نہیں سمجھا؟‘‘

 ’’صاحب وہ تو عام لوگوں کی دعوت تھی۔ آپ کے لئے الگ سے انتظام کروں گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے تم انتظام کرو ہم ضرور آئیں گے اچھا تو کل میں تمھارے آفس میں آ رہا ہوں حساب کتاب دیکھنے کے لئے۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے نا صاحب! آئیے ضرور آئیے کس وقت آئیں گے آپ؟‘‘

 ’’میں ۱۱ بجے کے بعد پہنچوں گا۔ جگہ پر موجود رہنا، بھاگ مت جانا۔ ‘‘

نہیں صاحب میں موجود رہوں گا۔ اچھا میں چلتا ہوں ‘‘ اتنا کہہ کر نواب کھڑا ہو گیا۔ تب پی آئی نے اُس سے کہا ’’ٹھیک ہے جاؤ لیکن تم نے وہ کہاوت سنی ہے یا نہیں کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں رکھنا چاہیے۔

نواب نے کہا ’’صاحب سنی بھی ہے ، پڑھی بھی ہے۔ میری کیا مجال کہ میں آپ لوگوں سے دشمنی مول لوں ! آپ لوگوں کے زیرِ سایہ ہی مجھے اپنا کاروبار کرنا ہے۔ ٹھیک ہے صاحب کل صبح گیارہ بجے آپ ضرور آئیے ، میں چلتا ہوں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر نواب پی آئی کے آفس سے نکل کر باہر آ گیا اُس نے رومال سے چہرے کا پسینہ پونچھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے آفس میں آ کر بیٹھ گیا۔ اُس کے ایک دوست نے پوچھا ’’کیا کہہ رہا تھا پی آئی ؟

نواب نے کہا ’’کچھ لوگوں نے میرے خلاف شکایت کی ہے۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ میرے پاس یہ پیسے کہاں سے آئے۔ چلو کوئی خاص بات نہیں ہے اِس دھندے میں تو یہ سب چلتا ہی رہتا ہے ! یہ کہہ کر اس نے بات ختم کر دی۔ ‘‘

دوسرے دن صبح گیارہ بجے پولس انسپکٹر کی جیپ نواب کے مکان کے سامنے آ کر رکی۔ پولس انسپکٹر دو سپاہیوں کے ساتھ گاڑی سے اُترا۔ نواب اُس کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ اُنھیں ساتھ لے کر اپنے آفس کے کیبن میں آیا۔ دونوں سپاہی باہر ہی کھڑے رہے۔ جب انسپکٹر کرسی پر بیٹھ گیا تو نواب نے کہا ’’صاحب کیا لیں گے آپ۔ ٹھنڈا، چائے ، کافی؟

 ’’بس! کچھ بھی نہیں۔ سب سے پہلے مجھے انکم ٹیکس کی ادائیگی کے کاغذات دکھا دو۔

نواب نے کہا ’’صاحب ابھی تو میرے کاروبار کو شروع ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا ہے انکم ٹیکس کا رٹرن ابھی میں نے بھرا ہی نہیں ہے۔

اچھا ٹھیک ہے ! مجھے اپنی کیش بُک، لیجر بُک اور بیلنس شٹ دکھا دو۔ معلوم تو ہو کہ سال بھر میں تم نے کیا خریدا، کیا بیچا اور اُس میں تمھیں کتنا فائدہ ہوا؟

نواب نے گھنٹی بجائی تو بازو کے کمرے سے بابو نکل کر آیا اور اُس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ نواب نے کہا ’’بابو صاحب اسٹاک رجسٹر، کیش بک، لیجر بک سب لے کر یہاں آ جاؤ۔ ‘‘

بابو نے سارے رجسٹر لا کر انسپکٹر کے سامنے رکھ دیئے۔ اُس نے ایک ایک رجسٹر کو غور سے دیکھا اور تھوڑی دیر بعد اُس نے بابو سے کہا ’’ٹھیک ہے یہ سارے رجسٹر میری گاڑی میں لے جا کر رکھ دو۔ اور ہاں اِس کا اب تک آڈٹ کیوں نہیں کروایا؟‘‘

نواب نے کہا ’’سب کام ہو گا صاحب دھیرے دھیرے ہو گا۔ حساب آڈٹ بھی کروا لیں گے۔ مجھے چند دنوں کا وقت دو۔ ‘‘

 ’’کتنے دنوں کا وقت چاہئے ؟‘‘

 ’’بس ایک ہفتے کا؟‘‘

بابو نے انسپکٹر سے کہا ’’سر ہماری کمپنی رجسٹرڈ فرم نہیں ہے ، اس لیے اِس کا آڈٹ کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

نواب نے بابو سے کہا ’’بابو صاحب، آپ صاحب کو قانون قاعدہ مت سمجھاؤ جو یہ کہتے ہیں وہ کرو!‘‘

انسپکٹر نے بابو سے کہا ’’ٹھیک ہے لے جاؤ یہ سب‘‘۔ ایک ہفتے میں سارا حساب کتاب مکمل کر لو۔

بابو نے پورے رجسٹر اُٹھائے اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ پولس انسپکٹر نے کہا ’’چلو ذرا تمھارے پاس کیا کیا مال ہے وہ تو دکھا دو۔ ‘‘

نواب اُسے لے کر مکان کے احاطے میں آیا ہزاروں روپئے کی لکڑیاں احاطے میں رکھی ہوئی تھیں۔ ان کے قریب پہنچ کر انسپکٹر نے نواب سے کہا ’’تمھارے حساب میں کافی گڑ بڑ ہے۔ ابھی تک صرف ۱۲ لاکھ روپئے کی آمد و خرچ کے حساب کا اندراج ہے جب کہ یہ تمھارا مکان ہی پندرہ لاکھ سے کم کا نہیں ہے۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے نا صاحب میں حساب درست کر لوں گا۔ ‘‘

 ’’تم تو اپنا حساب درست کر لو گے ہمارا حساب کون درست کرے گا؟ مجھے بھی تو لوگوں کو جواب دینا پڑتا ہے !‘‘

 ’’میں ہوں نا صاحب بس آپ حکم دیجئے۔ ‘‘

 ’’دیکھو نواب صاحب تمھارے خلاف بہت سی شکایتیں ہیں۔ اوپر سے بھی تمھاری انکوائری کے آرڈر میرے پاس آئے ہیں۔ مجھے سارے معاملات کو دیکھنا ہے اِس کے لئے مجھے بہت محنت کرنی پڑے گی۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے نا صاحب۔ چلئے آفس میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے چلو‘‘

دونوں آفس میں بیٹھ گئے نواب نے ٹیبل کی ڈرار میں ہاتھ ڈالا سو سو روپیوں کے نوٹوں کی دو گڈیاں پولس انسپکٹر کی طرف کھسکا دیں !

پی آئی نے کہا ’’کتنے ہیں ؟

بیس ہزار!

اس سے کیا ہو گا۔ نواب صاحب نیچے سے لے کر اوپر تک مجھے دیکھنا ہے۔ اگر سب کا منھ بند نہ کیا گیا تو تمھارا دھندا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کم سے کم مجھے پچاس ہزار چاہئے۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے صاحب یہ ابھی آپ رکھیے باقی میں آپ کو تھانے میں پہنچا دوں گا۔ ‘‘

 ’’اچھا ٹھیک ہے ‘‘اتنا کہہ کر پولس انسپکٹر نے نوٹوں کی گڈیاں اپنی جیب میں رکھ لیں اور باہر نکل کر آ گیا پھر نواب کے مکان کی طرف دیکھا اور کہا‘‘ کافی خوبصورت مکان ہے ؟ اچھا ہے ! ‘‘

 ’’جی صاحب مالک کا کرم ہے !‘‘

 ’’اچھا ہم چلتے ہیں تم بھی اپنے کام دھندے میں لگے رہو کبھی کوئی تکلیف ہو تو ہم سے آ کر مل لینا۔ ‘‘

 ’’جی ہاں صاحب، بس آپ لوگوں کی مہربانی چاہئے۔ ‘‘

پولس انسپکٹروہاں سے چلا گیا تو محلے پڑوس کے چند لوگ جو باہر کھڑے رہ کر یہ سب دیکھ رہے تھے نواب کے پاس آئے اور نواب سے پوچھا ’’نواب بھائی،یہ پولس والے کیوں آئے تھے ؟‘‘

 ’’بس یوں ہی تحقیقات کرنے آئے تھے۔ کل کے پروگرام کی بابت دریافت کر رہے تھے۔ اور کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر اُس نے ان لوگوں کو چلتا کیا اور خود آ کر آفس میں بیٹھ گیا۔ اُس کے دوست بھی آفس میں آ کر بیٹھ گئے۔ ایک نے پوچھا ’’کیوں نواب بھائی ،سب ٹھیک طرح سے نِمٹ گیا نا؟‘‘

 ’’ہاں۔ بہت اچھی طرح سے ! اچھا ہے ان کا ساتھ رہے گا تو کاروبار کو اور آگے بڑھائیں گے۔ ‘‘

دوسرے دوست نے کہا ’’لیکن نواب بھائی! پولس والوں کی دوستی اور دشمنی دونوں خطرناک ہوتی ہے ! یہ معلوم ہے کہ نہیں ؟‘‘

 ’’ارے ہم کو کونسی ان سے دوستی یا دشمنی کرنی ہے۔ اپنا کام کرنا ہے۔ اپنا فائدہ ہو گا تو ان کا بھی فائدہ کر دیا کریں گے۔ اُن کو ملا کر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اُن کے پاس بڑی طاقت ہے !قانون کی طاقت!اُس سے لوگوں پر دھاک بھی جمی رہتی ہے۔ ‘‘

آفس میں تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد نواب نے اپنے دوستوں سے کہا ’’ چلو ندی کی طرف سے ہو کر آتے ہیں۔ ٹھنڈی ہوا میں کچھ سکون ملے گا‘‘

نواب اور اس کے دوست گاڑی میں بیٹھ کر ندی کنارے پہنچ گئے پھر پیدل چلتے ہوئے نیچے اُتر گئے اور ایک نسبتاً پرسکون جگہ پر بیٹھ گئے۔ موسم بڑا ہی خوشگوار تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی کنہان ندی کی نرم ملائم ریت پر بیٹھ کر انھیں بڑی ٹھنڈک مل رہی تھی۔ دور ندی میں بچے نہا رہے تھے ، مستی کر رہے تھے ، عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں ، کچھ لوگ مچھلی مارنے کی چھڑیاں لے کر ندی کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں سے امّاں کی درگاہ کا منظر صاف نظر آ رہا تھا۔ ایک قوال ہارمونیم لیے بیٹھا قوالی گا رہا تھا۔ زائرین بیٹھے ہوئے تھے۔ آ رہے تھے اور جا رہے تھے۔ املی کے تناور درختوں کی شاخیں اور پتیاں ہوا کے چلنے سے ڈولنے لگتی تھیں اور ایک ہلکی سی سُریلی آواز فضا میں بکھر جاتی تھی۔ ہوا کا بہاؤ ندی کی طرف ہوتا تو قوال کا کلام بھی کچھ کچھ سنائی دے جاتا تھا۔ بہت دور ایک گھاٹ پر کنارے ٹرک کھڑے ہوئے تھے اور ان میں ریت بھری جا رہی تھی۔ وہیں قریب میں دھوبیوں کا ایک جتھّا کپڑے دھونے اور گیلے کپڑوں کو پھیلانے میں لگا ہوا تھا۔ ندی میں بہت زیادہ پانی نہیں تھا۔ گھُٹنے تک پانی تھا۔ لوگ ندی پار کرتے وقت اپنے کپڑے اوپر چڑھا لیتے تھے۔ نواب اور اس کے ساتھی سگریٹ پینے میں مست تھے ، تبھی ایک طرف سے کچھ شور کی آواز سنائی دی۔ کچھ دوری پر انھوں نے دیکھا تین نوجوان لڑکے ایک لڑکی سے چھیڑ خانی کر رہے تھے اور لڑکی جدھر بھی بڑھتی تھی یہ اُس پر جھپٹنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی پیش دستیوں سے گھبرا کر لڑکی نے شور مچایا اور ایک سمت بھاگنے لگی۔ نوجوان لڑکے بھی اُسے پکڑنے کے لئے دوڑ پڑے۔ یہ دیکھ کر نواب تیزی سے اپنی جگہ سے اُٹھا اور اُس طرف دوڑا جدھر یہ تماشہ ہو رہا تھا۔ نواب کے دوست بھی اُس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ تھوڑی دیر میں وہ اُس لڑکی کے قریب پہنچ گئے۔ لڑکی دوڑتی ہوئی آئی اور نواب کے پیچھے چھپ کر کھڑی ہو گئی اور نواب سے کہا ’’بھیّا، مجھے اِن سے بچاؤیہ میرے ساتھ زبردستی کر رہے ہیں ؟

تب تک نوجوان لڑکے بھی وہاں پہنچ چُکے تھے۔ نواب نے اُن سے کہا ’’یہ کیا ہو رہا ہے ؟

ایک لڑکے نے کہا ’’تم یہاں سے چلے جاؤ۔ یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے ؟

نواب نے کہا ’’آپس کا معاملہ ہے تو گھر میں بیٹھ کر حل کرو، یہاں سب لوگوں کے سامنے تماشہ کیوں کر رہے ہو؟‘‘

دوسرے نوجوان نے کہا ’’تم اپنا کام کرو ہمارے بیچ سے ہٹ جاؤ!‘‘

اتنا کہہ کر اُس لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی نواب نے اُس لڑکے کا ہاتھ پکڑ لیا اور ایک لات اُس کے پیٹ پر ماری۔ لڑکا ریت پر گر پڑا۔ نواب کے دوستوں نے بھی دوسرے دونوں نوجوانوں کی پٹائی شروع کر دی۔ لڑکی تو وہاں سے نکل کر بھاگ گئی۔ یہاں نواب اور اُس کے دوستوں نے لڑکوں کو اِس بری طرح سے مارا کہ وہ اَدھ مرے ہو گئے۔ کسی کا سر پھوٹ گیا، تو کسی کی ناک سے خون بہنے لگا۔ اُنھیں اُسی طرح چھوڑ کر نواب اپنے دوستوں کے ساتھ ندی پار کر کے اپنی گاڑی تک آیا اور پھر نواب کی گاڑی ناگپور کی طرف روانہ ہو گئی۔ ناگپور میں ایک ہوٹل میں انھوں نے کھانا کھایا اور وہاں سے کامٹی واپس آ گئے۔ نواب جب اپنے گھر آیا تو اُس نے دیکھا اس کے گھر کے اطراف مجمع لگا ہوا تھا۔ دو تین پولس والے بھی وہاں موجود تھے۔ جیسے ہی اُ س کی گاڑی رُکی کچھ لوگ چلّانے لگے ’’مارو انھیں ان لوگوں نے ہی ہمارے بچّوں کو مارا ہے۔ ‘‘ یہ آواز سن کر مجمع میں ایک شور اُٹھا نواب تیزی سے گاڑی سے اتر کر نیچے آیا سب کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اُس کے دوست بھی اُس کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے تبھی پولس والے نواب کے پاس آئے اور نواب سے کہا ’’چلو پی آئی صاحب نے تمھیں بُلایا ہے ، پھر پولس والے نے چلّا کر کہا ’’جاؤ یہاں سے قانونی کام میں اڑنگا مت ڈالو‘‘ جاؤ اپنے اپنے گھروں کو کوئی یہاں نہیں رُکے گا۔

لوگ اِدھر اُدھر بکھر گئے ، نواب اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا تینوں سپاہی بھی جیپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی وہاں سے پولس تھانے کی سمت روانہ ہوئی۔ راستے میں نواب نے پولس والے سے کہا ’’ہوا کیا ! معاملہ کیا ہے ؟

سپاہی نے کہا ’’ندی کنارے جن لڑکوں کو تم نے مارا ہے ان میں سے دو کی حالت بہت خراب ہے اُنھیں اُٹھا کر لوگ پولس تھانے لے کر آئے تھے۔ پھر اُنھیں اسپتال بھجوا دیا گیا۔ دو لڑکے ابھی تک ہوش میں نہیں آئے ہیں۔ ایک کی ناک سے خون کا بہنا بند ہی نہیں ہو رہا ہے ، تھانے میں بھی مجمع لگا ہوا ہے۔ ندی کنارے موجود لوگوں نے تمھیں پہچان لیا تھا۔ ان لڑکوں کے رشتے داروں نے تمھارے خلاف رپورٹ لکھوائی ہے۔

نواب کی گاڑی تھانے کے قریب پہنچی تو وہاں پہلے سے کافی لوگ موجود تھے۔ سپاہی اُنھیں لے کر اندر داخل ہوئے اور تھانے میں ایک بینچ پر اُنھیں بٹھا دیا۔ پھر پی آئی نے نواب کو اپنے کیبن میں بلایا اور اُس سے پوچھا ’’ندی کنارے تم نے تین نوجوانوں کو بُری طرح مارا ہے ، جن میں سے دو کی حالت بہت خراب ہے۔ تیسرے نوجوان نے بتایا کہ اُن کے ندی میں کھیل کرنے سے پانی کے چھینٹے تم پر آئے اور تم لوگوں نے اُنھیں بُری طرح مارا۔

نہیں صاحب وہ ایک لڑکی کے ساتھ زبردستی کر رہے تھے اُسے ستا رہے تھے ہم نے روکا تو ہم سے اُلجھ پڑے بس اسی میں یہ سب کچھ ہو گیا؟

کون ہے وہ لڑکی؟ کہاں ہے وہ لڑکی؟

لڑکی تو وہاں سے بھاگ گئی، اور ہم لوگ بھی وہاں سے چلے گئے۔

پی آئی نے کہا ’’دیکھو نواب! یہ تینوں لڑکے ناگپور کے کالج کے اسٹوڈنٹس ہیں۔ اِن لڑکوں میں سے ایک لڑکا ناگپور کے کونسلر کا لڑکا ہے۔ اُس کی طرف سے کئی لوگ یہاں آ  چکے ہیں اور کئی بڑے لوگوں کے فون بھی آ  چکے ہیں۔ مجھے تمھاری گرفتاری دکھانی ہو گی!

 ’’صاحب ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہم نے یہ سب ایک لڑکی کو بچانے کے لئے کیا ہے ؟‘‘

 ’’لیکن وہ لڑکی کہاں ہے ؟ وہ لڑکی اگر اپنا بیان لکھا دے تو تمھیں میں چھوڑ سکتا ہوں۔ ورنہ کورٹ سے تمھاری ضمانت ہو گی۔ ‘‘

نواب کی گرفتاری کی خبر سن کر اُسے چھڑانے کے لئے بہت سے لوگ آئے۔ نواب کی والدہ ایک وکیل کو ساتھ لے کر آئیں لیکن پی آئی نے کسی کی بات نہیں سنی اور نواب اور اُس کے دونوں دوستوں کو حوالات میں بند کر دیا۔

جب لوگ چلے گئے تو پی آئی نے نواب اور اُس کے دوستوں کو حوالات سے نکال کر الگ ایک کمرے میں بھجوا دیا اور نواب سے کہا ’’رات بھر یہاں آرام کرو۔ جس چیز کی ضرورت ہو سپاہی سے منگوا لینا۔ شام میں گھر سے کھانا آ گیا۔ سپاہیوں کے ساتھ مل کر ان لوگوں نے کھانا کھایا، رات اُسی کمرے میں آرام سے گزاری۔ دوسرے دن صبح اُنھیں کورٹ میں پیش کیا گیا اور کورٹ سے اُن کی ضمانت ہو گئی۔ نواب اور اُس کے دونوں دوست وہاں سے نواب کے گھر آ گئے۔ یہاں اُنھیں معلوم ہوا کہ دونوں نوجوان جو اسپتال میں تھے اُن کی اسپتال سے چھٹی ہو گئی ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔

نواب کے ایک دوست نے نواب سے کہا ’’نواب بھائی۔ تم فکر مت کرو میں اُس لڑکی کو ڈھونڈ نکالوں گا اور اُس کا پتہ ان لڑکوں سے ہی چلے گا۔

 ’’ٹھیک ہے نواب نے کہا‘‘ لیکن ذرا احتیاط سے ابھی یہ معاملہ تازہ ہے پھر کوئی لفڑا نہ کھڑا ہو جائے۔

نواب نے کھانا کھایا۔ پولس تھانے میں وہ ٹھیک سے سو نہیں پایا تھا اس لئے آرام سے اپنے بستر پر لیٹ گیا اور گہری نیند میں ڈوب گیا۔

۵ بجے کے قریب سو کر اُٹھا۔ تیس ہزار روپئے اپنی جیب میں رکھے اور پولس تھانے پہنچ گیا۔ رقم اُس نے پی آئی کے حوالے کر دی۔ پی آئی نے نواب سے کہا ’’ہم نے بہت معمولی قلم تم پر لگائی ہے ایک دو پیشی میں ہی معاملہ صاف ہو جائے گا ہاں اگر لڑکی کا پتہ چل جائے تو یہاں لے آنا ہم اُس کا بیان لکھ لیں گے اور اِن لڑکوں کے خلاف معاملہ بنا لیں گے۔ نیتا لوگ آ کر یہاں بہت دھونس جما رہے تھے ، ان کی ساری نیتا گری نکل جائے گی۔

نواب نے کہا ’’جانے دو صاحب، بات بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے معاملے کو رفع دفع کر دو! آخر ہم کو بھی انھیں لوگوں کے بیچ رہنا ہے۔

 ’’ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی!‘‘

نواب وہاں سے اُٹھا اور بازار میں آ کر ہوٹل کے سامنے بیٹھ گیا جہاں اُس کے پرانے ساتھی موجود تھے اور دنیا جہان کی باتیں وہاں ہوتی رہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۵

نواب نے جس دن سے اپنے چچا سے یہ بات کہی تھی کہ کو ئی پروگرام بنا کر لاؤ میں پیسہ لگاؤں گا تب سے وہ کسی مناسب جگہ کی تلاش کر رہے تھے جس پر وہ ایک بڑی ہوٹل اور لاج بنوا سکیں۔ آخر انھیں جے این روڈ پر ایک اچھی جگہ مل گئی۔ مین روڈ سے لگا ہوا ایک ۱۲ ہزار اسکوائر فٹ کا پلاٹ تھا ، روڈ سے لگ کر ۶۰ فٹ کی چوڑائی تھی اور ۲۰۰ فٹ کی لمبائی تھی۔ جگہ کی قیمت بھی مناسب تھی سولہ لاکھ روپئے۔ نواب کے چچا نے وہ جگہ نواب کو لے جا کر دکھائی اور نواب سے کہا کہ اِس کی رجسٹری وہ اپنی چچی کے نام سے کرا دے۔ جگہ نواب کو بے حد پسند آئی، لیکن وہ اپنی چچی کے نام سے جگہ کی رجسٹری لگانا نہیں چاہتا تھا۔ نواب نے دلال سے سارے کاغذات منگوا کر دیکھے ، مالکوں سے بات چیت کی اور اُس زمین کو لینا طے ہو گیا۔ لیکن وہ اپنے چچا کو ناراض نہیں کر  سکتا تھا اِس لئے اُس نے عرضی نویس سے فروخت کے دو قرار نامے تیار کروائے ، ایک تو اُس نے اپنی والدہ کے نام سے کروا دیا اور دوسرا اپنی چچی کے نام سے۔ اپنی والدہ کے نام سے قرار نامے پر جو اصلی مالک تھے اُن کی دستخط لی اور اپنی چچی کے نام سے قرار نامہ بنوا کر جعلی دستخط کروا کے کاغذات اپنے پاس رکھ لیے اور رجسٹری کرانے کی مدّت اپنی والدہ کے قرار نامے پر ۳ مہینے رکھی اور اپنی چچی کے نام کے قرار نامے پر ایک سال رکھی۔ اِس پر نواب کے چچا بہت پیچ و تاب کھانے لگے۔ نواب نے اُنھیں سمجھایا کہ پولس کی جانب سے میری انکوائری چل رہی ہے۔ اگر اتنے بڑے سودے کا انھیں پتہ چل گیا تو پھر انھیں حساب بتانا پڑے گا اور ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں ، آخر انھوں نے اطمینان تو کر لیا لیکن اُن کی بیگم اُنھیں روزانہ اکسایا کرتی تھیں فوراً رجسٹری لگواؤ۔ نواب کے چچا اُنھیں کسی طرح ٹال دیا کرتے تھے۔

نواب نہیں چاہتا تھا کہ وہ زمین اُس کے ہاتھ سے نکل جائے اِس لئے اِس نے عرضی نویس سے مشورہ کیا اور پلاٹ کے مالکوں کو فرسٹ کلاس میں ریلوے میں بیٹھا کر ممبئی لے گیا اور وہاں اُس نے اُس پلاٹ کی رجسٹری اپنی والدہ کے نام سے کرا دی ساتھ ہی اُس نے بمبئی کے ایک مشہور انجنئیر سے اُس پلاٹ پر ہوٹل اور لاج بنانے کا نقشہ بنانے کا معاملہ بھی طے کر کے آ گیا۔

رجسٹری ہو جانے کے بعد نواب نے اپنے چچا کو بُلا کر کہا کہ اُس نے مالک پلاٹ کو آدھی رقم دے دی ہے اور اُس نے پلاٹ پر قبضہ دے دیا ہے اب ہم اُس کے چاروں طرف احاطے کی دیوار بنا لیتے ہیں۔ میرے پاس تو وقت نہیں رہتا آپ ایسا کریں کہ یہ پچاس ہزار روپئے لے جائیں اور پلاٹ کی احاطے کی دیوار بنانے کا کام شروع کروا دیں۔

نواب کے چچا نے خوشی خوشی پچاس ہزار روپئے لیے ، لے جا کر اپنی بیگم کو دکھائے اور کہا کہ اِسی ہفتہ سے میں احاطے کی دیوار کا کام شروع کروا دیتا ہوں۔

اُن کی بیگم نے کہا ’’وہ تو ٹھیک ہے نواب سے کہو کہ جلد ہی پلاٹ کی رجسٹری میرے نام سے کروا دے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کی نیت بدل جائے۔ ‘‘

 ’’نہیں بیگم وہ ہمارے ساتھ غدّاری کر کے اپنی لاکھوں کی دولت سے ہاتھ دھونا نہیں چاہے گا۔ پھر بھی میں اُس سے پلاٹ کی رجسٹری کی بات کہوں گا۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۶

نواب کے پاس کی نقدی رقم ختم ہونے کے قریب تھی اُس نے سوچا کہ سونے اور چاندی کی شکل میں جو مال اُس کی تحویل میں ہے اُسے بھی نقدی میں تبدیل کر لیا جائے تو ٹھیک رہے گا۔ یہ سوچ کر ایک دن وہ صبح چار بجے کنوئیں میں اترا اور کنوئیں میں ڈوبی ہوئی ایک رسی کو کھینچ کر باہر نکالا۔ اُس تھیلی کو لے کر اپنے آفس میں آ گیا۔ اُسے کھول کر دیکھا اُس تھیلی میں پورے سونے کے بسکٹ بھرے تھے جس پر بینک کا نام کھدا ہوا تھا رزر بینک کی سِل بھی لگی ہوئی تھی۔ اُس نے وہ پورے سونے کے بسکٹ اپنی آفس کی الماری کے محفوظ خانے میں رکھ دیے اور سو گیا۔

دوسرے دن صبح سویرے سو کر اُٹھا۔ ضروریات سے فارغ ہو کر وہ ناگپور چلا گیا اس نے اپنے پاس پانچ سونے کے بسکٹ رکھ لیے ناگپور میں صرافہ اولی میں ایک سونے کے بیوپاری کو اُس نے وہ سونے کے بسکٹ دکھائے اور اُسے بیچنے کی بات کی۔ سنار نے بسکٹ کو اچھی طرح دیکھا۔ کسوٹی پر گھسا اور پھر بسکٹ نواب کو واپس دے کر کہا ’’نہیں ہم یہ مال نہیں خرید سکتے !

نواب نے پوچھا ’’کیوں نقلی ہے کیا؟

سنار نے کہا ’’ایکدم اصلی ہے۔ ۲۴ کیرٹ کا مال ہے اِس پر رزرو بینک کی سیل لگی ہے اِسے کوئی بیوپاری نہیں خریدے گا۔ کسی نے اگر پولس میں شکایت کر دی تو تم اندر ہو جاؤ گے۔ ویسے تمھیں یہ کہاں سے ملے ہیں ؟‘‘

نواب نے کہا ’’ہمارے والد کا انتقال ہوا ان کی تجوری کھولی تو ہمیں یہ پانچ بسکٹ ملے ہیں اسی لیے میں اِسے بیچنے لایا ہوں۔

دیکھو اِسے کوئی ایسا آدمی ہی لے سکتا ہے جو تمھیں اچھی طرح جانتا اور پہچانتا ہو یہ بڑے خطرے کا سودا ہے۔ تمھارے کوئی پہچان کا سنار ہو گا تو اُس کو دے کر اِسے گلا ڈالو، پھر کوئی بھی خرید لے گا۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے اِس مشورہ کے لیے آپ کا شکریہ۔ ‘‘اتنا کہہ کر نواب وہاں سے اُٹھا اور کامٹی چلا آیا۔ غور کیا تو اُس کا دھیان کامٹی کے مقصود سنار کی طرف گیا۔ ان کی سونے چاندی کے زیورات کی بڑی دوکان تھی وہ اُسے بچپن سے جانتے تھے اور اُس کی بڑی عزّت کرتے تھے۔ اُن سے نواب کی اچھی جان پہچان تھی۔ آخر وہ سونے کے بسکٹ لے کر ان کے پاس گیا اور انھیں ایک بسکٹ دکھا کر کہا ’’مجھے اسے گلا کر اس کی سلاخ بنانی ہے۔

سنار نے کہا ’’ یہ کافی جوکھم کا کام ہے۔ سرکاری سیل لگی ہے اس پر۔ کسی نے پولس میں شکایت کر دی تو ہم تم دونوں اندر ہو جائیں گے۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’کون شکایت کرے گا یہ بات میرے اور تمھارے درمیان رہے گی تیسرے کو خبر بھی نہیں ہونے پائے گی۔ ‘‘

سنار نے پوچھا ’’کتنے بسکٹ ہیں ؟‘‘

 ’’صرف پانچ ہیں۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے میرا کمیشن کتنا ہو گا۔ ‘‘

 ’’دس فیصد۔ جتنا مال گلے گا اُس کا دس فیصد تم لے لینا۔ ‘‘

مقصود سنار نے کہا ’’ٹھیک ہے مجھے دے کر چلے جاؤ اور کل سلاخیں لے کر چلے جانا اور کسی کے سامنے مجھ سے نہ تو اس سلسلے میں بات کرنا اور نہ ایسی چیزیں کسی کے سامنے لا کر دینا۔ میرے بھائی بھی رہیں تو نہ دینا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے۔ آپ بے فکر رہو بالکل تنہائی میں یہ کام ہو گا۔ ‘‘

نواب نے وہ پانچوں بسکٹ سنار کو دے دیے اُس نے اُس کا وزن کیا اور نواب کو ایک کاغذ پر وزن لکھ کر دے دیا، نواب وہاں سے گھر چلا آیا۔

دوسرے دن نواب کو سونے کی سلاخیں بن کر مل گئیں۔ سنار نے اپنا حصہ دس فیصد اپنے پاس رکھ لیا، نواب وہ سلاخیں لے کر ناگپور آیا۔ بڑے بیوپاریوں نے تو اُسے لینے سے صاف انکار کر دیا۔ اتواری کی گلی میں ایک چھوٹی سی دوکان کے سنار نے بہت کم ریٹ میں نواب سے وہ سلاخیں لے لیں اور پیسے دے کر اُسے جلدی سے روانہ کر دیا۔ نواب نے وہ رقم اپنی آفس کی الماری کے محفوظ خانے میں لا کر رکھ دی۔

جس دن سے نواب کے چچا نے خفیہ کمرے کی الماری سے اُسے پیسے نکالتے دیکھ لیا تھا اُس کے بعد سے اُس نے اُس کمرے میں روپئے رکھنا چھوڑ دیا تھا۔

ایک ہفتہ بعد پھر نواب نے سنار کو پانچ بسکٹ دیے ، دوسرے دن اُس نے اُسے گلا کر واپس کر دیا تو نواب نے کہا ’’یار مقصود بھائی۔ اِسے فروخت کرنے کا کچھ انتظام کرو۔ ناگپور کے بیوپاری تو یہ مال لیتے ہی نہیں۔ ‘‘

 ’’نئے لوگوں سے کوئی بھی آدمی مال نہیں لے گا۔ تم مجھے دے دو جتنا بھی مال ہے میں فروخت کروا دوں گا۔ ہم لوگ اِسی لائن کے لوگ ہیں۔ سارے بیوپاری ہمیں جانتے ہیں تمھارا نقصان بھی نہیں ہو گا اور خطرہ بھی نہیں رہے گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے نا۔ نواب نے کہا۔ اِسے بیچ کر روپئے مجھے دے دو۔ ‘‘

 ’’ہاں کیوں نہیں۔ رات میں آ کر روپئے لے کر چلے جانا۔ ‘‘

نواب کو نہ تو سونے کا بھاؤ معلوم تھا اور نہ وزن ٹھیک سے سمجھ پاتا تھا سنار جتنے پیسے دیتا تھا چُپ چاپ لے کر چلا آتا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۷

پلاٹ کے احاطے کی دیوار تعمیر ہو گئی تو ایک دن نواب کے چچا نے نواب سے کہا ’’میرا ایک انجنئیر پہچان کا ہے میں اُس سے ہوٹل اور لاج کا نقشہ بنوا لیتا ہوں۔

نواب نے کہا ’’ہاں ٹھیک ہے نا۔ آپ اُس کو بتا دیجیے کیسی عمارت تیار کرانا ہے وہ اُس کے مطابق نقشہ تیار کر دے گا؟

نواب نے اِس کام کے لئے اپنے چچا کو دس ہزار روپئے دیے ، وہ انجنئیر کے پاس گئے ،اُسے لے جا کر پلاٹ دکھایا اور اُس پر ایک شاندار عمارت تعمیر کرانے کا نقشہ بنانے کا آرڈر دے دیا۔

انجنئیر نے ایک مہینے کی محنت سے نقشہ بنا کر تیار کیا اور نواب کے چچا سے کہا ’’اِسے میونسپلٹی میں پاس کرانے کے لئے دینا ہے اور کیونکہ ابھی تک اس کی رجسٹری تمھارے نام سے نہیں ہوئی ہے اس لئے فی الحال جو مالک ہے اُس کی اِس پر دستخط لینی پڑے گی‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’ٹھیک ہے آپ نقشہ مجھے دے دو اور جہاں جہاں دستخط لینی ہے نشان لگا دو میں دستخط لے کر آ جاؤں گا ‘‘

انجنئیر نے نقشوں کی پوری فائل نشان لگا کر انھیں دے دی۔

نواب کے چچا دلال سے پتہ معلوم کر کے پلاٹ کے مالک کے گھر پہنچے ، تو وہاں اُنھیں معلوم ہوا کہ وہ تو اپنا پلاٹ اور مکان بیچ کر بنارس چلے گئے ہیں۔

نواب کے چچا نے کہا ’’لیکن ہمارے پلاٹ کی رجسٹری تو ابھی ہوئی ہی نہیں ہے وہ جاکیسے سکتے ہیں۔ ‘‘

جس آدمی نے پلاٹ والوں سے مکان خریدا تھا اُس نے کہا ’’بھیّا پلاٹ کی رجسٹری ہو  چکی ہے اور رجسٹری یہاں نہیں لگی ہے بمبئی میں لگی ہے اور کوئی نواب ہے اُس کی ماں کے نام سے رجسٹری لگی ہے ، اور اُس کا نقشہ بھی بمبئی سے بن کر آ گیا ہے ، آپ ہیں کونسی دنیا میں !‘‘

نواب کے چچا کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو ان کی آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا۔ وہ زمین پر گِر نے ہی والے تھے کہ اُس آدمی نے اُنھیں سنبھال لیا ایک کرسی پر آرام سے بٹھا دیا،پینے کے لئے ایک گلاس پانی دیا، تھوڑی دیر میں ان کی طبیعت سنبھلی تو انھوں نے اُس آدمی سے پوچھا ’’آپ کو یہ سب باتیں کیسے معلوم ہوئیں۔

اُس آدمی نے کہا ’’دیکھیے وہ ہمارے رشتہ دار تھے۔ ہم سے کوئی بات چھپاتے نہیں تھے ، یہ مکان بھی انھوں نے جاتے جاتے مجھے ہی فروخت کیا ہے ، اور میں جو کچھ بتا رہا ہوں بالکل صحیح ہے۔ دلال کو اس کا کمیشن بھی پورا مل چکا ہے۔ آپ اُس سے پوچھو تو وہ ساری تفصیل بتا دے گا۔ ‘‘

نواب کے چچا نے پوچھا ’’دلال کا نام کیا ہے۔ ‘‘

آدمی نے کہا ’’رویندر جیسوال۔ ‘‘

 ’’میرا بیعانہ بھی تو اُسی نے کروایا ہے۔ ‘‘

اُس آدمی نے کہا ’’تمھارے ساتھ کوئی دھوکہ ہوا ہے ، دلال دوہری چال چل رہا ہے ؟‘‘

 ’’اچھا ٹھیک ہے ان معلومات کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ میں چلتا ہوں۔ ‘‘

اتنا کہہ کر وہ وہاں سے اُٹھے اور اپنی دوکان میں آ کر بیٹھ گئے اور پورے معاملات پر غور کرنے لگے۔

اُنھیں یہ بات سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا کہ نواب نے اُن کے ساتھ ایک گہری چال چلی ہے۔ اُنھیں ہوا بھی نہیں لگنے دی اور پورے پلاٹ پر اپنا قبضہ کر لیا۔ اُنھیں بے وقوف بنا کر احاطے کی دیوار کا کام بھی اُن سے کروا لیا۔ اُنھیں خوف اس بات کا تھا کہ جب ان کی بیوی کو اس بات کا پتہ چلے گا تو وہ ایک ہنگامہ کھڑا کر دے گی۔ ایسا نہ ہو کہ دونوں گھروں کے بیچ زبردست لڑائی شروع ہو جائے۔ آخر انھوں نے فیصلہ کیا کہ ابھی یہ بات بیگم کو نہیں بتانی چاہئے۔ انھوں نے طے کیا کہ کل صبح وہ اِس سلسلے میں نواب سے صاف صاف بات کریں گے۔

دوکان بند کر کے گھر پہنچے تو اُن کی طبیعت کچھ ٹھیک سی نہیں تھی۔ اُن کے چہرے کو دیکھ کر بیگم نے اندازہ لگایا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ اُس نے کُریدنے کی بہت کوشش کی لیکن نواب کے چچا طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کر کے خاموش ہو گئے۔

دوسرے دن صبح وہ نواب کے آفس پہنچے۔ نواب آفس میں موجود تھا اس کے ساتھ دو آدمی اور بیٹھے ہوئے تھے۔ نواب کے چچا نے نواب سے کہا ’’نواب! مجھے تم سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے !‘‘

 ’’ٹھیک ہے ، کہیے نا یہ سب اپنے ہی لوگ ہیں۔ ‘‘

 ’’نہیں۔ بات بہت پرائیوٹ ہے۔ ‘‘

 ’’اچھا ٹھیک ہے۔ ‘‘ اس نے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو اشارہ کیا وہ اُٹھ کر باہر چلے گئے۔ تب نواب کے چچا نے کہا ’’میں نے پلاٹ کی زمین پر ہوٹل کا نقشہ بنوا لیا ہے !‘‘

 ’’اچھا کہاں ہے نقشہ مجھے بھی بتائیے۔ ‘‘

 ’’نقشہ تو گھر پر رکھا ہوا ہے میونسپلٹی میں اُسے پاس کرانے کے لئے پلاٹ کی رجسٹری ہونا ضروری ہے۔ کب لگا رہا ہے اُس کی رجسٹری؟‘‘

 ’’چچا جان! ہم سے زمین کے مالک نے ایک سال کا وقت لیا ہے ابھی رجسٹری لگنا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘

 ’’رجسٹری لگنا ممکن نہیں ہے یا تمھاری چچی کے نام سے رجسٹری لگنا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘

 ’’نواب نے کہا ’’چچا جان! آپ کیسی بات کر رہے ہیں ، میں نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ آپ اطمینان رکھیں۔ ‘‘

 ’’میں کیسے اطمینان رکھوں۔ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ اُس پلاٹ کی رجسٹری تم نے اپنی والدہ کے نام سے کروا لی ہے ، وہ بھی بمبئی جا کر، میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کر کے تم چین سے نہیں رہ سکو گے ، میں نے ساری سچائی جان لی ہے۔ ‘‘

نواب نے یہ بات سنی تو وہ حیران رہ گیا، اُس نے کہا ’’نہیں یہ غلط ہے کسی نے آپ کو بہکایا ہے۔ ابھی پلاٹ کی رجسٹری نہیں ہوئی ہے کیا دلال نے آپ سے یہ بات کہی ہے ؟‘‘

 ’’نہیں دلال نے یہ بات مجھ سے نہیں کہی ہے۔ اُن کے رشتہ داروں نے کہی ہے جنھوں نے پلاٹ فروخت کیا ہے اور جو اب یہاں سے بنارس جا چُکے ہیں۔ ‘‘

یہ بات سن لینے کے بعد نواب نے مزید کوئی جھوٹ بولنا مناسب نہیں سمجھا۔ آخر اُس نے اپنے چچا سے کہا ’’چچا جان دراصل وہ جگہ مجھے بے حد پسند آ گئی تھی اور میں کامٹی کی سب سے بڑی اور سب سے خوبصورت عمارت سے بھی زیادہ بڑی اور خوبصورت عمارت بنانا چاہتا تھا اِس لئے میں نے اُس کی رجسٹری اپنی امّی کے نام سے کرالی۔ آپ ایسا کرو کہ کوئی اور جگہ تلاش کر لو میں اس جگہ کی چچی کے نام سے رجسٹری کرا دوں گا۔ ‘‘

 ’’نہیں مجھے تم پر بھروسہ نہیں ہے۔ اچھا ہو گا کہ وہ زمین تم اپنی چچی کے نام سے کرا دو ورنہ اپنی تباہی کے لئے تیار ہو جاؤ۔ ‘‘اتنا کہہ کر وہ اُٹھے اور باہر چلے گئے۔ نواب نے انھیں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں رُکے۔

نواب نے سوچا کہ اِس فتنے کو بڑھنے سے پہلے ہی روکنا ضروری ہے یہ سوچ کر وہ تھوڑی دیر بعد اپنے چچا کی دوکان پر گیا۔ اُنھیں بلایا اپنی گاڑی پر بٹھایا اور ایک ہوٹل میں لے گیا وہاں اُس نے اپنے چچا سے کہا ’’چچا جان دیکھو بات بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے آپ میری بات مانو اور اپنے لیے کوئی بھی اچھی جگہ ڈھونڈ لو ، اور میں فوراً اس کی رجسٹری چچی جان کے نام سے کروا دوں گا۔

 ’’نہیں مجھے اب تم پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے ابھی یہ بات تمھاری چچی کو معلوم نہیں ہوئی ہے اُنھیں معلوم ہو گی تو ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہو گا اب بہتر یہ ہے کہ تم کوئی اور جگہ خرید لو اور اُس جگہ کی رجسٹری اپنی چچی کے نام سے کرا دو۔ ‘‘

 ’’نہیں یہ تو اب ممکن نہیں ہے۔ میں نے اُس زمین پر نقشہ تیار کروا لیا ہے اور جلد ہی اُس پر کام شروع کروانے والا ہوں۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے تو میں چلتا ہوں وہ نوٹوں کے بنڈل جوتم نے مجھے دیے ہیں میرے پاس محفوظ ہیں۔ اُس پر بینک کی سیل لگی ہوئی ہے وہ لے جا کر میں پولس تھانے میں جمع کر دیتا ہوں اور تمھاری حقیقت بیان کر دیتا ہوں۔ چوری کا پورا مال میں تمھیں ہڑپ کرنے نہیں دوں گا۔ ‘‘

 ’’اس سے کیا ہو گا میرے ساتھ ساتھ آپ کا بھی نقصان ہو گا۔ ‘‘

 ’’میرا نقصان ہوتا ہے تو ہو جائے لیکن میں تمھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوا کر ہی دم لوں گا‘‘

نواب نے کہا ’’اچھا ٹھیک ہے آپ کل صبح میرے آفس میں آ جائیے ، میں آپ کو اس کے بدلے اچھی خاصی رقم دے دوں گا جس سے آپ زمین بھی خرید لینا اور مکان بھی تعمیر کروا لینا۔

نواب کے چچا نے کہا ’’ٹھیک ہے میں کل صبح آفس میں تم سے آ کر ملوں گا۔ مجھے ۲۵ لاکھ روپئے نقد دے دینا اُس کے بعد میں تم سے کوئی سروکار نہیں رکھوں گا۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے آپ کل صبح آفس میں آیئے تو آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ ‘‘

نواب نے اُنھیں اُن کی دوکان میں چھوڑ دیا اور خود اپنے آفس میں آ کر بیٹھ گیا۔ اُسے یاد آیا کہ اُسے ویران بنگلے کے خفیہ کمرے کی تین الماریوں سے زیورات، سونا چاندی اور نقد اُٹھا لایا تھا، ایک کونے میں اُسی طریقے کی دو الماریاں اور تھیں۔ اُن کی طرف اُس نے دھیان نہیں دیا تھا۔ اِدھر اُس کے پیچھے اتنے کام لگ گئے تھے کہ روپئے بے تحاشہ خرچ ہوتے جا رہے تھے۔ رشتے داروں کی فرمائشیں دوستوں کی فرمائشیں ، درگاہوں ، مسجدوں ، مدرسوں ، اسکولوں اور ادبی انجمنوں کے افراد سیدھے اُس کے پاس چلے آ رہے تھے۔ نواب کسی کو انکار بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ اُدھر اُس کے چچا کی ۲۵ لاکھ روپیوں کی ڈیمانڈ نے اُسے اور خوف میں مبتلا کر دیا تھا تبھی اچانک اُسے بابا کی وہ بات یاد آئی کہ بابا نے اُس سے کہا تھا ’’اپنے چچا کو پتہ بتا دے اﷲ مہربان ہے خوف نہ کر سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ اس بات کے یاد آتے ہی نواب نے سوچا کہ اپنے چچا کو بھی اِس راز میں شامل کر لینا چاہئے اور اگر وہاں کچھ مال مل گیا تو ۲۵ لاکھ روپئے اپنے چچا کو دیدے گا باقی خود رکھ لے گا۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو گیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔

دوسرے دن صبح آفس میں اُس کے چچا آئے۔ آفس میں اُس وقت نواب کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔ نواب نے اپنے چچا کو عزت سے بٹھایا اور اُن کے لئے چائے منگوائی۔ پھر نواب نے اپنے چچا سے کہا ’’چچا جان میرے پاس جتنے پیسے تھے وہ تو اب تقریباً ختم ہو چُکے ہیں لیکن وہ جگہ جہاں سے مجھے یہ دولت ملی تھی یہاں سے قریب ہے اور اب بھی وہاں پر بے شمار دولت رکھی ہوئی ہے لیکن وہ راستہ بند ہو گیا ہے جس راستے سے میں دولت لایا کرتا تھا۔ لیکن دوسرا ایک خفیہ راستہ بھی ہے وہاں سے ہم وہ دولت اُٹھا کر لاسکتے ہیں۔ ‘‘

 ’’چلو آج آپ میرے ساتھ میں آپ کو وہ جگہ دکھا دیتا ہوں ہم دونوں مل کر دولت وہاں سے اُٹھا لائیں گے اُس میں سے ۲۵ لاکھ روپئے میں آپ کو دے دوں گا باقی میں رکھ لوں گا مجھے بھی لی ہوئی جگہ پر ایک ایسی خوبصورت عمارت بنانی ہے جس کے سامنے کامٹی کی ساری عمارتیں ہیچ نظر آنے لگے۔ ‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’مجھے منظور ہے بولو کب چلنا ہے۔ ‘‘

 ’’ہم آج شام چلیں گے کسی کو اِس بابت بتانا نہیں چچی جان کو بھی نہیں !‘‘

 ’’تم بے فکر رہو، میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ ہم تم مل کر ساری دولت وہاں سے اُٹھا لاتے ہیں دونوں مل کر کامٹی پر راج کریں گے۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ہاں یہ ہوئی نا سمجھداری کی بات۔ اچھا تو ابھی آپ اپنی دوکان چلے جایئے شام میں سات بجے آپ یہاں آ جانا۔

نواب کے چچا وہاں سے اُٹھے اور اپنی دوکان میں آ کر بیٹھ گئے ، تصور میں اُنھیں دن بھر خزانہ دکھائی دیتا رہا۔

شام ۷ بجے نواب کے چچا نواب کے آفس میں پہنچ گئے۔ وہ ان کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ اُس نے اپنی جیپ گاڑی میں اپنے چچا کو بٹھایا اور انھیں لے کر ندی کی طرف روانہ ہوا، ایک ویران جگہ پر جھاڑیوں کے درمیان اُس نے گاڑی کھڑی کر دی۔ شام کا وقت تھا اندھیرا تقریباً ہر چیز پر مسلط ہو چکا تھا۔ ندی میں نہانے والے ، کپڑے دھونے والے اور مچھلیاں پکڑنے والے تمام ہی لوگ ندی کے کنارے سے جا چکے تھے۔ ندی کے اطراف اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ ایسے میں نواب نے اپنے چچا کو ساتھ لیا۔ گاڑی میں ایک پلاسٹک کی بوری تھی، وہ بھی اُس نے اپنے چچا کو تھما دی۔ ہاتھ میں اُس نے ٹارچ لے لی اور اپنے چچا کو لے کر آگے بڑھا۔ ڈھلان پر اتر جانے کے بعد اندازسے وہ ایک طرف آگے بڑھا اور اوپر چڑھائی چڑھنے لگا۔ آدھے گھنٹے کی تلاش کے بعد اُسے سرنگ کا وہ دہانہ مل گیا جہاں ویران بنگلے سے آ کر اُس نے ندی کا اور امّاں کی درگاہ کا منظر دیکھا تھا۔ کسی طرح اُس نے اپنے چچا کو بھی سُرنگ کے اندر کھینچ لیا، نواب نے ٹارچ روشن کر لی اور آہستہ آہستہ سرنگ میں آگے بڑھنے لگا۔ ۱۵ منٹ بعد وہ خفیہ کمرے کے دروازے تک پہنچ گئے۔ اُس نے نہایت آہستگی سے خفیہ کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا ساری الماریاں بالکل اُسی طرح رکھی ہوئی تھیں جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ کونے میں رکھی ہوئی دونوں الماریاں بھی اپنی جگہ موجود تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ ایک الماری کی طرف بڑھا۔ کمرے میں چاروں طرف مکڑی کے جالے پھیلے ہوئے تھے۔ جھینگر اور مکڑیاں کمرے میں چاروں طرف دوڑتی پھر رہی تھیں۔ الماری کے قریب پہنچ کر نواب نے ٹارچ اپنے چچا کو تھما دی اور چپٹے کھیلے کی مدد سے اُس میں لگے تالے کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ دو تین منٹ کی کوشش سے دروازہ کھل گیا۔ ٹارچ کی روشنی میں انھوں نے دیکھا کہ آدھے حصے میں رسید بکیں ، رجسٹر اور فائیلیں رکھی ہوئی تھیں اور اوپر کے آدھے حصے میں سو کے اور ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔ نواب کے چچا نے اتنی دولت دیکھی تو حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ نواب نے جلدی جلدی نوٹوں کی گڈیاں پلاسٹک کی بوری میں ڈال دیں۔ تھیلی بھر گئی تو اُس نے الماری بند کر دی۔ تھیلی کا منھ اچھی طرح رسّی سے باندھ دیا اور دونوں چچا بھتیجے جس راستے سے آئے تھے اُسی راستے سے واپس ہو گئے۔ جب وہ سرنگ کے دہانے سے باہر نکلے تو باہر کی ٹھنڈی ہوا میں اُنھیں بڑی راحت محسوس ہوئی۔ نہایت احتیاط سے وہ اُس مقام پر آئے جہاں اُن کی جیپ گاڑی کھڑی ہوئی تھی نواب نے بوری گاڑی میں ڈال دی اور گاڑی آگے بڑھائی۔ نواب کے چچا نے کہا ’’نواب!گاڑی میرے گھر لے کر چلو مجھے آدھی رقم دے دینا اور باقی رقم لے کر تم چلے جانا۔

نواب نے کہا ’’دیکھو آپ کے گھر میں چچی جان اور بچّے بھی ہوں گے اُن کے سامنے یہ تماشا کرنا مناسب نہیں ہے میرے آفس میں اِس وقت کوئی نہیں ہے میں ۲۵ لاکھ روپئے آپ کو دے دوں گا باقی رقم میں رکھ لوں گا۔ پھر آپ کو گاڑی میں بٹھا کر گھر چھوڑ دوں گا۔ آپ رقم حفاظت سے رکھ لینا اور جو کرنا ہو گا کرنا۔ لیکن مجھ سے پوچھے بنا یا مجھے ساتھ لیے بنا اُس جگہ دوبارہ نہیں جانا کیونکہ وہ بہت خطرناک جگہ ہے۔ ‘‘

اُس کے چچا نے بھی موقع کی نزاکت سے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا انھوں نے سوچا کہ ۲۵ لاکھ روپئے سے ان کے سپنوں کا محل تعمیر ہو جائے گا اور ان کی بیگم خوشی سے جھوم جھوم جائے گی۔

نواب نے اپنی گاڑی بالکل اپنے آفس کے دروازے پر روکی اور گاڑی سے اُتر کر آفس کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا اُس کے چچا بھی اندر آ گئے نواب نے گاڑی سے بوری اُٹھائی اور آفس کے اندر کر لی۔ آفس کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور بوری کے نوٹوں کر فرش پر انڈل دیا۔ پھر اُس میں سے ہزار ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں ایک طرف اور سو سو کے نوٹوں کی گڈیاں دوسری طرف اِس ٹیبل پر جما کر رکھ دیں ، وہ کل ۴۲ لاکھ روپئے تھے۔ نواب نے کہا ’’چچا جان آدھی آدھی رقم لے لیتے ہیں۔ ‘‘

 ’’نہیں مجھے تو ۲۵ لاکھ روپئے چاہیے بعد میں تم کچھ بھی کرتے رہو، مجھے اعتراض نہیں ہو گا۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ٹھیک ہے ۲۵ لاکھ آپ لے لو باقی رقم میں رکھ لیتا ہوں لیکن میں پھر آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ اُس جگہ پر بغیر مجھے بتائے یا بغیر مجھے ساتھ لیے جانا نہیں ورنہ میں ذمّہ دار نہیں رہوں گا۔ ‘‘

 ’’نہیں بھتیجے کیسی بات کرتے ہو، میرا اب وہاں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ‘‘

نواب نے ۲۵ لاکھ روپئے اُسی بوری میں رکھ دیے اُسے اچھی طرح رسّی سے باندھ دیا۔ اپنی رقم ایک الماری میں رکھ دی۔ آفس سے نکل کر آیا، بوری گاڑی میں رکھ دی آفس کو تالا لگایا اپنے چچا کو گاڑی میں بٹھایا اور پھر اُس کی گاڑی وہاں سے روانہ ہوئی۔

نواب نے اپنے چچا کو اُن کے گھر اتار دیا وہ گاڑی میں رکھی ہوئی بوری لے کر چلے گئے اور نواب نے گاڑی وہاں سے آگے بڑھا لی۔

اُس وقت رات کے دس بج چُکے تھے۔ نواب وہاں سے گھر آیا اُس نے آفس میں آ کر رقم خفیہ الماری میں رکھ دی گھر میں آیا منھ ہاتھ دھویا کھانا کھایا اور سوگیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۸

نواب کے چچا گھر پہنچے تو ان کی بیوی ان کا انتظار کر رہی تھی بچّے دوکان سے آ گئے تھے اور کھانا کھا کر باہر چلے گئے تھے۔ بیوی نے نواب کے چچا کو بوری ساتھ میں لاتے ہوئے دیکھا تو انھیں حیرت سے دیکھنے لگی۔ پھر اُن سے پوچھا ’’دوکان داری چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے بچّوں کو بتا کر تو جانا تھا اور یہ بوری کہاں سے اُٹھا لائے ؟

نواب کے چچا نے منھ پر انگلی رکھ کر اُنھیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور بوری لے کر اپنے بیڈ روم میں داخل ہو گئے بیوی بھی ان کے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوئی بیوی کو انھوں نے دروازہ بند کرنے کو کہا ’’بیوی نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ تب نواب کے چچا نے کہا ’’بیگم یہ دیکھو بوری میں کیا ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر انھوں نے بوری کے پورے نوٹ بستر پر انڈیل دیئے۔ نواب کی چچی نے اتنے سارے نوٹوں کو دیکھا تو حیرت سے اُن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جب اُن کے حواس درست ہوئے تو بیگم نے نواب کے چچا سے پوچھا، یہ اتنے سارے نوٹ کہاں سے اُٹھا لائے۔

نواب کے چچا نے کہا ’’نواب سے لے کر آیا ہوں۔

پھر انھوں نے پلاٹ کی رجسٹری، نواب سے حجّت اور سرنگ کے ذریعہ ویران بنگلے میں جانے کی پوری کہانی اپنی بیگم کو سُنا دی۔

پہلے تو بیگم نے سارے نوٹوں کو بوری میں ڈالا بوری کا منھ اچھی طرح رسّی سے باندھ دیا ، بوری کو اوپر ایک سجّے پر رکھ دیا۔ پھر انھیں کچھ خیال آیا بوری وہاں سے اتاری اور اپنی پلنگ کے باکس میں رکھ دی اور پلائی ووڈ کا کور بچھا کر اُس پر گدّا پھیلا دیا۔ پھر انھوں نے بیڈروم کا دروازہ کھولا۔ نواب کے چچا منھ ہاتھ دھو کر کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ اُن کے کھانا کھانے تک بچّے بھی آ کر سو گئے۔ وہ کھانا کھا کر اُٹھے تو بیگم نے کہا ’’دیکھو تم کو جگہ معلوم ہو گئی ہے اگر ہم نے دیری کی تو نواب وہاں کا تمام مال صاف کر دے گا اور اس رقم کے علاوہ کچھ بھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔ تم نے دیکھا کہ اُس کی ماں نے کس طرح گھر کا سارا مال غائب کر دیا تھا جس پلاٹ کو وہ میرے نام سے خریدنا چاہتا تھا اس کی رجسٹری بھی اپنی ماں کے نام سے کروا دی۔ اِس لیے ایک بوری لے کر تم ابھی اُس جگہ جاؤ اور جتنا مال لا سکتے ہو لے کر آ جاؤ ورنہ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ‘‘

نواب کے چچا نے کہا ’’اُس ویران علاقے میں میرا اکیلے جانا مناسب نہیں ہے پھر نواب نے بھی منع کیا ہے۔ رات بھی زیادہ ہو گئی ہے اور میں بہت تھک بھی گیا ہوں میں کل چلا جاؤں گا‘‘

اُن کی بیوی نے غرّا کر کہا ’’آج یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے ، نواب نے یونہی تمھیں ڈرانے کے لئے خطرے کی بات کہہ دی ہو گی، میری بات سنو اور فوراً اُس جگہ چلے جاؤ۔ پھر وہاں سے آ کر کل دن بھر آرام کر لینا میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جاؤ اُٹھو فوراً جاؤ۔ ‘‘

نواب کے چچا اپنی بیگم سے بہت ڈرتے تھے۔ بالآخر طوہاً  و کرہاً اُٹھے۔ بوری اُٹھائی اور آہستہ آہستہ ویران بنگلے کی طرف بڑھنے لگے۔

بستی کو پار کیا تو فوجی چھاؤنی کے علاقے میں آ گئے پورا علاقہ سنسان پڑا ہوا تھا۔ راستے میں بجلی کی روشنی کے کھمبے بھی نہیں تھے اندھیرا چارسو پھیلا ہوا تھا۔ کبھی کبھار کوئی اسکوٹر اُن کے پاس سے سنسناتی ہوئی گزر جاتی تو خوف کی ایک لہر اُن کے پورے بدن میں دوڑ جاتی تھی۔ دل میں خوف و ہراس لئے کسی طرح وہ آگے بڑھتے رہے بالآخر ندی کے کنارے پہنچ گئے۔ اونچائی پر اِدھر اُدھر کافی تلاش کرنے کے بعد آخر انھیں سرنگ کا دہانہ مل گیا۔ ٹارچ انھوں نے ساتھ لائی تھی۔ اُس کی روشنی میں وہ سُرنگ سے اندر داخل ہوئے خفیہ کمرے میں پہنچے اور جس الماری کو نواب نے کھولا تھا اُس کا دروازہ کھولا، اُس میں موجود رقم آہستہ آہستہ بوری میں ڈالنی شروع کی۔ الماری میں موجود پوری رقم اُس بوری میں ڈال دی لیکن بوری پھر بھی نہیں بھری پھر انھوں نے بازو کی دوسری الماری کو کھولنے کی کوشش کی لیکن کسی طرح وہ الماری اُن سے نہیں کھلی یہاں تک کہ وہ پسینے سے شرا بور ہو گئے۔ کمرے میں ایسا خوفناک اندھیرا تھا کہ ایک ذرا سی آہٹ پر دہشت سے پورا وجود کانپنے لگتا تھا۔ ٹارچ کی روشنی سے ہمّت بندھتی تھی جب آدھے پون گھنٹے کی کوشش سے بھی الماری نہیں کھلی تو انھوں نے بوری اُٹھائی اور کمرے سے نکل کر دروازے کو پار کیا اور سرنگ میں آ گئے۔ سرنگ کو پار کیا اور ببول کی جھاڑیوں کے پاس سرنگ کے دہانے کے پاس آئے۔ پھر کسی طرح بوری اور ٹارچ کو سنبھالے سنبھالے ٹارچ کی روشنی سے راستہ ڈھونڈ تے ڈھونڈتے نیچے اُترے اور ندی کی نرم ملائم ریت پر پہنچ گئے لیکن جیسے ہی ان کے پیر ریت پر ٹکے کسی نے کسی تیز دھار والے ہتھیار سے ان کی پیٹھ پر ایک زبردست وار کیا۔ ان کے منھ سے ایک خوفناک چیخ نکلی۔ اُسی لمحہ کسی نے ایک تیز دھار والا چاقو ان کے پیٹ میں پیوست کر دیا، بوری اور ٹارچ اُن کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی۔ وہ بھی ریت پر گِر پڑے۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ درد کی ٹیسیں بدن کے دیگر حصوں میں بھی محسوس ہوئیں اور تھوڑی دیر میں ان کی روح ان کے جسم سے آزاد ہو گئی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۹

نواب کی چچی بے چینی سے اپنے شوہر کی واپسی کا انتظار کرتی رہیں یہاں تک کہ سویرا ہو گیا اور وہ واپس نہیں آئے۔ اب تو اُنھیں اُن کو بے حد فکر ہوئی صبح چار بجے انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کو جگایا اُس سے کہا کہ وہ فوراً نواب کے گھر جائے اور نواب کو بلا کر لائے نواب جب اپنی چچی کے گھر پہنچا تو اُس وقت صبح کے پانچ بج چُکے تھے۔ نواب کی چچی نے نواب سے رات کی بات بتائی تو نواب سکتے میں آ گیا۔ ’’چچی جان آپ نے یہ کیا کر دیا میں نے اُنھیں اکیلے جانے سے منع کیا تھا۔ اب خدا جانے وہ کہاں ہیں !‘‘

نواب کی چچی نے کہا ’’بیٹا اب تو ہی اُنھیں ڈھونڈ کر لاسکتا ہے ، جا جلدی کر وہ وہیں ملیں گے جہاں تو اُنھیں کل رات لے کر گیا تھا۔ ‘‘

نواب نے اپنے چچا کے لڑکے شجاعت کو گاڑی پر بٹھایا اور کنہان ندی کے کنارے آیا۔ جلدی جلدی وہ ترائی میں اُترے اور اُس طرف بڑھے جہاں سرنگ کا دہانہ تھا۔ نواب نے وہاں چاروں طرف تلاش کیا لیکن اُس کے چچا کہیں نظر نہیں آئے ، سویرا ہو جانے کی وجہ سے کچھ لوگ ندی پر پہنچ چُکے تھے ، ندی پار کر کے کچھ لوگ شہر کی طرف جا رہے تھے۔ ایسے میں دہانے سے سرنگ میں داخل ہونا مناسب نہیں تھا۔ جب کافی تلاش کے بعد بھی اُس کے چچا کا کچھ پتہ نہیں چلا تو وہ وہاں سے واپس ہو گیا۔ نواب نے خیال کیا کہ ضرور سرنگ کے اندر یا اندر کے کمرے میں کسی حادثے کا شکار ہو گئے ہیں۔

وہاں سے اپنی چچی کے گھر پہنچ کر نواب نے کہا ’’اُس جگہ نہ تو چچا جان نظر آئے اور نہ ہی ان کا کوئی سامان ملا، پہلی فرصت میں ہم ان کی گمشدگی کی رپورٹ پولس تھانے میں لکھوا دیتے ہیں۔ ‘‘

چچی نے روتے روتے کہا ’’نواب، شجاعت کے ابّو کو کچھ ہو گیا تو میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی تیری ہی وجہ سے وہ وہاں گئے تو نے ہی اُنھیں پھنسایا ہے۔ تجھے ہی اُنھیں ڈھونڈ کر لانا ہو گا۔ ‘‘

 ’’چچی جان آپ ہمت سے کام لیجیے مجھے امید ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے صحیح سلامت ہوں گے۔ ‘‘ پھر اُس نے شجاعت کو ساتھ لیا اور پولس تھانے چلا گیا اور اپنے چچا کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوا دی۔ وہ رپورٹ لکھا کر اُٹھ ہی رہا تھا کہ ایک آدمی پولس تھانے میں آیا اور اس نے بتایا کہ ریتی گھاٹ پر ایک آدمی کی لاش پڑی ہے جس کے بدن پر گھاؤ کے کئی نشانات ہیں۔

نواب نے جیسے ہی یہ بات سنی وہ فوراً اُٹھا شجاعت کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی تیزی سے چلاتے ہوئے ریتی گھاٹ پہنچا۔ ایک مقام پر مجمع لگا ہوا تھا وہ شجاعت کو لے کر تیزی سے اُس جگہ پہنچا اور وہاں موجود لاش کو دیکھ کر اُس کا سر چکرا گیا شجاعت کے منھ سے ایک بھیانک چیخ نکلی وہ بے ہوش ہو کر ریت پر گِر پڑا کیونکہ وہ لاش نواب کے چچا کی ہی تھی۔

نواب نے کسی طرح اپنے آپ پر قابو پایا پھر وہ شجاعت کی طرف متوجہ ہوا اور کسی طرح اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں وہ ہوش میں آ گیا اور چلّا چلّا کر رونے لگا۔ نواب اُسے خاموش کرانے کی کوشش کرنے لگا، تھوڑی دیر میں پولس کے سپاہی بھی وہاں آ گئے۔ نواب نے شجاعت کو ساتھ لیا اپنی گاڑی میں بٹھایا اور اُسے لے کر اپنے چچا کے گھر آیا شجاعت کے چیخنے چلّانے اور رونے سے گھر کے سب لوگوں کو نواب کے چچا کی موت کی خبر ہو گئی اور تھوڑی دیر میں ہی اُس گھر میں ایک کہرام سا مچ گیا۔ نواب کی چچی نے تو یہ خبر سنی تو بے ہوش ہو گئیں۔ پاس پڑوس کی عورتیں وہاں جمع ہو گئیں۔ پورا گھر ماتم کدہ بن گیا جہاں رونے اور بین کرنے کی صدائیں چاروں طرف سے آ رہی تھیں۔ پڑوس کی عورتوں نے نواب کی چچی کو کسی طرح ہوش میں لایا لیکن ان کی کیفیت ایسی تھی گویا سکتے میں ہیں۔ آنسو آنکھوں سے جاری تھے لیکن چہرہ ہر احساس سے عاری تھا۔

نواب وہاں سے نکلا اپنے گھر آیا۔ اپنی والدہ کو اپنے چچا کی موت کی خبر دی۔ اُنھیں اپنی چچی کے گھر لا کر چھوڑ دیا اور خود ریتی گھاٹ کی طرف چلا گیا۔

وہاں پہنچا تو پنچ نامے کی کاروائی چل رہی تھی۔ بالآخر ایک گھنٹہ میں لاش کا پنچ نامہ ہو گیا اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال بھیج دیا گیا۔

نواب بھی اپنی گاری لے کر اسپتال پہنچا۔ تھوڑی دیر میں وہاں کافی لوگ جمع ہو گئے۔ نواب کے تعلقات کی وجہ سے کافی با اثر لوگ وہاں آ گئے تھے۔ پوسٹ مارٹم کی کاروائی کے بعد تین بجے لاش رشتے داروں کے سپرد کر دی گئی۔ لاش گھر لائی گئی، گھر میں نواب کے چچا کی آخری جھلک دیکھنے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔

قاتلوں کا کچھ پتہ نہیں چل پایا تھا۔ جتنے منھ اتنی باتیں ہو رہی تھیں۔

مغرب کی نماز کے بعد میّت کی تجہیز و تکفین کر دی گئی۔ جب میّت کو دفنانے کے بعد نواب کے چچا کے گھر آ کر بیٹھے تو پھر سے آہ و بکا کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ رونے اور چیخنے کی آوازوں سے لوگوں کے دل دہل گئے۔ کئی کئی عورتیں مل کر نواب کی چچی کو سنبھال رہی تھیں لیکن وہ پچھاڑیں کھا رہی تھیں۔ ان کا رونا کسی طرح بند نہیں ہو رہا تھا۔ میّت سے واپس آنے والے تمام لوگ چلے گئے تو نواب گھر میں داخل ہوا اور اُس نے اپنی چچی کو تسلّی دینی چاہی لیکن وہ اُس پر ٹوٹ پڑیں اور کہا ’’تیری وجہ سے شجاعت کے ابّو کا قتل ہوا ہے ، میں تجھے نہیں بخشوں گی، دیکھنا اس سے بھی خوفناک تیرا انجام ہو گا تو ہی ان کی موت کا ذمّہ دار ہے بلکہ تونے ہی ان کا قتل کروایا ہے میں پولس تھانے میں جا کر کہہ دوں گی کہ شجاعت کے ابّو کا تو ہی قاتل ہے۔ ‘‘

رشتہ داروں نے کسی طرح نواب کو ان کی گرفت سے چھڑایا اور نواب کی چچی کو سنبھالا۔ نواب گھر سے نکل کر باہر آیا۔ اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور اپنے آفس میں آ کر بیٹھ گیا اور آنے والے خطرے کو سوچ کر ہی وہ کانپنے لگا۔ ‘‘

دوسرے دن صبح ایصالِ ثواب کے لئے نواب کے چچا کے گھر قرآن خوانی ہوئی، نواب وہاں سے اُٹھا اور پولس تھانے آ گیا اور اپنے چچا کے قتل کی بابت پوچھ تاچھ کرنے لگا۔

اُسی وقت پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آ گئی جس کے مطابق موت دھار والے ہتھیاروں سے ہی ہوئی تھی لیکن قتل کہیں اور ہوا تھا لاش لا کر وہاں ڈال دی گئی تھی۔ کیونکہ جہاں لاش ملی تھی وہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔

نواب کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ رات میں جب یہ سرنگ میں داخل ہوئے ہوں تو کسی نے انھیں اندر مار ڈالا ہو اور لاش لا کر دور ریتی گھاٹ پر پھینک دی ہو۔ بہر حال نواب کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا۔ اب کسی بھی وقت وہ پولس کی گرفت میں آ  سکتا ہے۔ اُس کی چچی زیادہ دنوں تک یہ بات چھپائے نہیں رکھ پائیں گی۔ جس انداز سے میّت والے دن اس کی چچی نے نواب کو اس کے چچا کی موت کا ذمّہ دار ٹہرایا تھا یہ بات اگر پولس تک گئی تو اُس کی گرفتاری ہو  سکتی ہے۔

دن انھیں اندیشوں میں گزر گیا۔ رات میں نواب اپنے گھر میں سویا ہوا تھا کہ رات دو بجے قریب اُسے آفس کی طرف کھڑکھڑاہٹ کی کچھ آواز سنائی دی۔ وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ چوکیدار بھی جاگ گیا تھا وہ آفس کی طرف آیا، اُس نے دیکھا کہ آفس کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور اندر کسی الماری کو توڑنے کی آواز آ رہی تھی ، نواب نے وہیں سے چلّایا اور لوہے کی سلاخ لے کر اندر آفس میں گھُسا چوکیدار بھی ہاتھ میں لٹھ لے کر آگے بڑھا اُسی وقت اندر سے تین نوجوان جن کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے تیزی سے باہر نکلے اور اس سے پہلے کہ نواب ان پر حملہ کرتا وہ نواب کو اور چوکیدار کو زخمی کر کے بھاگ گئے۔ اِس شور سے نواب کی امّی بھی بیدار ہو گئیں ، پڑوس کے لوگ بھی جاگ گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ نواب اور چوکیدار زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ کسی نے پولس کو ٹیلی فون پر اطلاع دے دی اور تھوڑی دیر میں پولس وہاں پہنچ گئی۔

پولس نے مکان کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ نواب کو اور چوکیدار کو ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال بھجوا دیا۔

پولس انسپکٹر بھی تھوڑی دیر میں نواب کے گھر پہنچ گیا وہ سپاہیوں کو ساتھ لے کر نواب کے آفس میں داخل ہوا۔ وہاں اُس نے دیکھا کہ ایک الماری کُھلی پڑی تھی جس میں فائل اور کاغذات وغیرہ تھے اُسی سے لگ کر دیوار سے لگی ہوئی ایک دوسری الماری تھی جس کے دروازہ کا ہینڈل ٹوٹ کر نیچے گرا ہوا تھا اور الماری کے دروازے میں کئی جگہ سوراخ ہو گئے تھے۔ نیچے سے اِس کا ایک پلّا مڑا ہوا تھا اور دروازے تقریباً کھلے جیسے تھے۔ انسپکٹر نے رومال ہاتھ میں لے کر الماری کا دروازہ آہستہ سے کھینچ لیا۔ الماری کا دروازہ کھُل گیا اور اندر کا منظر دیکھ کر پولس انسپکٹر اور سپاہی حیران رہ گئے کیونکہ پوری الماری نوٹوں کی گڈیوں سے بھری ہوئی تھی۔

پولس انسپکٹر نے فوراً پولس کمشنر کو اس بابت جانکاری دی اور ایک گھنٹے کے اندر نواب کے مکان میں پولس کے تمام اعلیٰ افسر موجود تھے۔ ساتھ میں فوٹو گرافر پریس والے اور بستی کے ہزاروں لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے۔

جس جگہ نوٹوں سے بھری الماری رکھی ہوئی تھی وہاں پر پولس کو ایک بڑا سا چاقو، ایک ہاتھ گھڑی ، ایک چھوٹی لوہے کی راڈ اور ایک پرس پڑا ہوا ملا، پولس نے ان چیزوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

پورے کمرے کی تصویریں لی گئیں اور پنچ نامہ بنانے کی کار روائی شروع ہو گئی۔ نواب کے مکان کی بھی تلاشی لی گئی لیکن وہاں اُنھیں نواب کی والدہ کے بھاری سونے کے زیورات کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

نواب کے مکان، آفس اور گھر کے احاطے کو سیل کر دیا گیا اور چار سپاہیوں کا وہاں مستقل پہرہ لگا دیا گیا۔

نواب کو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال پہنچا دیا گیا۔ اُس کے سینے میں چاقو کا گہرا زخم لگا تھا۔ لیکن اُس کی حالت خطرے سے باہر تھی۔ دو گھنٹے بعد ہی اُسے ہوش آ گیا۔ ہوش میں آنے کے بعد اُس نے دیکھا کہ اُس کے گِرد پولس کا سخت پہرہ تھا۔ نہ تو اس کی والدہ ، نہ ہی اُس کا کوئی دوست اور نہ ہی اُس کا کوئی رشتہ دار وہاں موجود تھا۔ نواب جس اندیشے میں مبتلا تھا آخر اس نے حقیقت کا روپ اختیار کر لیا۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۱۰

پورے قصبے میں بس اِسی واقعہ کا ذکر ہو رہا تھا پولس کو کسی طریقے سے اُس بات کی بھنک لگ گئی کہ نواب کی چچی نے نواب کو ہی نواب کے چچا کے قتل کا ذمّہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس بات کا پتہ چلتے ہی پولس کے سپاہی ایک سب انسپکٹر کے ساتھ نواب کے چچا کے گھر پہنچ گئے انھوں نے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور نواب کی چچی کو گرفتار کر کے پولس تھانے لے جانا چاہتے تھے لیکن وہ چلّا چلّا کر رونے لگیں اور پولس والوں سے کہا ’’میں ساری باتیں سچ سچ بتا دوں گی میرے شوہر کا انتقال ہوا ہے ابھی میں گھر سے باہر کہیں نہیں جاسکتی۔

سب انسپکٹر نے اُنھیں سمجھایا کہ اگر وہ ساری باتیں سچ سچ بتا دیں گی تو اُنھیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اُنھیں سرکاری گواہ بنا لیا جائے گا۔ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نواب کی چچی نے نواب اور اس کی دولت کے بارے میں جو کچھ اُنھیں معلوم تھا سب کچھ بتا دیا نواب نے جو رقم اُنھیں دی تھی اُس کی بابت بھی اُنھیں بتا دیا۔ اور جہاں جہاں انھوں نے رقم رکھی تھی وہ ساری جگہیں بتا دیں۔ پولس نے پوری رقم اپنی تحویل میں لے لی۔ دو سپاہیوں کو پہرے پر بٹھا کر باقی لوگ وہاں سے چلے گئے پولس کے سپاہی نواب کی والدہ کو بھی گرفتار کر کے پولس تھانے میں لے آئے۔ اُن سے کافی سختی سے سوالات کیے گئے لیکن انھوں نے کہا کہ اُنھیں اس بابت کچھ بھی معلوم نہیں۔ نواب کی چچی نے دھامن گاؤں میں نواب کی والدہ کے ذریعہ رقم رکھے جانے کی بابت بھی بتا دی تھی، اس بابت بھی اُن سے سوالات کیے گئے ، انھوں نے کہا نواب کے چچا کو اُس رقم کا علم ہو جانے کے بعد میں نے وہ رقم لا کر نواب کو دے دی تھی۔ اُسی وقت دھامن گاؤں پولس تھانے میں ٹیلی فون کے ذریعہ اطلاع دی گئی اور نواب کے نانا کے گھر کی اچھی طرح تلاشی لینے اور گھر کے لوگوں سے تفتیش کرنے کی ہدایت دی گئی۔ پولس نے نواب کے نانا کے گھر پہنچ کر پورے گھر کی تلاشی لی اور اس رقم کی بابت دریافت کیا جو نواب کی والدہ اُن کے گھر میں رکھ کر گئی تھیں۔ انھوں نے نواب کے چچا کے آنے اور نواب کی والدہ کے ذریعہ وہ پوری رقم لے جانے کی بات پولس کو بتا دی۔ گھر کی تلاشی لینے پر اُنھیں ان کے گھر میں کچھ بھی نہیں ملا۔ نواب کی والدہ جو رقم نواب کے نانا کے گھر سے واپس لائی تھیں اس کا علم سوائے ان کے اور کسی کو نہیں تھا۔

جس رات نواب پر حملہ ہوا تھا اُس کی اگلی صبح بابا بھی آستانے سے غائب ہو گئے تھے پولس نے وہاں کے مجاور سے بابا کے متعلق کافی پوچھ تاچھ کی۔ اُس نے یہی کہا کہ صبح میں دربار میں بابا حضرت موجود نہیں تھے۔ پورے آستانے کی تلاشی لی گئی وہاں اُنھیں کچھ بھی نہیں ملا۔ پولس نے آستانے کو بند کر کے اُس کے دروازوں پر پولس کی سیل لگا دی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۱۱

دوسرے دن صبح نواب کے خالو شاہد علی خان بھی ساؤنیر سے کامٹی آ گئے۔ پولس تھانے میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ نواب اور اس کی والدہ کو کورٹ لے جانے کی تیاری چل رہی ہے۔ نواب کی طرف سے اُس کے آفس کے بابو اور دوستوں نے مل کر ایک وکیل سے بات کر لی تھی۔ نواب کے خالو نے اپنے پہچان کے ایک وکیل کو کیس لڑنے کے لئے راضی کر لیا اور اُسے ہدایت دی کہ کوشش کرے کہ پولس ریمانڈ نہ ہونے پائے ، نواب کی پولس ریمانڈ مل بھی جائے تو اُس کی والدہ کی پولس ریمانڈ نہ ملنے پائے۔

دو بجے نواب اور اُس کی والدہ کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ سرکاری وکیل نے دلیل دی کہ زیورات اور نوٹوں کی شکل میں تقریباً ایک کروڑ کا مال ضبط کیا گیا ہے اور تقریباً اتنی ہی رقم کے پراپرٹی کے کاغذات ملزم کے گھر میں ملے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ رقم ملزم اور ملزمہ نے کہیں چھپا کر رکھی ہے اس کا پتہ معلوم کرنے اور ملزم کے چچا کے چچا کے قتل کی حقیقت جاننے کے لئے ۱۵ دنوں کی پولس ریمانڈ میں ملزموں کو دیا جائے۔

نواب اور اُس کی والدہ کی پیروی کرنے والے وکیلوں نے اُنھیں ضمانت پر چھوڑ دینے پر بہت زور دیا لیکن معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے نواب کی والدہ کو ۳ دن کی پولس ریمانڈ اور نواب کو پندرہ دنوں کی پولس ریمانڈ پر حوالات میں بھیج دیا گیا۔

نواب اور اُس کی والدہ کو جب کورٹ سے پولس تھانے لایا گیا تو وہاں بہت مجمع جمع ہو گیا تھا۔ پولس کے سپاہیوں نے سب کو وہاں سے بھگا دیا۔ نواب کے خالو نے پولس انسپکٹر سے مل کر اُن پر سختی نہ کرنے کی درخواست کی۔ پی آئی نے کہا ’’آپ اطمینان رکھیں ان پر کوئی سختی نہیں ہو گی۔ ‘‘

***

پولس ریمانڈ کے دوران نواب کی والدہ کو تین دن تک مسلسل اذیتیں دی گئیں۔ رات رات بھر سونے نہیں دیا گیا۔ رسّی سے باندھ کر لٹکا دیا گیا اور رسّی کو گول گول چکّر دیے گئے۔ برف کی سل پر لٹا دیا گیا لیکن انھوں نے یہی کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور نواب کی دولت کا مجھے کچھ پتہ نہیں ہے۔

تیسرے دن جب اُنھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو ان کی حالت بہت خراب تھی سرکاری وکیل نے عدالت سے مزید تین دن کی پولس ریمانڈ کی درخواست کی، لیکن نواب کی والدہ کی حالت دیکھ کر اور ان کے وکیلوں کی دلیلوں کو مانتے ہوئے جج نے نواب کی والدہ کو ضمانت پر رہا کر دیا۔

نواب نے ابتداء میں تو پولس کی تمام سختیوں کو برداشت کیا لیکن جب اُسے مسلسل کئی دنوں اور راتوں تک سونے نہیں دیا گیا تو اُس نے بنگلے کا راز پولس والوں کو بتا دیا۔

بنگلے کے مالکوں کو نوٹس دے کر پورے بنگلے کی تلاشی لی گئی لیکن وہاں کی تمام تجوریاں خالی تھیں۔ نہ تو اُنھیں وہاں کچھ کاغذات ملے اور نہ ہی روپئے اور زیورات ملے۔ ویران حویلی کا چپہ چپہ چھان مارا گیا پولس کو کچھ بھی نہیں ملا۔ نواب نے پولس کے سپاہیوں کو سرنگ کے راستے سے سرنگ کے دہانے تک کا راستہ بتایا۔ وہاں سے انھوں نے آس پاس کا جائزہ لیا لیکن کوئی خاص چیز ان کے ہاتھ نہیں لگی۔

نواب کے چچا کے قتل کی بابت بھی اُس سے سوالات کیے گئے لیکن اُس نے وہی باتیں بتائیں جو نواب کی چچی پولس والوں کو بتا چُکی تھیں۔ ویران بنگلے کو سیل کر دیا گیا۔ بنگلے کے مالکوں نے بنگلے میں رقم ہونے اور رقم چوری ہونے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے حلف نامہ داخل کیا کہ ان کے بنگلے میں نہ تو کوئی دولت تھی اور نہ ہی وہاں سے کوئی چیز چوری ہوئی ہے۔ پولس اس بات پر حیران تھی کہ اگر یہ رقم بنگلہ مالکوں کی نہیں تھی تو اتنی دولت وہاں لا کر کس نے رکھی تھی اور باقی بچی ہوئی رقم اور زیورات کون وہاں سے اُٹھا کر لے گیا۔

مزید تحقیقات کے لئے معاملہ سی- آئی-ڈی کے سپرد کر دیا گیا۔

***

بنگلے کا پتہ بتا دینے کے بعد بھی نواب کو اذیتیں دینے کا سلسلہ نہیں رُکا۔ بے تحاشہ اُس کی پٹائی کی گئی جس سے اس کے بدن کا جوڑ جوڑ درد کرنے لگا۔ چھ چھ اور آٹھ آٹھ گھنٹے اُسے ننگا برف کی سِل پر لٹا یا گیا جس سے اُس کے جسم کا سارا خون منجمد ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ بالآخر اُس نے اِن اذیتوں سے بچنے کے لیے کنوئیں میں موجود تھیلوں کا پتہ بتا دیا۔

نواب کو اپنے ساتھ لے کر پولس کے سپاہی اُس کے مکان کے احاطے میں پہنچے۔ غوطہ خوروں نے کنوئیں میں غوطہ لگا کر وہ تمام تھیلیاں باہر نکال لیں جن میں سونے کے بسکٹ اور چاندی کی اینٹیں ، زیورات اور ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں موجود تھیں۔ پھر اُس کے مکان کے خفیہ کمرے کی تلاشی لی گئی وہاں بھی سونے کے بسکٹ اور سونے کی چھڑیں برآمد ہوئیں۔ پولس نے سارا مال اپنے قبضے میں کر لیا اور پورا مال پولس تھانے پہنچا دیا گیا۔

***

 

نواب نے اپنے جن جن رشتے داروں کی مدد کی تھی جہاں کہیں کسی کاروبار میں نواب کا پیسہ لگنے کو ثبوت ملا اُس کا مال ضبط کر لیا گیا۔ سونے کی چھڑیں بنائے جانے کی بابت بھی نواب نے پولس کو بتا دیا۔ پولس نے فوراً اُس سنار کو گرفتار کر لیا جس نے سونے کو گلا کر اُس کی چھڑیں بنائی تھیں۔ اس کی دوکان پر چھاپہ مار کر سونے کا وہ تمام مال ضبط کر لیا گیا جس کا رجسٹر میں کہیں اندراج نہیں تھا۔ سنار کو بھی گرفتار کر کے اُس کابھی پولس ریمانڈ لیا گیا۔ سنار کو بھی پولس نے کافی اذیتیں دیں اُس سے بھی سونے کے ایک بڑے ذخیرے کا سراغ ملا۔

نواب کی ۱۵ دنوں کی پولس ریمانڈ پوری ہونے کے بعد اُسے عدالت میں پیش کیا گیا۔ سرکاری وکیل نے مزید تفتیش کے لئے پولس ریمانڈ بڑھانے کی درخواست کی، خاص طور سے نواب کے چچا کے قتل کا سراغ نہ ملنے سے اُسے پولس کی تحویل میں دینے کی بات کہی گئی، لیکن نواب کے وکیلوں نے یہ کہا کہ ملزم کو جو باتیں معلوم تھیں ملزم نے پندرہ دنوں میں بتا دی ہیں اِس لئے اُسے مزید پولس ریمانڈ میں بھیجنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جج نے دونوں طرف کے وکیلوں کی بات سننے کے بعد نواب کو ۳ مہینے کی مجسٹریٹ کسٹڈی کا حکم جاری کیا اور اُسے جیل بھیج دیا گیا۔

ادھر سی- آئی-ڈی کے افسران اِس معاملے کے ہر پہلو کی باریکی سے جانچ کر رہے تھے۔ نوٹوں کے بنڈلوں پر مہا لکشمی بینک کی سیل لگی ہوئی

تھی جبکہ مہا لکشمی بینک ۵ سال پہلے دیوالیہ ہو کر کاروبار بند کر چُکا تھا۔ مہا لکشمی بینک کے ہزاروں کھاتے دار اپنی رقم پانے سے محروم ہو گئے تھے۔ مہا لکشمی بینک کے ڈائریکٹرس کا پتہ چلانے پر معلوم ہوا کہ دراصل ویران بنگلے کے مالک ہی مہا لکشمی بینک کے ڈائرکٹرس تھے۔ فوراً بینک کے تمام ڈائرکٹرس کو گرفتار کیا گیا اور دھوکے سے بینک کو دیوالیہ ظاہر کرنے کے لئے اُن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

نواب کے چچا کے قتل کی جانچ کرنے پر سی-آئی -ڈی کے لوگوں کو خون کے کچھ نشانات سرنگ کے دہانے کی ریت پر بھی ملے جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ قتل وہیں ہوا تھا بعد میں لاش ریتی گھاٹ پر پھینک دی گئی تھی۔

نواب کے آفس میں چوری کرنے کے واقعہ کے وقت وہاں جو چیزیں ملی تھیں اُن میں ایک پرس بھی تھا۔ پرس میں نام پتہ تو کسی کا نہیں تھا لیکن ایک نوجوان لڑکے کی فوٹو اُس پرس میں تھی۔ اُس لڑکے کی تلاش میں پولس سرگرداں تھی۔ ایک دن وہ فوٹو نواب کو دکھا کر اُس کی بابت نواب سے پوچھ تاچھ کی گئی۔

نواب اُس لڑکے کو پہچانتا تھا وہ اُس کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والا لڑکا تھا۔ ندی کنارے لڑکوں کو مارنے کا جو واقعہ ہوا تھا اُس میں نواب کے ساتھ وہ لڑکا بھی شریک تھا لیکن جب سے یہ واقعہ ہوا تھا وہ لڑکا کہیں نظر نہیں آیا۔ اس لڑکے کا نام سریش تھا۔

اُس کا پتہ لے کر سی-آئی-ڈی کے لوگوں نے اُس کے گھر کی اور تمام رشتے داروں کی خفیہ طریقے سے معلومات حاصل کر لی۔ معلوم ہوا کہ نواب کے چچا کے قتل کے بعد سے وہ گھر سے فرار ہے۔ اُس کے بھائی نے ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی نئی ہیرو ہونڈا گاڑی نقدی رقم دے کر خریدی ہے اور اس کے مکان کی مرمّت کا کام بھی چل رہا ہے لیکن وہ کہاں ہے اس کا کسی کو علم نہیں تھا۔

ایک دن سی-آئی-ڈی کے ایک افسر نے پوسٹ مین کا ڈریس پہنا اور بیس ہزار کا منی آرڈر سریش کے نام سے لے کر اُس کے گھر پہنچا۔ گھر کے لوگ باہر آئے اُس کا بھائی بھی ان میں شامل تھا پوسٹ مین نے بتایا کہ رمیش کے نام سے بیس ہزار کا منی آرڈر آیا ہے۔ اس کے بھائی نے کہا ’’وہ تو یہاں نہیں ہے آپ منی آرڈر ہم کو دے دیجیے آئے گا تو ہم اُسے دے دیں گے۔ ‘‘

پوسٹ مین نے کہا ’’ایسا نہیں ہوتا چھوٹی رقم ہوتی تو میں دے دیتا یہ بیس ہزار روپئے ہیں اُسی کو دینا پڑے گا ورنہ یہ منی آرڈر واپس چلا جائے گا۔ ‘‘

رمیش کے بھائی نے پوچھا ’’منی آرڈر آیا کہاں سے ہے ؟‘‘

پوسٹ مین نے بتایا کہ ’’ منی آرڈر آکولہ کے کسی منیش کھاپرے نے بھیجا ہے۔ ‘‘

رمیش کے بھائی نے کہا ’’ہاں وہ ہمارے جیجا جی ہوتے ہیں۔ میرے بھائی نے انھیں پیسے دیے ہوں گے ، جو انھوں نے لوٹائے ہوں گے۔ ‘‘

 ’’ٹھیک ہے ہم اِس منی آرڈر کو واپس کر دیتے ہیں ‘‘پوسٹ مین نے کہا

 ’’نہیں نہیں آپ منی آرڈر واپس مت کیجیے ، پیسے ان کو واپس چلے گئے تو پھر واپس نہیں ملیں گے۔ آپ رُکیے میں رمیش کا پتہ آپ کو دیتا ہوں یہ منی آرڈر آپ اُس کے پتے پر بھجوا دیجیے۔

رمیش کا بھائی گھر کے اندر گیا اور ایک چٹھی پر رمیش کا پتہ لکھ کر لایا اور اُس نے وہ پتہ منی آرڈر فارم پر لکھوا دیا، پوسٹ مین منی آرڈر فارم لے کر چلا گیا۔

اس پتے سے معلوم ہوا کہ رمیش پونہ میں اپنے کسی رشتہ دار کے گھر میں ہے۔ فوراً سی-آئی-ڈی کی ٹیم وہاں پہنچی اور انھوں نے وہاں اُسے گرفتار کر لیا۔ اُسے کامٹی لے کر آئے۔ اس کا ایک ہفتہ کا پولس ریمانڈ لے لیا گیا۔ پولس نے صرف چند دنوں کی کوشش سے ہی اس کے دونوں ساتھیوں کو بھی ڈھونڈ نکالا۔ ان تینوں سے جب سختی سے پوچھ تاچھ کی گئی تو انھوں نے قبول کیا کہ نواب کے چچا کا قتل اُن تینوں نے ہی مل کر کیا تھا۔ رات میں ٹارچ کی روشنی سے اُنھیں کسی آدمی کے وہاں ہونے کا پتہ چلا اور اُسے قتل کر کے انھوں نے وہ رقم حاصل کی ، اور رقم آپس میں بانٹ لی، پھر انھوں نے نواب کے آفس میں چوری کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے وہاں سے وہ سرنگ کے راستے ویران بنگلے میں داخل ہوئے اور انھوں نے الماری میں موجو د پوری رقم وہاں سے غائب کر دی پوری رقم آپس میں بانٹ کر تینوں الگ الگ مقامات کی طرف نکل گئے۔ پولس کو چوری اور لوٹ کی وہ تمام رقم بھی الگ الگ مقامات پر مل گئی۔ اِس سلسلے میں اور کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

***

اُن تینوں لڑکوں سے وہ ہتھیار بھی برآمد کر لیے گئے۔ جو نواب کے چچا کو قتل کرنے کے لئے استعمال کیے گئے تھے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ لاش اس لئے وہاں سے ہٹا دی گئی تھی تاکہ لوگ وہاں جمع ہو کر سرنگ کے دہانے سے اندر نہ داخل ہو جائیں۔

اُن تینوں لڑکوں کے خلاف قتل اور لوٹ کا مقدمہ درج کیا گیا اور اُنھیں پولس کی حراست میں بھیج دیا گیا۔

نواب اور اس کے رشتہ داروں کی ساری ملکیت ضبط کر لی گئی اور نواب کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

***

رہا ہونے کے بعد نواب نے ’’بابا‘‘ کو بہت تلاش کیا لیکن اُن کا کچھ پتہ نہیں چلا اُن کی تلاش میں اُس نے کئی بڑے شہروں میں آدمی روانہ کیے لیکن اُن کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا۔

نواب کو ایک دن اپنے کتھئی رنگ کے بیل کا خیال آیا وہ کلمنا مارکیٹ میں دلال کے پاس پہنچا اور اُس نے اُس بیل کی بابت بات کی۔ دلال نے کہا ’’تم نے خود اُنھیں وہ بیل دیا تھا میں ان کا پتہ بتا دیتا ہوں تم جا کر معلوم کر لو۔

دلال سے پتہ لے کر نواب اُس بیوہ عورت کے گھر پہنچا۔ بیل وہاں موجود تھا اور اُسے ایک سائبان میں نہایت اہتمام سے رکھا گیا تھا۔ عورت نے نواب کو پہچان لیا۔ نواب نے عورت سے کہا ’’میں یہ بیل لینے آیا ہوں۔ آپ کو جتنے پیسے چاہئے لے لو اور یہ بیل مجھے دے دو۔ ‘‘

عورت نے کہا ’’بھیّا اگر تم اپنی پوری دولت بھی ہمیں دے دوں گے تو بھی ہم یہ بیل تمھیں نہیں دیں گے۔ اِس بیل کے دوبارہ اِس گھر میں آنے سے ہمارے گھر کی ساری نحوست ختم ہو گئی۔ ہمارے حالات سُدھر گئے ہیں۔ ‘‘

نواب نے اُس بیل کو لینے کی کافی ضد کی لیکن عورت بیل دینے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوئی۔ نواب نے بیل کی پیٹھ پر دو تین تھپکیاں دیں۔ محبت سے اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے چلا آیا۔

***

نواب اپنی والدہ کے ساتھ وہیں کولسا ٹال میں ایک مکان میں رہنے لگا۔ ویران بنگلے سے ملی ہوئی دولت کے سلسلے میں اُس پر مقدمہ چلا اور اُسے تین سال کی سزا ہو گئی۔ سزا کاٹنے کے بعد وہ رہا ہوا ، کچھ دنوں تک وہ اپنی والدہ کے ساتھ وہیں کولساٹال والے مکان میں رہا۔ پھر ایک دن ماں بیٹے دونوں وہاں سے کہیں چلے گئے کسی کو ان کا پتہ تک معلوم نہیں تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باب۔ ۱۲

’’ہوٹل نوابس بلک کارٹ ‘‘سے ہم کھانا کھا کر باہر نکلے تو ہوٹل کا ایک لڑکا دوڑتا ہوا میرے پاس آیا، اُس نے مجھ سے کہا ’’صاحب نے آپ کو بلایا ہے !‘‘

میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’آپ لوگ ہوٹل چلیے میں ابھی آتا ہوں !‘‘

میرے ساتھی ہوٹل پوٹالا کی طرف چلے گئے اور میں اُس لڑکے کے ساتھ نواب کے ہوٹل میں آ گیا۔ نواب نے مجھے اپنے بازو کی کُرسی پر بیٹھنے کو کہا میں کُرسی پر بیٹھ گیا تو نواب نے مجھ سے کہا ’’میں تمھیں پہچان گیا تھا لیکن میں اپنے آپ کو یہاں کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری خبر میرے شہر تک پہنچے اور پھرسے میں ایک بار چرچا کا سبب بنوں۔ میں یہاں اپنی ماں اور بیوی بچے کے ساتھ بہت خوش ہوں اور بڑی پرسکون زندگی گزار رہا ہوں۔

میں نے کہا ’’تم اپنی والدہ کے ساتھ اچانک کہیں چلے گئے ، کسی کو تمھاری کوئی خبر ہی نہیں ملی صرف تمھاری کہانی موقع موقع سے شہر میں دہرائی جاتی رہی۔ نواب نے کہا ’’جیل سے رہا ہونے کے بعد میں اپنی والدہ کے ساتھ دہلی چلا آیا۔ یہاں کچھ دنوں تک ہم ایک کرائے کے مکان میں رہے پھر ایک دن میں اپنی والدہ کے ساتھ شملہ اور کلّو منالی گھومنے چلا آیا۔ یہ جگہ مجھے پسند آ گئی۔ میں نے یہ زمین خرید لی اور اس پر یہ ہوٹل تعمیر کر لیا اور اپنی والدہ کے ساتھ میں یہاں رہنے لگا۔ ہوٹل بھی اچھا چلنے لگا۔ یہاں بہت سے یوروپین ممالک کے لوگ آباد ہیں۔ انھیں میں سے کینیڈا کی ایک لڑکی اکثر ہوٹل میں کھانا کھانے آیا کرتی تھی۔ میں اُس سے انگریزی سیکھنے لگا۔ ہم ایک دوسرے کے قریب آ گئے اور میں نے اُس سے شادی کر لی اب ہم دونوں مل کر یہ ہوٹل چلا رہے ہیں اور خوش ہیں۔ آؤ میں تمھیں اپنی والدہ سے ملاتا ہوں۔ اتنا کہہ کر اُس نے ایک لڑکے کو اشارہ سے کہا کہ وہ کاؤنٹر پر نظر رکھے پھر وہ مجھے لے کر زینے سے اوپر چڑھا۔ اوپر پہنچ کر ہم ایک کمرے میں داخل ہوئے۔ کافی لمبا چوڑا کمرہ تھا ، اور نہایت نفاست سے سجا ہوا تھا، ضرورت کی ہر چیز اُس کمرے میں موجود تھی۔ ایک صوفے پر نواب کی والدہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ اور ان کی گود میں نواب کا لڑکا کسی کھلونے سے کھیل رہا تھا۔ بازو میں ہی نواب کی بیوی بیٹھی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ نواب کی والدہ نے ہمیں کمرے میں آتے دیکھا تو بچے کو گود سے اتار کر بازو کے صوفے پر بٹھا دیا اور غور سے میری طرف دیکھنے لگیں۔ میں نے نواب کی والدہ کو سلام کیا، انھوں نے سلام کا جواب دیا اور حیرت سے مجھے دیکھنے لگیں۔ اُن کے چہرے پر غضب کا نور اور وقار نظر آ رہا تھا۔ آسودگی اور خوش حالی نے اُن کی شخصیت کو کافی نکھار دیا تھا۔ وہ ایک وجیہ اور با وقار خاتون لگ رہی تھیں۔ میں نے جب اپنے تعلق سے انھیں بتایا تو وہ مجھے پہچان گئیں اور محلّے پڑوس کے لوگوں کی بابت دریافت کرنے لگیں۔ میں نے محلّے پڑوس کے لوگوں کی ایک ایک بات تفصیل سے اُنھیں بتا دی۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر میں اُٹھنے لگا تو نواب کی امّی نے کہا ’’ذرا رُکو‘‘ میں رُک گیا۔ انھوں نے کمرے میں رکھی ہوئی ایک بڑی الماری کھولی۔ اُس میں ایک پرانا سوٹ کیس رکھا ہوا تھا اُس سوٹ کیس میں سے انھوں نے ایک نہایت خوبصورت شال نکالی اور مجھے دیتے ہوئے کہا ’’یہ تمھاری والدہ کے لیے ہے لیکن میرا نام نہیں بتانا‘‘، میں نے شال لے لی۔ انھوں نے سوٹ کیس بند کر دیا مجھے ایسا لگا کہ یہ سوٹ کیس وہی سوٹ کیس تھا جو انھوں نے اپنی والدہ کے گھر دھامن گاؤں میں رکھوا دیا تھا لیکن نواب کے چچا کو اس کا علم ہو جانے کے بعد کہیں دوسری جگہ پہنچا دیا تھا۔ میں اور نواب اُن سے وداع ہو کر نیچے ہال میں آئے۔ میں نے نواب سے کہا ’’اچھا چلتا ہوں اب زندگی میں شاید پھر کبھی ملاقات ہو۔ ‘‘

نواب نے کہا ’’ہوٹل کا لڑکا تمھیں تمھاری ہوٹل تک چھوڑ آئے گا اور ہاں تمھاری مجھ سے یہاں ملاقات ہوئی ہے یہ بات صرف اور صرف تم تک ہی محدود رہے ‘‘میں نے کہا ’’اطمینان رکھو میں اس کے متعلق کسی سے ایک لفظ نہیں کہوں گا۔ ‘‘

اتنا کہہ کر میں ہوٹل کے لڑکے کے ساتھ باہر نکلا اور اپنے ہوٹل کے قریب پہنچ گیا۔ لڑکا مجھے وہاں چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان بالکل صاف تھا اور بے شمار تارے وہاں جھِل مِل جھِل مِل چمک رہے تھے۔ میں نے کائنات کے سب سے بڑے کہانی کار کی طرف دیکھا، عقیدت سے اپنا سر جھکایا اور مسکراتا ہوا اپنے ہوٹل میں داخل ہو گیا۔

۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔

***

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ٹائپنگ: : تنویر فاطمہ،محمد رفیع الدین

فائل کی فراہمی کے لئے تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔