شام ہوئی اور ڈھیر سارے پرندے میدان میں لگے ہوئے درخت پر رین بسیرے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ ان پرندوں کا یہی معمول تھا۔ صبح منھ اندھیرے رزق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے اور شام ہوتے ہی ان کے غول کے غول اڑتے ہوئے آتے اور درخت پر بیٹھ جاتے۔ تھوڑی دیر ان کی بیٹھک جاری رہتی۔ ایک دوسرے کو دن بھر کی کہانی سنائی جاتی، اپنے دکھڑے سنائے جاتے، نئے نئے تجربے بیان کیے جاتے۔ رزق حاصل کرنے کے ٹھکانے بتائے جاتے اور شکاری کی گولی، چڑی مار کے جال اور بڑے ظالم پرندوں سے بچنے کے طریقوں پر غور ہوتا۔
یہ بیٹھک ہمیشہ ان الفاظ پر ختم ہوتی: "اے ہمارے پالنے والے! ہم دل کی گہرائی سے تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ایک اور دن خیریت سے گزرا۔ تو نے ہمارا پیٹ بھی بھر دیا اور ہمیں خطروں سے بھی بچایا۔ ہمیں اتنی ہمت اور طاقت دی کہ ہم لوٹ کر اپنے اس پیارے ہرے بھرے گھر آ سکیں اور سکون سے رات گزار سکیں۔ ہمارے رب! تو ہمارے اس ٹھکانے کو اپنی حفاظت میں رکھنا۔ ہمارا یہ رین بسیرا ہر بلا سے محفوظ رہے۔" پرندوں کی چہچہاہٹ دور دور تک سنائی دیتی، لیکن جوں جوں اندھیرا بڑھتا، یہ شور کم ہو جاتا اور پھر ایسا سناٹا چھا جاتا کہ ایک آواز نہ سنائی دیتی۔
یہ درخت بہت پرانا اور بہت اونچا تھا۔ بستی کے جس آدمی سے پوچھو، وہ یہی کہتا کہ بھائی! میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس درخت کو اسی طرح ہوا میں جھومتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور اس پر پرندوں کا یہ ہجوم بھی ہمیشہ سے ہی ہے۔"
اس درخت پر تو تے، مینائیں، فاختائیں اور بعض ایسی رنگ برنگی چڑیاں آ کر بیٹھتی تھیں، جن کے نام بھی بستی والوں کو معلوم نہ تھے۔ توتے ایسے خوشنما اور رنگ رنگ کے تھے کہ بس دیکھا کیجئیے۔ کبھی کبھی ہدہد کا ایک جوڑا بھی آ نکلتا۔ سارے پرندے بڑے ادب سے انھیں اچھی جگہ بٹھاتے اور کہتے کہ یہ حضرت سلیمان کے درباری ہیں۔ درخت کے پاس سے گزرنے والے لوگ اکثر یہ منظر بڑی دل چسپی سے دیکھتے رہتے، جب تک یہ پرندے اندھیرے میں چھپ نہ جاتے۔
درخت کے قریب ہی لکڑی کی ایک لمبی سی بینچ پڑی رہتی تھی۔ کسی نے اپنے بزرگوں کو ثواب پہچانے کی خاطر یہ بینچ یہاں ڈلوا دی تھی۔ خیال یہ تھا کہ کوئی تھکا ہارا راہ گیر سستانے کے لیے اس پر بیٹھے گا تو دعا ہی دے گا، لیکن بینچ کی پشت پر جو نام لکھے ہوئے تھے، وہ وقت کے ساتھ ساتھ دھندلا گئے تھے اور ان پر ہری ہری کائی کی ہلکی سی تہہ جم گئی تھی۔ شاید یہ بینچ بنوانے والا بھی اس دنیا سے جا چکا تھا، ورنہ اس بینچ اور اس پر لکھے ہوئے نام کی صفائی ضرور کرتا۔
خیر، کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ بزرگ جو بلا ناغہ روز شام کو اس بینچ پر بیٹھ کر اس درخت کو تکتے رہتے تھے، اس بینچ پر لکھے ہوئے ناموں سے خوب واقف تھے، اس لیے وہ ہمیشہ بیٹھنے سے پہلے ان کے لیے سورہ فاتحہ ضرور پڑھ لیتے تھے۔
یہ بزرگ بینچ پر بیٹھ کر دیر تک درخت کو تکتے رہتے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ ان کے کانوں میں رس گھولتی رہتی اور درخت کی ہریالی اور اس پر بیٹھے ہوئے پرندوں کے پیارے پیارے رنگ ان کی آنکھوں کی روشنی تیز کرتے رہتے۔ ان بزرگ کو یقین تھا کہ اس بڑی عمر میں ان کی سننے اور دیکھنے کی قوت جو اتنی اچھی ہے، وہ اسی وجہ سے ہے کہ وہ روزانہ یہ حسین سر سبز منظر دیکھتے اور پرندوں کی دلکش آوازیں سنتے ہیں۔ وہ اکثر یہ منظر دیکھتے دیکھتے کھو جاتے۔ پھر ان کے ہونٹ ہلنے شروع ہوتے اور دل سے آواز نکلتی: "سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔"
سارے پرندے ان بزرگ کو جانتے پہچانتے تھے۔ انھیں بزرگ کا نام تو نہیں معلوم تھا، لیکن ان کی بزرگی کی وجہ سے وہ انھیں "بڑے میاں" کہنے لگے تھے۔ وہ سب بڑے میاں کی وہاں موجودگی کے اتنے عادی ہو گئے تھے کہ اگر کسی دن بیماری کی وجہ سے وہ نہ آ پاتے تو پرندے شور مچانے لگتے: "بڑے میاں نہیں آئے، بڑے میاں نہیں آئے۔ اللہ خیر کرے، اللہ انھیں جیتا رکھے۔"
بھلا پرندے بڑے میاں کے لیے دعا کیوں نہ کرتے؟ وہ بھی تو ان کے لیے مزے مزے کی چیزیں لاتے تھے۔ کبھی اناج کے دانے لے آئے، کبھی پھل لے آئے، کبھی چُوری اور ملیدہ لے آئے۔ بڑے میاں اپنی لائی ہوئی چیزیں زمین پر بکھیر دیتے۔ پرندے درخت سے اترتے۔ دانہ دنکا چگتے اور ایسی نظروں سے بڑے میاں کو دیکھتے ہوئے واپس درخت پر جا بیٹھتے جیسے کہہ رہے ہوں: "اے بزرگ! آپ کا شکریہ۔ آپ نے ہمارا اتنا خیال کیا۔ آپ کو اللہ کی سب مخلوقات سے پیار ہے۔ بےشک آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے انسانیت کا بھرم قائم ہے۔"
بڑے میاں اور پرندوں کے درمیان دوستی اور محبت کا یہ رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ اتنی خاموشی سے کہ کسی کو محسوس بھی نہیں ہوا۔ پرندوں سے ہی نہیں، بڑے میاں کو اس درخت سے بھی پیار تھا۔ وہ عمر میں ان سے بڑا تھا۔ انھوں نے ہوش سنبھالا تو کبھی اس کی چھاؤں میں کھیلے، کبھی اس کی ٹہنیوں پر جھولے اور کبھی اسکول کا سبق یاد کرنے کے لیے گھر کی گرمی سے تنگ آ کر اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں آ بیٹھتے۔ درخت تھا بھی بڑا سایہ دار اور خوب صورت۔ یہ درخت اس بستی کی پہچان بن گیا تھا۔ دوسرے علاقوں والے اس بستی کو "پیڑ والی بستی" کہنے لگے تھے۔
ایک دن بڑے میاں صبح سویرے کسی سے کام سے اپنے گھر سے نکلے۔ میدان کی طرف سے گزرے تو کیا دیکھا کہ بوڑھے درخت کے پاس کچھ لوگ جمع ہیں اور قریب میں بڑی بڑی مشینیں کھڑی ہوئی ہیں۔ انھیں ایسا لگا کہ جیسے کوئی مہم شروع ہونے والی ہے۔
بڑے میاں نے آگے بڑھ کر پوچھا: "بھائیو! یہ ماجرا کیا ہے؟"
ایک آدمی نے بتایا: "زمیندار صاحب نے یہ درخت کٹوانے کا فیصلہ کیا ہے۔"
"درخت کٹوانے کا فیصلہ؟" بڑے میاں کا منھ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ چند سیکنڈ بعد انھوں نے اپنے حواس جمع کر کے سوال کیا: "لیکن کیوں؟"
انھیں جواب ملا: "درخت بہت بوڑھا ہو گیا ہے۔ اس کی جڑیں کم زور ہو چکی ہیں۔ ذرا جھکڑ چلا یا آندھی آئی تو یہ گر پڑے گا۔ یہ درخت راہ گیروں اور یہاں کھیلنے والے بچوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔"
بڑے میاں غصے سے بپھر کر بولے: "بوڑھا تو میں بھی ہو گیا ہوں۔ مجھے بھی کاٹ دالو۔"
زمیندار کے آدمی مسکرائے اور انھوں نے ایک دوسرے کو آنکھ ماری، جیسے کہہ رہے ہوں کہ بوڑھا بہک گیا ہے، سٹھیا گیا ہے۔ چلو ہم اپنا کام شروع کریں۔ پھر ان سے ایک آدمی بولا: "بڑے میاں! اس درخت کی جڑیں بہت پھیلتی جا رہی ہیں۔ یہ مضبوط جڑیں میدان کے آس پاس گھروں کو ڈھا دیں گی۔"
بڑے میاں نے اس شخص کی بات پر طنز سے بھرپور ایک قہقہہ لگایا اور بولے: "واہ بھئی وا، یہ خوب رہی۔ ایک طرف تو اس درخت کی جڑیں اتنی کم زور ہیں کہ وہ اس کا بوجھ نہ سنبھال پائیں گی اور درخت گر پڑے گا اور دوسری طرف جڑیں اتنی موٹی اور مضبوط ہو گئی ہیں کہ گھروں کو ڈھا دیں گی۔ ارے واہ بھائیو! یہ کیوں نہیں کہتے کہ اس درخت کو اکھاڑ پھینکنے اور اسے کاٹ ڈالنے میں زمیندار کا کوئی اپنا فائدہ ہے۔ اس کا کوئی مقصد پورا ہوتا ہے۔"
زمیندار کے کارندوں نے بڑے میاں کی بات سنی ان سنی کی اور مشینوں کو درخت کے نزدیک لانے لگے۔ بڑے میاں کے جسم میں تو جیسے کرنٹ دوڑ گیا۔ وہ تیر کی طرح آگے بڑھے اور درخت کو اس طرح اپنی کم زور بانہوں کی حفاظت میں لینے کی کوشش کی، جیسے کسی جگری دوست سے گلے مل رہے ہوں۔ اسی وقت کسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے کہا: "آپ بوڑھے آدمی ہیں، اس لیے ہم آپ کی عزت کر رہے ہیں۔ ایک طرف ہٹ جائیے! کہیں ہم سے کوئی گستاخی نہ ہو جائے۔"
بڑے میاں نے درخت کے تنے پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے بڑے کڑوے لہجے میں کہا: "برخوردار! یہ درخت تو مجھ سے بھی زیادہ بوڑھا ہے۔ کچھ اس کی بھی عزت کر لو۔ دیکھو! یہ بھی جان دار ہے، ہرا بھرا ہے۔ اللہ کی مخلوق ہے۔"
جواب ملا: "چھوڑو بابا جی! یہ تقریر چھوڑو، ہمیں کام کرنے دو۔ ہم تو وہی کریں گے جو زمیندار کا حکم ہے۔"
بڑے میاں کا پارہ چڑھ گیا اور وہ بپھر کر بولے: "ارے ظالمو! زمیندار کے حکم پر تم اس درخت کو کاٹ ڈالو گے، جو تپتی دوپہر میں لوگوں کو سایہ دیتا ہے۔ جس کی ٹہنیاں مسافروں کو پنکھا جھلتی ہیں، جو اس کی چھاؤں میں بیٹھتے ہیں۔ تم میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو اس کے سائے میں کھیلے ہوں گے اور اس کی شاخوں پر جھولا جھولا ہو گا۔ ذرا سوچو، یہ درخت ہماری بستی کی نشانی ہے، کیا تم اپنی پہچان ختم کر دو گے؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ روزانہ سیکڑوں پرندے اس کی شاخوں پر آرام کرتے ہیں، رات بسر کرتے ہیں۔ یہ ان کا رین بسیرا ہے۔ کیا تم ان خوب صورت پرندوں کو بےگھر کر دو گے، جہنیں دیکھ کر اور جن کی چہچہاہٹ سن کر ہمیں اپنے خالق کی یاد آتی ہے؟"
ایک موٹے آدمی نے ناگواری سے کہا: "یہ بوڑھا تو کچھ زیادہ ہی تقریر جھاڑ رہا ہے۔ ہٹاؤ اسے۔" پھر ایک ہاتھ بڑے میاں کی طرف بڑھا۔
بڑے میاں درخت سے اور بھی چمٹ گئے اور دہاڑے: "خبردار، جو مجھے ہاتھ لگایا۔ پہلے مجھے کاٹو پھر یہ درخت کاٹنا، میں نہیں ہٹوں گا۔ کاٹ دالو مجھے۔"
بڑھے ہوئے ہاتھ نے بڑے میاں کے کم زور بازو کو مضبوطی پکڑ لیا اور آواز آئی: "چلو ہٹو ایک طرف۔"
بڑے میاں لڑکھڑا کر ایک طرف جا گرے۔ تماشا دیکھنے والوں میں سے چند مسکرائے، ایک دو ہنس پڑے اور باقی خاموش رہے۔ اچانک وہاں ایک با رعب اور کڑک دار آواز گونجی:
"بس بہت ہو گئی۔ خبردار! اب ان بزرگ کو ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمھارے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔ تمھارے دلوں سے اللہ کا خوف نکل گیا ہے، ایک بزرگ کی بات دھیان سے سننے کے بجائے انھیں دھکے دے رہے ہیں۔ یہ کہاں کی انسانیت ہے؟"
زمیندار کے آدمیوں نے گھبرا کر دیکھا تو اپنے قریب بستی کے بہت سے جوشیلے نوجوانوں کو کھڑے ہوئے پایا۔
درخت پر بیٹھے ہوئے پرندے اپنے پروں کو زور زور سے پھڑپھڑانے لگے، جیسے وہ بھی بڑے میاں کی حمایت کر رہے ہوں۔ ماحول بگڑا تو زمیندار کے کارندوں نے یہی غنیمت جانا کہ وہاں سے کھسک لیں۔ انھوں نے اپنا سامان سمیٹا اور چل دیے۔
مجمع چھٹ گیا۔ بڑے میاں اس نوجوان اور دوسرے حمایتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بینچ پر جا بیٹھے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ شام تک یہیں بیٹھے رہیں گے کہ کہیں زمیندار کے کارندے پھر نہ آ جائیں۔ ویسے بھی وہ اکیلے ہی رہتے تھے۔ اس وقت گھر جانا ضروری نہیں تھا۔
بڑے میاں ایک قریبی دکان سے کھانے پینے کی چیزیں لے آئے اور کھا پی کر ایسے تن کر بیٹھے، جیسے وہاں پہرا دے رہے ہوں۔ دن ڈھلنے لگا۔ روشنی کم ہونے لگی۔ پرندے واپس آنے لگے۔ جو دو چار پرندے پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے آنے والے پرندوں کو سارا واقعہ سنایا۔ کھلبلی مچ گئی، ہنگامہ ہو گیا۔ ایسا شور ہوا کہ کان پری آواز نہ سنائی دے، تھوڑی دیر بعد کچھ سکون ہوا اور پرندوں کی بیٹھک شروع ہو گئی۔
بڑے میاں بینچ پر بیٹھے رنگ برنگے پرندوں کو تکے جا رہے تھے۔ ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور دل ہی دل میں وہ اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے، جس نے اس بے زبان مخلوق کو بے گھر ہونے سے بچا لیا۔ ادھر یہ بے زبان مخلوق ایک ساتھ مل کر اپنی سریلی آواز میں یہ دعا مانگ رہی تھیں: "اے ہمارے پلانے والے! جس طرح اس نیک انسان نے ہمیں بےگھر ہونے سے بچایا ہے اسی طرح تو اسے بےگھر ہونے سے ہمیشہ بچانا، اے ہمارے رب! ہماری تجھ سے التجا ہے کہ اس کی چاردیواری اور چھت کو ہمیشہ قائم رکھنا۔"
بڑے میاں مسکرا مسکرا کر درخت کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اچانک انھیں بستی کی جانب سے کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے گردن موڑی تو انھیں بستی میں شعلے بلند ہوتے نظر آئے۔ اس جانب ان کا گھر تھا۔ بڑے میاں نے سوچا کہ اللہ مالک ہے۔ میرے گھر میں ہے ہی کون، جس کی میں فکر کروں۔ گھر جلتا ہے تو جل جائے، بس اللہ دوسروں کے گھروں کو محفوظ رکھے۔
آگ بستی کے ایک شادی والے گھر میں لگی تھی، جس سے ملا ہوا بڑے میاں کا گھر تھا۔ شادی والا گھر اس وقت خالی ہو چکا تھا۔ بستی شہر سے زیادہ دور نہیں تھی۔ آگ بجھانے والی گاڑیاں جلد پہنچ گئیں۔ آگ پر قابو پا لیا گیا، لیکن اتنی دیر میں بہت نقصان ہو گیا تھا۔ بڑے میاں آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے گھر کی طرف چلے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ شادی والا گھر تو جل گیا ہے، لیکن ان کا گھر صحیح سلامت ہے۔ کسی محلے دار کی نظر ان پر پڑی تو بولا: "چچا! بڑے خوش قسمت ہو۔ یہ تو معجزہ ہے معجزہ۔ ایسا لگتا تھا کہ شعلے آپ کے گھر سے منھ موڑ رہے ہیں۔ آنچ تک نہیں آئی آپ کے گھر کو۔"
دوسرا پڑوسی بولا: "چچا! بتاؤ کون سی نیکی کی تھی آپ نے، کس کی دعا لگ گئی؟"
بڑے میاں کچھ نہ بولے، بس دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔
٭٭٭
ٹائپنگ : مقدس
پروف ریڈنگ: ذوالقرنین، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید