ایک تھا کسان۔ بالکل سیدھا سادا۔ وہ ہمیشہ اپنی فصل گاؤں کے ساہوکار کو بیچ دیتا تھا۔ ایک بار اس کے کھیتوں میں فصل بہت اچھی ہوئی۔ کسان نے سوچا اس بار شہر جا کر فصل بیچی جائے وہاں اِس کے اچھے دام ملیں گے۔
ایک دن وہ فصل کی کٹائی کر کے شہر لے کر آیا۔ واقعی میں اُسے بہت اچھی قیمت ملی۔ کسان خوشی خوشی اپنے گاؤں لوٹ پڑا۔
راستے میں دو ٹھگ اُس کے پیچھے لگ گئے۔ باتوں ہی باتوں میں انھوں نے پتا لگا لیا کہ کسان پہلی بار شہر آیا ہے۔ تینوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اچانک ایک ٹھگ اُن کا ساتھ چھوڑ کر دوسرے راستے سے جانے لگا۔ یہ دیکھ کر دوسرا ٹھگ اُس کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا کہ :’’ تم کہاں جا رہے ہو، تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ میرے ساتھ رہو گے اور میری خدمت کرو گے ؟‘‘
’’ مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ، مَیں اپنے گھر جا رہا ہوں۔‘‘ پہلے ٹھگ نے کہا اور تیزی سے چلا گیا۔
’’اگر تم مجھے چھوڑ کر جاسکتے ہو تو ضرور چلے جاؤ۔‘‘ دوسرے ٹھگ نے کہا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔
اُس کی ہنسی دیکھ کر کسان کو بہت تعجب ہوا، اس نے پوچھا :’’ آپ اس طرح کیوں ہنس رہے ہیں ؟‘‘
’’ مَیں اُس کی بے وقوفی پر ہنس رہا ہوں۔ وہ سوچ ر ہا ہے کہ مجھے چھوڑ کر جاسکتا ہے۔‘‘ دوسرے ٹھگ نے کسان سے کہا اور پھر قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔
’’ وہ تو آپ کو چھوڑ کر چلا گیا اب آپ بے کار میں ہنس رہے ہیں۔ ‘‘ کسان نے کہا۔کسان کو اس ٹھگ کی باتیں بے وقوفی لگ رہی تھیں۔
ٹھگ نے کسان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اُسی طرح ہنستا رہا۔ تھوڑی دیر بعد جب پہلا ٹھگ ایک موڑ پر مُڑ کر غائب ہو گیا تو تب اُس نے اپنی جیب سے ایک موبائل نکالا۔ کسان نے اب سے پہلے موبائل نہیں دیکھا تھا اور اُس کو موبائل کے بارے میں کچھ بھی پتا نہ تھا۔ ٹھگ نے موبائل اُس کے سامنے لہراتے ہوئے کہا:’’ مَیں ایک جادوگر ہوں، میری مرضی کے بغیر مجھے چھوڑ کر کوئی نہیں جاسکتا، مَیں نے اُس بدمعاش کو اِس جادوئی ڈبیا میں بند کر لیا ہے۔‘‘
’’ اتنی چھوٹی سی ڈبیا میں بھلا اتنا بڑا آدمی کیسے بند ہوسکتا ہے؟‘‘ کسان سے حیرت سے پوچھا۔
’’ تم دیکھنا چاہو گے اُسے ؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’ لو دیکھو!‘‘ ٹھگ نے کہا اور اس نے موبائل کا ویڈیو شروع کر دیا۔
’’ ہائے! چھوڑ دو مجھے، نکالو اِس ڈبیا سے، یہاں بہت تکلیف ہو رہی ہے۔ ہائے! ۔۔۔ ۔۔۔ مَیں گھٹن کی وجہ سے مر جاؤں گا۔ میرے آقا مجھے چھوڑ دو۔ مجھ پر مہربانی کرو۔‘‘ موبائل کے اسکرین پر ایک ویڈیو کلپ چل رہی تھی جس میں پہلا ٹھگ چیخ چیخ کر رحم کی بھیک مانگ رہا تھا۔
کسان نے بوتل میں قید جن کی کہانیاں تو سنی تھیں، اُس نے پہلی بار اس عجیب و غریب اور انوکھی ڈبیا میں ایک انسان کو قید اور رحم کی بھیک مانگتے دیکھا تو وہ پریشان ہو گیا۔ اسے پہلے تو یقین نہیں آ رہا تھا، لیکن سب کچھ تو سامنے تھا۔ اسے بھروسا ہو گیا کہ اُس کے سامنے کھڑا آدمی کوئی بہت بڑا جادو گر ہے۔
کسان نے ٹھگ سے کہا :’’ بھائی صاحب! اِسے چھوڑ دیجیے وہ بہت رو رہا ہے۔‘‘
’’اِس ڈبیا میں قید ہو جانے کے بعد کوئی باہر نہیں نکل سکتا۔‘‘ اُس ٹھگ نے کسان کہا۔ پھر کسان سے بولا:’ ’ خیر! فکر کرنے کی کوئی بات نہیں، وہ قید ہو گیا تو کیا ہوا مجھے تم مل گئے ہو۔اب تم زندگی بھر میرے ساتھ رہ کر میری خدمت کرنا۔‘‘
ٹھگ کی یہ باتیں سُن کر کسان بُری طرح گھبرا اُٹھا۔ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولنے لگا:’’ میری بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، مجھے اُن کی دیکھ بھال کرنی ہے۔ مَیں بھلا آپ کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں۔‘‘
’’ اگر تم میرا کہنا نہیں ما نو گے تو مَیں تمہیں بھی اِس جادوئی ڈبیا میں بند کر دوں گا۔ ‘‘ ٹھگ نے کسان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا۔
اب تو کسان کی دال پتلی ہو گئی، وہ ٹھگ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔ اُسے روتا پیٹتا دیکھ کر ٹھگ نے کہا:’’ مَیں ایک شرط پر تمہیں چھوڑ سکتا ہوں۔‘‘
’’آپ صرف حکم کریں، مجھے ساری شرطیں بلا چوں چرا منظور ہے۔‘‘
’’ مَیں جادو کے دیوتا کا ایک بڑا مندر بنوا رہا ہوں۔ اگر تم اپنے سارے پیسے اُس مندر کے لیے دان کر دو تو مَیں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں۔ ‘‘ ٹھگ نے اپنی شرط بتائی۔
مرتا کیا نہ کرتا۔ کسان نے ساری رقم ٹھگ کے حوالے کر دی اور گرتا پڑتا وہاں سے بھاگ گیا۔
اُس کے جانے کے بعد پہلا ٹھگ واپس آ گیا۔ دراصل ان دونوں ٹھگوں نے پہلے ہی سے ایک ٹھگ کی روتے چلّاتے ہوئے ایک ویڈیو کلپ تیار کر لی تھی، جسے دکھا کر ان لوگوں نے کئی دیہاتیوں اور کسانوں کو لوٹ لیا تھا۔
بدحال کسان خالی ہاتھ اپنے گھر لوٹا اور اس نے اپنی ساری بپتاسنائی۔ خوش قسمتی سے اُس وقت کسان کا بھانجا موہن شہر سے آیا ہوا تھا۔ وہ اس وقت پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ اس لیے اس کو موبائل کے بارے میں معلوم تھا۔
اُس نے کہا ماموں ایسی کوئی جادوئی ڈبیا نہیں ہوتی۔ لگتا ہے کسی نے آپ کو موبائل پر ویڈیو بتا کر ٹھگ لیا ہے۔
وہ ایک پچھڑ اہوا علاقہ تھا، وہاں اب تک موبائل نہیں پہنچا تھا۔ کسان موبائل کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ پوری بات سمجھ میں آنے پر اس کی کھوپڑی گھوم گئی۔ اس نے ٹھگوں کو سبق سکھانے کا پکا ارادہ کر لیا۔
دوسرے روز وہ پھر شہر کی طرف چل دیا۔ وہ وہاں کئی دنوں تک سڑکوں پر چکر کاٹتا رہا لیکن موبائل والا جادوگر دکھائی نہ دیا۔ ایک دن اناج کے بازار میں موبائل والا ٹھگ نظر آیا۔ کسان کو دیکھ کر وہ ٹھگ وہاں سے کھسکنے لگا۔ لیکن کسان نے لپک کر اس کاراستا روک لیا اور ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا: ’’ جادوگر صاحب! مجھے آپ سے بہت ضروری کام ہے۔‘‘
’’ مجھ سے کیا کام ہے ؟‘‘ ٹھگ نے تعجب سے پوچھا۔
’’ گاؤں میں میرا ایک دشمن ہے۔ آپ چل کر اُسے اپنی ڈبیا میں بند کر لیجیے۔‘‘ کسان نے التجا کی۔
’’ مَیں بھلا اُسے کیسے بند کروں ؟ ‘‘ ٹھگ نے پوچھا۔
’’مَیں آپ کو اس کام کے لیے ڈھیر سارے روپے دوں گا۔‘‘ کسان نے یقین دلایا۔
ٹھگ نے سمجھا یہ کسان بہت بڑا بے وقوف ہے۔ اِسے اچھی طرح سے ٹھگا جاسکتا ہے۔ کچھ سوچ کر وہ اس کے ساتھ جانے کے لیے راضی ہو گیا اور کہنے لگا کہ:’’ بھائی! میری ڈبیا میں آج کل جگہ بہت کم بچی ہے کہو تو مَیں اُس آدمی کی آتما کو اس میں قید کر لیتا ہوں کیوں کہ اس میں جس آدمی کی آتما قید ہو جاتی ہے وہ دوبارہ کسی کام کا نہیں رہ جاتا۔‘‘
کسان فوراً مان گیا اور دونوں گاؤں کی طرف چل پڑے۔ ٹھگ نے سوچا مَیں اُس آدمی کی ویڈیو اتار کر کسان کو بتا کر وہاں سے فوراً نو دو گیارہ ہو جاؤں گا۔
گاؤں پہنچ کر کسان نے کہا :’’ جادوگر بھیّا! میرے پاس بھی ایک بہت بڑی ڈبیا ہے، مَیں اُس میں جس کو بند کر دیتا ہوں وہ زندگی بھر اُسی میں گول گول گھومتا رہتا ہے۔ کیا آپ اُس ڈبیا کو دیکھنا چاہیں گے؟‘‘
’’ہاں ہاں ! کیوں نہیں ؟‘‘ ٹھگ نے جھٹ سے کہا۔اُسے ایسا لگا جیسے کسان کوئی بہت بڑی بے وقوفی کی بات کرنے والا ہے۔
کسان کے گھر کے پچھواڑے تیل نکالنے والا ایک پُرانا کولھو لگا ہوا تھا۔ وہ ٹھگ کو لے کر وہاں پہنچا۔ ایک بیل کولھو میں جُتا ہوا گول گول گھوم رہا تھا۔ کسان کا بھانجا موہن بھی وہیں کھڑا تھا۔ ٹھگ کو دیکھتے ہی موہن نے کولھو سے بَیل کو نکال دیا اور کسان سے بولا:’’ ماما! چلو اپنا جادو دکھایا جائے۔‘‘
یہ سنتے ہی کسان نے ٹھگ کی گردن پکڑ لی اور اسے زبردستی کولھو سے باندھ دیا۔ پھر اُس کی پیٹھ پر ڈنڈا جَڑتے ہوئے بولا :’’ چل بیٹا! اب زندگی بھر اِسی میں گول گول گھوم۔‘‘
اب تو ٹھگ کی حالت خراب ہو گئی۔ وہ بہت رویا چلّایا لیکن کسان نے اُس کی ایک نہ سُنی۔ وہ ٹھگ کی پیٹھ پر ڈنڈے پر ڈنڈا برساتا رہا۔ مجبوراً ٹھگ کو کولھو گھمانا پڑا، لیکن تین چار چکّر کاٹنے کے بعد ہی وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔
’’ کسان نے اُسے دوبارہ پیٹنا شروع کر دیا۔ تب ٹھگ روتے ہوئے بولا:’’ مجھے چھوڑ دو! مَیں تمہارے سارے روپے واپس کر دوں گا۔‘‘
’’ مجھے صرف اپنے نہیں بل کہ اب تک تم نے جتنے روپے لُوٹے ہیں سب چاہیے۔‘‘ کسان نے غصے سے اپنی شرط بتائی کہا۔
’’ ٹھیک ہے میرے ساتھ شہر چلو مَیں وہاں سارے روپے دے دوں گا۔‘‘ ٹھگ نے کہا۔
’’ مجھے بے وقوف سمجھتے ہو۔‘‘ کسان نے ٹھگ کی پیٹھ پر ایک اور ڈنڈا رسید کرتے ہوئے کہا کہ :’’ چلو! اپنے دوست کے نام ایک خط لکھو کہ ایک آدمی گاؤں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے شہر میں رہنے جا رہا ہے اور اس وقت وہ گاؤں کی اپنی پوری زمین جائداد کَوڑیوں کے دام بیچنا چاہتا ہے۔ اس لیے تم فوراً شہر کی پوری زمین جائداد بیچ کر گاؤں آ جاؤ۔ ہم گاؤں کی پوری زمین خرید لیں گے۔ بعد میں اُسے مہنگے داموں میں بیچ کر اچھا خاصا منافع کمائیں گے۔
ٹھگ تو کسان کو بے وقوف سمجھ رہا تھا لیکن کسان تو اُن ٹھگوں کا بھی استاد نکلا۔ ٹھگ بہت پریشان ہو گیا۔ اُس کے پاس اب جان بچانے کا کوئی دوسرا راستا نہ تھا۔ اس لیے مرتا کیا نہ کرتا، اُسے اپنے دوست کو جھوٹا خط لکھنا ہی پڑا۔
کسان نے ٹھگ کے دوسرے دوست کا مکمل پتا پوچھ کر موہن کے باپ کے ہاتھوں وہ خط شہر بھجوایا۔ اُس ٹھگ نے جیسے ہی وہ خط پڑھا اُس کی تو باچھیں کھل اُٹھیں۔ اس نے کہا :’’ دو دن ہمارے یہاں رُک جاؤ، مَیں دو دن میں سب کچھ بیچ کر تمہارے ساتھ گاؤں چلتا ہوں۔
شہر میں موجود ٹھگ نے جلدی جلدی دو روز کے اندر ساری زمین اور جائداد بیچ ڈالی اور نقد رقم لے کر گاؤں پہنچا۔
جیسے ہی ٹھگ نے گاؤں میں قدم رکھا کسان نے اُسے بھی دبوچ لیا اور کہا کہ چلو مَیں بھی تمہیں ایک جادو دکھاتا ہوں۔ اور اس کو پکڑ کر موبائل والے ٹھگ کی طرح کولھو میں باندھ دیا اور اُس کی خوب جم کر پٹائی کی۔
اُس کے بعد اس ٹھگ سے ساری نقدی لے کر اُس میں سے اپنے پیسے نکال لیے اور بقیہ رقم گاؤں کے مکھیا کو دے دی۔ مکھیا نے دونوں ٹھگوں کو پولیس کے حوالے کر دیا اور روپے حکومت کے خزانے میں جمع کروا دیا۔