حکیم صاحب میں کافی عرصے سے آپ کے کالم پڑھتی چلی آ رہی ہوں۔ لوگوں کو دیئے گئے آپ کے مشوروں اور تجاویز سے میں بہت فائدہ اٹھا چکی ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے ، خیر مسئلہ میرا تو نہیں بلکہ میرے شوہر کا ہے جو کہ کچھ عرصے سے عجیب و غریب قسم کی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو چکا ہے۔ خصوصاً جب سے ان کے ایک قریبی دوست کی شادی ہوئی ہے تب سے وہ چڑچڑے ہو گئے ہیں۔ ان کی عادتیں دن بدن بگڑتی جا رہی ہیں-
مثلاً صفائی سے انہیں پہلی جیسی رغبت نہیں رہی۔ اب کپڑے دھونے ، برتن مانجھنے اور کمروں کی جھاڑو پونچھ میں ان کا جی نہیں لگتا- میں کئی صابن اور ویکیوم کلینر بدل کر دیکھ چکی ہوں کسی سے بھی افاقہ نہیں ہوا۔۔
اس کے علاوہ علم و ادب سے بھی اب انہیں چڑ سی ہو گئی ہے۔ خود تو گھر کے کاموں سے مصروفیت کی وجہ سے وہ کچھ پڑھ نہیں سکتے ، اب مجھے بھی سارا سارا دن خواتین ڈائجسٹوں اور دیگر فلمی رسالوں سے اکتسابِ فیض حاصل کرنے پر تنقید کا نشانہ بنانے لگے ہیں۔
نفسیاتی مریضوں کی طرح وہ تنہائی پسند اور لوگوں سے میل جول کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ روزانہ دس گیارہ مرتبہ سہیلیوں سے فون اور نیٹ پر چیٹنگ کے دوران بار بار مجھے ٹوکتے ہیں۔ ہجوم اور بھیڑ والی جگہوں یعنی بازار اور مارکیٹ میں اختلاجِ قلب کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے اب مجھے روزانہ شاپنگ پر لے جانے سے بھی معذرت کرنے لگے ہیں۔۔
اس کے علاوہ وقت بے وقت ان پر نیند کے دورے بھی پڑنے لگے ہیں۔ میں کوئی بات شروع کروں تو بیس پچیس منٹ بعد ہی میری بات ختم ہونے سے پہلے ہی ان پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے ، خیر شاید یہ میری آواز کی نغمگی کی وجہ سے ہو جو ان پر لوری کا سا اثر کرتی ہو، اور کیوں نہ کرے آخر روزانہ کئی گھنٹے ٹی وی اور ڈیک پر میوزک سے مستفید ہونے اور ریاض کرنے سے اتنا اثر تو آنا ہی چاہئیے۔ ۔ علاوہ ازیں ان کی بھوک بھی مر گئی ہے۔ روزانہ اب ہوٹل سے کھانا بھی نہیں منگواتے اور میں جو اتنی محنت امی سے فون پر پوچھ پوچھ کر، ڈالڈا کا دسترخوان پڑھ پڑھ کر اور ہاتھ جلا جلا کر ہر مہینے ایک دو دفعہ کھانا تیار کرتی ہوں اس کا بھی ایک ہی لقمہ کھا کر ان کی بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ خدارا ڈاکٹر صاحب اس کا کوئی شافی حل بتائیں؟
جواب:
عزیزہ آپ کے بیان کئے گئے احوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا شوہر نہایت خطرناک قسم کی کیفیت کا شکار ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دوست کی شادی کسی دقیانوسی خاتون سے ہوئی ہے جو پرانے زمانے کی خواتین کی طرح کھانا خود پکاتی، برتن وغیرہ خود دھوتی، اور شوہر کو اپنے سر کا تاج سمجھتی ہے۔ آپ کے شوہر کا یہ دوست آپ کے میاں کو اپنے گھر کے حالات سنا سنا کر آپ کی ازدواجی زندگی میں زہر گھول رہا ہے۔ فی الفور اس دوست نما دشمن سے اپنے شوہر کا تعلق ختم کرائیں۔ نیز ہمارے مطب سے "شربتِ زن مرید" منگوا کر صبح شام دو چمچ اپنے میاں کو پلائیں، انشاء اللہ افاقہ ہو گا۔
(2)
حکیم صاحب میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور آج کل شدید قسم کے احساسِ کمتری کا شکار ہو گیا ہوں۔ میں خود کو ایک ابنارمل انسان سمجھتا ہوں اور اس بنا پر میں نے لوگوں سے ملنا جلنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ آپ ہی میرے لئے امید کی آخری کرن ہو اگر آپ نے بھی میری مدد نہ کی تو شاید میں اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو لوں۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ پڑھائی میں میرا دل بہت لگتا ہے۔ کتابوں کی طرف میرا دل کھنچتا چلا جاتا ہے - وقت بے وقت سٹڈی کرنے کی عادت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہا۔ مجھے یہ بات ہضم کرنی مشکل ہو رہی ہے کہ میں ہر امتحان آسانی سے پاس کر لیتا ہوں۔ اس کے علاوہ میرے ذہن میں نجانے کیسے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ہر لیکچر اٹینڈ کرنا ضروری ہے - جو ایک دفعہ پڑھ لوں وہ سبق بار بار کوشش کرنے سے بھی ذہن سے نہیں نکلتا۔ لیکن ان سب سے زیادہ کرب اور ذہنی اذیت والی بات یہ ہے کہ مجھے رات کو نیند بھی سکون سے آ جاتی ہے اور صبح سویرے ہی آنکھ کھل جاتی ہے۔ صبح دیر تک سونے کی نعمت سے محروم ہوں۔ حالانکہ میرے ساتھیوں اور ہم جماعتوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کرتا۔ سب نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ کوئی بھی پڑھائی میں وقت برباد نہیں کرتا۔ ہر امتحان آرام سے دو دو دفعہ دیتے ہیں۔ ساری ساری رات فون پر باتیں کرتے اور ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔
میں بہت پریشان ہوں- اور سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ مجھے بھوک بھی بہت لگتی ہے۔ کھانا پیٹ بھر کے کھاتا ہوں۔ سگریٹ اور نسوار جیسی انمول شے کی طرف بار بار کوشش کرنے پر بھی طبیعت مائل نہیں ہوتی۔ اور تو اور میری صحت بھی بہت اچھی ہے۔ خدارا میری مدد کریں ؟
جواب:
آپ کا مسئلہ واقعی سنگین ہے۔ آپ ایک خطرناک بیماری " نارمل سٹیٹ آف مائینڈ " کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج کل یہ بیماری بہت رئیر ہے۔ آپ کے ساتھیوں کی بیان کر دہ حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کوایجوکیشن میں پڑھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ مسئلہ اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ آپ نہ صرف کتابوں جیسی ضرر رساں چیز میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے کر اپنا وقت برباد کر رہے ہیں، بلکہ اپنے ارد گرد کی دلچسپیوں میں دلچسپی نہ لے کر اپنے ساتھیوں کیلئے ایک غلط اور ناگفتہ بہ مثال قائم کر رہے ہیں۔ میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ فوراً سے پیشتر کسی قریبی ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں تا کہ وہ خود ترغیبی اور تحلیلِ نفسی کا عمل کر کے آپ کی جہنم زار زندگی کو جنت بنا دے۔ آپ نے شعر تو سنا ہو گا کہ
؎عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
لہذا فورا ہمارے مشوروں ہر عمل کر کے اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کریں۔ نیز ہمارے مطب سے آپ فی الفور چند ڈائجسٹ اور ہندی اور انگریزی فلمیں منگوا لیں۔ اور روزانہ دو سے تین فلمیں بلا ناغہ دیکھیں۔ سٹڈی کی لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہ نہایت آزمودہ اور تیر بہدف نسخہ ہے۔ آپ علاج میں تاخیر نہ کریں ورنہ یہ بیماری بڑھ کر سینڈروم کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔ میں آپ کی صحت کیلئے دعاگو ہوں۔
(3)
حکیم صاحب میں اپنے بیٹے کا مسئلہ لیکر حاضر ہوا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فقیر جدی پشتی رئیس ہے اور قیامِ پاکستان سے اس علاقے کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں ہمارے ہی خاندان میں رہی ہیں۔ خاندان کا واحد چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے ہم سب کی امیدوں کا مرکز میرا بیٹا ہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ بھی اپنی خاندانی روایات کو زندہ رکھتا اور موروثی سیاست میں حصہ لیکر خاندان کے کاروبار اور دولت کو بڑھاتا لیکن بدقسمتی سے صاحبزادہ بری صحبت کا شکار ہو گیا ہے اور اس پر عوام کی خدمت کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ باپ دادا کی سیاست سے کمائی گئی دولت اور عزت کو بیچ چوراہے میں غریب عوام پر لٹا رہا ہے۔ خدا جانے کس کی نظر لگ گئی ہے ورنہ تو ہم نے اس کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ پیدا ہوتے ہی خاندان کے بزرگ نے اس کے منہ میں سونے کا چمچ دے دیا تھا اور غریبوں کا سایہ بھی اس پر نہیں پڑنے دیا گیا تھا۔ خدا را حکیم صاحب اس کی صحت یابی کیلئے کوئی آزمودہ نسخہ بتائیں۔ اس کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ اللہ معاف کرے کئی دفعہ تو اس کے منہ سے جاگیردارانہ نظام کے خلاف بھی باتیں سن چکا ہوں۔ کئی دفعہ سختی سے ٹوک دیا ہے کہ یہ کیا کفر بول رہے ہو لیکن اس پر اثر نہیں ہوتا۔
جواب:
محترم رئیس صاحب! اگرچہ آپ نے اپنے خط کے ساتھ جوابی لفافہ ارسال نہیں کیا تاہم آپ کی خاندانی دولت اور سیاسی اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے ہم مطب کے اصولوں کے خلاف اپنے ذاتی خرچ پر جواب بھجوا رہے ہیں۔ کیا تعجب کہ کسی دن ہماری یہی نیکی ہمارے کام آ جائے اور آپ حکومتی فنڈ کا کچھ حصہ اس ناچیز پر بھی خرچ کر لیں۔
جناب! صاحبزادے کے احوال کا سن کر بہت دکھ ہوا ہے۔ یہ مجھے عالمی یہودی سازش کا کوئی حصہ لگتا ہے کہ جس کا شکار ہو کر آج کل کے نوجوان اپنے ہی خاندان اور اپنی روایات کے خلاف بولنے لگے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ صاحبزادے کے کمرے سی فی الفور ہر قسم کی انقلابی لٹریچر ، انقلابی شاعری اور عوام کے حقوق کا پرچار کرنے والی زہریلی کتابیں اور مواد تلف کر دیں۔ نیز کچھ عرصے تک ان کا جیب خرچ بند کر دیں اور ان کی ڈگری ان کے ہاتھ میں تھما کر نوکری حاصل کرنے کے لیے جوئے شیر لانے والی مہم پر بھیج دیں۔ انشاءاللہ کچھ ہی عرصے میں جوتیاں چٹخا کر اور سرکاری دفاتر کے چکر لگا کر ان کی عقل ٹھکانے آ جائے گی اور نظام کو تبدیل کرنے والے خیالات خود بخود مُرجھا جائیں گے۔ اور صاحبزادے آپ کی خواہش کے عین مطابق راہِ چَپ پر آ جائیں گے۔
نیز اس کے علاوہ ہمارا مشورہ ہے کہ آپ دوسری شادی کر لیں اور امید رکھیں کہ اس شادی سے اللہ آپ کو آپ کا کہا ماننے والی فرمانبردار طالح اولاد عنایت کرے گا۔ آپ کی مطلب براری کیلئے چند ادویات اور کشتے بھجوا رہا ہوں۔
دعا گو
حکیم جی
٭٭٭