02:01    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1787 2 0 05

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

تین مضامین کا مجموعہ جریدہ ’عکاس‘ اسلام آباد کی کتاب دس سے ماخوذ

جدید اُردو مرثیہ (چند حقائق، چند معروضات)

ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن(لاہور)

شعر و ادب میں ایسے واقعات زیادہ اہم قرار پاتے ہیں جو انسان کی اجتماعی زندگی اور معاشرت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ واقعۂ کربلا محض ایک تخئیلی داستان نہیں بلکہ اس واقعے میں معاشرت کرنے کے اعلیٰ اقدار مل جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ دوسرے تاریخی واقعات کی بہ نسبت واقعۂ کربلا نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ حق گوئی، مظلومیت اور تمرّد کے خلاف جہاد کرنا، یہ ایسے اعلیٰ اقدار ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ معاشروں کو متاثر کیا بلکہ اس کے اثرات ادب و شعر پر بھی مرتسم ہوئے۔ (۱) یہی سبب ہے کہ اعلیٰ قدروں کی ترویج کے لئے کربلا کو استعارہ بنایا گیا (۲) اور ان استعاروں اور تلازموں سے نہایت عمدہ اور کارگر شہ پارے تخلیق کئے گئے۔ (۳، ۴)

        معروف و غیر معروف ناقدین، محققین اور دانشوروں کی جانب سے بالعموم یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ واقعۂ کربلا نے مختلف اصنافِ شعر و ادب کو متاثر کیا، بطور ثبوت غزل، داستان، افسانہ، مثنوی، ناول، نظم، ناولٹ، سفر نامہ، رپورتاژ اور دیگر اصناف میں سے چیدہ چیدہ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعۂ کربلا نے محض شعر و ادب ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ اُردو شاعری کو متعدد اصناف سے مالا مال بھی کیا۔ آپ سلام، نوحہ اور مرثیہ کا بغور مطالعہ فرمائیے اور اس سوال کا کھوج لگائیے کہ کیا واقعہ کربلا کے بغیر ان اصناف کا ظہور میں آنا ممکن تھا؟؟ صنفِ مرثیہ وہ ممتاز صنف ہے، جس کا خمیر اسی برصغیر میں تیار ہوا اور یہی وہ صنف ہے کہ جس میں اُردو کے بیشتر اصناف کے محاسن کا جوہر مل جاتا ہے۔(۵) اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے کی صنف کو برصغیر پاک و ہند سے جو خصوصیت ہے وہ کسی دوسری صنف کو حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ سلام و نوحہ بھی صنفِ مرثیہ کی توسیع ہیں۔

        مرثیہ، سلام اور نوحے کے اصناف ہر عہد میں اس لئے مقبولِ خاص و عام رہے کہ ان میں زندگی کی اعلیٰ قدریں پیش کی جاتی رہیں اور اسی سبب سے ان کے ذریعے اعلیٰ تر معاشرتی رویّے ظاہر ہوئے۔ آج بھی مذکورہ اصناف میں واقعۂ کربلا کے حوالے سے زندگی بسر کرنے کے بہترین تصورات مل جائیں گے۔(۶) واقعۂ کربلا کا یہ فیضان ہے کہ ا س نے ایک سطح پر تو انسان کا تعلق خدا سے اور دوسری سطح پر انسان کا تعلق اعلیٰ تر معاشرتی اقدار سے جوڑ دیا ہے۔ عصرِ حاضر میں ایسے شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، جو ان اصناف کے حوالے سے معاشرے میں مثبت اقدار کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔

        لکھنو برصغیر کی تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا مرکز تھا، یہی سبب ہے کہ جملہ فنونِ لطیفہ یہاں اوجِ کمال تک پہنچے۔ نثر ہو یا شاعری، یہاں کے تخلیق کاروں نے ہر میدان میں اپنی صناعانہ تخلیقی ہنر مندیوں کا ثبوت دیا۔ فن کے اظہار کے لئے نئے نئے راستے تلاش کئے جانے لگے۔(۷) خارجیت اور ڈرامائی عناصر کے امتزاج سے لکھنؤ میں ایک منفرد شعری فضا تشکیل پانے لگی۔ (۸) اسی صورتِ حال میں خارجیت، ڈرامائی عناصر اور واقعۂ کربلا کے مثلث نے صنفِ مرثیہ کا تخلیق نامہ مرتب کیا۔ برصغیر کی سرزمین کا طرزِ احساس اور اس کے تہذیبی اثرات نیز عرب کے تاریخی واقعات و عوامل انیس و دبیر کے مرثیوں میں یکجا ہو کر فن کی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ان دونوں حضرات نے مرثیے کے تخلیقی امکانات کو وسیع کیا(۹) اور اپنے بہترین افکار کو اپنے متنوع اسالیب میں پیش کر کے ہر عہد کے شعراء کو متاثر کیا۔ (۱۰) تا اینکہ یہ سلسلہ آج بھی جار ی ہے۔ انیس و دبیر نے برصغیر کے تہذیبی عناصر کو جس طرح اپنے مرثیوں میں محفوظ کیا تھا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ان کے مرثیوں کے مطالعے سے ہم آج بھی برصغیر کی اسلامی تہذیب و ثقافت کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ (۱۱)

        بیسویں صدی میں ہندوستانی معاشرت پر طرح طرح کے بین الاقوامی سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ انیس و دبیر کا لکھنؤ زوال آمادہ تھا اور عظیم تہذیبی روایات دم توڑ رہی تھیں۔ تاہم بقول سیّد عاشور کاظمی  :

‘‘۱۸۵۷ء کے بعد اودھ کی تہذیب کو مٹانے کی کوششوں کے باوجود لکھنو گہوارۂ علم و ادب تھا … میر انیس کا شہر لکھنو، رثائی ادب کا شہر لکھنو، تہذیبِ سیادت کا شہر لکھنو، وہ شہر جو دماغ وضع کرتا تھا۔ وہ شہر جو پتھروں کو دل بنا دیتا تھا۔(۱۲)

دانش مند کہتے ہیں کہ جب چراغ بجھنے لگتا ہے تو اس کی لَو تیز ہو جاتی ہے۔ کچھ یہی صورتِ حال لکھنو میں بھی تھی کہ زوال آمادگی کے باوجود یہاں متداولہ علوم و فنون ترقی کر رہے تھے اور یہاں کی چمک دمک نوواردان کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔

        بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مختلف تاریخی، سیاسی، سماجی اور معاشی اسباب کی بنا پر برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں شکست و ریخت کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے۔ اس حوالے سے پہلے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کی رائے ملاحظہ فرمائیے

‘‘…انگریز حاکم ہندوستان کی محکوم اور ‘‘وحشی’’ رعایا کو زیادہ سے زیادہ ‘‘متمدّن’’ بنانا چاہتے تھے تاکہ ان کا معیار زندگی اعلیٰ سطح پر آ جائے اور نتیجتاً وہ ان اشیائے تجارت کی کھپت کر سکیں جو انگلستان کی ملوں میں تیار ہوتی ہیں۔ ‘‘(۱۳)

        اس معاشرتی بے کلی اور ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ پورے معاشرے میں اب کیا ہو گا …؟؟؟ کے اندیشے پائے جانے لگے۔ اس صورت حال نے دوسرے دوائر کی طرح ادب کے دائرے کو بھی متاثر کیا۔ سر سید نے تہذیب الاخلاق کے اجرا سے اپنے تئیں معاشرے کو سدھار لیا جبکہ حالی نے مسدس مد و جزرِ اسلام لکھ کر تہذیب الاخلاق کی منظوم شرح کر کے سرسید سے حق دوستی ادا کر دیا۔ (۱۴) آپ اس دور کے شعر و ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گومگو اور پژ مردہ صورت حال کے سبب سے شعر و ادب میں ایک طرف تو مایوسی، اضمحلال اور تھکن کا لہجہ ظاہر ہوا اور دوسرے رخ پر اس کے ردِ عمل میں ایک تند و تیز، گھمبیر اور دبنگ لہجہ معرضِ وجود میں آگیا۔ ان دونوں لہجوں کا مطالعہ کیجئے تو یہ ایک ہی جیسے حالات کا نتیجہ  ثابت ہوں گے۔ اس زمانے میں سیاسی اور معاشی صورت حال کی وجہ سے شعر و ادب میں بھی ایک زبردست مزاحمت اور احتجاج کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی(۱۵)۔ بیشتر اصناف اپنا اپنا چولا بدل رہے تھے۔ چنانچہ مرثیے نے بھی عصری مسائل کو جذب کیا۔ (۱۶)یہی سبب ہے کہ بیسویں صدی کے بیشتر مسائل آپ کو اس زمانے کے مرثیوں میں ضرور ملیں گے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ہلال نقوی کی رائے بھی ملاحظہ فرما لیجئے :

‘‘… بیسویں صدی میں مرثیے کا نیا سفر برصغیر کے اس زوال پذیر معاشرے کی دہلیز سے شروع ہوتا ہے جس میں فیوڈل سسٹم کے نئے جال بنے جا رہے تھے اور انگریزوں کی حاکمیت اس خطے میں اپنے نظام فکر کے بیج بو رہی تھی۔(۱۷)’’

        بیسویں صدی کا سورج نئے نظریات و میلانات لے کر طلوع ہوا اور خصوصاً مغربی اصناف کے حوالے سے اُردو اصناف میں جدید افکار و نظریات کی ضرورت کا احساس پیدا ہونے لگا۔ (۱۸) مغربی تہذیب نے اپنی رنگارنگی کی وجہ سے اہلِ مشرق کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ سوچ اور فکر کے مروجہ معیارات تبدیل ہونے لگے۔ پرانے پیمانے بوسیدہ قرار دیئے گئے اور اب نئے شعری پیمانوں میں جدید شراب کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ شعر و ادب کا تعلق فرد سے زیادہ معاشرے سے جوڑا جانے لگا اور اجتماعی لب و لہجہ کو اہمیت ملی۔(۱۹) نتیجتاً قومی اور ملی شاعری کو عروج حاصل ہوا اور مذہبی مرثیوں کی جگہ قومی اور شخصی مرثیوں نے لے لی، اقبالؔ، نظم طباطبائی، صفی لکھنوی، ریاض خیرآبادی، اثر لکھنوی اور چکبست لکھنوی وغیرہ نے قومی اور ملی مرثیوں کے ذریعے ملت کو بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی۔(۲۰) اس طرح مرثیے کا رشتہ قومی شاعری سے جڑ گیا۔ بعض ناقدین نے اس منظر نامے کے حوالے سے سطحی بنیاد پر یہ فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ اس عہد میں ‘‘مذہبی مرثیہ’’ کو زوال آ گیا تھا (۲۱) مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔(۲۲) اگر آپ بنظر غائر دیکھیں تو قومی اور ملی مرثیے بھی دراصل اسی روایتی مرثیے کا ایک جدید رُوپ ہیں۔ اب اس حوالے سے صرف دو بند ملاحظہ فرمائیے اور مذہبی مرثیے کا اثر شخصی اور ملی مرثیہ پر ملاحظہ کیجئے؎

 

علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور

دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم

صحبت مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں

پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

(علامہ اقبالؔ)              

 

یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا

رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا

یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا

دلوں میں آ کے یہ ارمان جا نہیں سکتا

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے

نہ لیں بہشت بھی ہم ‘‘ہوم رول’’ کے بدلے

(چکبستؔ لکھنوی)        

 

        بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پوری دنیا میں عموماً اور مختلف اسباب کی بناء پر ہندوستان میں خصوصاً اجتماعی شعور بیدار ہو رہا تھا۔ ایسے لائحہ عمل مرتب کئے جا رہے تھے، جن سے معاشرتی سطح پر انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکیں۔ (۲۳) اس حوالے سے مظلوم دیسی عوام کے اوپر کئے گئے مظالم کو مختلف سطحوں پر پیش کر کے سامراجی استبداد اور ظالمانہ حیثیت کو خوب اُبھارا جا رہا تھا۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد عوام الناس میں ایک انقلابی رجحان پیدا کرنے کے لئے واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا جانے لگا تھا۔(۲۴) اس روّیے کو مرثیہ گو شعراء بھی محسوس کر رہے تھے۔ (۲۵)دولہا صاحب عروج کے مرثیے کا یہ شعر اس عہد کے بدلتے ہوئے رجحانات و میلانات کی نمائندگی کرتا ہے؎

ظلمت کدے میں ہوں پہ تجلی پسند ہوں

میں ہوں عروجؔ کیوں نہ ترقی پسند ہوں

        اس سیاسی، سماجی اور معاشرتی صورتِ حال کا اُردو مرثیے کی ہئیت پر تو زیادہ اثر نہ ہو سکا لیکن موضوعات اور مواد کے اعتبار سے اس میں دُور رس تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ خاص طور پر شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے بعد کے حالات و واقعات کو بطورِ خاص مرثیوں میں جگہ دی جانے لگی اور پیغامِ امام عالی مقام کی تشہیر ہی اس کا بنیادی موضوع قرار پایا۔(۲۶) اس سلسلے میں آلِ رضا، نجم آفندی، نسیم امروہوی، جمیل مظہری، علی سردار جعفری اور جوش ملیح آبادی نے جس طرح مرثیے کو مقصدی لے عطا کی اور اس صنف کو جدید عصری تقاضوں کے عین مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، اس کی جتنی بھی مدح کی جائے کم ہے۔ آلِ رضا اور جمیل مظہری نے مرثیے کے مزاج و مذاق میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ (۲۷) جوش نے انفرادی طور پر مرثیے کو رولانے کی بجائے جگانے کا ہتھیار بنایا۔ (۲۸) نسیم امروہوی نے زبان و بیان کی نزاکتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مرثیے میں ہئیت کے کامیاب تجربے کئے۔ (۲۹) اس طرح ان قد آور مرثیہ نگاروں کی کاوشوں کے نتیجے میں مرثیے کو ایک مرتبہ پھر عروج حاصل ہوا اور فنی و فکری ہر لحاظ سے یہ صنف دوسرے وقیع اصناف کے مقابل آن کھڑی ہوئی۔ ان معروف مرثیہ نگاروں کے درج ذیل بندوں کا مطالعہ کیجئے اور دیکھیئے کہ اس زمانے میں مرثیہ کس طرح اپنے اندر عصری شعور کے سبب تبدیلی پیدا کر رہا تھا؎

 

اہلِ زمیں کی چاند ستاروں پہ ہے نظر

ممکن ہے کامیاب رہے چاند کا سفر

ہیں اپنی اپنی فکر میں ہر قوم کے بشر

مردانِ حق پرست کا جانا ہوا اگر

 

عباسؑ نامور کا علم لے کے جائیں گے

ہم چاند پر حسینؑ کا غم لے کے جائیں گے

(نجم آفندی)

 

اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ

اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ

کیوں چُپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ

تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ

 

مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو

لازم ہے کہ ہر فرد حسینؑ ابنِ علیؑ ہو

(جوشؔ ملیح آبادی)

 

حضرت نے کہا کہ رونے والو!

اب چپ رہو دل ذرا سنبھالو

اشکوں کا وفور ہو تو ٹالو

ہمت سے یہ بارِ غم اُٹھا لو

پیغامِ مشیّت آگیا ہے

ہنگامِ وصیّت آگیا ہے

(نسیم  ؔ امروہوی)         

 

        ان جدید مرثیہ نگاروں کا لگایا ہوا تخم ثمر دار ہوا اور بہت سے ایسے مرثیہ نگار ظاہر ہوئے جنہوں نے اپنے افکار عالیات کے ذریعے اس صنف کو مالا مال کیا۔ یہی سبب ہے کہ اس دور میں ہر قابلِ قدر شاعر نے صنفِ مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔ ان شعراء میں قمر ؔ جلالوی، شوکتؔ تھانوی، علامہ محسن اعظم گڑھی، ڈاکٹر یاور عباسؔ، راجہؔ صاحب محمود آباد، عزمؔ جونپوری، رئیسؔ امروہوی، راغبؔ مراد آبادی، ڈاکٹر صفدرؔ حسین، کرار نوریؔ اور فیض احمد فیضؔ کے اسمائے گرامی بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

        موجودہ دور ذہنی و فکری انتشار کا دور ہے۔ جب معاشرے میں منتشر قوتیں فروغ پا رہی ہوں تو انسان اپنے اندر سمٹنا شروع کر دیتا ہے۔ چیزوں میں اختصار کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے اور اصنافِ شعر بھی مختصر سے مختصر ترین ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی مسائل، سماجی حالات اور اندرونی بے چینیاں بھی انسان کو بے کل کر دیتی ہیں۔ اب قارئین ان اصنافِ ادب و شعر کو اہمیت دیتے ہیں، جو ان کے عصری مسائل سے ہم آہنگ ہوں اور ان کے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر سکیں۔ مرثیہ بھی ان عمرانی حالات سے دوچار ہوا مگر اپنے مزاج کے سبب اس صنف نے جلد ہی عمرانی تقاضوں کو سمجھا اور اپنے اندر تبدیلیوں کی اجازت دے دی۔(۳۰) نتیجتاً موجودہ مرثیہ نگاروں نے مرثیے میں جدید نفسیاتی، سماجی اور سیاسی مسائل کو نہ صرف یہ کہ پیش کیا بلکہ ان کے حل کے لئے نسخے بھی تجویز فرمائے۔ عہدِ جدید میں صباؔ اکبر آبادی، شاہدؔ نقوی، سہیلؔ بنارسی، شائقؔ زیدی، ساحر لکھنوی ؔ، ڈاکٹر عاصی کرنالی، خیال امروہوی، مظفر نقوی، سردارؔ نقوی، ظہوؔ جارچوی، وحیدالحسنؔ ہاشمی، سیفؔ زلفی، عبدالرؤف عروجؔ، افسر عباسؔ زیدی، ظفر شاربؔ، اثرؔ ترابی، حسن عسکریؔ کاظمی، اثرؔ جلیلی، سید فیضیؔ، ہلالؔ نقوی، امیدؔ فاضلی، قسیم ؔ امروہوی، اسیرؔ فیض آبادی، شیداؔ حسن زیدی، میر رضیؔ میر، عارفؔ امام، احمد نویدؔ، کوثرؔ امروہوی، عرفی ہاشمی، علی رضا کاظمی، حشمت علی قنبر، طاہر ناصر علی وغیرہ کے مرثیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان شعراء نے فنی اور فکری سطح پر مرثیے کو عہد جدید سے پیوست کر دیا ہے۔ (۳۱) بیسویں صدی کے آخر میں جس شاعر نے مرثیے میں فکر انگیز اور اجتہادی تبدیلیاں کیں اور اسے مقبولِ خاص و عام بنایا (۳۲) وہ قیصرؔ  بارہوی تھے۔ انہوں نے مرثیے کو واقعۂ کربلا کی خیرہ کر دینے والی روشنی میں ایک عالی شان فتح کا نقارہ بنا دیا ہے؎

 

کربلا جس کی بلندی ہے وہ مینارہ ہے

مرثیہ سب سے بڑی فتح کا نقارہ ہے

 

        عصرِ حاضر کے انحطاط پذیر معاشرے میں اخلاقی قدروں کی آبیاری کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ مخرب اخلاق رسوم و رواج نے لوگوں کو ذہنی طور پر ماؤف بلکہ مفلوج کر دیا ہے۔ افراد معاشرے اور معاشرہ فرد سے لاتعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ  صورتِ حال ہمارے دور میں اِس لیے مزید لائق توجہ ہو گئی ہے کہ اب عوام الناس کا ادب اور ادیبوں سے اعتبار اُٹھتا جا رہا ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہمارا شعر و ادب معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے لہٰذا اس کا مطالعہ اپنے قیمتی وقت کا ضیاع ہے۔ اس طرزِ احساس کا اثر ہمارے مرثیہ نگاروں پر بھی ہوا ہے۔ ایک جدید مرثیہ نگار کے درج ذیل پانچ بندوں کا مطالعہ فرمائیے اور بدلتے ہوئے ادبی حالات اور قوانین کا ذہنی بصیرت و بصارت سے تجزیہ فرمائیے :

 

سائنس کا ادیب نے دیکھا جو ارتقا

ٹیکنالوجی کو اپنا مقابل سمجھ لیا

یوں کشمکش کی زد میں ادب کا سفر ہوا

آندھی سے شب کی جنگ ہوئی بجھ گیا دیا

کل جو ادب تھا ابرِ گہر بار کی طرح

اب بانجھ ہے لُٹے ہوئے بازار کی طرح

 

بتلائیں جو ہیں آج کی دنیا سے بے خبر

وہ کیا ہے جس کو کہتے ہیں تخلیق کا سفر

ہٹ جائے راستے سے تو یوں ہے وہ راہبر

جس طرح کور چشم کی سورج پہ ہو نظر

اِک داغ ہے وہ دامنِ افکار کے لیے

تخلیق جس ادب کی ہو بازار کے لیے

 

دلچسپ کس قدر ہے تماشائے زندگی

راہِ عمل سے کٹ کے کہاں جائے زندگی

ایسے ادب سے خود کو جو بہلائے زندگی

عبرت کے مدفنوں میں نظر آئے زندگی

کیا زندگی کا ایسے ادب سے نباہ ہو

فٹ پاتھ جس کی آخری آرام گاہ ہو

 

ایسا ادب کہ جس میں پیامِ عمل نہ ہو

دامن میں مسئلے ہوں مگر ان کا حل نہ ہو

تاریک جس کی آج ہو، تابندہ کل نہ ہو

کس طرح اس کی تاک میں دیوِ اجل نہ ہو

اس زیست کو اجل کی ضرورت شدید ہے

کاہل کی موت قوم کے حق میں مفید ہے

 

جب منزلِ عمل سے ہوا دُور یہ ادب

ہر زاویے سے ہو گیا مقہور یہ ادب

بھٹکے ہوئے شعور کا منشور یہ ادب

اُجرت عذابِ زیست ہے مزدور یہ ادب

اُجڑا ہوا ہے مصر کے بازار کی طرح

تاریک ہے یزید کے کردار کی طرح

(سیّد عرفی ہاشمی)              

 

        دانش مندوں کا کہنا ہے کہ اب یہ وسیع و عریض دنیا گلوبل ولیج اور گلوبل ہٹ سے سمٹتی ہوئی آنکھ کی پتلی میں سما گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے ادب اور خصوصاً مرثیے کو بین الاقوامی صورتِ حال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اب ہماری زندگی کا مدار تبدیل ہو رہا ہے۔ اخلاقیات کی سرحدیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ معیشت کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقیوں نے انسانی ذہن کے معیارات کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ آئیے ایک نوخیز مرثیہ نگار کے خیالات سے آپ کو آگاہ کر دوں  :

‘‘اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ عالمی ادب، پاکستانی ادب اور پاکستانی ادب میں رثائی ادب کے قارئین کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے۔ مجھے اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ ہمارے تہذیبی تشخص کی بنیاد اب شعر و ادب پر نہیں بلکہ معیشت اور ٹیکنالوجی پر استوار ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرف بین الاقوامی، قومی اور علاقائی کلچر اور دوسری جانب شخصیت کو تشکیل دینے والے بنیادی رجحانات کے پیچھے بھی یہی دو عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔ نوّے فیصد سے زیادہ افراد پہلے ہی اس بات پر قائل ہیں کہ معیشت و ٹیکنالوجی سے تعلق خاطر نہ رکھنے پر انہیں سماجی حیثیت اور مادی فوائد کے حصول میں شدید رکاوٹیں درپیش ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ پاکستانی ادب اور پاکستانی ادب میں رثائی ادب کس کے لیے تخلیق کیا جائے؟ ‘‘ادب برائے زندگی’’ کا فلسفہ اچھا ہے مگر روزمرہ کاروبارِ حیات میں کہیں اس کی عملی شکل نظر نہیں آتی۔ ‘‘ادب برائے ادب’’ کا نظریہ بھی مشکل سے دوچار ہے کہ قارئین آپ کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور نئی نسل ان کے اس عمل کو احسن گردان رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال میں ہم ‘‘ادب برائے ادیب ‘‘کے نظریے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ‘‘(۳۳)

اس صورتِ حال میں ہمارے سامنے مرثیہ کا مستقبل کیا ہے؟؟؟ کیا ہم محض انیس و دبیر  یا کلاسیکی مرثیوں کے ذخیرہ کی بنیاد پر اکیسویں صدی کا سفر مکمل کر کے بائیسویں صدی میں عزت و احترام سے داخل ہو جائیں گے؟؟ یا ہمیں صنف مرثیہ کے مزاج و مذاق میں شعوری طور پر کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی؟؟ اس سلسلے میں میرا واضح اور دو ٹوک مؤقف یہ ہے کہ ہمیں اجداد کے ورثے کا تحفظ کرتے ہوئے مرثیے میں جدید موضوعات کو ضرور شامل کرنا چاہیے اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مرثیے کی ہم عصر اصناف میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی بغور دیکھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔اُمید ہے کہ ناقدین، محققین اور دانش جُو حضرات ان تجاویز پر غور فرمائیں گے۔

 

۱۔ مرثیے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور اس میں ایسے موضوعات کو بطورِ خاص شامل کیا جائے جو اکیسویں صدی بلکہ بائیسویں صدی کے عین مطابق ہوں۔

 

۲۔جدید اور قدیم مرثیوں کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے اور مرثیوں کے متون کی صحت کا بطور خاص خیال رکھا جائے تاکہ یہ عظیم ورثہ تلف ہونے سے محفوظ ہو جائے اور درست متن قارئین تک پہنچ سکے۔

 

۳۔ مرثیہ کے تحفظ اور فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ مرثیہ اور مرثیہ نگاروں کے نام سے ویب سائیٹ بنائی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے مستفید ہوں۔

 

۴۔ میڈیا کے ذریعہ سامعین اور ناظرین کو مرثیہ کی افادیت سے آگاہ کیا جائے اور مرثیوں میں موجود جدید رویوں کو اُجاگر کیا جائے۔

 

۵۔ مرثیہ کے حوالے سے تعلیمی درس گاہوں اور خصوصاً یونیورسٹیوں میں،  مذاکرے، سیمینارز اور سمپوزیم کا اہتمام کیا جائے۔

 

۶۔ معروف محققین، ناقدین اور دانشوروں سے استدعا کی جائے کہ وہ اس صنف کے حوالے سے اپنے گراں قدر خیالات تحریری شکل میں پیش فرمائیں۔

 

۷۔مرثیہ کا مشرقی و مغربی اصناف سے موازنہ کیا جائے اور اس کے اختصاصی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔

 

۸۔ نصاب سازی کے وقت مرثیوں کے مختلف اجزا شامل کیے جائیں اور ایم۔ اے کی سطح پر مکمل مرثیے کا مطالعہ لازم قرار دیا جائے۔

 

۹۔ مرثیہ کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ان کے تشفی بخش جوابات مرتب کیے جائیں۔

 

۱۰۔ مرثیہ کو صرف مسدس کی ہیئت کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اسے مرثیہ نگار پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی پسند کی ہیئت اختیار کرے۔

 

۱۱۔ مرثیہ کو زندہ رکھنے کے لیے نئے سامعین اور نئے قارئین پیدا کرنے کے لیے جست و خیز کی جائے۔

 

۱۲۔ جدید ذہن کے حامل نوجوان شعرا کو صنفِ مرثیہ کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ اب اس قدیم صنف کو تازہ لہو کی بے حد ضرورت ہے۔

 

۱۳۔ ایسی محافل اور مجالس کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے جس میں صرف اور صرف کلاسیکی اور جدید مرثیے پڑھے جائیں تاکہ سامعین میں مرثیے کی سماعت کا ذوق بیدار ہو جائے۔

 

۱۴۔ مرثیہ خوانی کے فن کو تر و تازہ رکھنے کے لیے بزرگوں کی ہدایات کی روشنی میں نوجوانوں کو آمادہ کرنا چاہیے۔

 

۱۵۔ معروف مرثیہ نگاروں کو جدید موضوعات یا صورتِ حالات دے کر ان سے مرثیہ لکھنے کی استدعا کی جائے تاکہ موضوعاتی مرثیوں کو فروغ حاصل ہو۔

 

۱۶۔ معروف مرثیہ نگاروں کے نام سے ایوارڈز کا اجرا کیا جائے۔ عصرِ حاضر کے بزرگ مرثیہ نگاروں کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کیا جائے اور ان کی ہر ممکن دلجوئی کی جائے۔

 

۱۷۔ مرثیہ کو کسی فرقے یا مذہبی گروہ سے متعلق نہ کیا جائے بلکہ ہر مذہب اور مسلک کے شاعروں کو اس صنف کی جانب متوجہ کیا جائے۔

 

۱۸۔ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعرا کو بھی آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی مادری یا قومی زبان میں مرثیے لکھیں۔

 

۱۹۔ اُردو کے معروف و مقبول مرثیوں کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع کیے جائیں تاکہ دوسری زبانوں سے آشنا لوگ بھی اس صنف سے کماحقہ،  استفادہ کر سکیں۔

 

۲۰۔ حکومت پر زور دیا جائے کہ وہ صنفِ مرثیہ کے لیے علیحدہ سرکاری ایوارڈ کا اعلان کرے۔ اہم مرثیہ نگاروں کے نام سے ٹکٹ جاری کرے اور بڑی بڑی شاہراہوں کے نام اہم مرثیہ نگاروں کے ناموں سے منسوب کرے۔

 

۲۱۔ بیرون ملک یونیورسٹیوں میں انیس اور دبیر کے نام سے چیئرز کا اعلان کیا جائے تاکہ وہاں کے طلبہ و طالبات بھی مرثیہ نگاروں سے آگاہ ہو سکیں۔

 

        اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں مرثیہ زندہ رہے گا؟؟ اس کا سادہ اور آسان جواب تو یہ ہے کہ جب تک حق و باطل کی آویزش جاری رہے گی اس صنف کا ارتقائی سفر اسی آب و تاب سے جاری رہے گا۔ اگر بنظرِ غائر دیکھیں تو صنفِ مرثیہ میں مزاج اور ہئیت کے اعتبار سے اتنی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں کہ وہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ صنفِ مرثیہ کا مستقبل انتہائی روشن اور تابناک ہے۔اب چلتے چلتے حضرتِ قیصر بارہوی کے مرثیے ‘عظمتِ فن’ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیے :

 

پڑھ لیجیے عبارتِ ایوانِ مرثیہ

تزئینِ قصرِ علم ہیں ارکانِ مرثیہ

قائل ہوئے صفات نگارانِ مرثیہ

صورت گرِ ادب ہے دبستانِ مرثیہ

بے داغ زندگی کی طلب مرثیے میں ہے

انسانیت کا سارا ادب مرثیے میں ہے

٭٭٭

 

حواشی

 

 (۱)  مجتبیٰ حسین، پروفیسر ‘‘مرثیہ اور عہد جدید’’ مشمولہ جدید مرثیہ نگاری از سید وحیدالحسن ہاشمی، لاہور، مکتبہ تعمیر انسانیت، ۱۹۶۷ء، ص ۱۸۴

(۲)   گوپی چند نارنگ، سانحہ کربلا بطور شعر ی استعارہ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء، ص ۲۰

(۳)   محمد حسن، ڈاکٹر ‘‘ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے مرثیے کا مطالعہ’’ سہ ماہی ‘‘رثائی ادب’’ کراچی، اپریل ۲۰۰۲U، ص ۱۱

(۴)   سلیم اختر، ڈاکٹر ‘‘وحیدالحسن ہاشمی کے مرثیے’’ مشمولہ ‘‘العطش ‘‘ (جلد سوم)، لاہور، الحبیب پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳۵

(۵)   خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر، قدیم نظمیں، لاہور، بک ورلڈ، ۱۹۶۴ء، ص ۲۷۱

(۶)   سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۸۸ء، ۳۷

(۷)   صفدر حسین، سید، ڈاکٹر، مرثیہ بعدانیس، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۱ء، ص ۲۳۔

(۸)   عابدعلی عابدؔ (دیباچہ)، موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ، لاہور، مجلس ترقی ادب، سن۔ ن، ص ۶۔

(۹)   احتشام حسین (مقدمہ)، مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر، لکھنؤ : نسیم بکڈپو، ۱۹۵۹ء، ص ۷

(۱۰)شجاعت علی سندیلوی، تعارفِ مرثیہ، الہ آباد، ادارہ انیس اردو، ۱۹۵۹ء، ص ۴۴۔

(۱۱) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر،معروضات،  لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء، ص ۳۷۔

(۱۲) عاشور کاظمی، سیداردو مرثیے کا سفر  دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،  ۲۰۰۶ء، ص ۶۰۰۔

(۱۳)سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر،  معروضات،  لاہور : پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء، ص ۲۲۔

(۱۴) عبداللہ، سید، ڈاکٹر، وجہی سے عبدالحق تک، لاہور : خیابان ادب، ۱۹۷۷ء، (طبع دوم)، ص ۱۱۵

(۱۵) احراز نقوی، ڈاکٹر،  انیس ایک مطالعہ ، لاہور : مکتبہ میری لائبریری، ۱۹۸۲ء، ص ۲۳

(۱۶) محمد حسن، ڈاکٹر،  ‘‘ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے مرثیے کا مطالعہ’’ مشمولہ رثائی ادب، کراچی، اپریل ۲۰۰۲ء، ص ۲۳

(۱۷) ہلال نقوی، ڈاکٹر  ‘‘بیسویں صدی اور جدید مرثیہ’’  کراچی،  محمدی ٹرسٹ، ۱۹۹۴ء، ص ۷

(۱۸) طاہر حسین کاظمی، ڈاکٹر، اُردو مرثیہ میر انیس کے بعد،دہلی : ایرانین آرٹ پرنٹرز،  ۱۹۹۷ء، ص ۱۰۵

(۱۹) احراز نقوی، ڈاکٹر، جدید فنِ مرثیہ نگاری، مرتبہ : وحیدالحسن ہاشمی، لاہور، مکتبہ تعمیر ادب، ۱۹۶۷ء، ص ۲۱۲

(۲۰)محمد رضا کاظمی،  جدید اُردو مرثیہ، کراچی، مکتبہ ادب ۱۹۸۱ء، ص ۱۳۔

(۲۱) شجاعت علی سندیلوی،  تعارف مرثیہ،  الہ آباد، ادارہ انیس اُردو، ۱۹۵۹ء،  ص ۷۰

(۲۲)اسد اریب، ڈاکٹر،  اُردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور : کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء،  ص ۸۴۔۸۹

(۲۳)

حامد حسن قادری،  مختصر تاریخ مرثیہ گوئی،  کراچی،  اردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۶۴ء، ص ۱۰۰

(۲۴)  شجاعت علی سندیلوی،  تعارفِ مرثیہ،  الہ آباد، ادارۂ انیس اُردو، ۱۹۵۹ء،  ص ۸۶

(۲۵) محمد رضا کاظمی، جدید اُردو مرثیہ  کراچی : مکتبۂ ادب،  ۱۹۸۱ء،  ص ۸۶

(۲۶) ضمیر اختر نقوی (مرتب)،  جو ش کے مرثیے، کراچی، ادارۂ فیض ادب، ۱۹۸۰ء، ص ۲۲

(۲۷) کرار حسین، پروفیسر (پیش لفظ)، مراثی آلِ رضا، کراچی، خراسان اسلامک ریسرچ سنٹر، ۱۹۸۱ء

(۲۸) عاشور کاظمی، سیداُردو مرثیے کا سفر  دہلی :  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء،  ص ۴۵۴

(۲۹)   اسد اریب، ڈاکٹر، اردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور، کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء، ص ۱۰۱

(۳۰) صفدر حسین، سید، ڈاکٹر، مرثیہ بعد انیس، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۱ء، ص ۱۷۴

(۳۱) اسد اریب، ڈاکٹر،اُردو مرثیے کی سرگزشت،لاہور : کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء،  ص ۸۵

(۳۲)ہلال نقوی، ڈاکٹر (مقدمہ)،  لہو لہو کہکشاں،  کراچی، ادارہ تقدیس قلم، ۱۹۸۹ء،  ص ۲۹

(۳۳)عرفی ہاشمی،  بُجھے چراغوں کی روشنی  (مرثیے)، لاہور:  الحسن پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء، ص ۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

         ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن کی تحقیق و تنقید کا نقطہ مرکزی اور مرغوب موضوع مرثیہ اور مرثیہ گو شعرا رہا ہے، خاص طور پر جدید مرثیہ گو شعراء۔مرثیے کی تحقیق و تنقید ڈاکٹر شبیہ کا امتیاز یوں ٹھہرتی ہے کہ رثائی ادب کے سلسلے میں اُن کی اب تک شائع ہونے والی کُتب میں نصف کے قریب مرثیے کی تدوین، تحقیق، تفہیم اور تفسیر سے متعلق ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے متعدد امکانی موضوعات پر مباحث کے در وا کیے ہیں۔ انہوں نے لکیر کو نہیں پیٹا بلکہ ایسا فکری موقف اختیار کیا ہے جو مرثیے کے کئی نئے زاویے سامنے لاتا ہے یوں مرثیے کی تفہیم اور اس کے فنی پہلوؤں کو مزید نکھارا ہے۔(محمد شفیع بلوچ کے مضمون رثائی ادب کا ابن خلدون ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن سے اقتباس

مطبوعہ عکاس  انٹرنیشنل اسلام آباد محرم الحرام نمبر۔جنوری ۲۰۰۹ء۔ص ۲۵)

اردو ادب میں مرثیے اور سلام کی حیثیت

تسلیم الہیٰ زلفیؔ ( کینیڈا)

سانحۂ  کربلا کے حوالے سے اُردو زبان میں مرثیہ اور سلام ایک ایسی صنفِ ادب بن گئی ہے جو کسی دوسری زبان میں نہیں پائی جاتی۔ میر انیسؔ اور دبیرؔ نے اُردو مرثیے اور سلام کو جس بلندی پر پہنچایا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

ہر صنفِ ادب میں وقت کے ساتھ  نِت نئی تبدیلیاں رُو نما ہوئیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ مرثیے اور سلام میں کس قسم کی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اور جدید مرثیہ اور سلام کیا ہے۔ مرثیے اور سلام کو فکری بنیادوں  آگے بڑھانے والے کون ہیں۔  اور مرثیے اور سلام کی ہیئت کی تبدیلیوں سے کیا صورتِ حال بنی ہے۔

کسی بھی صِنفِ ادب کے فروغ کتابیں، رسائل اور ناقدین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مرثیہ اور سلام ایک مقبول صِنفِ ادب ہونے کے باوجود امام بار گاہوں تک محدود کر دی گئی ہے۔  ادبی رسائل میں مراثی اور سلام شامل نہیں کئے جاتے ہیں۔ مختلف شعراء کے مرثیوں اور سلام کے مجموعے شائع ضرور ہوتے ہیں لیکن اُن کی تشہیر دیگر ادبی کتابوں کی صورت نہیں ہوتی۔  جبکہ ہمارے بیشتر ناقدین اس جانب متوّجّہ نہیں ہوتے۔ ان کی لا تعلقی کے اسباب کیا ہیں۔ ۔اور یہ کہ مرثیے اور سلام کی ادب میں کیا حیثیت ہے  ؟

ادب کوئی ایسی مُجرّد حقیقت نہیں ہے کہ وہ مُعلّق فضاء میں لکھا جائے۔ پچھلے ڈیڑھ دو سو برس میں ہمارے معاشرے میں تہذیبی اور سیاسی انداز کی جو تبدیلیاں آئی ہیں اس سے مرثیے اور سلام کی صِنف بھی متاثر ہوئی۔  اگر آپ میر انیسؔ کے بعد کا زمانہ لیں تو جدید مرثیے اور سلام کا تصور جوش ؔ صاحب سے قائم  ہُوا۔ برِّ صغیر کی جنگِ آزادی لڑی جا رہی تھی اور جوشؔ صاحب نے کربلا کو اُس آزادی کے رشتے سے ہم آہنگ کر کے جو مرثیے اور سلام لکھے۔ ۔وہاں سے جدید مرثیے اور سلام کا تصوّر قائم ہُو۔ اُس سے بہت پہلے ہم اقبالؔ کی شاعری کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں تو ‘  رموزِ بے خودی’  سے سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۱۸ ؁ میں ‘ رموزِ بے خودی’  شائع ہوئی ہے۔ سلیم چِشتی نے  ‘رموزِ بے خودی’ کی شرح لکھی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ، میں نے علاّمہ اقبال سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں

؎

 

ذاتشِ اُو شعلہ ہا اندوختیم

رَمزِ قرآں از حُسین ؓ آموختیم

 

تو ‘ رمزِ قرآں’  سے کیا مُراد لیتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ تعلیماتِ قرآن کی روح یہ ہے کہ باطل کے خلاف صف آراء ہو جاؤ۔ اِس تناظر میں جوشؔ صاحب نے پہلا مرثیہ ‘آوازِ حق’  لکھا۔ اُس سے ایک جدید مرثیے کا تصوّر سامنے آیا۔ ۔اگر ہم عہدِ انیسؔ کا مرثیہ یا سلام پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی اہم واقعہ رُو نما ہُوا ہے۔ میر انیسؔ کا یہ شعر دیکھئے ۔ ۔۔۔ ؎

 

آج  شبّیرؓ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

ظلم کی گلشنِ زِہرہؓ پہ گھٹا چھائی ہے

لیکن آج کا مرثیہ یا سلام پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی عظیم واقعہ رُو نما ہُوا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اُس دَور کا مرثیہ ایک خبر تھا، جبکہ آج کا مرثیہ تجزیہ ہے۔ اُس مرثیے میں حالات کی جنگ ہے، جبکہ آج کے مرثیے میں نظریات کی جنگ ہے۔جوشؔ صاحب سیدّنا حسینؓ کے کردار کو انسانی حوالے سے دیکھ تے ہیں، ا ور اُسی پر زیادہ زور دیتے ہیں  ملاحظہ  ہو ۔ ۔۔۔ ؎

دل بھی جھُکتا جاتا تھا سجدے میں پیشانی کے ساتھ

  کیا  نمازِ شاہ  تھی  ا رکانِ  ایمانی  کے  ساتھ

ماضی میں جو مرثیے لکھے گئے ان کی  تعریف آسان ہے۔ اُن میں ایک سراپا ہے، آمد ہے، رَجَز ہے، رخصت ہے، یہ سب باتیں آتی ہیں۔  مگر آج کا مرثیہ کسی بھی  لکھا تھا یہ اُن مرثیوں کے سیاسی محرّکات ہیں اور جوشؔ ہی اُس سیاسی  جد و جہد کو مرثیے سے منسلک کرتے ہیں۔

 

آپ یہ دیکھیں کہ جتنی نظم نگاری میں سیاسی شاعری ہوئی ہے،  اُسی قدر مرثیے میں سیاسی فکر نمایاں ہوئی ہے۔ اِس ضمن میں بعض اہلِ فن کا کہنا ہے کہ مرثیے کو صرف مسدّس ہی میں لکھا جانا چاہیے، تو بہت پہلے علاّمہ جمیل مظہری اور حاضر میں ڈاکٹر ہِلال نقوی نے مسدّس کی فارم سے بہت ہٹ کر مرثیے لکھے ہیں۔  دیکھیے ہِلالؔ نقوی کا انداز۔ ۔۔۔ ؎

تڑپ کے اُٹھ نہ کھڑے ہوں قتیلِ راہِ وفا 

پُکارتا ہے  کوئی  کربلا  کی  بستی  میں

 سَمت کا تعیّن نہیں کرتا۔  جوشؔ صاحب اپنے مرثیے کو آزادی کی تحریک سے مِلا دیتے ہیں۔ جبکہ علاّمہ جمیل مظہری کے یہاں فلسفیانہ رنگ ہے ۔ ۔۔۔۔ ؎

 

کیوں کہوں کہ راہِ حق میں مظہریؔ دریا  نہ تھا

بھیک جو دریا سے لے، اتنا کوئی پیاسا نہ تھا

لیکن نسیم ؔ امروہوی کے یہاں بالعموم دینی اِستدلال مِلتا ہے ۔ ۔۔۔ ؎

 

عشقِ خدا  کا  بار،  نہ کہسار سے اُٹھا

افلاک سے نہ عرشِ ضیاء  بار سے  اُٹھا

یہ کیا نہ  انتہائے  خوش اطوار سے اُٹھا

حُسینِؓ بے کسَ و بے یار سے اُٹھا

رُخ زَر د  آدم و مَلَک و جِن کا ہو گیا

یہ ہو گئے خدا کے،  خدا اِن کا ہو گیا

اور آلِ رضاء کے اعتقاد و ایمان کے یہ تیور ہیں۔ ۔۔۔۔ ؎

 

لغزشیں ہم سے بھی ہوتی ہیں، مگر واہ رے ہم

  یا  علیؓ  کہہ  کے  سنبھلنے  میں مزا  آتا ہے

آج کے مرثیہ و سلام نگار بالکل مختلف انداز سے سوچتے ہیں۔ کہیں سائنسی تجزیہ ہے، کہیں سیاسی بحث ہے اور کہیں کربلا کے سماجی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ فکری روّیہ کیا ہے۔ میرے خیال میں آج کا مرثیہ اور سلام نگار تین کرداروں کے گِرد گھوم رہا ہے : حضرت حسینؓ، بی بی زینبؓ اور حضرت عباّسؓ، لیکن جب وہ عونؓ و محمّدؓ اور بی بی سکینہؓ کے متعلق لکھتا ہے تو ایک بے بسی سی محسوس ہوتی ہے، وہ اِس انداز کے رَوّیے جدید انداز میں پیش نہیں کرسکتا !

میرا خیال ہے کہ وہ مرثیہ او رسلام جو مقصدِ شہادت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے، وہ واقعتاً مقدّم ہے اور جدید ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے اور سلام میں جو واضح تبدیلی آئی ہے وہ دبیرؔ کے بیٹے اوجؔ سے آئی ہے۔ لیکن اوجؔ کا شعر سننے سے پہلے مرزا دبیرؔ کی گھن گرج ملاحظہ فرمائیں۔ ۔۔۔۔ ؎

کس شیر کی  آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے 

رن ایک طرف، چرخِ کہن کانپ رہا ہے

اب آتے ہیں مرزا  اوجؔ کی طرف، جن کا کہنا ہے کہ۔ ۔۔۔ ؎

حُسینؓ جہد و عمل میں ہیں، کربلا میں نہیں

وہاں  تو صرف  چڑھایا  تھاآستیوں کو 

یعنی فن برائے فن کا جو تصوّر وابستہ تھا، اُس کو سب سے پہلے اوجؔ نے اور پھر دبیرؔ کے شاگرد شادؔ عظیم آبادی نے توڑا۔ دوسری منزل جوشؔ صاحب کی ہے، انہوں نے اس سیاسی بیداری کو بغیر کسی ابہام کے سیاسی واقعات اور سیاسی  جِد و جُہد سے منسلک کیا، لہذا  ‘ آوازِ حق’  جوشؔ صاحب نے جَلیانوالہ باغ کے ردِّ عمل میں لکھا تھا۔ یہ ان مرثیوں کے سیاسی محرکات ہیں اور جوشؔ ہی اس سیاسی جدوجہد کو مرثیے سے منسلک سے منسلک کرتے ہیں۔

آپ یہ دیکھیں کہ جتنی نظم نگاری میں سیاسی شاعری ہوئی ہے، اسی قدر مرثیے میں سیاسی فکر نمایاں ہوئی ہے۔ اس ضمن میں بعض اہلِ فن کا کہنا ہے کہ مرثیے کو صرف مسدّس ہی میں لکھنا چاہیے، تو بہت پہلے علامہّ جمیل مظہری اور حاضر میں ڈاکٹر ہلال نقوی نے مسدّس کی فارم سے بہت ہٹ کر مرثیے لکھے ہیں۔  دیکھیے ہلال نقوی کا انداز ۔ ۔۔ ؎

تڑپ کے اٹھ نہ کھڑے ہوں قتیلِ راہِ وفا

پکارتا ہے  کوئی  کربلا  کی  بستی  میں

مئے  وِلا  کے  شرابی  شِکستہ  حال  سہی

خرید  لیتے ہیں  جنّت کو  فاقہ  مستی میں

میں سمجھتا ہوں کہ موضوع ہی صِنف کا تعین کرتا ہے، صِنف موضوع کا تعیّن نہیں کرتی۔ اُردو میں جو مرثیہ ہے، وہ ایک بالکل مختلف صِنف ہے۔  اُردو نے عربی سے مرثیہ ضرور قبول کیا ہے، لیکن اُردو میں مرثیہ سیّدنا حُسینؓ اور شہدائے کربلا سے مخصوص کر دیا گیا ہے، اور  اِس میں مرثیہ گو شعراء کوشش کرتے ہیں کہ سیدّنا حُسینؓ کے اعلیٰ کردار کے حوالے سے اپنی سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی اَقدار کو بلند کریں، اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اُردو میں جو مرثیہ ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ یہ صِنف اگر کسی سے تھوڑی بہت ملتی ہے تو وہ رَزمیہ ہے، لیکن رَزمیے سے یوں مختلف ہے کہ رَزمیے میں کردار خیالی ہوتے ہیں، جبکہ مرثیے کے کردار اصلی ہیں اور ان کی بہت بڑی اہمیّت ہے۔ دوسری چیز یہ کہ جب آپ جدید مرثیے اور سلام کی بات کرتے ہیں تو جدید مرثیے اور سلام کا تعلق جدّت سے نہیں ہے۔ جدیدیت کا سلسلہ ہمارے یہاں اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب سے جنگِ آزادی اور سرسیّد تحریک شروع ہوئی اور اس میں ہم نے نئے نئے موضوعات جن کی معاشرے میں ضرورت تھی، انہیں نثری ادب اور شاعری میں پیش کرنا چاہا، وہاں سے ہمارا یہ جدید رَوّیہ شروع ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری روایتی شاعری بالکل ہی بے  مقصد تھی۔۔وہ اَقدار پر مبنی تھی جس میں آپ کا طرزِ احساس اَقدار سے متعلق تھا، لیکن اُس کے بعد اَقدار کے بجائے تجربات و مشاہدات شامل ہوئے اور سر سیّد تحریک کا سب سے بڑا کار نامہ بھی یہی ہے کہ چاروں طرف جو کچھ ہو رہا تھا اُسے موضوع بنایا گیا، وہیں سے جدید انداز اختیار کیا گیا اور یہ طرزِ احساس مرثیے اور سلام میں بھی داخل ہُوا۔مرزا اوجؔ نے جو مرثیے کہے ہیں وہ سر سیّد تحریک کے موضوعات تھے، لیکن انہوں نے اپنے طرزِ احساس میں کوئی تبدیلی نہ کی اُن کا طرزِ احساس روایتی تھا، کیونکہ اُن کا طرزِ احساس اَقدار پر قائم تھا۔ جدید حِسیّت کی تعلیم یہ ہے کہ بجائے اَقدار کے ذاتی تجربے پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض باریک بین نقّاد، جوشؔ ملیح آبادی اور علاّمہ جمیل مظہری کے مرثیوں کو بھی اِس لحاظ سے جدید نہیں کہتے کہ ان میں بھی طرزِ احساس روایتی ہے، اَقدار کے اوپر بنیاد ہے، البتّہ موضوعات نئے ہیں جو سر سیّد تحریک کا حصّہ ہیں۔ ہمارے یہاں جو جدّت آئی ہے وہ ذاتی احساس سے آئی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ سلام کا بنیادی موضوع بھی مرثیے والا ہی ہے، یعنی واقعاتِ کربلا، مصائبِ حُسینؓ و انصارِ حُسین، لیکن غزل کی طرح اس کے منفرد اشعار اور ردیف و قوافی کی پابندی کے سبب اس میں جولانیِ طبع دکھانے کی گنجائش بیحد کم ہوتی ہے۔ البتہ اگر سلام کہنے والا شاعر مشّاق، کہنہ مشق اور فکرِ رسا کا ملک ہو تو وہ اپنی جولانیِ طبع سے سلام میں بھی قصیدے، مرثیے اور غزل کا لطف پیدا کر دیتا ہے۔ صباؔ اکبر آبادی صاحب کی فکرِ رسا، قادر الکلامی اور کہنہ مشقی نے سلام کو ایک نئی معنویت اور اشاریت دیدی ہے، ان کے سلام پڑھتے وقت ایسا محسوسو ہوتا ہے کہ یہ تشبیہات اور تراکیب محمدﷺ و آلِ محمدﷺ کی تعریف کے لئے ہی بنی ہیں۔  صباؔ صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ تشبیہات اور الفاظ کے استعمال میں حفظ مراتب کا بیحد خیال رکھتے ہیں، وہ جہاں جس کے لئے جو لفظ استعمال فرماتے ہیں، وہ اس شخص کے لئے خاص معنویت رکھتا ہے، اور اس ماحول و فضاء میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے۔ اس ضمن میں صباؔ صاحب نے سانحۂ  کربلا کی کچھ نہایت ہی کڑی اور تکلیف دہ ساعتوں کی کیفیت اور شدّت کو بیان کرنے کے لئے اس کے نفسیاتی پہلو تلاش کئے ہیں، جو نہ صرف اس کے تاثّر اور درد انگیزی میں اضافہ کرتے ہیں، اس طرح وہ واقعے کی تفصیل بیان کئے بغیر ہی محض اشاروں اور استعاروں کی مدد سے، اس کی مکمل تصویر نگاہوں کے سامنے کھینچ دیتے ہیں۔ صباؔ اکبر آبادی کے سلام سے تین شعر دیکھئے۔ ۔۔۔۔ ؎

روزِ عاشور سب نے دیکھا ہے

نوکِ پیکاں پہ پھول کھِلتا ہے

خطِ تقسیم  دین  و  دنیا  ہے

اب  سمجھئے  کہ  کربلا کیا ہے

بس شہادت میں ہے  حیاتِ ابد

ورنہ  جینے  کا  بھروسا کیا ہے

اسی طرح ہیئّت کی تبدیلی نے بھی مرثیے کو نیا روپ دیا ہے، جس کی مثال خواجہ رئیس احمرؔ اور پرفیسر کرّارحُسین کے صاحبِ زاد ے شبیہ حیدر ہیں، جنہوں نےمسدّس کی پابندی سے نکل کر آزاد نظم میں مرثیے لکھے، اور مقبولیت حاصل کی ہے۔  اردو مرثیے نے فکری بنیاد پر بھی بہت ترقی کی ہے۔  علی سردار جعفری اور فیض احمد فیضؔ صاحب نے بھی مرثیے لکھے اور جدید دَور میں مرثیے کو آگے بڑھایا ہے۔ ملاحظہ ہو فیضؔ صاحب کا رنگ۔ ۔۔۔ ؎

 مَرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سَر تھا

  اُس  خاک تلے جنّتِ فردوس  کا  در تھا

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُردو کی دوسری اَصنافِ سُخن کی طرح مرثیے اور سلام کو ادبی حیثیت اور اہمیّت حاصل کیوں نہیں ہے ؟

میں سمجھتا ہوں اِس  میں دونوں جانب سے قصور ہے۔  بیشتر مرثیے اور سلام تبلیغی انداز سے لکھے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس میں آفاقی حوالہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ہندوستان کے رسائل میں مرثیہ اور سلام نگاری پر کثرت سے مضامین لکھے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں اس کا رواج نہیں ہے۔ شاید اس لئے بھی کہ پاکستان میں ادبی رسائل کے ۹۸ فیصد پڑھنے والے سُنّی ہیں!!  میں نے پاکستان کے کسی رسالے میں جوشؔ سے فیضؔ صاحب تک کی مرثیہ نگاری پر کوئی مضمون نہیں دیکھا!۔  فیضؔ صاحب کی ایک کمزور غزل پر بحث ہوتی ہے لیکن اُن کے مرثیے پر توجّہ نہیں دی گئی۔ ۔اس پر غور کی ضرورت ہے۔

قِصّہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جس نسل نے مرثیہ اور سلام لکھنا شروع کیا اُس میں ایک تبدیلی آئی، ہُوا یہ کہ کسی مُجرّد موضوع کی تشریح روایتی انداز سے کی جاتی ہے۔  ہمارے مرثیہ اور سلام لکھنے والے سمجھنے لگے ہیں کہ ہم فطری شاعری کر رہے ہیں، جبکہ اُن کو یہ نہیں معلوم کہ فطری موضوعات پر شاعری نہیں ہوتی، ایک وجہ تو یہ ہے، دوسری چیز یہ دیکھیں کہ عقیدے کی شاعری کا ایک انداز اور روایت رہی ہے، اور ہمیشہ اِن اِصناف میں بلند تر شعراء عقیدے کا اظہار کر کے اسے آفاقی سطح تک لے آتے ہیں۔ ۔موضوع رشیدؔ لکھنوی اور جوشؔ ملیح آبادی کا مختلف نہیں ہے، لیکن جوشؔ کے مرثیے اسے آفاقی معیار تک لے جاتے ہیں۔ در اصل بڑا شاعر ہی کسی بھی صِنف کو آفاقی بنا سکتا ہے، درمیانی اور اُس سے نچلے درجے کا شاعر کسی صِنف کو آفاقی نہیں بنا سکتا۔ مرثیہ اور سلام عقیدے کی شاعری ہے، اس میں درمیانے اور نچلے درجے کے شاعر بھی ہوتے ہیں اُن کے یہاں عقیدے کا غلبہ زیادہ ہو گا۔  جو شاعر زمانے کی تبدیلیوں پر نظر رکھے گا وہ ہر صِنف کو آفاقی سَمت دینے میں کامیاب ہوسکے گا۔جیسا کہ ہماری دوسری نسل کے شعراء میں۔ ۔شاہدؔ نقوی، سردارؔ نقوی، شاداں ؔ دہلوی، سحرؔ انصاری، اُمیدؔ فاضلی، شاعرؔ لکھنوی وغیرہ ہیں۔  یہ درمیانی نسل کم و بیش تقلیدی نسل ہے، درمیانہ دَور تقلیدی دور تھا، یہ لوگ تقلید پر فخر محسوس کرتے ہیں، اس میں بڑے قادر الکلام شعراء ہیں، لیکن انہوں نے آفاقیت کو کہیں بھی استحکام نہیں دیا، اس لئے ایک خلاء پیدا ہُوا۔ ۔اس خلاء کو سب سے زیادہ ڈاکٹر ہِلالؔ نقوی نے پُر کیا، ان کے بعد احمد نویدؔ، تصویرؔ فاطمہ، عارفؔ امام وغیرہ ہیں۔  یہ لوگ بڑی جدید حِسیّت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

اسی طرح ہمارے وہ مقتدر و معتبر اور اہم شعراء کرام جو ربع صدی سے زیادہ عرصے سے برّ صغیر پاک و ہند سے باہر مقیم ہیں، اگر مرثیے اور سلام کے حوالے سے ان کی تخلیقی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماسوائے یورپ کے اور یورپ میں بھی برطانیہ کے کہیں اور اس سنجید گی اور معیاری سطح پر تخلیقی مظاہرہ نہیں ہوا۔ گویا مرثیے اور سلام کے ضمن میں برطانیہ سے مغربی دنیا کی نمائندگی ہو رہی ہے اور یہ نمائندگی کرنے والے عاشورؔ کاظمی اور صفدرؔ ہمدانی ہیں۔ ان دونوں شعرائے اہلِ بیت نے،  ہر دو اصناف کو فنی اعتبار سے مرثیے اور سلام کی حقیقی ہیئت دی ہے  اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا کام ہے کہ اگر ہم ماضی کی طرف دیکھیں تو قلی قطب شاہ، وجہی، غواصی ہاشمی تک کے مرثیے فنّی اعتبار سے ان کی غزل کے مرتبے کو نہیں پہنچتے۔

لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آخر مرثیے اور سلام کو ادب میں کیوں شامل نہیں کیا جاتا، یا اس کی حیثیّت کا تعیّن اب تک کیوں نہیں ہوسکا، اس کے اسباب میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیئے ہیں، اور آخر میں اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے، اُن میں سے چند اسباب پر قدرے اِختصار کے ساتھ کچھ عرض کرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کروں گا۔

ہمارے یہاں مرثیہ اور سلام  صرف مجالس میں پڑھا جاتا ہے اور ادبی رسائل میں شائع نہیں ہوتا، لہذا جو لوگ ان مجالس میں نہیں جاتے ہیں وہ ان مرثیوں اور سلاموں سے واقف نہیں ہو پاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مرثیے اور سلام کی تشہیر اُس انداز سے نہیں ہوتی جیسے دیگر اَصنافِ سخن کی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مرثیے اور سلام باقاعدگی سے شائع ہوں اور ناقدین تک پہنچیں تو اس پر گفتگو ہو گی۔ جہاں تک عقیدے کی بات ہے تو ہماری شاعری میں تصوّف کی شاعری کو صفِ اوّل کی شاعری کہا جاتا ہے۔ تصوّف بھی ایک طرح سے مذہبی اور عقیدے کی چیز ہے، جب یہ مقبول ہے اور ساری بڑی شاعری تصوّف پر ہی قائم ہے اور اہمیّت اختیار کر گئی ہے تو مرثیے اور سلام کو اہمیّت کیوں حاصل نہیں ہے  !!

اُردو ادب میں مرثیے اور سلام کا موجودہ مقام اور حیثیت دیکھتے ہوئے میں تو یہ کہوں گا کہ اگر علامّہ شِبلیؔ نعمانی جیسا جیّد عالِم، میر انیسؔ کے بارے میں نہ لکھتا تو وہ ادب میں نہ آتے، وہ بہت بڑے شاعر ہونے کے باوجود محدود ہو کر رہ جاتے۔

مختصر یہ کہ اگر آپ اُردو شاعری کی صِنفِ مرثیہ اور سلام سے مخلص ہیں اور اِسے اُردو ادب میں کوئی مقام اور حیثیت دِلانا چاہتے ہیں تو ۔ ۔مرثیہ اور سلام لکھنے والوں کو اپنے مرثیے اور سلام لوگوں تک پہنچانے کے لئے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔

٭٭٭

احساسات کی دوہری معنویت کا حسینی شاعر

محمد شفیع بلوچ (جھنگ)

کربلا کے واقعات تاریخِ انسانیت کا وہ عظیم المیہ ہیں جن میں ایک طرف جورو جفا کی انتہا ہے تو دوسری طرف حسینیت کے روپ میں استقامت، عزم، قوتِ عمل، معیارِ قربانی، صبر و قناعت، استغنا و توکل، صفائے قلب، سخاوت، شجاعت، راست بازی اور ثباتِ قدم کی انتہا ہے۔ کرب و بلا میں حسینؓ کے خون سے توحید کی اک نئی تفسیر لکھی گئی۔ اپنی اثر آفرینی کے لحاظ سے کربلا کے واقعات شروع دن سے ہی تازگی لئے ہوئے ہیں۔ بیدار دُنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں حق و باطل کے معرکے میں حسینؓ کا نام بطور سچائی اور حق کی علامت کے طور پر نہ پہنچا ہو۔ دنیائے ادب میں تو حسینؓ اور حسینیت کا شمار نہ صرف مذہبی معتقدات میں ہوتا ہے بلکہ تخلیق کاروں کا ہر دو سے ایک اعلیٰ سطح کا مستحکم جذباتی تعلق بھی قائم ہے۔ اس جذباتی تعلق نے پہلے اعتقادی صورت اختیار کی اور بعد میں رثا اور نوحہ کی یہی کیفیت ارتقائی منزلیں طے کرتی ہوئی سلام کی صنف میں ڈھل گئی جو بالآخر شہدائے کربلا اور بالخصوص حضرت امام حسینؓ کی ذاتِ والا صفات کے رثا اور مناقب کے بیان کے لئے وقف ہو گئی۔

        سلام کی روایت عربی اور فارسی سے کہیں بڑھ کر اُردو میں پروان چڑھی۔ مذہب و عقیدت سے گہری وابستگی کے باعث اس صنفِ سخن کو اردو میں قابلِ اعتنا نہیں سمجھا گیا اور یہ عجب یوں نہیں کہ مذہبی ادب کے ساتھ شروع سے ہی ایسا سلوک ہوتا آیا ہے، حالانکہ مذہب ایسا لطیف اور پاکیزہ احساس ہے کہ جس کے ساتھ آدمی کا جذباتی رشتہ ہوتا ہے اور مذہب کے خلاف کوئی بھی بات آدمی کو نہ صرف ناگوار گزرتی ہے بلکہ وہ مرنے مارنے پر بھی اُتر آتا ہے کیا سچی مذہبی عقیدت تنگ نظری میں شمار کی جا سکتی ہے؟ میرے خیال میں اس لئے نہیں کہ معتقدات اور محسوسات افراد اور معاشرے دونوں سطحوں پر پائے جاتے ہیں اور کسی بھی مہذب معاشرے میں ان کا شمار اعلیٰ اقدار میں ہوتا ہے۔

        مذہبی شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے یوں تو کئی اسالیب ہیں تاہم ان میں انفرادیت کی حامل صنفِ سخن ہے۔ سلام کی ہیئتِ ترکیبی کے پیچھے قصیدے اور مرثیے کے ساتھ ساتھ غزل کی بھرپور روایت بھی موجود ہے۔غزل کی طرح سلام ایک ایسی صنف ہے جس کے مختلف اشعار میں متنوع مضامین و خیالات پائے جاتے ہیں۔ سلام کا تشکیلی مزاج غزل سے یوں بھی زیادہ مماثل ہے کہ ممدوح کے اوصافِ حمیدہ کو جس طرح حیطۂ نظم میں لایا جا سکتا ہے وہ کسی اور صنفِ سخن میں اس درجہ ممکن نہیں۔

        اس قدر تمہید طولانی کا مقصد مدعا یہ ہے کہ عصر حاضر کے روایت و جدت کے حسین امتزاج کے حامل شاعر محمد منیر حسین گستاخ بخاری کے سلاموں کے بارے میں گفتگو کی جائے جو انہوں نے سیّدنا امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کے بارے میں رقم کئے ہیں۔ عقیدت احترام اور محبت کے احساسات کی دوہری معنویت گستاخ بخاری کے ہاں یوں بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ خود ان کا تعلق بھی حسینی خانوادے سے ہے سلام کہنے کے لئے ممدوح کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے ادراک کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر بھی مکمل دسترس حاصل ہونا از بس ضروری ہے اور یہ سب خوبیاں گستاخ بخاری میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

        غزل کی تشکیلی مزاج میں عشق اور سلام کے تشکیلی مزاج میں اعتقاد کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ گستاخ بخاری بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سلاموں کے زیر مطالعہ مجموعے میں سبھی اجزاء کے علاوہ متغزلانہ ایمائیت بھی پائی جاتی ہے انہوں نے ادبی اور فنی عنصر کو قائم رکھتے ہوئے اپنے سلاموں میں منقبتی، مناجاتی اور رثائی گوشے پیدا کئے ہیں اور اپنے معتقدات میں حمد، نعت اور منقبت وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے بارے کہتے ہیں :

 

شریعت جب ضرورت مند ٹھہری

تدبر بانٹتا مولا علیؓ ہے

بوقت شدتِ کفار گستاخؔ

نبیؐ کا مدعا مولا علیؓ ہے

 

        سلام بنیادی طور پر ایک ایسی اعتقادی صنف ہے جس کی تہہ میں رثائی رنگ ہوتا ہے۔ گستاخ بخاری نے اس پہلو کو بھی مد نظر رکھ کر بہت خوبصورت اشعار کہے ہیں :

 

شب عاشور کا تصور کر

اور پھر کاٹ کر دِکھا اِک رات

____

اہلِ ایمان کا

  اس قدر حوصلہ

ریت تپتی ہوئی

 خون بہتا ہوا

تھے بہتر مگر

ولولہ لاکھ  کا

تجھ کو انسانیت

مِل گیا رہنما

مرے سجدے کا وقت آنے لگا ہے

بدن جاگیر زخموں سے بھری ہے

نوحہ گری ہواؤں میں کس نے اُچھال دی

خواہش ہے کس کی حشر تک مدحت حسین کی

 

        رثا میں ڈوبے ہوئے یہ متغزلانہ اشعار دیکھیں۔

 

زبانیں سوکھ کر کانٹا ہوئی ہیں

کہیں سے ابرِ رحمت بار دیکھو

بدن زخموں سے گلشن بن چکا تھا

کھلا نہ یوں کہیں گلزار دیکھو

جتنے بھی کارواں میں تھے حسنِ  عمل کے ساتھ

شائق شہادتوں کے قرینے کو لے چلے

میں تیرے پاؤں کے نیچے ثواب رکھ دیتا

میرا حوالہ تیری طرح کو بہ کو ہوتا

 

        رثا کے علاوہ منقبتی اور اخلاقی مضامین کو بھی متغزلانہ آہنگ اور اسلوب میں بڑے خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے:

 

کربلا اک مثال ٹھہر گئی

ہوتے ہیں زندگی میں سو صدمات

کم ہی اتنے قریب ہوتے ہیں

جیسے شبیر اور خدا کی ذات

آپ نے دیکھ تو لیا ہو گا

تھے بہتر کے اک سے احساسات

کون گستاخ بھول سکتا ہے

سطوتِ دین اور غمِ سادات

درس گستاخ کو دیتی ہے وفائے شبیر

ہر وفادار کا آقا ہے حسینؓ ابن علیؓ

نہ کربلا نے چمن میں دیکھو

حسینؓ ہر اک زمن میں دیکھو

لہو میں ڈوبے وفا کے جذبے

حسینیت کے بدن میں دیکھو

علیؓ کی صورت، نبی کی سیرت

حسینؓ کے بانکپن میں دیکھو

حسینؓ تم کو بچا گیا ہے

تم اپنے گستاخ من میں دیکھو

 

        ذکرِ حسین، گستاخ بخاری کی طرح ہر درد مند دل رکھنے والے کے نزدیک نہ صرف باعث ثواب ہے بلکہ وجہ تکریم بھی ہے او ریہ کیوں نہ ہو یہ حوالہ تو زمان و مکان کی حدوں کو بھی عبور کر گیا ہے۔

حسین صبر و شجاعت میں شاندار رہا

یزید جیت گیا پھر بھی بے وقار رہا

فلک سے، عصر سے، انسان سے کب یہ اترے گا

حسینیت کا لہو خلق پر اُدھار رہا

        سلام کی وہ روایت جس نے میر انیس سے سیّد آلِ رضا تک کئی منازل طے کی تھیں اب ماند پڑتی جا رہی تھی کہ ایک اور سیّد نے زیرِ نظر مجموعے سے سلام کی روایت کی جانب شہدائے کربلا کے عقیدت مندوں کی توجہ مبذول کرا کے اس میں پھر سے تازگی پیدا کر دی ہے۔ میں ان کے لئے دل سے دعا گو ہوں کہ وہ عقیدتوں کا یہ سفر یوں ہی جاری و ساری رکھیں۔

٭٭٭

 

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔