جنابِ نثار احمد ضیا گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈرامیٹک سوسائٹی کے فعال ترین طلباءمیں سے تھے! اُنہوں نے روسی زبان کے بے مثال مزاح نگار گوگول کے ڈرامے ’انسپکٹر‘ کا ترجمہ کیا! اور اس ڈرامے کا مرکزی کردار بھی ادا کیا! مگر وہ اوّل و آخر شاعر تھے! اور اپنی اِسی پہچان پر قانع تھے! وہ سی ایس ایس افسر بھی تھے! وہ پاکستان ٹیلی وژن کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے! اور ادبی رسائل کے مدیر بھی! اُن کااسلوبِ حیات اوّل و آخر شاعرانہ تھا! ایک منصف مزاج افسر کے طور پر اُن کے تمام فیصلے برحق ہوا کرتے تھے/انہوں نے شریکِ حیات کے طور پر بھی ایک افسانہ نگار ہستی اپنائی اور ان دونوں ہستیوں نے بھی ایک کامیاب ترین ازدواجی زندگی بسر کرکے ہم سب کے لیے ایک مثال قائم کر دی! وہ اِن دنوں بیمار تھے! لاعلاج تھے! مگر اُن کی شریکِ حیات محترمہ شفقت نثار ضیا اُن کی زندگی کا سبب بنی ہوئی تھیں! اور وہ ’الزائمر‘ کے مرض کے ساتھ بستر سے لگ کر بھی پوری اُردو دُنیا سے زندہ رابطے میں تھے اور پوری پاکستانی ادیب برادری سے منسلک تھے! یہ اُن کی ہمت اور اُن کی شریکِ حیات کی محبت کا اعجاز تھا۔جنابِ نثار احمد ضیا کا اصل میدان نظم تھا! اُنہوں نے پاکستانی ادب کے میدان میںنظم کا پرچم بلند تر رکھا! اُنہوں نے کونے کھدروں میں موجود شعراءکا تعاقب کیا! اور اُنہیں نظم کی طرف ہنکا لائے! یہ اُن کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جسے پاکستانی ادب کبھی فراموش نہیں کر سکے گا! لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کچھ یبوست زدہ نظم نگاروں کی طرح غزل کی ترو تازگی سے متنفر تھے! یا، غزل کے صدپیرہن وجود سے کوئی بیر رکھتے تھے! جنابِ ضیا جالندھری خود بھی ایک بڑے اور بلند پایہ غزل نگار تھے!
جنابِ نثار احمد ضیا سر تا پا خوشبو تھے! اور ہم ایک واقعہ درج کرکے اُن کے مزاج کی ایک جھلک نذرِ قارئین کرتے ہیں!’وائی ایم سی اے ‘کے بورڈ روم میں ایک حلقے کا اجلاس ہو رہا تھا! اس کی صدارت جنابِ وزیر آغا فرما رہے تھے! اور افسانہ محترمہ فرخندہ لودھی پیش کر رہی تھیں! یہ محمد ایوب خان کا دورِ بے دستور تھا! افسانہ نگار نے اپنے اظہاریے میں ایک جگہ لاٹھی چارج کے حکم کی تعمیل میں پولیس کانسٹیبلوں کے قدموں تلے لگے پہیّے ہجوم کی طرف روانہ کیے،اور جب افسانے پر بحث شروع ہوئی ،تو، کسی نے بھی اس تخلیقی جملے کی طرف اشارہ بھی نہ کیا! ہم اُن دِنوںگورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم تھے! اور ہم بھی حاضر تھے وہاں ،ضبط سخن کر نہ سکے ! اور ہم نے بطورِ خاص یہی جملہ مرکزی نقطہ بناکر اپنی گفتگو کا آغاز کر دیا! اور اِسے پورے سسٹم کے روبوٹ بن جانے کی ’خبر‘ قرار دے ڈالا!اجلاس ختم ہوا، تو ، ہم بھی اُٹھ کر سڑک پر آگئے! مگر ایک ہاتھ بڑھ کر ہمارے کاندھے پر آ ٹکا ! ہم نے پلٹ کر دیکھا،تو، وہ جنابِ نثار احمد ضیا کا شفیق ہاتھ تھا، اُن کے ساتھ جنابِ حمید نسیم بھی موجود تھے! اور جنابِ سعید شیخ بھی اُن دونوں کے ساتھ تھے! جنابِ نثار احمد ضیا اور جنابِ حمید نسیم نے ہمارا نام تک جانے بغیر ہم سے دیر تک گفتگو کی! اور ہمیں باور کرایا کہ ہم واقعی افسانے کی روح تک پہنچ گئے تھے اور یوں پوری محفل کے لیے افسانے میں کہی گئی اصل بات تک پہنچانے کا راستہ کھول دیا تھا! یہ محض ایک واقعہ ہے اور نئے لوگوں کے اندر موجود ’تخلیقی چنگاری‘ کے لیے اُن کی لپک کا ایک منہ بولتا ثبوت بھی ہے! یہ اُس وقت کی بات ہے جبکہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اِس نوجوان کا نام کیا ہے؟ اور ایک ایسے وقت میں جبکہ اُردو دُنیا ہمیں پہچان چکی تھی اُس دور میں اپنے نام کے ساتھ ہم جیسے کم تر درجے کے شاعر کا نام جوڑ لینا اور پوری دُنیا کو دِکھا دینا جنابِ نثار احمد ضیا ہی کا حصّہ تھا!جنابِ ضیا جالندھری کے مزاج کے اُس رُخ کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے محترمہ شاہدہ پروین کی گائی ہوئی اُن کی غزل
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگر ، توُ ، آئی