ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں
محبت کے ہم زیر و بم دیکھتے ہیں
بہت سن چکے نعرۂ لن ترانی
اٹھا دو یہ پردہ کہ ہم دیکھتے ہیں
جبیں کو میّسر کہاں سجدہ ریزی
ابھی تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
ان الجھی ہوئی رہگزاروں میں بھی ہم
تری زلف کے پیچ و خم دیکھتے ہیں
مقاماتِ دیر و حرم سے گزر کر
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
فسونِ تبسّم کا اعجاز دیکھو
تری آنکھ بھی آج نم دیکھتے ہیں