خراب ہوں کہ جنوں کا چلن ہی ایسا تھا
کہ تیرا حسن، مرا حسنِ ظن ہی ایسا تھا
ہر ایک ڈوب گیا اپنی اپنی یادوں میں
کہ تیرا ذکر سرِ انجمن ہی ایسا تھا
بہانہ چاہیے تھا جوئے شیر و شیریں کا
کوئی سمجھ نہ سکا تیشہ زن ہی ایسا تھا
حدِ ادب سے گریزاں نہ ہو سکا کوئی
کہ سادگی میں، ترا بانکپن ہی ایسا تھا
رفاقتوں میں بھی نکلیں رقابتیں کیا کیا
میں کیا کہوں ترا روئے سخن ہی ایسا تھا
جہاں بھی چھاؤں ملی، دو گھڑی کو بیٹھ رہے
دیارِ غیر کہاں تھا، وطن ہی ایسا تھا
تھی داغ داغ مرے قاتلوں کی خوش پوشی
کہ عمر بھر مرے سر پر کفن ہی ایسا تھا
مجھے تو یوں لگا ترشا ہوا تھا شعلہ کوئی
بدن ہی ایسا تھا کچھ پیرہن ہی ایسا تھا
حقیقتوں میں بھی تھی شاذؔ رنگ آمیزی
قصیدۂ لب و عارض کا فن ہی ایسا تھا