حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے
نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ، ہم کارواں تک آگئے
انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہء غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے
اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آگئے
زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آگئے
رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیءِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے
خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا
تم وہاں تک آتو جاوء ، ہم جہاں تک آگئے
آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہء سود و زیاں تک آگئے