ستم پر شرطِ خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی
کہ اک تلوار اپنے اور ،میرے درمیا ں رکھ دی
یہ پوچھا تھا کہ مجھ سے جنسِ دل لے کر کہاں رکھ دی
بس اتنی بات پر ہی کاٹ کر اس نے زباں رکھ دی
پتا چلتا نہیں اور آگ لگ جاتی ہے تن من میں
خدا جانے کسی نے غم کی چنگاری کہاں رکھ دی
زمانہ کیا کہے گا آپ کو اس بدگمانی پر
میری تصویر بھی دیکھی تو ہو کر بدگماں رکھ دی
میرے حرفِ تمنا پر چڑھائے حاشیے کیا کیا
ذرا سی بات تھی تم نے بنا کر داستاں رکھ دی