02:17    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

خواجہ حیدر  علی آتش کی شاعری

1181 1 0 05

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے

ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے

 

پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

 

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ

کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

 

ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے

سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے

 

لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم

طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے

 

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا

تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

 

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم

اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

 

بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم

ستارہء سحری تکمہء گلُو کرتے

 

یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار

یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے

 

سکھاتے نالہء شب گیر کو در اندازی

غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

 

وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی

دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

 

نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش

برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

5.0 "2"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔