08:46    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

جمال احسانی کا تعارف

( 1951-1998 )

بقلم: چوہدری لیاقت علی

جمال احسانی کا آبائی شہر پانی پت تھا جہاں سے ان کے والدین سرگودھا آکر آباد ہو ئے۔ اس شہر میں انہوں نے آنکھ کھولی۔ قریب قریب بیس سال سرگودھا رہنے کے بعد یہ خاندان کراچی آکر آباد ہوا اور ۱۹۹۸ء میں اپنی وفات تک وہ کراچی میں ہی رہے۔ جمال احسانی تمام عمر معاشی ناہمواری کا شکار رہے جس میں اپنا ذاتی گھر نہ ہونے کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ اس تمام جہد کا اثر ان کی ذات پراور شاعری پر بھی نظر آتا ہے۔ میرے نزدیک اچھی شاعری کے لئے ذاتی تجربات کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ جن حالات سے ایک حساس شخص گذرتا ہے وہ اس پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جو طنز اور جو کاٹ ہے وہ انہی حالات کی دین ہے۔

جمال کے ذاتی حالات اس کی شاعری پر بالکل اثر پذیر ہوئے ان کی شاعری میں حساسیت، محرومی، پچھتاوے اور تھکن نظر آتی ہے مگر کسی منفی پہلو سے نہیں بلکہ اس پر ہونے والی واردات کے رد عمل کے نتیجے کے طور پر۔ شاعر ان منفی جذبات کو اپنے اوپر طار ی نہیں کرتا بلکہ ان سے آگے نکل کر وہ ایک امید اور حوصلہ تلاش کرتا ہے۔

جمال احسانی نے اپنی شاعری میں اپنے ذاتی تجربات کو اس طرح ضم کیا کہ اس کی شاعری اس کی زندگی کی کہانی بن کر سامنے آتی ہے۔ ایک عام آدمی معاش کے جن نا ہموار راستوں پر گزرتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اگرچہ اس کا رنگ ان کی شاعری پر بھی چڑھا ، تاہم اپنی شاعری سے جو دھنک رنگ بکھیری اس کی پہلی کرن ہی ان کے تابناک شعری سفر کی پہچان بن گئی۔

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

یہ غم نہیں کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے

یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

بعد ازاں اس کی شاعری نے قارےئن کو ایسا گرفت میں لیا کہ آج بھی شاعر تو بہت ہیں مگر جمال جیسا کو ئی نہیں۔ ان کے ان اشعار کی توصیف تو مشتاق احمد یوسفی اور ساقی فاروقی نے بھی کی، آخری مصرعہ یوسفی نے اپنی کتاب آب گم میں استعمال کیا ہے۔

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی

اس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال

ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پاؤں کی

جمال احسانی کا شعری سفران کے مجموعہ کلام ستارہ سفر سے شروع ہوا۔میری ذاتی پسندیدگی سے قطع نظر یہ پورا مجموعہ اردو شاعری میں ایک نہایت معتبر اضافہ تھا۔ ہر غزل، ہر شعر جمال کے فن کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ان کے اس مجموعہ کلام سے جمال کا تابناک شعری مستقبل بھی لوگوں سے چھپا نہ رہا۔ اس وقت کے مشہور اور معروف شعراء کرام جن میں احمد ندیم قاسمی ، پروین شاکر، ساقی فاروقی، ریاض احمد شاد وغیرہ نے تقریب رونمائی میں شرکت کی یا تبصرے کئے۔ جمال احسانی کی ابتدائی تربیت احسان امروہوی جیسے روایتی استاد کے ہاتھوں ہوئی۔ انھیں سلیم احمد اور قمر جمیل جیسے جدید شعراء کا قرب بھی حاصل رہا۔ اس قدیم اور جدید شاعری کے ملاپ سے ان کی شاعری ایک طرف تو روایت کا رنگ لئے ہوئے ہے وہیں اس میں جدیدیت کا تڑکا بھی ہے جو اس شاعری کو دو آتشہ بنا دیتا ہے۔ستارہ سفر کے بعد آپ کو دو مزید شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں ایک آپ کی زندگی میں رات کے جاگے ہوئے اور ایک آپ کی وفات کے فورا بعد تارے کو مہتاب کیا شائع ہوا۔ان کی آخری کتاب میں انہوں نے پیش لفظ بھی لکھا اور بارے میں قاری کو روشناس کروایا۔ اسی کتاب کو انہوں نے اپنی شریک حیات کے نام اس شعر کو ساتھ معنون کیا

کوئی طوفان ہو رہتا ہے جمال

ایک دریا کا کنارہ مرے ساتھ

جمال احسانی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے ۔ اس صنف میں محاورات کی بر جستگی، زبان کی پختگی اور باہمی ربط ان کی غزل کا شعار ہیں۔ جمال کے یہاں ہر جذبہ اپنی پوری شدت سے موجود ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں سمندر، صحرا، سفر، آسمان، تنہائی اور وصل اپنے پورے تاثر کے ساتھ محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ایک بہت بڑے کینسوس پر ان کی شاعری کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ ان کے خوابوں اور امنگوں کی عکاسی کرتی ہے:

سمندروں کا سفر آج تو مزہ دے گا

ہوا بھی تیز ہے کشتی بھی بادبانی ہے

آنکھوں آنکھوں کی ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے

ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہو ئے صحراؤں کی!

جمال ہر شہر سے ہے وہ شہر پیارا مجھ کو

جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے

جمال احسانی نے شاعری میں عام فہم اور بلیغ استعارے استعمال کئے ہیں۔ اس کی شاعری بھی روایتی مصالحہ چیزوں سے پاک ہے جس سے اس کا قد اپنے ہم عصروں بڑھ جاتا ہے کہ جمال کے ہاں اپنے عصرکی شاعری بھی موجود ہے اور اس میں عصر سے آگے بڑھ جانے کا امکان بھی موجود ہے۔اس میں روایت بھی ہے اور جدت بھی۔ اپنے دکھ بھی ہیں اور ان سے نمٹنے کا حوصلہ بھی۔ اپنے دور کے مسائل بھی ہیں اور اس سے قطع نظر ایک امید ایک امنگ بھی ہے۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔