مجاز19نومبر1911ء کو قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ نام اسرارالحق اور مجاز تخلص اختیار کیا۔ حصول تعلیم کے لیے لکھنو آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ لکھنو کی مخصوص تہذیب اور شعر و ادب کی سرزمین ہونے پر ان کو لکھنو سے اس قدر لگائو ہوا کہ اپنے تخلص میں لکھنو جوڑ لیا اور مجاز لکھنوی کے نام سے مشہور و معروف ہوئے۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کر کے 1936ء میں دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے’آواز‘ کے پہلے مدیر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ کچھ عرصہ تک بمبئی انفارمیشن ڈیپارٹ منٹ میں بھی کام کیا اور پھر لکھنو آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کی ادارت کی۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے وابستہ ہوگئے، مگر ان کی افتاد طبیعت نے ملازمت کی پاپندیاں برداشت نہ کیں اور اپنے کو پورے طور پر شاعری کے لیے وقف کردیا۔ مجاز کی شاعری کو سمجھنے کے لیے 1857ء کے انقلاب (ہماری آزادی کی پہلی جنگ) سے واقفیت ضروری ہے، جس نے ملک کو نہ صرف خوابِ غفلت سے بیدار کیا، بلکہ ہر شعبہ زندگی کو متاثر بھی کیا، حالانکہ 1835ء میں اردو کو سرکاری زبان قرار دیا جاچکا تھا، لیکن ہماری شاعری گل و بلبل اور زلف و رخسار تک محدود تھی، لیکن اس انقلاب کے بعد شاعری نے حقیقت پسندی کی طرف رخ کیا اور نظم جدید کی بنیاد پڑی، جس میں مختلف موضوعات کو شاعری میں شامل کیا جانے لگا، جس میں جدید رجحانات اور میلانات پیدا کرنے اور پروان چڑھانے میں سرسید اور ان کی علی گڑھ تحریک کا بڑا حصہ ہے، کیوں کہ علی گڑھ تحریک کا دوسرا نام اردو تحریک بھی تھا۔ مولانا حالی اور محمد حسین آزاد کا شمار نظم جدید کے معماروں میں ہوتا ہے۔ ان کے بعد اسماعیل میرٹھی، چکبست، سرور جہان آبادی، اقبال اور دیگر شعراء نے اس صنف کو بہت زیادہ ترقی دی۔ حالی اور سرسید کے بعد اردو ادب میں سب سے زیادہ موثر تحریک ترقی پسند تحریک ہے۔ جو مشہور ناول نگار منشی پریم چند کی صدارت میں 1936ء میں عمل میں آئی۔ اس تحریک میں اجتماعیت، حقیقت پسندی اور عقلیت پسندی کو بنیادی اہمیت دی گئی اور ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے نظریہ پر یہ تحریک استوار ہوئی۔ اس لیے اس تحریک سے وابستہ شعراء کے کلام میں نسلی تعصب اور سماجی امتیازات کے خلاف شدید رد عمل ملتا ہے۔ مجاز، فیض، جاں نثار اختر، ساحر لدھیانوی، فراق، مجروح اور احمد ندیم قاسمی اس تحریک کے شعری ادب میں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان شعراء نے جد و جہدآزادی پر بہت سی کامیاب نظمیں لکھی ہیں اور عشق و محبت سے دامن چھڑا کر اپنی محبوبہ سے کہتے ہیں: جیسے مجازاپنی نظم ’’نوجوان خاتون سے خطاب‘‘ میں کہتے ہیں:
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے
لیکن تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
اسی نظم کا شعردیکھئے:
حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردہ بنالیتی تو اچھا تھا
مجاز کی شاعری میں اس گھٹن کی تصویر ہے، جس سے اس وقت کا معاشرہ اور اس وقت کا ہر نوجوان گزر رہا تھا۔ ان کی سب سے بہترین نظم’آوارہ‘ ہے، جس کے چند بند 1953ء میں بنی فلم ’ٹھوکر‘ میں مشہور گلوکار طلعت محمود کی مخملی اور جادوئی آوازمیں آج بھی سننے والوں کو مسحور کردیتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود مجاز مخاطب ہیں:
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
یہ شہر کی رات میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی دوڑتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
راہ میں دم لے لوں رک کر یہ میری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جائوں میری یہ فطرت نہیں
اور ہم نوا مل جائے کوئی یہ میری قسمت نہیں
ترقی پسند تحریک ہندوستان میں ایک مخصوص سیاسی اور سماجی ماحول میں پروان چڑھی تھی، جس میں ’مارکس‘ اور ’لینن‘ کے فلسفہ کا گہرا اثر ہے۔دوسرے عظیم شعراء کی طرح انہوں نے بچوں کو بھی محروم نہیں کیا۔ بچوں کے لیے ان کی مشہور نظم ’ریل‘ ہے جو کافی موثر اور سبق آموز ہے۔
چند اشعار:
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرلب گاتی ہوئی
جیسے موجوں کا ترنم جیسے جل پریوں کے گیت
ایک اک لے میں ہزاروں زمزمے گاتی ہوئی
جستجو میں منزل مقصود کی دیوانہ وار اپنا سردھنتی،
فضا میں بال بکھراتی ہوئی
الغرض دوڑتی چلی جاتی ہے بے خوف و خطر
شاعرآتش نفس کا خون کھولاتی ہوئی
دوسرے ترقی پسند شعراء کی طرح مجاز بھی نظم گو شاعر کی طرح مشہور ہیں، مگر ان کی غزلوں کا ذخیرہ بھی کافی ہے اور نظم ہو یا غزل دونوں میں زبان کی سادگی بیک وقت رنگین اور روزمرہ کے اظہار کا البیلاپن ہے جو سننے والوں کے دل میں اترجاتی ہے، یعنی مجاز جو کچھ کہتے ہیں قاری کو ان کے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے، ان کی غزلوں کے چند اشعار:
کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے
وہ زلف پریشاں بھول گئے وہ دیدہ گریاں بھول گئے
اے شوق نظارہ کیا کہیے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے فصل بہاراں ہو رخصت ہم لطف بہاراں بھول گئے
کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھیے
الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم
ٹھکرا دئیے ہیں عقل و خرد کے صنم کدے
گھبرا چکے تھے کشمکش امتحاں سے ہم
3دسمبر 1955کا لکھنو میں مشاعرہ مجاز کے لیے آخری مشاعرہ ثابت ہوا، جس میں انہوں نے دو غزلیں پڑھی تھیں اور 5دسمبر 1955کو وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے۔ مجاز کی شاعری میں پیغام عمل اور فرسودہ و جارحانہ غیرملکی حکومت سے سرکشی اور بغاوت کے آثار نمایاں تھے۔ اپنی عشقیہ شاعری میں قلبی واردات اور احساسات کو دلکش و موثر انداز میں پیش کیا۔ ان کی انقلابی شاعری اور قومی شاعری موضوعات پر نظمیں ہماری تحریک آزادی، امنگوں اور ولولوںسے سرشار ہیں۔