ثبات بحرِ جہاں میں اپنا فقط مثالِ حباب دیکھا
نہ جوش دیکھا ، نہ شور دیکھا ، نہ موج دیکھی ، نہ آب دیکھا
ہماری آنکھوں نے بھی تماشا عجب انتخاب دیکھا
برائی دیکھی ، بھلائی دیکھی ، عذاب دیکھا ، ثواب دیکھا
نہ دل ہی ٹھہرا ، نہ آنکھ جھپکی ، نہ چین پایا ، نہ خواب آیا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو جو دوستی میں عذاب دیکھا
سرور میں جس سے جانِ محزوں اُسی کو گردش وہی ہے پرخوں
کہ چرخ زن مثل دور گردوں بد نام جام شراب دیکھا
نظر میں ہے تیری کبریائی سما گئی تیری خودنمائی
اگرچہ دیکھی بُہت خُدائی مگر نہ تیرا جواب دیکھا
پڑے ہوئے تھے ہزار پردے کلیم دیکھو تو جب بھی غش تھے
ہم اُس کی آنکھوں کے صدقے جس نے وہ جلوہِ بے حجاب دیکھا
جو راہ میں تیرے آکے بیٹھے وہ فکر دیر و حرم سے چھوٹے
کہ تیرے کوچے کے ساکنوں نے بہشت میں بھی عذاب دیکھا
یہ دل تو اے عشق گھر ہے تیرا کہ جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
مکاں سے تا لامکاں جو دیکھا تجھی کو خانہ خراب دیکھا
سرور و عیش و نشاط کیسی بدل گئے رنگ ہی جہاں کے
سنا تھا کان سے جو ہم نے وہ آنکھ سے انقلاب دیکھا
جو تجھ کو پایا تو کچھ نہ پایا یہ خاکداں ہم نے خاک پایا
جو تجھ کو دیکھا تو کچھ نہ دیکھا تمام عالم خراب دیکھا
شرابِ غفلت سے داغؔ غش تھے دکھائے غفلت نے کیا تماشے
کہ سوتے سوتے جو چونک اُٹھے مگر کوئی تم نے خواب دیکھا