02:10    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ناول / افسانے

1181 1 0 10

وہ خط جو پوسٹ نہ کئے گئے - سعادت حسن منٹو

وہ خط جو پوسٹ نہ کئے گئے

حوا  کی ایک بیٹی کے چند خطوط جو اس نے فرصت کے وقت محلے کے چند لوگوں کو لکھے۔ مگر اُن وجوہ کی بنا پر پوسٹ نہ کئے گئے۔ جو ان خطوط میں نمایاں نظر آتی ہے۔

( نام اور مقام فرضی ہیں )

پہلا خط مسز کرپلانی کے نام

خاتون مکرم

آ داب عرض۔ معاف فرمائیے گا میں یہ سطور بغیر تعارف کے لکھ رہی ہوں۔  مگر چند ضروری باتیں مجھے آپ سے کہنا ہیں۔ آپ کو میں ایک عرصے سے جانتی ہوں ، ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے جب میں بستر سے اُٹھ کر بالکنی میں آتی ہوں تو آپ کو بازار میں سیر سے واپس آتے دیکھا کرتی ہوں ، مجھے تعجب ہے کہ مسٹر کرپلانی جنہیں ساڑھے آٹھ بجے گھر سے دفتر پہنچنے کیلئے نکل جانا ہوتا ہے، صرف بڈھی نوکرانی کی موجودگی اور آپ کی غیر حاضری میں ناشتہ کیسے کرتے ہیں۔ کپڑے کیوں کر تبدیل کرتے ہیں اور پھر آپ کا بچہ بھی تو ہے اس کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیر آپ کی صحت کے لئے مفید ہے۔ اس سیر کا اثر آپ کے شوہر پرکیا پڑے گا۔ کیا آپ نے اس کی بابت کچھ غور کیا ہے.... میں نے پرسوں مسٹر کرپلانی کو دیکھا ان کی حالت قابل رحم تھی۔ آپ نے سر پر ہیٹ الٹا رکھا تھا۔ اور اگر میری نگاہوں نے دھوکہ نہیں دیا۔ تو ان کے بوٹ کا ایک تسمہ کھلا ہوا تھا۔ جو بار بار ان کے پاؤں میں الجھ رہا تھا، کل بھی آپ کی حالت ایسی ہی تھی، ان کی پتلون.... شکنوں سے بھر پور تھی، اور ٹائی کی گرہ بھی درست نہیں تھی۔

اگر آپ کی صبح کی سیر اسی طرح جاری رہی تو مجھے اندیشہ ہے، ایک روز مسٹر کرپلانی اس افراتفری میں دفتر کا رخ کریں گے۔ کہ راہ چلتی عورتوں کو اپنی آنکھیں بند کرنی پڑیں گی۔

اور ہاں ، دیکھئے کل آپ نے جو ساڑھی پہن رکھی تھی، وہ آپ کی نہیں ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسز ایڈوانی نے یہ ساڑھی پچھلی دیوالی پر خریدی تھی، دوسروں کے کپڑے پہننا بہت معیوب ہے۔ آپ کے پاس کم از کم بیس ساڑھیاں موجود ہیں۔ مسز ایڈوانی کی ساڑھی مستعار لے کر آپ نے کیوں پہنی۔ یہ میں ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔

ایک بات اور ، وہ یہ کہ آپ کو بغیر آستینوں کا بلاؤز اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ آپ کے کاندھوں پر ضرورت سے زیادہ گوشت ہے۔ جس کی نمائش آنکھوں پر بہت گراں گذرتی ہے۔ آپ کے جسم کا یہ عیب آستینوں والے بلاؤز میں چھپ جاتا ہے۔ اس لئے آپ کو ہمیشہ اسی تراش کا بلاؤز پہننا چاہئے

اونچی ایڑی کا شوز آپ کیوں پہنتی ہیں .... آپ کا قد ماشاءاللہ کافی اونچا ہے۔ پرسوں آپ نے غیر معمولی ایڑی کا سینڈل پہن رکھا تھا۔ معاف فرمائیے۔ معلوم ہوتا تھا کہ آپ پیروں کے ساتھ اسٹول بندھے ہوئے ہیں۔اونچی ایڑی کا جوتا پہن کر آپ آسانی سے چل بھی نہیں سکتیں .... خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو تکلیف دیتی ہیں۔

آپ کی........

***

دوسرا خط مسز ایڈوانی کے نام

محترم بہن

تسلیمات۔ میں نے پیچھے دنوں آپ کو باندرہ میلے پر چند سہیلیوں کے ساتھ دیکھا تھا، آپ نے پیلے رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی پہن رکھی تھی،بورڈ ر کے بغیربلاؤز کالی ساٹن کا تھا، کھلے گلے کا آستینوں کے بغیر گلے پر زرد رنگ کی ساٹن کا پائپنگ تھا اور سامنے سینے پر اسی رنگ کا پھول۔ پاؤں میں آپ کے سنہری سینڈل تھی۔ چھاتا سیاہ رنگ کا تھا۔ جس کی مونٹھ زرد رنگ کے سیلولائیڈ کی تھی.... کالے بالوں میں پیلا ربن تھا۔ سیاہی اور زردی کا یہ میل مجھے بہت پسند آیا تھا۔ آپ کے ذوق کی میں بے حد معترف ہوں۔ رنگوں کے صحیح احترام کا آپ خوب سلیقہ رکھتی ہیں۔ مگر کل آپ جب بس پر سے اتریں تو مجھے یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوا کہ آپ نے کالی ساڑھی کے ساتھ بھوسلے رنگ کا بلاؤز پہن رکھا ہے۔ آپ کے بالوں میں نیلا ربن گندھا ہے اور جوتا سفید کینوس کا پہن رکھا ہے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ ایسی اعلیٰ ذوق رکھنے والی خاتون نے کیوں کر ایسے بھونڈے لباس میں باہر نکلنا گوارا کیا۔ اور پھر غضب یہ ہے کہ آپ بس میں کہیں دور گئی تھیں۔ آئندہ اگر میں نے آپ کو ایسے بے تکے لباس میں دیکھا تو مجھے اتنا صدمہ ہو گا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔

ایک بات اور میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ کی نوکرانی اتنا سنگھار کیوں کرتی ہے؟ اس کی عمر میرے اندازے کے مطابق اٹھارہ برس ہے۔ بظاہر وہ کنواری ہے۔ اس عمر میں اور خاص کر کنوار پنے میں اس کا یوں بن سنور کر سودا سلف لینے باہر بازار میں نکلنا اتنا خطرناک نہیں۔ جتنا کہ اس کا آپ کے گھر میں اپنے سنگھار پر توجہ دینا ہے۔ آپ عموماً گھر سے باہر رہتی ہیں اور مسٹر ایڈوانی چونکہ دفتر نہیں جاتے اور اس لئے وہ اکثر گھر ہی میں رہتے ہیں .... آپ کی غفلت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی۔

میرا خیال ہے کہ آپ کی دائیں آنکھ بائیں آنکھ سے کچھ، چھوٹی ہے.... اگر آپ چشمہ پہنا کریں تو عیب بالکل دور ہو جائے گا۔ کیونکہ شیشوں میں سے یہ معمولی فرق نظر نہ آئے گا۔

ہاں ، یہ آپ سہیلیوں کو اپنی ساڑھیاں پہننے کے لئے کیوں دے دیا کرتی ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بدعت معاشرتی نقطہ نظر سے بڑی ہے۔ اس کے علاوہ سہیلیاں خواہ کتنی ہی محتاط ہوں ، مستعار کپڑے کو نہایت بے دردی کے ساتھ استعمال کرتی ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو اس سفید ساڑھی کو غور سے دیکھئے۔ جو آپ نےمسز کرپلانی کو پہننے کے لئے دی تھی۔  اس کا تلے کا کام کئی جگہ سے اکھڑ گیا ہے۔

بازار میں چلتے وقت آپ بار بار ساڑھی کا پلو نہ سنبھالا کریں۔ مجھے اس سے بڑی الجھن پیدا ہوتی ہے۔

آپ کی........

***

تیسرا خط مسٹر ایوب خان انسپکٹر پولیس کے نام

مکرمی محترمی۔ سلام مسنون

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ دن میں دو بار اپنی ڈاڑھی منڈوانا چھوڑ دیں .... میں سمجھتی ہوں کہ نارمل آدمی کی ڈاڑھی کے بال نارمل حالت میں اتنے جلدی کبھی نہیں اُگتے۔ پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے اور وہاں سے شام کو آتے ہوئے آپ کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ سیلون میں داخل ہو جائیں۔ میرا خیال ہے کہMANTA آپ کو ہو گیا ہے۔ اگر آپ کا دماغی توازن درست ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ دن میں دو بار صبح و شام اپنی ڈاڑھی پر استرا پھیرائیں۔ کیا سیلون کا نائی آپ کی اس عجیب و غریب عادت پر زیر لب کبھی نہیں مسکرایا۔‘‘

اور پھر یہ آپ اپنے سر کے بال کس طور سے کٹواتے ہیں ؟.... واللہ بہت برے معلوم ہوتے ہیں ، گردن سے لے کر کھوپڑی کے بالائی حصے تک آپ بالوں کا صفایا کرا دیتے ہیں اور کانوں کے اوپر تک باریک مشین پھروا کر آخر آپ کیا فیشن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت آپ کی گردن بہت بھدی ہے اور آپ کے سر کے نچلے حصے پر پھوڑوں کے نشان ہیں۔ جو صرف بال ہی چھپا سکتے ہیں۔ اور کیا آ پ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ بار بار مونڈنے سے آپ کی گردن موٹی ہو جائے گی۔

آپ کے کان بہت بڑے ہیں۔ جس فیشن کی حجامت کا آپ کو شوق ہے اس سے یہ اور بھی زیادہ بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپ قلمیں رکھیں اور کانوں کے قریب سے بال زیادہ نہ کٹوائیں۔ گردن پر اگر آپ تھوڑے سے بال اُگنے دیں تو کوئی حرج نہیں۔ اس سے آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔

ہاتھ میں چھڑی لے کر جب آپ بازار میں چلتے ہیں تو دماغ میں اس خیال کو جگہ نہ دیا کریں کہ ہر اسکول کی جانے والی لڑکی آپ کو دیکھ رہی ہے۔ کسی شائستہ مذاق لڑکی کی آنکھیں آپ کی طرف نہیں اٹھ سکتیں۔ اس لئے کہ آپ اپنے کندھوں پر ایسا بھونڈا سر اٹھائے پھرتے ہیں۔ جس کوآپ کے ایجاد کردہ فیشن نے اور بھی زیادہ بد نما بنا  رکھا ہے۔ بار بار آپ اپنے کوٹ سے کیا جھاڑا کرتے ہیں ؟ کیا گردو غبار کے ذرے صرف آپ ہی کے کوٹ پر آ بیٹھے ہیں .... یا پھر آپ حد سے زیادہ نفاست پسند ہیں ؟

کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ چالیس برس کے ہونے پر بھی آپ کنوارے ہیں ؟ اگر یہ سچ ہے تو اس سے آپ کوعبرت  حاصل کرنا چاہئے۔ میرا مشورہ لیجئے۔ اور دن میں دو بار سیلون میں جا کر ڈاڑھی منڈوانا چھوڑ دیجئے۔ خدا آپ کی حالت پر رحم کرے

آپ کی مخلص........

***

چوتھا خط مس ڈی سلوا کے نام

ڈیئر مس ڈی سلوا

تمہاری حالت پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے تم روز بروز موٹی ہو رہی ہو۔ اگر تمہارا موٹاپا اسی رفتار سے بڑھتا گیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ تم کسی مرد کے قابل نہ رہو گی۔ اسکول جانے کے لئے جب تم’’ جم‘‘ پہن کر گھر سے نکلتی ہو تو میرے دل میں عجیب و غریب خیال پیدا ہوتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اس کرسمس پر تم ڈانس کیسے کر سکو گی۔ ایک دو قدموں ہی میں تمہارا پسینہ چھوٹ جائے گا۔ اور تمہارا ساتھی کیونکر تمہاری بانہوں کو حسب منشا حرکت میں لا سکے گا۔ تمہاری بغلوں کے نیچے اس قدر گوشت جمع ہو رہا ہے۔ کہ تم ڈانس کرنے کے بالکل قابل نہیں رہی ہو۔ خدا کے لئے اپنا علاج کرو اور اس موٹاپے کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرو۔

ایک نصیحت میری اور سن لو۔ شام کو تم ہر زور ٹیرس پر اکیلی جاتی ہو۔ اور سامنے والے مکان پر ڈی کوسٹا کے بڑے لڑکے کو اشارے کرتی رہتی ہو۔ اول تو یہ شریف لڑکیوں کا کام نہیں۔ دوسرے یہ اشارے چربی بھرے گوشت کے مانند بھدے اور بے لذت ہوتے ہیں۔ تم جیسی موٹی لڑکیوں کو ایسی اشارہ بازی نہیں کرنی چاہئے۔ اس لئے کہ اشارہ ایک لطیف یعنی باریک اور پتلی چیز کا نام ہے، تمہارے اشارے،اشارے نہیں ہوتے، ان کے لئے مجھے کوئی اور نام تلاش کرنا ہو گا۔

جس لونڈے کے ساتھ تم رومان لڑانا چاہتی ہو،اس کے متعلق بھی سن لو۔وہ ایک آوارہ مزاج لڑکا ہے، ڈھائی مہینے سے کالی کھانسی میں مبتلا ہے۔ ماں باپ نے ناقابل اصلاح سمجھ کر اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے پاس صرف تین پتلونیں ہیں۔ جن کو بدل بدل کر پہنتا ہے، ہر روز اپنی قمیص اور پتلون پر دوبارہ استری کرتا ہے۔ تاکہ باہر کے لوگوں کی نظروں میں اس کی وضع داری قائم رہے۔ مجھے ایسے آدمیوں سے نفرت ہے۔

تم اپنی پنڈلیوں کے بال استرے سے نہ مونڈا کرو۔ بال اڑانے کے سب پاؤڈر اور سب کریمیں بھی فضول ہیں بال ہمیشہ کے لئے کبھی غائب نہیں ہو سکتے۔ اس لئے تم اپنی پنڈلیوں پر ظلم نہ کرو۔ بال رہنے دو۔ لمبی جرابیں ، پہنا کرو۔‘‘

تمہارا دوست آج دوپہر کو اپنا پھٹا ہوا جوتا خود مرمت کر رہا تھا!

تمہاری خیر خواہ........

***

پانچواں خط کو شلیا دیوی کے نام

شریمتی کو شلیا دیوی۔ نمسکار

اس میں کوئی شک نہیں۔ اپنے گھر میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ آرام دہ سے آرام دہ لباس پہنے اور تکلفات سے آزاد رہے۔ مگر دیوی جی آپ ململ کی باریک دھوتی پہن کر اس آزادی سے نا جائز فائدہ اٹھا رہی ہیں اور پھر یہ دھوتی آپ کچھ اس’’ بے تکلفی‘‘ سے پہنتی ہیں کہ جب آپ اتفاق سے، نظر آ جائیں تو سوچنا پڑتا ہے۔ کہ آپ کو کس زاویے سے دیکھا جائے۔

آپ کو معلوم ہونا چاہئے۔ روشنی کے سامنے کھڑے ہونے سے آپ کی ململ کی دھوتی کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آپ کی عمر اس وقت چوالیس برس کے قریب ہے۔ عمر کی اس زیادتی نے آپ کے جسم کو بالکل ڈھیلا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باریک دھوتی سے، آپ کی بھدی ٹانگوں کی نمائش آنکھوں پر’’ گوہانجنی‘‘ بن کر رہ جاتی ہے۔

آپ کے فلیٹ کا دروازہ عام طور پر کھلا رہتا ہے اور میں نے اکثر آپ کو باورچی خانہ کے پاس یہی باریک دھوتی پہنے دیکھا ہے۔ اگر آپ کو اس کا استعمال ترک نہیں کرنا ہے تو براہ کرم اپنے فلیٹ کا دروازہ بند رکھا کریں۔

آپ کی........

***

چھٹا خط مسٹر سعید حسن جرنلسٹ کے نام

جناب من تسلیم۔

آپ ہر روز صبح بالکونی میں پتلون پہنتے ہیں۔ آپ کا بھی فعل کمیونزم کی بد ترین مثال ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ خط آپ پڑھ کر ضرور شرمسار ہوں گے، اور آئندہ سے پتلون شریف آدمیوں کی طرح اپنے کمرے میں پہنا کریں گے۔

مخلص........

مکرر۔ آپ کے بال بہت بڑھ گئے ہیں۔ سیلون آپ کے مکان کے نیچے ہے۔  ہمت کر کے آج ہی کٹوا دیں۔

***

ساتواں خط مسز قاسمی کے نام

خاتون مکرم۔ السلام علیکم!

میں بہت عرصہ سے آپ کو خط لکھنے کا ارادہ کر رہی تھی۔ مگر چند در چند وجوہ کے باعث ایسا نہ کر سکی۔ میں نے سنا ہے کہ دو گھروں میں نفاق پیدا کرنے کے لئے آپ کو بہت سے گُر زبانی یاد ہیں۔ مسز ایڈوانی اور مسز کرپلانی کے درمیان ایک دفعہ آپ ہی کی کوششوں سے رنجش پیدا ہوئی تھی۔ اور پچھلے دنوں سیٹھ گوپال داس کی لڑکی پشپا کے بارے میں آپ نے جو افواہیں مشہور کی تھیں۔ ان سے سیٹھ گوپال داس اور رام داس کے خاندانوں میں اچھا خاصہ ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ مجھے آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ مگر میں ، سوچتی ہوں کہ ابھی تک آپ کے اور مسز قانون گو کے درمیان کشیدگی پیدا کیوں نہیں ہوئی۔ اب تک آپ نے جس عورت کو اپنی سہیلی بنایا ہے اس سے تیسرے چوتھے مہینے آپ کی توتو میں میں ضرور ہوتی ہے لیکن مسز قانون گو سے آپ کی دوستی کو چھ مہینے ہو گئے ہیں جو کئی برسوں کے برابر ہیں۔ میں اب زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتی۔ اس مہینے میں مسز قانون گو سے آپ کی چخ پخ ضرور ہو جانی چاہیے۔ آپ کو اپنی روایات برقرار رکھنی چاہئیں۔

ہاں یہ ضرور بتائیے کہ آپ کہاں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ آپ پنجاب کی رہنے والی ہیں۔ مگر آپ کا چہرہ نیپالیوں  اور تبتیوں سے کیوں ملتا جلتا ہے؟ آپ کی ناک بالکل نیپالیوں کی طرح چپٹی ہے اور گالوں کی ہڈیاں بھی انہی کی طرح ابھری ہوئی ہیں البتہ آپ کا قد ان کی طرح پست نہیں۔

آپ نے عید پر جو ساڑھی پہنی تھی، مجھے پسند نہ آئی، آپ کا ذوق نہایت فضول ہے۔ اگر آپ بھڑ کیلے اور شوخ رنگوں کے بجائے ہلکے رنگ کے کپڑے انتخاب کیا کریں تو بہت اچھا ہو۔ لمبے قد کی عورتوں کو کھڑی لکیروں کی قمیص نہیں پہننی، چاہئے۔ اس سے وہ اور لمبی ہو جاتی ہیں ، اسی طرح آپ کو پف سلیوز کا بلاؤز نہیں پہننا چاہئے۔ کیونکہ لمبے قد کی عورتوں کے لئے یہ موزوں نہیں ہوتا۔ اور پھر آپ تو ویسے ہی دبلی پتلی ہیں۔ آپ کے کاندھے پر بلاؤز کے اٹھے ہوئے’’ پف‘‘ بہت برے معلوم ہوتے ہیں۔

آپ کی خیر اندیش........

***

آٹھواں خط مس راجکماری کے نام

مس راجکماری۔

مجھے تم سے نفرت ہے، تم عورت نہیں ہو سوٹ کیس ہو۔

تم سے نفرت کرنے والی....

***

نواں خط مسٹر صالح بھائی کنٹریکٹر کے نام

جناب صالح صاحب۔ تسلیم!

مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ لیکن پھر بھی میں آپ کو پسند نہیں کرتی، نہ معلوم کیا وجہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر میرے دل میں غیظ و غضب پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ بہت شریف آدمی ہے،آپ کی شکل و صورت میں کوئی خاص بُرائی نہیں۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو میں نا پسندیدگی کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہو۔

آپ کے چہرے پر یتیمی برستی ہے، آپ کی چال بھی نہایت واہیات ہے۔

آپ کی ہمدرد........

***

دسواں خط مس رضیہ صلاح الدین کے نام

ڈیئر مس رضیہ۔ سلام مسنون!

تم ابھی ابھی پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہو۔ پہلے ساڑھی پہننے کی عادت اختیار کرو،پھر اس لباس میں باہر نکلو۔ تمہیں یہ لباس پہننے کا بالکل سلیقہ نہیں ہے۔ خدا کے لئے اپنے آپ کو تماشا نہ بناؤ۔

تمہاری خیر خواہ........

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

صلاح الدین غازی
سعادت حسن منٹو اردو افسانے کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ افسوس کہ معاشی تنگی اور شراب خانہ خراب نے بہت جلد انہیں ہم سے جدا کردیا۔ ان کی تحریروں میں کہیں کہیں طنز کی کاٹ کے ساتھ ساتھ مزاح بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ خطوط پر مشتمل یہ تحریریں بھی طنز ومزاح پر مشتمل ہیں۔ بلا شبہ حوا کی بیٹی کی قوت مشاہدہ غضب کی ہے۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔