اردو ادب میں مغربی اصناف اور اسالیب فن کا تعارف کرانے والوں میں عبدالحلیم شرر کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ شرر ١٨٦٠ میں لکھنو میں پیدا ہوئے اور ١٩٢٦ میں لکھنو ہی کی خاک کا پیوند ہوئے۔ اس طرح ان کی تخلیقی زندگی کا زمانہ اواخر انیسویں صدی اور اوائل بیسویں صدی کو محیط ہے۔ یہ زمانہ مسلمانان ہند کی تاریخ میں اپنی سیاسی ابتری کے ساتھ ساتھ ادبی زرخیزی کے لیے بھی یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست و حکومت کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد مسلمان من حیث القوم مالی، ذہنی، تعلیمی اور نفسیاتی پسماندگی کا شکار ہو چکے تھے۔ قوم کے با شعور طبقے میں اس حالت زار سے اوپر اٹھنے کے لیے، اور قوم کو اوپر اٹھانے کے لیے تحریک پیدا ہوئی۔ ایک طرف سرسید اور حالی نے تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے سعی و جدوجہد کی تو دوسری طرف مسلمانوں کی ولولہ انگیز تاریخ کے ذریعہ قوم کی نفسیاتی پستی کو دور کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ اس دوسرے طبقے میں عبدالحلیم شرر کا نام ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اسلامی تاریخی ناولوں کے ذریعے قوم کو یاد دلایا کہ ان کی تاریخ کن ولولہ انگیز اور تحیر خیز واقعات سے بھر پور ہے۔
عبدالحلیم شرر کے والد کا نام حکیم تفضل حسین تھا وہ تاج دار اودھ نواب واجد علی شاہ کے ملازم تھے۔ جب انگریزوں نے نواب واجد علی شاہ کو معزول کر کے کلکتہ میں نظر بند کر دیا تو حکیم صاحب موصوف بھی نواب صاحب کے ساتھ کلکتہ آ گئے اور یہیں اقامت پذیر ہو گئے۔ شرر اس وقت نو سال کے تھے یہاں انہوں نے اپنے والد اور بعض دوسرے علما سے عربی، فارسی، منطق اور طب کی تعلیم حاصل کی۔ فن شاعری میں علی نظم طباطبائی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر وہ لکھنو چلے آئے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی اچھی دست گاہ پیدا کر لی۔
منشی نول کشور نے انہیں 'اودھ اخبار' کا نائب مدیر بنا دیا۔ اس اخبار میں انہوں نے مشہور بنگالی ادیب بنکم چندر چٹرجی کے ایک تاریخی ناول ''درگیش نند فی'' کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ یہیں سے انہیں اردو میں اسلامی تاریخ کو بنیاد بنا کر طبعزاد ناول لکھنے کا خیال آیا چنانچہ اسی سال انہوں نے اپنا رسالہ 'دل گداز' جاری کیا تو اس میں اپنا پہلا تاریخی ناول ''ملک العزیز ورجنا'' قسط وار شائع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ''حسن انجلینا'' اور ''منصور موہنا'' لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔
١٨٩٣ میں شرر نواب وقار الملک کے لڑکے کے اتالیق بن کر انگلستان گئے۔ وہاں انہوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھی اور انگریزی تہذیب و ادب کا مشاہدہ و مطالعہ کیا۔ انگلستان سے واپسی کے بعد وہ مستقل طور پر لکھنو میں قیام پذیر ہو گئے اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ سوانحی اور تاریخی تصانیف کے ساتھ ساتھ انہوں نے تقریباً پچاس ناول اور ڈرامے لکھے۔ علاوہ ازیں ان کے تحریر کردہ مقالات و مضامین کا مجموعہ ''مقالات شرر'' کے نام سے آٹھ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔
مولانا شرر کو تاریخ سے اور اس میں بھی خصوصیت سے اسلامی تاریخ سے بے حد دلچسپی تھی۔ ان کے زیادہ تر ناولوں کا تانا بانا اسلامی تاریخ پر مبنی ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے تئیں اس بات کی کوشش کی کہ اپنے تاریخی ناولوں میں امت مسلمہ کے شان دار ماضی اور تہذیبی و سیاسی عروج کی داستانیں سنا کر انہیں خواب غفلت سے جگائیں اور ان میں عمل کا جوش اور ولولہ پیدا کریں ۔ اپنی تحریر میں دلچسپی اور چاشنی پیدا کرنے کے لیے انہوں نے تاریخ کے ساتھ عشق و محبت کے کبھی حقیقی اور کبھی فرضی واقعات کو بھی زیب داستان کیا اور اس طرح ان کے تاریخی ناول رومانی قصوں کی کشش اپنے اندر سموئے ایک ایسی فضا تخلیق کرتے ہیں جس کا تاریخ سے بعض اوقات بہت کم تعلق رہ جاتا ہے۔
شرر کے مشہور ناولوں میں ''ملک العزیز ورجنا '' اور ''منصور موہنا'' کے علاوہ ''حسن انجلینا'' ' فلورا فلورنڈا' شوقین ملکہ ' مقدس نازنین، بابک خرمی، ایام عرب اور فردوس بریں قابل ذکر ہیں ۔ آخر الذکر ناول کو بقول ڈاکٹر قمر رئیس فنی تکمیل کے اعتبار سے کامیاب ترین کہا جا سکتا ہے۔ تمام نقادوں نے اس ناول کے پلاٹ کی دل کشی اور کردار نگاری کو خوب سراہا ہے۔
زیر نظر ناول ''لعبت چین''شرر کا غیر معروف ناول ہے مگر اس میں بھی ایک اہم پیغام پوشیدہ ہے اس لیے ہم اسے ہدیہ قارئین کر رہے ہیں ۔
جشن نوروز کا پہلا دن اور صبح کا وقت ہے۔ ترک و تاجیک نوجوان جنہوں نے سردی کی شدت کم ہوتے ہی سمور کے جبے اُتار ڈالے ہیں ، سادے اور سبک کرتے پہن کر نکلے ہیں اور دریا کے کنارے طلوع آفتاب کا جلوہ دیکھ رہے ہیں ۔ وہ اپنے اس معبود کے آگے سرجھکا کے ہاتھ جوڑ کے اور سجدے کر کے حق عبادت ادا کر رہے ہیں ۔ انہی میں ملے ہوئے چند غریب الوطن موحدان عرب ہیں جنہوں نے یہیں دریا کے کنارے دوگانہ فجر ادا کیا ہے اور اب دریا کے کنارے کنارے ٹہل کے بعض آہستہ آہستہ قرآن پاک کی وہ سورتیں پڑھ رہے ہیں جو انہیں یاد ہیں اور بعض پیغمبر بشیر و نذیر پر عقیدت سے درود بھیج رہے ہیں ۔ وہ اپنے ان وظائف کے ساتھ سمرقند کے آفتاب پرستوں کے طریقہ عبادت کو دیکھ دیکھ کر متعجب ہوتے ہیں ۔
ان عربوں میں ایک نہایت ہی خوش رو نوجوان ہے جس کی چال ڈھال سے بہادرانہ رعب و داب، وضع و قطع سے سرداری کی شان و آن بان اور چہرے سے جلال آمیز حسن و جمال نمایاں ہے۔ اس سے اس کے ایک رفیق نے کہا ''میں تو ان آفتاب پرست مشرکوں سے عاجز آگیا (ایک ٹھنڈی سانس بھرکے) دیکھئے کب اس کفرستان سے نجات ملتی ہے اور ان آفتاب پرست مشرکوں سے پیچھا چھوٹتا ہے''۔
یہ سن کر خوبرو نوجوان نے کہا: ''قدامہ یہ نہ کہو ہم یہاں سے جانے کے لیے نہیں بلکہ یہیں جینے اور یہیں مرنے کے لیے آئے ہیں ۔ والد نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے کہ واپس جاؤں ، میں اس لیے آیا ہوں کہ ان لوگوں میں توحید کی تبلیغ کروں انہیں میں اپنی دنیا بناؤں اور پُرفتن خلافت اسلام کے جھگڑوں سے نجات پاؤں ''۔
قدامہ: ''تو پھر ان لوگوں سے ملئے، ربط و ضبط بڑھایئے۔
موسیٰ: ( یہی نوجوان موسیٰ ان غریب الوطن عربوں کا سردار ہے) ''میں تو طرخون کا احسان مند ہوں ۔ ابا جان کے حکم سے دریائے جیحون کے اس پار آیا تو جس شہر یا گاؤں سے گزرا لوگوں سے امان کی درخواست کی مگر کسی نے سماعت نہ کی۔ خصوصاً بادشاہ بخارا کی بے حمیتی کا تو مجھے زندگی بھر صدمہ رہے گا جس نے صاف کہہ دیا کہ تم چند بے خانماں آفاقیوں کو میں اپنے یہاں جگہ نہیں دے سکتا۔ اس کے بعد خوش نصیبی سے میں سمرقند میں پہنچا اور یہاں کے فرمان روا طرخون نے فوراً اپنی حمایت میں لے لیا۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ میرا حوصلہ کس قدر بڑھ گیا ہے ہم اس کی عنایت کو کبھی نہیں بھول سکتے''۔
یہ کہنے کے بعد اس نے کہا ''آفتاب نکل آیا، چلو معمول کے مطابق طرخون سے ملیں جو صبح کو ہمارا منتظر رہا کرتا ہے''۔ یہ کہتے ہی یہ سب عرب روانہ ہوکے دم بھر میں آبادی کے اندر داخل ہوئے اور اس بڑی سڑک پر چل کھڑے ہوئے جو دریا کے کنارے سے سیدھی طرخون کے قصر کو گئی ہے۔
یہاں موسم گرما کا مختصر زمانہ ہر شخص کے لیے رحمت الٰہی ہوتا ہے جس کی مسرت ہر زن و مرد کے چشم و آبرو سے ظاہر ہونے لگتی ہے اور اس سے بھی زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ آج نوروز کا دن ہے جو ان لوگوں کی سب سے بڑی عید ہے۔
موسیٰ، قدامہ اور ان کے ہمراہی عرب خراماں خراماں ایک چوراہے پر پہنچے جو شہر سمرقند کی آبادی کا مرکز تھا۔ اس چوراہے کے بیچوں بیچ میں ایک نہایت ہی پُرتکلف بنگلہ نما کوشک نظر آئی جو آج ہی تیار ہوئی ہے۔ یہ بانس اور سرو کی لکڑیوں کے ٹھاٹھ باندھ کے اور ان پر رنگ برنگ کے زرنگار کپڑے منڈھ کے نہایت ہی خوبصورتی اور نزاکت سے بنائی گئی ہے۔ چاروں طرف دروازوں پر خوشنما محرابیں بنی ہوئی ہیں جن میں زرنگار پردے بندھے ہیں ۔ چھتوں اور در و دیوار پر بوقلمون پھولوں کے ہار ڈال کے یہ کوشک ایک نہایت ہی پُر تکلف حجلہ عروسی بنا دی گئی ہے۔ اندر نہایت ہی تکلف سے دیبا و حریر کا فرش ہے۔ گلدانوں پر پھولوں کے گلدستے سجے ہوئے ہیں ۔ درمیان میں شاہانہ دسترخوان بچھا ہوا ہے جس پر انواع و اقسام کے کھانے چنے ہیں ۔
یہ دیکھ کے نوجوان موسیٰ کو سخت حیرت ہوئی۔ اپنے دوست قدامہ سے کہا: ''یہ تو عجیب سامان نظر آیا۔ معلوم ہوتا ہے شاہ طرخون نے کسی کی دعوت کی ہے مگر کتنی جلدی یہ کوشک بن کے تیار ہو گئی۔ کل صبح تک یہاں کچھ نہ تھا''۔ یہ کہہ کے اس کوشک کے ایک دروازے کے پاس گیا اور اندر جھانک کے دیکھا تو نظر آیا کہ ایک منقش نقرئی چوکی پر ایک پری جمال نازنین ارغوانی لباس عروسی پہنے سر سے پاؤں تک مرصع طلائی زیور سے آراستہ اور موسم بہار کے رنگ برنگ پھولوں سے سجی دسترخوان کے ایک سمت بیٹھی ہے جیسے کسی وعدہ پر آنے والے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کے پیچھے کنیزیں دست بستہ کھڑی ہیں گویا اس کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہیں ۔
موسی نے کہا، قدامہ! یہ تو معلوم ہوتا ہے جنت الفردوس کا خیمہ ہے اور اس میں وہ سامنے حور مقصور بیٹھی ہوئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہے کیا؟ کس لیے یہ سامانِ ضیافت کیا گیا ہے اور یہ نازنین کون ہے؟
قدامہ! ''افسوس اس وقت مالک بن عوف اسلمی ساتھ نہ ہوئے۔ وہ ہوتے تو ضرور کسی سے پوچھتے''۔
موسیٰ: '' کسی کو بھیج کے انہیں بلواؤ اور تاکید کرو کہ وہ باہر کی آمدورفت میں ہمیشہ ساتھ رہا کریں ۔ وہی اکیلے ترکی زبان سمجھتے ہیں اور ہم بغیر ان کے کسی سے بات نہیں کر سکتے''۔
جیسے ہی موسیٰ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہمراہیوں میں سے ایک شخص دوڑ کر عربی لشکر گاہ سے مالک کو بلا لائے۔ موسیٰ اس کی صورت دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہا ''ذرا مقامی لوگوں سے دریافت تو کرو کہ یہ کوشک کس نے بنائی ہے؟ کس لیے بنائی گئی ہے؟ کس کی دعوت کا سامان ہے اور یہ ماہ پیکر جو اس کے اندر بیٹھی ہے، کون ہے؟
مالک نے ان ترکوں سے جو قریب کھڑے تھے کچھ دیر تک ترکی زبان میں گفتگو کی پھر موسیٰ سے کہا: یا امیر! یہ عجیب واقعہ ہے جسے سن کے آپ تعجب کریں گے۔ ان لوگوں کے بیان سے معلوم ہوا کہ یہاں سمرقند میں مدت دراز سے معمول چلا آتا ہے کہ شہر کے سب سے بڑے پہلوان و شہسوار اور وزیر و سپہ سالار کی دعوت کے لیے اہلِ شہر کی طرف سے ہر نوروز کو یہ حجلہ عروسی بنا کے آراستہ کیا جاتا ہے اس میں تمام الوان نعمت دسترخوان پر چنے جاتے ہیں ۔ اور شہر بھر میں جو لڑکی سب سے خوبصورت ہوتی ہے عام اس سے کہ وہ کسی بڑے سے بڑے رئیس و سردار کی بیٹی ہو، عروسی لباس پہنا کے مرصّع زیور سے آراستہ کر کے اور پھولوں سے سجا کے بٹھا دی جاتی ہے تاکہ وہ بہادر شہسوار آئے اور اپنی جانبازیوں کے صلہ میں اہل شہر کی یہ دعوت قبول کرے مگر وہ اسی وقت ان چیزوں کو لے سکتا ہے جبکہ اور کوئی ان پر تصرف کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ چنانچہ طلوع آفتاب سے غروب کے وقت تک یہ سامان یونہی اس حجلہ عروسی میں رکھا رہتا ہے اور دن بھر جب اور کوئی دعویدار پیدا نہیں ہوتا تو شام کو وہ آ کے کھانا کھاتا ہے اور اس نازنین کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے لیکن اگر دن کو کوئی بہادر رقیب پیدا ہو گیا اور اس نے یہ جرأت کی کہ اس نازنین کے پہلو میں بیٹھے تو فوراً سال گزشتہ کے کامیاب مدعی شجاعت کو خبر کی جاتی ہے۔ وہ آ کے اس سے مقابلہ کرتا ہے اور جنگ میں جو کامیاب ہو وہی اس حجلہ عروسی، اس ماہ پارہ اور ان الوان نعمت کا حقدار ہوتا ہے اور سال بھر کے لیے شہر کا سردار اور شاہ طرخون کا وزیر اعظم قرار پاتا ہے''۔
یہ سن کے موسیٰ نے کہا: ''اگرچہ ہماری نظر میں یہ رسم عجیب و غریب ہے مگر بات نہایت ہی معقول و دلچسپ ہے''۔ یہ کہتے ہی بغیر کسی سے مشورہ کیے اور بلا تامل وہ اس حجلہ عروسی میں گھس گیا اور اس نازنین کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ اس کی یہ جرات دیکھتے ہی تماشائیوں میں ایک ہنگامہ محشر بپا ہو گیا۔ لوگ گھبرا گھبرا کے اسے گھورنے، باہم سرگوشیاں کرنے اور اِدھر اُدھر دوڑنے لگے اور موسیٰ کے ہمراہی عرب بھی اپنے سردار کی اس بیباکی و خودرائی پر حیران ہو گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ دیکھئے اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟
سب اسی اندیشے میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں طرخون کا سپہ سالار اور وزیر اعظم نوشگین زرہ پہنے پورے ہتھیار لگائے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا آیا اور کوشک کے دروازے پر باگ روک کے ترکی زبان میں چلّایا: ''اے بے باک و شوریدہ سر عرب مرد ہے تو باہر آ اور میری تلوار کا مزہ چکھ۔ مالک بن عوف نے فوراً دوڑ کے موسٰی کو خبر کی اور وہ مسکراتا ہوا باہر آیا۔ اپنے ایک رفیق کا نیزہ لے کر نوشگین کے سامنے ڈٹ کے کھڑا ہو گیا اور ڈانٹ کے کہا: ''لے اپنا حربہ کر''۔ اس کا ترجمہ مالک نے نوشگیں کو بتایا تو اس نے کہا: تمہارا نا تجربہ کار سردار شرارت و شوریدہ سری کے ساتھ بیوقوف بھی ہے جو بغیر زرہ پہنے ایک نیزہ ہاتھ میں لے کے پیدل میرے سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔ اس سے کہو کہ ہم ایسی بزدلی کی لڑائی نہیں لڑتے اسے اجازت ہے کہ اپنے خیمے میں جا کے زرہ پہن لے۔ جس اسلحہ پر ناز ہو اس کولے لے۔ اپنے بہترین گھوڑے پر سوار ہو اور شہر کے باہر میدان میں چل کے مجھ سے مقابلہ کرے۔ جہاں تمام اہلِ شہر اور خود شاہ طرخون ہماری سپہ گری کا تماشا دیکھیں گے''۔
جب اس مضمون کو موسیٰ سمجھا تو کہا: ''میں تمہاری شرطوں کو خوشی سے منظور کرتا ہوں '' موسیٰ زرہ اور سامانِ جنگ سے آراستہ ہوا۔ ہتھیار لگائے نکل کے اپنے عزیز گھوڑے جوالہ پر سوار ہوا اور دونوں حریف ہمدم و ہمراز دوستوں کی طرح گھوڑے سے گھوڑا ملائے شہر کے باہر دریائے زرافشاں کے کنارے ایک وسیع میدان میں آئے جہاں ہزارہا خلقت جمع تھی اور خود شاہ طرخون بھی آ کے موجود ہو گیا تھا اس لیے کہ آناً فاناً میں تمام اہلِ شہر کو خبر ہو گئی تھی اور سب کو معلوم تھا کہ یہی میدان جانباز بہادروں کی جولانگاہ اور سربکف حریفوں کا مقرر شدہ اکھاڑہ ہے۔
اس میدان میں پہنچتے ہی دونوں حریف جدا ہوکے مقابل کھڑے ہو گئے اور اس انتظار میں کہ شہر کے تمام لوگ جمع ہو جائیں جو ہر طرف سے جوق در جوق چلے آتے تھے۔ جب خوب مجمع ہو گیا تو نوشگیں نے اشارہ کیا کہ ''لے اب مقابلہ کے تیار ہو جاؤ''۔ موسٰی اپنا نیزہ اس کی طرف جھکا کر کھڑا ہو گیا مگر نوشگیں نے بجلی کی طرح جھپٹ کے نیزے پر تلوار ماری اور اشارہ کیا کہ نیزہ دور کی لڑائی ہے مرد ہو تو شمشیر زنی کا جوہر دکھاؤ۔ موسی نے برابر آ کے نوشگیں کے سر پر تلوار ماری جس سے سر تو بچ گیا مگر خود کٹ کے بیکار ہو گیا۔ اب دونوں میں نہایت ہی شدت سے تلوار چل رہی تھی اور گھوڑوں کی چلت پھرت کے ساتھ تلواروں کی برق دشی سے کئی منٹ تک ایسا عجیب و پُر لطف آتش بازی کا سماں بندھا رہا کہ دیکھنے والے دونوں کی سپہ گری پر تعجب کر رہے تھے۔ یہ سماں اس وقت ختم ہوا جب دونوں تلواریں ٹوٹ گئیں مگر قبل اس کے کہ موسیٰ کسی اور اسلحے پر ہاتھ ڈالے نوشگیں نے گرز اُٹھا کے موسیٰ کے سر پر اس زور سے مارا کہ خود پچک گیا اس کی نوک ٹوٹ گئی اور موسیٰ اگرچہ زخمی نہیں ہوا مگر سخت چوٹ کھائی۔ گھبرا کے پیچھے ہٹا۔ نوشگیں کو اپنی اس ضرب پر اس قدر ناز تھا کہ سمجھا ہٹنے کے بعد یہ غش کھا کے گھوڑے سے گرا جاتا ہے۔ وہ اسی انتظار میں تھا کہ موسیٰ نے اپنے آپ کو سنبھالا اور برق دشی کی پھرتی سے کمان میں تیر جوڑ کے ایک ایسا تیر مارا جو کمان سے نکلتے ہی نوشگیں کی آنکھ میں پیوست ہو گیا۔ ایک کراہ کے ساتھ اس نے تیر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چاہا کہ آنکھ سے کھینچ کے نکالے کہ یکایک موسٰی کا نیزہ اس کے سینے پر پڑا جو بزرہ کو توڑ کے پار نکل گیا اور نوشگیں نے اسی طرح تیر کو پکڑے ہوئے زمین پر گر کر جان دے دی۔
یہ دیکھتے ہی عربوں نے بڑے جوش سے نعرہ مسرت بلند کیا۔ طرخون اور سارے تورانی اور زابلستانی سناٹے میں آ گئے اور موسیٰ نے بغیر اس کے کہ کسی سے بات کرے خوشی کے نعرے بلند کرنے والے عربوں کے جھرمٹ میں شہر کی راہ لی۔ سیدھا اس حجلہ عروسی میں پہنچا۔ تمام عرب رفیقوں کو دسترخوان پر ساتھ بٹھایا، کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد مہ جبیں کو لے کے اپنی فرودگاہ میں آیا۔ وہ اس غریب الوطنی میں ایسی ماہ طلعت کے مل جانے پر بے انتہا مسرور تھا۔
٭٭٭
گزشتہ واقعات سے اگرچہ موسیٰ اپنی کامیابی و خوش نصیبی پر نازاں اور اس کے تمام عربی نژاد رفقا محظوظ و مسرور تھے۔ مگر ترکوں خصوصاً شاہ سمرقند طرخون کو نہایت ہی صدمہ تھا۔ وہ لوگ حرفِ شکایت زبان پر تو نہ لاسکتے تھے۔ رسوم مروجہ کے مطابق ہر شخص کو یہ حق حاصل تھا کہ سمرقند کے سپہ گر اعظم کو قتل کر کے نوروز کی دعوت اور حسینہ ماہ طلعت کو جیت لے مگر یہ امر سب کو شاق تھا کہ اس آفاقی شخص نے اس سپہ سالار کو قتل کر ڈالا جو بادشاہ کا دست راست رعایا کا پشت پناہ اور سارے توران کا نامور مرد تھا۔ چنانچہ سب اس فکر میں تھے کہ کوئی موقع پیدا کر کے عربوں اور ان کے نوجوان سردار سے نوشگیں کے خون کا انتقام لیں اور یہ نہ ہو سکے تو کسی بہانے ان کو ذلیل کر کے اپنے شہر سے نکال باہر کریں ۔
نوشگیں کے مارے جانے کے دس پندرہ روز بعد طرخون اپنے محل میں بیٹھا تھا۔ نامور سرداران توران جمع تھے اور طرخون کے ولی عہد ارسلان کی شادی کا تذکرہ تھا جو اسی ہفتہ میں کاشغر کے فرماں روا بیقرا اولتان کی شہزادی نوشین کے ساتھ ہونے والی تھی۔ دلہن کا حسن و جمال سارے ترکستان میں مشہور تھا اور تو رانیوں کو یقین تھا کہ اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی سارے توران میں نہیں ہے۔ منگنی کی رسم سردارانِ سمرقند ارسلان کو ساتھ لے جا کے کاشغر میں انجام دے چکے تھے اور اب شہزادی اپنے خاندان کے لوگوں اور کاشغر کے معززین کے ساتھ دو روز بعد سمرقند پہنچنے والی تھی تاکہ وہ آخری رسم شادی بھی تکمیل کو پہنچ جائے جس کا مغلوں اور تاتاریوں میں عام رواج تھا اور اصلی عقد نکاح اسی سے عبارت ہوتا تھا۔ اس رسم کی تعمیل اکثر دلہا کے گھر پر ہوا کرتی اور دلہنیں منزلوں کا سفر کر کے اپنے عزیزوں کے ساتھ سسرال کے شہر میں آیا کرتی تھیں ۔
وہ رسم یہ تھی کہ دلہن عروسانہ لباس اور زیور پہن کے ہتھیار لگاتی، پھر گھوڑے پر سوار ہوکے کسی وسیع میدان میں جاتی اور شمشیر برہنہ کھینچ کے کھڑی ہو جاتی۔ اس کے بعد دولہا اور اس کے بہت سے رقیب مسلح گھوڑوں پر سوار ہوکے مقابلہ پر جاتے۔ سب کے سب تلواریں کھینچ کے دلہن پر حملہ کرتے اور ہر نوجوان کوشش کرتا کہ اس کو زندہ پکڑ کے اس کے گھوڑے پر سے کھینچ لے اور لے بھاگے۔ دلہن ان سے دُور بھاگتی اور اپنے آپ کو ان کی گرفت سے بچاتی اور کوئی قریب پہنچ جاتا تو اسے تلوار سے مارتی اور سختی سے مقابلہ کرتی۔ اس لڑائی میں حریف نوجوان بھی دلہن تک پہنچنے میں ایک دوسرے کے مزاحم ہوتے جس میں ہمیشہ دو ایک جان سے مارے جاتے یہاں تک تو اصل دلہا اور سب برابر رہتے مگر دلہن کے قریب پہنچنے میں دلہا کو اتنی مدد ملتی تھی کہ بظاہر تو وہ اس پر بھی حملے کرتی اور اسے بھی پاس آنے سے روکتی مگر اوروں کی آنکھ بچا کے یہ کوشش کرتی کہ لڑتے ہی لڑتے اوروں کی گرفت سے بچ کے اس نوجوان کی گرفت میں آ جائے جس سے منگنی ہو چکی ہے اور اس کا اصل دلہا ہے مگر ظاہر میں یہی نظر آتا ہے کہ یہ سب نوجوانوں سے یکساں طریقے پر مزاحمت کرتی اور بھاگتی ہے اور کسی کے پنجے میں نہیں آنا چاہتی۔
دلہا اور دلہن دونوں کے لیے یہ سخت آزمائش کا مقام ہوتا تھا، کبھی ایسا بھی ہو جاتا کہ اس میدان میں دلہا دلہن دونوں کی مرضی کے خلاف کوئی اور نوجوان دلہن کو جیت لیتا اور ایسی صورت میں منگنی کالعدم ہو جاتی اور لڑکی اس کی دلہن ہو جاتی جو اس کو معرکہ میں کھینچ کے اپنے گھوڑے پر بٹھا لیتا۔
دونوں کے خاندانوں بلکہ ساری قوم کے لیے بھی یہ نہایت نازک اور اندیشہ ناک موقع ہوا کرتا تھا اور جب تک دلہن اپنے اصلی دلہا کے آغوش میں نہ پہنچ جاتی دونوں کے دل بیم و رجا کے تفکرات سے دھڑکتے رہتے اور ان سے زیادہ ان کے عزیزوں اور دوستوں کی حالت ہوتی۔ چنانچہ طرخون کو بھی اس کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ خصوصاً اس لیے کہ شہزادی نوشین کے سیکڑوں عاشق جانباز تھے اور اس کا فرزند ارسلان اس نازنین پر فریفتہ تھا اور اس کے شوق میں دیوانہ ہو رہا تھا۔ انہی اندیشوں کا خیال کر کے طرخون نے اپنے امرا سے کہا: ''اس رسم میں جو نوجوان ارسلان کے رقیب بن کے میدان میں جائیں ان میں خیال رکھا جائے کوئی نوشین کا عاشق اور اصلی رقیب نہ ہو، سب دکھانے کے لیے مقابلہ کریں اور سب کی کوشش یہی ہو کہ نوشین ارسلان کے آغوش میں آ جائے''۔
ایک امیر: ''بے شک یہی ہونا چاہیے بس اس کا لحاظ رکھا جائے کہ رقیبوں میں کوئی غیر نہ ہو، سب سمرقند کے ہوں ''۔
طرخون: '' کیا یہ ممکن ہے کہ نوشین کی صورت دیکھ کے سمرقند کا کوئی نوجوان اس پر فریفتہ ہو جائے اور ارسلان سے چھین کے اس کو لے کر بھاگنے کی کوشش کرے''۔ دوسرا سردار: ہمیں یقین ہے کہ ہمارے شہر کے نوجوانوں میں سے کوئی شہزادہ ارسلان کے ساتھ بے وفائی اور دغا بازی نہ کرے گا''۔ طرخون: ''لیکن اگر کوئی نوجوان بغیر اس کے کہ ہم منتخب کریں خود سے مقابلہ کو کھڑا ہو جائے تو تم کیا کرو گے۔ کسی کو اس سے روکنے اور منع کرنے کا حق ہے''۔
دوسرا سردار: ''روکنے کا حق تو نہیں ہے مگر یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے ذرا بھی بدنیتی ظاہر ہو تو اور سب رقیب جو ہمارے جانے بوجھے اور ہمارے بس کے ہوں گے مقابلے کے وقت اتفاق کر لیں اور اس دشمن رقیب کو قتل کر ڈالیں ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم یہ انتظام کریں گے کہ بھروسے کے رقیب منتخب کیے جائیں ۔ وہ نہایت ہی شہ زور، تنومند اور فنون جنگ میں کمال رکھنے والے ہوں گے اور ان کی یہ متفقہ کوشش ہو گی کہ ہر غیر رقیب کو چاہے کیسا ہی بہادر اور جوانمرد ہو دنیا سے ناپید کر دیں ''۔
طرخون: ''اگر تم کو اس پر بھروسہ ہے تو اس رسم کے بہانے ہمارا ایک اور مطلب بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ رقیبوں میں ہم اس سرکش عرب موسیٰ کو بھی شامل کر لیں وہ کسی اور کو نوشین تک نہ پہنچنے دے گا اور اگر خود اس نے دلہن کا قصد کیا تو سب مل کے اسے قتل کر ڈالیں گے بلکہ یہ کوشش کی جائے گی کہ چاہے وہ لڑکی کی طرف رخ کرے یا نہ کرے، رقابت کے بہانے سب مل کے اس کا خاتمہ کر دیں ۔ اس طرح ہمیں یہاں نوشگیں کا بدلہ مل جائے گا اور ہمارے معزز رئیس سمرقند بہرام کی بیٹی قتلق خانم اپنے ناجنس مالک کے پنجہ ستم سے چھوٹ جائے گی''۔
بہرام: (جو اس دربار میں موجود تھا) ''خدا حضور کو صد سال تک سلامت با اقبال رکھے۔ اس سے بہتر کوئی تدبیر میری مظلوم بیٹی کی رہائی کی نہیں ہو سکتی۔ میں نے یہ سمجھ کر اسے قوم کے حوالے کر دیا تھا کہ بہادر نوشگیں کی محبوبہ بنے گی جس سے اچھا شوہر کسی عورت کو نصیب نہ ہو سکتا تھا مگر قسمت نے بیوفائی کی نوشگیں مارا گیا اور وہ ایسے کے پالے پڑ گئی جو نہ اس کی زبان سمجھتا ہے اور نہ وہ اس کی زبان سمجھتی ہے۔ ہزار میل جول ہو مگر زندگی بھر ناآشنا رہیں گے اور غریب قتلق اپنی قسمت پر روئے گی''۔
طرخون: ''ہاں ہاں یہی ہونا چاہیے۔ تم لوگ اس کا انتظام کرو اور ایسے بیس توانا جانباز نوجوان چھانٹ لو جو کبھی کسی سے مغلوب نہ ہوئے ہوں اور اپنے بس کے ہوں ان پر بھروسہ کیا جائے۔ ان کو یہ سمجھا دیا جائے کہ خوبصورت نوشین میرے بیٹے ارسلان کے سوا کسی اور کے ہاتھ نہ جانے پائے اور دوسرے یہ کہ عرب نوجوان موسیٰ اس میدان سے زندہ واپس نہ آئے''۔
بہرام: ''تو حضور موسیٰ کو خبر کر دی جائے کہ رسم شادی میں شہزادی کے رقیبوں میں وہ بھی رکھے گئے ہیں ''۔
طرخون: ''یہ غضب نہ کرنا، وہ بڑا ہوشیار ہے سمجھ جائے گا کہ یہ میرے قتل کی تدبیر ہو رہی ہے۔ جس دن یہ رسم ادا ہو گی اس روز ہم اسے سیر کے بہانے میدان میں لے جائیں گے اور عین اس موقع پر باتوں باتوں میں اس کو ابھار دیں گے کہ مرد ہو تو اس مقابلہ میں تم بھی شریک ہو جاؤ، اسے اپنی شجاعت پر اس قدر ناز ہے کہ فوراً آمادہ ہو جائے گا''۔
امراء سمرقند نے دربار سے واپس آتے ہی جس قسم کے نوجوان بتائے گئے تھے چھانٹنا شروع کیے۔ اس میں انہیں زیادہ زحمت نہیں پیش آئی۔ اس لیے کہ ارسلان سے نوجوانانِ شہر کو اس قدر محبت تھی اور موسیٰ کی دشمنی کی آگ سب کے سینوں میں اس شدت کے ساتھ بھڑک رہی تھی کہ جس نے ان مقاصد کو سنا تیار ہو گیا اور دو روز کے اندر بیس ایسے نوجوان پہلوان منتخب ہو گئے کہ جس نے ان کی صورت دیکھی یقین کر لیا کہ یہ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ دوسرے دن شام کو بادشاہ طرخون نے ان کا معائنہ کیا۔ ان کی شہسواری و شمشیر زنی کو خوب اچھی طرح آزمایا اور پسند کر کے اپنا اطمینان ظاہر کیا۔
ادھر لعبتِ چین شہزادی نوشین اپنی ماں بھائیوں اور عزیزوں کے ساتھ بڑے کروفر سے چار سو میل کی مسافت طے کر کے سمرقند میں آ گئی۔ دلہن والوں کا پڑاؤ شہر کے باہر دریائے زرافشاں کے کنارے اسی میدان میں ہوا جہاں چند روز ہوئے موسیٰ اور نوشگیں میں مقابلہ ہوا تھا۔
جب مسافرانِ کاشغر خوب آرام لے چکے اور سستا چکے تو اس مخصوص رسم شادی کا دن قرار پایا۔ انتظار اور بیم و رجا کے ہزاروں ہچکولوں کے بعد امتحان اور مقابلے کا دن آگیا اور صبح تڑکے ہی دُور دُور کے لوگ آ کے اسی میدان میں جمع ہوئے جو لڑکی والوں کے پڑاؤ کے سامنے تھا۔ طرخون اپنے ارکان دولت اور معزز مہمان عرب کو ساتھ لے کے آیا کہ بیٹے کی جوانمردی و کامیابی کا تماشا اپنی پُر شوق آنکھوں سے دیکھے۔ موسیٰ بن عبداللہ بن خازم کو وہ خاص طور سے بلوا کے اپنے ساتھ لایا اور اس سے اس رسم کی مفصل کیفیت بیان کی۔ موسیٰ نے اس کی باتوں کو حیرت سے سنا اور کہا: یہ رسم گرچہ نہایت ہی شریفانہ اور سپہ گرانہ ہے مگر خطرے سے خالی نہیں ۔
طرخون: ''بے شک اس میں خطرہ ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصلی دلہا اپنی دلہن کے وصال سے محروم رہ جاتا ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان نشیب و فراز زمانہ کی سختیاں جھیلنے، ایسی مصیبتوں کے برداشت کرنے اور اس قسم کے امتحانوں میں استقلال دکھانے کے عادی رہیں ''۔
موسیٰ: ''تو کیا ہر شخص کو اس میں شریک ہونے کا اختیار ہے اور جو چاہے مسلح ہوکے دعویٰ رقابت کر دے؟''
طرخون: ''ہر شخص شریک ہو سکتا ہے اور اگر کامیاب ہو جائے تو ہم اس کی قدر کرتے اور اس کی بہادری کے معترف ہوتے ہیں ''۔
موسیٰ: (مسکرا کے) اگر آپ کے فرزند کا معاملہ نہ ہوتا تو اس مقابلے میں مَیں بھی شریک ہوتا''۔
طرخون: ''آپ کا جی چاہتا ہو تو ارسلان کے رقیبوں میں شریک ہو جائیں ۔ اس میں ہمارے اکثر دوستوں اور معزز خیر اندیشوں کے لڑکے شریک ہیں ہم ان کی شرکت سے خوش ہیں ۔ ہماری قوم بہادر ہے اور ایسی بہادری کے معاملوں میں ناانصافی نہیں کرتی''۔ موسٰی: ''مگر مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی ایسا کام کروں جس میں ذرا بھی آپ کی یا آپ کے صاحبزادے کی دل شکنی کا اندیشہ ہو''۔
طرخون: ''ہماری دل شکنی نہیں ہو سکتی اگر آپ مقابلے میں جیت گئے تو سمجھیں گے کہ کاشغر کی شہزادی آپ کی قسمت میں لکھی تھی۔ ارسلان کو کوئی اور دلہن مل جائے گی اور جو ملے گی اس کو وہ یونہی ہتھیلی پر سر رکھ کے حاصل کر سکے گا''۔
بہرام: (جو بادشاہ کے قریب ہی کھڑا تھا) ''اور اکیلے آپ کے نہ ہونے سے کیا ہو گا یہ جتنے نوجوان رقیب بن کے میدان میں نکلنے والے ہیں ان سب سے یہی اندیشہ ہے کہ ان میں سے جو غالب آگیا شہزادی کاشغر کا مالک ہو گا اور شہزادہ ارسلان منہ دیکھ کے رہ جائیں گے''۔
طرخون: ''بیشک مجھے آپ کے نہ شریک ہونے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نہ کسی اور کے جیت جانے پر مجھے ملال کرنے کی کوئی وجہ ہے۔ آپ کا جی چاہتا ہو تو ضرور شریک ہوں ''۔
موسیٰ: ''میرا دل بے شک چاہتا ہے اور اگر آپ سچے دل سے یہ کہتے ہیں کہ میرے غالب آنے سے آپ کو ملال نہ ہو گا تو میں بڑے شوق سے ان رقیبوں کے گروہ میں شریک ہونے کو تیار ہوں ''۔
طرخون: ''آپ کی آمادگی سے میں خوش ہوا اور میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ میرے بیٹے کے رقیبوں میں ایک نامور اور بہادر عرب نوجوان بھی تھا تو جایئے زرہ بکتر اور اسلحہ جنگ سے آراستہ ہو کر آیئے''۔
موسیٰ: ''بہت اچھا" کہہ کے جانے کو تھا کہ طرخون نے ارسلان اور اپنے کاشغری سمدھی کو بلا کے اس سے ملا دیا اور بآواز بلند کہا۔ ''بڑی خوشی کی بات ہے کہ رقیبوں کے گروہ میں بہادر نوجوان عرب موسیٰ بھی شریک ہوں گے''۔ سب نے اس پر ایک خوشی کا نعرہ بلند کیا اور موسیٰ نے اپنے پڑاؤ میں جا کے لباس جنگ پہنا، ہتھیار نکالے اور اپنے برق رفتار عربی گھوڑے جوالہ پر سوار ہو کر واپس آگیا''۔
تمام لوگ جمع ہو چکے تھے۔ طرخون اور اس کا سمدھی شاہ کاشغر اپنے گھوڑوں پر سوار پہلو بہ پہلو کھڑے تھے۔ انہی کے قریب سارے غریب الوطن عربوں کا مجمع تھا۔ اتنے میں حسب دستور قدیم سب نوجوانوں نے قریب آ کے دونوں بادشاہوں کو سلام کیا۔ شہزادی پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی اور ادب سے رخصت ہوکے بیچ میدان میں جا کھڑے ہوئے۔ شہزادی نوشین میں اور ان میں تقریباً پانچ سو گز کا فاصلہ تھا اور وہ اپنی چار سہیلیوں کے ساتھ جو گھوڑوں پر سوار اس کے ہمراہ تھیں خوف اور گھبراہٹ کی نگاہوں سے ان سب کو دیکھ رہی تھیں کہ یکایک ان سب نے اس کی طرف گھوڑوں کی باگیں اُٹھا دیں اور وہ بھی اپنے صبا رفتار گھوڑے کو ایڑ لگا کے بھاگی۔ بڑی دیر تک تعاقب ہوتا رہا۔ شہزادی بجائے اور کسی طرف بھاگنے کے اسی میدان میں چکر کاٹ رہی تھی اور حملہ اور نوجوانوں کا غول اس کے پیچھے تھا مگر شہزادی کا گھوڑا اس قدر تیز تھا کہ دونوں کی مسافت بجائے کم ہونے کے بڑھتی جاتی تھی۔ موسیٰ نے ابھی تک کوئی خاص کوشش نہیں کی تھی وہ ہمراہی رقیبوں کی کارروائیوں کو دیکھتا اور ان کے ساتھ جا رہا تھا۔ ابھی تک اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی کہ وہ کسی پر حملہ یا اپنے رقیبوں سے علیحدہ ہوکے شہزادی نوشین کی طرف بڑھتا اور اس کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا۔ ناگہاں ہمراہیوں میں سے ایک نے بے وجہ اس پر تلوار کا وار کیا جو شانے پر پڑا مگر اس کے فوراً چونک کر ہٹنے سے وار خالی گیا۔ ساتھ ہی طیش میں آ کے اس نے اس نوجوان حریف پر جو ایک ہاتھ مارا تو تلوار شانے سے جگر تک کاٹ گئی اور وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ اپنے ایک ساتھی کو گرتے دیکھ کے اوروں نے ارادہ کیا کہ اس پر جھپٹیں مگر اس نے ان کے تیور پہچان کے گھوڑے کو اس زور سے ایڑ بتائی کہ عربی گھوڑا کود کے بھاگا اور کوئی اس کی گرد کو نہ پاسکا۔ اب موسیٰ حریفوں کے غول سے الگ ہو کر پلٹ پڑا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ بجائے شہزادی کے پیچھے ہونے کے اس کے سامنے نمودار ہوا۔ حریف جو ابھی تک شہزادی کے تعاقب ہی میں چلے آتے تھے یہ دیکھ کے کہ موسیٰ دوسری طرف سے مہ جبیں نوشین تک پہنچنا چاہتا ہے۔ گھبرا کے اپنے گھوڑوں کو چابکیں مارنے لگے کہ قریب پہنچیں ۔ اُدھر شہزادی نے جو دیکھا کہ میں دونوں طرف سے گھری ہوئی ہوں ، بیچ سے کٹ کے گھوڑے کو بڑے زور سے دوسری طرف بھگایا اور اس کا گھوڑا اس قدر تیز تھا کہ سہیلیاں پیچھے رہ گئیں اور ارسلان اور دوسرے رقیبوں سے بھی زیادہ فاصلہ ہو گیا مگر موسیٰ کے گھوڑے جوالہ کی گرد کو ترکستان کا کوئی گھوڑا نہیں پاسکتا تھا۔ اس نے اسے للکار کے جو شہزادی کے پیچھے ڈالا تو دم بھر میں پاس تھا۔ نوشین نے بے بسی کے معشوقانہ ڈھیلے ہاتھوں کی طرح تلواریں مارنا شروع کیں کمزور ہاتھ کے وار ایک نامور سورما پر کیا اثر کرتے؟ موسیٰ نے اپنی تلوار سے اس کی تلوار پر ایک ایسا وار کیا کہ تلوار نازک انگلیوں سے چھوٹ کر دُور جا پڑی اور ایک جھپٹ میں اس نے بڑھ کر شہزادی کو پکڑ لیا اور کھینچ کے اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ تلوار کے اشارے سے اپنے حریفوں کو آگاہ کیا کہ ''اب خبردار قدم نہ بڑھانا، امتحان رقابت کا فیصلہ ہو چکا۔ شہزادی میری ہو چکی اور اب اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا''۔ مگر کون سنتا تھا سب اس فکر میں تھے کہ اگر مقابلے میں ہار گئے تو عربی حریف کو یہیں گھیر کے قتل کر ڈالیں اور میدان سے زندہ واپس نہ جانے دیں ۔ موسیٰ: ''تو معلوم ہوتا ہے کہ تم سب مجھ سے لڑنا چاہتے ہو۔ میں اس کے لیے بھی تیار ہوں مگر شہزادی کو کسی حفاظت کی جگہ پہنچا دوں تو مقابلہ کروں ''۔ یہ کہتے ہی اس نے جوالہ کو پھر للکارا جو ایک تیر کی طرح اُڑتا ہوا سیدھا اس طرف چلا جدھر دونوں ترکی بادشاہ بیٹھے اس مقابلہ کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ حریفوں نے اس کا تعاقب کیا جن کی طرف اس نے پلٹ کے دیکھا اور ہنس کے کہا: ''تم لاکھ کوڑے مارو تمہارے گھوڑے جوالہ کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے''۔ اور یہی ہوا۔ وہ سب پیچھے رہ گئے اور موسیٰ طرخون کے قریب جا پہنچا اور اپنے عرب رفیقوں سے کہا: ''شہزادی کو لے جا کر خیمے میں لٹاؤ اور ہوش میں لاؤ لڑائی کی ہیبت سے بیہوش ہو گئی ہے''۔ فوراً قدامہ بڑھ کے قریب آیا۔ فتح پر مبارک باد دی پھر شہزادی کو اس کے گھوڑے سے اٹھا کے اپنے گھوڑے پر لیا اور قیام گاہ کی راہ لی۔
اس کے بعد موسیٰ نے طرخون سے کہا: ''میں آپ کے کہنے سے رقیبوں میں شامل ہوا اور خدا نے ایسا کامیاب کیا کہ کسی کو میری جیت میں شبہ کرنے کی بھی جرأت نہیں ہو سکتی مگر آپ کے فرزند اور دیگر مقابلہ کرنے والے رقیب مجھ سے لڑنا چاہتے ہیں ۔ میں اس کے لیے بھی تیار ہوں مگر آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ آپ کی رسم اور آپ کے فرمانے کے مطابق اب کسی کو مجھ سے لڑنے کا حق باقی نہیں رہا ہے''۔ طرخون: ''بے شک تم جیتے''۔ موسیٰ: ''تو یا مجھے اجازت دیجیے کہ ان لوگوں سے مقابلہ کر کے اپنی جوانمردی دکھاؤں یا ان سب کو سمجھایئے کہ اس لعبتِ چین کو تو ہاتھ سے کھو چکے اب اپنی زندگی سے بھی ہاتھ نہ دھوئیں ۔ مجھے سب سے زیادہ پاس و لحاظ آپ کے صاحبزادے شہزادہ ارسلان کا ہے''۔
طرخون کواس واقعہ کا بے حد صدمہ ہوا۔ جی چاہتا تھا کہ موسیٰ کو زندہ چبا جائے مگر زور نہ چلتا تھا۔ دل میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ اب اگر رقیبوں میں لڑائی ہوئی تو ارسلان کی جان کی خیر نہیں ۔ سب کو جو قریب آ چکے تھے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور کہا: ''بس اب رک جاؤ، رسم نکاح کا تصفیہ ہو گیا اور شہزادی نوشین جس کی دلہن ہونے والی تھی ہو گئی۔ اب لڑنے سے کیا فائدہ؟ اگرچہ مجھے حد درجہ کا ملال ہے مگر اپنے ذاتی جوش سے قوم مغل کی آزادی اور ترک و تاجیک کی انصاف پسندی کو نہیں چھوڑ سکتا''۔
ارسلان: ''ابا جان! یہ عرب اپنی ذاتی بہادری سے نہیں بلکہ اپنے گھوڑے کی وجہ سے کامیاب ہو گیا ورنہ کس کی مجال تھی کہ شہزادی کو اس کے گھوڑے پر سے اُٹھا لے جاتا؟ میں جب تک خود مقابلہ نہ کروں گا چین نہ لوں گا۔
طرخون: ''اب یہ بے کار ہے سمجھ کہ نوشین تمہاری قسمت میں نہ تھی اور اپنے لیے اور دلہن ڈھونڈو''۔
ارسلان: ''آہ! یہ ناممکن ہے جس دل میں نوشین نے جگہ کر لی اس میں کسی اور لڑکی کو ہرگز جگہ نہیں مل سکتی۔ میں اسی کو لوں گا اور نہ ملی تو اپنی جان دے دوں گا، رقیب سے لڑوں گا۔ آپ نے نہ لڑنے دیا تو خود اپنے ہاتھ سے اپنا سینہ چاک کر ڈالوں گا اور یہ بھی نہ ہو سکا تو زہر کھا کے ہمیشہ کے لیے سوجاؤں گا''۔
طرخون: ''تمہارے دل میں بے شک ایسا ہی جوش ہو گا مگر اس وقت خاموش ہو رہو۔ بعد میں دیکھا جائے گا''۔ الغرض طرخون کے حکم سے ارسلان اور سب رقیب سردھنتے اور سینہ کوبی کرتے واپس گئے۔ تمام تماشائیوں نے جو اس واقعہ سے غمزدہ ہو رہے تھے کمال ناکامی و شکست دلی سے گھروں کی راہ لی۔ بادشاہ طرخون اور کاشغر کا بادشاہ بھی بادل صد چاک اپنی قسمت پر روتے اور آنسو بہاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو سدھارے اور موسیٰ نے بھی دونوں بادشاہوں سے رخصت ہوکے اپنے خیمہ کا رخ کیا۔
موسیٰ اپنے خیمے میں پہنچا تو شہزادی نوشین کو ہوش میں پایا مگر خائف و سہمگیں تھی۔ چہرے پر حسرت برس رہی تھی اور حیران تھی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیسے نباہ ہو گا جن کا نہ ایک لفظ میں سمجھتی ہوں نہ میرا کوئی لفظ وہ سمجھتے ہیں ۔ مالک بن عوف سلمی بار بار ترکی زبان میں اس کا مزاج پوچھتا اور اسے تسلی دیتا تھا مگر وہ وقف حیرت اور مبہوت تھی اور ایک حرف بھی زبان سے نہ نکالتی تھی۔ موسی نے کہا، فی الحال مہ جبین قتلق خاتم ان کے پاس بٹھا دی جائیں جو اب مجھ سے مانوس ہو چکی ہیں ۔ بعض عربی الفاظ بھی سمجھ لیتی ہیں وہ ان کی دلدہی اور تسلی و تشفی کریں گی اور ان کو ہم لوگوں سے کچھ نہ کچھ مانوس ضرور کریں گی''۔ یہ کہتے ہی موسیٰ نے قتلق خانم کو بلا کر نوشین کے پاس بٹھا دیا اور سب لوگوں کو لے کر خیمے سے نکل آیا کہ تنہائی میں دونوں کھل کے بات چیت کر سکیں ۔
باہر نکلا تھا کہ ایک سپاہی نے لا کے شاہ طرخون کا خط دیا۔ اسے کھول کر دیکھا تو عربی دان منشی سے لکھوایا گیا تھا اور عربی میں تھا۔ پڑھا تو مضمون یہ تھا کہ ''آپ کی بہادری میں شک نہیں آپ بہادر بھی ہیں اور خوش نصیب بھی۔ مگر آپ کی خوش نصیبی و شجاعت نے اہل سمرقند کو اس قدر صدمہ پہنچایا جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے محض اس خیال سے کہ سلطنت عرب سے دوستانہ تعلقات پیدا ہوں آپ کو یہاں رکھ لیا تھا اور آپ کے ہم قوم و ہم مذہب دشمنوں سے آپ کو امان دی تھی مگر آپ نے یہاں آتے ہی عین نوروز کے دن ہمارے سب سے بڑے بہادر شہسوار اور ہردلعزیز سردار نوشگیں کو قتل کر ڈالا اور ایسے عنوان سے کہ کسی کو سوا دل میں بغض رکھنے کے زبان سے کچھ کہتے نہیں بن پڑتا۔ جس کا دوسرا ناگوار یہ اثر ہوا کہ سمرقند کے رئیس اعظم بہرام کی بیٹی قتلق خانم آپ کی لونڈی ہو گئی۔ اس کے غم میں اس کا باپ خون کے آنسو بہا رہا ہے اور اُف نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد آج کا واقعہ پیش آیا جس میں پہلے آپ نے ایک نوجوان مار ڈالا اور اس کے بعد میرے بیٹے کی معشوقہ اور اس کی منگیتر دلہن کو اڑا لے گئے۔ مجھے اس پر اعتراض کرنے یا اس کی شکایت کرنے کا حق نہیں اس لیے کہ میں نے ہی آپ کو رقیبوں میں شریک ہونے کا مشورہ دیا تھا اور اطمینان دلایا تھا کہ اگر آپ جیت گئے تو مجھے ملال نہ ہو گا مگر اس وقت میرا ہرگز یہ خیال نہ تھا کہ اس مقابلے میں آپ غالب آئیں گے اس کا انجام یہ ہوا کہ شاہِ کاشغر اور میرے تعلقات نازک ہو گئے جو اپنی بیٹی کے غم میں خون کے آنسو رو رہا ہے اور اس کے پڑاؤ میں کہرام مچا ہوا ہے۔ میرا بیٹا آپ کی جان لینے اور اپنی دینے کو تیار ہے اور ہزار سمجھاتا ہوں اپنے اس ارادے سے باز نہیں آتا۔ اسی واقعہ کے سبب سے سمرقند کا ہر شخص آپ کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے۔ ان تمام کا نتیجہ یہ ہے کہ اب آپ کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے لہٰذا میں نے جو آپ سے اپنے یہاں امان دبیے کا وعدہ کیا تھا اسے واپس لیتا ہوں اور آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آج ہی رات کو میرا شہر خالی کر کے چلے جایئے اور صبح سے پہلے قلمرو سے باہر ہو جائیے ورنہ آپ کو یہاں کے لوگوں سے ضرر پہنچ جائے گا اور اس کے انجام میں میرے اور سلطنت اسلام کے والی خراسان کے تعلقات خراب ہوں گے''۔
یہ خط پڑھ کے موسٰی نے کہا: ''طرخون کے شریف النفس ہونے میں شک نہیں اور جو مجبوریاں وہ ظاہر کر رہا ہے حق بجانب ہیں لیکن وہ جانتا ہے کہ میں نے ایسا قصور نہیں کیا جس پر کوئی مجھے الزام دے سکے۔ بہرحال اب یہاں سے جانا ہی مناسب ہے''۔ فوراً کوچ کا حکم دے دیا۔ خیمے ڈیرے اُکھڑنے اور خچروں پر لدنے لگے۔ تمام ہمراہیوں نے جن کی تعداد چار سو بہادرانِ عرب سے زیادہ تھی جھٹ پٹ سفر کا سامان کیا اور آدھی رات سے پہلے مع دونوں عورتوں قتلق اور لعبتِ چین نوشین کے چل کھڑے ہوئے اور صبح کو اہل سمرقند نے دیکھا عربوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
موسیٰ سمرقند سے چلا تو جنوب کا راستہ اختیار کیا اس لیے کہ شمال میں دریائے زرافشاں سے اُترنا پڑتا جس کا انتظام دشوار تھا۔ دوسرے بالکل ناآشنا تاتاری قومیں آباد تھیں جن تک عربوں کا بالکل اثر نہیں پہنچتا تھا۔ برابر تین دن سفر کر کے چوتھے دن وہ قتیلہ نام کے ایک شہر میں پہنچا اور چاہا کہ وہاں کے حاکم سے دوستی پیدا کر کے ٹھہرے مگر اس نے ٹھہرنے نہ دیا۔ مجبوراً اس شہر کو بھی چھوڑا اور دو اور منزلیں طے کر کے شہر سبز میں پہنچا۔ یہ ایسا سرسبز و شاداب مقام تھا اور اس کے گرد کے مرغزار ایسے زندگی بخش تھے کہ ارادہ کیا کہ یہیں ٹھہر جائے مگر وہاں والوں نے بے مروتی کی۔ اگرچہ جی چاہتا تھا کہ یہاں زبردستی سکونت اختیار کر لے مگر دشمنوں سے بچنے کے لیے نہ کوئی قلعہ تھا اور نہ کوئی پناہ کی جگہ تھی۔ دل میں خیال کیا کہ غریب الوطنوں کو ایسی بے پناہ جگہ قرار نہ لینا چاہیے۔ شہر سبز کے مرغزاروں کو بھی حسرت کے ساتھ چھوڑا اور دو دن اور سفر کر کے شہر کش میں پہنچا جس کے قلعے کی تعریف سنی تھی۔ اس قلعے کو دیکھ کے خوش ہو گیا اور اپنے ہمراہی دوستوں سے کہا: ''یہ البتہ اطمینان سے بیٹھنے کی جگہ تھی مگر افسوس یہ لوگ بھی ہمارے ٹھہرنے کے روادار نہ ہوں گے مگر دیکھوں تو یہاں کا حاکم کیا کہتا ہے''۔ فوراً مالک بن عوف سلمی کو ایلچی بنا کے حاکم کش کے پاس بھیجا اور عاجزی کے لہجہ میں درخواست کی کہ ''ہم تھوڑے سے غریب الوطنان عرب ہیں آپ کے مہمان ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے شہر اور اپنے قلعہ میں پناہ دیں ''۔ جواب ملا کہ ''نہیں ، ہم تم لوگوں کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دے سکتے''۔ اس سخت بے حمیتی کے جواب پر موسیٰ کو غصہ آگیا۔ وہیں کے ایک دہقانی شخص کی معرفت کہلا بھیجا: ''تم اگر خوشی سے اجازت نہیں دیتے تو ہم زبردستی تمہارے شہر پر قبضے کیے لیتے ہیں ''۔ اس آدمی کو بھیجتے ہی موسیٰ کا چھوٹا سا لشکر معرکہ آرائی کے لیے تیار ہو گیا اور شہر کش کی طرف بڑھا۔ حاکم اپنی فوج کے ساتھ مقابلہ کو آیا اور لڑائی شروع ہو گئی مگر جانباز عربوں نے تھوڑی ہی دیر میں ایسی شجاعت ظاہر کی کہ حامیانِ شہر شکست کھا کے بھاگے اور عربوں نے بڑھ کے سارے شہر پر قبضہ کر لیا۔ فرمان روائے کش اپنے مفرور سپاہیوں کے ساتھ قلعے میں چھپ کے بیٹھ رہا اور پھاٹک مضبوطی سے بند کر لیے۔ ساتھ ہی ایک آدمی حاکم کش نے شاہ طرخون کے پاس دوڑایا کہ عربوں نے میرے شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ نے مدد نہ کی تو مہینہ پورا ہونے سے پہلے قلعے کے بھی مالک ہو جائیں گے''۔
طرخون کو خبر پہنچی تو فوراً کمک بھیجنے پر آمادہ ہو گیا اور اپنے بیٹے ارسلان کو بلا کے کہا: ''تم کو تلاش تھی کہ موسیٰ تمہاری معشوقہ کو لے کے کہاں گیا۔ مجھے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہی یہاں سے بھاگ کے شہر کش میں پہنچا ہے۔ حاکم شہر نے مزاحمت کی تو مقابلہ کر کے شہر چھین لیا۔ اب کش کا سردار اپنے قلعہ میں بند پڑا ہے اور عرب اس کے شہر پر قابض اور قلعہ کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں اگر لعبت چین نوشین کا سچا عشق ہے تو فوج لے کے جاؤ۔ موسیٰ کو قتل کرو اور اپنی محبوبہ کو اس کے پنجہ سے چھڑا کے اپنے محل میں لے آؤ۔ اس سے بہتر کوئی موقعہ نہیں ہو سکتا اور سورج دیوتا کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہارے لیے کامیابی کا ایسا اچھا موقع پیدا کر دیا''۔
ارسلان: ''میں اسی وقت روانہ ہو جاؤں گا اور ان سب نوجوانوں کو بھی لیتا جاؤں گا جو سپہ گرانہ مقابلہ شادی میں میرے رقیب تھے۔ وہ سب اس سے خار کھائے ہوئے ہیں ''۔
طرخون: ''انہی پر موقوف نہیں ، سمرقند کا ہر متنفس اس کے خون کا پیاسا ہے۔ اگر تم نے دنیا کو اس کے شر سے نجات دلا دی تو فقط اپنی آرزو نہ پوری کرو گے بلکہ کش اور حاکمِ کش کو تباہی و بربادی سے بچاؤ گے۔ سارے ترکستان کو عربوں کی دستبرد سے آزاد کر دو گے اور اپنے وطن کے تمام لوگوں کے دل ٹھنڈے کرو گے۔ بس اب زیادہ کہنے سننے اور دیر لگانے کی ضرورت نہیں ۔ موسیٰ کے ہمراہی میرے اندازے میں پانچ سو کے اندر ہی ہوں گے تم دو ہزار بہادر تورانیوں کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کرو اور مسلح ہو کے روانہ ہو جاؤ''۔
باپ کا کہنا تو تھا ہی، ارسلان نے ذاتی جوش سے ایک ہی دن میں لشکر مرتب کر لیا۔ ترکی برقیں اڑاتا ہوا کش کی طرف چلا اور روانہ ہونے سے چھٹے دن شہر کش کے سواد میں تھا۔ موسیٰ کے پاس پانچ سو کے علاوہ کچھ اور مسلمانوں کے آ جانے سے پورے سات سو کی جمعیت تھی۔ دشمن کی قوت اگرچہ بہت زیادہ تھی اور ان کے برتے پر حاکم کش بھی لڑنے کو تیار ہو گیا تھا۔ موسیٰ بھاگنا اور ہمت ہار دینا خلافِ مردانگی تصور کر کے لڑنے کو تیار ہو گیا۔ اپنے بہادروں کی صفیں مرتب کیں ، فوراً لڑائی شروع ہو گئی اور سخت خونریز معرکہ ہوا۔ تورانی اپنی قوت کے بھروسہ پر ہمت نہ ہارتے تھے اور عرب نام میں دھبہ لگنے کی دھن میں قدم نہ ہٹاتے تھے۔ پہر دن چڑھے لڑائی شروع ہوئی تھی۔ شام تک برابر کشت و خون ہوتا رہا۔ بہت سے مسلمان شہید ہوئے اور ان سے زیادہ نقصان دشمنوں کو پہنچا۔ غروبِ آفتاب کے بعد جب اندھیرا ہوا تو دونوں لشکر جدا ہوکے اپنے اپنے پڑاؤ میں آئے اور میدان خالی ہو گیا۔ اب موسیٰ نے دیکھا تو جتنے بہادر زندہ تھے ان میں بھی آدھے سے زیادہ زخموں سے چور تھے۔ دل میں خیال کیا کہ ان کو لڑاکے کامیاب ہونا غیر ممکن ہے۔ ارسلان فقط اہلِ کش کو بچانے نہیں آیا ہے بلکہ اپنا انتقام لینے اور شہزادی نوشین کو چھیننے آیا ہے۔ وہ بغیر شہزادی کو واپس لیے مانے گا نہیں اور میں اسے دے نہیں سکتا۔ آخر اس نے تجویز کی کہ انہیں زخمی بہادروں کو آمادہ کر کے رات کو دشمنوں پر شب خون مارنا چاہیے اور اسی شب خون میں ہم دشمنوں کو مارتے کاٹتے محاصرہ سے نکل جائیں اور کسی اور شہر میں جا کے قسمت آزمائی کریں ۔ یہ تجویز عرب سرداروں کے سامنے پیش کی گئی تو سب نے اسے پسند کیا اور اسی وقت کوچ کے عنوان سے شب خون کی تیاریاں ہونے لگیں ۔ خیمے ڈیرے خچروں پر لادے گئے۔ عورتیں محملوں میں بٹھائی گئیں اور تین پہر رات گئے سب چل کھڑے ہوئے۔ دشمنوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دن بھر کے تھکے ماندے اور خستہ و زخمی عرب شب خون کی جرأت کر سکیں گے۔ اکثر غافل پڑے سو رہے تھے کہ عربی لشکر ایک طوفان بلا کی شان سے ان کے سروں پر نازل ہو گیا اور تلواریں بھی بجلی کا کام کرنے لگیں ۔ تورانی گھبرا گھبرا کر اُٹھے اور دشمنوں کے بجائے آپس میں دست و گریباں ہونے لگی۔ اس شب خون کی غرض دشمنوں کو ہلاک کرنا نہ تھی بلکہ اصلی مقصود اپنی جان بچانا اور دشمنوں کے نرغے سے نکل جانا تھا۔ اس میں موسیٰ کو پوری کامیابی ہو گئی وہ مع اپنی فوج اور اپنے سامان کے دشمنوں کو روندتا اور پامال کرتا ہوا نکل گیا اور ترک اس کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک آپس میں لڑتے اور خونریزی کرتے رہے۔
موسیٰ اس عذاب سے چھوٹ کے مشرق کی طرف بھاگا۔ راتوں رات بیس کوس نکل گیا اور دریائے جیحون کے چڑھاؤ پر اس کے کنارے کنارے بڑی دُور تک چلا گیا۔ دوسرے دن دوپہر کے قریب ایک ایسے خطہ جنت نظیر میں پہنچا کہ وہاں کی تر و تازہ ہوا سے تھکے ماندے بھوکے پیاسے اور خستہ و زخمی عربوں کی جان میں جان آ گئی۔ یہ ایک گھاٹی تھی جس میں سے ایک چھوٹی ندی اُوپر سے گرتی اور سرسبز پہاڑوں سے ٹکراتی ہوئی آ کے دریائے جیحون میں مل گئی تھی اور انسان کا کہیں پتا نہ ہونے سے یقین تھا کہ یہاں سے قریب کوئی آبادی نہیں ہے۔ سب نے یہیں کمر کھول دی اور پہاڑ کی بھول بھلیوں میں گھسے، خچروں ، گھوڑوں کو غاروں اور کھوہوں میں چھپا دیا اور گھاٹی کے اندر جا کے بڑی بڑی چٹانوں کی آڑ میں ٹھہر گئے تاکہ اگر ارسلان تعاقب میں آتا ہو تو یہاں پہنچنے پر بھی پتا نہ پاسکے۔ سوارانِ عرب نے چقماق سے آگ نکال کے جا بجا لکڑیاں جلائیں ۔ خرگوشوں اور طیوروں کو نیزوں سے شکار کر کے بھوننا اور کھانا شروع کیا اور جب کھا پی کے فراغت پا چکے تو کوہستان کے کھوہوں ، غاروں اور چٹانوں کی آڑوں میں منظر عام سے بچ بچ کر لیٹ رہے اور سونے اور آرام لینے میں مصروف ہوئے۔ ترکی خاتونیں بھی ایک محفوظ مقام اور آڑ کی جگہ میں اُتار دی گئیں کہ آرام لے لیں لیکن موسیٰ اپنے چند نامور شہسواروں اور معزز سرداروں کے ساتھ ایک مسطح چٹان پر ندی کے کنارے بیٹھ کے غور کرنے لگا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کہاں جانا چاہیے۔ اس کی باتوں اور صورت سے نہایت پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ اتنے میں ثابت بن قحطیہ آگیا جو اسی ہفتہ میں اپنے پچاس عرب رفیقوں کے ساتھ آ کے اس کے گروہ میں شامل ہو گیا تھا۔ یہ شخص ایک تاجرانہ قافلہ لے کے بلخ میں آیا تھا کہ یہاں کے خطائی تاجروں سے مشک نافے خرید کے دمشق میں لے جائے۔ جب اس نے موسیٰ کا حال سنا تو وہ بھی اس سے آن ملا اور اس کے لشکر میں شریک ہو گیا۔ اس وقت تک اسے موسیٰ سے بہ اطمینان ملنے کا موقع نہیں ملا تھا اس لیے کہ موسیٰ جب تک کش میں تھا اس کو یا تو انتظامات جنگ میں پایا اور جب کبھی لڑائی سے فرصت ہوئی تو وہ تورانی دلبراؤں نوشین و قتلق کے پاس جا کے بیٹھتا۔ اس وقت اسے فارغ دیکھ کے ثابت اس کے پاس آیا اور السلام علیک یا امیر کہہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ موسیٰ نے اس کا مزاج پوچھا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ آپ تو غالباً اس سرزمین سے زیادہ واقف ہوں گے۔ بتایئے اب ہم کہاں جائیں ؟''
ثابت: ''میں تو بلخ میں بغرض تجارت آیا تھا۔ فرض جہاد ادا کرنے کے شوق میں آپ کے پاس حاضر ہو گیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ آپ بلخ میں چلیں وہاں کا امیر عرب سردار عمقمہ ہے۔ آپ کو ہاتھوں ہاتھ لے گا اور آپ کی قدر کرے گا۔ چند روز وہاں قیام کر کے مہ جبینوں کو وہاں امن و امان میں چھوڑ کے پھر جہاد کے لیے یہاں چلے آیئے گا''۔
قدامہ: ''(تعجب کے لہجہ میں ) بلخ تو جیحون کے اس پار ہے اور اس کے ادھر کا ملک خلافت اسلامیہ کے زیر نگیں ہے۔ وہاں ہم کو کیسے اطمینان نصیب ہو سکتا ہے؟ ''
ثابت: ''میں یہ نہیں سمجھا کہ آپ کو کفار کی سرزمین میں اطمینان اور قلمرو اسلام میں بے اطمینانی کیوں ہے؟''
موسیٰ: ''معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے حالات سے واقف نہیں ہیں ۔ ساری سرگزشت بیان کروں تو آپ کی سمجھ میں آئے کہ قلمرو اسلام میں مجھے کیوں اطمینان نہیں ہو سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فقط تاجر ہیں آپ کو دولت اسلام کی تمدنی حالت کی اطلاع نہیں ہے۔ خیر اب آپ نے پوچھا ہے تو سنیئے۔ میرے والد عبداللہ بن خازم والی خراسان ہیں جن کے حلقہ فرمان روائی میں سے ہو کے آپ یہاں آئے ہوں گے اور اگر انہیں دو سال کے اندر آئے ہوں گے تو انہیں بڑے سخت جھگڑوں اور ہنگاموں میں مبتلا اور ہر وقت لڑائی و فوج کشی میں مشغول پایا ہو گا''۔
ثابت: ''بیشک! ان دنوں وہ بنی تمیم کے استیصال کی فکر میں تھے''۔
موسیٰ: ''خیر تو اب تمام واقعات مجھ سے سن لیجیے تاکہ میرے معاملات میں آپ مشورہ دے سکیں ''۔
٦٤ھ میں جب خلیفہ یزید بن معاویہ مرگیا تو انتقام خون حسین علیہ السلام کا جوش جو پہلے تھوڑا بہت دبا ہوا تھا، یک بیک اُبھر پڑا۔ معاویہ بن یزید کو بنی اُمیہ نے شام میں جانشین کیا مگر وہ تین ہی مہینے کے اندر دنیا سے رخصت ہو گیا اور مرنے سے پہلے لوگوں سے کہہ گیا کہ میں اس مظالم سے بھری ہوئی خلافت سے زندگی ہی میں دست بردار ہوکے تم کو وصیت کرتا ہوں کہ حسب سنت خلفائے راشدین میں جس کسی کو مناسب جانو اور اچھا سمجھو خلیفہ منتخب کر لو۔ میں اس کا وبال اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔ اس کے مرتے ہی مکہ معظمہ میں عبداللہ بن زبیر اور شام میں مروان بن حکم نے وارث سریر خلافت بن کے اناولا غیری کا دعویٰ کیا۔
یزید کے آخر عہد میں خراسان کا والی زیاد کا بیٹا سلم تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ بنی اُمیہ کی قوت فنا ہوا چاہتی ہے تو وہ مروان اور ابن زبیر دونوں سے علیحدہ ہوکے اس بات پر لوگوں سے بیعت لینے لگا کہ خلافت کا جس کے حق میں تصفیہ ہو جائے گا اس کی اطاعت کی جائے گی مگر دو ہی مہینہ بعد لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے توڑ دی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ان دونوں نزری اور یمانی قبائل عرب میں سخت تعصب ہے اور باہم حد سے زیادہ عداوت ہو رہی ہے۔ سلم شہر سرخس میں گیا تو بعض نزاری سردارانِ عرب نے اس سے کہا: خلافت تو قریش کا حق ہے تمہیں کوئی نزاری یا کوئی قریش نژاد نہ ملتا تھا جو یمانیوں میں سے آل قیس بن ربیعہ بن بکر کے ایک شخص کو حاکم بنا لیا؟ اس کے بعد جب نیشاپور میں آیا تو میرے والد عبداللہ بن خازم نے بھی جو خاص نزاری الاصل ہیں یہی مشورہ دیا۔ سلم نے کہا: ''اچھا حکومت خراسان میں آپ ہی کو دیئے دیتا ہوں ۔ آپ تمام شہروں میں اپنی مرضی کے حاکم مقرر کر دیجیے؟ یہ کہہ کے اس نے والد کے نام حکومت خراسان کی سند لکھ دی۔ انتظام کرنے کے لیے ان کو ایک لاکھ درہم دیئے اور والد یوں حق حکومت خراسان حاصل کر کے مرو کی طرف چلے کہ مہلب کو زیر کریں ''۔ مہلب وہیں تھا، یہ خبر پہنچی تو اپنی جان بچانے کے لیے ایک تمیمی الاصل شخص کو اپنا نائب بنا کر مرو میں چھوڑا اور خود عراق میں واپس چلا گیا تاکہ خراسان و توران کے جھگڑوں سے الگ رہے۔ والد مرو پہنچے تو مہلب کے تمیمی نائب نے مقابلہ کیا۔ لڑائی ہوئی تمیمی منجیق کے ایک پتھر سے چوٹ کھا کے مرگیا اور والد فتحیاب ہوکے مرو میں داخل ہوئے۔
اس کے بعد والد نے مرو رود میں جا کے سلیمان بن مرثد کو اور جبال طالقان میں گھس کے اس کے بھائی عمرو بن مرثد کو قتل کیا اور ملک کو اپنے قبضہ میں کر لیا مگر چونکہ یہ سب لوگ ازدی الاصل یعنی یمانی تھے۔ سارے یمانی عربوں میں جو خراسان کے شہروں میں پھیلے ہوئے تھے شورش پیدا ہو گئی اور ان میں سے جو جہاں تھا لڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ وہ لوگ سب طرف سے سمٹ کے ہرات میں چلے گئے اور اپنے ایک بہادر شہسوار اوس بن ثعلبہ کو اپنا سردار بنایا۔ اوس لڑائی سے بھاگتا تھا مگر سب نے مجبور کر کے اسے کھڑا کیا اور آمادہ ہوئے کہ پوری قوت کے ساتھ والد سے مقابلہ کریں اور تمام مفری و نژاری یعنی قریشی اور ان کے ہم نسب قبائل کو خراسان سے نکال کے سارا ملک اپنا کر لیں ۔
والد کو خبر پہنچی تو زبردست لشکر کے ساتھ اس فتنہ کے فرو کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ شہر ہرات کے قریب دریائے سبزوار کے کنارے لڑائی ہوئی۔ پہلے تو ان لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ شہر ہرات کے اندر قلعہ بند ہوکے مقابلہ کریں مگر بعد اس کے دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالا اور گرد خندق کھودی۔ اس معرکہ میں دونوں طرف کے لوگ ایسے ثبات و استقلال سے جم کر لڑے کہ مدت تک لڑائیاں ہوتی رہیں اور کوئی فیصلہ نہ دے سکا۔ والد کے ہمراہیوں میں ہلال ضبی ایک صلح کل سردار تھے۔ انہوں نے جو دیکھا کہ ایک ہی مذہب ایک ہی زبان، ایک ہی قوم اور ایک ہی ملک کے لوگ آپس میں لڑتے مرتے ہیں تو دل بھر آیا اور والد سے کہا: ''اگر ہم آپ کامیاب بھی ہوئے تو اپنے ہم مذہب بہادران اسلام کے قتل و قمع کے بعد کیا خاک لطف اٹھائیں گے؟ اور جینے کا کیا مزہ ہو گا؟ ان لوگوں کی جو درخواست ہو، قبول کر لیجیے اور جھگڑا چکایئے؟'' والد، حریفوں کے مذاق و خیال سے صلاحیت کی امید رکھنا بے کار ہے بخدا یہ لوگ اس پر راضی نہ ہوں گے کہ ہم سارا خراسان چھوڑ کے چلے جائیں اور آپ کو صلح کی امید ہے تو میں آپ ہی پر فیصلہ چھوڑے دیتا ہوں ۔ جایئے اور ان لوگوں سے مناسب فیصلہ کر لیجیے۔ مجھے آپ پر پورا اعتماد ہے۔ وہ گئے، دشمنوں کے سردار ادس سے ملے۔ بنی نزار و بنی قحطان کی قرابت ہم مذہبی و ہم زبانی اور ہم مذاقی یاد دلائی اور صلح کے خواستگار ہوئے۔ اوس نے کہا: اس بارے میں آپ بنی صہیب سے مل کے گفتگو کریں ۔ یہ یمانیوں کا ایک غلام قبیلہ تھا اس لیے کہ اس کی نسل ان کے ایک غلام سے چلی تھی۔ ہلال کو اول تو اسی پر تعجب ہوا کہ ان لوگوں میں سب سے زیادہ پیش بنی صہیب ہیں مگر انہیں تو جس طرح بنے صلح منظور تھی ان لوگوں میں گئے۔ انہوں نے صورت دیکھتے ہی برافروختہ ہو کے کہا: ''تم قاصد نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہ واپس جاتے''۔ کہا خیر آپ لوگوں کی مہربانی مگر فرمایئے صلح کی بھی کوئی صورت ہے؟ جواب ملا: دو میں سے ایک بات یا تو سارے مضری و نزاری خراسان چھوڑ کے چلے جائیں یا ان کے اور ملک بھر کے کل اسلحہ جنگ، ساری زراعت، تمام سونا چاندی اور جو کچھ دولت ہو سب ہماری، تمہارا اس میں ایک حبہ بھی نہیں ۔ یہ جواب سن کر ہلال ضبی خاموش واپس چلے آئے اور والد سے سرگزشت بیان کی۔ انہوں نے کہا: میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا مگر آپ کو یقین نہ آیا۔ یہ یمانی لوگ خدا سے بھی ناراض ہیں کہ اس نے اپنے پیغمبر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضریوں میں کیوں پیدا کیا؟ یہ سب ہوا مگر لڑائی کا کسی طرح فیصلہ ہونے کو نہ آتا تھا۔ ایک دن والد نے ان سے پکار کر کہا کہ مرد ہو تو خندق کے باہر نکل کے مقابلہ کرو۔ کیا خراسان کا بس اتنا ہی قطعہ زمین جو خندق کے اندر ہے تمہیں پسند آیا ہے۔ اس عار دلانے پر وہ سب نکلنے پر آمادہ ہو گئے۔ ان کے سردار اوس نے ہزار روکا، نہ مانا اور نکل پڑے۔ ادھر والد نے اپنے بہادروں کو للکار دیا کہ بس آج ہی کا دن ہے، پھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آئے گا۔ تھوڑی دیر بڑی سخت لڑائی رہی اور سب کو عرصہ حشر یاد آگیا۔ آخر یمانیوں نے شکست کھائی۔ پہلے اپنی خندق تک ہٹتے چلے گئے اور جب آگے سے دباؤ پڑا اور پیچھے سے خندق نے راستہ روکا، بدحواس ہوکے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ بہت سے خندق میں گر کے مر گئے یا زخمی ہوئے۔ باقی جس طرح بنا بھاگے اور اسی بدحواسی میں والد کے سپاہیوں نے ہزاروں کو قتل کر ڈالا۔ چنانچہ اس معرکہ میں آٹھ ہزار یمانی مارے گئے۔ ان کا سردار سیتان کی طرف بھاگا اور وہاں پہنچ کے مر گیا۔ اس خونریزی کے بعد والد ہرات پر قابض ہوئے اور میرے بڑے بھائی محمد کو وہاں کا حاکم مقرر کر کے مرو میں واپس گئے اور بھائی کی ماتحتی میں شماس بن وتار عطاری کو ان کا مشیر و وزیر اور بکیر بن و شاح تقفی کو کوتوال مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا۔
ترکستان کی سرحد پر قلمرو خراسان کا ایک قلعہ تھا۔ قصر اسفاء اور بنی ارو کے یمانی لوگ اس کے حافظ و حاکم تھے جو وہیں رہتے تھے۔ والد کو ان جھگڑوں میں پھنسا ہوا دیکھ کے تورانیوں نے اس قلعہ پر حملہ کیا۔ وہ ازدی مسلمان قلعہ بند ہوکے بیٹھ رہے اور والی کے پاس آدمی بھیج کے کمک مانگی۔ انہوں نے زبیر بن خیان کو جوانانِ بنی تمیم کے ایک لشکر پر سردار مقرر کر کے ادھر روانہ کر دیا۔ زبیر نے اس قلعہ میں پہنچتے ہی ترکوں پر ایسا سخت حملہ کیا کہ وہ محاصرہ چھوڑ کے بھاگ کھڑے ہوئے اور زبیر کو ایسا جوش آیا کہ گو سخت جاڑوں کا موسم تھا اور برفباری ہو رہی تھی مگر وہ رات بھر ترکوں کے تعاقب میں گھوڑے کو بڑھائے چلا گیا اور صبح کو واپس آیا تو ہاتھ سردی سے اکڑ کے نیزے میں ایسا جم گیا کہ کسی طرح چھڑائے نہ چھوٹتا تھا۔ آخر آگ جلائی گئی۔ چربی پگھلا پگھلا کر ہاتھ پر بہائی اور ملی گئی تو پنجہ ڈھیلا پڑا اور نیزے سے علیحدہ ہوا۔
بنی تمیم سے اگرچہ اس موقع پر والد کو مدد ملی مگر اصل میں وہ لوگ بھی دل میں ان سے صاف نہ تھے۔ اس لیے کہ جس تمیمی سردار کو مہلب بن ابی صفرہ اپنا نائب بنا کے چھوڑ گیا تھا وہ والد کے مقابلہ میں مارا گیا۔ چنانچہ بعض موقعوں پر ان کے بعض لوگوں سے تمرد ظاہر ہوا اور اس کی انہیں سخت سزا دی گئی۔ اتفاق یہ کہ بھائی محمد کی والدہ بھی بنی تمیم میں سے تھیں اور تمیمی لوگ ان کو بھانجا بتاتے تھے۔ اس موقع پر والد نے ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا تو ان سب نے مل کے ہرات کی راہ لی کہ جا کے بھائی محمد سے فریاد کریں ۔ والد کو ان کا ارادہ معلوم ہو گیا تھا۔ بھائی کو نیز بکیرو شماس کو لکھ بھیجا کہ یہ لوگ ہرات میں آتے ہیں ۔ خبردار! انھیں شہر کے اندر داخل ہونے نہ دینا۔ تمیمی لوگ جب ہرات کے قریب پہنچے تو بھائی محمد شکار کے لیے باہر گئے تھے۔ انہیں خبر نہ ہوئی۔ شماس تمیموں سے مل گیا اور ان کو اندر بلا کے ٹھہرا لیا۔ بکیر کو اس سے اختلاف تھا لیکن جب وہ لوگ شہر کے اندر داخل ہو گئے تو اب کیا زور چل سکتا تھا، تاہم شماس کے پاس کہلا بھیجا کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا جو اِن لوگوں کو پناہ دے دی لیکن خیر اب یہ ہو ہی چکا ہے تو ایک کام کرو۔ میرے ٣٢ ہزار درہم تمہارے پاس جمع ہیں ان میں سے ایک ایک ہزار تمیمی شخص کو دے کے رخصت کرو ورنہ امیر محمد شکار سے واپس آ کے بہت ناراض ہوں گے۔ یہ تمیمی تیس آدمیوں سے زیادہ نہ تھے مگر شماس کے مل جانے سے ان کو تقویت ہو گئی اور جب ان کو معلوم ہوا کہ امیر محمد سے ہمدردی کی امید نہیں تو مع شماس کے شہر سے نکل کے چلے گئے کہ محمد کو شکارگاہ ہی میں گھیر لیں اور جو تمیمی والد کے ہاتھ سے مارے گئے تھے ان کا انتقام ان کے فرزند سے لیں ۔ چنانچہ سب نے جنگل میں جا کے بھائی محمد کو پکڑ لیا۔ ان کو رسیوں میں باندھ کر ایک طرف ڈال دیا اور اس کامیابی کی خوشی میں بیٹھ کے شراب پینے لگے۔ اس کے ساتھ یہ شرارت کی کہ جب کسی کو پیشاب لگتا تو آتش انتقام بجھانے کے لیے بھائی کے اُوپر پیشاب کرتا۔ شماس اگرچہ ان لوگوں کے ساتھ مل کے نمک حرام ہو گیا تھا مگر پھر بھی والد کا ساختہ و پرداختہ اور کل تک بھائی کا ماتحت تھا۔ ان لوگوں سے کہنے لگا: اس بیہودگی سے کیا حاصل؟ تمہارے دشمن کا بیٹا تمہارے ہاتھ آگیا اور اس پر اپنا بُغض نکالنا چاہتے ہو تو قتل کر ڈالو، یوں ذلیل کرنے سے تم کو کیا مل جائے گا۔ اس مشورہ کے مطابق سب اٹھے اور آمادہ ہو گئے کہ بھائی کو قتل کریں ۔ اس وقت حیان بن مشیحہ ضبی کو جو اِن لوگوں کے ساتھ تھا، ترس آیا اور ان کو اس ظلم سے روکا اور درمیان میں آگیا مگر کم بختوں نے اسے دھکیل کے الگ کیا اور بھائی محمد کا سر کاٹ لیا۔
ابا جان کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو دنیا ان کی نظر میں تیرہ و تاریک ہو گئی۔ فوراً ان لوگوں کو گھیر کر پکڑ لیا اور ایک ایک کو چن چن کے مارا۔ فقط حیان کو چھوڑ دیا جس نے انہیں قتل سے روکا تھا۔ باقی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ جن دو شخصوں نے بھائی محمد کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا تھا ان میں سے ایک کا نام ''عجلہ'' تھا۔ اسے دیکھ کے ان کی زبان سے نکلا۔ عجل عجلتہ لقومہ شراً، یعنی اپنی قوم میں شر پیدا کرنے میں عجلہ نے عجلت کی۔ دوسرے کا نام ''کسیب'' تھا اسے دیکھ کے بولے: بئیس ما اکتسب کسیب لقومتہ، یعنی کسیب نے اپنی قوم کے لیے بری چیز حاصل کی۔ ١؎
۔۔۔۔۔۔
١۔ ان دونوں جملوں کا خاص لطف یہ ہے کہ پہلے کا نام عجلہ تھا جس لفظ کے معنی جلدی کے ہیں اور دوسرے کا نام کسیب تھا جس کے معنی کھانے یا حاصل کرنے والا ہیں انہی ناموں کا لحاظ کر کے عبداللہ بن خازم نے یہ جملے کہے۔
۔۔۔۔
اس واقعہ کا انجام یہ ہوا کہ سارے بنی تمیم خراسان کے جن جن شہروں میں تھے بگڑ کھڑے ہوئے اور والد کے ساتھ دشمنی کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ ان کا ایک بڑا بھاری گروہ خاص مرو میں جمع ہو گیا جہاں والد کی طرف سے میں حکومت کر رہا تھا۔ میں نے یہ حال والد کو لکھا اور انہوں نے اس اندیشہ سے کہ ہمارا سارا خاندان اور مال و اسباب مرو میں جمع ہے، مجھے حکم دیا کہ سب کو اور تمام مال و اسباب لے کران کے پاس چلا آؤں ۔ میں نے فوراً اس حکم کی تعمیل کی۔ میرے آتے ہی بنو تمیم نے مل کر مرو میں جریش بن بلال قریشی کو اپنا سردار مقرر کر لیا اور ان کی عام رائے یہ قرار پائی کہ بڑھ کے والد سے مقابلہ کریں چنانچہ جریش نے بنو تمیم کی عظیم الشان قوت کے ساتھ آ کے والد کے ساتھ مقابلہ کیا۔ یہ لڑائی بھی ایک قیامت تھی جو مدت دراز تک جاری رہی میں بھی اس لڑائی میں والد کے ساتھ موجود تھا۔
ایک دن جریش نے میدان میں آ کے والد کو پکارا اور کہا، ابن خازم! لڑائی کو طول دینے اور مسلمانوں کے کٹوانے سے کیا فائدہ؟ مرد ہو تو میدان میں نکل آؤ۔ ہم تم آپس میں سمجھ لیں اور جو غالب آئے وہی دونوں لشکروں پر حکومت کرے اور ملک کا مالک ہو۔ والد اگرچہ جریش کے مقابلہ میں بہت ناتواں اور کمزور تھے مگر اس نے ایسی غیرت دلانے والی بات کہی تھی کہ والد نے جواب دیا۔ ''سچ کہتے ہو اور انصاف بھی یہی ہے۔'' اور فوراً اس کے مدمقابل ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ دونوں نے پہلے بڑی دیر تک فنون جنگ کے کمالات دکھائے۔ دیر تک کوئی حریف غالب نہ آ سکا لیکن آخر میں والد ہی چوکے، جریش نے جھکائی دے کر ان کے سر پر تلوار کا ایسا ہاتھ مارا کہ ان کی سموری ٹوپی آگے کھسک کے چہرہ اور آنکھوں پر آ گئی جس سے آنکھیں بند ہو گئیں اور جریش کو پورا موقع مل گیا کہ انہیں مار لے مگر تلوار مارنے کے ساتھ ہی اس کے گھوڑے کی رکاب ٹوٹ گئی اور اس سے اس کو ایسا جھٹکا پہنچا کہ تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر الگ جا پڑی۔ والد سے اور کچھ نہ بنا تو گھوڑے کی ایال پکڑ کر اس کی گردن میں لپٹ گئے۔ وہ انہیں اپنے خیمہ کی طرف لے کے بھاگا ان کی جان بچ گئی۔
دوسرے روز پھر میدان جنگ گرم ہوا مگر آج دونوں سرداروں میں سے کسی کو بھی میدان میں آنے اور حریف کو بلانے کی جرات نہ ہوئی۔ دونوں طرف کی فوجیں لڑتی رہیں مگر اب تمیمیوں کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی سمجھے کہ اب ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس مایوسی نے ان میں پھوٹ ڈال دی اور تین گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ نے نیشاپور کا راستہ لیا۔ جس کا افسر بحرین ورقا تھا۔ ایک گروہ اور طرف بھاگا اور ایک گروہ مرورود کی طرف چلا۔ جریش اسی میں تھا۔ والد نے اسی گروہ کا شہر ملحبہ تک تعاقب کیا۔ جریش کے ساتھ فقط بارہ آدمی تھے۔ یہ لوگ بھاگتے بھاگتے ایک جگہ پہنچے تھے کہ پلٹ کے دیکھا والد سر پر پہنچ گئے ہیں ۔ ٹھہرے، سنبھلے اور کٹنے مرنے کو تیار ہو گئے۔ ہمارے ایک غلام نے بڑھ کر جریش کے سر پر تلوار ماری جو اوچھی پڑی اور کارگر نہ ہوئی۔ جریش نے تلوار ہاتھ سے پھینک دی اور ہمراہیوں سے کہا۔ ''مجھے کوئی لکڑی اٹھا دو۔ میری اور اس کی تلوار کا مقابلہ نہیں ۔ '' کسی نے ایک لکڑی لا دی اور اسی سے اس نے ہمارے غلام کا کام تمام کر دیا۔ اب اس نے والد کے قریب آ کے کہا ''میں نے تمہارے لیے ملک تو خالی کر دیا۔ اب کیا چاہتے ہو۔ '' والد نے کہا ''تم پھر دعوے دار ہو گے اور دشمنی کرو گے۔ '' جواب دیا کہ ''نہیں ! اب یہ نہ ہو گا۔ '' یہ جواب سنتے ہی والد نے لڑائی روک دی اور صلح ہو گئی۔ والد نے اس کو چالیس ہزار درہم دیے۔ دوستی کا وعدہ لیا اور اس گھڑی سے دونوں دوست بن گئے۔
ایک دن والد اور جریش بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور میں بھی ادب سے سامنے بیٹھا تھا اثنائے گفتگو والد کے سر کے اس زخم پر سے جو جریش کی تلوار سے پہنچا تھا اور ابھی تک اچھا نہیں ہوا تھا۔ روئی کا پھایا گر گیا۔ جریش نے فورا ً جھک کر اٹھایا اور آہستہ سے اسے زخم پر چپکا دیا۔ والد نے مسکرا کے کہا ''معاف کیجیے گا۔ میری رکاب نہ ٹوٹ گئی ہوتی تو تلوار آپ کے بھیجے کے اندر تک تیر جاتی۔ ''
اب ٦٦ھ کے آخری ایام تھے اور والد نے ان دو تین برسوں میں بہت سے دشمنوں کو زیر کر لیا تھا۔ مگر مفرور تمیمی باقی تھے جن کو انہوں نے مقام قصر میں گھیر لیا۔ یہاں ان کے ستر اسی نامور بہادر جمع ہو گئے تھے اور قبل اس کے کہ اپنے گروہ کو بڑھائیں والد نے چھ ہزار سواروں کے ساتھ جا کے محاصرہ کر لیا۔ ان لوگوں میں زہیر بن ذویب عددی عجیب آدمی تھا۔ جس سے زیادہ بہادر آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ مگر ان کا سردار وہ نہ تھا بلکہ عثمان بن بشیر تھا۔ اس معرکہ میں میں بھی والد کے ہمراہ تھا۔ ہمارے لشکر کے پہنچتے ہی وہ مقابلہ کو نکلے مگر باہر آ کے جب ہماری فوج کی کثرت دیکھی تو عثمان بن بشیر نے کہا ''باہر نکل کر اتنے بڑے لشکر سے لڑنا بے سود ہے۔ قلعہ میں پلٹ جاؤ اور پھاٹک بند کر لو۔ جب موقع ہو گا نکل کر حملہ کریں گے۔ '' زہیر نے کہا ''واہ! یہ نہ ہو گا۔ میں جب تک ان لوگوں کی صفیں درہم برہم نہ کر لوں واپس نہ چلوں گا۔ '' یہ کہہ کے وہ ایک خشک ندی کی ترائی میں اتر گیا اور نیچے نیچے ہی جا کے ہماری فوج کے ایک پہلو میں نکلا اور ہم پر ایسا سخت حملہ کیا کہ واقعی ہماری صفیں درہم برہم کر دیں اب اس کی حالت یہ تھی کہ لوگ اس پر یورش کرتے تو ندی میں اتر جاتا اور جب غافل ہوتے اچانک آ پڑتا اور سب کو پریشان کر دیتا۔ والد کو اس کی یہ بہادری دیکھ کر اس سے ایک محبت سی ہو گئی۔ اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اپنے نیزوں کی نوکوں پر آنکڑے باندھ کر اس پر حملہ کرو اور ان آنکڑوں کو اس کی زرہ کی کڑیوں میں اٹکا کے اسے کھینچ لاؤ تاکہ تمہارے ہاتھ میں وہ زندہ اسیر ہو جائے۔ اس حکم کے مطابق لوگوں نے آنکڑے باندھ کے اس کے زرہ میں اٹکانے کی کوشش کی۔ چار آدمیوں نے بڑی جانفشانی سے ان کو اٹکا بھی لیا مگر زہیر کی ہمت اس بلا کی تھی کہ تینوں کو اپنے ساتھ دور تک کھینچ لے گیا۔ یہاں تک کہ مجبور ہوکے انہیں اپنے نیزے چھوڑ دینے پڑے اور وہ ان کے نیزے لیے ہوئے قلعہ کے اندر چلا گیا۔ اس تدبیر سے بھی وہ زندہ اسیر نہ ہوا تو والد نے اس کے پاس کہلا بھیجا اگر تم مخالفت سے باز آجاؤ تو وعدہ کرتا ہوں کہ ایک لاکھ درہم نقد دوں گا اور بیسا دن کا علاقہ تمہاری جاگیر میں دے دیا جائے گا مگر اس نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ اب محاصرہ نے طول کھینچا اور پناہ گزینان قلعہ نے تنگ آ کے والد کو پیام دیا کہ ''اگر آپ نکل جانے کا موقع دیں تو ہم قلعہ آپ کے سپرد کر کے یہاں سے چلے جائیں ۔ '' والد نے کہلا بھیجا۔ ''یہ نہیں ہو سکتا۔ میرے حکم پر بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈال دو۔ '' محصورین یہاں تک عاجز آ چکے تھے کہ اس حکم کو قبول کرنے پر بھی تیار ہو گئے مگر زہیر نے اس پر بگڑ کے کہا ''کم بختو! یہ تم سب کو پکڑ کے قتل کر ڈالے گا۔ جان ہی دینا ہے تو شریفوں کی طرح مرو۔ چلو ہم سب نکل پڑیں یا تو بہادری دکھا کے مر جائیں یا ان کے نرغے سے نکل کے آزاد ہو جائیں گے۔ خدا کی قسم! اگر تم نے سچی شجاعت دکھائی اور جان پر کھیل کر مردانہ حملہ کیا تو ضرور نکلنے کا راستہ مل جائے گا۔ میں تمہارا ہر طرح سے ساتھ دینے کو تیار ہوں ۔ کہو تمہارے آگے چلوں کہ تمہارے پیچھے چلوں ۔ '' سب نے اس مشورہ کے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کو اس قدر پست دیکھ کے اس نے کہا۔ ''اچھا ٹھہرو! میں تمہیں دکھائی دیتا ہوں ۔ '' یہ کہتے ہی اس نے قلعہ سے نکل کر ہمارے لشکر پر حملہ کیا۔ ایک ترکی غلام اور ابن زبیر اس کے ہمراہ تھے۔ ہم نے لاکھ چاہا کہ ان لوگوں کو پکڑ لیں مگر نہ پا سکے اور وہ سب ہماری صفیں چیرتے ہوئے محاصرہ سے نکل گئے۔ مگر زہیر نے یہ کیا کہ دونوں ساتھیوں کو نکال کے پھر ہمارے لشکر پر حملہ اور ہوا اور صفیں چیرتا پھاڑتا پھر قلعہ کے اندر پہنچ گیا اور لوگوں سے کہا ''تم نے دیکھا۔ '' انہوں نے جواب دیا یہ تمہارا ہی کام تھا ہم سے نہیں ہو سکتا۔ ہمارا اتنا بڑا جگر نہیں اور ہمیں جان زیادہ پیاری ہے۔ اس جواب سے مایوس ہو کے زہیر نے کہا ''پھر تمہیں اختیار ہے جو جی چاہے کرو مگر میں ہر حال میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ''اب قلعہ کا پھاٹک کھلا اور سب لوگوں نے باہر نکل کے ہتھیار ڈال دیے اور سر جھکا کے کھڑے ہو گئے۔ والد کے اشارے سے لوگوں نے جا کے رسیوں اور زنجیروں میں باندھ لیا۔ اب والد اپنے خیمہ کے دروازہ پر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور ان کے برابر کرسی پر میں تھا اور اسیران بنی تمیم ایک ایک کر کے پیش کیے جانے لگے۔ والد کے چشم و ابرو سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان لوگوں کا قصور معاف کر دینا چاہتے ہیں مگر مجھے مرحوم بھائی محمد کے خون اور ذلت سے مارے جانے کا اس قدر جوش اور غصہ تھا کہ والد سے بگڑ کے کہا ''ابا جان! آپ معاف کرنے کو چاہے کر دیں لیکن اگر یہ خونخوار قاتل اور میرے بھائی کی جان لینے والے بچ گئے تو میں زندہ نہ رہوں گا۔ زہر کھالوں گا۔ خود کشی کر لوں یا جو جی میں آئے کر گزروں گا۔ '' میں نے یہ کلمات ایسے تیوروں میں کہے تھے کہ والد کو مجبوراً ان سب کے قتل کا حکم دینا پڑا۔ ان میں سے دو تین آدمی البتہ خاص اسباب سے چھوڑ دیے گئے جنہوں نے کسی موقع پر اظہار وفاداری کیا تھا۔ خصوصاً بنی تمیمیوں میں سے بنی سعد کا ایک شخص جس نے والد کو ایک بار حملہ کرتے دیکھ کے اپنے ہمراہیوں سے کہا تھا ''شہسوار مصر کے سامنے سے ہٹ جاؤ۔ '' اس کہنے پر اس کی جان بخشی کی گئی۔ اب زہیر بن ذوہیب پا بہ زنجیر سامنے لایا گیا مگر جیسے ہی لوگوں نے اسے لانے کے لیے کھینچا اس نے گو کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا سپاہیوں کے ہاتھ سے زنجیر چھڑا کے ایک جست کی اور ایک زقند میں خندق کے پار تھا۔ پھر وہاں سے دوسری زقند بھری اور اسی طرح زنجیروں میں بندھا ہوا اس پار خیمہ کے قریب آ گرا اور خود ہی والد کے سامنے آ کے زمین پر بیٹھ گیا۔ اس میں بھی اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ تمہارا میں ادب نہیں کرتا مگر والد کے دل میں اس کی اس درجہ قدر تھی کہ اس کا بھی لحاظ نہ کیا اور پوچھا۔ ''زہیر بولو۔ اب بھی اگر میں تمہیں نیسان کا علاقہ دے دوں تو کس قدر شکر گزار ہو گے؟'' اس نے جواب دیا۔ '' شکر گزار تو اس وقت ہوں گا جب میرے قتل کا حکم دو گے۔ '' والد اب بھی یہی چاہتے تھے کہ اسے چھوڑ دیں ۔ یہ دیکھ کر مجھے طیش آگیا اور کہا۔ ''دیکھیے ایسا نہ ہو کہ آپ اس سخت ترین دشمن کو چھوڑ دیں ۔ '' یہ الفاظ والد کو ناگوار گزرے اور جوش کے لہجہ میں مجھ سے کہا ''کم بخت تو یہ بھی خیال نہیں کرتا کہ زہیر کے ایسے نامور بہادر کو ہم قتل کرا دیں گے تو دشمنان اسلام سے کون لڑے گا ؟ اور محترم خاتونان عرب کی کون حمایت کرے گا؟ '' میں نے جب یہ دیکھا کہ ابا جان چھوڑنے پر ہی آمادہ ہیں تو بگڑ کے کہا ''ابا جان! خوب یاد رکھیے کہ اگر آپ میرے مقتول و مظلوم بھائی کے خون میں شریک ہوئے تو اس کا انتقام میں آپ سے لوں گا۔ '' میرا یہ گستاخانہ جواب سن کر والد نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور زہیر کے قتل کا حکم دے دیا۔ زہیر نے یہ سنتے ہی شکریہ ادا کیا پھر کہا'' مگر میری ایک درخواست ہے۔ مجھے شوق سے قتل کیجیے۔ مگر ہاں وہاں نہ مارا جاؤں جہاں میرے یہ تمام ہمراہی قتل کیے گئے ہیں اور نہ میرا خون ان کے خون میں ملنے پائے میں ان سب کو یوں ہتھیار ڈالنے سے روکتا تھا اور مشورہ دیتا تھا کہ مرنا ہے تو شریفوں کی موت مرو۔ تلواریں سوت سوت کے نکل پڑو جو سامنے آئے قتل کرو۔ اس میں یا مارے جاؤ یا لڑتے ہوئے نکل جاؤ۔ افسوس انہوں نے سماعت نہ کی اور اس ذلت سے مارے گئے اگر میرے کہنے پر عمل کرتے تو خدا کی قسم بجائے اس کے تیرا بیٹا یوں اطمینان سے بھائی کے خون کا انتقام لے تجھے خود اس کی جان کے لالے پڑ گئے ہوتے '' والد نے اس کی یہ درخواست قبول کی اور مسلمانوں کا یہ ہرقلوس اور عربوں کا یہ رستم نریمان سب سے الگ لے جا کے قتل کر ڈالا گیا۔
اب تمیمیوں میں سے فقط بحرین درقا باقی تھا جو نیشا پور میں اپنے باقی ماندہ گروہ کے ساتھ بیٹھا علم سرتابی بلند کر رہا تھا۔ ادھر مرو رود میں بھی انہیں لوگوں سے خطرہ تھا اور سب سے بڑی آفت یہ تھی کہ خلافت کا کسی طرح تصفیہ نہیں ہو سکتا تھا شام میں بنی امیہ کا زور تھا جہاں مروان نے مسند خلافت پر بیٹھ کے گرد و پیش کے تمام شہروں کو اپنے موافق بنا لیا تھا اور مصر میں بھی اس کی سطوت قائم ہو گئی تھی اور ٦٥ھ میں جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبد الملک نے اور زیادہ قوت کے ساتھ حکمرانی شروع کر دی۔ ادھر عراق میں خون حسین کے انتقام کا ہنگامہ بپا تھا اور مختار قاتلین حسین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے اور چن چن کے قتل کر رہا تھا۔ مگر یہاں کی ساری شورش فقط اس لیے تھی کہ بے امنی پیدا ہو۔ دولت اسلامیہ کی اصلاح، اس کے سنبھالنے اور نظم و نسق سلطنت درست کرنے کی کسی کو فکر نہ تھی۔ ادھر مکہ معظمہ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی بیعت لینا شروع کر دی تھی۔
والد کو حکومت خراسان سلم بن زیاد سے ملی تھی مگر اب اس کا کہیں پتا نہ تھا۔ وہ خود اپنی جان چھپاتا پھرتا تھا۔ ایسی حالت میں ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں ۔ دمشق والوں کا ساتھ دینے کو جی نہ چاہتا تھا اس لیے کہ انہوں نے خلافت اسلامی کو موروثی سلطنت بنا لیا تھا۔ عراق کے ہنگامہ آراؤں کا ساتھ دینے کے کوئی معنی نہ تھے۔ وہ لوگ تو ایک بنے ہوئے نقش کو بگاڑنے کے سوا کچھ نہ چاہتے تھے۔ مجبوراً انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا جن کے والد عشرہ مبشرہ میں سے اور وہ خود کبار صحابہ میں سے تھے۔ چنانچہ خراسان میں انہوں نے ابن زبیر کی طرف سے بیعت لینا شروع کر دی۔ مگر باوجود اس کے کہ یہ ممکن نہ تھا کہ انہیں ابن زبیر سے کسی قسم کی مدد ملے اس کا انجام یہ تھا کہ خراسان میں جیسا انتظام چاہتے تھے نہیں کر سکتے تھے اور دشمنوں کو روز ایک نیا جھگڑا پیدا کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ یمانیوں کا ہنگامہ تو انہوں نے مٹا دیا مگر تمیمیوں کی شورش کسی طرح کم ہونے کو نہ آتی تھی۔ اور بعض ایام میں یہ حالت ہوتی تھی کہ ڈرتے تھے کہ کہیں ان کا گھر بار تک نہ لٹ جائے اور اہل وعیال کسی آفت میں نہ پھنس جائیں ۔ اس خیال سے انہوں نے مجھے حکم دیا کہ تمیمیوں کی شورش سے بچنے کے لیے تم دریائے جیجون کے اس پار یعنی ماور ا النہر میں چلے جاؤ جہاں جا بجا ترک کفار کی سلطنتیں ہیں ۔ ا نہی میں رہ کے ان سے دوستی پیدا کر کے یا تو ان کی سرزمین فتح کر کے اپنے لیے نئی جگہ نکالو اور یا اطمینان سے وہاں بیٹھ رہو۔ میں خراسان کو فتنوں سے صاف کرتا ہوں اگر کامیابی ہوئی تو مدد دے کر ماور ا النہر میں تمہاری سلطنت قائم کرا دوں گا اور کامیابی نہ ہوئی یا یہاں کی شورش بڑھی یا خلافت کا فیصلہ میری مرضی کے خلاف ہوا تو میں بھی تمہارے پاس آ کے ٹھہروں گا اور ہم وہاں زیادہ اچھی اور آزاد حکومت حاصل کر لیں گے۔
ان کے کہنے کے بموجب میں جیجون کے اس پار آگیا اور عہد کر لیا کہ جب تک نہ بلائیں گے خراسان کی قلمرو میں قدم نہ رکھوں گا۔ یہاں میں مختلف شہروں میں مارا مارا پھرا مگر کوئی نہ اپنے شہر میں ٹھہرنے دیتا ہے اور نہ اپنے یہاں پناہ دیتا ہے۔ فقط شاہ سمرقند طرخون نے اتنی مہربانی کی تھی کہ اپنے شہر میں ٹھہرا لیا مگر وہاں ایسے اتفاقات پیش آئے کہ مجھے اس کا شہر چھوڑ کر چلا آنا پڑا۔
ثابت: ''سمرقند میں جو واقعات پیش آئے ان کو میں آپ کی فوج کے ایک سپاہی کی زبانی سن چکا ہوں ۔ جن سے آپ کی شجاعت و سپہ گری کا نقش سارے ترکستان میں بیٹھ گیا ہے۔ ''
موسیٰ: ''مشکل یہ ہے کہ وہاں سے میرے ساتھ دو معزز تورانی خواتین آئی ہیں جن کو میں نے بالکل جائز طور پر حاصل کیا ہے مگر انہی کا آنا ان لوگوں کے لیے باعث ملال ہو گیا ہے اور اب تمام ترک میرے دشمن اور خون کے پیاسے ہو گئے ہیں ۔ کیش میں ارسلان بن طرخون مجھ سے لڑنے کو محض اس لیے آیا کہ اس کی دلہن شادی کے جائز اور مروجہ مقابلہ میں مجھے مل گئی۔ ''
ثابت: ''یہ بیویاں نہیں آپ کے حال پر خدا کی عنایتیں اور مہربانیاں ہیں ۔ اس لیے ان کی قدر کیجیے۔ ''
موسیٰ: ''قدر تو میں کرتا ہوں اور کروں گا مگر ان کی وجہ سے ہمارے لیے دشواریاں کس قدر زیادہ پیدا ہو گئی ہیں ابھی تک ہمیں فقط اپنی فکر تھی اب ان کی بھی فکر ہے۔ ہماری ذات سے یہاں کسی کو عناد نہ تھا مگر ان کی وجہ سے بکثرت دشمن پیدا ہو گئے ہیں ۔ ''
ثابت: ''خدا ان سب پر آپ کو غالب کرے گا۔ ''
موسیٰ: ''خدا کی ذات سے مجھے ایسے ہی امید ہے مگر میں نے بھی ارادہ کر لیا ہے کہ یہاں اپنے لیے ایک چھوٹی سی قلمرو ضرور پیدا کروں گا۔ اول تو مجھے یہ سرزمین اور یہاں کے پر فضا سبزہ زار نہایت پسند ہیں ۔ دوسرے ترکوں کی قوت و شجاعت کا اندازہ کر کے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اگر مجھے کوئی اطمینان سے بیٹھنے کی جگہ مل گئی تو پھر میں سب کو دبا کے ایسی ریاست قائم کروں گا جو یادگار رہے گی۔ پھر اس کے بعد صدائے جہاد بلند کر کے سارے ترکستان میں توحید کی تبلیغ کروں گا اور علم اسلام کندھے پر رکھ کر خدائے واحد ذوالجلال کا نام پکارتا ہوا چین تک چلا جاؤں گا۔ ''
ثابت: ''خدا آپ کے ارادے میں برکت دے۔ ''
موسی: ''مگر کوئی ایسی جگہ تو بتائیے جہاں چل کے میں اطمینان سے بیٹھوں ۔ ''
ثابت: ''مجھے تو یہاں کے سب مقاموں میں شہر ترمذ بہت پسند آیا۔ آبادی صاف ستھری ہے۔ اردگرد کے میدان نہایت ہی شاداب و زرخیز ہیں اور موسم بہار میں نمونہ جنت ہو جاتے ہیں ۔ آبادی کے پاس ایک نہایت ہی مضبوط و مستحکم قلعہ ہے جو عین دریائے جیحون کے کنارے ہے اور جیحون کا پانی ہمیشہ اس کے پشتے سے ہم آغوش ہوتا رہتا ہے۔ ''
موسیٰ: ''اور ترمذ دریائے جیحون کے اس پار ہے؟''
ثابت: ''جی ہاں ! اس پار۔ اس کے پاس ہی بدخشاں کا علاقہ شروع ہو گیا ہے جہاں سے بلبل ہزار داستان کے صد ہا جوڑے آ کے ترمذ کے چمنوں میں آشیانہ لگاتے ہیں اور صبح و شام اہل قلعہ کو اپنا ارغنون سناتے رہتے ہیں ۔ ''
موسیٰ: ''تو پھر میں وہیں چلوں گا۔ معلوم نہیں وہاں کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے؟''
ثابت:'' وہاں کا ایک مستقل فرماں روا ہے جو مشرک و کواکب پرست ہے اور گو کہ زیادہ قوت و شوکت نہیں رکھتا مگر آپ کے ٹھہرنے کا روادار نہ ہو گا۔ ''
موسیٰ: ''میں کوئی صورت نکال ہی لوں گا آپ رہبری کر کے ہمیں وہاں تک پہنچا دیں ۔ ''
ثابت: ''میں آپ کے ساتھ چلوں گا اور آپ ہی کے ساتھ رہوں گا اس لیے کہ آپ ایسے بہادر اولوالعزم مجاہد کا ساتھ چھوڑ کر اب میں کہیں نہیں جا سکتا۔ رہی میری تجارت تو اس کو میرے بھائی اور غلام انجام دیتے رہیں گے اور میں یہاں سے بیٹھ کے بھی ان کی مدد کر سکتا ہوں ۔ اس لیے کہ مشک کی خریداری یہاں کے ہر شہر میں ہو سکتی ہے۔ '' اس کے بعد موسیٰ نے ثابت کو رخصت کیا اور اپنے خیمہ میں جا کے لیٹ رہا کہ تھوڑی دیر آرام لینے کے بعد ثابت کی رہبری میں شہر ترمذ کی طرف کوچ کرے۔
٭٭٭
تمام ہمراہیان موسی اس قدر تھکے ماندے تھے کہ اس روز سہ پہر کو یہاں سے کوچ نہ کر سکے۔ رات بھر اسی گھاٹی میں پڑاؤ رہا۔ سب نے شام سے پہلے اٹھ کے شکار مارے۔ مچھلیاں پکڑیں ۔ پکایا کھایا اور عشا کی نماز پڑھتے ہی پڑ کے سو رہے صبح کو اٹھے تو خوب تازہ دم اور بشاش تھے۔ زخمیوں کی بھی یہاں اطمینان سے مرہم پٹی کی گئی اور صبح کو نماز پڑھ کر سارے لشکر نے ثابت کے بتانے پر دریائے جیحون کے کنارے کنارے چڑھاؤ پر سفر شروع کیا اور تیسرے روز شہر ترمذ کے سامنے کھڑے تھے۔ یہاں پہنچتے ہی موسی نے قلعہ کے دامن میں دریا کے کنارے پڑاؤ ڈال دیا اور حاکم قلعہ کو اطلاع کی کہ ''ہم چند روز تک آپ کے جوار میں رہنے کے لیے آئے ہیں لہذا آپ سے ٹھہرنے کی اجازت چاہتے ہیں اور اگر آپ ہمیں اپنے قلعہ میں جگہ دیں تو نہایت ہی شکر گزار ہوں گے۔ '' وہاں سے جواب ملا کہ قلعہ کے اندر کسی غیر کے لیے جگہ نہیں ہے اور تمہارا وہاں ٹھہرنا بھی دراصل گوارا نہیں لیکن اب آ گئے ہو تو ٹھہرو اور جس قدر جلد ممکن ہو چلے جاؤ اس لیے کہ ہمارے شہر کی مختصر آبادی کسی لشکر کے زیادہ مدت تک پڑے رہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ '' اس کے جواب میں موسی نے کہلا بھیجا: '' آپ اطمینان رکھیں ۔ میں جلدی چلا جاؤں گا اور آپ کو یا آپ کے شہر کو مجھ سے تکر لیف نہ پہنچے گی۔ '' حاکم ترمذ کو اس عربی لشکر اور ایک عربی سردار کا اپنے شہر میں رہنا کسی طرح گوارا نہ تھا مگر اس میں مزاحمت کی طاقت نہ تھی اور جانتا تھا کہ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو میں ان پر غالب نہ آ سکوں گا اس لیے خاموش ہو رہا۔ موسیٰ نے یہاں مدت تک قیام کرنے کے لیے قلعہ کے پاس ہی نہایت قرینے سے لشکر گاہ مرتب کی۔ بیچ میں اس کے خیمے تھے۔ جن کے پاس ترمذی مزدوروں سے کام لیکر ایک پر تکلف کوشک قائم کرائی جس میں مہ جبین نوشین اور گل رخسار قتلق خانم کے ساتھ رہتا اس کوشک اور خیمہ کے چاروں طرف بہادران عرب کے خیمے تھے جن کے بیچ میں سے سڑکیں گزری تھیں اور معلوم ہوتا تھا کہ ترمذ کے پاس ایک دوسرا خوبصورت شہر خیموں کا قائم ہو گیا ہے۔
شاہ ترمذ پہلے تو اس سے بہت ہی بد ظن تھا مگر چند روز بعد موسیٰ کے اخلاق اور اس کی ملن ساری اور محبت سے خوش ہو کے اس کے پاس آنے لگا اور تھوڑے دنوں میں اس درجہ مانوس ہو گیا کہ روز بلا ناغہ اس باغ میں آ کے گھنٹوں بیٹھتا۔ اس کی صحبت سے لطف اٹھاتا اور روز بروز زیادہ دوست ہوتا جاتا۔ اب دونوں مل کر شکار کو جاتے اور ہفتوں کوہ و صحرا میں رہ کے بڑے بڑے جانوروں اور چیتل، بارہ سنگھے اور چکارے مار لاتے اور موسیٰ کے باغ فرحت بخش میں ساتھ بیٹھ کے کھاتے۔
موسیٰ نے اپنے اخلاق و عادات اپنے آداب معاشرت اور اپنی دلچسپ باتوں سے اس کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ موسیٰ کو اب ترکی زبان بھی اتنی آ گئی تھی کہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنا مطلب ادا کر دیتا اور اس کی وہ بگڑی ہوئی زبان شاہ ترمذ کو اور زیادہ بھولی اور دلکش معلوم ہوتی۔ ایک دن شاہ ترمذ نے موسی سے کہا:'' آپ کی صحبت میں سارے لطف و عیش و عشرت کے سامان ہیں مگر ایک چیز نہیں جس کے بغیر کوئی صحبت عیش ممکن نہیں ہو سکتی۔ ''
موسی: ''وہ کون چیز ہے؟''
شاہ ترمذ: ''شراب گلرنگ۔ ''
موسیٰ: ''آپ کو کیا نہیں معلوم کہ شراب ہم لوگوں پر حرام ہے۔ ہم حرام ہی نہیں اسے نجس اور ناپاک جانتے ہیں ۔ اس لیے چھو تک نہیں سکتے۔ مگر آپ کے لیے مضائقہ نہیں اور آپ کی عیش پوری کرنے کے لیے آپ کے واسطے اس کا بھی انتظام کر دوں گا۔ ''
شاہ ترمذ : ''نہیں ! ایسا نہ کیجیے۔ میرے لیے آپ اپنی صحبت اور اپنے مکان کو گندہ کیوں کرتے ہیں اور فرض کیجیے مجھے آپ نے منگوا بھی دی تو بغیر آپ کے اکیلا میں اس کو پی کے کیا لذت اٹھا سکتا ہوں ۔ ''
موسیٰ: ''اس کا خیال نہ کیجیے۔ اور یہ کہتے ہی موسیٰ نے ترمذ میں آدمی بھیج کے بادہ ناب کی ایک صراحی منگوا دی اور اپنے دوست شاہ ترمذ کو اصرار کر کے پلائی۔ ان باتوں نے اسے موسیٰ کا بہت ہی جانثار دوست بنا دیا اور نشہ صہبا میں کہنے لگا: ''موسیٰ! تم سے بڑا میرا کوئی بھی دوست نہیں جس وقت تم آئے تھے اس وقت میں تم سے گھبراتا اور وحشت کھاتا تھا مگر اس کی خبر نہ تھی کہ ہمارے دیوتا تمہارے ذریعہ سے میرے لیے اعلی ترین عیش و عشرت کا سامان فراہم کرنے والے تھے۔ مجھے اس کا بھی خیال ہے کہ تم روز میری دعوتیں کرتے ہو اور کوئی سامان عیش نہیں ہے جس کو میرے لیے اٹھا نہ رکھتے ہو مگر میں نے آج تک ایک بار بھی تمہاری دعوت نہیں کی۔ ''
موسیٰ: ''دوستوں میں ایسی باتوں کا خیال نہیں ہوا کرتا۔ یہاں وہاں ایک ہی ہے میں نے دعوت کی اور آپ نے کی تو مطلب ساتھ مل کے کھانے اور ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اٹھانے سے ہے اور اس کے خدا نے مواقع پیدا کر ہی دیے ہیں ۔ ''
شاہ ترمذ: ''یہ صحیح ہے مگر میرا جی چاہتا ہے کہ پورے اہتمام سے اپنے قلعہ میں تمہاری دعوت کروں ۔ اب کے شکار سے واپس آئیں گے تو میں آپ کی دعوت کروں گا آپ کو اپنے قلعہ کی سیر کراؤں گا۔ اپنے باور چیوں کے ہاتھ کا کھانا کھلاؤں گا اور اپنی تمام گانے والی لونڈیوں کا ناچ دکھاؤں گا۔ ''
موسیٰ: '' میں تو یہی کہوں گا کہ ایسی تکلیف نہ کیجیے لیکن آپ کی دل شکنی بھی مجھے گوارا نہیں ہے۔ آپ کے دل میں ایسا شوق پیدا ہوا ہے تو مجھے کوئی عذر نہیں ۔ ''
اس گفتگو کے ایک ہفتہ بعد شاہ ترمذ اور موسیٰ بڑے اہتمام سے شکار کو گئے اور چار روز تک خوب شکار کر کے واپس آئے تو شاہ ترمذ بجائے اس کے کہ حسب معمول موسیٰ کے باغ میں ٹھہرے رخصت ہو کے اپنے قلعہ میں گیا اور جاتے جاتے کہتا گیا کہ آج قلعہ میں آپ کی دعوت ہے۔ تیسرے پہر کو جس وقت میں بلاؤں چلے آئیے گا اور اس کا خیال رکھیے گا کہ سو آدمیوں سے زیادہ اپنے ساتھ نہ لائیے گا۔ ''
موسیٰ : ''جیسا ارشاد ہو مجھے تو سو آدمیوں کے لانے کی بھی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ ''
شاہ ترمذ: ''نہیں سو آدمی ضرور آپ کے ساتھ ہوں اور میں نے یہ اس لیے کہا کہ میں نے اپنی قوم کے بھی سو آدمی بلائے ہیں کل دو سو ہوں گئے اس سے زیادہ آدمیوں کی دعوت کا سامان نہ کر سکوں گا۔ ''
موسیٰ : ''بہتر ہے میں سو معزز آدمیوں کو لیتا آؤں گا جو میرے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کے کھانا کھائیں گے۔ ''
شاہ ترمذ: ''یہی میرا مطلب ہے اتنے ہی میں نے اپنے دوست اور سردار بھی مدعو کیے ہیں یہ ایسی صحبت ہو گی کہ آپ پسند کریں گے۔ '' یہ کہہ کے شاہ ترمذ اپنے قلعہ میں گیا اور موسی نے اپنے مخصوص لوگ منتخب کر لیے۔ جن کو ساتھ لے جانے والا تھا۔ دو تین گھنٹہ دن باقی تھا کہ شاہ ترمذ کا ایک سردار آیا اور موسی کو ادب سے سلام کر کے کہا: ''تشریف لے چلیے۔ ہمارے بادشاہ نے بلایا ہے۔ '' موسیٰ نے فوراً اپنے ہمراہیوں کو ساتھ لیا اور پا پیادہ اس کے ساتھ ہو گیا۔ قلعہ ایک پہاڑی پر تھا لہذا پھاٹک میں داخل ہونے کے بعد سب کو تقریباً دو سو گز کی بلندی پر چڑھنا پڑا۔ یہ دشوار راستے طے کر کے سب قصر شاہی میں پہنچے۔ پہلے چاروں طرف پھر کے قلعہ کی سیر کی اور اس بات سے نہایت محظوظ ہوئے کہ قلعہ پر سے کوسوں تک کا میدان نظر آتا تھا۔ خصوصاً دریائے جیحون کی سیر اس پر سے بڑا لطف دیتی تھی۔ جو مشرق سے مغرب کی طرف قلعہ کی دیواروں کو چومتا اور اس کے مضبوط پشتوں سے لپٹا ہوا نکل گیا تھا۔ مغرب کا وقت آیا تو اسلامی موذن نے ایک سرے پر کھڑے ہو کے اذان دی اور سب مسلمانوں نے وضو کر کے قلعہ کی بلندی پر جماعت سے نماز پڑھی جس میں موسیٰ امام تھا اور تمام اہل قلعہ اس کے اس طریقہ عبادت کو حیرت اور مرعوبیت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ بعد نماز سب جا کے قلعہ کے سب سے بلند دیوان خانے میں بیٹھے جہاں ایرانی قالینوں کا فرش تھا اور چینی گلدانوں میں گلدستے سجے ہوئے تھے۔ دستر خوان بچھا۔ انواع و اقسام کے الوان نعمت چنے گئے۔ اب سب نے کھانا شروع کیا اور شاہ ترمذی نے موسیٰ کے پاس بیٹھ کے شفیق میزبانوں کی طرح اسے اصرار کر کے کھلایا۔ یہاں تک کہ ڈیڑھ پہر رات گزر گئی اور سب نے ہاتھ دھوئے۔ شاہ ترمذ نے رخصت چاہی تو موسیٰ نے کہا آپ شوق سے آرام کیجیے۔ ہم ادھر ہی سوجاتے ہیں ۔
شاہ ترمذ:''مگر میں بغیر آپ کو رخصت کیے کیسے جا سکتا ہوں ۔ آپ اور آپ کے ہمراہی جا لیں تو میں جا کے سوؤں ۔ ''
موسیٰ:''میرا خیال نہ کیجیے میں اور میرے رفقا رات کو اس کمرے میں پڑ رہیں گے۔ ''
شاہ ترمذ: ''یہ نامناسب ہے اور میں ہرگز پسند نہ کروں گا کہ آپ اور آپ کے ساتھی سو عرب ساری رات قلعہ کے اندر رہیں ۔ ''
موسیٰ:'' مگر میرے نزدیک یہی مناسب ہے۔ اب ہم یہیں رہیں گے اور ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہی قلعہ ہمارا گھر ہو گا اور یا اسی میں ہماری قبریں بنیں گی۔ ''
شاہ ترمذ: ''(طیش غضب سے) اس دعوت و خدمت گزاری کا معاوضہ یہی ہے؟''
موسیٰ:'' نہیں ! یہ اس دعوت کا معاوضہ نہیں بلکہ اس کا معاوضہ ہے کہ یہاں آ کے جب میں نے قلعہ کے اندر آنے کا ارادہ کیا تو نہایت ہی بے مروتی سے جواب دیا گیا کہ تم قلعہ کے اندر نہیں آ سکتے۔ میں نے اس وقت عہد کر لیا تھا کہ انشا ء اللہ کسی نہ کسی بہانے سے اس قلعہ پر ضرور قبضہ کر لوں گا اور خدا نے اپنی مہربانی سے آج میرا وہ عہد پورا کر دیا ہے۔'' اس جواب پر برافروختہ ہو کے شاہ ترمذ نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ان بد عہد اور مکار و دغا باز عربوں کو گرفتار کر لیں مگر قبل اس کے کہ ترمذ کے سپاہی اس حکم پر عمل کرنے کا بھی خیال کریں ۔ سارے عرب تلواریں کھینچ کے کھڑے ہو گئے سب نے موسیٰ کے گرد جمع ہو کے اپنی صفیں باندھ لیں اور جب دیکھا کہ دشمنان شہر مقابلہ کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں تو زور و شور سے نعرہ تکبیر بلند کر کے ان پر حملہ کر دیا۔ ان کی تکبیر کی آواز سنتے ہی باہر کے عرب جو اپنے پڑاؤ میں مسلح اور تیار اسی آواز پر کان لگائے بیٹھے تھے وہ بھی اندر گھس پڑے اور سارے شہر میں تلوار چلنے لگی۔ رات کے اندھیرے میں کسی کو تمیز نہ ہوتی تھی کہ لوٹنے مارنے والے اہل شہر ہیں یا غیر۔ اور کسی کو سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یک بیک کون سی آفت اٹھ کھڑی ہوئی کہ ایسا ہنگامہ محشر بپا ہو گیا۔
اب عرب سارے قلعہ میں پھیل گئے جو جہاں تھے وہیں سے بار بار نعرہ تکبیر بلند کرتا تھا اور ان آوازوں سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ سارا قلعہ عربوں کے قبضہ میں ہے۔ آخر شاہ ترمذ کے حواس جاتے رہے اور نظر آیا کہ اگر دم بھر اور یہاں ٹھہرا تو عربوں کے ہاتھوں گرفتار ہو جاؤں گا گھبراہٹ میں اپنی چند بیویوں اور بچوں کو اور تھوڑا سا زر و جواہر لے کے ایک تہہ زمین راستہ میں سے بھاگ گیا اور یہاں ساری رات یہی عالم رہا کہ قلعہ کے پھاٹک پر عربوں کا قبضہ تھا۔ اس لیے کہ حارثین قلعہ پہلے ہی قتل ہو گئے تھے اور اب کسی کو مجال نہ تھی کہ قلعہ سے باہر جا سکے۔ اندر مرد، عورت، بوڑھا، بچہ جو تھا اسے عرب گرفتار کر رہے تھے۔ اسی حالت میں صبح ہوئی۔
غرض دم بھر میں موسیٰ ترمذ کا حکمران تھا اور دنیا کی کسی سلطنت و حکومت کا اس پر اثر نہ تھا۔ اس نے قلعہ کو خوب مضبوط کیا اس کے باہر بھی دوہری قلعہ بندیاں کرائیں ، خندقیں گہری اور چوڑی کرائیں اور ایسا انتظام کیا کہ دریائے جیحون سے پانی آ کے ہر وقت ان میں بھرا رہے اور ڈوبی ہوں ۔
شاہ ترمذ نے بے خانماں ہونے کے بعد نزدیک و دور کے تمام ترکی حکمرانوں کے پاس جا کے فریاد کی مگر کسی نے کوئی مدد کا وعدہ نہ کیا اور وجہ یہ تھی کہ ایک طرف تو موسیٰ کی شجاعت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ اس سے میدان میں لڑنا بھی آسان نہیں اور اب اس کو ایک زبردست قلعہ مل گیا ہے تو کس کی مجال ہے کہ اسے وہاں سے نکال سکے۔ دوسرے سب جانتے تھے کہ کسی قلعہ کو محصور کر کے اس پر قابض ہونا دوچار دن کا نہیں بلکہ برسوں کا کام ہے۔ اس خیال سے کسی نے شاہ ترمذ کی فریاد نہ سنی اور موسیٰ نے نہایت ہی اطمینان سے علم آزادی بلند کر لیا۔
ارسلان کئی بار ترمذ میں بھیس بدل کے آیا اور کوششیں کیں کہ مکر و فریب سے اپنی دلہن شہزادی نوشین کو بھگا لے جائے مگر کامیابی تو درکنار اس کو قلعہ کے اندر داخل ہونے کا بھی موقع نہ ملا۔ فقط ایک بار اس کو شہزادی سے ملنے کا موقع مل گیا تھا مگر اس میں اس قدر ذلیل ہوا کہ جان بچا کے نکل تو آیا مگر اس قابل نہ رہا کہ زندگی بھر کسی سے آنکھیں چار کر سکے۔
ہوا یہ کہ وہ ترمذ میں بودھ مذہب کے ایک فقیر کا بھیس کر کے آیا اور باہر ایک غار میں بیٹھ کے بظاہر عبادت کرنے لگا مگر دل میں یہی دھیان تھا کہ کہیں اور کسی تدبیر سے نوشین کو پاؤں تو لے کے بھاگ جاؤ ں اسی اثنا میں ایک دن موسیٰ گھوڑے پر سوار شکار کے لیے باہر آیا اور شہزادی نوشین اور قتلق خانم دونوں اپنے گھوڑوں پر سوار شکار کے لیے اس کے ساتھ تھیں ۔ اس لیے کہ ان دونوں ترک خاتونوں کو شکار کا بے حد شوق تھا اور تیر اندازی و صیدافگنی میں اچھی مشق رکھتی تھیں چونکہ گرد و پیش کسی دشمن کا اندیشہ نہ تھا اور یہ شکار فقط دوچار گھڑی کی سیر و تفریح سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا تھا۔ اس لیے موسیٰ نے خاتونان حرم کے ہم رکاب ہونے کے خیال سے کسی لشکری یا غلام کو بھی اپنے ساتھ نہیں لیا تھا۔ عین اسی مقام پر جہاں غار کے دروازے پر ارسلان بھگت بنا بیٹھا تھا شہزادی نوشین نے کمان کھینچ کے اپنے تیر سے ہرن کو زخمی کیا جو تیر کھا کے بھاگا اور موسیٰ نے اپنے گھوڑا جوالہ اس مقام پر ڈالا کہ جہاں گرے وہاں سے اٹھا لائے۔ ہرن دیر تک چوکڑیاں بھرتا رہا اور موسیٰ اس کا پیچھا کرتا رہا۔ نازنین و ناز آفرین خاتونیں اپنی جگہ پر ٹھہر ی رہیں ۔
انہیں تنہا دیکھ کے ارسلان غارسے نکل کے ان کے قریب آیا اور نوشین کے قریب جا کے کہا:''میری نازنین دلہن! اب موقع ہے کہ تم اور تمہاری رفیق قتلق خانم میرے ساتھ بھاگ چلیں ۔ '' یہ الفاظ سن کر دونوں مہ وشیں گھبرا سی گئیں مگر جب غور سے دیکھا تو پہچانا کہ کہنے والا فقیر نہیں فقیر کے بھیس میں شہزادہ ارسلان ہے۔ قتلق خانم اپنے شہزادہ کو اس وضع و حالت میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئی اور کہنے لگی:'' مجھے امید نہ تھی کہ آپ کو اس وضع و حالت میں دیکھوں گی۔ ''
ارسلان:'' اپنی شہزادی کے عشق میں مجھے ہر قسم کی ذلت گوارا ہے۔ ایک مہینے سے زیادہ زمانہ ہوا کہ میں اس غار میں اسی حال میں پڑا ہوں ۔ ''
قتلق خانم:''آپ اس وضع سے یہاں تک پہنچ تو گئے مگر ہمیں کیونکر لے جائیں گے نہ ہمارے ساتھ کوئی سپاہی ہے کہ ہماری حفاظت کرے نہ کوئی پناہ کی جگہ ہے جہاں چھپ کے اطمینان سے بیٹھ سکیں ۔ ''
ارسلان:'' اس کی تدبیر میں نے یہ سوچی ہے کہ تم اور نوشین میرے ساتھ اس غار میں چل کے ٹھہرو جس میں میں رہتا ہوں ۔ یہ غار اندر ہی اندر بہت دور تک چلا گیا ہے اور اس کے اندر ادھر ادھر ایسے کھوہ اور کول ہیں کہ کوئی دشمن اندر چلا بھی آئے تو جو کوئی ان میں جا کے چھپ رہے اسے نہیں پا سکتا۔ تین چار روز بعد جب جستجو کی شورش کم ہو گی تو ہم تینوں رات کو نکل چلیں گے اور اس طرح سفر کریں گے کہ راتوں کو کوچ کریں اور دن کو پہاڑوں کے غاروں میں چھپ رہیں ۔ دو چار روز بعد جب کسی امن و امان کی جگہ میں پہنچ جائیں تو سواریوں کا بندوبست کر کے اطمینان سے سفر کریں اور شان و شوکت سے سمرقند میں داخل ہوں ۔ ''
نوشین: ''میں اس ذلیل طریقہ سے آزادی نہیں چاہتی۔ میں ترک ہوں اور چینی دلہن اسی کی ہو سکتی ہے جو شریفانہ انداز سے بہادری دکھا کے مجھے حاصل کرے۔ میں چوروں کی طرح بھاگنے اور چرا لے جانے کی چیز نہیں ہوں ۔ مجھے چاہتے ہو اور میرے شوق میں بیتاب ہو تو بہادری سے مقابلہ کر کے مجھے لو۔ اس طرح حاصل کرو جس طرح قوم مغل کے شریف زادے دلہن کو حاصل کیا کرتے ہیں ۔ ''
ارسلان:'' تم میرے پاس آ جاؤ گی تو پھر میں پوری بہادری دکھا دوں گا اور کسی کی مجال نہ ہو گی کہ تم کو میرے آغوش شوق سے چھین سکے۔ ''
نوشین:'' میں اس کو نہیں مانتی۔ میرے لیے بہادری دکھاؤ۔ مجھے چوروں کی طرح چرا کے بہادری دکھائی تو کیا جس شخص نے ایک دفعہ مقابلہ کر کے مجھے تم سے چھین لیا وہ دوبارہ بھی چھین سکتا ہے۔ دنیا کو صاف نظر آگیا کہ موسیٰ تم سے اور تمہارے تمام ساتھیوں سے زیادہ بہادر اور دنیا کے لوگوں سے بڑھ کے زبردست ہے۔ اس نے مقررہ رسوم کے مطابق مجھے بزور شمشیر تم سے چھین لیا اور میں شرفا کے آئین کے مطابق اس کی ہو چکی۔ اس کے پاس آنے کے بعد مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ تم سے زیادہ میرا عاشق شیدا ہے۔ غرض میں اس کی ہو گئی اور وہ میرا ہو گیا اور جو منہ میں اسے دکھا چکی اب اور کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ ''
نوشین کی زبان سے یہ جواب سن کر قتلق خانم مبہوت رہ گئی اور اس سے زیادہ حیران ارسلان تھا جو چند منٹ کی مضطربانہ حیرت کے بعد بولا: '' تو تم میرے مقابلہ میں ایک ناجنس غیر مذہب شخص کو پسند کرتی ہو۔ ''
نوشین:'' ہاں میں اسی کو پسند کرتی ہوں ۔ اس لیے کہ تمہاری بزدلی نے مجھے اس کے ہاتھ بیچ ڈالا اور میں اسی کی ہو گئی۔ '' شہزادی کاشغر اور پری جمال لعبت چین کے ا ن جوابوں کا قتلق خانم پر عجیب اثر پڑا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ موسیٰ کو چھوڑ کے اپنے گھر جائے اور اپنے ماں باپ سے ملے۔ نوشین کو بھی وہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔ بولی :''شہزادی! سمرقند میں چلنے اور شہزادہ ارسلان کی محبوبہ بن کے رہنے سے آپ کی جو عزت ترکستان میں ہو سکتی ہے اس عرب سردار کے پاس رہنے سے نہیں ہو سکتی۔ پھر یہ بھی تو خیال کیجیے کہ وہاں آپ اپنے ماں باپ اور اپنے عزیزوں سے مل سکیں گی۔ اپنے میکے جا سکیں گی مگر یہاں ترمذ میں آپ گھر بار، ماں باپ، بہن بھائیوں اور سارے دوستوں اور عزیزوں سے دور اور جدا رہیں گی۔ یہ آپ کو پسند ہے؟''
نوشین:'' تم جو کچھ کہتی ہو۔ سچ ہے مگر اس کا کیا جواب ہے کہ اپنے کیش و آئین اور اپنی قوم وطن کے رسم و رواج کے مطابق میں موسیٰ کی بیوی ہو چکی اور اب کسی کا مجھ پر حق نہیں ۔ موسیٰ میرے شوہر ہیں اور ان کے سوا اب اور کسی کے پاس رہنا میرے لیے حرام ہے۔ ''
ارسلان: ''(برہمی کے لہجے میں ) یوں نہ مانو گی تو میں زبردستی تم کو لے جاؤں گا اور قتل و خون ریزی کے ذریعہ سے تم کو لوں گا۔ ''
نوشین:'' یوں لے سکتے تو اب تک لے چکے ہوتے۔ اسی کا تو مجھے افسوس ہے تم مجھے نہ لے سکے اور جب نہ لے سکے تو اب کیا لو گے؟''
ارسلان:'' میں سارے ترکستان کو چڑھا لاؤں گا اور ایسی زبردست قوت سے حملہ کروں گا کہ موسیٰ کو نہ ترمذ کے قلعہ میں بیٹھتے بنے گی اور نہ بھاگنے کا راستہ ملے گا۔ ''
نوشین:'' یہی تمہارے امکان میں ہوتا تو تم ایک دریوزہ گر فقیر بن کے یہاں نہ آتے اور تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا کہ چوروں کی طرح مجھے چرا لے جاؤ۔ ''
ارسلان:'' یہ صورت میں نے فقط اس اندیشہ سے اختیار کی کہ اعلانیہ مقابلہ کروں گا اور ترمذ کا محاصرہ کر کے موسیٰ کو عاجز کروں گا تو میرے دل کو آزار پہنچانے کے لیے وہ تم کو قتل کر ڈالے گا تاکہ میری آرزو ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے۔
'' نوشین:'' موسیٰ سے ایسی حرکت نہیں ہو سکتی وہ بہادر اور شریف ہے اور تم سے بڑھ کے مجھے چاہتا ہے۔ ''
قتلق خانم:'' شہزادی! تم زبردستی الجھ رہی ہو۔ مانا کہ موسیٰ تمہیں قتل نہ کریں گے مگر ہمارے شہزادے ارسلان جب ایسی قوت سے چڑھائی کریں گے تو تم کو ان کے دست ستم سے چھین لیں گے اس سے یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ خون ریزی ہونے سے پہلے ہم تم ان کے ساتھ بھاگ چلیں ۔ ''
نوشین:'' تم بھاگو۔ میں نہیں بھاگ سکتی۔ بھاگنے کا لفظ میرے لیے ننگ ہے میں اسی کی ہوں جو سپہ گری اور دلیری سے مجھے حاصل کرے۔ ''
قتلق خانم: '' اس کے لیے بھی تو ہمارے شہزادے ارسلان تیار ہیں ۔ ''
نوشین: '' جب ایسی تیاری دکھائیں گے تو دیکھا جائے گا اس کے بعد چند لمحوں تک خاموشی رہی۔ جسے خود ہماری لعبت چین شہزادی کاشغر نے توڑا اور کہنے لگی : ''قتلق خانم ! دھوکہ میں نہ آؤ۔ خوب یاد رکھو کہ تمہارے شہزادے جب ایک بار ہار چکے ہیں اور اس موقع پر جب انہیں اپنی جان دینے میں بھی دریغ نہ ہونا چاہیے تھا ہارے تو اب موسیٰ سے جیت سکیں گے؟۔ ''
قتلق خانم:'' جب زبردست لشکر لے کر آئیں گے اور سارے توران و ترکستان کو چڑھا لائیں گے تو موسیٰ کے بنائے کچھ نہ بنے گی۔ ''
نوشین:'' یہی دھوکہ ہے جس میں تم پڑی ہوئی ہو یہ اگر سارے ترکستان کو بھی چڑھا لائیں گے تو میرے شوہر موسیٰ سارے خراسان، ایران اور عرب و شام کو چڑھا لائیں گے تو اس وقت ان سے پوچھو کہ ان کے بنائے کیا بنے گی؟ تم یقین جانو کہ اب تم موسیٰ کے پنجہ سے نہیں چھوٹ سکتی۔ اگر کبھی اتفاقاً ارسلان کو موقع مل بھی گیا تو موسیٰ پھر تم کو ان کے پنجہ سے چھین لیں گے اور اس وقت تم ان کی وہ ذلیل لونڈی بنو گی جس پر آقا کو اعتبار نہ ہو۔ ذاتی شجاعت و زور آزمائی میں یہ ان کی ہمسری کر نہیں سکتے جس کا ان کو بھی اقرار کرنا پڑے گا۔ باقی رہا زبردست لشکر کا لانا تو اس میں بھی موسیٰ کا اثر بڑھا ہوا ہے۔ یہ کسی بات میں ان کے مدمقابل نہیں ہو سکتے اور جب کبھی مقابلہ کریں گے ذلیل ہوں گے خوب یاد رکھو کہ جس کسی نے اپنی معشوقہ دلہن کو ہار دیا وہ ہمیشہ ہارے گا اور سب کچھ ہار دے گا۔ ''
ارسلان: ''(غیظ و غضب کے لہجے میں ) یہ نہ سمجھو کہ میں موسیٰ سے کمزور ہوں سامنا ہو جائے تو آج بھی اس سے کشتی لڑنے کو اور شمشیر زنی میں مقابلہ کرنے کو تیار ہوں ۔ وہ اپنے قوت بازو یا اپنی تلوار کے زور سے مجھ پر نہیں غالب آیا فقط اس کا گھوڑا میرے گھوڑے سے اچھا تھا بس اسی کمی نے مجھے ہرا دیا۔ جنگ و پیکار میں مقابلہ ہوتا تو میں اس کی ساری چالاکیاں بھلا دیتا۔ ''
نوشین:'' میں نے مانا کہ تم سے اس کی لڑائی نہیں ہوئی مگر کیا تم اپنے شہر کے سپہ سالار نوشگیں سے زیادہ بہادر ہو۔ جسے موسیٰ نے دم بھر میں مار گرا دیا اور دعوت نو روز کے ساتھ قتلق خانم کو جیت لیا؟''
ارسلان:'' یہ اتفاق کی بات تھی میرا سامنا ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ شجاعت سپہ گری اسے کہتے ہیں ۔ ''
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دور سے موسیٰ آتا دکھائی دیا جو ہرن کو ذبح کر کے اپنے گھوڑے پر ڈالے لیے آتا تھا اس کو دیکھتے ہی قتلق خانم گھبرا اٹھی اور ارسلان سے کہا: '' افسوس موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ تم اسی غار میں جا کے اپنی جان بچاؤ اور اب میری تمہاری دونوں کی زندگی شہزادی کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے اگر موسیٰ کو بتا دیا کہ تم ارسلان ہو اور میں تمہارے ساتھ جانے پر آمادہ تھی تو وہ دونوں کو قتل کر ڈالیں گے اور دونوں میں سے ایک کی بھی خیریت نہیں ۔ ''
نوشین:'' میں موسیٰ سے بے وفائی نہ کروں گی۔ یہ غیر ممکن ہے کہ ان باتوں کو ان سے نہ کہوں مگر وعدہ کرتی ہوں کہ تم دونوں کو بچا لوں گی۔ موسیٰ بہادر ہیں اور بہادر آدمی ظالم نہیں ہوتا لیکن ہاں ارسلان تم کو دعوی ہے کہ سپہ گری میں ان سے مقابلہ کر لو گے اس کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا۔ موسیٰ تنہا ہیں تم دیکھ رہے ہو کہ ان کے آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ خود اور زرہ بھی نہیں پہنے ہوئے ہیں ۔ شہر فاصلہ پر ہے کوئی مدد کو نہیں پہنچ سکتا اور ہم دونوں وعدہ کرتی ہیں کہ الگ کھڑی رہیں گی اگر دعوی ہے اور مجھے لینا چاہتے ہو تو سامنا کرو۔ دیکھوں کس طرح ان پر غالب آتے ہو؟''
ارسلان:'' اس فقیری بھیس میں جب کہ میرے پاس تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں اور وہ تلوار بھی غار کے اندر چھپا کے رکھ آیا ہوں کیسے مقابلہ کر سکتاہوں ۔ ''
نوشین:'' مضائقہ نہیں ۔ اپنی تلوار جا کے لے آؤ اور موسیٰ سے میں کہہ دوں گی کہ سوا تلوار کے اور سب ہتھیار کھول کے الگ رکھ دیں ۔ رہا فقیری لباس تو وہ بھی اس وقت معمولی سادہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں جن سے کسی قسم کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔ '' اس کے جواب میں ارسلان خاموش اور خائف تھا کہ نوشین نے کہا : ''خاموشی کی سند نہیں یا تو اس وقت مقابلہ کرو اور یا وعدہ کرو کہ پھر کبھی بہادری کا دعوی اور میرے لینے کی ہوس نہ کرو گے۔ '' ارسلان: ''(گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ) تم جو حکم دو میں اسی کے لیے حاضر ہوں ۔ '' اب موسیٰ قریب آ پہنچا اور دور ہی سے خوشی کے لہجہ میں پکارا : ''لو پیاری لعبت چین نوشین! میں تمہارے شکار کو لے آیا مگر اس نے بہت دوڑایا اور بہت دور جا کے گرا۔ '' یہ کہتے کہتے وہ بالکل قریب آگیا اور نوشین نے ٹوٹے پھوٹے عربی الفاظ میں جو ترکی لب و لہجہ میں ادا ہوتے تھے اظہار و مسرت کے ساتھ کہا: ''مگر میں نے تمہارے لیے یہاں بھی ایک شکار تیار کر رکھا ہے۔ ''
موسیٰ :'' (حیرت سے چاروں طرف دیکھ کے) میں نہیں سمجھا وہ شکار کون سا ہے۔ ''
نوشین: '' ابھی تھکے چلے آئے ہو ذرا دم لے لو تو بتاؤں ۔ ''
موسیٰ : ''نہیں جلدی بتاؤ۔ یہ الفاظ سننے کے بعد مجھ میں دم لینے کی تاب نہیں ہے۔ '' اس وقت ارسلان اور قتلق خانم کی حالت یہ تھی کہ چہرہ کی رنگت اڑی ہوئی تھی اندر ہی اندر تھر تھر کانپ رہے تھے اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ''
نوشین:'' بتاتی ہوں مگر پہلے اقرار کرو کہ سنتے ہی آپے سے باہر نہ ہو جاؤ گے اور میں جس انسانیت سے کام لینا چاہوں گی کام کرو گے۔ ''
موسیٰ : ''قسم کھا کے کہتا ہوں کہ تم جو کہو گی وہی کروں گا۔ ''
نوشین: '' اچھا تو سنو! یہ بزرگ جو سامنے کھڑے ہیں ان کو پہچانو کہ کون ہیں ؟''
موسیٰ:'' میں کیا جانوں کبھی دیکھا ہو تو پہچانوں ۔ ''
نوشین:'' یہ تمہارے رقیب ارسلان ہیں جو فقیری بھیس کر کے آئے ہیں کہ مجھے اور قتلق خانم کو اپنے ساتھ بھگا لے جائیں ۔ '' یہ کلمات سنتے ہی موسیٰ نے تلوار کھینچ لی۔ غیظ و غضب کے تیوروں سے ارسلان کو دیکھا اور اس پر جھپٹ پڑنے کو ہی تھا کہ نوشین نے کہا اپنا اقرار نہ بھولو۔ وعدہ کر چکے ہو کہ انسانیت سے باہر نہ ہو گے۔ ''
موسیٰ: ''ہاں میں تمہاری مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کروں گا مگر جلدی بتاؤ کہ کیا حکم ہے۔ '' اب نوشین نے ساری سرگزشت اور گفتگو جو ارسلان سے ہوئی تھی بیان کر دی۔ ایک قتلق خانم کی بے وفائی کو تو نہیں ظاہر کیا باقی تمام باتیں بلا کم وکاست کہہ سنائی اور کہا: '' ان سے ایک دفعہ اور مقابلہ کر لو تاکہ ان کے دل میں کوئی ہوس نہ باقی رہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ یہ چاہے تمہیں زخمی کرنے کی کوشش کریں مگر تم ان پر ایسا وار نہ کرنا کہ یہ زخمی ہوں ۔ ''
موسیٰ: '' تمہاری خوشی کے لیے مجھے یہ بھی منظور ہے۔ ''
ارسلان:'' اچھا تو میں اپنی تلوار لے آؤں ۔ ''
موسیٰ:'' جائیے لے آئیے۔ جب تک میں تلوار کے سوا اپنا تمام اسلحہ کھول کے الگ رکھے دیتا ہوں ۔ ''
ارسلان: ''مگر آپ گھوڑے پر ہیں اور میں پاپیادہ ہوں ۔ ''
موسیٰ : ''میں بھی گھوڑے سے اتر کے پیدل مقابلہ کروں گا بلکہ میں تو یہاں تک تیار ہوں کہ آپ جس اسلحہ یا چیز کو طلب کریں لا کے حاضر کر دوں ۔ ''
ارسلان:'' مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ '' یہ کہہ کے وہ غار میں سے اپنی تلوار نکال لایا۔ موسیٰ نے اپنے ہتھیار کھول کے الگ رکھ دیے اور دونوں سامنے کھڑے ہو کے پینترے بدلنے لگے۔ پینترے بدلتے بدلتے تلوار چلنے لگی۔ ارسلان نے نہایت ہی طیش و جوش کے ساتھ جان پر کھیل کے موسی پر صدہا وار کر ڈالے جن کو موسی برابر بچاتا یا اپنی ڈھال پر لیتا رہا۔ اپنی طرف سے اس نے کوئی وار نہیں کیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ بھر اسی طرح سے لڑائی ہوتی رہی آخر ارسلان کو شمشیر زنی کی مسلسل محنت سے پسینہ آگیا اور اس کے ہاتھ کے وار تھکن کی کمزوری دکھائے دینے لگی مگر موسیٰ پر بوجہ اس کے کہ وہ فقط حربوں کو روکتا رہا تھا خستگی کا مطلق اثر نہ تھا۔ حریف کو پسینے پسینے دیکھ کر اس نے کہا: '' اب اگر آپ تھک گئے ہوں تو دم بھر سستا لیں اپنی لعبت چین کی خوشی پوری کرنے کے لیے میں اس کا موقع بھی دینے کو تیار ہوں ۔ '' اس فقرہ سے ارسلان کو نہایت طیش آیا اور اس نے جھکائی دے کے ایک نہایت ہی زبردست ہاتھ موسیٰ کی کمر پر مارا۔ موسیٰ نے پھرتی سے اس کو ڈھال پر روک کے اپنی تلوار کھینچ کے ایسے پیچ کے انداز سے درمیان میں ڈالی کہ ارسلان کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کے الگ جا پڑی اور دہشت زدگی کے ساتھ جھپٹا کہ تلوار اٹھا لائے مگر موسیٰ نے تلوار پھینک کے بڑھ کے اس کی کمر پکڑ لی اور کہا:'' اب ہتھیاروں سے لڑنے کی ضرورت نہیں تھوڑا زور بھی ہو جائے ارسلان پلٹ کے اس سے لپٹ گیا اور کشتی ہونے لگی۔ کشتی میں بھی موسیٰ بڑی دیر تک اسے تھکاتا رہا یہاں تک کہ وہ سر سے پاؤں تک پسینہ میں شرابور ہو گیا۔ اب اسے نہایت ہی خستہ دیکھ کے موسیٰ نے کہا: '' آپ پھر بہت تھک گئے ہیں مگر اب کے میں سستانے کا موقع نہ دوں گا۔ '' ارسلان موسیٰ کے اس فقرہ کا جواب سوچ رہا تھا کہ اس نے ایک دفعہ الا اللہ کہہ کر اسے زمین سے اٹھا یا اور پٹک کے سینہ پر چڑھ بیٹھا اور کہا: '' اب تو آپ کو اپنی ہار تسلیم ہے یا اب بھی نہیں ۔ ''
ارسلان: '' ہاں تسلیم ہے مگر اپنے پیغمبر کا واسطہ مجھے زندہ نہ چھوڑو۔ میں خاموش لیٹا ہوں تلوار اٹھا لاؤ اور میرا سینہ چا ک کر کے اس حرمان نصیبی کی زندگی کا خاتمہ کر دو۔ ''
موسی:'' یہ نہیں ہو سکتا۔ ہوتا یہی مگر افسوس پیاری نوشین کی مرضی نہیں لیکن یہ نہ سمجھنا کہ اب میں چھوڑ دوں گا۔ '' یہ کہتے ہی اپنا عمامہ کھول کے اس کی مشکیں کسیں اور خوب مضبوطی سے باندھ کے سینہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر اسے نوشین کے قریب لا کے کھڑا کر دیا اور کہا: '' ان قدموں کے آگے زمین بوس ہو اور اس پری جمال کے قدم چوم جس کا شوہر ہونے کے بجائے تو ایک ادنی اور ذلیل غلام ہے۔ '' اس کے بعد اس نے نوشین کی طرف توجہ کی اور کہا:'' پیاری لعبت چین! لو دیکھ لو اس کے جسم میں کہیں زخم نہیں آیا اور میں نے بغیر زخمی کیے اور بغیر اس کے کہ اسے ذرا بھی چوٹ آئی ہو آپ کی خدمت میں باندھ کے حاضر کر دیا۔ '' نوشین اور قتلق خانم اس لڑائی کو اول سے آخر تک حیرت اور دلچسپی سے دیکھتی رہی تھیں اور نوشین نے موسیٰ سے کہا: '' میں شکر گزار ہوں کہ میرے کہنے سے تم نے ایسی شریفانہ بہادری دکھا دی اور مجھے اس پر فخر اور ناز ہے کہ جس بہادر نے مجھے جیتا وہ دنیا بھر میں اپنا مقابل نہیں رکھتا لیکن اب میرا جی یہ چاہتا ہے کہ ارسلان کو چھوڑ دو اور آزادی دو کہ اپنے گھر میں جا کے خاموش بیٹھیں اور جب تک زندہ ہیں دل میں قائل رہیں کہ تمہارے آزاد شدہ غلام ہیں ۔ '' ارسلان:'' نہیں مجھے چھوڑو نہیں بلکہ اسی وقت قتل کر ڈالو۔ یہ غلامی مجھ سے نہیں برداشت ہو سکتی۔ میں دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا اور سچ کہتا ہوں کہ اگر زندہ چھوڑ دیا تو تم کو آزار پہنچاؤں گا۔ قوت سے کام نہ نکلا تو مکاری و فریب سے کام لوں گا اور تمہارا کام تمام کر دوں گا۔ ''
موسیٰ:'' تم جو جی چاہے کرو۔ ہو گا وہی جو ماہ و ش نوشین کی مرضی ہے تم شوق سے دشمنی کرو میں اس کی پروا نہیں کرتا اور جس طرح آج زیر کیا ہے اسی طرح ہمیشہ زیر کروں گا۔ '' یہ کہہ کر موسیٰ نے ارسلان کے ہاتھ کھول دیے اور کہا: '' جا نکل اور خبردار پھر یہاں نہ آنا۔ ''
اسیر شدہ دشمن کو آزاد کر کے موسی اپنی دونوں مہ جبین اور دل رباؤں کے ساتھ قلعہ میں آیا اور اس کو اس کی مطلق خبر نہ تھی کہ قتلق خانم ارسلان کے ساتھ بھاگ جانے پر تیار تھی اور اس کے دل میں بے وفائی کے جذبات بھرے ہوئے ہیں بلکہ اسے قتلق پر شہزادی نوشین سے زیادہ بھروسہ تھا۔ اس لیے کہ اس کا پہلا سابقہ اسی سے تھا اور وہ بہ نسبت نوشین کے زیادہ اچھی عربی بولنے لگی تھی۔ تاہم اس موقع پر چونکہ نوشین ہی نے اس کو ارسلان سے ملایا اور ساری سرگزشت بیان کی تھی اس لے وہ اس کا نہایت ہی شکر گزار تھا چنانچہ قلعہ میں پہنچ کے اطمینان سے بیٹھتے ہی اس نے کہا: '' تمہارا شکریہ ادا کرنا میرے امکان سے باہر ہے اور آج مجھے یقین آیا کہ تم دل سے میری ہمدرد محبوبہ اور میری وفادار مہ جبین معشوقہ ہو۔ تمہارے امکان میں تھا کہ ارسلان کے ساتھ چلی جاتیں اگر تم ایسا ارادہ کرتیں تو کوئی تمہیں روک نہ سکتا تھا مگر تم دل سے میری محبت کی قدر دان تھیں اس لیے اسکے چکر میں نہیں آئیں ۔ ''
نوشین:'' میں نے تو ارسلان سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اب تمہارا مجھ پر کوئی حق نہیں رہا۔ میں جس کے لیے تھی اسی کی ہو گئی اور اس نے جائز طریقے سے مجھے حاصل کیا مگر افسوس انہوں نے کسی طرح نہ مانا بلکہ یہ کہا کہ موسیٰ فقط اپنے گھوڑے کی تیزی کی وجہ سے جیت لے گئے ورنہ سپہ گری و شجاعت میں وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان کے اس زعم باطل کے مٹانے کے لیے مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ دوبارہ مقابلہ کرا کے تمہارے حق کو ثابت اور انہیں قائل کر دوں ۔ ''
موسی :'' تم نے بہت اچھا کیا اور اس کا میں تمہاری وفاداری سے زیادہ شکر گزار ہوں ۔ ''
موسیٰ ابھی باتیں کر ہی رہا تھا کہ اس کی رومیہ کنیز جلاجل دوڑتی ہوئی آئی اور ادب سے عرض کیا کہ آپ کے تینوں بھائی نوح، سلیمان اور خازم اور آپ کے بھتیجے نضر بن سلیمان اور آپ کے والد کے جانثار دوست ہلال ضبی بہت سے بہادر ہمراہیوں کے ساتھ آئے ہیں ۔ ''
موسیٰ:'' (خوش ہو کے) یہ لوگ ابھی آئے ہیں یا میرے آنے سے پہلے آچکے تھے؟''
جلاجل:'' حضور ابھی ابھی آئے ہیں اور اپنا اسباب اونٹوں سے اتار رہے ہیں ۔ ''
یہ مژدہ سنتے ہی موسیٰ لپک کے باہر آ گیا۔ بڑی گرمجوشی کے ساتھ ان لوگوں سے ملا۔ چھوٹے بھائیوں اور بھتیجے کو گلے لگایا۔ ان کی پیشانیاں چومیں مگر سب کو چپ چپ اور پریشان خاطر دیکھ کر پوچھا :'' خیریت تو ہے؟ آپ سب مجھے غمگین نظر آتے ہیں ۔ ''
نوح:'' بے شک ہم حزین و غمگین ہیں اور نہ ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے اس لیے کہ ہمارے والد غاصب و ظالم اور بے دین و بد عقیدہ دغا بازوں اور خاص اپنے بڑھائے ہوئے نمک حرام دوستوں کے ہاتھ سے شہید ہو گئے۔ ''
موسیٰ: '' (چونک کر ایک آہ کے ساتھ) شہید ہو گئے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب نہ ایسا بہادر ہو گا اور نہ ایسا صادق العقیدہ سردار!''
اس کے بعد حسرت و اندوہ کے ساتھ اس نے بھائیوں اور دوستوں کو دیوان خانہ میں لا کے بٹھایا۔ ان کے بیچ میں خود بیٹھا اور کہا:'' اب تفصیل سے بیان کیجیے کہ کیا واقعات پیش آئے کہ والد سا محترم اور دین دار بہادر دنیا سے اٹھ گیا؟''
ہلال ضبی:'' اس مصیبت کا حال مجھ سے سنیے۔ اس لیے کہ سب واقعات میرے سامنے گزرے ہیں ۔ جن سے آپ کے بھائیوں کو بھی میں نے ہی مطلع کیا ہے۔ ہوا یہ کہ مروان کے بعد جب اس کا بیٹا عبدالملک دمشق میں مدعی خلافت ہوا تو سارے بنی امیہ کی سرگرمی و مستعدی سے اس کی قوت روز بروز بڑھنے لگی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا زور ٹوٹنا شروع ہو گیا۔ زبیر مکہ معظمہ میں بیٹھے فقط دعوی کرتے رہے۔ انہوں نے نہ کوئی مستقل فوج مقرر کی نہ مختلف بلاد و امصار کے والیوں کو انعام و اکرام کے وعدے کر کے اپنا طرفدار بنایا۔ بس خیال کیا کہ میں حق پر ہوں اور حق ضرور غالب آئے گا۔ برخلاف اس کے عبدالملک نے تمام ملکوں کے والیوں سے سازشیں شروع کر دیں انہیں بڑے بڑے لالچ دلائے اور چپکے ہی چپکے ہر ملک میں اپنے طرفدار پیدا کر لیے۔ یہ دیکھ کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فقط اتنا کیا کہ اپنے بھائی مصعب کو عراق کا والی مقرر کر کے بھیجا۔ وہ عراق کا انتظام کر رہے تھے کہ عبدالملک بن مروان ایک زبردست لشکر کے ساتھ ان پر چڑھ آیا۔ مصعب بھی اپنے بہادروں کو جمع کر کے بڑھے۔ راستہ میں ایک منزل پر سخت لڑائی ہوئی جس میں مصعب شہید ہوئے اور سارے عراق پر عبدالملک نے قبضہ کر لیا۔ یہ 71 ہجری کا واقعہ ہے اور غالباً آپ سن چکے ہوں گے۔ ''
موسی:'' ہاں میں نے سنا تھا اور اسی وقت خیال کر لیا تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی قوت کا خاتمہ ہو گیا اور خراسان اس قابل نہیں ہے کہ والد اسے چھوڑ کے جائیں اور ان کی مدد کریں ۔ ''
ھلال:'' اور وہی ہوا۔ جو آپ کا خیال تھا۔ عراق پر قبضہ ہوتے ہی فارس و خراسان اور تمام مشرقی ممالک کا راستہ عبدالملک کے لیے کھل گیا اور اس نے یہاں کے والیوں کو انعام و اکرام اور ترقی و سرفرازی کے وعدے کر کے لانا شروع کیا چنانچہ سوادہ ابن اشنم نمیری کو اپنی ایک لمبی چوڑی تحریر دے کر آپ کے والد کے پاس بھیجا۔ اس تحریر میں وعدہ تھا کہ اگر تم میری بیعت قبول کر کے میری طرفداری اختیار کرو گے تو مسلسل سات سال تک تمہی خراسان کے والی رکھے جاؤ گے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ انعام و اکرام سے میں سرفراز کروں گا۔ آپ کے والد مرحوم کو بنی امیہ سے جو دشمنی تھی آپ جانتے ہی ہیں ۔ انہیں وہ تحریر پڑھ کے بڑا غصہ آیا اور سوادہ کی صورت سے اس لیے نفرت ہو گئی کہ اس نے بدمعاش اور نااہل غاصب خلافت کی طرفداری کیوں اختیار کی۔ اس سے کہا:'' اگر مجھے بنی سلیم اور بنی عامرہ میں بدنام ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو تم میرے ہاتھ سے جیتے جی بچ کے نہ جاتے لیکن اتنی سزا ضرور دوں گا کہ یہ تحریر جو تم لائے ہو اس کو میرے سامنے بیٹھ کے نگلو۔ چمڑے پر وہ تحریر نگلنا آسان نہ تھا مگر سوادہ نے جان کے خوف سے انگلیوں سے ٹھیل ٹھیل کے نگلی اور یہ پیام لے کے واپس گیا کہ خراسان ایک غاصب باغی کے آگے سر نہیں جھکا سکتا۔ ''
اس کے بعد دوسری تحریر عبدالملک نے بکیر بن وشاح کے نام بھیجی۔ جس کو آپ ہی کے والد نے اپنی طرف سے مرو کا حاکم مقرر کیا تھا۔ اس سے بھی ولایت خراسان کا وعدہ کیا گیا۔ بکیر دل میں سمجھ گیا کہ اب عبدالملک ہی غالب آنے والا ہے۔ اس لیے فوراً دغا بازی اختیار کر کے عبدالملک کا دوست بن گیا اس کی بیعت قبول کر لی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت اور آپ کے والد کی اطاعت چھوڑ دی اور عام اہل مرو سے عبدالملک کی بیعت لینے لگا۔ مرو والوں کو اس سے کیا سروکار کہ کون خلافت کا مستحق ہے اور کون نہیں ۔ فوراً اس کے موافق ہو کر عبدالملک کا دم بھرنے لگے۔ یہ حال عبداللہ بن خازم کو معلوم ہوا تو ڈرے کہ ایسا نہ ہو کہ بکیر اہل مرو کا ایک عظیم لشکر لیکر نیشا پور میں آ پہنچے اور نیشا پور کے تمیمی حاکم بخیر بن ورقا کو بھی ملا لے۔ جس کے مقابلہ میں آپ کے والد پڑے ہوئے تھے اور اس سے لڑائی ٹھنی ہوئی تھی۔ اس اندیشہ سے انہوں نے بخیر کو اس کے حال پر چھوڑا اور مرو کی طرف چلے کہ بکیر کو دغا بازی کی سزا دیں ۔ بخیر نے ان کی روانگی سنی تو اپنا لشکر لے کے وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل کھڑا ہوا تاکہ ان کو راستہ ہی میں روک کے مقابلہ کرے۔ مرو پہنچنے کو آٹھ فرسخ باقی تھے کہ بخیر نے انہیں آ لیا اور فوراً لڑائی چھڑ گئی۔ دونوں لشکر ایک دوسرے پر جا پڑے اور ہنگامہ حشر نمودار ہو گیا۔ آپ کے والد کو اس لڑائی میں بڑا طیش تھا اور ابتدا ہی سے وہ جان دینے والوں کی سی لڑائی لڑ رہے تھے۔ جدھر دشمنوں کو پامردی سے جم کے لڑتے دیکھتے ان پر اکیلے جا پڑتے اور پریشان کر دیتے انہیں اس طرح جان پر کھیل کے حملہ کرتے دیکھ کے ایک موقع پر جبکہ وہ بے شمار اعداد کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے اور دو طرفہ لوگوں کو مار مار کے گرا رہے تھے۔ بحرین ورقا اس کے قوت بازو عمار بن عبدالعزیز اور اس کے غلام وکیع بن عمرو افریقی نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور برچھوں سے حربے کرنے لگے۔ پہلے بہت دیر تک وہ اپنے آپ کو بچاتے اور سنبھالتے رہے مگر کب تک؟ کئی نیزے کاری پڑ گئے اور جب اتنا خون نکل گیا کہ طاقت نے جواب دے دیا تو تیورا کے گھوڑے کی پیٹھ سے گرے ساتھ ہی وکیع گھوڑے سے اچک کے ان کے سینہ پر چڑھ بیٹھا۔ اپنے سینہ پر ایک حبشی غلام کو دیکھ کے انہیں مرتے وقت بھی بڑا طیش آیا منہ میں کف آگیا اور باوجود کمزوری کے سر اٹھا کے اس کے منہ پر تھوک دیا اور کہا:'' کم بخت! خدا تجھ پر لعنت کرے اپنے بھائی کے انتقام میں آل مضر کے زبردست مینڈھے کو ذبح کر رہا ہے۔ '' اب وکیع نے ان کا سینہ چاک کر ڈالا۔ خنجر کو دل میں تیرا دیا اور ان کی روح جسم خاکی کو چھوڑ کے عالم بالا کو سدھاری۔
یہ واقعات سن کر موسیٰ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ دیر تک روتا رہا اور آخر کر لیجے پر صبر کی سل رکھ کے بولا:'' خدا رحمت کرے۔ وہ حق پر تھے اور حق ہی پر ان کی شہادت ہوئی۔ وہ بہت اچھے گئے اور پر فتن زمانے کو نہ دیکھیں گے۔
ھلال:'' جی ہاں ! یہ ایسا ہی زمانہ ہے کہ خدا ہم سب کو اٹھا لے تو اچھا ہے۔ میرے آقا عبداللہ بن خازم کی شہادت سے چھ ہی مہینے پہلے خود عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ کے اندر محصور کر کے اور خاص خانہ کعبہ پر منجیقوں سے سنگباری کر کے شہید کر دیے گئے۔ ''
موسیٰ: '' (بے تحاشا نقرہ واسقاہ بلند کر کے) آہ! وہ بھی شہید ہو گئے اور خانہ کعبہ کی ایسی بے حرمتی ہوئی اس کا حال میں نے بالکل نہیں سنا۔ ''
نوح: (موسی کا بھائی)'' انہوں نے تو ایسی بہادری، بے جگری اور سچائی کے ساتھ جان دی کہ ان کی شہادت اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسما رضی اللہ عنہ ذات النطاقین کا صبر و استقلال قیامت تک یادگار رہے گا۔ سنتا ہوں کہ جس وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ میدان شہادت میں آنے کے لیے خود زرہ پہن کے اور اسلحہ سے آراستہ ہو کے اپنی والدہ کے سامنے گئے ہیں تو انہوں نے عجیب و غریب ضبط و تحمل سے انہیں رخصت کیا۔ فاسق دشمنوں کی اطاعت سے روکا اور یہ کہہ کے خود زرہ بھی اتروا ڈالی کہ لڑائی میں خدا پر بھروسہ کرو۔ یہ چیزیں موت سے بچاتی نہیں بلکہ موت کی تکلیف کو بڑھاتی ہیں ۔ پھر ان کی شہادت کے بعد جب عبدالملک کے سپہ سالار حجاج بن یوسف نے جناب اسما رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جا کے پوچھا کہ میں نے تمہارے بیٹے کے ساتھ کیسا سلوک کیا تو انہوں نے نہایت دلیرانہ پامردی سے جواب دیا۔ تو نے ایسا سلوک کیا کہ اس کی دنیا خراب کی اور اپنی عقبی خراب کی۔ ''
موسیٰ:'' اللہ اکبر! یہ ہے سچی بہادری و مردانگی۔ ''
ھلال ضبی:'' لیکن یہ بھی تو سن لیجیے کہ اس معاملہ میں آپ کے والد نے کیا کیا۔ عبدالملک نے ان کو تکلیف دینے اور ستانے کے لیے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا سر کٹوا کے ان کے پاس بھیجا تھا کہ لو اپنے امام اور خلیفہ کی زیارت کر لو۔ ایک زبردست مجتہد صحابی اور عامل احادیث نبوی کا سر دیکھ کے وہ بیتاب ہو گئے۔ زار و قطار روئے اور اشک بار آنکھوں کو پونچھ کے مجھ سے کہا:'' اب دنیا رہنے کے قابل نہیں ہے۔ '' بس اسی گھڑی سے ان کا دل پست ہو گیا تھا اور دنیا کی کسی چیز میں مزہ نہ آتا تھا۔ قسم کھائی کہ چاہے کچھ ہو میں ظالم عبدالملک کی بیعت نہ کروں گا۔ پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو گلاب میں دھویا۔ خوب صاف کیا۔ خوشبو لگا کے معطر و معنبر کیا اور مدینہ طیبہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے اعزہ کے پاس بھیج دیا کہ اسے تعظیم سے جوار رسول اللہ رضی اللہ عنہ میں دفن کر دیں ۔ ''
موسیٰ:'' اب والد کے بعد خراسان کی ولات ان کے قاتل بحیر بن ورقا کو ملی ہو گی۔ ''
ھلال:'' نہیں یہ بھی نہیں ہوا بحیر کو اس بد عہدی وفسق کا معاوضہ دنیا میں کچھ نہیں ملا۔ مرنے کے بعد فقط جہنم میں ملے گا۔ دنیا میں وہ عجیب طریقے سے محروم القسمت رہ گیا۔ اس نے آپ کے والد کو شہید کرتے ہی مژدہ فتح عبدالملک کو لکھا۔ اس کے قاصد کے روانہ ہونے کے دوسرے دن بکیر بن وشاح کو مرو میں اس واقعہ کی خبر ملی تو فوراً اپنی فوج کے ساتھ میدان قتل گاہ میں آ پہنچا۔ عبداللہ بن خازم کی لاش پر قبضہ کر کے ان کا سر کاٹا اور اسے اپنے ایلچی کے ساتھ عبدالملک کے پاس بھیجنے لگا۔ بحیر نے مزاحمت کی اور کہا یہ میری کار گزاری ہے۔ آپ کو دخل دینے کی کوئی وجہ نہیں ۔ اس پر برافروختہ ہو کے بکیر نے سند ولایت خراسان تمام لوگوں کے سامنے پیش کر دی اور والی خراسان کی حیثیت سے حکم دیا کہ بحیر کو گرفتار کر لیا جائے۔ لوگوں نے فوراً اس کو باندھ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ اسے مرو کے قید خانہ میں روانہ کر کے بکیر نے فوراً ابن خازم کا سرنامہ مبارکباد اور اظہار کارگزاری کے ساتھ عبدالملک کے پاس بھیجا۔ دمشق میں جس دن بحیر کا ایلچی پہنچا اس کے دوسرے دن بکیر کا ایلچی عرضداشت اور ابن خازم کا سرلیے ہوئے پہنچا۔ یہ آخری تحریر پا کے عبدالملک سخت متعجب ہوا اور بحیر کے قاصد کو بلا کے کیفیت دریافت کی۔ اس نے ادب سے عرض کیا کہ میں جس وقت چلا ہوں اس وقت تو بکیر کا پتہ نہ تھا اور یہ بھی عرض کر سکتا ہوں کہ عبداللہ بن خازم میرے سامنے ہی مارا گیا۔ پھر اس کے بعد میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا اور کیا واقعات پیش آئے۔ بہرحال انجام یہ ہوا کہ بحیر کو کچھ نہ ملا اور بکیر خراسان کا والی و حاکم قرار پاگیا۔ ''
موسیٰ:'' افسوس میری ساری امیدیں خاک میں مل گئیں ۔ میرے دل میں تھی کہ والد کو جب عرب حریفوں سے فراغت ہو گی اس وقت ان کی مدد سے سارے ترکستان اور منگولستان کو فتح کر کے ارض چین تک پہنچ جاؤں گا لیکن قسمت نے معاملہ پلٹ دیا اور اب شاید یہاں بھی مجھے اطمینان سے بیٹھنا دشوار ہو جائے گا۔ ''
ھلال:'' اس کی ضرور کوشش کی جائے گی کہ آپ عبدالملک کی بیعت قبول کر لیں اور اگر آپ نے یہ منظور کیا تو پھر خلافت دمشق اور ولایت خراسان سے آپ کوایسی ہی مدد مل سکے گی جیسی کہ آپ اپنے والد مرحوم سے چاہتے تھے۔ ''
موسیٰ:'' یہ قیامت تک نہ ہو گا جس شخص نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ایسے جلیل القدر صحابی کو شہید کیا جس کے مکر و فریب سے والد مرحوم نے دنیا چھوڑ دی اس کی اطاعت میں کروں نہ ممکن ہے۔ ''
نوح:'' تو پھر سمجھ لیجیے کہ آپ کو کبھی اطمینان نہ نصب ہو گا۔ ''
ھلال:'' لیکن مجھے یقین ہے کہ بکیر ولایت خراسان پر پورا قبضہ پانے اور تمام شہروں کے مطیع بنانے میں اتنی فرصت نہ پائے گا کہ آپ کی طرف توجہ کرے اور آپ کے لیے کافی موقع ہے کہ اپنی قوت بڑھا لیں ۔ اپنے قلعہ کو مضبوط کریں اور بہت سے بہادر اور آزمودہ کارسپہ گران عرب کو اپنے پاس جمع کر لیں اور جب آپ کی قوت بڑھ جائے گی تو پھر آپ کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ '' موسیٰ:'' میں یہی کروں گا اور انشاء اللہ بہت جلد اس قابل ہو جاؤں گا کہ اپنے والد کے قاتلوں سے ان کے خون کا انتقام لوں ۔ لیکن ایک بڑی دشواری ہے۔ بلاد ترک کے بہت سے سردار اور حاکم میرے دشمن ہو رہے ہیں ۔ خصوصاً میری محبوبہ نازنین لعبت چین اور میری دوسری معشوقہ قتلق خانم کی وجہ سے ارسلان اور طرخون میرے خون کے پیاسے ہیں ۔ ابھی تک انہیں خوف تھا کہ خلافت اسلامیہ اور ولایت خراسان میری مدد کے لیے تیار ہے اور انہوں نے ذرا بھی مخالفت کی تو عساکر اسلام خراسان سے روانہ ہو کے انہیں پیس ڈالیں گے لیکن اب ان کو جیسے ہی خبر ہو گی کہ والد شہید ہوئے اور مسلمان سلطنت میری دشمن اور میرے درپے آزار ہے تو ان سب کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ خیر دیکھا جائے گا میں کسی سے دبنے والا نہیں ہوں اور ایسے آزاد مقام میں بیٹھا ہوں کہ عبدالملک اور بکیر مجھ سے کسی قسم کا تعرض نہیں کر سکتے۔ میں نے ان کے ملک کا کوئی حصہ نہیں دبایا نہ ان سے بغاوت و سرکشی کی ہے بلکہ اپنے لیے ان کی قلمرو کے باہر نئی جگہ نکال لی ہے جس پر ان کا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ ''
اب شام ہو گئی تھی ان سب نئے مہمانوں اور عزیز بھائیوں کے رہنے کا بندوبست کر کے وہ اپنے قصر میں جا سویا۔
؟؟؟؟
اب موسیٰ بن عبداللہ بن خازم اپنی قوت کو روز بروز بڑھاتا جاتا تھا۔ قلعہ کی مضبوطی کو یوماً فیوماً ترقی دیتا۔ اسلحہ، زرہ، بکتر اچھی اچھی منجیقوں اور ہر قسم کے سامان جنگ کو فراہم کرتا اور اس کے ساتھ اس کے علم کے نیچے بہادران عرب کا بھی اچھا مجمع جمع ہوتا جاتا۔ اول تو اس کے باپ کے پرانے اور بہادر وجان باز رفقا خراسان کو چھوڑ چھوڑ کے اس کے پاس چلے آ رہے تھے جو سنتا کہ اب ان کے قدیم محسن کا بہادر فرزند ترمذ میں بیٹھا ناموری پیدا کر رہا ہے تو گھر بار چھوڑ کے ا دھر کا رخ کر دیتا۔ اس کے علاوہ اکثر بہادران عرب بھی اس کی پناہ ڈھونڈتے جو بنی امیہ کی حکومت سے ناراض تھے۔ اور اس دن کا انتظار کر رہے تھے جب کوئی ہاشمی یا کوئی متقی و پرہیزگار شخص علم مخالفت بلند کرے گا، ایسے لوگ بھی ہر طرف سے جان بچا کے اس سر زمین میں آتے اور موسیٰ کے وفادار وجان نثار دوست بن جاتے۔
اس کی عظمت و قوت کی شہرت ہوئی تو سرداران توران اور ملوک ترک و تاتار بھی اس کا لوہا ماننے لگے۔ نہ طرخون کو حملہ کرنے کا حوصلہ ہوتا نہ اس کے بیٹے ارسلان کو مکر و فریب کا جال پھیلانے کی جرات ہوتی اور نہ شاہ کاشغر کی اتنی ہمت ہوتی کہ اپنی بیٹی نوشین کو آ کے اس سے چھینے بلکہ برخلاف اس کے خود موسیٰ بن خازم ناموران عرب کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کے ساتھ ترمذ سے نکل کے گرد و نواح اور قرب و جوار کے شہروں پر حملہ کرتا اور فتوحات حاصل کر کے دولت کے ساتھ اپنی فوجی اور جنگی قوت کو بڑھاتا رہتا۔
ہلال ضبی کے خیال کے مطابق حاکم خراسان بکیر بن وشاح کو کبھی اس کی طرف نظر اٹھا کے دیکھنے کی جرات نہ ہوئی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر میں نے ذرا بھی موسیٰ سے چھیڑ کی تو عبداللہ بن خازم کے طرفدار جو سارے خراسان میں پھیلے ہوئے ہیں سب شہروں میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور مجھے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ حاکم سمرقند طرخون نے اسے ابھارا اور اپنی طرف سے کافی مدد دینے کا وعدہ بھی کیا مگر بکیر ہمیشہ ٹالتا رہا۔
آخر 74 ہجری میں بکیر کا زمانہ ولایت خراسان ختم ہو گیا اور اس کی جگہ عبدالملک نے امیہ بن عبداللہ بن خالد نام کے ایک نامور قریشی شخص کو والی بنا کے بھیجا۔ ولی عہد سمر قند ارسلان خود ہی اپنے باپ طرخون کا سفیر بن کے اس نئے حاکم خراسان کی خدمت میں حاضر ہوا اور باپ کی طرف سے یہ پیام دیا کہ ہم سب فرماں روایان توران و ترکستان دولت اسلامیہ کے مطیع و منقاد اور والی خراسان کے وفادار دوست ہیں لیکن ان ممالک اسلام میں سطوت اسلام اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب موسیٰ بن عبداللہ بن خازم کی بیخ کنی کر دی جائے جو باغیانہ انداز سے روز بروز اپنی قوت بڑھاتا جاتا ہے اور خلافت کی مطلق پروا نہیں کرتا۔ اگر آپ نے اس فتنہ کو دور کر دیا تو ہم اور تمام شاہان ترک اپنی پوری قوت سے آپ کا ساتھ دیں گے اور کوشش کریں گے کہ ترکستان کا کوئی شہر خلافت دمشق کی اطاعت سے باہر نہ ہو۔
یہ فقرہ کارگر ہو گیا اور بنو امیہ نے فوراً بنو خزاعہ کے ایک نامور سردار کو سپہ سالار مقرر کر کے بڑا بھاری زبردست لشکر اس کے ہمراہ کیا اور حکم دیا کہ فوراً جا کے ترمذ پر حملہ کرو اور موسیٰ بن عبداللہ کو جو اپنے باپ کے انتقام میں خلافت کا دشمن ہو گیا ہے قتل کر کے اس کا سر کاٹ لاؤ۔ یہ لشکر عظیم ایک سیلاب کی طرح دوڑتا اور آندھی کی طرح خاک اڑاتا ہوا دریائے جیحون کے پار اترا اور روانگی کے ایک مہینہ بعد ترمذ پہنچ کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔
ادھر اہل ترمذ نے جو دیکھا کہ موسیٰ کی بیخ کنی کے لیے بہت بڑا عربی لشکر آگیا ہے تو فوراً چاروں طرف دوڑنے اور ملوک ترکستان سے درخواست کرنے لگے کہ ایسے وقت میں آپ سب صاحبوں کو ہماری مدد کرنی چاہیے اگر آپ نہ پہنچے تو وہ عرب جو موسیٰ کے دشمن ہیں ترمذ پر قبضہ کر لیں گے اور ہمارا شہر ہمیشہ کے لیے عربوں کی قلمرو میں شامل ہو جائے گا۔ آپ کے اس وقت پہنچنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ عرب فقط موسیٰ کو سزا دے کے چلے جائیں گے اور یہ علاقہ ان کی دستبرد سے بچ جائے گا۔ اس بات کو خوب یاد رکھیے کہ جیحون کے اس پار کسی ایک جگہ بھی مسلمانوں کا قدم جم گیا تو پھر سارا ترکستان ان کی حکومت میں شامل ہو جائے گا اور کسی شہر کی آزادی باقی نہ رہے گی۔ اہل ترمذ کی اس فریاد کو تمام شہر کے بادشاہوں نے سنا اور فوجیں لے کے ترمذ پر آ پہنچے اور اس کے باہر پڑاؤ ڈال دیا۔ اس سخت محاصرہ کو پورے دو ہفتے نہیں ہو رہے تھے کہ طرخون اور ارسلان بھی سمرقند کے لشکر کے ساتھ آ گئے اور سب کی متفقہ کوشش یہ تھی کہ موسیٰ کو زندہ نہ چھوڑیں اور اس کی قوت کو بالکل تباہ و برباد کر دیں ۔
جب ترکی و تورانی فوجوں کی بھی کثرت ہوئی تو محاصرہ کے لیے یہ انتظام کیا گیا کہ قلعہ کی مشرقی و شمالی سمتوں میں طرخون اور جملہ شاہان ترک کے لشکر تھے جن کا افسر اعلی طرخون اور سپہ سالار ارسلان تھا اور مغربی و جنوبی سمتوں پر عربی لشکر ٹھہرا جس کا سردار خزاعی شخص تھا۔ محاصرہ نے طول کھینچا اور حملہ آوروں کو قلعہ کا کوئی رخ کمزور نظر نہ آ سکا جدھر سے دھاوا کرتے۔ گو کہ یہ نہایت ہی قیامت خیز شورش اور ہمت شکن لڑائی تھی مگر موسیٰ نے اس کی مطلق پروا نہ کی۔ اس نے معمول کر لیا تھا کہ ہر روز قلعہ سے نکل کے دن کے نصف اول میں یعنی صبح سے دوپہر تک خزاعی کے لشکر عرب پر حملہ کرتا اور نصف آخر میں یعنی دوپہر سے شام تک ترکوں سے مقابلہ کرتا۔ لڑائی کے وقت قلعہ سے زبردست منجیقیں جو مناسب موقعوں پر پہلے سے لگا رکھی گئی تھیں دشمنوں پر من من بھر کے پتھر پھینکتیں اور بہت سے حملہ آوروں کو کچل کے فنا کر دیتیں ۔
تین مہینے تک مسلسل لڑائیاں ہوتی رہیں جن میں حملہ اوروں نے بہت کچھ نقصان اٹھایا۔ موسیٰ نے غلہ اور خوراک کا سامان بھی اتنا فراہم کر لیا تھا کہ باہر سے رسد بند ہونے کی پروا نہ تھی تاہم اس نے چاہا کہ لڑائی کو کسی طرح ختم کر دے اور یہ خونزیری موقوف ہو۔ چنانچہ اپنے ہوشیار سرداروں سے مشورہ کے طور پر کہا :''میرا ارادہ ہے کہ خزاعی کے لشکر پر شب خون ماروں اور ایک ہی رات میں اس کی فوج کو اس قدر تباہ کر دوں کہ پھر اسے مقابلہ کی جرات نہ ہو۔ '' اور سب سرداروں نے تو اس تجویز سے پورا پورا اتفاق کر لیا مگر عمر و بن خالد بن حصین کلابی نے کہا: ''شب خون کی تجویز سے مجھے اتفاق ہے مگر اس کے خلاف ہوں کہ وہ خزاعی کے عربی لشکر پر ہو۔ اہل عرب بالعموم زیادہ ہوشیار اور محتاط ہوتے ہیں اور اکثر رات کو زیادہ بسالت و شجاعت اور جوش و خروش سے لڑتے ہیں لہذا بجائے عربوں کے یہ شب خون ترکوں پر ہو تو زیادہ مناسب ہو گا ان کو حملہ کر کے ایک ہی شب خون میں تباہ کر دیں گے اور میرے خیال میں ہمیں پہلے ترکوں کو ہی تباہ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اس رائے کو موسیٰ نے پسند کیا اور اسی صحبت میں شب خون کے لیے ایک خاص رات مقرر ہو گئی جس کی سوا ان افسروں کے جو موجود تھے اور کسی کو خبر نہیں کی گئی اور خاموشی کے ساتھ شب خون مارنے کی تیاریاں ہونے لگیں ۔
شب مقررہ کو آدھی رات کے وقت موسیٰ نہایت ہی خاموشی سے چار سو بہادر جنگجو ساتھ لے کے قلعہ سے نکلا اور ایک بلند ٹیلے پر جا پہنچا جس کے نیچے ترکوں اور تورانیوں کا پڑاؤ تھا۔ یہاں پہنچتے ہی اپنی فوج کو سو سو بہادروں کی چار ٹکڑیوں میں تقسیم کر کے چاروں طرف کمین گاہوں میں پھیلا دیا اور سب کو سمجھا دیا کہ جیسے ہی نعرہ اللہ اکبر بلند کروں تم سب تکبیر کے نعرے لگائے ہوئے نکل کے دشمنوں پر جا پڑنا۔ اس کے بعد عمرو بن خالد کو چار سو آدمی دے کے حکم دیا کہ تم بھی میرے پیچھے پیچھے لگے رہنا اور ہمارے نعروں اور ہماری تکبیر کی آواز سننے کے تھوڑے ہی دیر بعد تم بھی حملہ کر دینا اور اسی شان سے کہ ہر شخص اللہ اکبر کے نعرے لگا رہا ہو۔ یہ سب انتظام خاموشی کے ساتھ ہو گیا اور جیسے ہی دو ثلث رات گزر گئی موسیٰ کی تکبیر پر سب فوجوں نے اپنے اپنے مقاموں سے نکل کے حملہ کیا۔ ان کی تکبیروں کے نعروں سے دشت و جبل گونج اٹھے اور عربی تلواریں ترکوں پر برسنے لگیں ۔ ترک سراسیمہ و مضطر اٹھے اور گھبرا گھبرا کے چاروں طرف دیکھ رہے تھے کہ کدھر حملہ کریں اور کس سے لڑیں ۔ تکبیر کی آو ازیں ہر سمت سے قریب آتی جاتی تھیں اور زیادہ پریشان کر رہی تھیں ۔ اندھیرے میں اپنا پرایا معلوم نہ ہوتا تھا، وہ اپنی جان بچانے کے لیے بے دیکھے چاروں طرف تلواروں کے ہاتھ مارنے لگے۔ نہ یہ خبر تھی کہ کس سے لڑ رہے ہیں اور نہ یہ جانتے تھے کہ پاس والا اپنا ہے یا پرایا۔ اب تک یونہی برابر تلوار چلتی رہی۔ جس میں زیادہ تر ترکی سپاہی اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں سے مارے گئے اور اسی بدحواسی میں بھاگنا شروع کیا مگر کسی طرف راستہ نہ ملتا تھا اس لیے جدھر کا رخ کرتے ادھر سے اللہ کا اکبر کا نعرہ سنتے اور گھبرا کے دوسری طرف پھر جاتے یہاں تک کہ صبح کی روشنی نمودار ہوئی اور ترکوں نے دیکھا کہ ہم چاروں طرف سے عربوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں نے اول سے آخر تک یہ کارروائی کی تھی کہ ترکوں کے گرد پھیل کے اور ان کے درمیان گھس کے فقط تکبیر کے نعرے بلند کرتے اور بجز مجبوری و ضرورت کے کسی پر حملہ نہ کرتے اس کا انجام یہ ہوا کہ ان کے فقط سولہ آدمی کام آئے اور تورانیوں کا آدھا لشکر خود اپنے لوگوں کے ہاتھ سے کٹ گیا۔ صبح ہوتے ہی عربوں نے ان کو ایک جانب راستہ دے دیا۔ جدھر سب کے سب بھاگے اور جو کچھ مال و دولت اور سامان جنگ ساتھ لائے تھے حملہ آوروں کے لیے چھوڑ گئے۔ جس کو موسیٰ کے سپاہی کمال مستعدی اور پھرتی کے ساتھ اٹھا کے قلعہ میں لے گئے اور ترکی حملہ اور ی کا خاتمہ ہو گیا۔
اس معرکہ میں دو تین سو ترکوں کو مسلمان گرفتار بھی کر لائے تھے۔ قلعہ کے اندر جب وہ موسیٰ کے سامنے لا کے پیش کیے گئے تو اس نے نہایت ہی حیرت سے دیکھا کہ ان میں طرخون کا بیٹا ارسلان بھی ہے اس کو دیکھ کے موسیٰ ہنسا اور کہا:'' تم پھر میرے پاس آ گئے۔ ''
ارسلان:'' میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ مجھے قتل کر ڈالو ورنہ یونہی ہمیشہ آیا کروں گا اور اتنی مہلت نہ دوں گا کہ اطمینان اور فارغ البالی کے ساتھ بیٹھ کے مہ جبین نوشین کے وصل سے لطف اٹھاؤ۔ ''
نا مکمل
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید