09:11    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

ناول / افسانے

3493 1 0 20

داستان مجاہد - نسیم حجازی

پیش لفظ

’’داستان مجاہد ‘‘ کی ابتدا ایک افسانے سے ہوئی۔ 1938ء میں  ’’مجاہد‘‘   کے عنوان سے ایک افسانے کا پس منظر تلاش کرنے کی غرض سے میں نے تاریخ اسلام اٹھائی۔ مجھے داستان ماضی کا ہر صفحہ ایک دل کش افسانہ نظر آیا۔ اس رنگین داستان کی جاذبیت نے افسانہ لکھنے کے ارادے کو تاریخ اسلام کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے شوق میں تبدیل کر دیا۔

ایک مدت تک میں یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ تاریخ اسلام کے کس واقعے کو اپنے افسانے کی زینت بناؤں۔ میں کسی ایک پھول کی تلاش میں ایک ایسی سرسبز و شاداب وادی میں پہنچ چکا تھا جس کی آغوش میں رنگا رنگ کے پھول مہک رہے تھے۔ دیر تک میری نگاہیں اس دلفریب وادی میں بھٹکتی رہیں اور میرے ہاتھ ایک پھول کے بعد دوسرے پھول کی طرف بڑھتے رہے۔ میں نے رنگا رنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا۔ آج میں ان پھولوں کو ایک گلدستے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔ اگر اس گلدستے کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا شوق اور اپنے خزاں رسیدہ چمن کو اس وادی کی طرح سرسبز و شاداب بنانے کی آرزو پیدا ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا۔

ادب برائے ادب کا نعرہ بلند کرنے والے حضرات شاید میری اس کاوش پر برہم ہوں لیکن میں ادب کو محض تضیع اوقات اور ذہنی انتشار کا ذریعہ بنانے کا قائل نہیں۔نظام کائنات میں ایک غایت درجہ کا توازن ہماری زندگی کے کسی فعل کو بے مقصد ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔

ہر قوم کی تعمیر نو میں اس کی تاریخ ایک اہم حصہ لیتی ہے۔ تاریخ ایک آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر قومیں اپنے ماضی و حال کا موازنہ کرتی ہیں اور یہی ماضی اور حال کا موازنہ ان کے مستقبل کا راستہ تیار کرتا رہتا ہے۔ ماضی کی یاد مستقبل کی امنگوں میں تبدیل ہو کر ایک قوم کے لیے ترقی کا زینہ بن سکتی ہے اور ماضی کے روشن زمانے پر بے علمی کے نقاب ڈالنے والی قوم کے لیے مستقبل کے راستے بھی تاریک ہو جاتے ہیں۔

مسلمانوں کے ماضی کی داستان دنیا کی تمام قوموں کی تاریخ سے زیادہ روشن ہے۔ اگر ہمارے نوجوان غفلت اور جہالت کے پردے اٹھا کر اس روشن زمانے کی معمولی سی جھلک بھی دیکھ سکیں تو مستقبل کے لیے انہیں ایک ایسی شاہراہ عمل نظر آئے گی جو کہکشاں سے زیادہ درخشاں ہے۔

موجودہ دور کے فنون لطیفہ نے کسی ٹھوس مضمون کا مطالعہ کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔ میرے نزدیک موجودہ ادب میں ناول اور افسانے کی مدد سے زندگی کے اہم اور ٹھوس مسائل کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

’’داستان مجاہد‘‘ ایک ناول ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا پہلا ناول فنی اعتبار سے کس حد تک کامیاب ہے لیکن جہاں تک دلچسپی کا تعلق ہے، میں اپنی ادبی صلاحیتوں سے زیادہ تاریخ اسلام کی رنگینی کو اس کا ضامن سمجھتا ہوں۔‘‘

کوئٹہ 10 دسمبر 1943

(نسیم حجازی)

صابرہ

سورج کئی بار مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہوا۔ چاند نے اپنے مہینے بھر کا سفر ہزاروں بار طے کیا۔ ستارے لاکھوں بار رات کی تاریکی میں چمکے اور صبح کی روشنی میں غائب ہو گئے۔ ابنِ آدم کے باغ میں کئی بار بہار اور خزاں نے اپنا اپنا رنگ جمایا۔ جنت سے نکالے ہوئے انسان کی نئی بستی ایک ایسی رزم گاہ تھی جس میں فطرت کے مختلف عناصر ہمیشہ بر سر پیکار رہے۔ طرح طرح کے انقلابات آئے۔ تہذیب و تمدن نے کئی چولے بدلے۔ ہزاروں قومیں قعر مذلت سے اٹھیں اور آندھی اور بگولہ بن کر ساری دنیا پر چھا گئیں۔ لیکن قانون فطرت میں کمال اور زوال کا رشتہ ایسا مضبوط ہے کہ کسی کو بھی ثبات نہیں۔ وہ قومیں جو تلواروں کے سائے میں فتح کے نقارے بجاتی ہوئی اٹھیں، طاؤس اور رباب کی تانوں میں مدہوش ہو کر سو گئیں۔ کوئی اس نیلگوں آسمان سے پوچھے جس کے وسیع سینے پر گزرے ہوئے زمانے کی ہزاروں داستانیں نقش ہیں جس نے قوموں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔ جس نے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کو تاج و تخت سے محروم ہو ہو کر گداؤں کا لباس پہنتے اور گداؤں کو اپنے سر پر تاج رکھتے دیکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان داستانوں کے بار بار دہرائے جانے سے کچھ بے نیاز ہو گیا ہو۔ لیکن ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحرا نشینانِ عرب کی ترقی اور تنزلی کی طویل داستان میں جو ربع مسکوں کی تمام داستانوں سے مختلف ہے، اسے ابھی تک یاد ہو گی۔ اگرچہ اس داستان کا کوئی حصہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں، لیکن اس وقت ہمارے سامنے اس کا وہ رنگین باب ہے جب کہ مغرب و مشرق کی وادیاں، پہاڑ اور صحرا مسلمانوں کے سمند اقبال کے قدم چوم رہے تھے اور ان کی خارا شگاف تلواروں کے سامنے ایران اور روما کے سلطان عاجز آ چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ترکستان، اندلس اور ہندوستان کی سر زمین مسلمانوں کو قوت تسخیر کے امتحان کی دعوت دے رہی تھی۔

بصرہ سے کوئی بیس میل کے فاصلے پر سر سبز و شاداب نخلستان کے درمیان ایک چھوٹی سی بستی تھی، جس کے ایک سیدھے سادے مکان کے صحن میں صابرہ، ایک ادھیڑ عمر کی عورت عصر کی نماز پڑھ رہی تھی۔ دوسرے تین بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ لڑکی نے ہاتھوں میں لکڑی کی دو چھوٹی چھوٹی چھڑیاں پکڑی ہوئی تھیں۔ لڑکی غور سے ان کی حرکات کا معائنہ کر رہی تھی۔ بڑے لڑکے نے چھڑی گھماتے ہوئے چھوٹے کی طرف دیکھا اور کہا:

’’دیکھو نعیم! میری تلوار!‘‘

چھوٹے لڑکے نے بھی اپنی چھڑی گھمائی اور کہا:

’’ میرے پاس بھی تلوار ہے۔ آؤ ہم جنگ کریں۔‘‘

’’تم رو پڑو گے!‘‘ چھوٹے لڑکے نے جواب دیا۔

’’تو پھر آؤ!‘‘ بڑے نے تن کر کہا۔

معصوم بچے ایک دوسرے پر وار کرنے لگے اور لڑکی قدرے پریشان ہو کر یہ تماشہ دیکھنے لگی۔ اس لڑکی کا نام عذرا تھا۔‘‘

چھوٹے لڑکے کا نام نعیم اور بڑے کا نام عبد اللہ تھا۔ عبد اللہ نعیم سے تین سال بڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں رپ مسکراہٹ کھیل رہی تھی لیکن نعیم کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ واقعی میدان کار زار میں کھڑا ہے۔ نعیم وار کرتا اور عبد اللہ متانت سے روکتا۔ اچانک نعیم کی چھڑی اس کے بازو پر لگی۔ عبد اللہ نے قدرے غصے سےا کر وار کیا۔ اب نعیم کی کلائی پر چوٹ لگی اور اس کے ہاتھ سے چھڑی گر پڑی۔ عبد اللہ نے کہا۔ ’’دیکھو اب رونا مت۔‘‘

’’میں نہیں، تم رو پڑو گے!‘‘ نعیم نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے جواب دیا اور زمین سے ایک ڈھیلا اٹھا کر عبد اللہ کے ماتھے پر دے مارا۔ اس کے بعد اس نے اپنی چھڑی اٹھا لی اور گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ عبد اللہ بھی سر سہلاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا لیکن اتنی دیر میں نعیم صابرہ کی گود میں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’امی! بھائی مارتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

عبد اللہ غصے سے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔ لیکن ماں کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔

ماں نے پوچھا۔ ’’عبد اللہ! کیا بات ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا ’’امی! اس نے مجھے پتھر مارا ہے۔‘‘

’’تم لڑے کیوں تھے بیٹا؟‘‘ صابرہ نے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ ہم تلواروں سے جنگ کر رہے تھے۔ اس نے میرا ہاتھ توڑ دیا۔ پھر میں نے بھی بدلہ لے لیا۔‘‘

’’تلواروں سے ؟ تلواریں تم کہاں سے لائے؟‘‘

’’یہ دیکھو امی! ‘‘ نعیم نے اپنی چھڑی دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لکڑی کی ہے لیکن مجھے لوہے کی تلوار چاہیے۔ لے دو نا۔ میں جہاد پر جاؤں گا!‘‘

کم سن بیٹے کے منہ سے جہاد کا لفظ سننے کی خوشی وہی مائیں جان سکتی ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لوری دیتے وقت یہ گایا کرتی تھیں :

’’اے رب کعبہ! میرا یہ لال مجاہد بنے اور تیرے محبوب کے لگائے ہوئے درخت کو جوانی کے خون سے سیراب کرے۔‘‘

نعیم کی زبان سے تلوار اور جہاد کے الفاظ سن کر صابرہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اس کے رگ و ریشہ میں مسرت کی لہریں دوڑنے لگیں۔ اس نے فرط انبساط سے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ ماضی اور حال کو فراموش کر چکی تھی اور تصور میں اپنے بیٹوں کو نوجوان مجاہدوں کے لباس میں خوبصورت گھوڑوں پر سوار میدان جنگ میں دیکھ رہی تھی۔

....وہ یہ دیکھ رہی تھی کہ اس کے لال دشمن کی صفوں کو چیرتے اور روندتے ہوئے جا رہے ہیں اور دشمن کے گھوڑے اور ہاتھی ان کے بے پناہ حملوں کی تاب نہ لا کر آگے بھاگ رہے ہیں۔ اس کے نوجوان بیٹے ان کے تعاقب میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریاؤں میں گھوڑے ڈال رہے ہیں۔ وہ دشمن کے نرغے میں کئی بار اٹھ اٹھ کر گرتے ہیں اور بالآخر زخموں سے نڈھال ہو کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ جنت کی حوریں ان کے لیے شراب طہور کے جام لیے کھڑی ہیں۔ صابرہ نے انا للہ و اناا لیہ راجعون پڑھا اور سجدے میں سررکھ کر دعا مانگی

’’اے زمین و آسمان کے مالک! جب مجاہدوں کی مائیں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو میں کسی سے پیچھے نہ رہوں گی۔ ان بچوں کو اس قابل بنا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو قائم رکھ سکیں۔‘‘

دعا کے بعد صابرہ اٹھی اور بچوں کو گلے لگا لیا۔

انسانی زندگی کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو عقل کی محدود چار دیواری سے گزر کر مملکت دل کی لا محدود وسعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

ہم دنیا کے ہر واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمارے لیے بعض اوقات نہایت معمولی باتیں بھی طلسم بن کر رہ جاتی ہیں۔ہم دوسروں کے احساسات و جذبات کا اندازہ اپنے احساسات و جذبات سے کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی وہ حرکات جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں ہمارے لیے ایک معمہ بن جاتی ہیں۔ آج کل کی ماؤں کو قرون اولیٰ کی ایک بہادر ماں کی تمنائیں اور دعائیں کس قدر عجیب معلوم ہوں گی۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو آگ اور خون میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کی آرزو انہیں کس قدر بھیانک نظر آتی ہو گی۔ اپنے بچوں کوبلی کا خوف دلا کر سلانے والی مائیں ان کے شیروں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے خواب کب دیکھتی ہوں گی۔

ہمارے کالجوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں پہلے ہوئے نوجوانوں کا علم اور عقل پہاڑوں کی بلندی اور سمندر کی گہرائی کو خاطر میں نہ لانے والے مجاہدوں کے دلوں کا راز کیسے جان سکتی ہے۔رباب کے تاروں کی جنبش کے ساتھ لرز جانے والے نازک مزاج انسانوں کو تیروں اور نیزوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے جواں مردوں کی داستانیں کس قدر حیرت زا معلوم ہوں گی۔ اپنے گھونسلے کے ارد گرد چکر لگانے والی چڑیاں عقاب کے انداز پرواز سے کس طرح واقف ہو سکتی ہے؟

صابرہ کا بچپن اور جوانی زندگی کے نا ہموار ترین راستوں سے گزر چکے تھے۔ اس کے رگ و ریشہ میں عرب کے ان شہسواروں کا خون تھا جو کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں میں اپنی تلواروں کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ان کا دادا جنگ یرموک سے غازی بن کر لوٹا اور قادسیہ میں شہید ہوا۔ وہ بچپن ہی سے غازی اور شہید کے الفاظ سے آشنا تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب وہ اپنی توتلی زبان سے ابتدائی حروف ادا کرنے کی کوشش کیا کرتی تو اس کی ماں کا سکھلایا ہوا پہلا فقرہ ’’آبا غازی ‘‘ اور چند دنوں کے بعد کا سبق ’’ آبا شہید‘‘ تھا۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے کے بعد اس کی جوانی اور بڑھاپے سے ہر وہ توقع کی جا سکتی تھی جو ایک مسلمان فرض شناس عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہے۔ وہ بچپن میں عرب عورتوں کی شجاعت کے افسانے سنا کر تی تھی۔ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی عبد الرحمن کے ساتھ ہوئی۔ نوجوان شوہر ایک مجاہد کی تمام خوبیوں سے آراستہ تھا اور وفا شعار بیوی کی محبت اسے گھر کی چاردیواری میں بند کر دینے کی بجائے ہمیشہ جہاد کے لیے ابھارتی رہی۔

عبد الرحمن جب آخری مرتبہ جہاد پر روانہ ہوا تو اس وقت عبد اللہ کی عمر تین سال اور نعیم کی عمر تین مہینے سے کچھ کم تھی۔ عبد الرحمن نے عبد اللہ کو اٹھا کر گلے لگا لیا اور نعیم کو صابرہ کی گود سے لے کر پیار کیا۔ چہرے پر قدرے ملال کے آثار پیدا ہوئے لیکن فوراً ہی مسکرانے کی کوشش کی۔ رفیق حیات کو میدان جنگ کی طرف رخصت ہو تا دیکھ کر صابرہ کے دل میں تھوڑی دیر کے لیے طوفان سا امڈ آیا لیکن اس نے اپنی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسوؤں کو بہنے کی اجازت نہ دی۔

عبد الرحمن نے کہا ’’صابرہ! مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر میں جنگ سے واپس نہ آیا تو میرے بیٹے میری تلواروں کو زنگ آلود نہ ہونے دیں گے!‘‘

’’آپ تسلی رکھیں۔‘‘ صابرہ نے جواب دیا۔ ’’میرے لال کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔‘‘ عبد الرحمن نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھا۔ صابرہ نے اس کے رخصت ہونے کے بعد سجدے میں سر رکھ کر دعا کی۔

’’اے زمین و آسمان کے مالک! اسے ثابت قدم رکھنا!‘‘

جب شوہر اور بیوی صورت اور سیرت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے قابل رشک ہوں گی تو محبت کے جذبات کا کمال کی حد تک پہنچ جانا کوئی نئی بات نہیں۔ بیشک صابرہ اور عبد الرحمن کا تعلق جسم اور روح کا تعلق تھا۔ اور رخصت ہونے کے وقت لطیف جذبات کو اس طرح دبا لینا کسی حد تک عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ کونسا عظیم الشان مقصد تھا جس کے لیے یہ لوگ دنیا کی تمام خواہشات اور تمناؤں کو قربان کر دیتے تھے ؟ وہ کون سا مقصد تھا جس نے تین سو تیرہ کو ایک ہزار کے مقابلہ میں کھڑا کیا تھا؟ وہ کونسا جذبہ تھا جس نے مجاہدوں کو دریاؤں اور سمندروں میں کودنے، تپتے ہوئے وسیع صحراؤں کو عبور کرنے اور فلک بوس پہاڑوں کو روندنے کی قوت عطا کی تھی؟

ان سوالات کا جواب ایک مجاہد ہی دے سکتا ہے۔

عبد الرحمن کو رخصت ہوئے سات مہینے گزر چکے تھے۔ اس بستی کے چار اور آدمی بھی اس کے ہمراہ گئے۔ ایک دن عبد الرحمن کا ساتھی واپس آیا اور اونٹ سے اترتے ہی صابرہ کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس کے آتے ہی بہت سے لوگ اس کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ کسی نے عبدالرحمن کے متعلق پوچھا۔ نووارد نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ صابرہ کے مکان میں داخل ہو گیا۔

صابرہ نماز کے لئے وضو کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر اٹھی۔ نووارد آگے بڑھا اور چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔

صابرہ نے دھڑکتے ہوئے دل پر قابو پا کر پوچھا:

’’وہ نہیں آئے!‘‘

’’وہ شہید ہو گئے‘‘

’’شہید!‘‘ ضبط کے باوجود صابرہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے بہہ نکلے۔نووارد نے کہا۔ ’’اپنے آخری لمحات میں جب وہ زخموں سے چور تھے۔ انہوں نے یہ خط مجھے اپنے خون سے لکھ کر دیا تھا۔‘‘

’’صابرہ! میری آرزو پوری ہوئی۔ اس وقت جب کہ میں زندگی کے آخری سانس پورے کر رہا ہوں۔ میرے کانوں میں ایک عجیب راگ گونج رہا ہے۔ میری روح جسم کی قید سے آزاد ہو کراس راگ کی گہرائیوں میں کھو جانے کے لئے پھڑپھڑا رہی ہے۔ میں زخموں سے چور ہونے کے باوجود ایک فرحت سی محسوس کرتا ہوں۔ میری روح ایک ابدی سرور کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے۔ میں اس بستی کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا رہا ہوں جس کا ہر ذرہ اس دنیا کی تمام رنگینیاں اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔

میری موت پر آنسو نہ بہانا۔ میں اپنے مقصود کو پا چکا ہوں۔ یہ خیال نہ کرنا کہ میں تم سے دور جا رہا ہوں۔ ہم کسی دن ایسے مقام پر اکٹھے ہوں گے جو دائمی سرور کا مرکز ہے۔ جہاں کی صبح شام سے اور بہار خزاں سے آشنا نہیں۔ یہ مقام اگرچہ چاند اور ستاروں سے کہیں بلند ہے مگر مرد مجاہد وہاں ایک ہی جہت میں پہنچ سکتا ہے۔ عبد اللہ اور نعیم کو اس مقام پر پہنچ جانے کا راستہ دکھانا تمہارا فرض ہے! میں تمہیں بہت کچھ لکھتا مگر میری روح جسم کی قید سے آزاد رہنے کے لئے بے قرار ہے۔ میں آقائے نامدار کے پاؤں چومنے کے لیے بے تاب ہوں۔ میں تمہیں اپنی تلوار بھیج رہا ہوں۔ بچوں کی قدر و قیمت بتانا۔ جس طرح میرے لیے تم ایک فرض شناس بیوی تھیں میرے بچوں کے لئے ایک فرض شناس ماں بننا۔ مامتا کو اپنے ارادوں میں حائل نہ ہونے دینا۔ انہیں یہ بتانا کہ مجاہد کی موت کے سامنے دنیا کی زندگی بے حقیقت او ر ہیچ ہے۔‘‘

)تمہارا شوہر )

عذرا

عبد الرحمن کو شہید ہوئے تین سال ہو چکے تھے۔ ایک دن صابرہ اپنے مکان کے صحن میں کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھی عبداللہ کو سبق پڑھا رہی تھی۔ نعیم ایک ڈنڈے کا گھوڑا بنا کر اسے چھڑی سے ہانکتا ہوا ادھر ادھر بھاگتا پھرتا تھا۔ کسی نے باہر کے دروازے پر دستک دی۔ عبد اللہ نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھولا اور ماموں جان ماموں جان کہتا ہو نووارد سے لپٹ گیا۔

’’کون، سعید!‘‘ صابرہ نے اندر سے آواز دی۔

سعید ایک کم سن لڑکی کو انگلی سے لگائے صحن میں داخل ہوا۔ صابرہ نے اٹھ کر چھوٹے بھائی کا خیر مقدم کیا اور لڑکی کو پیار کرتے ہوئے پوچھا:

’’یہ عذرا تو نہیں ؟ اس کی شکل و صورت بالکل یاسمین جیسی ہے!‘‘

’’ہاں بہن یہ عذرا ہے۔ میں اسے آپ کے پاس چھوڑنے آیا ہوں۔ مجھے فارس جانے کا حکم ملا ہے۔ وہاں خارجی بغاوت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں بہت جلد وہاں پہنچ جا نا چاہتا ہوں۔ پہلے سوچا تھا کہ عذرا کو کس کے ساتھ آپ کے پاس بھیج دوں گا مگر یہی مناسب سمجھا کہ خود ہی یہاں سے ہوتا جاؤں۔‘‘

’’یہاں سے کب روانہ ہونے کا ارادہ ہے؟‘‘ صابر ہ نے پوچھا۔

’’آج ہی چلاؤں تو بہتر ہے۔ آج ہماری فوج بصرہ میں قیام کرے گی۔ کل صبح ہم وہاں سے فارس کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔‘‘

عبد اللہ والدہ کے پاس کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا۔ نعیم جو کچھ دیر پہلے ایک لکڑی کی چھوڑی کو گھوڑا سمجھ کر دل بہلا رہا تھا، عبداللہ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ سعید نے نعیم کو اٹھا کر گلے لگایا، پیار کیا اور پھر ہمشیرہ سے باتیں کرنے لگا۔ نعیم پھر کھیل کود میں مصروف ہو گیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد کچھ سوچ کر عبد اللہ کے پاس گیا اور عذرا کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن حیا کی وجہ سے خاموش رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے جرات سے کام لیا اور عذرا سے مخاطب ہو کر پوچھا:

’’تم بھی گھوڑا لو گی؟‘‘

عذرا شرما کر سعید کے پیچھے چھپ گئی۔

’’جاؤ بیٹا! ‘‘ سعید نے عذرا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا‘‘ اپنے بھائی کے ساتھ کھیلو!‘‘

عذرا شرماتی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے نعیم کے ہاتھ سے چھڑی پکڑ لی۔دونوں صحن کے دوسری طرف جا کر اپنے اپنے لکڑی کے گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے۔

عبد اللہ نعیم کی حرکات سے نا خوش تھا اور اسکی طرف گھُور گھُور کر دیکھ رہا تھا۔ لیکن نعیم تھوڑے ہی عرصے میں اپنے نئے ساتھی سے کچھ اس درجے مانوس ہو گیا تھا کہ عبداللہ اسکی طرف دیکھتا بھی تو وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتا۔ جب عبد اللہ نے اس کو منہ چڑانا شروع کیا تو وہ ضبط نہ کر سکا:

دیکھو امی جان! عبداللہ منہ چڑاتا ہے!‘‘

ماں نے کہا۔ ’’نہ عبد اللہ اسے کھیلنے دو!‘‘

عبد اللہ سنجیدہ ہوا تو نعیم نے منہ چڑانا شروع کیا۔ عبداللہ نے تنگ آ  کر اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔

عذرا کی کہانی صابرہ سے مختلف نہ تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو ہوش سنبھالنے سے پہلے والدین کے سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔

عذرا کا باپ ظہیر فسطاط کے سرکردہ لوگوں میں سے تھا۔ اسنے بیس سال کی عمر میں ایرانی نسل کی ایک حسین لڑکی یاسمین سے شادی کی تھی۔

یاسمین کے سہاگ کی پہلی شب تھی۔ وہ اپنے محبوب شوہر کے پہلو میں امنگوں کی ایک نئی دنیا بیدار کر رہی تھی۔ کمرے میں چند شمعیں جل رہی تھیں۔ یاسمین اور ظہیر کی آنکھوں میں ایک خمار تھا لیکن وہ خمار نیند کے خمار سے بہت مختلف تھا۔

ظہیر پوچھ رہا تھا۔ ’’یاسمین! سچ سچ بتاؤ تم خوش ہونا !‘‘

دلہن نے انتہائی مسرت کی حالت میں بولنے کی بجائے نیم باز آنکھیں اوپر اٹھائیں اور پھر جھکا لیں۔

ظہیر نے پھر وہی سوال کیا۔ یاسمین نے شوہر کی طرف دیکھا، حیا اور مسرت کی گہرائیوں میں کھوئے ہوئے ایک دلفریب تبسم کے ساتھ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ یہ بھولا بھالا سا جواب کس قدر معنی خیز تھا۔ اس وقت جب کہ رحمت کے فرشتے مسرت کا گیت گا رہے تھے اور یاسمین کا دھڑکتا ہوا دل ظہیر کے دل کی دھڑکن کا جواب دے رہا تھا۔ الفاظ کس قدر بے حقیقت معلوم ہو تے تھے۔ ظہیر نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

’’اپنے دل سے پوچھو۔‘‘ یاسمین نے جواب دیا۔

ظہیر نے کہا ’’میرے دل میں تو آج خوشی کا طوفان امڈ رہا ہے۔ مجھے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آج کائنات کی ہر چیز مسرت کے نغموں سے لبریز ہے۔ کاش! یہ نغمے ہمیشہ ایسے ہی رہیں ‘‘۔

’’کاش!‘‘ یاسمین کے منہ سے بے اختیار نکلا اور اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جو ایک لمحہ پیشتر مسرتوں کا گہوارہ بنی ہوئی تھیں۔ مستقبل کا خیال آتے ہی پرنم ہو گئیں۔ ظہیر محبوب بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے اختیار ہو گیا۔

’’یاسمین! یاسمین! تم رو پڑیں۔ کیوں ؟‘‘

’’نہیں ‘‘۔ یاسمین نے مسکرا نے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ آنسوؤں میں بھیگی ہوئی مسکراہٹ اس کے حسن کو دوبارہ کر رہی تھی۔

’’نہیں۔ کیوں ؟ تم سچ مچ رو رہی ہو۔ یاسمین تمہیں کیا خیال آیا۔ تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھنا میری قوت سے باہر ہے۔‘‘

’’مجھے ایک خیال آیا تھا۔ یاسمین نے چہرے کو ذرا شگفتہ بناتے ہوئے جواب دیا۔

’’کیسا خیال؟ ظہیر نے سوال کیا۔

’’کوئی خاص بات نہیں۔ مجھے حلیمہ کا خیال آیا تھا۔ بے چاری کی شادی کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا شوہر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔‘‘

ظہیر نے کہا ’’میں ایسی موت سے بہت گھبراتا ہوں۔ بے چارے نے بیماری کی حالت میں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دی۔ ایک مجاہد کی موت کتنی اچھی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس وہ اس سعادت سے محروم رہا۔ اس بیچارے کا اپنا قصور بھی تو نہ تھا۔ وہ بچپن سے مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار رہا۔ جب اس کی موت سے چند دن پہلے مزاج پرسی کے لیے گیا تو اس کی عجیب حالت تھی، اس نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہنے لگا:

’’تم بہت خوش ہو۔ تمہارے بازو لوہے کی طرح مضبوط ہیں۔ تم گھوڑے پر چڑھ کر میدان جنگ میں دشمنوں کے تیروں اور نیزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہو گے لیکن میں یہاں پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہوں۔ دنیا میں میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ میں بچپن میں مجاہد بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا لیکن اب جوانی کا وقت آیا ہے تو میرے لیے بستر سے اٹھ کر چند قدم چلنا بھی دشوار ہے۔‘‘

جب وہ یہ کہہ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ میں نے اسے بہت تسلی دی لیکن وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ وہ جہاد پر جانے کی حسرت اپنے ساتھ ہی لے گیا لیکن اس کے پہلو میں ایک مجاہد کا دل تھا۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا تھا لیکن ایسی موت اسے پسند نہ تھی۔

ظہیر نے بات ختم کی اور دونوں ایک گہری سوچ میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور مؤذن دنیا والوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے نماز میں شریک ہونے کا خدائی حکم سنا رہا تھا۔ یہ دونوں اس حکم کو بجا لانے کی تیاری کر رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ظہیر نے دروازہ کھولا تو سامنے سعید سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈھکا ہوا گھوڑے پر بیٹھا تھا۔ سعید گھوڑے سے اترا اور ظہیر نے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔

سعید اور ظہیر بچپن کے دوست تھے۔ ان کی دوستی سگے بھائیوں کی محبت سے بھی زیادہ بے لوث تھی۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تعلیم پائی تھی۔ ایک ہی جگہ فنون سپہ گری سیکھے تھے اور کئی میدانوں میں دوش بدوش لڑ کر اپنے بازوؤں کی طاقت اور تلواروں کی تیزی کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ظہیر نے سعید کے اس طرح اچانک آنے کی وجہ پوچھی۔

’’مجھے والی قیرون نے آپ کی طرف بھیجا ہے!‘‘

’’خیر تو ہے؟‘‘

’’نہیں ‘‘۔ سعید نے جواب دیا ’’افریقہ میں بغاوت نہایت سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ اہل روم جاہل بربریوں کو اکسا کر ہمارے مقابلے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ اس آگ کو فرو کرنے کے لیے تازہ دم فوجوں کی ضرورت ہے۔ گورنر نے دربار خلافت سے چلا چلا کر مدد مانگی ہے لیکن وہاں ہماری آواز کوئی نہیں سنتا۔ نصرانی ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ہم اس وسیع خطہ زمین کو ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھیں گے۔ گورنر نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ کے نام یہ خط دیا ہے۔‘‘

ظہیر نے خط کھول کر پڑھا، خط کا مضمون یہ تھا:

’’سعید تمہیں افریقہ کے حالات بتا دے گا۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض ہے کہ جس قدر سپاہی فراہم کر سکوں ان کو لے کر فوراً پہنچ جاؤ۔ میں نے ایک خط دربار خلافت میں بھی بھیجا ہے لیکن موجودہ حالات میں جبکہ اہل عرب طرح طرح کی خانہ جنگیوں میں مبتلا ہیں، مجھے وہاں سے کسی مدد کی امید نہیں۔ تم اپنی طرف سے کوشش کرو۔‘‘

ظہیر نے ایک نوکر کو بلا کر سعید کا گھوڑا اس کے حوالے کیا اور اسے اپنے ساتھ مکان کے ایک کمرے میں لے گیا۔ اس کی آنکھوں سے شب عروسی کا خمار اتر چکا تھا۔ اس نے دوسرے کمرے میں جا کر دیکھا، یاسمین بارگاہ الٰہی میں سر بسجود تھی۔ دل کو گونہ مسرت ہوئی۔ واپس سعید کے پاسا کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:

’’سعید میری شادی ہو چکی ہے!‘‘

’’مبارک ہو۔ کب ؟‘‘

’’کل‘‘

’’مبارک ہو!‘‘ سعید مسکرا رہا تھا۔ لیکن اس کی مسکراہٹ اچانک پژمردگی میں تبدیل ہونے لگی۔ وہ دیرینہ دوست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا اور اس کی نگاہیں سوال کر رہی تھیں کہ شادی کی خوشی نے تمہیں جذبہ جہاد سے تو عاری نہیں کر دیا؟ ظہیر کی آنکھیں اس سوال کا جواب نفی میں دے رہی تھیں۔

دنیا میں کم و بیش ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے کسی بلندی تک پہنچنے یا بڑا کام کرنے موقع ملتا ہے لیکن ہم اکثر نفع نقصان کی سوچ میں ایسے موقع کو کھو دیتے ہیں۔

سعید نے پوچھا ’’آپ نے خط کے متعلق کیا سوچا؟‘‘

ظہیر نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ سعید کے کندھوں پر رکھ دیا اور کہا:

’’اس میں سوچنے کی کیا بات ہے۔چلو!‘‘۔ ’’چلو‘‘ بظاہر ایک سادہ سا لفظ تھا لیکن ظہیر کے منہ سے سعید کو یہ لفظ سن کر جو خوشی ہوئی اس کا اندازہ کرنا ذرا مشکل ہے۔ وہ بے اختیار اپنے دوست سے لپٹ گیا۔ ظہیر نے کوئی اور بات نہ کی۔ سعید کو اپنے ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلا اور مسجد کی طرف ہو لیا۔

صبح کی نماز ختم ہوئی اور ظہیر تقریر کے لیے اٹھا۔ ایک مجاہد کو اپنی زبان میں اثر پیدا کرنے کے لئے اچھے اچھے الفاظ اور لمبی لمبی تاویلوں کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے سیدھے سادے مگر جذبے سے بھرے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں میں اتر گئے۔ اس نے تقریر کے دوران میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا:

’’مسلمانوں ! ہماری خود غرضیاں اور خانہ جنگیاں ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں گی۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ اہل روم جن کی سلطنت کو ہم کئی بار پاؤں تلے روند چکے ہیں ایک بار پھر ہمارے مقابلے کی جرات کر رہے ہیں۔ وہ لوگ یرموک اور اجنادین کی شکستیں بھول چکے ہیں۔ آؤ انہیں ایک بار پھر بتائیں کہ مسلمان اسلام کی عظمت کی حفاظت کے لئے اب بھی اپنے خون کو اتنا ہی ازاں سمجھتا ہے جتنا کہ پہلے سمجھتا تھا۔ انہوں نے طرح طرح کی سازشیں کر کے افریقہ کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ وہ یہ خیالات کرتے ہیں کہ ہم خانہ جنگیوں کی وجہ سے کمزور ہو چکے ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس دنیا میں جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے، ان لوگوں کو ہم سے ڈر کر رہنا چاہیے۔

مسلمانو! آؤ ایک بار پھر انہیں یہ بتا دیں کہ ہمارے سینوں میں وہی تڑپ ہے، ہمارے بازوؤں میں وہی طاقت اور ہماری تلواروں میں وہی کاٹ ہے جو کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تھی۔‘‘

ظہیر کی تقریر کے بعد اڑھائی سو نوجوان اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو گئے۔

یاسمین اپنی زندگی کی تمام خواہشوں کے مرکز کو اپنی آنکھوں سے میدان جنگ کی طرف رخصت ہوتے دیکھ رہی تھی۔ دل کا بخار آنکھوں کے راستے آنسو بن کر بہنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا لیکن یاسمین کے نسوانی غرور نے شوہر کے سامنے اپنے آپ کو بزدل ظاہر کرنے کے اجازت نہ دی۔ آنکھوں کے آنسو آنکھوں میں ہی دبے رہے۔

ظہیر نے بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ حزن و ملا کی تصور بنی سامنے کھڑی تھی۔ دل نے سفارش کی کہ ایک لمحہ اور ٹھہر جاؤ۔ چند باتیں کرو۔ لیکن اسی دل کی دوسری آرزو تھی کہ ایک اور امتحان سے بچو!

’’اچھا یاسمین! خدا حافظ‘‘۔ کہہ کر ظہیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔ پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔ ایک ایسا خیال جسے اس نے ابھی تک اپنے قریب نہ بھٹکنے دیا۔ برق کی سی تیز رفتاری کے ساتھ س اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا۔ دل کے لطیفے حصے نے اپنی کمزور آواز میں فقط اتنا کہا کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو لیکن ایک لمحے کے اندر اندر اس خیال نے ایک ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔ وہ رکا اور مڑ کر یاسمین کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ آگے بڑھی۔ ظہیر نے آنکھیں بند کر کے بانہیں پھیلا دیں اور وہ روتی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔

’’یاسمین!‘‘

’’آقا!‘‘

وہ آنسو جنہیں یاسمین اپنے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ رکھنے کی نا کام کوشش کر رہی تھی، بے اختیار بہہ نکلے۔ دونوں کے دل دھڑک رہے تھے۔ لیکن دلوں کی یہ دھڑکن اس وقت بہت مدھم تھی اور بدستور کم ہو رہی تھی۔ کائنات اسی پر کیف نغمے سے لبریز تھی لیکن اس نغمے کی تانیں پہلے کی نسبت بہت گہری تھیں۔ مجاہد کے امتحان کا وقت تھا۔ احساس محبت اور احساس فرض کا مقابلہ....! ظہیر کے سامنے یاسمین تھی۔ فقط یاسمین۔ حسن و لطافت کا ایک پیکر۔ رنگ و بو کی دنیا۔ پھر اچانک اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہو گئی اور وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا:

’’یاسمین یہ فرض ہے۔‘‘

’’آقا مجھے معلوم ہے۔‘‘ یاسمین نے جواب دیا۔

’’میرے آنے تک حنیفہ تمہارا خیال رکھے گی۔ تم گھبرا تو نہ جاؤ گی؟‘‘

’’نہیں۔ آپ تسلی رکھیں۔‘‘

’’یاسمین مجھے مسکرا کر دکھاؤ۔ بہادر عورتیں ایسے موقع پر آنسو نہیں بہایا کرتیں۔ تم ایک مجاہد کی بیوی ہو!‘‘

شوہر کے حکم کی تعمیل میں یاسمین مسکرا دی۔ لیکن اس مسکراہٹ کے ساتھ ہی آنسوؤں کے دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔

’’آقا مجھے معاف کرنا۔‘‘ اس نے جلدی سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’ کاش میں نے بھی ایک عرب ماں کی گود میں پرورش پائی ہوتی۔‘‘ یہ فقرہ ختم کرتے ہوئے انتہائی کرب کی حالت میں اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے بازو ایک بار پھر ظہیر کی طرف پھیلا دیے لیکن آنکھیں کھولنے پر معلوم ہوا کہ محبوب شوہر جا چکا ہے۔

جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے ۔ یاسمین نے ایک ایرانی ماں کی گود میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے اس کے وجود میں نسوانیت کا لطیف اور نازک حصہ عرب عورتوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ ظہیر کے رخصت ہوتے ہی اس کی بے قراری کی حد نہ رہی۔ دنیا بدلی ہوئی نظر آنے لگی۔ حنیفہ اس کی پرانی خامہ ہر ممکن کوشش سے اس کا دل بہلاتی۔ چند مہینوں کے بعد یاسمین کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے پہلو میں ایک نیا وجود پرورش پا رہا ہے۔ اس دوران میں شوہر کی طرف سے چند خطوط بھی ملے۔

حنیفہ نے اپنی طرف سے ظہیر کو لکھ بھیجا کہ تمہارے گھر ایک کمسن مہمان تشریف لانے والا ہے۔ واپس آنے پر گھر کی رونق میں اضافہ محسوس کرو گے۔ ہاں تمہاری بیوی سخت غمگین ہے اگر رخصت مل جائے تو چند دنوں کے لیے آ کر تسلی دے جاؤ!‘‘

آٹھ ماہ ظہیر نے لکھا کہ دو مہینوں تک گھرا جائے گا۔ اس خط کے بعد یاسمین کو انتظار کی گھڑیاں پہلے کی نسبت دشوار نظر آنے لگیں۔ اس کے لیے دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو گئی اور صحت بگڑنے لگی۔

ظہیر کے انتظار کے ساتھ ننھے مہمان کا انتظار بھی بڑھنے لگا۔بالآخر ایک انتظار کی مدت ختم ہوئی اور ظہیر کے گھر کی خاموش فضا میں ایک بچے کے بلکنے نے کچھ رونق پیدا کر دی۔ یہ بچہ عذرا تھی۔

عذرا کی پیدائش کے بعد جب یاسمین نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھولیں تو اس کا پہلا سوال یہ تھا۔‘‘ وہ نہیں آئے؟‘‘

’’وہ بھیا جائیں گے۔‘‘ حنیفہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

’’اتنی دیر ہو گئی۔ خدا جانے کب آئیں گے ۔‘‘

عذرا کو پیدا ہوئے تین ہفتے گزر چکے تھے۔ یاسمین کی صحت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ رات کو سوتے میں اکثر ظہیر ظہیر! پکارتی اٹھ بیٹھتی اور بعض اوقات خواب کی حالت میں چلنے لگتی اور دیواروں سے ٹکرا کر گر پڑتی۔

حنیفہ سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اسے تسلی دیتی۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت یاسمین اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔ حنیفہ اس کے قریب ایک کرسی پر بیٹھی عذرا کو پیار کر رہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔

’’کوئی بلا رہا ہے۔‘‘ یاسمین نے نہایت کمزور آواز میں کہا۔

حنیفہ عذرا کو یاسمین کے پاس لٹا کر اٹھی اور باہر جا کر دروازہ کھولا۔ سامنے سعید کھڑا تھا۔

حنیفہ نے اضطراب اور پریشانی کی حالت میں کہا۔ ’’سعید تم آ  گئے۔ ظہیر کہاں ہے۔ وہ نہیں آیا؟‘‘

یاسمین کا کمرہ اگرچہ باہر کے دروازے سے کافی دور تھا لیکن حنیفہ کے الفاظ یاسمین کے کانوں تک پہنچ چکے تھے۔ سعید کا نام سنتے ہی اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور ایک لمحے کے اندر اندر ہزاروں توہمات پیدا ہو گئے۔وہ اپنے دھڑکتے ہوئے دل کو ہاتھوں سے دبائے بستر سے اٹھی۔ کانپتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور حنیفہ سے دو تین قدم کے فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔ حنیفہ دروازے میں کھڑی ابھی تک سعید کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس لیے یاسمین کی آمد سے بے خبر تھی اور سعید چونکہ دروازہ سے باہر کھڑا تھا۔ اس لیے وہ یاسمین کو نہ دیکھ سکا۔

حنیفہ نے پھر اپنا سوال دہرایا لیکن سعید خاموش رہا۔

’’سعید!‘‘ حنیفہ نے کہا۔ ’’ جواب کیوں نہیں دیتے کیا وہ....؟‘‘

سعید نے گردن اٹھا کر حنیفہ کی طرف دیکھا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن زبان کے قابو میں نہ تھی۔ اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور اس کا حسین چہرہ غیر معمولی حزن و ملال کا اظہار کر رہا تھا۔

’’سعید....کہو! ‘‘ حنیفہ نے پھر سوال کیا۔

’’وہ شہید ہو چکا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں زندہ واپس آیا ہوں۔‘‘

سعید نے کہا اور چھلکتے ہوئے آنسو اس کی آنکھوں سے گر پڑے۔

سعید نے اپنا فقرہ ابھی پورا ہی کیا تھا کہ حنیفہ کے پیچھے سے ایک چیخ سنائی دی اور کسی چیز کے دھڑام سے زمین پر گرنے کی آواز آئی۔ حنیفہ گھبرا کر پیچھے مڑی۔ سعید بھی حیران ہو کر مکان کے صحن میں آگیا۔ یاسمین منہ کے بل پڑی تھی۔

سعید نے جلدی سے اٹھایا اور کمرے کے اندر لا کر اس کے بستر پر لٹا دیا اور ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ جب مایوسی ہوئی تو طبیب کو بلانے کے لئے بھاگا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب طبیب کو لے کر واپس آیا تو دیکھا کہ گھر میں محلے کی بہت سی عورتیں جمع ہیں۔ کسی نے طبیب کو دیکھ کر کہا۔’’اب آپ کی ضرورت نہیں، وہ جا چکی ہے۔‘‘

یام کے قریب شہر کے عامل نے یاسمین کا جنازہ پڑھایا۔ ظہیر کی شہادت کا واقعہ بھی مشہور ہو گیا تھا۔ اس لیے اس کے لیے بھی دعائے مغفرت کی گئی۔ اس کے بعد ظہیر اور یاسمین کم سن یادگار عذرا کے حق میں درازی عمر کی دعا مانگی گئی۔

سعید نے اسی دن عذرا کو ایک دایہ کے سپرد کیا اور حنیفہ سے کہا کہ اگر تم ظہیر کے مکان میں رہنا چاہو تب تک میں تمہارے اخراجات برداشت کروں گا اور اگر میرے گھر رہنا پسند کرو تو بھی میں تمہاری خدمت کروں گا لیکن حنیفہ نے کہا:

’’میں حلب میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔ وہاں میرا یک بھائی رہتا ہے۔ اگر میرا وہاں دل زیادہ دیر نہ لگا تو میں آپ کے پاس واپس آ جاؤں گی۔‘‘

سعید نے حنیفہ کے سفر کا انتظام کیا اور پانچ سو دینار دے کر رخصت کیا۔

دو سال کے بعد سعید عذرا کو اپنے گھر لے آیا اور خود اس کی پرورش کرنے لگا۔ جب اسے فارس کی طرف خارجیوں کے خلاف مہم پر جانا پڑا تو وہ عذرا کو صابرہ کے پاس چھوڑ گیا۔

بچپن

بستی کے نخلستانوں میں سے ایک ندی گزرتی تھی۔ بستی والوں نے مویشیوں کے لیے اس ندی کے کنارے ایک تالاب کھود رکھا تھا۔ جو ندی کے پانی سے ہر وقت بھرا رہتا تھا۔ تالاب کے ارد گرد کھجوروں کے درخت ایک دلفریب منظر پیش کر رہے تھے۔ بستی کے بچے اکثر اوقات اس جگہ آ کر کھیلا کرتے تھے۔

ایک دن عبد اللہ۔ نعیم اور عذرا بستی کے دوسرے بچوں کے ساتھ اس جگہ کھیل رہے تھے۔ عبد اللہ نے اپنے عم عمر لڑکوں کے ساتھ تالاب میں نہانا شروع کیا۔ نعیم اور عذرا تالاب کے کنارے کھڑے بڑے لڑکوں کو پانی میں تیرتے، اچھلتے اور کودتے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ نعیم کو کسی بات میں بھی اپنے بھائی سے پیچھے رہنا گوارا نہ تھا۔ ابھی اس نے تیرنا نہیں سیکھا تھا لیکن عبد اللہ کو تیرتے ہوئے دیکھ کر ضبط نہ کر سکا۔ اس نے عذرا کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’آؤ عذرا، ہم بھی نہائیں !‘‘

عذرا نہیں جواب دیا۔’’امی جان خفا ہو گی۔‘‘

’’عبد اللہ سے کیوں خفا نہیں ہو گی۔ ہم سے کیوں ہو گی۔‘‘

’’وہ بڑا ہے۔ اسے تیرنا آتا ہے۔ اس لیے امی جان خفا نہیں ہوتیں۔‘‘

’’ہم گہرے پانی میں نہیں جائیں گے۔چلو!‘‘

’’اوں ہوں۔‘‘ عذرا نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’’تم ڈرتی ہو؟‘‘

’’نہیں تو۔‘‘

جس طرح نعیم ہر بات میں عبد اللہ کی تقلید کرنے بلکہ اس سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ اسی طرح عذرا بھی نعیم کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنا گوارا نہ کرتی۔ نعیم نے ہاتھ بڑھایا اور عذرا اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی میں کود گئی۔ کنارے پر پانی زیادہ گہرا نہ تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ گہرے پانی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عبد اللہ اور دوسرے بچے مقابل کے کنارے کھجور کے ایک خمدار درخت پر چڑھ کر باری باری پانی میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ عبد اللہ کی نظر نعیم اور عذرا پر اس وقت پڑی جب پانی ان کے گردنوں کے برابر آیا ہوا تھا اور دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ بدستور پکڑا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے گھبرا کر چلانا شروع کیا لیکن اس کی آواز پہنچنے سے پہلے عذرا اور نعیم گہرے پانی میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ عبد اللہ تیزی سے تیرتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے نعیم کا پاؤں زمین پر لگ چکا تھا لیکن عذرا ڈبکیاں کھا رہی تھی۔ عبداللہ نعیم کو محفوظ دیکھ کر عذرا کی طرف بڑھا۔

عذرا بھی تک ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ وہ عبد اللہ کے قریب آتے ہی اس کے گلے میں بازو ڈال کر لپٹ گئی۔ عبد اللہ میں اس کا بوجھ سہارنے کی طاقت نہ تھی۔ عذرا اس کے ساتھ بری طرح چمٹی ہوئی تھی اور اس کے بازو پوری طرح حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دو تین بار پانی میں ڈوب ڈوب کر ابھرا۔ اتنی دیر میں نعیم کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے باقی لڑکوں کے ساتھ مل کر چیخ پکار شروع کر دی۔ ایک چرواہا اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالاب کی طرفا رہا تھا، لڑکوں کی چیخ و پکار سن کر بھاگا اور تالاب کے کنارے پر سے یہ منظر دیکھتے ہی کپڑوں سمیت پانی میں کود پڑا۔ اتنی دیر میں عذرا بے ہوش کر عبد اللہ کو اپنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کر چکی تھی۔ وہ ایک ہاتھ سے عذرا کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے تیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

چرواہے نے تیزی کے ساتھ جھپٹ کر عذرا کو اوپر اٹھا لیا۔ عبد اللہ عذرا سے نجات پا کر آہستہ آہستہ تیرتا ہوا کنارے کی طرف بڑھا۔ چرواہا عذرا کو لے کر پانی سے باہر نکلا اور تیزی سے صابرہ کے مکان کی طرف چل دیا۔ عبد اللہ کے تالاب سے نکلتے ہی نعیم جھٹ دوسرے کنارے پر گیا اور عبد اللہ کے کپڑے اٹھا لایا۔ عبد اللہ نے کپڑے پہنتے ہوئے نعیم پر ایک قہر آلود نظر ڈالی۔ نعیم پہلے ہی آبلہ بن رہا تھا، بھائی کے غضب کی تاب نہ لا سکا اور سسکیاں لینے گا۔ عبداللہ نے نعیم کو روتے ہوئے بہت کم دیکھا تھا۔ اس موقع پر نعیم کے آنسو اس کا دل موم کرنے کے لیے کافی تھے، اس نے کہا ’’بہت گدھے ہو تم۔ گھر چلو!‘‘

نعیم نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ’’امی جان ماریں گی۔ میں نہیں جاؤ گا۔‘‘

’’نہیں ماریں گی۔‘‘ عبد اللہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

عبد اللہ کے تسلی آمیز الفاظ سنتے ہی نعیم کے آنسو خشک ہو گئے اور وہ بھائی کے پیچھے ہو لیا۔ چرواہا عذرا کو اٹھائے ہوئے صابرہ کے گھر پہنچا تو صابرہ کی پریشانی کی کوئی حد نہ رہی۔ پڑوس کی چند اور عورتیں بھی اکٹھی ہو گئیں۔ بہت کوشش کے بعد عذرا کو ہوش میں لایا گیا۔ صابرہ نے چرواہے کی طرف متوجہ ہو کر کہا:

’’یہ نعیم کی شرارت ہو گی۔ میں اسے عذرا کے ساتھ باہر بھیجتے ہوئے ہمیشہ ڈرا کرتی تھی، پرسوں ایک لڑکے کا سر پھوڑ دیا۔ اچھا، آج وہ گھر آئے سہی!‘‘

چرواہے نے کہا، اس میں نعیم کا تو کوئی قصور نہیں۔ وہ بے چارا تو کنارے پر کھڑا چیخ پکار کر رہا تھا۔ میں اس کی آواز سن کر بھاگتا ہوا تالاب پر پہنچا تو آپ کے بڑے لڑکے نے عذرا کو بالوں پکڑا ہوا تھا اور وہ غوطے کھا رہی تھی۔

’’عبد اللہ۔‘‘ صابرہ نے حیران ہو کر کہا۔ ’’وہ تو ایسا نہیں !‘‘

چرواہے نے کہا ’’ آج تو میں بھی اس کی حرکت دیکھ کر بہت حیران ہوا ہوں۔ اگر میں موقع پر نہ پہنچتا تو اس نے معصوم لڑکی کو ڈبو دیا تھا۔‘‘

اتنے میں عبد اللہ گھر پہنچا۔ نعیم اس کے پیچھے پیچھے سر جھکائے آ رہا تھا۔ جب عبد اللہ صابرہ کے رو برو ہوا تو نعیم اس کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔

صابرہ غضبناک ہو کر بولی ’’عبد اللہ! جاؤ، میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ۔ میرا خیال تھا کہ تم میں کچھ شعور ہے۔ مگر آج تم نعیم سے بھی چند قدم آگے بڑھ گئے۔ عذرا کو ڈبونے کے لیے ساتھ لے گئے تھے؟‘‘

عبد اللہ جو سارا راستہ نعیم کو بچانے کی تجاویز سوچتا آیا تھا۔ اس غیر متوقع استقبال پر حیران ہوا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ قصور نعیم کی بجائے اس کے پر تھونپا جا رہا ہے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ننھے بھائی کی نگاہیں التجا کر رہی تھیں کہ مجھے بچاؤ۔ عبد اللہ کو اس کے بچانے کی یہی صورت نظر آئی کہ وہ نا کردہ گناہ اپنے سر لے، یہ سوچ کر وہ خاموش کھڑا رہا اور ماں کی ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔

رات کے وقت عذرا کو زکام کا ساتھ بخار کی شکایت ہو گئی۔ صابرہ عذرا کے سرہانے بیٹھی تھی۔ نعیم بھی غمگین صورت بنائے پاس بیٹھا تھا۔ عبد اللہ اندر داخل ہوا اور چپکے سے صابرہ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ صابرہ اس کی آمد سے بے خبر عذرا کا سر دباتی رہی۔ نعیم نے ہاتھ سے عبد اللہ کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور اپنا مکا دکھا کر اسے اشاروں میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ چلے جاؤ ورنہ خیر نہیں۔ عبد اللہ نے اس کے اشاروں سے متاثر ہونے کی بجائے نفی میں سر ہلا دیا۔

نعیم کو اشارہ کرتے دیکھ کر صابرہ نے عبد اللہ کی طرف نگاہ اٹھائی۔ عبد اللہ ماں کی غضب آلود نظروں سے گھبرا گیا۔ اس نے کہا۔ ’’ اب عذرا کیسی ہے؟‘‘

صابرہ پہلے ہی بھری بیٹھی تھی۔ اب ضبط نہ کر سکی۔ ’’ٹھہرو میں تمہیں بتاتی ہوں !‘‘ یہ کہہ کر اٹھی اور عبد اللہ کو کان سے پکڑ کر باہر لے آئی۔ صحن کی ایک طرف اصطبل تھا۔ صابرہ نے عبد اللہ کو دروازے پر لے جا کر کہا۔’’عذرا کو اس لیے دیکھنے گئے تھے کہ وہ ابھی تک مری کیوں نہیں، تم رات یہیں بسر کرو!‘‘ عبد اللہ کو یہ حکم دے کر صابرہ پھر عذرا کے سرہانےا بیٹھی۔

جب نعیم کھانا کھانے بیٹھا تو اسے بھائی کا خیال آیا اور لقمہ اس کے حلق میں اٹک کر رہ گیا۔ اس نے صابرہ سے ڈرتے ڈرتے پوچھا:

’’امی جان! بھائی کہا ہے؟‘‘

’’وہ آج اصطبل میں رہے گا۔‘‘

’’امی اسے کھانا دے آؤں ؟‘‘

’’نہیں، خبردار اس کے پاس گئے تو!‘‘

نعیم نے چند بار لقمہ اٹھایا مگر اس کا ہاتھ منہ تک پہنچ کر رک گیا۔

’’کھاتے نہیں ؟‘‘ صابرہ نے پوچھا۔

’’کھا رہا ہوں امی!‘‘ نعیم نے ایک لقمہ جلدی سے منہ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔

صابرہ عشا کی نماز کے لیے وضو کرنے اٹھی اور جب وضو کر کے واپس آئی تو نعیم کو اسی حالت میں بیٹھے دیکھ کر بولی:

’’نعیم تم نے آج بہت دیر لگائی۔ ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟‘‘

نعیم نے جواب دیا۔ ’’کھا چکا ہوں امی!‘‘

صابرہ نے برتن جن میں کھانا ابھی تک ویسے ہی تھا، اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھ دیے اور نعیم کوسو جانے کے لیے کہا۔ نعیم اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ جب صابرہ نماز کے لیے کھڑی ہو گئی تو وہ چپکے سے اٹھا اور دبے پاؤں دوسرے کمرے سے کھانا اٹھا کر اصطبل کی طرف چل دیا۔ عبد اللہ چرنی پر بیٹھا ایک گھوڑے کے منہ پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ چاند کی روشنی دروازے کے راستے عبداللہ کے منہ پر پڑ رہی تھی۔ نعیم نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا۔ ’’امی جان نماز پڑھ رہی ہیں۔ جلدی سے کھا لو!

عبد اللہ نعیم کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ’’لے جاؤ میں نہیں کھاؤں گا۔‘‘

’’کیوں مجھ سے ناراض ہونا ؟‘‘ اس نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا۔

’’نہیں نعیم، امی جان کا حکم ہے تم جاؤ!‘‘

میں نہیں جاؤں گا، میں بھی یہیں رہوں گا۔‘‘

’’جاؤ نعیم، تمہیں امی جان ماریں گی!‘‘

’’نہیں میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ نعیم نے عبد اللہ سے لپٹتے ہوئے کہا۔

نعیم کے اصرار پر عبد اللہ خاموش ہو گیا۔

ادھر صابرہ نے نماز ختم کی۔ مامتا زیادہ ضبط کی طاقت نہ رکھتی تھی۔ ’’اف! میں کتنی ظالم ہوں۔‘‘ اسے خیال آیا اور نماز ختم کرتے ہی اصطبل کی طرف چل دی۔ نعیم نے ماں کو آتے دیکھا تو چھپنے کی بجائے بھاگ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا اور چلایا:

’’امی! بھائی کا کوئی قصور نہیں۔ میں عذرا کو گہرے پانی میں لے گیا تھا۔ بھائی تو اسے بچا رہا تھا۔‘‘ صابرہ کچھ دیر پریشانی کی حالت میں کھڑی رہی۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’میرا بھی یہی خیال تھا۔ عبد اللہ ادھر آؤ!‘‘ عبد اللہ اٹھ کر آگے بڑھا۔ صابرہ نے پیار سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کا سر سینے سے لگا لیا۔

عبد اللہ نے کہا۔ ’’امی آپ نعیم کو معاف کر دیں !‘‘

صابرہ نے نعیم کی طرف دیکھا اور کہا :

’’بیٹا تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کیوں نہ کیا؟‘‘

نعیم نے جواب دیا ’’مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ بھائی کو سزا دیں گی۔‘‘

’’اچھا تم کھا اٹھا لو۔‘‘

نعیم نے کھانا اٹھا لیا اور تینوں مکان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ عذرا سو رہی تھی۔ ان تینوں میں سے کسی نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ تمام ایک جگہ بیٹھ کر کھانے لگے۔

ان بچوں کی تعلیم و تربیت صابرہ کی زندگی کی تمام دلچسپیوں کا مرکز تھی۔ اس تنہائی کے باوجود جو ایک عورت کو خاوند کی موت کے بعد محسوس ہوا کرتی ہے، صابرہ کا اجڑا ہوا گھر اس کے لیے ایک پر رونق شہر سے کم نہ تھا۔

رات کے وقت جب وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوتی تو عبد اللہ، عذرا اور نعیم اس کے قریب بیٹھ کر کہانی سنانے کا مطالبہ کرتے۔ صابرہ انہیں کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں کے واقعات سناتی اور رسول بر حقﷺ کے حالات بتاتی۔

ان بچوں کی بے فکری کا زمانہ گزرتا گیا۔صابرہ کی تربیت کے باعث ان کے دلوں میں سپاہیانہ زندگی کے تمام خصائص روز بروز ترقی کر رہے تھے۔عبد اللہ عمر میں جس قدر بڑا تھا، عذرا اور نعیم کے مقابلے میں اتنا ہی سنجیدہ اور متین تھا۔ وہ تیرہ سال کی عمر میں قرآن پاک اور چند ابتدائی کتابیں ختم کر چکا تھا۔ نعیم ایک تو کم عمر ہونے کی بناء پر اور دوسرے کھیل کود میں زیادہ حصہ لینے کی وجہ سے پڑھائی میں عبد اللہ سے پیچھے تھا۔ اس کی شوخی اور چلبلا پن تمام بستی میں مشہور تھا۔ وہ اونچے سے اونچے درخت پر چڑھ سکتا تھا اور تند سے تند گھوڑے پر سواری کرنے کا عادی تھا۔ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے ہوئے اس نے کئی بار گر کر چوٹیں کھائیں۔ لیکن وہ ہر بار ہنستا اور خطرے کے مقابلے کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ جرات لے کر اٹھتا۔ تیر اندازی میں بھی اس نے اتنی مہارت پیدا کر لی تھی کہ گاؤں میں بڑی عمر کے لڑکے بھی اس کا لوہا مانتے تھے۔

ایک دن عبد اللہ صابرہ کے سامنے بیٹھا سبق سنا رہا تھا اور نعیم تیر کمان ہاتھ میں لیے مکان کی چھت پر کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا

صابرہ نے آواز دی۔’’نعیم ادھر آؤ! آج تم نے سبق یاد نہیں کیا؟‘‘

’’آتا ہوں امی۔‘‘

صابرہ پھر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ اچانک ایک اڑتا ہوا کوا آیا۔ نعیم نے جلدی سے نشانہ لیا۔ کوا قلابازیاں کھاتا ہوا صابرہ کے قریب آ گرا۔ صابرہ نے گھبرا کر اوپر دیکھا۔ نعیم کمان ہاتھ میں لیے فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔ صابرہ نے اپنی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے کہا۔’’بہت نالائق ہو تم!‘‘

’’امی! آج بھائی نے کہا تھا کہ تم اڑتے ہوئے پرندے کو نشانہ نہیں بنا سکتے!‘‘

’’اچھا، بہت بہادر ہو تم، آؤ، اب سبق سناؤ!‘‘

چودہ سال کی عمر میں عبد اللہ علوم دینی اور فنون سپہ گری کی تکمیل کے لیے بصرہ کے ایک مکتب میں داخل ہونے کے لیے رخصت ہوا اور عذرا کی دنیا کی آدھی خوشی اور ماں کے محبت بھرے دل کا ایک ٹکڑا ساتھ لیتا گیا۔ ان تینوں بچوں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری نہیں کہ عذرا کو نعیم اور عبد اللہ سے بے حد محبت تھی۔ لیکن یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی کو زیادہ چاہتی تھی۔اس کے معصوم دل پر کون زیادہ گہرے نقوش پیدا کر چکا تھا۔ اس کی آنکھیں کس کو بار بار دیکھنے کے لیے بے قرار رہتیں اور اس کے کانوں میں کس کی آواز ایک نغمہ بن کر گونجتی تھی۔

بظاہر خود عذرا بھی اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے لیے نعیم اور عبد اللہ ایک ہی وجود کے دو مختلف نام تھے اور نعیم کے بغیر عبداللہ اور عبد اللہ کے بغیر نعیم کا تصور اس کے لیے نا ممکن تھا۔ اس نے اپنے دل میں کبھی ان دونوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان دونوں کی موجودگی میں بھلا اسے کسی گہری سوچ میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ہنستا ہوا نظر آتا تو وہ اس کی ہنسی میں شریک ہو جاتی اور جب کسی کو سنجیدہ دیکھتی تو فوراً سنجیدہ ہو جاتی۔

عبد اللہ کے بصرہ چلے جانے کے بعد اسے ان باتوں کے متعلق سوچنے کا موقع ملا۔ اسے معلوم تھا کہ کچھ عرصہ بعد نعیم بھی وہاں چلا جائے گا۔ لیکن نعیم سے جدائی کا تصور بھیا سے عبد اللہ کی جدائی سے زیادہ صبر آزما محسوس ہوتا تھا۔ عبد اللہ کا عمر میں بڑا ہونا، اس کی متانت و سنجیدگی عذرا کے دل میں اس کی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت اور بلندی کا احساس پیدا کر چکی تھی۔ وہ محبت سے زیادہ اس کا احترام کرتی تھی۔ اسے نعیم کی طرح بھائی جان کہہ کر پکارتی اور اپنے سے ارفع اور اعلیٰ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ میل جول اور باتوں میں قدرے تکلف سے کام لیتی۔ نعیم کی عظمت بھی اس کے دل میں کم نہ تھی۔ لیکن اس کے ساتھ گہرے لگاؤ نے اسے تکلفات سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اس کی دنیا میں عبد اللہ ایک سورج کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کی طرف ہم اس کی خوشنمائی کے باوجود آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے اور اس کے قریب جانے کے خیال سے گھبراتے ہیں لیکن نعیم کی ہر بات اسے اپنے منہ سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی۔

عبداللہ کے چلے جانے کے بعد نعیم کی عادات میں ایک عجیب تغیر رونما ہوا۔ شاید اس خیال سے کہ صابرہ عبد اللہ کی جدائی بہت زیادہ محسوس نہ کرے یا اس کی وہ بھی بصرہ کے مدرسے میں داخل ہونے کے لیے بے تاب تھا۔ بہر حال وہ بچپن کی تمام عادات چھوڑ کر پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا۔ اس نے ایک دن عابدہ سے سوال کیا ’’امی! آپ مجھے بصرہ کب بھیجیں گی؟‘‘

ماں نے جواب دیا ’’بیٹا جب تک تم اپنی ابتدائی تعلیم ختم نہیں کر لیتے۔ میں تمہیں وہاں بھیج کر لوگوں سے یہ کہلوانا پسند نہیں کرتی کہ عبد اللہ کا بھائی بے علم ہے۔ گھوڑے پر چڑھنے اور تیر چلانے کے سوا کچھ نہیں جانتا۔‘‘

ماں کے الفاظ نعیم کے دل میں نشتر کی طرح چبھے۔ اس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’امی ! مجھے کوئی جاہل کہنے کی جرات نہیں کر ے گا۔ میں تمام کتابیں اسی ختم کر لوں گا۔‘‘

صابرہ نے پیار سے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:

’’بیٹا! تمہارے لیے کوئی بات مشکل نہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ تم کچھ کرتے نہیں !‘‘

’’ضرور کروں گا۔ امی اب آپ کو مجھ سے یہ شکایت نہ رہے گی۔‘‘

ماہ رمضان کی چھٹیوں میں عبد اللہ گھر آیا۔ وہ سپاہیانہ لباس پہنے ہوئے تھا۔ بستی کے لڑکے اسے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ نعیم اسے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتا۔ عذرا اسے دور ہی دور سے دیکھ کر شرما جاتی اور صابرہ بار بار اس کی پیشانی چومتی۔ نعیم نے عبداللہ سے مدرسے کے متعلق بہت سے سوالات کیے۔ عبد اللہ نے اسے بتایا کہ وہاں پڑھائی کے علاوہ زیادہ فنون جنگ کی تحصیل میں صرف ہوتا ہے۔ نیزہ بازی، تیغ زنی اور تیر اندازی سکھائی جاتی ہے۔ تیز اندازی کے متعلق سن کر نعیم کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔

’’بھائی جان مجھے بھی ساتھ لے چلو۔‘‘ اس نے ملتجی ہو کر کہا!

’’تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ وہاں تمام لڑکے تم سے بہت بڑے ہیں۔ تمہیں کچھ مدت صبر کرنا پڑے گا۔‘‘

نعیم نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سوال کیا۔ ’’بھائی جان! مدرسے میں آپ سب لڑکوں پر سبقت لے جاتے ہوں گے؟‘‘

عبد اللہ نے جواب دیا۔

’’نہیں بصرہ کا ایک لڑکا میرا مد مقابل ہے۔ اس کا نام محمد بن قاسم ہے۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں تمام مدرسے کے لڑکوں سے اچھا ہے۔ تیغ زنی میں ہم دونوں برابر ہیں۔ اس سے کبھی کبھی تمہارا ذکر کرتا ہوں۔ وہ تمہاری باتیں سن کر بہت ہنسا کرتا ہے۔‘‘

’’ہنسا کرتا ہے؟‘‘ نعیم نے تیوری چڑھا کر کہا۔ ’’ میں اسے جا کر بتاؤں گا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ لوگ مجھ پر ہنسا کریں۔‘‘

عبد اللہ نے نعیم کو برگشتہ دیکھ کر گلے لگا لیا اور اسے خوش کرنے کی کوشش کی۔

رات کے وقت عبد اللہ لباس تبدیل کر کے سو گیا۔ نعیم اس کے قریب بستر پر پڑا کافی دیر تک جاگتا رہا۔ جب نیند آئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ بصرہ کے مدرسے کے طلبا کے ساتھ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں مصروف ہے۔ وہ علی الصباح سب سے پہلے اٹھا۔ جلدی جلدی عبد اللہ کی وردی پہنی اور عذرا کو آ جگایا۔

’’عذرا دیکھو! مجھے یہ لباس کیسا لگتا ہے؟‘‘

عذرا اٹھ کر بیٹھ گئی۔ نعیم کو سر سے پاؤں تک دیکھا، مسکرائی اور بولی۔ ’’تم اس لباس میں بہت بھلے معلوم ہوتے ہو۔‘‘

’’عذرا میں بھی وہاں جاؤں گا اور وہاں سے یہ لباس پہن کر آؤں گا!‘‘

عذرا کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ ’’تم وہاں کب جاؤ گے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔

’’عذرا میں امی جان سے بہت جلد اجازت لے لوں گا۔‘‘

مکتب

۳۵ء سے ۷۵ء تک کی اسلامی تاریخ چند ایسے خونیں حادثات سے پر ہے جن کے متعلق گذشتہ صدیوں میں بہت آنسو بہائے جا چکے ہیں اور جن کی یاد مستقبل میں بھی اشکوں اور آہوں کے بغیر تازہ نہ کی جا سکے گی۔ وہ تلوار جو خدا کے نام پر بلند ہوتی تھی، اس زمانے میں خدا کا نام لینے والوں کی گلے کاٹتی رہی۔ یہ خطرہ رو ز بروز ترقی کر رہا تھا کہ مسلمان چند سال کے عرصے میں جس سرعت کے ساتھ اطراف عالم میں چھا گئے تھے، کہیں اتنی ہی تیزی کے ساتھ سمٹ کر جزیرہ نمائے عرب میں محبوس نہ ہو جائیں۔ اس زمانے میں کوفہ اور بصرہ طرح طرح کی سازشوں کے مرکز بنے ہوئے تھے۔ مسلمان اپنی ابتدائی روایات کو بھول کر جذبہ جہاد سے منہ پھیر چکے تھے۔ ان کے پیش نظر ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے جدوجہد اور اپنی واجب اور نا واجب باتوں پر اڑ بیٹھنے کے سوا اور کوئی نظریہ نہ تھا۔ مسلمانوں کو پھر ایک مرکز پر لانے کے لیے ایک آہنی ہاتھ کی ضرورت تھی۔

صحرائے عرب میں ایک آتش فشاں پہاڑ پھٹا اور عرب و عجم میں بغاوتوں کی سلگتی ہوئی چنگاریاں اس آتش فشاں پہاڑ کے مہیب شعلوں کی لپیٹ میں آ کر نا بود ہو گئیں۔ یہ آتش فشاں پہاڑ حجاج بن یوسف تھا۔ بے حد سخت گیر، بے رحم اور سفاک لیکن قدرت صحرائے عرب کی اندرونی جنگوں کو ختم کر کے مسلمانوں کے تند گھوڑوں کا رخ مشرق و مغرب کی رزم گاہوں کی طرف پھیر دینے کا کا م اسی سے لینا چاہتی تھی۔

حجاج بن یوسف کو مسلمانوں کا دوست بھی کہا جا سکتا ہے اور بدترین دشمن بھی۔ بہترین دوست اس لیے کہ اس نے ایک پر امن فضا پیدا کر کے پیش قدمی کے لیے تین زبردست راستے صاف کیے۔ ایک راستہ وہ تھا جو مسلمانوں کی فوج کو فرغانہ اور کاشغر تک لے گیا۔ دوسرا راستہ وہ جو مسلمانوں کے سمند اقبال کو مراکش، سپین اور فرانس کی حدود تک لے گیا۔ تیسرا راستہ وہ تھا جس نے محمد بن قاسم کی مٹھی بھر فوج کو سند ھ تک پہنچا دیا۔

بدترین دشمن اس لیے کہ اس کی خون آشام تلوار جو شرپسندوں اور مفسدوں کی سرکوبی کے لیے بے نیام ہوئی تھی، بسا اوقات اپنی حدود سے گزر کر بے گناہ کی گردن تک بھی جا پہنچتی تھی۔ اگر حجاج بن یوسف کا دامن مظلوموں کے خون سے داغدار نہ ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ تاریخ کے اس زمانے کے ایک عظیم الشان انسان کی حیثیت سے نہ دیکھتی۔ وہ ایک ایسا بگولہ تھا جو کانٹے دار جھاڑیوں کے ساتھ گلشن اسلام کے کئی مہکتے ہوئے پھول اور سر سبز ٹہنیاں بھی اڑا کر لے گیا۔

بہرحال اس کے عہد کا ایک بے حد المناک اور دوسرا بے حد خوشگوار تھا۔وہ اس آندھی کی طرح تھا جس کی تیزی بعض سر سبز درختوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالتی ہے لیکن جس کی آغوش میں چھپے ہوئے بادل برس کر ہزاروں سوکھی ہوئی کھیتیوں کو سرسبز و شاداب بناتے ہیں۔

۵۷ء میں صحرائے عرب کی خانہ جنگیاں ختم ہو گئیں۔ مسلمان پھر ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر اٹھے۔ اس زمانے میں حجاج بن یوسف کے نام کے ساتھ زید بن عامر کے نام کا چرچا ہونے لگا۔ زید بن عامر کی عمر اسی سال تھی۔ جوانی کے عالم میں وہ ان شاہسواروں کے ہم رکاب رہ چکا تھا جو ایران کے کسریٰ اور شام و فلسطین میں قیصر کی سلطنت کو پائمال کر چکے تھے۔ جب بڑھاپے کی کمزوری نے تلوار اٹھانے سے انکار کر دیا تو اس نے ایران کے ایک صوبہ میں قاضی کا عہدہ قبول کر لیا۔ جب عرب میں شورش برپا ہوئی تو ابن عامر کوفہ پہنچا اور اپنی تبلیغ سے وہاں کے حالات سدھارنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔‘‘ کوفہ کے لوگوں کی بے اعتنائی دیکھ کر ابن عامر بصرہ پہنچا لیکن وہاں کے حالات بھی کوفہ سے کچھ مختلف نہ تھے۔ فارغ البال اور شرپسند لوگوں نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی۔ نوجوانوں اور بوڑھوں سے مایوس ہو کر ابن عامر نے اپنی تمام امیدیں کم سن بچوں کے ساتھ وابستہ کر دیں اور اپنی تمام کوششوں سے ان کی تعلیم و تربیت کی طرف مبذول کر دیں۔ا س نے شہر کے باہر ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ جب بصرہ میں امن قائم ہوا تو وہاں کے چیدہ چیدہ لوگوں نے ابن عامر کی حوصلہ افزائی کی۔ مدرسہ میں طلباء کو دینی کتب پڑھانے کے علاوہ جنگی فنون کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ حجاج بن یوسف اس بے لوث خدمت سے متاثر ہوا اور مدرسے کے تمام اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ طلبا ء کو جنگ اور شاہسواری وغیرہ میں پوری مہارت دلانے کے لیے بہترین نسل کے گھوڑے اور نئے نئے اسلحہ جات مہیا کیے اور گھوڑوں کے مکتب کے پاس ہی ایک شاندار اصطبل تیار کرا دیا۔

طلباء ہر شام مدرسہ کے قریب ایک وسیع میدان میں جمع ہو جاتے۔ وہاں انہیں عملی طور پر فوجی تعلیم دی جاتی۔ شہر کے لوگ شام کے وقت اس میدان کے ارد گرد جمع ہو کر طلباء کی تیغ زنی، نیزہ بازی اور شاہسواری کے نئے نئے کرتب دیکھا کرتے۔

سعید نے جب اس مدرسے کی شہرت سنی تو صابرہ کو خط لکھ کر مشورہ دیا کہ عبد اللہ کو اس مدرسے میں بھیج دیا جائے۔ عبد اللہ اس ماحول میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ وہ جہاں تعلیم میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے لئے قابل رشک تھا وہاں فنون سپہ گری میں بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔

عبد اللہ کو اس شہر میں آئے ابھی دو سال ہوئے تھے کہ بصرہ کے بچے اور بوڑھے اس کے نام سے واقف ہو گئے۔ ابن عامر کی نگاہوں سے بھی اس ہونہار شاگرد کے جوہر پوشیدہ نہ تھے۔

ایک روز دوپہر کے وقت ایک نو عمر لڑکا گھوڑے پر سوار شہر میں داخل ہوا۔ اس نووارد کے ہاتھ میں نیزہ اور دوسرے میں گھوڑے کی باگ تھی۔ کمر کے ساتھ تلوار لٹک رہی تھی۔ میں حمائل اور پیٹھ پر ترکش بندھا ہوا تھا۔ کمان زین کے پچھلے حصے کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، اس کی تلوار اس کے قد و قامت کے تناسب سے بہت بڑی تھی۔ کم سن سوار گھوڑے پر اکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ ہر راہگیر اسے گھور گھور کر دیکھتا اور مسکرا دیتا اور بعض ہنس بھی پڑتے۔ اس کے ہم عمر لڑکے اسے ایک دل لگی سمجھ کر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور تھوڑی دیر میں اس کے آگے پیچھے ایک اچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ لڑکوں نے اس کے لیے آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا راستہ روک لیا۔ ایک لڑکے نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’’بدو‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور تمام بدو بدو کہہ کر چلانے لگے، دوسرے نے ایک کنکر اٹھا کر اس کی طرف پھینکا۔ اب تمام لڑکوں نے کنکر پھینکنے شروع کر دیے۔ ایک من چلے نے جو اس گروہ کا سرغنہ معلوم ہوتا تھا، آگے بڑھ کر اس کا نیزہ چھیننا چاہا لیکن نووارد نے نیزہ مضبوطی سے تھامے رکھا اور اور گھوڑے کی باگ کھینچ کر ایڑ لگا دی۔ گھوڑے کا سیخ پا ہونا تھا کہ تمام لڑکے ادھر ادھر ہٹ گئے۔ نووارد نے ٹولی کے رہنما کی طرف نیزہ بڑھا کر گھوڑا اس کے پیچھے لگا دیا۔ وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ نووارد نے ہلکی رفتار سے اس کا تعاقب کیا۔ باقی لڑکے پیچھے پیچھے بھاگتے آ  رہے تھے۔ چند عمر رسیدہ لوگ بھی یہ منظر دیکھ کر اس جلوس میں شامل ہو گئے۔ آگے بھاگنے والے لڑکے کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور وہ منہ کے بل گر پڑا۔ نووارد نے گھوڑے کی باگ تھام لی اور پیچھے آنے والوں کی طرف مڑ کر دیکھا اور وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ہو گئے۔

اس گروہ میں سے مالک بن یوسف ایک ادھیڑ عمر کا آدمی آگے بڑھا۔ اس کا قد پست اور بدن چھریرا تھا۔ سر پر ایک بہت بڑا عمامہ تھا اور اوپر کے دانت کچھ اس حد تک باہر نکلے ہوئے تھے کہ وہ مسکراتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر نووارد سے سوال کیا:

’’تم کون ہو؟‘‘

’’مجاہد‘‘۔ کم سن لڑکے نے اکڑ کر جواب دیا۔

’’بہت اچھا نام ہے۔ تم بہت بہادر ہو۔‘‘

’’میرا نام نعیم ہے۔‘‘

’’تو تمہارا نام مجاہد نہیں ؟‘‘

’’نہیں میرا نام نعیم ہے۔‘‘

’’تم کہاں جاؤ گے؟‘‘ مالک نے سوال کیا۔

’’ابن عامر کے مکتب میں، وہاں میرا بھائی پڑھتا ہے۔‘‘

’’وہ لوگ اس وقت اکھاڑے میں ہوں گے۔ چلو میں بھی وہیں جا رہا ہوں۔‘‘

نعیم مالک کے ساتھ چل دیا۔ چند لڑکے تھوڑی دور ساتھ دے کر مڑ گئے اور کچھ نعیم کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔

نعیم نے اپنے رہنما سے سوال کیا۔ ’’اکھاڑے میں تیر اندازی بھی ہوتی ہے؟‘‘

’’ہاں۔ تم تیر چلانا جانتے ہو؟‘‘

’’ہاں میں اڑتے ہوئے پرندے کو گرا لیتا ہوں۔‘‘

مالک نے پیچھے مڑ کر نعیم کی طرف دیکھا۔ نعیم کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ اکھاڑے میں بہت سے لوگ الگ الگ ٹولیوں میں کھڑے طلباء کی تیر اندازی، تیغ زنی اور نیزہ بازی دیکھ رہے تھے۔مالک نے وہاں پہنچ کر نعیم سے کہا:

’’تمہارا بھائی یہیں ہو گا۔ تم کھیل ختم ہونے سے پہلے اس سے نہیں مل سکو گے۔

فی الحال یہ تماشا دیکھو!‘‘

نعیم نے کہا۔ میں تیر اندازی دیکھوں گا۔‘‘

مالک اسے تیر اندازوں کے اکھاڑے کی طرف لے گیا اور دونوں تماشائیوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔

اکھاڑے میں ایک کونے پر لکڑی کا ایک تختہ نصب تھا جس کے درمیان ایک سیاہ نشان تھا۔لڑکے باری باری اس پر نشانہ لگاتے۔ نعیم دیر تک کھڑا دیکھتا رہا۔ اکثر تیر تختے پر جا کر لگتے لیکن سیاہ نشان پر ایک طالب علم کے سوا کسی کا تیر نہ لگا۔

نعیم نے مالک سے پوچھا۔ ’’وہ کون ہے۔ اس کا نشانہ بہت اچھا ہے؟‘‘

مالک نے جواب دیا۔ ’’وہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا محمد بن قاسم ہے۔‘‘

’’محمد بن قاسم!!‘‘

’’ہاں، تم اسے جانتے ہو؟‘‘

’’ہاں، وہ میرے بھائی کا دوست ہے۔ بھائی جان اس کے نشانے کی بہت تعریف کرتے ہیں لیکن یہ نشاندہی کوئی مشکل تو نہیں۔‘‘

’’مشکل کیا ہے؟ یہ تو شاید میں بھی لگا سکوں۔ ذرا مجھے اپنی کمان تو دینا۔ حجاج کا بھتیجا کیا خیال کرے گا کہ اب دنیا میں کوئی تیر انداز نہیں رہا۔‘‘

یہ کہہ اس نے نعیم کے گھوڑے کی زین سے کمان کھولی۔ نعیم نے اسے ترکش سے تیر  لٹکال کر دیا۔ مالک نے آگے بڑھ کر شست باندھی۔ لوگ اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔ مالک نے کانپتے ہاتھوں سے تیرا چھوڑا جو ہدف کی طرف جانے کی بجائے چند قدم کے فاصلے پر زمین میں دھنس گیا۔ تماشائیوں نے ایک پر زور قہقہہ لگایا۔ مالک کھسیانا ہو کر واپس ہوا اور کمان نعیم کو دے دی۔ محمد بن قاسم ہنستا ہوا آگے بڑھا۔ تیر زمین سے کھینچ کر نکالا اور آگے بڑھ کر مالک کو پیش کرتے ہوئے کہا:

’’آپ ایک بار اور کوشش کریں !‘‘

مالک کے چہرے پر پسینہ آگیا۔ اس نے بدحواسی میں محمد بن قاسم سے تیر لے کر نعیم کی طرف بڑھا دیا۔ مالک کی اس حرکت سے لوگوں کی توجہ نعیم کی طرف مبذول ہو گئی اور وہ یکے بعد دیگرے کھسک کھسک کر نعیم کی طرف آنے لگے۔ محمد بن قاسم بدستور ہنستا ہوا آگے بڑھا اور نعیم کو مخاطب کر کے بولا۔’’آپ بھی شوق فرمائیے!‘‘ لوگ پھر ہنسنے لگے۔

نعیم اس کی طنز اور لوگوں کی ہنسی برداشت نہ کر سکا۔ اس نے جھٹ نیزہ نیچے گاڑ دیا اور کمان میں تیر چڑھا کر چھوڑ دیا۔ تیر ہدف کے سیاہ نشان کے عین درمیان میں جا کر پیوست ہو گیا۔ مجمع پر ایک لمحہ کے لیے سکوت طاری ہو گیا۔ اور پھر ایک شور بلند ہوا۔

نعیم نے ترکش سے دوسرا تیر نکالا۔ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ اس کا دوسرا تیر بھی عین نشانے پر لگا۔ چاروں طرف سے مرحبا مرحبا کی صدا بلند ہوئی۔ نعیم نے مجمع پر ایک نگاہ دوڑائی اور دیکھا کہ تمام لوگوں کی نگاہیں اس پر عقیدت کے پھول برسا رہی ہیں۔ محمد بن قاسم مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور نعیم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولا:

’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘

’’مجھے نعیم کہتے ہیں۔‘‘

’’نعیم، نعیم بن؟‘‘

’’نعیم بن عبد الرحمن۔‘‘

’’تم عبد اللہ کے بھائی ہو؟‘‘

’’ہاں !‘‘

’’یہاں کب آئے؟‘‘

’’ابھی۔‘‘

’’عبداللہ سے نہیں ملے؟‘‘

’’ابھی نہیں۔‘‘

’’تمہارا بھائی نیزہ بازی یا شمشیر زنی کی مشق کر رہا ہو گا۔ تم تلوار چلانا جانتے ہو؟‘‘

’’میں بستی میں سیکھا کرتا تھا۔‘‘

’’تمہاری تیر اندازی دیکھ کر میں محسوس کرتا ہوں کہ تم تلوار چلانے میں بھی کافی مہارت حاصل کر چکے ہو گا۔ آج ایک لڑکے کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو گا!‘‘

مقابلے کا لفظ سن کر نعیم کی رگوں میں خون کا دور تیز ہو گیا۔ اس نے پوچھا:

’’کتنا بڑا ہے وہ؟‘‘

’’تم سے کوئی زیادہ بڑا نہیں۔ اگر پھرتی سے کام لو گے تو اس سے جیت جانا تمہارے لیے کوئی بات نہیں۔ ہاں تمہاری تلوار ذرا بھاری ہے۔ زرہ بھی بہت ڈھیلی ہے۔ میں ابھی اس کا انتظام کیے دیتا ہوں۔ تم گھوڑے سے اترو!‘‘

محمد بن قاسم نے ایک شخص کو اپنی زرہ، خود اور تلوار لانے کے لیے کہا:

تھوڑی دیر میں نعیم ایک نئی زرہ پہنے اور ہاتھ میں ایک ہلکی سی تلوار لیے تماشائیوں کی صف میں کھڑا ابن عامر کے شاگردوں کو تیغ زنی کی مشق کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس کے سر پر یونانی وضع کے خود نے اس کا چہرہ ٹھوڑی تک چھپا رکھا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کے سوا جواس کی تیر اندازی سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ چلے آئے تھے، کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کوئی اجنبی ہے۔

ابن عامر تماشائیوں کے گروہ سے الگ میدان میں کھڑا اپنے شاگردوں کو ہدایات دے رہا تھا۔ ایک لڑکے کے مقابلے کے لیے یکے بعد دیگرے چند لڑکے میدان میں نکلے لیکن اس کے سامنے کسی کی پیش نہ چلی۔ وہ اپنے ہر نئے مقابل کو کسی نہ کسی داؤ میں لا کر ہار منوا لیتا۔ بالآخر ابن عامر نے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا ’’محمد! تم تیار نہیں ہوئے؟‘‘

محمد بن قاسم نے آگے بڑھ کر دبی زبان میں ابن عامر سے کچھ کہا۔

بن عامر مسکراتا ہوا نعیم کی طرف آیا اور اس کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔’’تم عبد اللہ کے بھائی ہو؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

’’ اس لڑکے سے مقابلہ کرو گے؟‘‘

’’جی مجھے اتنی زیادہ مشق نہیں اور پھر وہ مجھ سے بڑا بھی ہے۔‘‘

’’کوئی حرج نہیں۔‘‘

لیکن میرا بھائی کہاں ہے؟‘‘

’’وہ بھی یہیں ہے۔ تمہیں اس سے ملائیں گے۔ پہلے اس کے ساتھ مقابلہ کر کے دکھاؤ!‘‘

نعیم جھجکتا ہوا میدان میں آیا۔ تماشائی جو پہلے خاموش کھڑے تھے ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔

دو تلواریں آپس میں ٹکرائیں اور ان کی جھنکار آہستہ آہستہ بلند ہونے لگی۔ کچھ دیر نعیم کا مد مقابل اسے کم سن سمجھ کر فقط اس کے وار روکتا رہا لیکن نعیم نے اچانک پینترا بدلا اور اس قدر تیزی کے ساتھ وار کیا کہ وہ اس غیر متوقع وار کو بروقت نہ روک سکا اور نعیم کی تلوار اس کی تلوار پر سے پھسلتی ہوئی اس کے خود سے ٹکرا گئی۔ تماشائیوں نے تحسین و آفرین کے نعرے بلند کیے۔

نعیم کے مد مقابل کے لیے یہ بالکل نئی بات تھی۔ اس نے غصے کی حالت میں چند وار شدت کے ساتھ کیے اور نعیم کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا۔ چند قدم پیچھے ہٹنے کے بعد نعیم کا پاؤں ڈگمگایا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا۔

نعیم کا مقابل فاتحانہ انداز میں تلوار نیچے کر کے اس کے دوبارہ اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔ نعیم غصے کی حالت میں اٹھا اور تیغ زنی کے تمام اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی تندی اور تیزی سے اس پر وار کرنے لگا۔ نعیم کو سپاہیانہ رسوم سے باہر جاتا دیکھ کر اس نے پوری طاقت کے ساتھ تلوار گھما کر وار کیا۔ نعیم نے یہ وار اپنی تلوار پر روکنے کی کوشش کی لیکن تلوار اس کے ہاتھ کی گرفت سے نکل کر چند قدم دور جا گری۔ نعیم پریشان سا ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ محمد بن قاسم اور ابن عامر مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔ ابن عامر نے ایک ہاتھ اپنے شاگرد اور دوسرا ہاتھ نعیم کے کندھے پر رکھتے ہوئے نعیم سے کہا۔’’آؤ اب تمہیں تمہارے بھائی سے ملائیں !‘‘

’’جی ہاں ! کہاں ہیں وہ؟‘‘

’’ابن عامر نے دوسرے لڑکے کا خود اتارتے ہوئے کہا۔ ’’ادھر دیکھو!‘‘

نعیم ’’بھائی بھائی! ‘‘ کہتا ہوا عبد اللہ سے لپٹ گیا۔ عبد اللہ کو انتہائی پریشانی کی حالت میں دیکھ کر محمد بن قاسم نے نعیم کا خود اتار دیا اور کہا ’’عبد اللہ! یہ نعیم ہے۔ کاش یہ میرا بھائی ہوتا!‘‘

صابرہ کے لال ابن عامر جیسے مشفق استاد کے سایہ میں ایک غیر معمولی رفتار سے روحانی، جسمانی اور ذہنی ترقی کر رہے تھے۔

مکتب میں عبد اللہ کا نام سب سے پہلے آتا لیکن اکھاڑے میں نعیم سب سے اول رہتا۔محمد بن قاسم کبھی کبھی اکھاڑے میں آتا اور نعیم کو بعض باتوں میں اس کی برتری کا اعتراف کرنا پڑتا۔

محمد بن قاسم کو تیغ زنی میں زیادہ مہارت تھی۔ نیزہ بازی میں دونوں ایک جیسے تھے، تیر اندازی میں نعیم سبقت لے جاتا۔ محمد بن قاسم بچپن ہی میں اپنے آپ کو ان خصائل کا مالک ثابت کر چکا تھا جو بعض لوگوں کو ہر ماحول میں ممتاز رکھتے ہیں۔ ابن عامر کہا کرتا تھا کہ وہ کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

عبد اللہ اور نعیم کے ساتھ محمد بن قاسم کی دوستی کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ بظاہر محمد بن قاسم کی نظروں میں وہ دونوں ایک جیسے تھے لیکن عبد اللہ خود اس بات کو محسوس کرتا تھا کہ نعیم اس سے زیادہ قریب ہے۔ نعیم کو مکتب میں داخل ہوئے ابھی آٹھ مہینے گزر تھے کہ محمد بن قاسم فارغ التحصیل ہو کر فوج میں شامل ہو گیا۔

محمد بن قاسم کے جانے کے بعد مکتب میں نعیم کا ایک اور جوہر نمایاں ہونے لگا۔ اس مدرسے کے طلباء ہفتے میں ایک بار کسی نہ کسی موضوع پر مناظرہ کیا کرتے تھے۔ موضوع ابن عامر خود تجویز کرتے۔ نعیم نے بھی اپنے بھائی کی دیکھا دیکھی ایک مناظرے میں حصہ لیا لیکن وہ پہلے مناظرے میں چند ٹوٹے پھوٹے جملے کہہ کر گھبرا گیا اور کھسیانا سا ہو کر ممبر سے اتر آیا۔ لڑکوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ابن عامر نے اسے تسلی دی لیکن وہ سارا دن مغموم رہا اور رات بھی کروٹیں بدلتے گزار دی۔ علی الصباح وہ بستر سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔ دوپہر تک ایک کھجور کے سائے تلے بیٹھ کر اپنی تقریر رٹتا رہا۔ اگلے ہفتے اس نے پھر مناظرے میں حصہ لیا اور ایک پر جوش تقریر سے سامعین کو محو حیرت کر دیا۔ اس کے بعد اس کی جھجک جاتی رہی اور اب بے تکلفی سے ہر مناظرے میں حصہ لینے لگا۔ اکثر مناظروں میں عبد اللہ اور نعیم دونوں شامل ہوتے۔ ایک بھائی ایک موضوع کے حق میں تقریر کرتا تو دوسرا اس کی مخالفت میں۔ شہر کے وہ لوگ جو اس کے جوہر دیکھ کر گرویدہ ہو چکے تھے۔ اس کی تقریروں میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ ابن عامر نعیم کی رگوں میں سپاہیانہ خون کی حرارت کے علاوہ اس کے دل و دماغ میں ایک غیر معمولی مقرر کی صلاحیت بھی دیکھ چکا تھا۔ اس نے ہونہار شاگرد کے اس جوہر کی تربیت کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ چند تقریروں سے نہ صرف اپنے مدرسے کا بہترین مقرر سمجھا جانے لگا بلکہ بصرہ کی گلیوں میں بھی اس کی جادو بیانی کے چرچے ہونے لگے۔ ابن عامر کے شاگردوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہو رہا تھا لیکن اس کے بلند ارادوں کی تکمیل کے راستے میں بڑھاپا اور خرابی © صحت بری طرح حائل ہو رہے تھے۔ اس نے والی بصرہ سے درخواست کی کہ مدرسہ میں ایک تجربہ کار استاد کی ضرورت ہے۔ والی بصرہ کو اس کام کے لیے سعید سے زیادہ جوان دنوں والی قبرص تھا اور کوئی آدمی موزوں نظر نہ آیا۔ حجاج نے دربار خلافت میں درخواست کی اور وہاں سے سعید کو فوراً بصرہ پہنچ جانے کا حکم صادر ہوا۔

نعیم اور عبد اللہ کو اس بات کا علم تھا کہ ایک نیا استادا رہا ہے لیکن وہ یہ نہ جانتے تھے کہ وہ ان کا ماموں ہے۔سعید قبرص کے ایک نو مسلم گھرانے کی لڑکی سے شادی کر چکا تھا۔ وہ اپنی بیوی سمیت پہلے صابرہ کے پاس پہنچا اور چند دن وہاں رہ کر بصرہ چلا آیا۔ مکتب میں آتے ہی اس نے پوری تن دہی سے کام شروع کر دیا۔ اسے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ اس کے بہترین شاگرد اس کے اپنے بھتیجے ہیں۔

بعد ازاں عبد اللہ اپنی جماعت کے چند اور نوجوان طلباء کے ساتھ فارغ التحصیل ہو گیا۔ جب ان طلباء کو رخصت کرنے کا دن آیا تو ابن عامر نے حسب معمول الوداعی جلسہ منعقد کیا۔ والی بصرہ نے بھی اس جلسے میں شرکت کی۔ طلباء کو دربار خلافت کی طرف سے گھوڑے اور اسلحہ جات تقسیم کیے گئے۔

ابن عامر نے الوداعی خطبہ دیتے ہوئے کہا:

’’نوجوانو ! اب تمہارا حوادث کی دنیا میں قدم رکھنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم میں سے ہر ایک یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔مجھے اس وقت ان تمام باتوں کے دہرانے کی ضرورت نہیں جو تم سے کئی بار کہہ چکا ہوں۔ فقط اپنے چند الفاظ ایک بار پھر دہراتا ہوں۔ زندگی ایک مسلسل جہاد ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا مبارک ترین فعل یہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا کی محبت میں اپنی جان تک پیش کر دے۔ جب تک تمہارے دل اس مقدس جذبے سے سرشار رہیں گے تمہیں اپنی دنیا اور آخرت دونوں روشن نظر آئیں گی۔ تم دنیا میں سر بلند و ممتاز رہو گے اور آخرت میں بھی تمہارے لیے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ یاد رکھو، جب اس جذبے سے تم محروم ہو جاؤ گے تو دنیا میں تمہارا کوئی ٹھکانا نہ ہو گا اور آخرت بھی تمہیں تاریک نظر آئے گی۔ کمزوری تمہارا دامن اس طرح پکڑ لے گی کہ تم ہاتھ پاؤں تک نہ ہلا سکو گے، کفر کی وہ طاقتیں جو مجاہدوں کے راستے میں ذروں سے بھی زیادہ نا پائیدار ہیں۔تمہیں پتھر کی مضبوط چٹانیں دکھائی دیں گی۔دنیا کی عیار قومیں تمہیں مغلوب کر لیں گی اور تم غلام بنا دیے جاؤ گے اور استبدادی نظام کے ایک ایسے طلسم میں جکڑ دیے جاؤ گے کہ تمہارے لیے اس سے نجات پانا ناممکن ہو جائے گا۔ تم اس وقت بھی اپنے آپ کو مسلمان تصور کرو گے لیکن تم اسلام سے کوسوں دور ہو گے۔ یاد رکھو، صداقت پر ایمان لانے کے باوجود اگر تم میں صداقت کے لیے قربانی کی تڑپ پیدا نہیں ہوتی تو سمجھ لینا کہ تمہارا ایمان کمزور ہے۔ ایمان کی پختگی کے لیے آگ اور خون کے دریا کو عبور کرنا ضروری ہے۔ جب تمہیں موت زندگی سے عزیز نظر آئے تو یہ سمجھنا کہ تم زندہ رہو اور جب تمہارے شوقِ شہادت پر موت کا خوف غالب آ جائے تو تمہاری حالت اس مردے کی سی ہو گی جو قبر کے اندر سانس لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔‘‘

ابن عامر نے تقریر کے دوران میں ایک ہاتھ سے قرآن اٹھا کر بلند کیا اور کہا:

’’یہ امانت آقائے مدنیﷺ کو خدائے قدوس کی جانب سے عطا ہوئی اور وہ دنیا میں اپنا فرض پورا کرنے کے بعد یہ امانت ہمارے سپرد کر گئے ہیں۔ حضورﷺ نے اپنی زندگی سے ثابت کیا کہ ہم اس امانت کی حفاظت تلوار کی تیزی اور بازو کی قوت کے بغیر نہیں کر سکتے۔ جو پیغام تم تک پہنچ چکا ہے تمہارا فرض ہے کہ اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دو!‘‘

ابن عامر اپنی تقریر ختم کر کے بیٹھ گئے اور حجاج بن یوسف نے مسئلہ جہاد کو ایک فصیح و بلیغ انداز میں بیان کرنے کے بعد اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا:

’’یہ خط مرو کے گورنر کی طرف سے آیا ہے، وہ دریائے جیحوں کو عبور کر کے ترکستان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اس خط میں مزید فوج کا مطالبہ کیا ہے۔ میں فی الحال بصرے سے چند دنوں تک دو ہزار سپاہی روانہ کر رہا ہوں۔ تم میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو اس فوج میں شریک کرنے کے لیے پیش کرتا ہے؟‘‘

اس پر تمام طلباء نے ہاتھ بلند کر دیے۔

حجاج نے کہا:

’’میں تمہارے جذبہ جہاد کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن اس وقت میں صرف فارغ التحصیل طلباء کو دعوت دوں گا۔ میں اس فوج کی قیادت اسی مدرسہ کے ایک ہونہار طالب علم کے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ میں عبد اللہ بن عبد الرحمن کے متعلق بہت کچھ سن چکا ہوں۔ اس لیے میں یہ خدمت اس کے سپرد کرتا ہوں۔ آپ سے جو نوجوان اس کا ساتھ دینا چاہیں، بیس دنوں میں اپنے گھروں سے ہو کر بصرہ پہنچ جائیں۔

ایثار

صابرہ کا معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر عذرا کو اپنے سامنے بٹھا لیتی اور اس سے قرآن سنتی۔ عذرا کی آواز کی مٹھاس کبھی کبھی پڑوس کی عورتوں کو بھی صابرہ کے گھر کھینچ لاتی، اس کے بعد صابرہ گاؤں کی چند لڑکیوں کو تعلیم دینے میں مصروف ہو جاتی اور عذرا کے گھر کے کام کاج سے فرصت حاصل کر کے تیر انداز کی مشق کیا کرتی۔ ایک روز طلوع آفتاب سے پہلے عذرا حسب معمول قرآن سنا کر اٹھنے کو تھی کہ صابرہ نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا اور کچھ دیر محبت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے کے بعد کہا:

’’عذرا، میں اکثر سوچا کرتی ہوں کہ اگر تم نہ ہوتیں تو میرے دن بڑی مشکل سے کٹتے۔ اگر تم میری بیٹی بھی ہوتیں تو بھی میں تمہارے ساتھ شاید اس سے زیادہ محبت نہ کر سکتی۔‘‘

عذرا نے جواب دیا: ’’اگر آپ نہ ہوتیں تو میں ....!‘‘

عذرا س سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

’’عذرا! صابرہ نے کہا۔

’’ہاں امی!‘‘

صابرہ آگے کچھ کہنا چاہتی تھی کہ باہر کا دروازہ کھلا اور عبد اللہ گھوڑے کی بگ تھامے اندر داخل ہوا۔ صابرہ اٹھی اور چند قدم آگے بڑھی۔ عبد اللہ نے سلام کیا۔ ماں اور بیٹا ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ بیٹے سے ہٹ کر ماں کی نظر کہیں دور جا پہنچی۔ اس دن سے بیس سال پہلے عبد اللہ کا باپ ایسے ہی لباس میں اور ایسی ہی شکل صورت کے ساتھ گھر میں داخل ہوا کرتا تھا۔

’’امی!‘‘

’’ہاں بیٹا۔‘‘

’’آپ پہلے سے بہت کمزور نظر آ رہی ہیں۔‘‘

’’نہیں بیٹا۔ آج تو مجھے کمزور نظر نہیں آنا چاہیے.... لاؤ میں تمہارا گھوڑا باند ھ آؤں۔‘‘

صابرہ نے یہ کہہ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور پیار سے اس کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

’’امی چھوڑیے! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ عبد اللہ نے ماں کے ہاتھ سے گھوڑے کی لگام چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

صابرہ نے کہا۔’’بیٹا تمہارے باپ کا گھوڑا میں ہی باندھا کرتی تھی۔‘‘

’’لیکن میں آپ کو تکلیف دینا گناہ سمجھتا ہوں۔‘‘

’’بیٹا، ضد نہ کر۔ چھوڑو!‘‘

عبد اللہ نے ماں کے لہجے سے متاثر ہو کر گھوڑے کی لگام چھوڑ دی۔

صابرہ گھوڑا لے کر اصطبل کی طرف ابھی چند ہی قدم بڑھی تھی کہ عذرا نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے گھوڑے کی لگام پکڑتے ہوئے کہا:

’’امی چھوڑے۔ میں باندھ آؤں۔‘‘

صابرہ نے عذرا کی طرف محبت آمیز مسکراہٹ سے دیکھا اور کچھ سوچ کر گھوڑے کی لگام اس کے ہاتھ میں دے دی۔

عبد اللہ نے رخصت کے بیس دن گھر پر گزارے۔ گھر کے حالات میں اس نے ایک زبردست تغیر محسوس کیا۔ عذرا جو پہلے بھی اس کے ساتھ کسی حد تک تکلف سے پیش آتی تھی، اب بہت زیادہ شرمانے لگی تھی۔ عبد اللہ کی رخصت کا آخری دن بھیا پہنچا۔ لاڈلے بیٹے کے لیے ماں کا بہترین تحفہ اس کے دادا کے زمانے کی خوبصورت تلوار تھی۔

جب عبد اللہ گھوڑے پر سوار ہوا تو عذرا نے اپنے ہاتھ کا تیار کیا ہوا ایک رومال صابرہ کو لا کر دیا اور شرماتے ہوئے عبد اللہ کی طرف اشارہ کیا۔ صابرہ نے عذرا کا مطلب سمجھ کر رومال عبد اللہ کو دے دیا۔ عبد اللہ نے رومال کھول کر دیکھا، درمیان میں سرخ رنگ کے ریشمی دھاگے کے ساتھ کلام الٰہی کے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:

قَاتِلُوھُمم ھَتّٰی لَا تَکُوں فِتَنَة ان سے جنگ کرو، یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے۔

عبد اللہ نے رومال جیب میں ڈال کر عذرا کی طرف دیکھا اور عذرا سے نظر ہٹا کر ماں کی طرف دیکھتے ہوئے اجازت چاہی۔

صابرہ نے ماں کے نرم و نازک جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا:

’’بیٹا! اب تمہیں میری نصیحتوں کی ضرورت نہیں۔ یہ کبھی نہ بھولنا کہ تم کس کی اولاد ہو، تمہارے آباؤ اجداد کا خون کبھی ایڑیوں پر نہیں گرا۔ میرے دودھ اور ان کے نام کی لاج رکھنا۔

عبداللہ کو جہاد پر گئے ایک سال گزر چکا تھا۔ صابرہ پر وہ اپنے چند خطوط سے ظاہر کر چکا تھا کہ وہ غیور ماں کی توقع سے زیادہ ناموری حاصل کر رہا ہے۔ سعید کے خطوط اور بصرہ سے بستی میں آنے جانے والے لوگوں کی زبانی اسے مکتب میں نعیم کے نام کی عزت اور شہرت کی اطلاع بھی ملتی رہتی تھی۔ نعیم کے ایک خط سے صابرہ کو معلوم ہوا کہ وہ عنقریب فارغ التحصیل ہو کر آنے والا ہے۔ ایک دن صابرہ کسی پڑوسن کے ہاں گئی ہوئی تھی۔ عذرا تیر اور کمان ہاتھ میں لیے صحن میں بیٹھی مختلف اشیا پر نشانے کی مشق کر رہی تھی، ایک کوا اڑتا ہوا عذرا کے سامنے کھجور کے درخت پر بیٹھ گیا۔ عذرا نے تاک کر تیر چلایا لیکن کوا بچ کر اڑ گیا۔ابھی کوا اڑا ہی تھا کہ دوسری طرف سے ایک اور تیر آیا اور وہ زخمی ہو کر نیچے گر پڑا۔عذرا حیران تھی ہو کر اٹھی اور کوکے جسم سے تیر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اچانک ایک خیال کے آتے ہی اس دل مسرت سے دھڑکنے لگا۔ اس نے آگے بڑھ کر پھاٹک کی طرف دیکھا۔ نعیم گھوڑے پر سوار پھاٹک سے باہر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ عذرا کے چہرے پر حیا اور مسرت کی سرخی دوڑنے لگی۔ وہ آگے بڑھی اور پھاٹک کھول کر ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ نعیم گھوڑے سے اتر کر اندر داخل ہوا۔

نعیم بصرہ سے لے کر گھر تک بہت کچھ کہنے اور بہت کچھ سننے کی تمنائیں بیدار کرتا ہوا آیا تھا لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ’’اچھی ہو عذرا؟‘‘ کہہ کر خاموش ہو گیا۔

عذرا نے کوئی جواب دینے کی بجائے ایک ثانیہ کے لیے اس کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں جھکا لیں۔

نعیم نے پھر جرات کی۔ ’’عذرا کیسی ہو؟‘‘

’’اچھی ہوں۔‘‘

’’امی جان کہاں ہیں ؟‘‘

’’وہ کسی عورت کی تیمار داری کے لیے گئی ہیں۔‘‘

پھر دونوں کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔

’’عذرا میں تمہیں ہر روز یاد کیا کرتا تھا!‘‘

عذرا نے آنکھیں اوپر اٹھائیں لیکن سپاہیانہ شان میں حسن و جبروت کے مجسمے کو جی بھر کر دیکھنے کی جرات نہ ہوئی۔

’’عذرا تم مجھ سے ناراض ہو؟‘‘

عذرا جواب میں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن نعیم کی شاہانہ تمکنت نے اس کی زبان بند کر دی۔’’لائیے میں آپ کا گھوڑا باندھ آؤں !‘‘ اس نے گفتگو کا موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’نہیں عذرا، تمہارے ہاتھ ایسے کاموں کے لیے نہیں بنائے گئے۔‘‘ نعیم یہ کہہ کر گھوڑے کو اصطبل کی طرف لے گیا۔

نعیم تین ماہ گھر رہا اور جہاد پر جانے کے

لیے والی بصرہ کے حکم کا انتظار کرتا رہا۔

گھر پر خلاف توقع اس نے زیادہ خوشی کے دن نہ گزارے۔ شباب کے آغاز نے عذرا اور اس کے درمیان حیا کی ایک ناقابل عبور دیوار حائل کر دی تھی۔بچپن کے گزرے ہوئے وہ دن جب وہ عذرا کا ننھا سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بستی کے نخلستانوں میں چکر لگایا کرتا تھا، اسے ایک خواب معلوم ہوتے تھے۔ کم و بیش یہی حالت عذرا کی تھی۔ نعیم اس کے بچپن کا رفیق اسے پہلے سے بہت مختلف نظر آتا تھا۔ ان کے طرز عمل میں تکلف کی کم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا۔ نعیم اپنے جسم و روح پر ایک قید اور دل پر ایک بوجھ محسوس کرنے لگا عذرا اس کے ساز دل پر بچپن ہی سے محبت کا پرسرور نغمہ بیدار کر چکی تھی۔نعیم چاہتا تھا کہ اس صحرائی حور کے سامنے اپنا دل کر رکھ دے لیکن حیا نے اسے منہ کھولنے کی اجازت ہی نہ دی۔ تاہم دونوں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکنیں محسوس کر رہے تھے۔

نعیم کے گھر آنے کے چار ماہ بعد عبد اللہ رخصت پر آیا اور صابرہ کے گھر کی رونق دوبالا ہو گئی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد نعیم اور عبد اللہ ماں کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ عبد اللہ اپنے فوجی کارنامے اور ترکستان کے حالات سنا رہا تھا۔ عذرا کچھ دور دیوار کا سہارا لیے کھڑی عبد اللہ کی باتیں سن رہی تھی۔ گفتگو کے اختتام پر عبد اللہ نے بتایا کہ میں بصرہ سے ہو کر آیا ہوں۔

’’ماموں سے ملے تھے؟‘‘ صابرہ نے پوچھا۔

’’ملا تھا، وہ آپ کو سلام کہتے تھے اور مجھے ایک خط بھی دیا ہے۔‘‘

’’کیسا خط؟‘‘

عبد اللہ نے جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا:

’’آپ پڑھ لیں !‘‘

تم ہی پڑھ کر سنا دو بیٹا!‘‘

’’امی جان! یہ آپ کے نام ہے۔‘‘ عبد اللہ نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔

صابرہ نے خط لے کر نعیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’اچھا بیٹا، تم پڑھو!‘‘

نعیم نے خط لے کر عذرا کی طرف دیکھا۔ وہ شمع اٹھا لائی اور نعیم کے قریب کھڑی ہو گئی۔ خط کی تحریر پر ایک نظر ڈالتے ہی نعیم کے دل پر ایک چرکہ سا لگا۔ اس نے ماں کو سنانا چاہا لیکن خط کی عبارت نے اس کی زبان پر مہر ثبت کر دی۔ اس نے سارے خط پر جلدی جلدی نظر دوڑائی۔ خط کا مضمون نعیم کے لیے نا کردہ گناہ کی سزا کے حکم نامے سے زیادہ بھیانک تھا۔ اپنے مستقبل کے متعلق تقدیر کا ناقابل تردید فیصلہ پڑھ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں آگیا۔ ایک ناقابل برداشت بوجھ اسے زمین کے ساتھ پیوست کر رہا تھا لیکن مجاہد کی فطری ہمت بروئے کار آئی اور اس نے انتہائی کوشش کے ساتھ چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:

’’ماموں جان نے بھائی جان کی شادی کے متعلق لکھا ہے۔ آپ پڑھ لیں !‘‘

یہ کہہ کہ اس نے خط والدہ کو دے دیا۔ صابرہ نے شمع کی روشنی کی طرف سرک کر پڑھنا شروع کر دیا:

’’اچھی بہن! عذرا کے مستقبل کے متعلق میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔ میرے لیے عبد اللہ اور نعیم ایک جیسے ہیں۔ ان دونوں میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو عذرا جیسی عالی نسب لڑکی کے مستقبل کی ضامن ہو سکتی ہیں۔ عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے عبد اللہ اس امانت کا زیادہ حق دار معلوم ہوتا ہے۔ اسے دو ماہ کی رخصت ملی ہے۔ آپ کوئی مناسب دن مقرر کر کے مجھے اطلاع دیں۔ میں دو دن کے لیے آ جاؤں گا۔

آپ مجھ سے زیادہ ان بچوں کی طبیعت سے واقف ہیں۔ یہ خیال رکھیں کہ عذرا کے مستقبل کا سوال ہے۔

سعیدنعیم کے پرانے خواب کی تعبیر اس کی توقع کے خلاف نکلی۔ ابھی تک اس کا یہی خیال تھا کہ وہ عذرا کے لیے ہے اور عذرا اس کے لیے لیکن ماموں کے خط سے ایک تلخ حقیقت کا انکشاف ہوا۔

عذرا ........ اس کی معصوم عذرا، اس کی معصوم عذرا، اب اس کی بھاوج بننے والی تھی۔ اسے دنیا و مافیہا کی تمام چیزوں میں ایک نمایاں تغیر نظر آنے لگا۔ دل میں رہ رہ کر  درد کی ایک ٹیس اٹھتی تھی لیکن جہاں تک ہو سکا اس نے ضبط سے کام لیا اور کسی پر اپنے دل کی دل کی بات ظاہر نہ ہونے دی۔ عذرا کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔

عبد اللہ اور صابرہ نے ان دونوں سے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی لیکن نعیم کو اپنے بھائی کا لحاظ تھا اور عذرا صابرہ، سعید اور عبداللہ کے احترام سے مجبور تھی۔ اس لیے دونوں کچھ نہ کہہ سکے اور دل کے انگارے دل ہی میں سلگتے رہے۔

جوں جوں عبد اللہ کے مسرت کے دن قریب آ رہے تھے، نعیم اور عذرا کے تصورات کی دنیا تاریک ہو جاتی تھی۔ نعیم کی سکون نا آشنا طبیعت کو طبیعت کو گھر کی چار دیواری ایک قفس نظر آنے لگی۔ وہ ہر شام گھوڑے پر سوار ہو کر میرے لیے بہت دور چلا جاتا اور آدھی آدھی رات تک صحرا میں ادھر ادھر گھومتا رہتا۔

عبد اللہ کی شادی میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ نعیم ایک شب بستی سے باہر اپنے گھوڑے پر سیر کر رہا تھا۔ خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر ستارے جھلملا رہے تھے۔ چاند کی دلفریب روشنی میں صحرا کی ریت پر چھوٹی چھوٹی لہریں چمک رہی تھیں۔ بستی میں عبد اللہ کی شادی کی خوشی میں نوجوان لڑکیاں دف بجا بجا کر گا رہی تھی۔ نعیم گھوڑا تھامے کچھ دیر رات سنتا رہا۔ اسے اپنے سوا تمام کائنات مسرور نظر آ رہی تھی۔ وہ گھوڑے سے اترا اور ٹھنڈی ریت پر لیٹ گیا۔ چاند ستارے ٹھنڈی ٹھنڈی خوش گوار ہوا اور سامنے بستی کے نخلستانوں کے دلفریب مناظر نے اسے اپنی معصوم دنیا کے کھوئے ہوئے سکون کے متعلق مضطرب کر دیا۔ اس نے اپنے دل میں کہا:

’’میرے سوا کائنات کا ہر ذرہ مسرور ہے۔ میری سرد آہیں ان وسعتوں کے سامنے کیا حقیقت رکھتی ہیں۔ اف، بھائی اور والدہ کی خوشی، ماموں کی خوشی اور شاید عذرا کی بھی، مجھے رنجیدہ اور مغموم بنا رہی ہے۔ میں بہت خود غرض ہوں ....لیکن میں خودغرض بھی تو نہیں۔ میں تو بھائی کے لیے اپنی خوشی قربان کر چکا ہوں .... لیکن یہ بھی جھوٹ ہے۔ میرے دل میں تو بھائی کے لیے اتنا ایثار بھی نہیں ہے کہ اس کی خوشی میں شریک ہو کر اپنا غم بھول جاؤں۔ میرا رات دن باہر رہنا کسی سے بات نہ کرنا اور سرد آہیں بھرنا ان پر کیا ظاہر کرتا ہو گا! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ وہ کبھی میرا چہرہ مغموم نہیں دیکھیں گے ....لیکن یہ میرے بس کی بات نہیں، میں دل کی خواہشات پر قابو پا سکتا ہوں، احساسات پر نہیں۔ بہتر ہے کہ میں چند دن کے لیے باہر چلا جاؤں ....ہاں مجھے ضرور جانا چاہیے....ابھی کیوں نہ چلا جاؤں ....مگر نہیں، اس طرح نہیں۔ صبح والدہ سے اجازت لے کر۔‘‘

اس ارادے نے نعیم کے دل میں کسی حد تک تسکین پیدا کر دی۔

اگلے دن صبح کی نماز سے فارغ ہو کر والدہ سے چند دنوں کے لیے بصرہ جانے کی اجازت مانگی۔ صابرہ اس درخواست پر حیران ہوئی۔ اس نے کہا:

’’بیٹا! تمہارے بھائی کی شادی ہے۔ تم وہاں کیا لینے جاؤ گے؟‘‘

’’امی، میں شادی سے ایک دن پہلے آ جاؤں گا۔‘‘

’’نہیں بیٹا، شادی تک تمہارا گھر پر ٹھہرنا ضروری ہے!‘‘

’’امی! مجھے اجازت دیجئے!‘‘

صابرہ نے ذرا غصے میں آ کر کہا۔’’نعیم میرا خیال تھا کہ تم صحیح معنوں میں ایک مجاہد کے بیٹے ہو لیکن میرا یہ اندازہ غلط نکلا۔ تمہیں اپنے بھائی کی خوشی میں شریک ہونا گوارا نہیں۔ نعیم تم عبد اللہ سے حسد....؟‘‘

’’حسد! امی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے بھائی سے حسد کیوں ہونے لگا۔ میں تو چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی کی تمام راحتیں اس کی نذر کر دوں۔‘‘

’’بیٹا! خدا کرے میرا یہ خیال غلط ہو۔ لیکن تمہارا اس طرح خاموش رہنا، بلا وجہ صحرا نوردی کرنا اور کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘

’’امی میں معافی چاہتا ہوں۔‘‘

صابرہ نے آگے بڑھ کر نعیم کو گلے لگا لیا اور کہا:

’’بیٹا! مجاہدوں کے سینے فراخ ہوا کرتے ہیں۔‘‘

شام کے وقت نعیم سیر کے لیے نہ گیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ بستر پر لیٹے لیٹے بہت دیر تک سوچتا رہا۔ اس کے دل میں خدشہ پیدا ہوا کہ اپنے طرز عمل سے جو کچھ والدہ ظاہر کر چکا ہوں، شاید عبد اللہ پر بھی ظاہر ہو جائے۔ اس خیال نے اس کے گھر سے نکلنے کے ارادے کو اور بھی مضبوط کر دیا۔

آدھی رات کے وقت وہ بستر سے اٹھا۔ کپڑے بدلو اور پھر اصطبل میں جا کر گھوڑے پر زین ڈالی۔ گھوڑا لے کر باہر نکلنے کو تھا کہ دل میں کچھ خیال آیا اور گھوڑے کو وہیں چھوڑ کر صحن میں عذرا کے بستر کے قریب جا کھڑا ہوا۔

عذرا بھی چند دنوں سے نعیم کی طرح رات بھر جاگنے کے عادی ہو چکی تھی۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے نعیم کی تمام حرکات دیکھ رہی تھی۔ جب نعیم قریب آیا تو اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ سو رہی ہے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔نعیم دیر تک کھڑا رہا۔چاند کی روشنی عذرا کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان کا چاند زمین کے چاند کو گھور رہا ہے۔نعیم کی نگاہیں عذرا کے چہرے پر اس طرح جذب ہو چکی تھیں کہ اسے تھوڑی دیر کے لیے گرد و پیش کا خیال نہ رہا۔ اس نے ایک لمبا سانس لیتے ہوئے پر سوز الفاظ میں کہا:

عذرا تمہیں شادی مبارک ہو!‘‘

نعیم کا یہ جملہ سن کر عذرا کے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی اسے گڑے میں ڈال کر اوپر سے مٹی کا انبار پھینک رہا ہے۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر کسی غیر مرئی ہاتھ نے زبردستی اس کا منہ بند کر رکھا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اٹھ کر نعیم کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دے اور پوچھے کہ اس کا قصور کیا ہے؟ اس نے کیوں کہا۔ لیکن دھڑکتے ہوئے دل کی آواز دل ہی میں دبی رہی اور اس نے آنکھیں کھول کر نعیم کی طرف دیکھنے کی بھی جرات نہ کی۔

نعیم گھوڑا لینے کی غرض سے دوبارہ اصطبل کی طرف چلا گیا۔ عذرا بستر سے اٹھی اور مکان سے باہر نکل کر دیوار کے سایہ میں کھڑی ہو گئی۔ نعیم گھوڑا لے کر باہر نکلا۔ عذرا آگے بڑھی اور نعیم کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔

’’نعیم! آپ کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘

’’عذرا.... تم جاگ اٹھیں ؟‘‘

’’میں سوئی کب تھی....دیکھو نعیم....!‘‘

عذرا اسے سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور اپنا فقرہ ختم کیے بغیر آگے بڑھی اور نعیم کے ہاتھ سے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔

’’عذرا مجھے روکنے کی کوشش نہ کرو۔ مجھے جانے دو!‘‘

’’کہاں جاؤ گے نعیم؟‘‘ عذرا مدت کے بعد اسے نام سے بلا رہی تھی۔

’’عذرا چند دن کے لیے بصرہ جا رہا ہوں۔‘‘

’’لیکن اس وقت کیوں ؟‘‘

’’عذرا تم یہ پوچھتی ہو کہ میں وقت کیوں جا رہا ہوں۔ تمہیں معلوم نہیں ؟‘‘

عذرا کو معلوم تھا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ ہونٹ کانپ رہے تھے۔ اس نے نعیم کے گھوڑے کی باگ چھوڑ کر اشک آلود آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔

نعیم نے کہا۔’’ عذرا شاید تمہیں معلوم نہ ہو کہ میرے دل میں آنسوؤں کی کیا قیمت ہے۔ لیکن میرا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ میں خود اداس رہ کر تمہیں بھی غمگین بناتا ہوں۔ بصرہ میں چند دن رہ کر میری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔ میں تمہاری شادی سے ایک دو دن پہلے آنے کی کوشش کروں گا۔

عذرا ! مجھے اس بات کی خوشی ہے اور تمہیں بھی خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا ہونے والے شوہر مجھ سے بہتر خوبیوں کا مالک ہے۔ کاش! تمہیں معلوم ہوتا کہ مجھے اپنے بھائی جان سے کتنی محبت ہے۔ عذرا ان آنسوؤں کو ان پر ظاہر نہ ہونے دینا!‘‘

’’آپ واقعی جا رہے ہیں ؟‘‘ عذرا نے پوچھا۔

’’میں نہیں چاہتا کہ میرے ضبط کا ہر روز امتحان ہوتا رہے۔ عذرا میری طرف اس طرح نہ دیکھو۔ جاؤ!‘‘

عذرا بغیر کچھ کہے واپس چلی آئی۔ چند قدم چل کر ایک بار نعیم کی طرف مڑ کر دیکھا۔ وہ ابھی تک ایک پاؤں رکاب میں ڈال کر عذرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عذرا نے منہ پھیر لیا اور تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے بستر پر منہ کے بل جا گری اور سسکیاں لینے لگی۔

نعیم گھوڑے پر سوار ہو کر ابھی چند قدم چلا تھا کہ کسی نے پیچھے سے بھاگ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ نعیم مبہوت سا ہو کر رہ گیا۔ اس کے سامنے عبد اللہ کھڑا تھا۔

’’بھائی!‘‘ نعیم نے حیران ہو کر کہا۔

’’نیچے اترو! ‘‘ عبداللہ نے با رعب آواز میں کہا۔

’’بھائی! میں باہر جا رہا ہوں۔‘‘

’’میں جانتا ہوں۔ تم نیچے اترو!‘‘

نعیم گھوڑے سے اترا۔ عبد اللہ ایک ہاتھ سے گھوڑے کی باگ اور دوسرے ہاتھ سے نعیم کا بازو پکڑتے ہوئے واپس مڑا۔ مکان کے احاطے میں پہنچ کر اس نے کہا:

’’گھوڑے کو اصطبل میں باندھ آؤ!‘‘

نعیم کچھ کہنا چاہتا تھا مگر عبد اللہ کچھ اس تحکمانہ انداز سے کھڑا تھا کہ اسے مجبوراً اس کا حکم ماننا پڑا۔ وہ گھوڑے کو اصطبل میں باندھ کر پھر بھائی کے قریب آ کھڑا ہوا۔

عذرا بستر پر لیٹے لیٹے یہ تمام منظر دیکھ رہی تھی۔ عبد اللہ نے پھر نعیم کا بازو پکڑ لیا اور اسے اپنے ساتھ لیے ہوئے مکان کے ایک کمرے میں چلا گیا۔

عذرا کانپتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی اور چپکے چپکے قدم اٹھاتی ہوئی اس کمرے تک گئی اور دروازے کی آڑ میں کھڑی ہو کر عبداللہ اور نعیم کی باتیں سننے لگی۔

’’شمع جلا!‘‘ عبد اللہ نے کہا۔

نعیم نے شمع جلائی۔ کمرے میں اون کا ایک بڑا کپڑا بچھا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے اس پر بیٹھتے ہوئے نعیم کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

’’بھائی، آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں ؟‘‘

’’کچھ نہیں، بیٹھ جاؤ!‘‘

’’میں کہیں جا رہا تھا۔‘‘

’’میں تمہیں جانے سے منع نہیں کروں گا، بیٹھ جاؤ! تم سے ایک ضروری کام ہے۔‘‘

نعیم پریشان سا ہو کر بیٹھ گیا۔ عبد اللہ نے ایک صندوق سے کاغذ اور قلم نکلا اور کچھ لکھنا شروع کیا۔ تحریر ختم کرنے کے بعد عبداللہ نے نعیم کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا:

’’نعیم تم بصرے جا رہے ہو؟‘‘

نعیم نے جواب دیا۔ ’’بھائی یہ معلوم نہ تھا کہ آپ جاسوس بھی ہیں۔‘‘

’’میں معافی چاہتا ہوں نعیم، میں تمہارا نہیں عذرا کا جاسوس تھا۔‘‘

’’بھائی جان! آپ عذرا کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کریں۔‘‘

عبد اللہ نے اس کے جواب میں ٹکٹکی باندھ کر نعیم کے چہرے کی طرف دیکھا، نعیم نے قدرے مرعوب ہو کر گردن جھکا لی۔ عبد اللہ نے ایک ہاتھ بڑھا کر اس کی ٹھوڑی کو پیار سے اوپر اٹھایا اور کہا:

’’نعیم میں تمہارے اور عذرا کے متعلق غلط انداز نہیں لگا سکتا۔ تم بصرہ جاؤ اور میرا یہ خط ماموں کے پاس لیتے جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر عبد اللہ نے نعیم کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا خط دے دیا۔

’’بھائی جان! آپ نے کیا لکھا ہے؟‘‘

’’خود ہی پڑھ لو۔ میں نے اس خط میں تمہارے لیے ایک سزا تجویز کی ہے۔

نعیم نے خط پڑھا:

’’پیارے ماموں ! السلام علیکم،

چونکہ عذرا کا مستقبل آپ کی طرح مجھے بھی عزیز ہے۔ اس لیے مجھے اپنی نسبت نعیم کو اس کے مستقبل کا محافظ اور امانت دار ہوتے دیکھ کر زیادہ تسکین ہو گی۔ زیادہ کیا تحریر کروں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں نے یہ خط کیوں لکھا ہے۔امید ہے کہ آپ میری بات پر توجہ دیں گے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ میری رخصت ختم ہونے سے پہلے نعیم اور عذرا کی شادی کر دی جائے۔ موزوں تاریخ آپ خود متعین کر دیں۔‘‘ آپ کا عبد اللہ

خط ختم ہونے تک نعیم کی آنکھوں میں آنسوا چکے تھے۔ اس نے کہا۔ ’’بھائی میں یہ خط نہیں لے جاؤں گا۔ عذرا کی شادی آپ ہی کے ساتھ ہو گی۔ بھائی مجھے معاف کر دو۔‘‘

عبد اللہ نے کہا۔ ’’تمہارا خیال ہے کہ میں اپنی خوشی کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کی زندگی بھر کی خوشی قربان ہونے دوں گا؟‘‘

’’آپ مجھے زیادہ شرمسار نہ کریں۔‘‘

’’میں تمہارے لیے تو کچھ نہیں کر رہا۔ نعیم تم سے زیادہ مجھے عذرا کی خوشی کا خیال ہے۔ مجھے تمہارا جوڑی پہلے بھی بھلا معلوم ہوتا تھا۔ جو کچھ تم میرے لیے کرنا چاہتے تھے وہی کچھ میں عذرا کے لیے کر رہا ہوں۔ جاؤ! اب صبح ہونے والی ہے۔ کل تک ضرور واپسا جانا۔ شاید ماموں جان تمہارے ساتھ ہی آ جائیں۔ چلو!‘‘

’’بھائی! آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میں نہیں جاؤں گا!‘‘

’’نعیم اب ضد نہ کرو۔ عذرا کو خوش رکھنے کا فرض ہم دونوں پر عاید ہوتا ہے۔‘‘

’’بھائی........!‘‘

’’چلو! ‘‘ عبد اللہ نے ذرا تیور بدلتے ہوئے کہا اور نعیم کا بازو پکڑ کر کمرے سے باہر لے آیا۔

عذرا انہیں آتے دیکھ کر وہاں سے کھسک آئی اور اپنے بستر پر جا لیٹی۔ نعیم کو متذبذب دیکھ کر عبد اللہ خود جا کر اصطبل سے نعیم کا گھوڑا لے آیا۔ دونوں بھائی مکان سے باہر نکلے۔ تھوڑی دیر بعد عذرا کو گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔

عبد اللہ واپسا کر بارگاہ ایزدی میں شکر گزاری کے لیے کھڑا ہو گیا۔

علی الصباح صابرہ نعیم کا بستر خالی دیکھ کر اصطبل کی طرف گئی۔ عبد اللہ وہاں اپنے گھوڑے کے آگے چارہ ڈال رہا تھا۔ صابرہ کو وہاں نعیم کا گھوڑا نظر نہ آیا تو پریشان سی ہو کر کھڑی ہو گئی۔ عبد اللہ اس کا مطلب بھانپ گیا۔ اس نے کہا:

’’امی! آپ نعیم کو تلاش کر رہی ہیں ؟‘‘

’’ہاں ہاں کہا ہے وہ؟‘‘

’’وہ ایک ضروری کام کے لیے باہر گیا ہے۔‘‘ عبد اللہ نے جواب دیا اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد صابرہ سے سوال کیا۔ ’’امی نعیم کی شادی کب ہو گی؟‘‘

’’بیٹا! تمہاری تو ہو جائے، اس کی باری بھیا جائے گی۔‘‘

’’امی! میں چاہتا ہوں کہ اس کی شادی مجھ سے پہلے ہو!‘‘

’’بیٹا ! مجھے معلوم ہے کہ تم اسے بہت پیار کرتے ہو۔ میں غافل نہیں ہوں۔اس کے لیے بھی کوئی رشتہ تلاش کر رہی ہوں۔ خدا کرے کوئی عذرا جیسی لڑکی مل جائے۔‘‘

’’امی! عذرا اور نعیم بچپن ہی سے ایک دوسرے کے ساتھی رہے ہیں۔‘‘

’’ہاں بیٹا!‘‘

’’امی جان! میں چاہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ اکٹھے رہیں۔‘‘

’’تمہارا مطلب ہے کہ ....!‘‘

’’ہاں، میں چاہتا ہوں کہ عذرا کی شادی نعیم کے ساتھ کر دی جائے!‘‘

صابرہ نے حیران ہو کر عبد اللہ کی طرف دیکھا اور پیار سے دونوں ہاتھ اس کے سرپر رکھ دیے۔

دوسرا راستہ

شہر بصرہ میں داخل ہوتے ہی نعیم کو اس کا ایک ہم مکتب ملا جس کا نا م طلحہ تھا۔ اس کی زبانی نعیم کو معلوم ہوا کہ شہر کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ابن عامر کی صدارت میں ایک زبردست جلسہ ہونے والا ہے۔ مسلمان سندھ پر حملہ کرنے والے ہیں اور افواج کی قیادت محمد بن قاسم کے سپرد کی گئی ہے۔حجاج بن یوسف بصرہ کے لوگوں کو جہاد کی طرف مائل کرنے کا فرض ابن عامر کے سپرد کر کے خود کوفہ کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی غرض سے روانہ ہو چکا ہے۔ بصرہ کے لوگوں کو ابن عامر کی تقریر سے نہایت امید افزا حالات پیدا ہو جانے کی توقع ہے لیکن شہر میں ابن صادق، ایک نام نہاد درویش آیا ہوا ہے اور اس کی شر پسند جماعت کے چند آدمی خفیہ خفیہ سندھ کے خلاف اعلان جہاد کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بصرہ میں یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جلس میں شریک ہو کر کوئی خطرناک صورتحال پیدا نہ کر دیں۔

نعیم طلحہ کے ساتھ باتیں کرتا ہوا اس کے گھر تک پہنچا اور گھوڑے کو وہاں چھوڑ کر دونوں مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ مسجد میں اس دن معمول سے زیادہ رونق تھی۔

نماز کے بعد ابن عامر تقریر کے لیے ممبر پر کھڑا ہو گیا۔ابھی وہ کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ باہر سے دو ہزار آدمیوں کی ایک جماعت شور مچاتی ہوئی داخل ہوئی۔ ان کے آگے آگے ایک جسیم شخص سیاہ رنگ کا جبہ پہنے ہوئے تھا۔ اس کے سرپر سفید عمامہ اور گلے میں موتیوں کا بیش قیمت ہار لٹک رہا تھا۔ طلحہ نے نووارد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ دیکھیے۔ وہ ابن صادق ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ جلسے میں ضرور کوئی ہنگامہ پیدا کرے گا۔‘‘

ابن صادق نعیم سے چند گز کے فاصلے پر بیٹھ گیا اور اس کی دیکھا دیکھی پیچھے آنے والی جماعت بھی ادھر ادھر دیکھ کر بیٹھ گئی۔

ابن عامر نے ان لوگوں کے خاموشی سے بیٹھ جانے کا انتظار کیا اور بالآخر اپنی تقریر شروع کی:

’’فدایانِ رسولﷺ کے غیور بیٹوں ! دنیا گذشتہ اسی یا نوے برس میں ہمارے آباؤ اجداد کی غیرت و شجاعت، صبر و استقلال، جبر و سطوت کا امتحان کر چکی ہے۔اس زمانے میں ہم نے بڑی سے بڑی طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ بڑے بڑے جابر اور مغرور بادشاہوں کو نیچا دکھایا۔ ہمارے اقبال کی داستانیں اس وقت سے شروع ہوتی ہیں جبکہ کفر کی آندھیاں شمع رسالت کے پروانوں کو فنا کر دینے کی نیت سے مدینہ کی چار دیواری کی طرف بڑھ رہی تھیں اور وہ تین سو تیرہ فدایانِ رسولﷺ نخل اسلام کو اپنے مقدس خون سے شاداب کرنے کی نیت سے کفار کیے تیروں، نیزوں اور تلواروں کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو گئے تھے۔ اس عظیم فتح کے بعد ہم توحید کا پرچم اٹھا کر کفر کے تعاقب میں نکلے اور دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے۔ لیکن ابھی تک اس وسیع زمین پر بہت سے خطے ایسے ہیں جہاں ابھی تک خدا کا آخری پیغام نہیں پہنچا۔ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے آقا و مولا کا پیغام دنیا کے ہر ملک میں پہنچا اور جو قانون وہ اپنے ساتھ لائے تھے، دنیا کے تمام انسانوں پر نافذ کر دیں، کیونکہ یہی وہ قانون ہے جس کی بدولت دنیا کی کمزور اور طاقت ور اقوام مساوات کے ایک وسیع دائرہ میں لائی جا سکتی ہیں۔ جس کی بدولت مظلوم و بے کس انسان اپنے کھوئے ہوئے حقوق واپس لے سکتے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ آج تک دنیا میں جو طاقتیں عظیم الشان اور عالم گیر قانون کے مقابلے میں اٹھیں، کچل دی گئیں۔ مسلمانو! میں حیران ہوں کہ سندھ کے راجہ کو ہماری غیرت کے امتحان کی جرات کیونکہ ہوئی؟ اس نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ مسلمان خانہ جنگیوں کے باعث اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی بہو بیٹیوں کی توہین خاموشی سے برداشت کر لیں گے۔

مجاہدو! یہ تمہاری غیرت کے امتحان کا وقت ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے دل میں انتقام کا جذبہ لے کر اٹھو۔ ہم سندھ کے راجہ کو معاف کر سکتے ہیں لیکن ہم اسلامی مساوات کے علم بردار ہو کر ہندوستان کی مظلوم قوموں پر اس کی استبدادی حکومت گوارا نہیں کر سکتے۔ راجہ داہر نے چند مسلمانوں کو قید کر کے ہمیں سندھ کے لاکھوں انسانوں کو اس کے آہنی استبداد سے نجات دلانے کی دعوت دی ہے۔

مجاہدو اٹھو اور فتح و نصرت کے نقارے بجاتے ہوئے ہندوستان کی آخری حدود تک پہنچ جاؤ!‘‘

ابن عامر کی تقریر ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ابن صادق اپنی جگہ سے اٹھا اور بلند آواز میں پکارا:

’’مسلمانو! میں ابن عامر کو اپنا بزرگ خیال کرتا ہوں۔ مجھے ان کے خلوص پر بھی کوئی شبہ نہیں لیکن میں اس بات پر افسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایسا نیک سیرت انسان بھی حجاج بن یوسف جیسے ہوس پرست انسان کا آلہ کار بن کر تمہارے سامنے امن عالم تہہ و بالا کرنے کی خطر ناک تجاویز پیش کر رہا ہے۔‘‘

حجاج بن یوسف کے گذشتہ مظالم کی وجہ سے اہل بصرہ کی اکثریت اس کے خلاف تھی وہ مدت سے کسی ایسے شخص کے متلاشی تھی جس میں علی الاعلان اس کے خلاف کچھ کہنے کی جرات ہو۔ وہ حیران ہو کر ابن صادق کی طرف دیکھنے لگے۔

ابن عامر کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن ابن صادق کی بلند آواز کے سامنے اس کی نحیف آواز دب کر رہ گئی۔

لوگو! ان فتوحات پر حکومتیں تمہیں ملک گیری اور مال غنیمت کی اس ہوس کے باعث کتنی جانیں قربان کی گئیں، کتنے بچے یتیم اور کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ترکستان کے میدانوں میں تمہارے نوجوان بھائیوں، بیٹوں کی ہزاروں لاشیں بے گور و کفن پڑی دیکھی ہیں۔میں نے اپنی آنکھوں سے ترکستان کے میدانوں میں تمہارے نوجوان بھائیوں، بیٹوں کی ہزاروں لاشیں بے گور و کفن پڑی دیکھی ہیں۔ میں نے زخمیوں کو تڑپتے اور سر پٹختے دیکھا ہے۔ یہ عبرتناک مناظر دیکھنے کے بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ مسلمانوں کا خون اس قدر ارزاں نہیں کہ حجاج بن یوسف کے نام کی شہرت کے لیے اسے بے دریغ بہایا جائے۔

مسلمانو! میں جہاد کی مخالفت نہیں کرتا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ابتدا میں ہمیں جہاد کی اس لیے ضرورت تھی کہ ہم کمزور تھے اور کفار ہمیں مٹا دینے پر کمر بستہ تھے۔ اب ہم طاقتور ہیں۔ ہمیں کسی دشمن کا خطرہ نہیں۔ اب ہمیں دنیا کو امن کا گھر بنانے کی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔

مسلمانو! جو جنگیں حجاج بن یوسف کی ہوس ملک گیری کے تحت لڑی جا رہی ہیں انہیں لفظ جہاد کے ساتھ دور کا لگاؤ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘

حاضرین کو ابن صادق کے الفاظ سے متاثر ہوتے دیکھ کر ابن عامر نے بلند آواز میں کہا:

’’مسلمانو! مجھے معلوم نہ تھا کہ ہم میں ابھی تک ایسے فتنہ پرداز لوگ موجود ہیں جو....‘‘

ابن صادق نے ابن عامر کا فقرہ پورا نہ ہونے دیا اور بلند آواز سے کہا:

’’لوگو! مجھے یہ بات کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ ابن عامر جیسا معزز شخص بھی حجاج بن یوسف کے جاسوسوں میں شامل ہے۔‘‘

’’حجاج کے جاسوس کو باہر نکال دو!‘‘ ابن صادق کے ایک ساتھی نے کہا۔

ابن صادق کا یہ حربہ کامیاب ثابت ہوا۔ بعض لوگوں نے ’’حجاج کا جاسوس، حجاج کا جاسوس‘‘ کہہ کر چلانا شروع کر دیا اور ابن عامر پر توہین آمیز آوازے کسنے لگے۔ ابن عامر کا ایک شاگرد ضبط نہ کر سکا اور اس نے ایک شخص کے منہ سے شفیق استاد کے متعلق توہین آمیز الفاظ سن کر اسے تھپڑ دے مارا۔ اس پر مسجد میں ہنگامہ ہو گیا۔ لوگ ایک دوسرے کے گتھم گتھا ہو گئے۔

محمد بن قاسم سخت اضطراب کی حالت میں تھا، اس کا ہاتھ بار بار تلوار کے قبضے تک جاتا لیکن استاد کے اشارے اور مسجد کے احترام سے خاموش رہا۔

اس نازک صورتحال میں نعیم ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند اور شیریں آواز میں قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی۔ قرآن کے الفاظ نے لوگوں کے دلوں پر سحر طاری کر دیا اور وہ ایک دوسرے کو خاموشی کی تلقین کرنے لگے۔ ابن صادق، جو اس جلسہ کو نا کام بنانے کا ارادہ کر کے آیا تھا، چاہتا تھا کہ ایک بار پھر ہنگامہ برپا ہو جائے، لیکن قرآن کی تلاوت پر عوام کے جذبات کا لحاظ اور اپنی جان کے خطرے سے خاموش رہا۔ نعیم نے لوگوں کے خاموش ہو جانے پر تقریر شروع کی:

’’بصرہ کے بدقسمت انسانو! خدا کے قہر سے ڈرو اور سوچو کہ تم کہاں کھڑے ہو اور کیا کر رہے ہو۔ افسوس! جن مساجد کی تعمیر کے لیے تمہارے آباؤ اجداد خون اور ہڈیاں پیش کرتے تھے، آج تم ان کے اندر داخل ہو کر بھی فتنے پیدا کرنے سے باز نہیں آتے۔‘‘

نعیم کے الفاظ نے مسجد میں سکون پیدا کر دیا۔ اس نے آواز کو ذرا مغموم بناتے ہوئے کہا:

’’یہ وہ جگہ ہے جہاں تمہارے آباؤ اجداد قدم رکھتے ہی خوف خدا سے کانپ اٹھا کر تے تھے۔ جہاں داخل ہونے سے پہلے وہ دنیا کی تمام آلائشوں سے کنارہ کش ہو جایا کرتے تھے۔ آج میں حیران ہوں کہ تمہاری ذہنیت میں اتنا زبردست انقلاب کیونکر آ گیا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ تمہارا ایمان اتنا کمزور ہو چکا ہے۔ تم خدا اور رسولﷺ کے عشق میں جان کی بازی لگا دینے والے مجاہدوں کی اولاد ہو۔ تمہارے دل میں اس بات کا احساس کہ کسی دن اپنے آباؤ اجداد کو منہ دکھانا ہے، تمہیں ایسی ذلیل حرکات کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ تم میں یہ جرات پیدا کرنے والا کوئی اور ہے۔‘‘

ابن صادق چوکنا ہو گیا۔ لوگ اس کی طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔ اس نے وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے سامعین کے دلوں سے نعیم کے الفاظ کا اثر زائل کرنا چاہا۔ وہ چلایا:

’’لوگو! یہ بھی حجاج کا جاسوس ہے۔ اسے باہر نکال دو!‘‘

وہ آگے کچھ کہنا چاہتا تھا کہ نعیم نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز بلند کی:

’’میں حجاج کا جاسوس سہی، لیکن اسلام کا غدار نہیں۔ بصرہ کے بد نصیب لوگو! تم نے اس شخص کی زبان سے سنا کہ ہمیں جہاد کی اس وقت ضرورت تھی جب ہم کمزور تھے لیکن تمہارا خون جوش میں نہ آیا۔ تم میں سے کسی نے نہ سوچا کہ قرون اولیٰ کا ہر مسلمان طاقت، صبر و استقلال کے لحاظ سے ہمارے زمانے کے تمام مسلمانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔

وہ کیا تھے اور کیا کر گئے؟ تمہیں معلوم نہیں کہ ان کے پاس کیا کچھ تھا؟ ان کے ساتھ صدیق اکبرؓ  کا خلوص، عمر فاروقؓ کا جلال، عثمانؓ کا غنا، علی مرتضیٰؓ کی شجاعت اور زمین و آسمان کے مالک کے محبوب ترین پیغمبرﷺ کی دعائیں شامل تھیں۔ تمہیں یاد ہے جب وہ تین سو تیرہ کفر و اسلام کی پہلی جنگ میں تیغ و کفن باندھ کر نکلے تھے تو آقائے دو جہاں نے یہ فرمایا تھا کہ آج پورا اسلام پورے کفر کے مقابلے کے لیے جا رہا ہے لیکن آج ایک ذلیل انسان تمہارے منہ پرا کر یہ کہہ رہا ہے کہ وہ نعوذ باللہ ہم سے کمزور تھے!‘‘

نعیم کے الفاظ سے لوگ بہت متاثر ہوئے۔ کسی نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور دوسروں نے اس کی تقلید کی۔ بعض نے مڑ مڑ کر ابن صادق کی طرف دیکھا اور دبی زبان سے ملامت شروع کر دی۔ نعیم نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا:

’’دوستو اور بزرگو! خدا کی راہ میں جان و مال اور دنیا کی تمام آسائشیں قربان کر دینے والے مجاہدوں پر ملک گیری اور مال غنیمت کی ہوس کا الزام لگانا نا انصافی ہے۔اگر انہیں دنیا کی ہوس ہوتی تو تم سرفروشی کا وہ جذبہ نہ دیکھتے جو مٹھی بھر بے سر و سامان مجاہدوں کو کفار کی لاتعداد افواج کے سامنے سینہ سپر ہونے پر آمادہ کر دیتا تھا۔ اگر وہ حکومت کے بھوکے ہوتے تو مفتوح قوموں کو مساوی حقوق نہ دیتے اور آج بھی ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہاد پر شہادت کی بجائے مال غنیمت کا ارادہ لے کر جا تا ہے۔ مجاہد حکومت سے بے نیاز ہے لیکن خدا کی راہ میں سب کچھ قربان کر دینے والوں کے لیے دنیا میں ہر لحاظ سے سربلند رہنا، تعجب خیز نہیں۔ سلطنت مجاہد کے فقر کا جزو لازم ہے۔

مسلمانو! ہمارے ماضی کی تاریخ کے صفحات اگر صدیق اکبرؓ کے ایمان اور خلوص کے تبصروں سے لبریز ہیں جو عبد اللہ بن ابی کی منافقت کی داستان سے بھی خالی نہیں۔ صدیقؓ کے نقش قدم پر چلنے والوں کی زندگی کا مقصد ہمیشہ اسلام کی سربلندی تھا اور عبد اللہ بن ابی کے جانشین ہمیشہ اسلام کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ میں عبد اللہ بن ابی کے اس جانشین سے پوچھتا ہوں ؟‘‘

ابن صادق کی حالت اس گیڈر کی سی تھی جسے چاروں طرف سے شکاریوں نے گھیر رکھا ہو۔ اس کو یقین ہو چکا تھا کہ یہ جادو بیاں نوجوان چند اور الفاظ کے بعد تمام مجمع کو اس کے خلاف مشتعل کر دے گا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور لوگوں کی حوصلہ شکن نگاہیں دیکھ کر پیچھے کھسکنے لگا۔ کسی نے کہا۔ ’’منافق جاتا ہے پکڑو!‘‘ اور کئی نوجوان ’’پکڑو  پکڑو‘‘ کہتے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی لیکن ہجوم کے آگے بس نہ چلا۔ کسی نے اسے دھکا دیا اور کسی نے تھپڑ رسید کیا۔ محمد بن قاسم نے بھاگ کر لوگوں کو ادھر ادھر ہٹایا اور بڑی مشکل سے اس کی جان چھڑائی۔

ابن صادق اپنے مداحوں کے دست شفقت سے آزاد ہوتے ہی سرپر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ چند من چلے نوجوانوں نے شکار جاتا دیکھ کر اس کا تعاقب کرنا چاہا لیکن محمد بن قاسم نے انہیں روک لیا۔ابن صادق کی جماعت کے آدمی یکے بعد دیگرے مسجد سے باہر نکل گئے۔ لوگ پھر خاموش ہو کر نعیم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے تقریر شروع کی:

’’اس دنیا میں جہاں ہر ذرے کو اپنے قیام کے لیے دوسرے ذروں کی ٹھوکروں کا جواب دینا پڑتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے جہاد ایک اہم ترین فرض ہے۔ دنیا کو امن کا گھر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کفر کا آتش کدہ ٹھنڈا کر دیا جائے۔

بدرو حنین، قادسیہ، یرموک اور اجنادین کی رزمگاہوں میں ہمارے اسلاف کی تکبیریں کفر کی آگ میں جلتے ہوئے بے بس انسانوں کی چیخوں کا جواب تھیں اور آج ستم رسیدہ انسانیت سندھ کے میدانوں میں ہماری تلواروں کی جھنکار سننے کے لیے بے قرار ہے۔ مسلمانو! تم اپنی قوم کی اس بیٹی کی فریاد سن چکے ہو جو سندھ کے راجہ کی قید میں ہے۔ میں تمہیں سندھ کی فتح کی بشارت دیتا ہوں۔

مجاہد کی تلوار خدا کی تلوار ہے جو گردن اس کے سامنے اکڑے گی، کٹ کر رہ جائے گی۔سندھ کے مغرور راجہ نے تمہیں اپنی تلوار کی تیزی اور بازو کی قوت آزمانے کی دعوت ہے۔

مجاہدو! اٹھو، اور ثابت کر دو کہ ابھی تمہاری رگوں میں شہسواران عرب کا خون منجمد نہیں ہوا۔ ایک طرف خداوند کریم تمہارے جذبہ جہاد اور دوسری طرف دنیا تمہاری غیرت کا امتحان لینا چاہتی ہے، کیا تم اس امتحان کے لیے تیار ہو؟‘‘

’’ہم تیار ہیں، ہم تیار ہیں۔‘‘ بوڑھے اور جوان فلک شگاف نعروں سے کم سن مجاہد کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے۔

نعیم نے بوڑھے استاد کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں مسرت کے آنسو چھلک رہے تھے۔ ابن عامر نے دوبارہ اٹھ کر مختصر سی تقریر کے بعد بھرتی کے لیے نام پیش کرنے والوں کو ضروری ہدایات دیں اور یہ جلسہ برخاست ہوا۔

رات کے وقت محمد بن قاسم کے ہاں ابن عامر، سعید، نعیم اور شہر کے چند معززین دن کے واقعات پر تبصرہ کر رہے تھے۔ نعیم اس دن نہ صرف بصرہ کے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا چکا تھا بلکہ عمر رسیدہ لوگ بھی اس کی جرات کی داد دے رہے تھے۔ ابن عامر اپنے ہونہار شاگرد کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے دل میں خطرناک سے خطرناک حادثات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کا جوہر بدرجہ اتم موجود ہے لیکن آج جو کچھ نعیم نے کیا وہ اس کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا۔ سعید کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ بار بار نوجوان بھانجے کی طرف دیکھتا اور ہر بار اس کے منہ سے نعیم کے لیے درازی عمر کی دعائیں نکلتیں۔ تقریر کے بعد اس نے نعیم کی حوصلہ افزائی کے لیے سب سے پہلے اپنا نام پیش کیا تھا اور مکتب میں اس کی۔   اشد ضرورت کے باوجود ابن عامر اسے لشکر کا ساتھ دینے کی اجازت دیے چکا تھا۔ بذات خود ابن عامر کے نحیف بازوؤں میں تلوار اٹھانے کی طاقت نہ تھی۔ تاہم اس نے اپنے ہونہار شاگرد محمد بن قاسم اور نعیم کا ساتھ دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ لیکن بصرہ کے لوگوں نے اس بات کی مخالفت کی اور یک زبان ہو کر کہا۔’’مدرسہ میں آپ کی خدمات کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ اہل بصرہ سعید کو بھی روکنا چاہتے تھے لیکن محمد بن قاسم نے ہراول کی قیادت کے لیے ایک تجربہ کار جرنیل کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔

نعیم کو ہر لمحہ ایک منزل سے قریب اور ایک منزل سے دور لے جا رہا تھا۔ وہ سر جھکائے حاضرین مجلس کی گفتگو سن رہا تھا۔ ابن عامر حسب عادت قرون اولیٰ میں کفر و اسلام کی زبردست جنگوں کے واقعات بیان کر رہے تھے۔

کسی نے باہر سے دستک دی۔ محمد بن قاسم کے غلام نے دروازہ کھولا۔ ایک عمر رسیدہ عرب جس کی بھویں تک سفید ہو چکی تھیں۔ ایک ہاتھ میں گٹھڑی اٹھائے اور دوسرے میں عصا تھامے اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر پرانے زخموں کے نشانات ظاہر کر رہے تھے کہ وہ کسی زمانے میں تلواروں اور نیزوں سے کھیل چکا ہے۔ ابن عامر اسے پہچان کر اٹھا اور ایک قدم آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کیا۔ بوڑھے نے کمزور آواز میں کہا۔’’میں مکتب میں آپ کو تلاش کرتا رہا، وہاں آپ سے پتہ چلا کہ آپ یہاں آئے ہوئے ہیں۔‘‘

’’آپ نے بہت تکلیف اٹھائی، بیٹھئے!‘‘

بوڑھا ابن عامر کے قریب بیٹھ گیا۔

ابن عامر نے کہا۔’’بڑی مدت کے بعد آپ کی زیارت نصیب ہوئی۔ کہیے کیسے آنا ہوا؟‘‘

بوڑھے نے کہا۔ مجھے آج کسی نے مسجد کے واقعات بتائے تھے۔ میں اس نوجوان کا متلاشی ہوں جس کی ہمت کے گیت آج بصرہ کے بچے اور بوڑھے سب گا رہے ہیں۔ مجھے یہ پتہ چلا تھا کہ وہ عبدالرحمن کا بیٹا ہے۔ عبد الرحمن کا باپ میرا دوست تھا۔ اگر آپ کو وہ لڑکا ملے تو میری طرف سے اسے یہ چند چیزیں پیش کر دیں !‘‘

بوڑھے نے یہ کہہ کر گٹھڑی کھولی اور کہا۔’’پرسوں ترکستان سے خبر آئی تھی کہ عبیدہ شہید ہو چکا ہے۔‘‘

’’عبیدہ کون! آپ کا پوتا؟ ابن عامر نے سوال کیا۔

’’ہاں وہی! گھر پر اس کی یہ تلوار اور زرہ فالتو پڑی تھیں۔ اب میرے گھرانے میں ان چیزوں کا حق ادا کرنے والا کوئی نہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ کسی مجاہد کی نذر کر دی جائیں۔‘‘

ابن عامر نے نعیم کی طرف دیکھا۔ وہ اس کا مطلب سمجھ کر اٹھا اور بوڑھے کے قریب آ کر بیٹھتے ہوئے بولا: ’’میں آپ کی قدر شناسی کا ممنون ہوں۔ اگر مجھ سے ہو سکا تو آپ کے اس تحفے کا بہترین استعمال کروں گا۔ آپ میرے لیے دعا کریں !‘‘

آدھی رات کے قریب یہ مجلس ختم ہوئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔ نعیم نے اپنے ماموں کے ساتھ جانا چاہا لیکن محمد بن قاسم نے اسے روک لیا۔

محمد بن قاسم کے اصرار پر سعید نے نعیم کو وہیں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ ابن عامر اور ابن سعید کو رخصت کرنے کے لیے نعیم اور محمد بن قاسم گھر سے باہر نکلے اور کچھ دور ان کے ساتھ گئے۔سعید کو ابھی تک نعیم کے ساتھ گھرکے متعلق کوئی بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اس نے چلتے چلتے رک کر سوال کیا:

’’نعیم! گھر پر خیریت ہے؟‘‘

’’ہاں ماموں جان، وہ تمام بخیریت ہیں۔ امی جان....!‘‘ نعیم آگے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس نے خط نکالنے کے خیال سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ لیکن کچھ سوچ کر خالی ہاتھ جیب سے نکال لیا۔

  ’’ہاں ہمشیرہ کیا کہتی تھیں ؟‘‘

’’وہ آپ کو سلام کہتی تھیں ماموں جان!‘‘

باقی رات نعیم نے بستر پر کروٹیں گزارتے گزار دی۔ صبح سے کچھ دیر پہلے آنکھ لگ گئی۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ وہ بستی کے نخلستانوں کی دلفریب فضاؤں میں محبت کے نغمے بیدار کرنے والی محبوبہ سے کوسوں دور سندھ کے وسیع میدانوں میں جنگ کے بھیانک مناظر کے سامنے کھڑا ہے۔

اگلے دن نعیم فوج کے ساتھ ایک سالار کی حیثیت سے روانہ ہو گیا۔ وہ ہر قدم پر آرزوؤں کی پرانی بستی کو روندتا اور امنگوں کی نئی دنیا بیدار کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ شام سے کچھ دیر پہلے یہ لشکر ایک اونچے ٹیلے پر سے گزر رہا تھا۔ اس مقام سے وہ نخلستان جس کی چھاؤں میں وہ زندگی کے بہترین سانس لے چکا تھا، نظر آنے لگا۔ اس کی جوان اور معصوم امیدوں کی بستی راستے سے فقط دو کوس کے فاصلہ پر ایک طرف کو تھی۔ جی میں آیا کہ گھوڑے کو سرپٹ چھوڑ کر ایک بار اس صحرائی حور سے چند الوداعی ملاقاتیں کہہ سن آئے۔ لیکن مجاہد کا ضمیر ان لطیف خیالات پر غالب آیا۔ اس نے جیب سے خط نکالا، پڑھا اور پھر جیب میں ڈال لیا۔

گھر میں عبد اللہ اور نعیم کی آخری گفتگو سن لینے کے بعد عذرا کی خوشی کا اندازہ کرنا ذرا مشکل تھا۔ اس کی روح مسرت کے ساتویں آسمان پر رقص کر رہی تھی۔ ساری رات جاگنے کے باوجود اس کا چہرہ معمول سے زیادہ بشاش تھا۔ مایوسی کی آگ میں جلنے کے بعد نخل امید کا یکایک سرسبز ہو جنا قدرت کا سب بڑا احسان تھا۔

عذرا آج عبد اللہ کے احسان کے بوجھ تلے دبی جا رہی تھی اور اگر اس مسرت میں کوئی خیال رخنہ اندازی کر رہا تھا تو یہ تھا کہ یہ خوشی عبد اللہ کی شرمندہ احسان تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ عبد اللہ کا یہ ایثار فقط نعیم کے لیے نہ تھا بلکہ ان دونوں کے لیے تھا۔ اس کی محبت کس قدر بے لوث تھی۔ اس کے دل کو کس قدر صدمہ پہنچا ہو گا۔ کاش وہ اسے یہ صدمہ نہ پہنچاتی۔ کاش اسے نعیم سے اس قدر محبت نہ ہوتی اور وہ عبد اللہ کا دل نہ توڑتی۔ ایسے خیالات سے اچھلتا ہوا دل بیٹھ جاتا لیکن دل کے ساز پر غم کی یہ ہلکی ہلکی تانیں مسرت کے راگ کے زیر و بم میں دب کر رہ جاتیں۔

عذرا کا خیال تھا کہ نعیم شام سے پہلے واپسا جائے گا۔ اس نے انتظار کا دن بڑی مشکل سے کاٹا۔ شام ہوئی لیکن نعیم واپس نہ آیا۔ جب شام کا  دھندلکا شب کی تاریکی میں تبدیل ہونے لگا اور آسمان کی ردائے سیاہ پر تاروں کے موتی جگمگانے لگے۔ عذرا کی بے چینی بڑھنے لگی۔ آدھی رات گزر گئی تو عذرا شب غم کو صبح امید کا سہارا دے کر کروٹیں لیتی ہوئی سو گئی۔دوسرا دن اس نے زیادہ بے چینی سے گزارا اور آنے والی رات گذشتہ رات سے زیادہ طویل نظر آئی۔

صبح گزری، شام آئی، لیکن نعیم واپس نہ آیا۔ شام کے وقت عذرا گھر سے نکلی اور کچھ فاصلے پر ایک ٹیلے پر چڑھ کر نعیم کی راہ دیکھنے لگی۔ بصرہ کے راستے پر ہر بار تھوڑی بہت گرد اڑنے پر نعیم کی آمد کا شک ہوتا لیکن ہر بار یہ وہم غلط ثابت ہونے پر وہ دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ کر رہ جاتی۔ اونٹوں اور گھوڑوں پر کئی سوار گزرے۔ ہر سوار دور سے اسے نعیم نظر آتا لیکن قریب سے دیکھنے پر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی۔ شام کی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، چرواہے اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ عذرا گھر کی طرف لوٹنے کا ارادہ ظاہر کر رہی تھی کہ پیچھے سے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنا ئی دی۔ مڑ کر دیکھا تو عبد اللہ آ رہا تھا۔ عذرا نے حیاء اور ندامت سے آنکھیں جھکا لیں۔

عبد اللہ چند قدم آگے بڑھا اور بولا:

’’عذرا اب گھر چلو، فکر نہ کرو وہ جلد آ جائے گا۔ بصرہ میں کئی بڑے آدمی اس کے دوست ہیں کسی نے اسے زبردستی روک لیا ہو گا۔‘‘

عذرا کچھ کہے بغیر گھر کی طرف چل دی۔ اگلے دن بصرہ سے ایک آدمی آیا اور اس کی زبانی معلوم ہوا کہ نعیم سندھ کی طرف روانہ ہو چکا ہے

   یہ خبر موصول ہونے پر صابرہ، عبد اللہ اور عذرا کے دل میں کئی خیالات پیدا ہوئے۔ صابرہ اور عبد اللہ کو شک گزرا کہ اس کی خود داری نے بھائی کا احسان مند ہونا گوارا نہیں کیا۔ عذرا کے شکوک ان سے مختلف تھے۔ عبد اللہ کے یہ الفاظ کہ بصرہ میں کئی بڑے بڑے آدمی اس کے دوست ہیں۔ کسی نے زبردستی روک لیا ہو گا۔ اس کے دل پر گہرا اثر کر چکے تھے۔ وہ بار بار اپنے دل سے یہ کہتی۔ ’’نعیم کے حسن اور بہادری کی شہرت نے بڑے بڑے آدمی اس کے دوست ہیں۔ کسی نے زبردستی روک لیا ہو گا۔ اس کے دل پر گہرا اثر پیدا کر چکے تھے۔ وہ بار بار اپنے دل سے یہ کہتی ’’نعیم کے حسن اور بہادری کی شہرت نے بڑے بڑے آدمیوں کو اس کا گرویدہ بنا لیا ہو گا۔ وہ اس سے تعلقات پیدا کرنا اپنے لیے باعث فخر خیال کرتے ہوں گے۔ بصرہ میں شاید ہزاروں حسین اور عالی نسب لڑکیاں اس پر فدا ہوں گی۔ آخر مجھ میں ایسی کون سی بات ہے جو اسے کسی اور کا ہو جانے سے منع کر سکتی ہے۔اگر اسے ضرور جہاد پر جانا تھا تو مجھ سے مل کر کیوں نہ گیا! آخر گھر میں کون تھا جو اسے اس کار خیر سے روکتا۔ شاید بستی میں اس کے پریشان رہنے کی وجہ میں نہ تھی۔ ہو سکتا ہے وہ کسی اور کے ساتھ رشتہ محبت جوڑ چکا ہو.... لیکن نہیں ! یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ نعیم میرا نعیم....ایسا نہیں۔ وہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا اور اگر دے بھی تو مجھے گلہ کرنے کا کیا حق ہے؟

)۴)

اس زمانے میں دیبل سندھ کا ایک مشہور شہر تھا۔ سندھ کے راجہ کو شہر کی چار دیواری پر اتنا بھروسہ تھا کہ میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے کی بجائے اپنی بے شمار افواج کے ساتھ شہر کے اندر پناہ گزین ہو گیا۔ محمد بن قاسمؓ نے شہر کا محاصرہ کر کے منجیق سے پتھر برسانے شروع کیے لیکن کئی دنوں کی سخت محنت کے باوجود مسلمان شہر پناہ توڑنے میں کامیاب نہ ہوئے۔آخر ایک دن ایک بھاری پتھر بدھ کے ایک مندر پرا گرا اور اس کا سنہری گنبد ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گر پڑا اور اس کے ساتھ ہی بدھ کا ایک قدیم مجسمہ چکنا چور ہو گیا۔ اس بت کے ٹوٹ جانے کو راجہ داہر اپنے لیے برا شگون خیال کرتے ہوئے بدحواس ہو گیا اور رات کے وقت اپنی فوج کے ساتھ بھاگ نکلا اور برہمن آباد پہنچ کر دم لیا۔

دیبل کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نیرون کی طرف بڑھا۔ نیرون کے باشندوں نے لڑائی سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دئیے۔

نیرون پر قبضہ کرنے کے بعد محمدؒبن قاسم نے بھروچ اور سیوستان کے مشہور قلعے فتح کیے۔ راجہ داہر نے برہمن آباد پہنچ کر چاروں طرف ہرکارے دوڑائے اور باقی ہندوستان کے راجوں مہاراجوں سے مدد طلب کی۔ اس کی اپیل پر دو سو ہاتھیوں کے علاوہ تقریباً پچاس ہزار سوار اور کئی پیادہ دستے مزید جمع ہو گئے۔ راجہ داہر اس لشکر جرار کے ساتھ برہمن آباد سے باہر نکلا اور دریائے سندھ کے کنارے ایک وسیع میدان میں پڑاؤ ڈال کر محمد  بن قاسم کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔

محمدؒ بن قاسم نے کشتیوں کا پل بنا کر دریائے سندھ کو عبور کیا اور ۹۱ جون ۲۱۷ئ کی شام محمدؒ بن قاسم کی فوج نے راجہ کی قیام گاہ سے دو کوس کے فاصلے پر پڑاؤ ڈالا۔ علی الصباح ایک طرف سے ناقوس اور گھنٹوں کی آواز اور دوسری طرف سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی اور دونوں لشکر اپنے اپنے ملک کے جنگی قواعد کے مطابق منظم ہو کر ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔

محمدؒ بن قاسم نے فوج کو پانچ پانچ سو کے دستوں میں تقسیم کر کے پیش قدمی کا حکم دیا۔ ادھر سندھ کی فوج کے ہراول میں دو سو ہاتھی چنگھاڑتے ہوئے آگے بڑھے اور مسلمانوں کے گھوڑے بدک کر پیچھے ہٹنے لگے۔محمدؒ بن قاسم نے یہ دیکھ کر فوج کو تیر برسانے کا حکم دیا۔ ایک ہاتھی مسلمانوں کی صفیں روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ محمدؒ بن قاسم نے اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس کے گھوڑے نے اس مہیب جانور کے قریب جانے سے انکار کر دیا۔ محمدؒ بن قاسم مجبور ہو کر گھوڑے سے اترا اور آگے بڑھ کر ہاتھ یکی سونڈ کاٹ ڈالی۔ نعیم اور سعید نے اس کی تقلید کی اور دو اور ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ ڈالیں۔ زخم خوردہ ہاتھی واپس مڑے اور اپنی فوجوں کو روندتے ہوئے نکل گئے۔ باقی ہاتھی تیروں کی بارش میں آگے نہ بڑھ سکے اور زخمی ہو ہو کر سندھ کی لشکر کی صفیں درہم برہم کرنے لگے۔ اس موقع کو غنیمت جان کر محمدؒ بن قاسم نے اگلی صفوں کو آگے بڑھنے اور پچھلے دستوں کو چکر کاٹ کر دشمن کو تین اطراف سے گھیر لینے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کے جان توڑ حملے نے دشمن کی فوج کے پاؤں اکھاڑ دئیے۔

  سعید چند جاں فروشوں کے ساتھ حریف کی صفیں توڑتا ہوا قلب لشکر تک جا پہنچا۔ نعیم نے اپنے بہادر ماموں سے پیچھے رہنا گوارا نہ کیا اور وہ بھی نیزے سے اپنا راستہ صاف کرتا ہوا ماموں کے قریب جا پہنچا۔راجہ داہر نوجوان رانیوں کے درمیان ایک ہاتھی پر سنہری ہودج میں بیٹھا ہوا لڑائی کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس کے آگے چند پجاری ایک بت اٹھائے بھجن گا رہے تھے۔ سعید نے کہا ’’یہ بت انکا آخری سہارا ہے، اسے توڑ ڈالو!‘‘

نعیم نے ایک پجاری کے سینے پر تیرا مارا اور وہ کلیجے پر ہاتھ رکھ کر نیچے گر پڑا۔ دوسرا تیر ایک اور پجاری کو لگا اور وہ بت کو میدان میں چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ یہ بت واقعی ان کا آخری سہارا ثابت ہوا۔ تمام فوج میں ہلچل مچ گئی۔ سعید سخت زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتا گیا۔ اس نے راجہ داہر کے ہاتھی پر حملہ کیا لیکن راجہ داہر کے جاں نثار اس کے ساتھ اردگرد جمع ہو گئے اور سعید ان کے نرغے میں آگیا۔ سعید کو اس طرح گھرا ہوا دیکھ کر نعیم نے بھوکے شیر کی طرح حملہ کیا اور دشمن کی صفیں درہم برہم کر ڈالیں۔ ایک لمحے کے لیے اس نے سعید کی جستجو میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی لیکن وہ نظر نہ آیا۔ اچانک اس کا خالی گھوڑا ادھر ادھر بھاگتا دکھائی دیا۔ نعیم نے نیچے لاشوں کے ڈھیر کی طرف دیکھا۔ سعید دشمن کی کئی لاشوں کے اوپر منہ کے بل پڑا ہوا تھا۔نعیم نے گھوڑے سے اتر کر ماموں کے سر سہارا دے کر اوپر کیا۔ ’’ماموں جان! ‘‘ کہہ کا پکارا لیکن اس نے آنکھیں نہ کھولیں۔ نعیم ’’انا للہ و اناا لیہ راجعون‘‘ کہہ کر پھر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ راجہ داہر کا ہاتھی اس سے زیادہ دور نہ تھا۔ لیکن ابھی تک غیر منظم سپاہیوں کا ایک گروہ اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے کھڑا تھا۔

نعیم نے ایک بار پھر کمان اٹھائی اور راجہ کی طرف تیر برسانے لگا۔ ایک تیر راجہ کے سینے میں لگا اور اس نے نیم بسمل ہو کر اپنا سر ایک رانی کی گود میں رکھ دیا۔راجہ کے قتل کی خبر مشہور ہوتے ہی سندھ کا لشکر میدان جنگ میں لاشوں کے انبار چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ ان شکست خوردہ سپاہیوں میں سے بعض نے برہمن آباد اور بعض نے اردر کا رخ کیا۔

اس عظیم فتح کے بعد مسلمان زخمیوں کی مر ہم پٹی اور شہیدوں کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گئے۔ سعید کی نعش پر زخموں کے بیس سے زیادہ نشانات تھے۔ جس اسے لحد میں رکھا گیا تو نعیم نے اپنی جیب سے بھائی کا خط نکالا اور لحد کے اندر پھینک دیا۔

محمد بن قاسم نے حیران ہو کر پوچھا۔’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’ایک خط۔‘‘ نعیم نے مغموم لہجے میں کہا۔

’’کیسا خط؟‘‘

’’مجھے عبد اللہ نے دیا تھا۔ میں انہیں یہ خط پہنچانے کا وعدہ کر کے آیا تھا لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ میں اپنا وعدہ پورا کر سکتا۔‘‘

’’میں اسے دیکھ سکتا ہوں ؟‘‘ محمدؒ بن قاسم نے پوچھا۔

’’اس میں کوئی خاص بات نہیں۔‘‘

محمدؒ بن قاسم نے جھک کر لحد سے خط نکالا۔ پڑھا اور نعیم کو واپس کرتے ہوئے کہا:

’’اسے اپنے پاس رکھو۔ شہیدوں کی نگاہ سے دنیا اور آخرت کی کوئی بات پوشیدہ نہیں ہوتی۔‘‘ محمدؒ بن قاسم سے نعیم کی زندگی کا کوئی راز پوشیدہ نہ تھا۔ نعیم کے لیے عبداللہ کا ایثار اور خدا کی راہ میں نعیم کی یہ شاندار قربانی دیکھ کر اس کے دل میں ان دونوں بھائیوں کے لیے پہلے سے زیادہ گہری محبت پیدا ہو گئی۔

رات کے وقت محمدؒ بن قاسم نے سونے سے پہلے نعیم کو اپنے خیمے میں بلایا اور ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد کہا۔ ’’اب ہم چند دنوں تک برہمن آباد فتح کر کے ملتان کا رخ کریں گے۔ وہاں شاید ہمیں زیادہ افواج کی ضرورت پڑے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ تمہیں واپس بصرہ بھیج دیا جائے۔ وہاں تم زیادہ افواج مہیا کرنے کے لیے تقریریں کرو۔ راستے میں اپنے گھر سے بھی ہو تے جانا اور انہیں تسلی دینا!‘‘

’’جہاں تک ان کی تسلی کا تعلق ہے۔ میں سے جہاد سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ رہا مزید بھرتی کا سوال، تو آج کے معرکے نے ثابت کر دیا ہے کہ  سندھ کے لیے مزید افواج کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’لیکن میرا ارادہ فقط سندھ کی فتح کرنے تک محدود نہیں۔‘‘

’’لیکن ایک دوست کی حیثیت میں مجھ پر آپ کا یہ احسان غیر ضروری ہو گا۔‘‘

’’کیسا احسان؟‘‘ محمدؒ بن قاسم نے پوچھا۔

’’آپ مجھے بصرہ بھیجنے کے بہانے گھر جانے کا موقع دینا چاہتے ہیں اور میں اسے ایک احسان سمجھتا ہوں۔‘‘

محمدؒ بن قاسم نے کہا۔ ’’اگر یہ احسان میرے یا تمہارے فرائض سے ٹکر کھاتا ہو تو میں تمہیں کبھی اجازت نہ دوں۔ لیکن فی الحال تمہاری اس جگہ کوئی ضرورت نہیں کیونکہ برہمن آباد فتح کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس کے بعد ادھر ادھر کی معمولی ریاستوں کی سرکوبی کے بعد ہم ملتان کا رخ کریں گے۔ تم اس وقت تک آسانی سے واپسا جاؤ گے اور تمہارے ساتھ آنے والے تھوڑے بہت سپاہی ہماری طاقت میں کافی اضافہ کر سکیں گے۔‘‘

’’اچھا! پھر مجھے کب جانا چاہیے؟‘‘

’’جس قدر جلدی ہو سکے۔ اگر تمہارے زخم تمہیں سفر کی اجازت دے سکیں تو کل ہی روانہ ہو جاؤ!‘‘

محمدؒ بن قاسم کے ان الفاظ کے بعد نعیم بظاہر وہیں بیٹھا تھا لیکن اس کے خیالات اسے سندھ کی سرزمین سے ہزاروں میل دور لے جا چکے تھے۔

علی الصباح و بصرہ کا رخ کر رہا تھا۔

سندھ میں مسلمانوں کی فتوحات کے حالات سے حجاج بن یوسف کو ہر وقت با خبر رکھنے کے لیے محمدؒ بن قاسم نے سندھ سے لے کر بصرہ تک دس دس کوس کے فاصلے پر سپاہیوں کی چوکیاں مقرر کر دی تھیں۔ ان چوکیوں پر ڈاک رسانی کی غرض سے نہایت تیز رفتار گھوڑے رکھے گئے تھے۔

نعیم علی الصباح سندھ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوا۔ وہ ہر چوکی پر گھوڑا بدلتا ہوا دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہا تھا۔رات کے وقت اس نے ایک چوکی پر قیام کیا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اسے بہت جلد نیند آ گئی۔ آدھی رات کے قریب سندھ کی طرف سے ایک اور سوار کی آمد نے نعیم اور چوکی کے سپاہیوں کو جگا دیا۔ سوار لباس سے ایک مسلمان سپاہی معلوم ہوتا تھا۔ وہ چوکی پر پہنچتے ہی اپنے گھوڑے سے اترا اور کہنے لگا:

’’میں بصرہ میں ایک نہایت ضروری خبر لے کر جا رہا ہوں، دوسرا گھوڑا فوراً تیار کرو!‘‘

نعیم کو سندھ کو ہر معاملے سے دلچسپی تھی۔ اس نے اٹھ کر مشعل کی روشنی میں نووارد کو دیکھا۔ وہ گندمی رنگ کا ایک قوی ہیکل نوجوان تھا۔

’’تم محمدؒ بن قاسم کا پیغام لے کر جا رہے ہو؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’کیا پیغام ہے؟‘‘

’’مجھے کسی کو بتانے کی اجازت نہیں۔‘‘

’’مجھے جانتے ہو؟‘‘

’’ہاں ! آپ ہماری فوج کے ایک سالار ہیں لیکن معاف کیجئے گا اگر آپ کو بتانے میں کوئی حرج نہیں تاہم مجھے سپہ سالار کا حکم ہے کہ حجاج بن یوسف کے سوا یہ پیغام کسی کو نہ دیا جائے !‘‘

’’میں تمہاری اس فرض شناسی کی قدر کرتا ہوں۔‘‘ نعیم نے کہا۔

  اتنی دیر میں دوسرا گھوڑا تیار ہو گیا اور نووارد اس پر سوار ہو کر آن کی آن کی میں رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔

چند دنوں کے بعد نعیم اپنے سفر کا تین چوتھائی حصہ طے کر کے ایک دل کش وادی میں سے گزر رہا تھا۔ اسے راستے میں پھر وہی سوار نظر آیا۔ نعیم نے اسے غور سے دیکھنے پر پہچان لیا۔ اس نے نعیم کے قریب آنے پر گھوڑا روک لیا اور کہا:

’’آپ بہت تیز رفتار سے آئے۔ میرا خیال تھا کہ آپ بہت پیچھے رہ جائیں گے!‘‘

’’ہاں ! میں نے راستے میں زیادہ دیر آرام نہیں کیا۔‘‘

’’آپ بھی بصرہ جا رہے ہیں ؟‘‘

’’ہاں۔‘‘ نعیم نے جواب دیا۔ ’’اگر تم اس دن تھوڑی دیر کے لیے میرا انتظار کر لیتے تو سارا سفر اکٹھے رہتے۔‘‘

’’میرا خیال تھا کہ آپ ذرا آرام سے سفر کریں گے، اب میں آپ کے ساتھ رہوں گا چلیے!‘‘

’’میرا خیال ہے کہ تم ان راستوں سے زیادہ واقف ہو؟‘‘

’’ہاں ! میں اس ملک میں بہت دیر رہ چکا ہوں۔‘‘

’’چلو پھر آگے تم چلو!‘‘

اجنبی نے گھوڑا آگے کر کے سرپٹ چھوڑ دیا اور نعیم نے بھی اس کی تقلید کی۔

کچھ دیر کے بعد نعیم نے سوال کیا ’’ہم دوسری چوکی پر ابھی تک کیوں نہیں پہنچے؟ کہیں ہم راستہ تو نہیں بھول گئے؟‘‘

نعیم کے ساتھی نے گھوڑا روکا اور پریشان سا ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ آخر اس نے کہا ’’ میرا بھی یہی خیال ہے لیکن آپ فکر نہ کریں۔ ہم اس وادی کو عبور کرنے کے بعد صحیح راستہ معلوم کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ چند کوس اور طے کرنے کے بعد اجنبی نے گھوڑا پھر روک لیا اور کہا۔‘‘ شاید ہم صحیح راستے سے بہت دور ایک طرف نکل آئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ راستہ شیراز کی طرف جاتا ہے۔ ہمیں اب بائیں طرف مڑنا چاہیے۔ لیکن گھوڑے بہت تھک گئے ہیں۔ یہاں تھوڑی دیر آرام کر لیں تو بہتر ہو گا۔‘‘ یہ سر سبز اور شاداب خطہ کچھ ایسا جاذب نگاہ تھا کہ نعیم کے تھکے ہوئے جسم نے بے اختیار تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے اجنبی کی تائید کی۔ دونوں سوار نیچے اترے۔ گھوڑوں کو ایک چشمہ سے پانی پلا کر درخت کے ساتھ باندھ دیا اور سرسبز گھاس پر بیٹھ گئے۔

اجنبی نے اپنا تھیلا کھولتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو بھوک تو ضرور ہو گی؟ میں نے تو پچھلی چوکی سے پیٹ بھر لیا تھا۔ یہ تھوڑا سا کھانا شاید آپ کے لیے بچ گیا تھا۔‘‘

اجنبی کے اصرار پر نعیم نے روٹی اور پنیر کے چند ٹکڑے کھائے اور چشمہ سے پانی پی کر گھوڑے پر سوار ہونا چاہا لیکن دماغ میں غنودگی سی محسوس کرنے کے بعد گھاس پر لیٹ گیا۔

’’میرا سر چکرا رہا ہے!‘‘ اس نے کہا۔

اجنبی نے کہا۔’’آپ بہت تھکے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر آرام کر لیں !‘‘

’’نہیں دیر ہو جائے گی۔ ہمیں چلنا چاہیے!‘‘ نعیم یہ کہہ کر اٹھا لیکن ڈگمگاتے ہوئے چند قدم چلنے کے بعد پھر زمین پر بیٹھ گیا۔

اجنبی نے اس کی طرف دیکھ کر ایک مہیب قہقہہ لگایا۔ نعیم کے دل میں فوراً یہ خیال آیا کہ اسے کھانے میں کوئی نشہ آور شے دی گئی ہے۔ ساتھ ہی اسے یہ محسوس ہوا کہ وہ کسی خطر ناک مصیبت میں گرفتار ہونے والا ہے۔ اس نے ایک بار پھر اٹھنا چاہا لیکن ہاتھ پاؤں جواب دے چکے تھے۔ اس کے دماغ پر گہری نیند کی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔ اس نے نیم بے ہوشی کی کی حالت میں محسوس کیا کہ چند آدمی اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رہے ہیں۔ اس نے ان کی آہنی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے لیکن اس کی جدوجہد بے سود تھی۔ وہ قریباً بے ہوش ہو چکا تھا۔

   اس کے بعد اس بات کا معمولی سا ہوش تھا کہ چند آدمی اسے اٹھا کر کسی طرف لے جا رہے ہیں۔اگلے دن نعیم کو ہوش آیا تو اپنے آپ کو ایک تنگ کوٹھڑ میں پایا اور وہی اجنبی جو اسے فریب دے کر یہاں تک لایا تھا، اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ نعیم نے ادھر ادھر دیکھنے کے اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں اور سوال کیا۔ ’’مجھے یہاں لانے سے تمہارا کیا مقصد ہے اور میں کس کی قید میں ہوں ؟‘‘

’’وقت آنے پر تمہیں تمام سوالات کا جواب مل جائے گا۔‘‘

اجنبی یہ کہہ کر باہر نکل گیا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کر دیا گیا۔

نعیم کو قید ہوئے تین ماہ گزر گئے۔ اس کی مایوسی قید خانے کی کوٹھڑی کی بھیانک تاریکی میں اضافہ کر رہی تھی۔ اس ناگفتہ بہ حالت میں اس کے لیے فقط یہ خیال تسلی بخش تھا کہ خدا کو اس ے صبر کا امتحان مقصود ہے۔ ہر صبح و شام ایک شخص آتا اور قید خانہ کی دیوار میں ایک چھوٹے سے سوراخ کے راتے کھانا دے کر چلا جاتا۔

نعیم کئی بار پوچھتا ’’مجھے قید کرنے والا کون ہے؟ مجھے کس لیے قید کیا گیا ہے؟‘‘

لیکن ان سوالات کا کوئی جواب نہ ملتا۔ تین مہینے گزر جانے کے بعد نعیم، ایک صبح بارگاہ الہی میں سر بسجود دعا مانگ رہا تھا کہ کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور وہی اجنبی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس نے نعیم سے مخاطب ہو کر کہا:

’’اٹھو اور ہمارے ساتھ چلو!‘‘

’’کہاں ؟ نعیم نے سوال کیا۔

’’کوئی تمہیں دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔۔

نعیم ننگی تلواروں کے سایہ میں ان کے ساتھ ہو لیا۔

قلعہ کے ایک خوشنما کمرے میں ایک ایرانی قا لین پر چند نوجوانوں کے درمیان ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھا تھا۔ نعیم نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ یہ ابن صادق تھا۔

اسیری

ابن صادق کی گذشتہ زندگی ناکامیوں کی ایک طویل داستان تھی۔ وہ یروشلم کے ایک متمول یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ذہین ہونے کے باعث اس نے سولہ برس کی عمر میں ہی عربی، فارسی، یونانی اور لاطینی میں غیر معمولی استعداد پیدا کر لی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اسے ایک عیسائی لڑکی مریم سے محبت ہو گئی اور وہ اس کے والدین کو شادی پر رضا مند کرنے کے لیے عیسا ئی ہو گیا۔ لیکن مریم کچھ عرصہ ابن صادق کی دلجوئی کرنے کے بعد اس کے چچا زاد بھائی الیاس پر فریفتہ ہو کراس سے نفرت کرنے لگی۔ ابن صادق نے بہت کوششوں کے بعد مریم کے والدین کو شادی پر رضا مند کیا۔ لیکن وہ ایک موقع پا کر اپنے نئے عاشق کے ساتھ فرار ہو گئی اور دمشق پہنچ کر اس سے شادی کر لی۔ مریم کی محبت اور اخلاق سے متاثر ہو کر الیاس نے بھی عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔

الیاس ایک بلند پایہ معمار تھا۔ اس نے دمشق میں معقول آمدنی کی صورت پیدا کر لی اور وہیں مکان بنا کر زندگی کے دن گزارنے لگا۔ ایک سال کے بعد الیاس کے گھر ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کا نام زلیخا رکھا گیا۔

ابن صادق کو سخت جستجو کے بعد ان کا پتہ چلا۔ وہ دمشق پہنچا۔ وہاں محبوبہ اور بھائی کو عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے دیکھ کر اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ چند دن وہ دمشق کے گلی گوچوں کی خاک چھانتا رہا۔ بالآخر اسلام قبول کر کے دربار خلافت میں حاضر ہوا۔ مریم پر اپنے حقوق جتا کر درخواست کی کہ وہ الیاس سے چھین کر اسے دلائی جائے۔ وہاں سے حکم ملا کہ یہودی اور عیسائی ہماری امان میں ہیں۔ چونکہ مریم نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اس لیے اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ قسمت کا مارا نہ یہودی تھا، نہ عیسائی نہ مسلمان۔ چاروں طرف کی مایوسی دل میں انتقام کی آگ کو ٹھنڈا نہ کر سکی۔ دمشق کی خاک چھاننے کے بعد یہ کوفہ میں حجاج بن یوسف کے پاس پہنچا اور اسے اپنی سرگزشت سنا کر مدد کی درخواست کی۔حجاج نے خاموشی سے اس سرگزشت سنی۔ ابن صادق نے اس کی خاموشی سے فائدہ اٹھا کر اس کی تعریف کی اور دربار خلافت کی مذمت میں چند فقرے کہہ ڈالے۔

اس نے کہا ’’اگر آپ میرے دل سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ ذاتی قابلیت کے اعتبار سے آپ مسند خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔ ابھی ابن صادق کے فقرے کے آخری الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ حجاج نے ایک سپاہی کو آواز دی اور حکم دیا کہ اسے دھکے دے کر شہر سے نکال دو اور ابن صادق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’تمہاری سزا قتل تھی لیکن میں اسلیے درگزر کرتا ہوں کہ تم میرے ہاں ایک مہمان کی حیثیت سے آئے ہو۔‘‘

ابن صادق شام کے وقت شہر سے نکلا اور رات ایک راہب کے جھونپڑے میں پناہ لے کر علی الصباح خطرناک عزائم کے ساتھ یروشلم کی طرف روانہ ہوا۔ وہ یروشلم میں بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر سکا۔ چند سال تک وہ اپنے بھائی اور محبوبہ کے علاوہ تمام دنیا کے خلاف جذبہ انتقام لیے مارا مارا پھرتا رہا۔ بالآخر اس نے اپنے ساتھ شرپسندوں کی ایک خطرناک جماعت پیدا کر لی اور ایک زبردست سازش کے ارادے سے انہیں تمام ملک میں پھیلا دیا۔ وہ اس مختصر جماعت کا روحانی پیشوا بن بیٹھا۔ ایک دن اسے اپنے چچا زاد بھائی سے انتقام لینے کا موقع ملا اور وہ اس کی اکلوتی بیٹی زلیخا کو اغوا کرلایا۔ زلیخا کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی۔ ابن صادق اسے لے کر ایران کی طرف بھاگا اور مدائن میں اپنی جماعت کے اسحق نامی ایک شخص کے سپرد  کر کے پھر سے اپنے تخریبی مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہو گیا۔ دو ماہ بعد اس کی جماعت کے خفیہ کارکنوں نے الیاس اور مریم کو قتل کر ڈالا۔ اس نے اس سفاکانہ قتل کے بعد بھی بس نہ کی اور اپنی بقیہ زندگی کو تمام دنیا کے لیے خطرناک بنا نے کی ٹھان لی۔عالم اسلام میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی نیت سے وہ حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ چند خارجیوں اور اسلام کے دشمنوں نے اس کے ساتھ بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے مقاصد کی تکمیل کے راستے میں ما لی مشکلات حائل تھیں۔ اس کے ذہن میں ایک تدبیر آئی اور وہ دو مہینوں کا سفر ہفتوں میں طے کرتا ہوا قیصر روم کے دربار میں حاضر ہوا۔

قیصر اگر مشرق میں اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا تاہم ابھی تک اس کے دل میں اپنے آباء و  اجداد کی شکستوں کی یاد تازہ تھی۔ اس نے ابن صادق کے ساتھ کھلے طور پر شریک عمل ہونے کی جرات نہ کی لیکن مسلمانوں کے اس حد تک خطرناک دشمن کی حوصلہ افزائی ضروری خیال کی۔ اس نے ابن صادق سے کہا۔ ’’ہم تمہاری ہر ممکن طریقے سے مدد کریں گے لیکن جب تک مسلمان ایک ہیں، ہم ان پر حملہ کرنا خلاف مصلحت سمجھتے ہیں۔ تم واپس جا کر اپنا کام جاری رکھو، ہم تمہاری خدمات کا خیال رکھیں گے۔‘‘

ابن صادق وہاں سے سونا چاندی اور جواہرات کے گراں بہا تحائف لے کر واپس آیا اور کوفہ و بصرہ کے درمیان ایک گمنام مقام کو اپنی قیام گاہ بنا کر اپنا تخریبی کام شروع کر دیا۔ حجاج کے خوف سے اس نے کئی سال تک اپنے خیالات کے اعلان کی جرات نہ کی اور تمام کوششوں کو اس کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے ہر ممکن احتیاط سے کام لیا۔ چند برس کی سر توڑ کوشش اور محنت سے اس نے ایک ہزار اشخاص کی جماعت تیار کر لی۔ اس جماعت کے اکثر افراد ایسے تھے جن کا ضمیر وہ سونے اور چاندی کے عوض خرید چکا تھا۔ وہ قیصر روم کو اپنی خدمات سے با خبر رکھتا اور وہاں سے حسب ضرورت مدد منگوا لیتا۔ جب اس نے محسوس کیا کہ اس کی جماعت قدرے طاقتور ہو گئی ہے اور کوفہ و بصرہ کے اکثر لوگ حجاج سے نفرت کرتے ہیں تو اپنے مد مقابل پر آخری ضرب لگانے کے لیے تیار ہو بیٹھا۔ ایک دن اس کے جاسوسوں نے اسے خبر دی کہ آج حجاج کوفہ میں گیا ہے اور ابن عامر فوجی بھرتی کے لیے تقریر کرنے والا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ بصرہ کے اکثر لوگ فوج میں بھرتی ہونے سے کتراتے ہیں۔ ابن صادق نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا اور پہلی مرتبہ اپنے گوشے سے نکل کر اہل بصرہ کے عام جلسے میں حصہ لینے کی جرات کی۔ اسے یقین تھا کہ وہ بصرہ کے غیر مطمئن لوگوں کو اپنی جادو بیانی سے مشتعل کرنے میں کامیاب ہو گا لیکن اس یہ وہم غلط ثابت ہوا۔ نعیم نے اچانک نمودار ہو کر اس کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔‘‘

ابن صادق بصرہ سے دم دبا کر بھاگا اور رملہ جا کر خلیفہ کے بھائی سلیمان کے پاس پناہ گزین ہوا۔ ایک ہزار کی جماعت میں سے صرف چند آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا۔

چونکہ حجاج بن یوسف، سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کرنے میں خلیفہ کا ہم خیال تھا، اس لیے سلیمان حجاج اور اس کے ساتھیوں کو اپنے بدترین دشمن اور حجاج کے دشمنوں کو اپنا دوست خیال کرتا تھا۔ حجاج بن یوسف نے ابن صادق کی فتنہ پردازی سے واقف ہوتے ہی اس کے تعاقب میں سپاہی روانہ کیے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ سلیمان رملہ میں اسے پناہ دے چکا ہے تو خلیفہ کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔ دربارِ خلافت سے سلیمان کے نام یہ حکم صادر ہوا کہ ابن صادق اور اس کے ساتھیوں کو پا بہ زنجیر حجاج بن یوسف کے پاس روانہ کیا جائے! سلیمان، ابن صادق کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکا تھا اور اس کی جان بچانا چاہتا تھا۔ اس نے ابن صادق کو اصفہان کی طرف بھگا دیا اور دربار خلافت کو لکھ بھیجا ابن صادق رملہ سے فرار ہو گیا ہے۔ چند روز اصفہان کی خاک چھاننے کے بعد ابن صادق نے شیراز کا رخ کیا۔ شیراز سے پچاس کوس کے فاصلہ پر جنوب مشرق کی طرف پہاڑوں کے درمیان پرانے زمانے کا ایک غیر آباد قلعہ تھا۔ ابن صادق نے اسے قلعے میں پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا اور اپنی تازہ مصیبتوں کی ذمہ داری نعیم پر عائد کرتے ہوئے اسے ایک عبرتناک سزا دینے کے منصوبے باندھنے لگا۔

  نعیم، ابن صادق کے سامنے خاموشی سے کھڑا تھا۔ ایک سپاہی نے اچانک اسے دھکا دے منہ کر بل زمین پر گرا دیا اور کہا۔’’بیوقوف! یہ بصرہ کی مسجد نہیں۔ اس وقت تم ہمارے امیر کے دربار میں کھڑے ہو۔ یہاں گستاخوں کے سر قلم کیے جاتے ہیں۔‘‘

ابن صادق نے اس حرکت پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’بیوقوف ہو تم، بہادروں کو بہادروں کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آنا چاہیے!‘‘

یہ کہہ کر ابن صادق اپنی جگہ سے اٹھا اور نعیم کو بازو کا سہارا دے کر کھڑا کیا۔ فرش پر گرنے سے نعیم کی ناک سے خون بہ رہا تھا۔ ابن صادق نے اپنے رومال سے اس کا منہ پونچھا اور اس کی طرف ایک حقارت آمیز تبسم کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ میں نے سنا ہے آپ اپنے میزبان کا نام نہایت بے قراری سے پوچھتے رہے ہیں۔ افسوس آپ کو بہت انتظار کرنا پڑا۔ میری بھی خواہش تھی کہ بہت جلد آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت کروں لیکن فرصت نہ ملی۔ آج آپ سے مل کر جو مسرت میرے دل کو ہوئی ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اپنے پرانے دوست سے مل کر بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ کہیے طبیعت کیسی ہے؟ آپ کا رنگ بہت زرد ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں اس کوٹھڑی کی تنگی اور تاریکی میں آپ کی مجاہدانہ طبیعت بہت پریشان ہوئی ہو گی لیکن آپ شاید نہیں جانتے کہ اس چھوٹے سے قلعے میں کوئی بڑی کوٹھڑی نہیں، اس لیے میرے آدمی آپ کو وہیں رکھنے پر مجبور تھے۔ آج میں نے تھوڑی دیر کے لیے آپ کو اس لیے باہر نکالا ہے کہ آپ روشنی اور تاریکی میں امتیاز کرنے والی حس سے عاری نہ ہو جائیں۔ لیکن آپ تو میری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے میں کوئی اجنبی ہوں۔ پہچانتے نہیں آپ مجھے؟ آپ سے میرا تعارف بصرہ میں ہوا تھا۔ اگر چہ ہماری پہلی ملاقات نہایت نا خوشگوار حالات میں ہوئی تھی تاہم ہمارے تعلقات اس دن سے کچھ ایسے نہیں کہ ایک دوسرے کو بھول سکیں۔ مجھے بڑی مشکل سے آپ کی اس تقریر کی داد دینے کا موقع ملا ہے اور مجھے آپ جیسے غیور مجاہد کو عبد اللہ ابن ابی کے جانشین کے سامنے اس طرح کھڑے دیکھ کر بہت رحم آتا ہے، بتائیے، آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟‘‘

ابن صادق کا ہر لفظ نعیم کے دل پر تیر و نشتر کا کام کر رہا تھا۔ اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا ’’ مجھے اسیر ہونے کا غم نہیں۔ لیکن اس بات کا افسوس ہے کہ میں تم جیسے بزدل اور کمینے شخص کی قید میں ہوں۔ اب جو تمہارے جی میں آئے کرو۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ میری زندگی اور موت دونوں تمہارے لیے خطرناک ہیں۔ اس وقت میرے ہاتھ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں مگر اسیری مجاہد کو بزدل نہیں بنا سکتی۔‘‘

ابن صادق نے نعیم کے سخت الفاظ سے بے پروائی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’تم بہادر ہونے کے ساتھ بیوقوف بھی ہو۔تم نہیں جانتے کہ تمہارا سر اس وقت ایک اژدہا کے منہ میں ہے۔ تمہیں نگل جانا یا چھوڑ دینا اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ میری قید سے آزاد ہونے کا خیال بھی دل سے نکال دو۔ اس قلعہ میں دو سو سپاہی ہر وقت ننگی تلواروں کے ساتھ تمہاری نگرانی کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ یہ کہہ کر ابن صادق نے تا لی بجائی اور قلعے کے مختلف گوشوں سے کئی سپاہی ننگی تلواریں لیے نمودار ہوئے۔ نعیم کو ان میں ہر ایک کا چہرہ ابن صادق کی طرح سفاک نظر آتا تھا۔

نعیم نے کہا۔ ’’تم جانتے ہو کہ میں بزدل نہیں ہوں۔ تم سے رحم کی درخواست نہیں کروں گا۔ تمہارا مقصد اگر میری جان لینا ہے تو میں تیار ہوں !‘‘

ابن صادق نے کہا۔ ’’تم یہ سمجھتے ہو کہ دنیا کی سب سے بڑی سزا موت ہے لیکن میں تم پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بہت سی سزائیں موت سے زیادہ بھیانک ہیں۔ میں تمہیں وہ سزا دے سکتا ہوں جس کو برداشت کرنے کی تم میں ہمت نہ ہو۔ میں تمہاری زندگی کو اس درجہ تلخ بنا سکتا ہوں کہ تمہیں ہر لمحہ موت سے زیادہ تاریک دکھائی جے لیکن میں تمہارا دشمن نہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم زندہ رہو۔ میں تمہیں ایک ایسی زندگی کا راستہ بتانا چاہتا ہوں جو تمہاری عاقبت کے تصور سے بھی زیادہ حسین ہے، تم جنگوں کے مصائب اس لیے برداشت کرتے ہو کہ تم زندگی کے عیش و آرام سے واقف نہیں ہو۔ تم بے لوث اس لیے ہو کہ خود نمائی کی لذت سے نا آشنا ہو۔ یہ چند سالہ زندگی خدا نے تمہیں اس دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دی ہے۔ تم اس کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ تم بہادر ہو لیکن تمہاری بہادری تمہیں اس کے سوا اور کیا سکھاتی ہے کہ تم ایسے مقاصد کے لیے اپنی جان گنوا آؤ

  جن کا تمہاری ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم راہ خدا میں قربان ہو رہے ہو لیکن خدا کو تمہاری قربانیوں کی ضرورت نہیں۔ تمہاری قربانی سے اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو خلیفہ اور حجاج کو، جو گھر بیٹھے فتوحات کی شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ تم اپنے آپ کو فریب دے رہے ہو۔

تمہاری جوانی اور تمہاری شکل و صورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم خاک و خون میں لوٹنے کے لیے نہیں بنائے گئے۔ تم ایک شہزادہ معلوم ہوتے ہو۔ تمہارے لیے ایک خونخوار بھیڑیے کی زندگی بسر کرنا زیبا نہیں۔ تمہیں ایک شہزادے کی سی زندگی بسر کرنی چاہیے۔تم ایک حسین شہزادی کی آنکھوں کا نور اور دل کا قرار بن سکتے ہو۔ تم اپنی زندگی کو ایک رنگین خواب بنا سکتے ہو۔ تم اگر چاہو تو نا ہموار زمین، پتھروں اور چٹانوں پر سونے کی بجائے اپنے لیے پھولوں کی سیج مہیا کر سکتے ہو۔ دنیا کا بہت سا عیش و آرام دولت سے خریدا جا سکتا ہے۔ تم اگر چاہو تو دنیا بھر کے خزانے اکٹھے کر سکتے ہو۔ دنیا کی حسین سے حسین لڑکیوں کو اپنی خواب گاہ کی زینت بنا سکتے ہو۔ لیکن تم ابھی انجان ہو۔ تم نے کسی کے گیسوؤں کی مہک سے سرشار ہو کر جینا نہیں سیکھا۔ تم اپنے بے غرضی پر اس لیے خوش ہو کہ تم نے دنیا کی جاہ و حشمت نہیں دیکھی۔ نوجوان! میں تمہارے لیے بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ کاش! تم میرے شریک کار بن جاؤ۔ ہم بنو امیہ کی حکومت ختم کر کے ایک نیا نظام قائم کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں خلیفہ اور حجاج کا مغرور سر کچل دینے میں کامیابی ہو گی۔ شاید تم یہ خیال کرتے ہوے کہ میں وہی ابن صادق ہوں جس کے ساتھ تمہیں بصرہ کے عام اجلاس میں واسطہ پڑا تھا لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اتنا حقیر نہیں ہوں جتنا کہ تم مجھے خیال کرتے ہو۔ تمہارے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ میری پشت پر قیصرِ روم جیسے آدمی موجود ہیں۔ عرب و عجم میں ایک زبردست انقلاب پیدا کرنے کے لیے وقت کا انتظار کر رہا ہوں، میں مدت سے تمہارے جیسے جادو بیان نوجوان کی تلاش میں تھا۔ تمہارے سامنے وہ میدان عمل پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں تم اپنے خداداد جوہر کا پورا استعمال کر سکو گے۔ تمہارے جیسے نوجوان کو ایک معمولی سپاہی کے عہدے پر قناعت کرنے کی بجائے خلافت کا دعویدار بننا چاہیے۔‘‘

نعیم کو خاموش دیکھ کر ابن صادق نے خیال کیا کہ وہ اس کے دام فریب میں آ چکا ہے۔ اس نے لہجے کو ذرا نرم کرتے ہوئے کہا۔’’اگر تم میرے ساتھ وفاداری کا عہد کرو تو میں ابھی تمہاری زنجیریں کھلوا دیتا ہوں۔ بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ تمہارے لیے زندگی بسر کرنے کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ کہو! تم زندگی کی نعمتوں سے مالا مال ہونا چاہتے ہو یا اسی تاریک کوٹھڑی میں زندگی کے باقی دن گزار نا پسند کرتے ہو؟‘‘

نعیم نے گردن اوپر اٹھائی۔ اس کے آنکھیں غیر معمولی کرب کا اظہار کر رہی تھیں۔ اس نے جوش میں آ کر جواب دیا۔ ’’تمہاری باتیں میرے لیے ایک زخمی کتے کی چیخ و پکار سے زیادہ معنی نہیں رکھتیں۔ تم نہیں جانتے کہ میں اس آقا کا غلام ہوں جس نے زمین کے ذروں سے آسمان کے ستاروں تک کا مالک ہونے کے باوجود اپنے پیٹ پر تین تین دن پتھر باندھے تھے۔ تم مجھے دولت کا لالچ دینا چاہتے ہو، میں دنیا کے تمام خزانوں کو اپنی خاک پا سے زیادہ حقیر سمجھتا ہوں، تم کہتے ہو زندگی عیش و آرام کا نا م ہے لیکن وہ عیش و آرام جو تلواروں کے سائے میں آزادی کا سانس لینے والوں کو نصیب ہوتا ہے تم جیسے رذیل انسانوں کے تخیل سے بھی بلند ہے۔ تم مجھے خدا کے راستے سے ہٹا کر اپنے ذلیل مقاصد کی تکمیل کا آلہ کار بنانا چاہتے ہو۔ لیکن اپنے ذاتی مقاصد کے لیے خون کی ندیاں بہانے سے احتراز نہیں کرتے۔ تمہیں جس قیصر کی طاقت پرنا زہے، اس کے آباؤ اجداد کئی معرکوں میں ہماری تلواروں کے جوہر آزما چکے ہیں۔ بے شک میں اس وقت تمہارے قبضے میں ہوں لیکن قید یا موت کا خوف مجھے بے حس یا ضمیر نہیں بنا سکتا۔ تم مجھ سے کسی ایسے کام کی توقع نہ رکھو جو ایک مجاہد کے شایان شان نہ ہو!‘‘

ابن صادق نے کھسیانا ہو کر جواب دیا۔’’تم چند روز میں ایسے کام پر آمادہ ہو جاؤ گے جسے دیکھ کر شیطان بھی شرما جائے۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے حاشیہ نشینوں کی طرف دیکھا اور ایک شخص کو اسحاق کے نام سے آواز دی۔ اس آواز پر وہی قوی ہیکل جوان نے نعیم کو فریب دے کر گرفتار کیا تھا، آگے بڑھا۔ نعیم کو پہلی بار معلوم ہوا کہ اس کا نا م اسحاق ہے۔

ابن صادق نے کہا ’’اسحاق! اس کا دماغ درست کرو!‘‘

ابن صادق کے حکم سے نعیم کو برآمدے کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر نعیم کی قمیص پھاڑ ڈالی اور اس کا سینہ   اور بازو عریاں کرتے ہوئے اسحاق کی طرف اشارہ کیا۔ اسحاق ایک خونخوار بھیڑے کی طرح آگے بڑھا اور نعیم پر کوڑے برسانے لگا۔ نعیم نے اف تک نہ کی اور پتھر کی ایک مضبوط چٹان کی طرح کوڑے کھاتا رہا۔ سامنے کے ایک کمرے سے ایک لڑکی نمودار ہوئی اور سہم سہم کر قدم اٹھاتی ہوئی ابن صادق کے قریب آ کھڑی ہوئی۔ وہ کبھی بیقرار سی ہو کر نعیم کی طرف دیکھتی اور کبھی سراپا احتجاج بن کر ابن صادق کی طرف دیکھتی۔ اس کا نازک دل اس سفاکانہ کھیل کو دیر تک برداشت نہ کر سکا۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے ابن صادق کی طرف دیکھا اور کہا۔’’چچا! وہ بے ہوش ہو رہا ہے!‘‘

’’ہونے دو۔ وہ اپنے آپ کو اللہ کی تلوار سمجھتا ہے۔ میں اس کی تیزی کا خاتمہ کر کے چھوڑوں گا۔‘‘

’’چچا!‘‘

ابن صادق نے برہم ہو کر کہا۔ ’’تم خاموش رہو زلیخا! یہاں کیا کرتی ہو۔ جاؤ!‘‘

زلیخا سر جھکائے واپس ہوئی۔ اس نے دو مرتبہ نعیم کی طرف مڑ کر دیکھا۔ اپنی مجبوری اور بے بسی کا اظہار کیا اور ایک کمرے میں روپوش ہو گئی۔ جب نعیم نے مار کی شدت سے بے ہوش ہو کر گردن ڈھیلی چھوڑ دی تو اسے پھر قید خانے میں پھینک دیا گیا۔

نعیم کو کئی بار کوٹھڑی سے باہر نکال کر کوڑے لگائے گئے۔ جب یہ سزا کارگر نہ ہوئی تو ابن صادق نے حکم دیا کہ اسے چند دن بھوکا رکھا جائے۔مختلف جسمانی اذیتیں اٹھانے کے بعد نعیم ایک غیر معمولی قوت برداشت پیدا کر چکا تھا۔ وہ بھوک اور پیاس کی حالت میں رات کے سونے کی کوشش کر رہا تھا کہ کسی نے کوٹھڑی کے سوراخ میں سے آواز دی اور چند سیب اور انگور اندر پھینک دیے۔

نعیم حیران ہو کر اٹھا اور سوراخ سے باہر جھانک کر دیکھا۔ چند قدم کے فاصلے پر کوئی رات کی تاریکی میں غائب ہوتا دکھائی دیا۔ نعیم نے اس کے لباس اور چال سے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی عورت ہے۔ نعیم کے لیے اپنے محسن کو پہچاننا مشکل نہ تھا۔ اس نے کئی بار کوڑے کھاتے وقت ایک نوجوان لڑکی کے بے قرار ہوتے دیکھا تھا۔ اس کے معصوم اور حسین چہرے پر مظلومیت اور بے بسی کے آثار نعیم کے دل پر نقش ہو چکے تھے۔’’لیکن وہ کون تھی؟ اس بھیانک جگہ پر کیونکر لائی گئی؟ نعیم یہ سوچتے ہوئے ایک سیب اٹھا کر کھانے لگا۔

نعیم کی محسنہ کا نام زلیخا تھا۔ وہ اپنی عمر کے سولہ سال انتہائی مصائب میں گزارنے کے باوجود نسوانی حسن کا ایک کامل نمونہ تھی۔ زلیخا کو ہر انسان سے غایت درجہ نفرت تھی۔ وہ ایک مدت سے ابن صادق کے ساتھ زندگی کے تلخ لمحات گزار رہی تھی۔ اور اسے ہمیشہ انسانیت کی بدترین مثالوں سے واسطہ پڑا تھا۔ وہ ہر انسان کو ابن صادق کی طرح عیار، خود غرض، سفاک اور کمینہ خیال کرتی تھی۔ جب نعیم اس قلعہ میں پا بہ زنجیر لایا گیا تو اس نے یہی خیال کیا کہ ایک خود غرض انسان دوسرے خود انسان کے قبضے میں ہے لیکن جب اس نے نعیم کو ابن صادق کا ساتھی بننے سے انکار کرتے دیکھا تو اسکے پرانے خیالات بدل گئے۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ نوجوان اس دنیا کا  باشندہ نہیں جس میں اس نے زندگی کے بے کیف دن اور بھیانک راتیں گزاری ہیں وہ اسکے ایمان اور عزم پر حیران تھی۔ شروع شروع میں اسے مظلوم سمجھ کر قابل رحم خیال کرتی تھی لیکن چند دنوں میں وہ اسے قابل ستائش نظر آنے لگا۔

زلیخا اپنے والدین کے دردناک انجام سے واقف نہ تھی اور ان سے ملنے کی دعائیں کرنے کے بعد وہ مایوس ہو چکی تھی۔ اس کے لیے دنیا ایک بے حقیقت خواب اور عاقبت محض ایک وہم تھا۔ ابن صادق کے تشدد کے خلاف بغاوت کا طوفان اس کے زخم خوردہ دل میں بار بار اٹھنے کے بعد قریباً ہو چکا تھا۔ وہ منزل سے بھٹکے ہوئے اور ساحل سے مایوس ملاح کی طرح مدت تک موجوں کے تھپیڑے کھانے کے بعد تیرنے یا ڈوبنے سے بے پروا ہو چکی تھی اور اپنی ناؤ پر آنکھیں بنے کیے بے خوف و خطر مصائب کے طوفان میں بہی جا رہی تھی۔ اسے کبھی کبھی آنکھیں کھولنے اور چپو ہلانے کا خیال آتا لیکن پھر مایوسی اپنا رنگ جما لیتی۔ اس بے خانماں ملاح کو ساحل یا منزل کی طرف سے کسی آواز دینے والے کی ضرورت تھی۔ فطرت کا یہ کام نعیم سے لینا چاہتی تھی، نعیم کے ساتھ معمولی لگاؤ نے زلیخا کے دل میں خوابیدہ طوفان پھر بیدار کر دیے اور بن صادق کے پنجے سے رہائی پا کر نعیم کی دنیا میں اطمینان کا سانس لینے کی تمنا اس کے دل میں چٹکیاں لینے لگی۔

زلیخا ہر شب کسی نہ کسی وقت آتی اور کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ نعیم کی تاریک کوٹھڑی میں امید کی کرن چھوڑ کر چلی جاتی۔

چار دن کے بعد نعیم کو پھر ابن صادق کے سامنے پیش کیا گیا۔ ابن صادق اس کی جسمانی حالت میں کوئی تغیر نہ پا کر حیران ہوا اور بولا۔’’تم بہت سخت جان ہو۔ شاید تمہارے خدا کو یہی منظور ہے کہ تم زندہ رہو۔ لیکن تم اپنے ہاتھوں اپنی موت خرید رہے ہو۔ میں اب بھی تمہیں سوچنے کا موقع دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارے مقدر کا ستارہ بہت بلند ہے۔ تم کسی بڑے کام کی تکمیل کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ میں تمہیں اس بلند مقام تک پہنچانے کا وعدہ کرتا ہوں جہاں تمام اسلامی دنیا میں کوئی تمہارا مد مقابل نہ ہو۔ میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں اور یہ آخری موقع ہے اگر تم نے اس وقت بھی میرے خلوص کو ٹھکرا دیا تو پچھتاؤ گے!‘‘

نعیم نے کہا ’’ذلیل کتے! تم مجھے بار بار کیوں تنگ کرتے ہو؟‘‘

’’اس ذلیل کتے کا کاٹا کبھی اچھا نہیں ہو گا اور اب وقت آ پہنچا ہے کہ یہ ذلیل کتا تمہیں کاٹنے کے لیے اپنا منہ کھول دے۔ عاقبت نا اندیش انسان، ذرا آنکھیں کھول اور دیکھ کہ دنیا کس قدر حسین ہے۔ دیکھ وہ سامنے پہاڑوں کے مناظر کیسے دلکش ہیں۔ تجھے جس چیز کے دیکھنے کی ہوش ہے۔ آج اچھی طرح دیکھ لے اور اپنے دل پر ان تمام تصاویر کو اچھی طرح نقش کر لے کیونکہ کل سورج نکلنے سے پہلے تیری آنکھیں نکال دی جائیں گی اور تیرے کان بھی سننے کی قوت سے محروم کر دیے جائیں گے۔ آج جو کچھ دیکھنا چاہتا ہے دیکھ لے اور جو کچھ سننا چاہتا ہے، سن لے!‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا اور انہوں نے نعیم کو ستون کے ساتھ باندھ دیا۔

’’ہاں اب یہ بتاؤ کہ آنکھوں سے محروم ہو جانے سے پہلے کوئی ایسی چیز ہے جسے تم دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘

نعیم خاموش رہا۔

ابن صادق نے کہا ’’تم یہ جانتے ہو کہ میرا فیصلہ اٹل ہے۔ تمہیں آج کا سارا دن یہیں گزارنے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس وقت سے فائدہ اٹھاؤ اور جو چیز تمہاری آنکھوں کے سامنے آئے اسے اچھی طرح دیکھ لو اور جو نغمے تمہارے سامنے گائے جائیں۔ انہیں اچھی طرح سن لو!‘‘ یہ کہہ کر ابن صادق نے تا لی بجائی اور چند آدمی طاؤس و رباب اور دیگر قسم کے ساز لیے حاضر ہوا اور ابن صادق کے اشارہ سے ایک طرف بیٹھ گئے۔

آہستہ آہستہ نغمے کی صدا بلند ہوئی۔ اس کے بعد چند عورتیں مختلف رنگوں کے لباس میں ملبوس ایک کونے سے نمودار ہوئیں اور نعیم کے سامنےا کر رقص کرنے لگیں۔ نعیم سرجھکائے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے خیالات یہاں سے کوسوں دور ایک چھوٹی سی بستی کی طرف پرواز کر رہے تھے۔

اس مجلس کو منعقد ہوئے چند ساعتیں گزر رہی تھیں کہ چند تیز رفتار گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز سے حاضرین مجلس چونک اٹھے۔ ابن صادق اٹھ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ایک حبشی غلام نے آ کر اطلاع دی کہ اسحاق آ پہنچا ہے۔

ابن صادق نے نعیم کو مخاطب کر کے کہا۔’’نوجوان! شاید تم ایک نہایت دلچسپ خبر سنو۔‘‘

تھوڑی دیر بعد اسحاق ایک طشتری اٹھائے ہوئے حاضر ہوا اور ابن صادق کو آداب بجا لانے کے بعد طشتری کے سامنے رکھ دی۔ طشتری میں کوئی گول مول شے رومال میں لپیٹ کر رکھی ہوئی تھی۔ ابن صادق نے طشتری پر سے رومال اتارا۔نعیم نے دیکھا کہ طشتری میں کسی آدمی کا سر رکھا ہوا ہے۔

’’شاید آپ اسے دیکھ کر خوش ہوں !‘‘ یہ کہہ کہ ابن صادق نے ایک حبشی کو اشارہ کیا۔ حبشی نے طشتری اٹھا ئی اور نعیم کے قریب لا کر زمین پر رکھ دی۔ طشتری میں رکھے ہوئے سر کو پہچان کر نعیم کے دل میں ایک چرکا لگایا۔ یہ ابن عامر کا سرتھا۔ سوکھے ہوئے چہرے پر اب بھی ایک تبسم کھیل رہا تھا۔ نعیم نے اشک آلو آنکھوں کو بند کر لیا۔ زلیخا ابن صادق کے پیچھے کھڑی یہ دردناک منظر دیکھ رہی تھی اس عزم و استقلال کے مجسمہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔  ابن صادق اپنی جگہ سے اٹھا۔ اسحاق کو قریب بلا کر تھپکی دی اور کہا۔’’اسحاق! اب فقط ایک شرط باقی ہے۔ میں محمدؒ بن قاسم کا سر اس نوجوان کے ساتھ دفن کرنا چاہتا ہوں۔ میں اگر تم اس مہم میں کامیاب ہو گئے کہ زلیخا کو تمہارے جیسے بہادر نوجوان کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے میں کوئی عذر نہ ہو گا۔‘‘

یہ کہتے ہوئے ابن صادق نے زلیخا کی طرف مڑ کر دیکھا۔ وہ آنسو بہاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔ ابن صادق نعیم کے پاس کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔

’’مجھے معلوم ہے تمہیں ابنؒقاسم سے محبت ہے۔ اگر تم اس کا سر یہاں پہنچنے تک زندہ نہ رہ سکے گا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کا سر تمہارے ساتھ دفن کیا جائے گا۔‘‘

یہ کہہ کر ابن صادق نے سپاہیوں کو حکم دیا اور وہ نعیم کو قید خانہ میں چھوڑ آئے۔

رات کے وقت نعیم دیر تک بے قراری کے ساتھ قید خانہ کی چار دیوار میں چکر لگاتا رہا، اس کا دل ایک طویل مدت تک روحانی اور جسمانی کلفتیں اٹھانے کے بعد کسی قدرے بے حس ہو چکا تھا لیکن اس پر آنکھوں اور کانوں سے محروم ہو جانے کا تصور کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ہر لمحہ اس کی بیقرار میں اضافہ ہو رہا تھا۔ کبھی وہ چاہتا تھا کہ یہ رات قیامت کی رات کی طرح طویل ہو جائے اور کبھی اس کے منہ سے یہ دعا نکلتی کہ ابھی صبح ہو جائے اور انتظار کی مدت ختم ہو۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے تھک کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد مجاہد کو نیند آ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ صبح ہونے والی ہے اور اسے کوٹھڑی سے نکال کر ایک درخت کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہے۔ ابن صادق اپنے ہاتھ میں خنجر لیے آتا ہے اور اس کی آنکھیں نکال دیتا ہے۔ اس کے ارد گرد تاریکی چھا جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کے کانوں میں کوئی دوائی ڈالی جاتی ہے جس سے اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگتے ہیں کچھ سنائی نہیں دیتا۔ ابن صادق کے سپاہی اسے وہاں سے لا کر پھر کوٹھڑی میں پھینک جاتے ہیں۔ وہ سننے اور دیکھنے کی قوت سے محروم ہو کر کوٹھڑی کی دیواروں سے ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور وہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ سپاہی پھر ایک بار آتے ہیں اور اسے کوٹھڑی سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جاتے ہیں اور کہیں دور چھوڑ آتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے کانوں کے پردے یک لخت کھل گئے ہیں اور وہ پرندوں کے چہچہے اور ہوا کی سائیں سائیں سن رہا ہے۔ عذرا اسے دور سے نعیم نعیم! کہہ کر پکار رہی ہے۔ وہ اٹھتا ہے اور جس طرف سے آواز آتی ہے، اس طرح قدم اٹھاتا ہے لیکن چند قدم چلنے کے بعد اس کا پاؤں ڈگمگاتا ہے اور وہ زمین پر گر پڑتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں اچانک بینائی آ جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ عذرا اس کے سامنے کھڑی ہے۔ وہ پھر ایک بار اٹھتا ہے اور ہاتھ پھیلا کر عذرا عذرا! کہتا ہوا اس کی طرف بڑھتا ہے لیکن اس کے قریب پہنچ کر غور سے دیکھنے کے بعد وہ ٹھٹھک کر رہ جاتا ہے۔ عذرا کی بجائے اس کوٹھڑی میں اس سے ملتی جلتی حسن و جمال کی ایک تصویر کھڑی تھی۔ دیوار کے روزن میں سے چاند کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بغور دیکھنے کے بعد اس نے پہچان لیا کہ وہ زلیخا ہے لیکن وہ دیر تک پریشانی کی حالت میں کھڑا یہی محسوس کرتا رہا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے۔ رفتہ رفتہ وہم غلط ثابت ہونے لگا اور اس نے چند بار آنکھیں ملنے اور جسم ٹٹولنے کے بعد یقین کر لیا کہ یہ خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔

’’نعیم نے سوال کیا۔’’تم کون ہوں ؟ کیا یہ ایک خواب نہیں ؟‘‘

زلیخا نے جواب دیا۔’’نہیں یہ خواب نہیں۔ آپ گر کیوں پڑے تھے؟‘‘

’’کب؟‘‘

’’ابھی جب میں نے آ کر آپ کو آواز دی تھی۔ آپ گھبرا کر اٹھے اور پھر گر پڑے تھے۔‘‘

’’اف! میں ایک خواب دیکھ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اندھا ہو چکا ہوں۔ عذرا مجھے بلا رہی ہے اور میں اس کی طرف جاتے ہوئے کسی سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا ہوں۔ لیکن آپ یہاں ؟‘‘

زلیخا نے کہا۔’’آپ آہستہ بولیں۔ اگر چہ اس وقت وہ سب سو رہے ہیں لیکن پھر بھی اگر کسی کے کان میں آپ کی آواز پہنچ گئی تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ میں نے پہریداروں کو اپنا سارا زیور دے کر بڑی مشکل سے اس کوٹھڑی کا دروازہ کھلوایا ہے۔ انہوں نے ہمارے لیے دو گھوڑے مہیا کرنے اور قلعہ کا دروازہ کھول دینے کا وعدہ کیا ہے۔ آپ اٹھیں اور میرے ساتھ احتیاط سے چلیں !‘‘

’’دو گھوڑے! وہ کس لیے؟‘‘

’’میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔‘‘

’’میرے ساتھ؟‘‘ نعیم نے حیرانی سے پوچھا۔

’’ہاں آپ کے ساتھ۔ مجھے امید ہے کہ آپ میر حفاظت کریں گے۔ میرے والدین کا گھر دمشق میں ہے۔ آپ مجھے وہاں تک پہنچا دیں گے۔‘‘

’’آپ اس قلعہ میں کیونکر آئیں ؟‘‘

زلیخا نے کہا ’’باتوں کا وقت نہیں۔ میں بھی آپ کی طرح ایک بد نصیب ہوں۔‘‘

نعیم نے ذرا تامل سے کہا۔’’اس وقت آپ کا میرے ساتھ جانا مناسب نہیں۔ آپ تسلی رکھیں۔ میں آپ کو چند دن کے اندر اس شخص کے ہاتھوں سے چھڑا لے جاؤں گا۔‘‘

’’نہیں نہیں۔ خدا کے لیے مجھے مایوس نہ کرو!‘‘ زلیخا نے روتے ہوئے کہا۔‘‘ میں آپ کے ساتھ جاؤں گی۔ آپ کے بعد اگر اسے معلوم ہو گیا کہ آپ کو آزاد کرانے میں میرا ہاتھ ہے تو وہ مجھے قتل کیے بغیر نہ چھوڑے گا اور اگر اسے نہ بھی معلوم ہوا تو بھی وہ آپ کے جاتے ہی آپ کی طرف سے خوف زدہ ہو کر اس قلعے کو چھوڑ کر کسی اور جگہ روپوش ہو جائے گا اور مجھے کسی ایسے پنجرے میں قید کرے گا جس تک پہنچنا آپ کی طاقت سے بعید ہو گا۔ آپ کو معلوم نہیں کہ یہ شخص میری شادی زبردستی اسحاق سے کرنا چاہتا ہے اور اس نے اس کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ محمدؒ بن قاسم کو قتل کر آئے تو مجھے اس کے حوالے کر دے گا۔ خدا کے لیے مجھے اس ظالم بھیڑے کے ہاتھوں سے بچائیے!‘‘ اس نے یہ کہہ کر نعیم کا دامن پکڑ لیا اور سسکیاں لینے لگی۔

’’آپ گھوڑے پر سواری کر سکیں گی؟‘‘ نعیم نے پوچھا۔

زلیخا نے پر امید ہو کر جواب دیا۔ میں اس ظالم کے ساتھ گھوڑے پر قریباً نصف دنیا کا چکر لگا چکی ہوں۔ اب آپ وقت ضائع نہ کریں۔ میں نے آپ کے ہتھیار بھی قلعے سے باہر بھجوا دیے ہیں۔ اب جلدی کیجئے!‘‘

نعیم زلیخا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے کوٹھڑی کے دروازے کی طرف بڑھا تو اسے باہر کسی کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے رک کر کہا۔ ’’کوئی اس طرفا رہا ہے!‘‘

زلیخا نے کہا۔’’اس کوٹھڑی کے دونوں پہرے دار میں نے قلعے کے دروازے پر بھیج دیے ہیں۔ یہ کوئی اور ہے۔ اب کیا ہو گا؟‘‘

نعیم نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر ایک دیوار کی طرف دھکیل دیا اور خود دروازے سے باہر جھانکنے لگا۔ پاؤں کی آہٹ کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو رہی تھیں۔

ایک پہرے دار دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا دروازے کے قریب پہنچا تو ایک ثانیہ کے لیے مبہوت سے ہو کر رہ گیا۔ اس کے ساتھ ہی نعیم نے ایک جست لگائی اور پہرے دار کی گردن اس کے ہاتھوں کی آہنی گرفت میں تھی۔ نعیم نے اسے چند جھٹکے دینے کے بعد  بیہوشی کی حالت میں کوٹھڑی کے اندر دھکیل دیا اور زلیخا کو ہاتھ سے پکڑ کر باہر نکالنے کے بعد دروازہ بند کر دیا۔

قلعہ کے دروازہ پر ایک سپاہی اور نظر آیا۔اس نے زلیخا کو دیکھ کر دروازہ کھول دیا۔ دوسرا سپاہی قلعہ کے باہر دو گھوڑے اور نعیم کے ہتھیار لیے کھڑا تھا۔ نعیم نے ہتھیار باندھ دے اور زلیخا کو ایک گھوڑے پر سوار کر کے خود دوسرے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ لیکن چند قدم چلنے کے بعد اس نے گھوڑے کی باگ موڑ لی اور پہرے دار سے جو ابھی تک وہیں کھڑا تھا، سوال کیا۔‘‘ تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ ہماری وجہ سے تمہاری جان خطرہ میں نہیں پڑے گی؟‘‘

پہرے دار نے جواب دیا۔ ’’آپ ہماری فکر نہ کریں، وہ دیکھیے! ‘‘ اس نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم بھی پو پھٹنے سے پہلے یہاں سے کوسوں دور ہوں گے، اس بھیڑیے سے بہت تنگ آ چکے ہیں۔‘‘ نعیم نے دیکھا کہ ایک درخت کے ساتھ دو اور گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔

نعیم پہاڑیوں کے ان دشوار گزار راستوں سے واقف نہیں تھا لیکن ستاروں سے سمت کا انداز لگاتا ہوا زلیخا کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ چند کوس گھنے درختوں سے گزرنے کے بعد ایک وسیع میدان نظر آیا۔ اس نے کوئی مہینوں کے بعد کھلی ہوا میں آسمان کے جگمگاتے ہوئے ستاروں کو دیکھا تھا۔ اس سناٹے میں کبھی کبھی گیدڑوں کی آواز آتی تھی۔ چاند کی دلفریب روشنی درختوں کے پتوں میں چھپ چھپ کر چمکنے والے جگنو، ہلکی ہلکی ٹھنڈی اور مہکتی ہوئی ہوا۔ غرض اس رات کی ہر چیز نعیم کو معمول سے زیادہ خوشنما نظر آتی تھی۔ کچھ دیر بعد صبح کی روشنی رات کی ردائے سیاہ کو چاک کرنے لگی اور تاریکی اور روشنی کی آمیزش نے نعیم کی آنکھوں کے سامنے ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف میدان کا ایک دھندلا سا منظر پیش کیا۔ اس نے زلیخا کی طرف دیکھا، اس کی شکل و صورت اس دھندلے سے منظر کی جاذبیت میں اضافہ کر رہی تھی۔ وہ نعیم کو قدرت کے مناظر کا ایک جزو معلوم ہوتی تھی۔ زلیخا نے بھی اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور حیا سے گردن جھکا لی۔ نعیم نے اس سے پوچھا کہ وہ ابن صادق کے پنجے میں کیوں آئی؟ اس کے جواب میں زلیخا نے شروع سے آخر تک اپنی المناک داستان کہہ سنائی۔ اپنی کہانی ختم کرنے سے پہلے وہ کئی بار بے اختیار رو پڑی۔ نعیم نے اسے بار بار تسلی دے کر اس کے آنسو خشک کیے۔

جب روشنی اور زیادہ ہوئی تو انہوں نے گھوڑوں کی کی رفتار تیز کر دی۔ نعیم نے یہ دیکھ کر زلیخا کی سواری میں اچھی خاصی دسترس رکھتی ہے، اپنے گھوڑے کو سرپٹ چھوڑ دیا۔ کوئی دو کوس چلنے کے بعد نعیم کو یک لخت ایک خیال آیا اور اس نے اپنا گھوڑا روک لیا۔ زلیخا نے بھی اس کی تقلید میں اپنا گھوڑا کھڑا کر دیا۔ نعیم نے زلیخا سے پوچھا۔’’آپ کو یقین ہے کہ اسحاق محمدؒ بن قاسم کو قتل کرنے کے ارادے سے روانہ ہو چکا ہے؟‘‘ زلیخا نے جواب دیا۔’’ہاں وہ آج شام کے وقت روانہ ہو گیا تھا۔‘‘

تو وہ زیادہ دور نہیں گیا ہو گا۔‘‘یہ کہہ کر نعیم نے گھوڑے کی باگیں بائیں طرف موڑیں اور ایڑ لگا دی۔ زلیخا نے بھی کچھ پوچھ بغیر اپنا گھوڑا اس کے پیچھے چھوڑ دیا۔

سورج نکلنے سے کچھ دیر بعد نعیم ایک چوکی پر پہنچا۔اس چوکی پر پہاڑی حملوں کے پیش نظر تیس سپاہی متعین تھے۔ نعیم گھوڑے سے اترا اور ایک بوڑھا سپاہی ’’نعیم نعیم‘‘ کہتا ہوا آگے بڑھا اور اسے گلے لگا لیا۔ سپاہی نعیم کی بستی کے قریب ہی ایک بستی کا رہنے والا تھا۔ اس نے جوش مسرت سے نعیم کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا۔’’الحمد للہ آپ سلامت ہیں۔ آپ اتنی دیر کہاں رہے ہیں ؟ ہم نے آپ کو دنیا کے ہر کونے میں تلاش کیا۔ آپ کا بھائی بھی آپ کی تلاش میں سندھ گیا تھا۔ آپ کے دوست محمدؒ بن قاسم نے بھی آپ کا پتہ لگانے والے کے لیے پانچ ہزار اشرفی انعام مقرر کیا ہے۔

نعیم نے جواب دیا۔ ’’ان سوالات کا جواب دینے کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ بس اس وقت بہت جلدی میں ہوں۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آج رات یا صبح کے وقت ایک جسیم آدمی ادھر سے گزارا ہے یا نہیں ؟‘‘

سپاہی نے جواب دیا۔ ’’ہاں ! سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے ایک آدمی یہاں سے گزرا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ خلیفة المسلمین نے اسے دمشق سے  ایک خاص پیغام دے کر محمدؒ بن قاسم کی طرف سندھ روانہ کیا ہے۔اس نے یہاں سے گھوڑا بھی تبدیل کیا تھا۔‘‘

’’اس کا رنگ گندمی تھا۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔

’’بہت اچھا۔‘‘ نعیم نے کہا۔’’تم میں سے ایک آدمی سیدھا شمال کی طرف جائے چند کوس دور ایک پہاڑی پر درختوں میں چھپا ہوا ایک قلعہ نظر آئے۔ تم میں سے ہر جو شخص جائے وہاں قریب جا کر دیکھے کہ اس قلعہ کے رہنے والے اسے چھوڑ کر چلے تو نہیں گئے؟ میرا خیال ہے کہ تمہارے جانے سے پہلے وہ قلعہ چھوڑ کر بھاگ گئے ہوں گے لیکن مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کس طرح جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے ایک ہوشیار آدم کی ضرورت ہے؟‘‘

ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا۔’’میں جاتا ہوں۔‘‘

نعیم نے کہا ’’ہاں جاؤ۔ اگر وہ تمہارے جانے سے پہلے قلعہ چھوڑ کر چلے گئے ہوں تو واپسا جانا، ورنہ ان کی نقل و حرکت کا خیال رکھنا۔‘‘

نوجوان گھوڑے پر سوار ہو کر چل دیا۔

نعیم نے باقی سپاہیوں میں سے بیس نوجوان منتخب کر کے انہیں حکم دیا کہ ’’تم اس معزز خاتون کے ساتھ بصرہ تک جاؤ اور وہاں پہنچ کر گورنر کو میری طرف سے کہو کہ انہیں عزت اور احترام سے دمشق تک پہنچایا جائے اور راستے میں آنے والی چوکیوں سے جتنے سپاہی فراہم ہو سکیں، اپنے ساتھ شامل کرتے جاؤ۔شاید ایک ذلیل دشمن ان کا تعاقب کرے۔ والی بصرہ سے کہنا کہ وہاں سے کم از کم سو سپاہی ان کے ساتھ ضرور روانہ کرے۔ تم بھی ہوشیار رہنا۔ اگر ان کے دشمن سے مقابلے کی نوبت آئے تو تمہارا سب سے پہلا فرض ان کی جان بچانا ہو گا۔ راستہ میں انہیں کوئی تکلیف نہ ہو!‘‘ سپاہی یہ سن کر گھوڑوں پر زین ڈالنے میں مصروف ہو گئے۔ نعیم نے گھوڑے سے اتر کر ایک خط حجاج بن یوسف کے نام لکھا اور اپنے لیے زلیخا کی قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے نہایت عزت و احترام سے دمشق پہنچا دینے کی درخواست کی۔ یہ خط ایک سپاہی کے حوالے کرنے کے بعد وہ زلیخا کے قریب آ کھڑا ہوا۔ زلیخا ابھی تک گھوڑے پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔ نعیم نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔’’ آپ مغموم نظر آتی ہیں۔ فکر نہ کریں۔ میں نے آپ کی حفاظت کا پورا بندوبست کیا ہے۔ آپ کو راستہ میں کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ میں بھی آپ کے ساتھ بصرہ تک جاتا، لیکن میں مجبور ہوں۔‘‘

’’آپ کہاں جائیں گے؟‘‘ زلیخا نے پوچھا۔

’’مجھے ایک دوست کی جان بچانا ہے۔‘‘

’’آپ اسحاق کے تعاقب میں جا رہے ہیں ؟‘‘

’’ہاں۔ امید ہے میں اسے بہت جلد پکڑ لوں گا۔‘‘

زلیخا نے پرنم آنکھوں سے رومال کو چھپاتے ہوئے کہا۔’’آپ احتیاط سے کام لیں، وہ بہادر بھی ہے اور مکار بھی۔‘‘

’’آپ فکر نہ کریں۔ آپ کے ساتھی تیار ہو گئے ہیں اور مجھے بھی دیر ہو رہی ہے۔ اچھا خدا حافظ!‘‘

نعیم چلنے کو تیار تھا۔ زلیخا نے اشک آلود آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مغموم آواز میں کہا۔’’ میں ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’ہاں پوچھیے!‘‘

زلیخا کوشش کے باوجود کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی سیاہ آنکھوں سے چمکتے ہوئے آنسوؤں کے قطرے نکل کر گالوں پر بہتے ہوئے گر پڑے!‘‘

زلیخا کوشش کے باوجود بھی کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی سیاہ آنکھوں سے چمکتے ہوئے آنسوؤں کے قطرے نکل کر گالوں پر بہتے ہوئے گر پڑے۔‘‘

’’پوچھیے!‘‘ نعیم نے کہا۔’’آپ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتی تھیں۔ میں آپ کے آنسوؤں کی قدر و قیمت جانتا ہوں لیکن آپ میری مجبوریوں سے واقف نہیں۔‘‘

  ’’میں جانتی ہوں۔‘‘ زلیخا نے گھٹی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

’’ہاں مجھے دیر ہو رہی ہے۔ آپ کیا پوچھنا چاہتی تھیں ؟‘‘

زلیخا نے کہا۔’’میں آپ سے پوچھنا چاہتی تھی کہ جب میں نے قید خانہ میں آپ کو آواز دی تھی تو آپ عذرا عذرا کہتے ہوئے اٹھے تھے اور پھر گر پڑے تھے۔‘‘

’’ہاں مجھے یاد ہے۔‘‘ نعیم نے کہا۔

’’میں پوچھ سکتی ہوں وہ خوش نصیب کون ہے؟‘‘ زلیخا نے جھجکتے ہوئے سوال کیا:

’’آپ غلطی پر ہیں۔ شاید وہ اس قدر خوش نصیب نہ ہو۔‘‘

’’وہ زندہ؟‘‘

’’شاید۔‘‘

’’خدا کرے کہ وہ زندہ ہو۔ وہ کہاں ہے؟ اگر وہ میرے راستے سے بہت دور نہ ہو تو میں چاہتی ہوں کہ میں اسے دیکھتی جاؤں۔ کیا آپ میری درخواست قبول کریں گے؟‘‘

’’آپ واقعی وہاں جانا چاہتی ہیں ؟‘‘

’’اگر آپ کو نا گوار نہ ہو تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘

’’بہت اچھا۔ یہ سپاہی آپ کو ہمارے گھر تک پہنچا دیں گے۔ میرے آنے تک آپ وہیں ٹھہریں گی۔ اگر کسی وجہ سے دیر نہ ہو گئی تو ممکن ہے کہ میں آپ کو راستے میں ہی آملوں۔‘‘

’’وہ آپ کی والدہ کے پاس ہیں ؟ آپ کی شادی ہو چکی ہے؟‘‘

’’نہیں، لیکن اس کی پرورش ہمارے گھر میں ہوئی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر نعیم سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں حکم دیا کہ وہ زلیخا کو بصرہ پہنچانے کی بجائے اس کے گھر تک پہنچا دیں۔

نعیم خدا حافظ کہہ کر جانے کو تھا کہ زلیخا کی ملتجی نگاہوں نے اسے ایک بار پھر ٹھہرا لیا۔

زلیخا نے آنکھیں نیچی کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ سے ایک خنجر نعیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:

’’آپ کے ہتھیاروں میں سے یہ خنجر میں نے نیک شگون سمجھ کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ شاید آپ کو اس کی ضرورت ہو۔‘‘ اگر آپ اسے نیک شگون خیال کرتی ہیں تو میں خوشی سے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ آپ اسے اپنے پاس ہمیشہ رکھیں !‘‘

شکریہ! میں اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گی۔ شاید کبھی یہ میرے کام آئے۔ نعیم اس وقت تو اس فقرے پر توجہ دیے بغیر گھوڑے پر سوار ہو گیا لیکن بعد میں یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے رہے۔

زلیخا کو اس مختصر سے قافلے کے ساتھ بھیج کر نعیم اسحاق کے تعاقب میں روانہ ہوا۔ وہ ہر چوکی پر گھوڑا بدلتا ہوا اور اسحاق کا سراغ لگاتا ہوا نہایت تیزی سے جا رہا تھا۔ دوپہر کے وقت ایک سوار آگے جاتا دکھائی دیا۔ نعیم نے اپنے گھوڑے کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز کر دی۔ آگے جانے والے سوار نے دور سے مڑ کر نعیم کی طرف دیکھا تو اس نے اپنے گھوڑے کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ پیچھے آنے والے سوار کا گھوڑا نہایت تیزی سےا رہا ہے تو اس نے کسی خیال سے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کر دی۔ نعیم نے خاصی دور سے ہی پہچان لیا کہ وہ اسحاق ہے۔ اس نے اپنے خود کو نیچے سرکا کر چہرہ ڈھانپ لیا۔نعیم نے دور سے ہی پہچان لیا کہ وہ اسحاق ہے۔

  اس نے اپنے خود کو نیچے سرکا کر چہرہ ڈھانپ لیا۔ نعیم کو قریب آتا دیکھ کر اسحاق راستے چند قدم ہٹ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ نعیم نے بھی اس کے قریب پہنچ کر گھوڑا ٹھہرا لیا۔ دونوں سوار ایک لمحہ کے لیے ایک دوسرے کے سامنے خاموش کھڑے رہے۔ بالآخر اسحاق نے سوال کیا:

’’آپ کون ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ ہے؟

’’یہی سوال میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں !‘‘ نعیم نے کہا۔

نعیم کے لہجے میں سختی سے اسحاق قدرے پریشان ہوا لیکن فوراً ہی اپنی پریشان پر قابو پاتے ہوئے بولا۔’’آپ نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے ایک اور سوال کر دیا۔‘‘

نعیم نے کہا ’’میری طرف غور سے دیکھو! تمہیں دونوں سوالوں کا جواب مل جائے گا۔‘‘

یہ کہہ کہ نعیم نے ایک ہاتھ اپنے چہرے کا نقاب الٹ دیا۔

’’تم .... نعیم؟‘‘ اسحاق کے منہ سے بے اختیار نکلا۔

’’ہاں میں .... نعیم نے خود دوبارہ نیچے سرکاتے ہوئے کہا۔

اسحاق نے اپنی سراسیمگی پر قابو پا کر اچانک گھوڑے کی باگیں اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ سنبھال کر تیار ہو چکا تھا۔دونوں ایک دوسرے کے حملے کا انتظار کر رہے تھے۔ اچانک اسحاق نے نیزہ بلند کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ اسحاق کے گھوڑے کی ایک ہی جست میں نعیم اس کی زد میں آ چکا تھا۔ لیکن وہ برق کی سی پھرتی سے ایک جھگا اور اسحاق کا نیزہ اس کی ران پر ایک ہلکا سا زخم لگاتا ہوا آگے نکل گیا۔ نعیم نے فوراً اپنا گھوڑا موڑ کر اسے پیچھے لگا دیا۔ اتنی دیر میں اسحاق اپنے گھوڑے کو چھوٹا سا چکر دے کر پھر ایک بار نعیم کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ دونوں سوار بیک وقت اپنے اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگا کر نیزے سنبھالتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ نعیم نے پھر ایک بار اپنے آپ کو اسحاق کے وار سے بچایا لیکن اس دفعہ نعیم کا نیزہ اسحاق کے سینے آر پار چکا تھا۔ اسحاق کو خاک و خون میں تڑپتا چھوڑ کر نعیم واپس مڑا۔ اگلی چوکی پر ظہر کی نماز ادا کی گھوڑا تبدیل کیا اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آگے چل دیا۔ جب نعیم اس چوکی پر پہنچا جہاں سے وہ زلیخا کو رخصت کر کے اسحاق کے تعاقب میں روانہ ہوا تھا تو وہاں اسے معلوم ہوا کہ ابن صادق اور اسکی جماعت قلعے کو خالی چھوڑ کر کہیں جا چکے ہیں۔ نعیم نے ان کا تعاقب کرنا بے سود خیال کیا۔ ابھی شام ہونے میں کچھ دیر تھی۔ نعیم نے ایک سپاہی کو کاغذ، قلم لانے کا حکم دیا اور ایک خط محمدؒ بن قاسم کے نام لکھا اور اس خط میں اس نے سندھ سے رخصت ہو کر ابن صادق کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے حالات مختصر طور پر لکھے اور اسے ابن صادق کی سازشوں سے باخبر رہنے کی تاکید کی اور دوسرا خط اس نے حجاج بن یوسف کے نام لکھا اور اسے ابن صادق کی گرفتاری کے لیے فوری تدابیر عمل میں لانے کی تاکید کی۔ نعیم نے یہ خط چوکی والوں کے سپرد کیے اور انہیں بہت جلد پہنچا دینے کی تاکید کر کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔

نعیم کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ابن صادق شاید زلیخا کا تعاقب کرے۔ وہ ہر چوکی سے اس مختصر قافلے کے متعلق پوچھتا جاتا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ دوسری چوکیوں پر سپاہیوں کی قلت کی وجہ سے زلیخا کے ساتھ دس سے زیادہ سپاہی نہیں جا سکے۔ نعیم زلیخا کی حفاظت کے خیال سے فوراً اس قافلے میں شامل ہو جانا چاہتا تھا اور گھوڑے کو تیز سے تیز رفتار چلا رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کائنات پر سیمیں تاروں کا جال بچھا رہا تھا۔ نعیم پہاڑوں اور میدانوں سے گزر کر ایک صحرائی خطہ عبور کر رہا تھا۔ راستے میں ایک عجیب و غریب منظر دیکھ کر اس کے خون کا ہر قطرہ منجمد ہو گیا۔ ریت پر چند گھوڑوں اور انسانوں کی لاشیں پر پڑی ہوئی تھیں۔ ان میں بعض ابھی تک تڑپ رہے تھے۔ نعیم نے گھوڑے سے اتر کر دیکھا تو معلوم ہوا ان میں سے بعض وہ تھے جنہیں اس نے زلیخا کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ اس وقت نعیم کے دل میں سب سے پہلا خیال زلیخا کا تھا۔ اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ ایک زخمی نوجوان نے نعیم سے پانی مانگا۔ نعیم نے جلدی سے گھوڑے پر سے چھاگل کھول کو پانی پلایا۔

  وہ اپنے دھڑکتے دل کو ایک ہاتھ سے دبائے کچھ پوچھنے کو تھا کہ زخمی نے ایک طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا:

’’ہمیں افسوس ہے کہ ہم اپنا فرض پورا نہ کر سکے۔ ہم آپ کے حکم کے مطابق اپنی جانیں بچانے کی بجائے ان کی حفاظت کے لیے آخر دم تک لڑتے رہے لیکن وہ بہت زیادہ تھے۔ آپ ان خبر لیں !‘‘

یہ کہہ کر اس نے پھر اپنے ہاتھ سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نعیم جلدی سے اس طرف بڑھا۔ چند لاشوں کے درمیان زلیخا کو دیکھ کر اس کا دل کانپنے لگا۔ کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ وہ مجاہد جو آج تک نازک سے نازک صورت حال کا مقابلہ نہایت خندہ پیشانی سے کرنے کا عادی تھا۔ یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر کانپ اٹھا۔

’’زلیخا! زلیخا! تم....!‘‘

زلیخا میں ابھی کچھ سانس باقی تھے۔ ’’آپا گئے؟‘‘ اس نے نحیف آواز میں کہا۔

نعیم نے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ سے زلیخا کے سر کو سہارا دے کر اوپر کیا اور پانی پلایا۔ زلیخا کے سینے میں ایک خنجر پیوست تھا۔ نعیم نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے اس کا دستہ پکڑا اور اسے کھینچ کر باہر نکالنا چاہا لیکن زلیخا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور کہا۔’’اب اسے نکالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اپنا کام کر چکا ہے اور میں آخری وقت آپ کی اس نشانی سے جدا نہیں ہو نا چاہتی۔‘‘

نعیم نے حیران ہو کر کہا۔’’میری نشانی!‘‘

’’ہاں ! یہ خنجر آپ کا ہے۔ ظالم چچا مجھے گرفتار کر کے لے جانا چاہتا تھا۔ میں ایسی زندگی سے مر جانا بہتر خیال کرتی تھی۔ میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ کا دیا ہوا خنجر میرے کام آیا۔‘‘

’’زلیخا! زلیخا! تم نے خود کشی کر لی؟‘‘

میں ہر روز کی روحانی موت کی بجائے ایک دن کی جسمانی موت کو بہتر خیال کرتی تھی۔ خدا کے لیے آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ آخر میں کیا کر سکتی تھی؟ اپنی بگڑی ہوئی تقدیر کو بنا لینا میرے اختیار میں نہ تھا اور اس آخری مایوسی کو میں جیتے جی برداشت نہ کر سکتی تھی۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’زلیخا! میں بے حد شرمسار ہوں لیکن میں مجبور تھا۔‘‘

زلیخا نے نعیم کے چہرے پر ایک محبت بھری نگاہ ڈالی اور کہا ’’آپ افسوس نہ کریں، قدرت کو یہی منظور تھا اور قدرت سے میں اس سے زیادہ توقع بھی نہیں رکھتی تھی۔ میری خوش بختی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ آخری وقت میں آپ مجھے سہارا دیے ہوئے ہیں۔‘‘ زلیخا نے یہ کہہ کر ضعف اور درد کی شدت سے آنکھیں بند کر لیں۔ نعیم نے اس خیال سے کہ یہ ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھ نہ گیا ہو۔ بیتابی کے ساتھ ’’زلیخا زلیخا!‘‘ کہہ کر اس کا سر ہلایا۔ زلیخا نے آنکھیں کھول کر نعیم کی طرف دیکھا اور اپنے خشک گلے پر ہاتھ رکھ کر پانی مانگا۔ نعیم نے پانی پلایا۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہے۔ اس خاموشی میں نعیم کے دل کی دھڑکن تیز اور زلیخا کے دل کی حرکت کم ہو رہی تھی۔ وہ مرجھائی ہوئی نگاہیں اس کے چہرے پر نثار کر رہی تھی اور وہ بے قرار نگاہوں سے اس کے سینے میں چبھے ہوئے خنجر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بالآخر زلیخا نے ایک سسکی لے کر نعیم کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا۔’’میں آپ کے گھر جا کر اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ میری یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ آپ وہاں جا کر اسے میرا سلام کہیں۔‘‘ یہاں تک کہ زلیخا خاموش ہو گئی اور پھر کچھ سوچنے کے بعد بولی:’’ اب میں ایک لمبے سفر پر جا رہی ہوں اور آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جہاں میرا جاننے والا کوئی نہ ہو گا، جہاں شاید میرے والدین بھی مجھے پہچان نہ سکیں کیونکہ میں بہت چھوٹی تھی جب کہ میرا ظالم چچا مجھے اٹھا لایا تھا، میں یہ توقع رکھ سکتی ہوں کہ آپ اس دنیا میں مجھے ایک بار ضرور ملیں گے؟آخر وہاں کوئی تو ہو جسے میں اپنا کہہ سکوں۔ میں آپ کو اپنا سمجھتی ہوں لیکن آپ مجھ سے نزدیک بھی ہیں اور دور بھی۔‘‘

’’زلیخا کے یہ الفاظ نعیم کے دل میں اتر گئے۔ اس کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ اس نے کہا ’’زلیخا! اگر تم مجھے اپنا بنانا چاہتی ہو تو اسکا ایک ہی طریقہ ہے۔‘‘

  زلیخا کا ملول چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ مایوسی کی تاریکی میں مرجھائے ہوئے پھول میں امید کی روشنی کے تصور نے تر و تازگی پیدا کر دی۔ اس نے بے قرار ہو کر پوچھا:

’’بتائیے وہ کونسا ہے راستہ ہے؟‘‘

’’زلیخا ! میرے آقا کی غلامی قبول کر لو۔ پھر تم میں اور مجھ میں کوئی فاصلہ نہیں رہے گا۔‘‘

’’میں تیار ہوں آپ کا آقا مجھے اپنی غلامی میں لے لے گا؟‘‘

’’ہاں وہ بہت رحیم ہے۔‘‘

’’لیکن میں تو چند لمحات کے لیے زندہ ہوں۔‘‘

’’اس بات کے لیے طویل مدت کی ضرورت نہیں۔ زلیخا کہو!‘‘

’’کیا کہو؟‘‘ زلیخا نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔

نعیم نے کلمہ شہادت پڑھا اور زلیخا نے اس کے الفاظ دہرائے۔ زلیخا نے ایک بار پھر پانی مانگا اور پینے کے بعد کہا۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے دل سے ایک بوجھ اتر چکا ہے۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’یہاں سے چند کوس کے فاصلے پر ایک چوکی ہے۔ اگر تم گھوڑے پر سوار ہو سکتیں تو میں تمہیں وہاں لے جاتا۔ چونکہ اس حالت میں تمہارا گھوڑے پر بیٹھنا نا ممکن ہے تم تھوڑی دیر کے لیے مجھے اجازت دو۔ میں بہت جلد وہاں سے سپاہی بلا لاتا ہوں شاید وہ آس پاس کی بستی سے کوئی طبیب ڈھونڈ لائیں۔‘‘

نعیم زلیخا کا سر زمین پر رکھ کر اٹھنے کو تھا لیکن اس نے اپنے کمزور ہاتھوں سے نعیم کا دامن پکڑ لیا اور روتے ہوئے کہا۔’’خدا کے لیے آپ کہیں نہ جائیں۔ آپ واپسا کر مجھے زندہ نہ پائیں گے۔ میں مرتے وقت آپ کے ہاتھوں کے سہارے سے محروم نہیں ہو نا چاہتی۔‘‘

نعیم زلیخا کی اس دردمندانہ درخواست کو رد نہ کر سکا۔ وہ پھر اسی طرح بیٹھ گیا۔ زلیخا نے اطمینان سے آنکھیں بند کر لیں اور دیر تک بے حس و حرکت پڑی رہی۔ وہ کبھی کبھی آنکھیں کھول کر نعیم کو دیکھ لیتی۔ رات کے تین پہر گزر چکے تھے۔ صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے، زلیخا کی طاقت جواب دے چکی تھی۔ اس کے تمام اعضا ڈھیلے پڑنے لگے اور سانس اکھڑ اکھڑ کر آنے لگا۔

’’زلیخا! نعیم نے بے قرار ہو کر پکارا۔

زلیخا نے آخری بار آنکھیں کھولیں اور ایک لمبا سانس لینے کے بعد دائمی نیند کی آغوش میں سو گئی۔ نعیم نے ’’انا للہ و اناا لیہ راجعون‘‘ کہہ کر سر جھکا دیا۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہ نکلے اور زلیخا کے چہرے پر گر پڑے۔ زلیخا کی بے زبانی یہ کہہ رہی تھی:

’’اے مقدس ہستی! میرے تیرے آنسوؤں کی قیمت ادا کر چکی ہوں۔‘‘

نعیم اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور قریب کی چوکی پر پہنچ کر چند سپاہیوں کو ساتھ لیے آیا۔ قرب و جوار کی چند بستیوں کے کچھ لوگ بھی جمع ہو گئے۔ نعیم نے نماز جنازہ پڑھائی اور زلیخا اور اس کے ساتھیوں کو سپرد خاک کرنے کے بعد گھر کی طرف کوچ کیا۔

اجنبی

نعیم ایک وسیع صحرا عبور کر رہا تھا۔ وہ زلیخا کی موت کا غم، ۔ سفر کی کلفتوں اور طرح طرح کی پریشانیوں سے نڈھال سا ہو کر آہستہ آہستہ منزل مقصود کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس ویرانے میں کبھی کبھی بھیڑیوں اور گیدڑوں کی آوازیں سنائی دیتیں لیکن پھر خاموشی اپنا رنگ جما لیتی۔ تھوڑی دیر بعد افق مشرق سے چاند نمودار ہوا۔ تاریکی کا طلسم ٹوٹنے لگا اور ستاروں کی چمک ماند پڑنے لگی۔ بڑھتی ہوئی روشنی میں نعیم کو دور دور کے ٹیلے، جھاڑیاں اور درخت نظر آنے لگے۔ وہ منزل مقصود کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اسے اپنی بستی کے گرد و نواح کے نخلستانوں کی خفیف سی جھلک نظر آ رہی تھی۔ وہ بستی جو اس کے رنگین خوابوں کا مرکز تھی اور جس کے ہر ذرے کے ساتھ اس کے دل کے ٹکڑے پیوست ہو چکے تھے۔ وہ بستی اب اس قدر قریب تھی کہ وہ گھوڑے کو ایک بار سرپٹ چھوڑ کر وہاں پہنچ سکتا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے تصورات بار بار اس مقام سے کوسوں دور زلیخا کی آخری گھر کے آخری گھر کی طرف لے جا رہے تھے۔ زلیخا کی موت کا دردناک منظر بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے پھر رہا تھا۔ اس کے آخری الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس دردناک کہانی کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جائے لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ ساری کائنات مظلومیت کے اس شاہکار کی آہوں اور آنسوؤں سے لبریز ہے۔ گھر کے متعلق بھی اسے ہزاروں توہمات پریشان کر رہے تھے۔ وہ اپنی زندگی کے امیدوں کے مرکز کی طرف جا رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک نوجوان کا سا ذوق و شوق اور ولولہ نام کو نہ تھا۔ وہ اپنی گذشتہ زندگی میں گھوڑے پر اس طرح ڈھیلا ہو کر کبھی نہیں بیٹھا تھا۔ وہ خیالات ہجوم میں میں دبا جا رہا تھا کہ اچانک اسے بستی کی طرف سے چند آوازیں سنا ئی دیں۔ وہ چوکنا ہو کر سننے لگا۔ بستی کی لڑکیاں دف بجا کر گا رہی تھیں۔ یہ عرب کے وہ سیدھے سادے راگ تھے جو اکثر شادی کے موقع پر گائے جاتے تھے۔ نعیم کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ وہ چاہتا تھا کہ اڑ کر گھر پہنچ جائے لیکن تھوڑی دور اور چلنے کے بعد اس کے اٹھتے ہوئے ولولے سرد ہو کر رہے گئے۔ وہ اس گھر کی چار دیواری کے قریب پہنچ چکا تھا جہاں سے گانے کی آواز آ رہی تھی.... اور یہ اس کا اپنا گھر تھا۔ کھلے دروازے کے سامنے پہنچ کراس نے گھوڑا روکا لیکن کسی خیال نے اسے آگے بڑھنے سے روک لیا۔صحن کے اندر مشعلیں روشن تھیں اور بستی کے لوگ کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ چند عورتیں مکان کی چھت پر جمع تھیں۔ عبد اللہ مہمانوں کی آؤ بھگت میں مشغول تھا۔ وہ دل میں مہمانوں کے اکٹھے ہونے کی وجہ سوچنے لگا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ شاید خدا عذرا کی قسمت کا فیصلہ کر چکا ہے اور اس خیال کے آتے ہی اسے اپنے گھر کی جنت اپنی آرزوؤں کا مدفن نظر آنے لگی۔ اس نے نیچے اتر کر گھوڑے کو دروازے سے چند قدم دور ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا اور سائے میں کھڑا ہو گیا۔

بستی کا ایک لڑکا گھر سے بھاگ کر باہر نکلا۔ نعیم نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیا اور پوچھا۔’’یہ کیسی دعوت ہے؟‘‘

لڑکے نے سہم کر نعیم کی طرف دیکھا لیکن ایک تو درخت کا سایہ تھا اور دوسرے نعیم کا نصف چہرہ خود میں چھپا ہوا تھا، وہ پہچان نہ سکا۔

اس نے جواب دیا۔’’یہاں شادی ہے۔‘‘

’’کس کی؟‘‘

’’عبد اللہ کی شادی ہو رہی ہے۔ آپ شاید اجنبی ہیں۔چلیے آپ بھی دعوت میں شریک ہو جائیں !‘‘۔

لڑکا یہ کہہ کر بھاگنے کو تھا کہ نعیم نے پھر اسے بازو سے پکڑ کر ٹھہرا لیا۔

لڑکے نے پریشان ہو کر کہا ’’مجھے چھوڑیے میں قاضی کو بلانے جا رہا ہوں۔‘‘

اگرچہ نعیم کا دل اس سوال کا جواب دے چکا تھا لیکن محبت نے ناکامی اور مایوسی کا آخری منظر دیکھنے کے باوجود امید کا سہارا نہ چھوڑا اور اس نے کانپتی ہوئی آوا زمیں پوچھا:

’’عبد اللہ کی شادی کس کے ساتھ ہونے والی ہے؟‘‘

’’عذرا کے ساتھ۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔

’’عبد اللہ کی والدہ کیسی ہیں ؟‘‘ نعیم نے اپنے خشک گلے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔

’’عبد اللہ کی والدہ! انہیں تو فوت ہوئے بھی تین چار مہینے ہو گئے۔‘‘ یہ کہہ کر لڑکا بھاگ گیا۔

نعیم درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ ’’امی ! امی!‘‘ کہہ کر چند سسکیاں لیں۔

آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک دریا امڈ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے وہی لڑکا اور قاضی اندر جاتے ہوئے دکھائی دیے۔ دل میں دو مختلف آرزوئیں پیدا ہوئیں۔ ایک یہ تھی کہ اب بھی تیری تقدیر تیرے ہاتھ میں ہے۔ اگر چاہے تو عذرا تجھ سے دور نہیں۔ اگر عبد اللہ کو تیرے زندہ واپس آنے کا حال معلوم ہو جائے تو وہ تیرے دل کی اجڑی ہوئی بستی کو آباد کرنے کے لیے اپنی زندگی کی تمام راحتیں بخوشی قربان کر دے گا۔ ابھی وقت ہے۔‘‘

دوسری آواز یہ تھی کہ ’’اب تیرے ایثار اور صبر کا امتحان ہے۔ عذرا کے ساتھ تیرے بھائی کی محبت کم نہیں اور قدرت کو یہی منظور ہے کہ عذرا اور عبد اللہ اکٹھے رہیں۔ جاں نثار بھائی تجھ پر اپنی خوشی قربان کرنے کے لیے تیار ہو گا۔ لیکن یہ زیادتی ہو گی۔ اب اگر تو نے عبد اللہ سے قربانی کا مطالبہ کیا تو تو تیرا ضمیر کبھی مطمئن نہیں ہو گا۔ وہ تجھے سندھ تک تلاش کرتا پھرا اور اب شاید تیرے زندہ واپس آنے سے مایوس ہو کر عذرا سے شادی کر رہا ہے، تو بہادر ہے، مجاہد ہے، ضبط سے کام لے۔ عذرا کی فکر مت کر۔ وقت آہستہ آہستہ اس کے دل سے تیرا نقش مٹا دے گا، آخر تجھ میں کونسی ایسی خوبی ہے جو عبد اللہ میں نہیں ؟‘‘

ضمیر کی دوسری آواز نعیم کو کسی حد تک بھلی معلوم ہوئی۔ اس نے محسوس کیا کہ ایک ناقابل برداشت بوجھ اس کے دل سے اتر رہا ہے۔ چند لمحات میں نعیم کی دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔

جس وقت گھر میں عبد اللہ اور عذرا کا نکاح پڑھایا جا رہا ہے۔ نعیم گھر سے باہر درخت کے نیچے سر بسجود یہ دعا مانگ رہا تھا:

’’اے کائنات کے مالک اس شادی میں برکت دے۔ عذرا اور عبد اللہ تمام عمر خوش خرم رہیں اور ایک دوسرے پر دل و جان سے نثار رہیں۔ اے مالک حقیقی! میرے حصے کی تمام خوشی انکو عطا کر دے!‘‘

نعیم بہت دیر تک سر بسجود پڑا رہا۔ اٹھا تو معلوم ہوا کہ گھر کے تمام مہمان جا چکے ہیں۔ جی میں آئی کہ بھائی کو مبارکباد دے لیکن اور خیال آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔ اس نے سوچا۔ بے شک بھائی مجھے دیکھ کر خوش ہو گا لیکن شاید اسے ندامت بھی ہو، اور عذرا پر تو یہ بھی ظاہر نہیں ہونا چاہیے کہ میں زندہ ہوں۔ وہ صبر و قرار جو عذرا نے میری واپسی سے مایوس ہو کر حاصل کیا ہو گا جاتا رہے گا۔ اگر انہوں نے یہ سمجھ کر شادی کی ہے کہ میں مر چکا ہوں تو ان کی تمام زندگی بے کیف ہو جائے گا۔ وہ مجھے دیکھ کر نادم ہوں گے۔ عذرا کے پرانے زخم تازہ ہو جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ میں ان سے دور رہوں اور اپنی سیاہ بختی میں انہیں حصہ دار نہ بناؤں۔ ضمیر نے ان خیالات کی تائید کی۔ ایک لمحہ کے اندر اندر مجاہد کے خیال نے عزم اور عزم نے یقین کی صورت اختیار کر لی۔ نعیم نے واپس مڑنے سے پہلے چند قدم گھر کی طرف اٹھائے اور پھاٹک کے قریب ہو کر اپنی امیدوں کے   آخری مدفن کی طرف حسرت بھری نگاہیں ڈالیں۔ وہ واپس ہونے کو تھا کہ صحن میں کسی کے پاؤں کی آہٹ نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ عبد اللہ اور عذرا یک کمرے سے نکلے اور صحن میں آ کھڑے ہوئے اس نے چاہا کہ منہ پھیر لے لیکن یہ دیکھ کر عبد اللہ اب شادی کے لباس کی بجائے زرہ بکتر پہنے ہوئے ہے اور عذرا اس کی کمر میں تلوار باندھ رہی ہے۔ وہ قدرے حیران ہوا اور دروازے کی آڑ میں کھڑا ہو گیا۔ اس نے فوراً تاڑ لیا کہ عبد اللہ جہاد پر رخصت ہو رہا ہے۔ نعیم زیادہ حیران بھی نہ ہوا۔ اسے اپنے بھائی سے یہی توقع تھی۔

عبداللہ ہتھیار پہن کر اصطبل کی طرف گیا اور وہاں سے گھوڑا ساتھ لیے پھر عذرا کے پاسا کھڑا ہوا۔

’’عذرا! تم غمگین تو نہیں ؟‘‘ عبد اللہ نے اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔

’’نہیں۔‘‘ عذرا نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ میں تو چاہتی ہوں کہ میں بھی اسی طرح زرہ پہن کر میدان میں جاؤں۔‘‘

’’عذرا! میں جانتا ہوں کہ تم بہادر ہو لیکن آج میں تمہیں سارا دن دیکھتا رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے دل پر ابھی تک ایک بوجھ ہے جسے تم مجھ سے چھپا نا چاہتی ہو، لیکن میں جانتا ہوں، نعیم کوئی بھول جانے والی ہستی نہیں۔ عذرا! ہم سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو ضرور واپس آتا۔ یہ خیال نہ کرنا کہ وہ مجھے کم عزیز تھا۔ اگر آج بھی میری جان تک کی قربانی اسے واپس لا سکے تو میں خوشی سے جان پر کھیل جاؤں گا۔ کاش تم سوچو کہ تمہاری طرح میں بھی اس دنیا میں اکیلا ہوں۔ والدہ اور نعیم کے داغ مفارقت دے جانے کے بعد میرا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں۔ ہم اگر کوشش کریں تو ایک  دوسرے کو خوش رکھ سکتے ہیں۔‘‘

عذرا نے جواب دیا۔’’میں کوشش کروں گی۔‘‘

’’میرے متعلق زیادہ فکر نہ کرنا کیونکہ اب سپین میں مجھے کسی خطرناک مہم پر نہیں جانا پڑے گا۔ وہ ملک قریباً فتح ہو چکا ہے۔ چند علاقے باقی ہیں اور ان میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔میں بہت جلد آؤں گا اور تمہیں بھی ساتھ لے جاؤں گا۔ مجھے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ لگیں گے۔‘‘

عبداللہ خدا حافظ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ نعیم اسے باہر نکلتے دیکھ کر دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر ایک کھجور کی آڑ میں کھڑا ہو گیا۔دروازے سے باہر نکل کر عبد اللہ نے ایک بار عذرا کو مڑ کر دیکھا اور پھر گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔

صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔عبد اللہ گھوڑا بھگائے جا رہا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے ایک اور گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنی۔ مڑ کر دیکھا کہ ایک سوار اسے سے زیادہ تیزی کے ساتھا رہا ہے۔ عبد اللہ گھوڑا روک کر اپنے پیچھے آنے والے سوار کو غور سے دیکھنے لگا۔ پیچھے آنے والا سوار اپنا چہرہ خود میں چھپائے ہوئے تھا۔ عبداللہ کو اس کے متعلق تشویش ہوئی اور اس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکنا چاہا۔ لیکن اس نے عبد اللہ کے اشارے کی کوئی پرواہ نہ کی۔ اور بدستور گھوڑا دوڑاتا آگے نکل گیا۔ عبد اللہ کو اور بھی تشویش ہوئی اور اس نے اپنا گھوڑا اس کے تعاقب میں چھوڑ دیا۔ عبد اللہ کا گھوڑا تازہ دم تھا۔ اس لیے دوسرا شخص جو بظاہر ایک شہسوار معلوم ہوتا تھا عبداللہ نے اس کے قریب پہنچ کر اپنا نیزہ بلند کیا اور کہا:

’’اگر تم دوست ہو تو ٹھہرو۔ اگر دشمن ہو تو مقابلے کے لیے تیار ہو جاؤ!‘‘

دوسرے سوار نے اپنا گھوڑا روک لیا۔

’’مجھے معاف کیجئے گا ‘‘ عبد اللہ نے کہا ’’میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کون ہیں ؟ میرا ایک بھائی بالکل آپ کی طرح گھوڑے پر بیٹھا کرتا تھا اور گھوڑے کی باگ بھی بالکل آپ کی طرح پکڑا کرتا تھا۔ اس کا قدو قامت بھی بالکل آپ جیسا تھا۔ میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں ؟‘‘

سوار خاموش رہا۔

’’آپ بولنا نہیں چاہتے؟.... میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کا نام کیا ہے؟ .... آپ نہیں بتائیں گے؟‘‘

سوار پھر خاموش رہا۔

  ’’میں آپ کی شکل دیکھ سکتا ہوں ؟ سنتے نہیں آپ؟‘‘

سوار اس پر بھی خاموش رہا۔

’’معاف کیجئے گا اگر کسی صدمہ کی وجہ سے بولنا نہیں چاہتے تو آپ کو کم از کم اپنی شکل دکھانے میں تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کسی ملک کے جاسوس ہیں تو بھی میں آپ کو دیکھے بغیر آگے نہ جانے دوں گا۔‘‘ عبد اللہ نے یہ کہہ کر اپنا گھوڑا اجنبی کے گھوڑے کے قریب کیا اور اچانک نیزے کی نوک سے اجنبی کا خود اتار دیا۔ اجنبی کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی عبد اللہ نے بے اختیار ایک ہلکی سی چیخ کے ساتھ نعیم! نعیم کہا۔ نعیم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

دونوں بھائی گھوڑوں سے اتر کر ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئے۔

’’بہت بیوقوف ہو تم! ‘‘ عبد اللہ نے نعیم کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔‘‘ کم بخت اتنی خود داری؟ اور یہ خود داری بھی تو نہ تھی۔ تم نے تھوڑی بہت عقل سے کام لیا ہوتا اور یہ سوچا ہوتا کہ گھر میں والدہ انتظار کر رہی ہوں گی۔ تمہارا بھائی تمہیں دنیا بھر میں تلاش کرتا پھرتا ہو گا اور عذرا بھی ہر روز بستی کے اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑ کر تمہاری راہ دیکھتی ہو گی لیکن تم نے کسی کی پرواہ نہ کی۔ خدا جانے کہاں روپوش رہے نعیم! تم نے یہ کیا کیا؟‘‘

نعیم کو ئی جواب دینے کی بجائے بھائی کے سامنے خاموش کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں اس کے دل کی کیفیت کی آئینہ دار تھیں۔ عبد اللہ اس کی خاموشی سے متاثر ہوا۔ نعیم کو ایک بار پھر سینے سے لگا لیا اور کہا ’’تم بولتے نہیں۔ تم مجھ سے اتنے ہی متنفر تھے کہ منہ چھپا کر میرے قریب سے گزر گئے۔ نعیم! خدا کے لیے کچھ منہ سے بولو! تم کہاں سے آئے اور کدھر جا رہے ہو؟ میں نے سندھ جا کر تمہاری تلاش کی لیکن وہاں بھی تمہارا پتہ نہ چلا۔ تم گھر کیوں نہ پہنچے؟

نعیم نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا۔’’ بھائی خدا کو میرا گھر پہنچنا منظور نہ تھا۔‘‘

’’آخر تم رہے کہاں ؟‘‘ عبد اللہ نے پوچھا۔

نعیم نے اس کے جواب میں اپنی سرگزشت مختصر طور پر بیان کی لیکن اس میں اس نے زلیخا کا تذکرہ نہ کیا اور نہ ہی بتایا کہ وہ گذشتہ رات گھرکی چاردیواری کے باہر کھڑا تھا۔ جب نعیم نے اپنی سرگزشت ختم کی تو دونوں بھائی دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔

عبد اللہ نے پوچھا۔ ’’تم قید سے رہا ہونے کے بعد گھر کیوں نہ آئے؟‘‘

نعیم کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے پھر خاموشی اختیار کر لی۔

’’اب گھر جانے کی بجائے کہاں جا رہے ہو؟‘‘ عبد اللہ نے سوال کیا۔

’’بھائی میں ابن صادق کو گرفتار کرنے کے لیے بصرہ سے کچھ سپاہی لینے جا رہا ہوں۔‘‘

عبد اللہ نے کہا۔ ’’میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اور امید ہے کہ تم جھوٹ نہ بولے گے۔‘‘

’’پوچھیے!‘‘

’’تم یہ بتاؤ کہ قید سے رہا ہونے کے بعد تمہیں کس نے بتایا تھا کہ عذرا کی شادی ہونے والی ہے؟‘‘

نعیم نے نفی میں سر ہلا دیا۔

’’ اب تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ عذرا کی شادی میرے ساتھ ہو چکی ہے؟‘‘

’’ہاں ! میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔‘‘

’’تم بستی سے ہو کر آئے ہو؟‘‘ عبد اللہ نے پوچھا۔

’’ہاں۔‘‘ نعیم نے جواب دیا۔

  ’’گھر گئے تھے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’کیوں ؟....اس خیال سے کہ میں نے تم پر ظلم کیا ہے؟‘‘

نعیم بولا:

’’آپ کا خیال غلط ہے۔ میں اس لیے گھر نہیں گیا کہ میں آپ پر اور عذرا پر ظلم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے گھر آنے کے متعلق مایوس ہو چکے تھے اور آپ نے محسوس کیا کہ عذرا دنیا میں اکیلی ہے اور اسے آپ کی ضرورت ہے۔ گھر جا کر پھر ایک بار پرانے زخموں کو تازہ کر کے عذرا کی زندگی کو تلخ نہیں بنانا چاہتا تھا۔ فطرت کے اشارات مجھ پر کئی بار ظاہر کر چکے تھے کہ عذرا میرے لیے نہیں۔ تقدیر آپ کو اس امانت کا محافظ منتخب کر چکی ہے میں تقدیر کے خلاف جنگ نہیں کر نا چاہتا تھا۔ بھائی میں خوش ہوں، بیحد خوش ہوں کیونکہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ عذرا آپ کو اور آپ عذرا کو خوش رکھ سکیں گے اور آپ دونوں کی خوشی سے زیادہ مجھے کسی چیز کی تمنا نہیں۔ آپ مجھ پر اور عذرا پر ایک احسان کریں اور وہ یہ ہے کہ آپ عذرا کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آنے دیں کہ میں زندہ ہوں۔ آپ اسے یہ نہ بتائیں کہ میں آپ کو ملا تھا۔‘‘

’’نعیم تم مجھ سے کیا چھپانا چاہتے ہو؟ یہ کوئی ایسا معمہ نہیں جسے میں نہ سمجھ سکوں۔ تمہاری آنکھیں تمہاری شکل و صورت اور تمہارا لہجہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ تم ایک زبردست بوجھ کے نیچے دبے جا رہے ہو۔ عذرا نے میرا دل رکھنے کے لیے قربانی دی ہے اور وہ بھی اس خیال سے کہ شاید....!‘‘

’’کہ شاید میں مر چکا ہوں ‘‘ نعیم نے کہا۔

’’اف نعیم مجھے شرمسار نہ کر۔ میں نے تمہیں بہت تلاش کیا....!‘‘

’’خدا کو یہی منظور تھا۔‘‘ نعیم نے عبد اللہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

’’نعیم! نعیم تم یہ خیال کرتے ہو کہ میں .... ‘‘ عبد اللہ آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ بھائی کے سامنے ایک بے گناہ مجرم کی طرح کھڑا تھا۔

نعیم نے کہا۔’’بھائی ! تم ایک معمولی بات کو اس قدر اہمیت کیوں دے رہے ہو؟‘‘

عبد اللہ نے جواب دیا۔’’کاش یہ ایک معمولی بات ہوتی۔ نعیم یہ والدہ کی وصیت تھی کہ عذرا کو اکیلی نہ چھوڑنا۔ لیکن وہ تمہیں بھولی نہیں۔ وہ تمہاری ہے۔ میں تمہاری اور عذرا کی خوشی کے لیے اسے طلاق دے دوں گا۔ تم دونوں کے اجڑے ہوئے گھر کو بسا کر جو اطمینان مجھے حاصل ہو گا، وہ میں ہی جانتا ہوں۔‘‘

’’بھائی خدا کے لیے ایسا نہ ہو۔ ایسا کرنے سے ہم تینوں کی زندگی تلخ ہو جائے گی۔ میں خود اپنی نظروں میں پست ہو جاؤں گا۔ ہمیں اب تقدیر پر شاکر رہنا چاہیے۔‘‘

’’لیکن میرا ضمیر مجھے کیا کہے گا؟‘‘

نعیم نے اپنے چہرے پر ایک تسلی آمیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:

’’آپ کی شادی میں میری مرضی بھی شامل تھی۔‘‘

’’تمہاری مرضی! وہ کیسے؟‘‘‘

’’گذشتہ رات میں وہیں تھا۔‘‘

’’کس وقت؟‘‘

’’آپ کے نکاح سے کچھ دیر پہلے میں نے مکان سے باہر ٹھہر کر تمام حالات معلوم کر لیے تھے۔‘‘

  ’’تم گھرکیوں نہ آئے۔‘‘

نعیم خاموش رہا۔

’’اس لیے کہ تم خود غرض بھائی کا منہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے؟‘‘

’’نہیں۔ واللہ اس لیے نہیں بلکہ میں اپنے بے غرض بھائی کے سامنے اپنی خود غرضی کا اظہار کرنا کم ظرفی سمجھتا تھا۔ آپ کا سکھلایا ہوا ایک سبق میرے دل پر نقش تھا۔‘‘

’’میرا سبق؟‘‘

’’ہاں۔ مجھے آپ یہ سبق دے چکے تھے کہ وہ انس جو ایثار کے جذبے سے خالی ہو، محبت کہلانے کا مستحق نہیں۔‘‘

میں حیران ہوں کہ تمہاری طبیعت میں یہ انقلاب کیونکر آگیا۔ سچ بتاؤ کہ تمہارے دل سے عذرا کی جگہ کسی اور کے تصور نے تو نہیں چھین لی۔ اگر چہ مجھے یہ شبہ نہیں لیکن عذرا شروع شروع میں والدہ سے ایسے شکوک ظاہر کیا کرتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جہاد کے لیے ایک غیر معمولی جذبہ تمہیں سندھ کی طرف لے اڑا تھا لیکن پھر بھی کبھی کبھی یہ شک ہوتا تھا کہ تم جان بوجھ کر شاید شادی سے پہلو تہی کرنا چاہتے تھے۔ اگر تمہارے گھر نہ آنے کی وجہ یہ تھی تو بھی تم نے اچھا نہیں کیا!‘‘

نعیم خاموش رہا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا جواب دے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بچپن کا وہ واقعہ پھر رہا تھا جب وہ عذرا کو پانی میں لے کودا تھا او ر عبداللہ نے کی خاطر ایک نا کردہ خطا کا بوجھ اپنے سر لے کر اسے سزا سے بچایا تھا۔ وہ بھی ایک نہ کیے ہوئے جرم کا اقرار کر کے بھائی کو ایک گونہ اطمینان دلا سکتا تھا۔

نعیم کی خاموشی سے عبداللہ کے شکوک اور پختہ ہو گئے۔ اس نے نعیم کا بازو پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا ’’بتاؤ نعیم!‘‘

نعیم نے چونک کر عبد اللہ کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ مسکرایا اور کہا:

’’ہاں بھائی! میں اپنے دل میں کسی اور کو جگہ دے چکا ہوں۔‘‘

عبد اللہ نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔’’اب مجھے بتاؤ کہ تم اس سے شادی کر چکے ہو یا نہیں ؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’اس معاملے میں کوئی مشکل حائل ہے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

شادی کب کرو گے؟‘‘

’’عنقریب۔‘‘

’’گھر کب جاؤ گے؟‘‘

’’ابن صادق کی گرفتاری کے بعد۔‘‘

’’اچھا میں زیادہ نہیں پوچھتا۔ اگر مجھے بہت جلد اندلس پہنچ جانے کا حکم نہ ہوتا تو میں تمہاری شادی دیکھ کر جاتا۔ واپس آنے تک یہ توقع رکھوں گا کہ تم ابن صادق کو گرفتار کرنے کے بعد گھر پہنچ جاؤ گے؟‘‘

’’انشاء اللہ!‘‘

دونوں بھائی ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ نعیم بظاہر عبداللہ کی تشفی کر چکا تھا لیکن اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ عبد اللہ کے مزید سوالات سے گھبراتا تھا۔ وہ تمام راستہ بھائی سے اندلس کے حالات کے متعلق سوالات کرتا رہا۔

  کوئی دو کوس فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک چوراہے سے ان دونوں کے راستے جدا ہوتے تھے۔ اس چوراہے کے قریب پہنچ کر نعیم نے مصافحہ کرنے کی نیت سے اپنا ہاتھ عبداللہ کی طرف بڑھا دیا اور اجازت طلب کی۔

عبد اللہ نے نعیم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا۔’’ نعیم تم نے جو کچھ مجھ سے کہا ہے سچ ہے یا میرا دل رکھنے کی باتیں تھیں ؟‘‘

’’آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ؟‘‘

’’مجھے تم پر اعتبار ہے۔‘‘

’’اچھا خدا حافظ!‘‘ عبداللہ نے نعیم کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ نعیم نے ایک لمحہ تامل کے بغیر گھوڑے کی باگ موڑ لی اور سرپٹ دوڑا دیا۔جب تک اس کے گھوڑے کی آخری جھلک نظر آتی رہی، عبد اللہ وہیں کھڑا اس کی باتوں پر غور کرتا رہا اور جب وہ نظروں سے غائب ہو گیا تو اس نے ہاتھ پھیلا کر دعا کی:’’ اے جزا و سزا کے مالک! اگر تجھے یہی منظور تھا کہ عذرا میری رفیق حیات بنے تو مجھے تیری تقدیر سے شکایت نہیں۔ اے مولی! جو کچھ نعیم نے کہا ہے وہ سچ ہو۔ اگر اس کی باتیں سچی نہ بھی تھیں تو بھی انہیں سچا کر دکھا۔ اسے چاہنے والی ایسی ہو کہ عذرا کو بھول جائے۔ اے رحیم! اس کے دل کی اجڑی ہوئی بستی کو ایک بار پھر آباد کر دے۔ اگر میری کوئی نیکی تیری رحمت کی حق دار ہے تو اس کے عوض نعیم کو دنیا اور آخرت میں مالا مال کر دے!‘‘

نعیم کے بصرہ پہنچنے سے پہلے ہی ابن صادق کو گرفتار کرنے کی کوشش ہو رہی تھی لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا تھا۔ نعیم نے والی بصرہ سے ملاقات کی۔ اپنی سرگزشت سنائی اور واپس سندھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔

والی بصرہ نے نعیم کے زندہ واپسا جانے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ ’’سندھ کی فتح کے لیے اب صرف محمدؒ بن قاسم کافی ہے۔ وہ ایک طوفان کی طرح راجوں اور مہاراجوں کی ٹڈی دل افواج کو روندتا ہوا سندھ کے طول و عرض میں اسلامی جھنڈے نصب کر رہا ہے۔ اب ترکستان کے وسیع ملک کی پوری تسخیر کے لیے جانباز سپاہیوں کی ضرورت ہے۔ قتیبہ نے بخارا پر حملہ کیا ہے لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ کوفہ اور بصرہ سے مزید افواج جا رہی ہیں۔ پرسوں اس جگہ سے پانچ سو سپاہی روانہ ہوئے ہیں، اگر آپ کوشش کریں تو انہیں راستے میں مل سکتے ہیں، اس میں شک نہیں کہ سندھ میں محمدؒ بن قاسم آپ کا دوست ہے لیکن قتیبہ بن مسلم جیسا جرنیل بھی مردم شناسی کے جوہر سے خالی نہیں۔ وہ آپ کی بہت قدر کرے گا۔ میں اس کے نام خط لکھ دیتا ہوں۔‘‘

نعیم نے بے پروائی سے جواب دیا۔’’ میں جہاد پر اس لیے نہیں جا رہا کہ کوئی میری قدر کرے میرا مقصد خدا کا کم بجا لانا ہے۔ میں آج ہی یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔ آپ ابن صادق کا خیال رکھیں۔ اس کا وجود اس دنیا کے لیے بہت خطرناک ہے۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔ میں اس کا خاتمہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا، دربار خلافت سے اس کی گرفتاری کے احکام جاری ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کی طرف سے آپ بھی ہوشیار رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ترکستان کی طرف ہی بھاگ گیا ہو!‘‘

نعیم بصرہ سے رخصت ہوا۔ وہ زندگی کے غیر معمولی حادثات سے دوچار ہو چکا تھا لیکن مجاہد کے گھوڑے کی رفتار وہی تھی اور شوقِ شہادت بھی وہی تھا۔

فاتح

محمدؒ بن قاسم کے سندھ پر حملہ آور ہونے سے کچھ عرصہ پہلے قتیبہ بن مسلم باہلی نے دریائے جیحوں کو عبور کے ترکستان کی بعض ریاستوں پر حملہ کیا اور چند فتوحات کے بعد کچھ فوج اور سامان کی قلت اور کچھ جاڑے کی شدت کی وجہ سے مرو میں واپسا کر قیام کیا۔ گرمیوں کا موسم آنے پر اس نے پھر اپنی مختصر فوج کے ساتھ دریائے جیحوں کو عبور کیا اور چند اور علاقے فتح کر لیے۔

قتیبہ بن مسلم ہر سال گرمیوں کے موسم میں ترکستان کا کچھ حصہ فتح کر لیتا اور سردیوں میں واپس مروا جاتا۔ ۷۸ھ میں اس نے ترکستان کے ایک مشہور شہر بیکند پر حملہ کیا۔ اہل ترکستان ہزاروں کی تعداد میں شہر کی حفاظت کے لیے آ جمع ہوئے۔ قتیبہ نے فوج اور سامان کی قلت کے باوجود اطمینان اور استقلال سے شہر کا محاصرہ جاری رکھا۔ دو ماہ کے بعد شہر والوں کے حوصلے ٹوٹ گئے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔

بیکند کی فتح کے بعد قتیبہ نے باقاعدہ ترکستان کی تسخیر شروع کر دی۔ ۸۸ھ میں سند کے لشکر جرار کے ساتھ ایک خونریز جنگ ہوئی۔ اس لڑائی میں فتح حاصل کر کے بعد قتیبہ ترکستان کی چند اور ریاستوں کو فتح کرتا ہوا بخارا کی چار دیواری تک جا پہنچا۔ سردیوں کے موسم میں بے سر و سامان فوج زیادہ دیر تک محاصرہ جاری نہ رکھ سکی۔ قتیبہ ناکام لوٹنے پر مجبور ہوا مگر ہمت نہ ہاری اور چند مہینوں کے بعد پھر بخارا کا محاصرہ کر لیا۔ اس محاصرہ کے دوران میں نعیم بصرہ کے پانچ سو سواروں کے ہمراہ قتیبہ کی فوج میں شامل ہو چکا تھا اور چند دنوں میں بہادر اور جہاندیدہ جرنیل کا بے تکلف دوست بن چکا تھا۔

بخارا کے محاصرے کے دوران قتیبہ کو سخت مشکلات پیش آئیں۔ سب سے بڑی تکلیف یہ تھی کہ وہ مرکز سے بہت دور تھا۔ ضرورت کے وقت رسد اور فوجی امداد کا بروقت پہنچنا آسان نہ تھا۔ شاہ بخارا کی حمایت کے لیے ترکوں اور سغدیوں کی بے شمار فوجیں اکٹھی ہو گئیں۔ مسلمان شہر کی فصیل پر منجیق کے ذریعے پتھر پھینک رہے تھے اور آخری حملہ کرنے کو تیار تھے کہ عقب سے ترکوں کا ایک لشکر جرار آتا دکھائی دیا۔ مسلمان شہر کا خیال چھوڑ کر لشکر کی طرف متوجہ ہوئے اور ابھی پاؤں جمانے نہیں پائے تھے کہ شہر والوں نے شہر پناہ سے باہر نکل کر حملہ کر دیا۔ مسلمان دو فوجوں کے نرغے میں آ گئے۔ایک طرف سے بیرونی حملہ آور سر پر پہنچ چکے تھے اور دوسری طرف شہر کی فوجیں تیر برسا رہی تھیں۔ مسلمانوں کے لشکر میں بھگڈر مچ گئی۔ جب ان کے پاؤں اکھڑنے لگے تو عرب عورتوں نے انہیں بھاگنے سے روکا۔ غیرت دلائی اور مسلمان پر جان توڑ کر لڑنے لگے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ ترک دونوں طرف قلب لشکر تک چڑھ آئے اور قریب تھا کہ حرم تک بھی پہنچ جائیں مگر شجاعان عرب آج بھی اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو زندہ کر رہے تھے۔ ان کا اٹھ اٹھ کر گرنا اور گر گر کر اٹھنا قادسیہ اور یرموک کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اس طوفان پر غالب آنے کے لیے قتیبہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ فوج کا کچھ حصہ میدان سے کھسک جائے اور دوسری طرف سے شہر پناہ عبور کر کے شہر کے اندر داخل ہو جائے لیکن راستے میں گہری ندی حائل تھی جو شہر پناہ کی حفاظت کے لیے خندق کا کام دیتی تھی۔ قتیبہ ابھی تک اس تجویز پر غور کر رہا تھا کہ نعیم گھوڑے کو ایڑ لگا کر اس کے قریب آیا۔ اس نے بھی یہی مشورہ دیا۔

قتیبہ نے کہا۔’’میں پہلے ہی اس تجویز پر غور کر رہا ہوں لیکن کون ہے جو اس قربانی کے لیے تیار ہے؟‘‘

’’میں جاتا ہوں !‘‘ نعیم نے جواب دیا۔ ’’مجھے چند سپاہی دیجئے!‘‘

قتیبہ نے ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا: وہ کون جانباز ہے جو اس نوجوان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے؟‘‘

اس سوال پر دقیع اور حریم دو تمیمی سرداروں نے ہاتھ بلند کیے۔ ان کے ساتھ ان کی جماعت کے آٹھ سو سرفروش شامل ہو گئے۔ نعیم ان جانفروشوں کے گروہ کے ساتھ غنیم کے لشکر کی صفوں سے اپنا راستہ صاف کرتا ہوا میدان سے باہر نکلا اور ایک لمبا چکر کاٹ کر شہر کی شمال مغربی جانب جا پہنچا۔ اس کے دائیں بائیں تمیمی سوار تھے۔ شہر کی فصیل اور ان کے درمیان خندق نما ندی حائل تھی۔ نعیم اور اس کے ساتھی تمیمی سردار ایک لمحہ کے لیے ندی کے کنارے کھڑے رہے۔ اس کی چوڑائی اور گہرائی کا جائزہ لیا۔ گھوڑوں سے اترے اور ’’اللہ  اکبر‘‘ کہہ کر پانی میں کود پڑے۔ فصیل کے اندر ایک بہت بڑا درخت تھا جس کا ایک تنا فصیل کے اوپر سے ہوتا ہوا خندق کی طرف جھکا ہوا تھا۔نعیم نے دوسرے کنارے پر پہنچ کر اس تنے پر کمند ڈالی اور درخت پر چڑھ کر فصیل کے اوپر جا پہنچا اور وہاں سے رسی کی سیڑھی پھینک دی۔ دقیع اور حریم اس سیڑھی کے سہارے فصیل پر پہنچے اور چند اور سیڑھیاں پھینک دیں۔ اس طرح ندی کے دوسرے کنارے مجاہدین باری باری خندق عبور کر کے فصیل پر چڑھنے لگے۔ قریباً سو آدمی فصیل پر چڑھے تھے کہ نعیم کو خلاف توقع شہر کے اندر پانچ سو سپاہیوں کا ایک دستہ گشت لگاتا دکھائی دیا۔ نعیم نے ۵۰ سپاہیوں کو وہیں رہنے دیا اور ۰۵ کو اپنے ساتھ لے کر شہر کی طرف اترا اور ایک وسیع بازار میں پہنچ کر ان کے مقابلے کے لیے کھڑے ہو گیا اور ایک ساعت تک انہیں روکے رکھا۔ اتنے میں مسلمانوں کی بیشتر فوج فصیل عبور کر کے شہر کے اندر داخل ہو گئی اکور ترک سپاہیوں کو ہتھیار ڈال دینے کے سوا اور کوئی بچاؤ کی صورت نظر نہ آئی۔ نعیم نے اپنے چند ساتھیوں کو شہر کے تمام دروازوں پر قبضہ کر لینے کا حکم دیا اور جا بجا اسلامی پرچم نصب کرا دیے اور خود باقی سپاہیوں کے ساتھ شہر کے بڑے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہاں چند پہرے داروں کو موت کے گھاٹ اتار کر خندق کا پل اوپر اٹھا دیا۔ترک افواج شہر پر مسلمانوں کے قبضہ سے بے خبر تھیں اور فتح کی امید میں جان توڑ کر لڑ رہی تھیں۔ نعیم نے مسلمان مجاہدوں کو فصیل پر چڑھ کر ترکوں پر تیر برسانے کا حکم دیا۔ شہر کی طرف سے تیروں کی بارش نے ترکوں کو بد حواس کر دیا۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شہر پر مسلمان تیر انداز اور اسلامی پرچم لہراتے ہوئے نظر آئے۔

ادھر قتیبہ نے یہ منظر دیکھ کر سخت حملے کا حکم دیا۔ ترکوں کی اب وہی حالت تھی جو کچھ دیر پہلے مسلمانوں کی تھی۔ شکست کھانے کی صورت میں انہیں شہر کی مضبوط دیواروں کی پناہ کا بھروسہ تھا لیکن اب اس طرح بھی موت کی بھیانک تصویر نظر آتی تھی۔ آگے بڑھنے والوں کے سامنے مسلمانوں کی خارا شگاف تلواریں تھیں اور پیچھے ہٹنے والوں کے دلوں میں ان کے جگر دوز تیروں کا خوف تھا۔ وہ جان بچانے کے لیے دائیں اور بائیں فرار ہونے لگے اور سینکڑوں بدحواسی کے عالم میں خندق میں کود پڑے۔

اس مصیبت کو ختم کر کے مسلمان عقب سے حملہ کرنے والی افواج کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ پہلے ہی شہر پر مسلمانوں کا قبضہ دیکھ کر ہمت ہار چکی تھی۔ مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لا کر ان میں سے اکثر میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور بعض نے ہتھیار ڈال دیے۔

قتیبہ بن مسلم میدان خالی دیکھ کر آگے بڑھا۔ شہر کے دروازے پر پہنچ کر گھوڑے سے اترا اور بارگاہ الٰہی میں سر بسجود ہو گیا۔ نعیم نے اندر سے خندق کا پل ڈال دینے کا حکم دیا اور دقیع اور حریم کو ساتھ لے کر بہادر سپہ سالار کے استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ قتیبہ بن مسلم فرط انبساط سے ان تینوں مجاہدوں کے ساتھ باری باری بغل گیر ہوا۔

زخمیوں کی مرہم پٹی اور شہداء کی تجہیز و تکفین کے بعد مال غنیمت اکٹھا کیا گیا اور اس کا پانچواں حصہ بیت المال میں روانہ کر کے باقی فوج میں تقسیم کیا گیا۔

بخارا کی فتح کے بعد قتیبہ بن مسلم کے ساتھ ساتھ نعیم کے نام کا بھی چرچا ہونے لگا۔ اس کے دل کے پرانے زخم آہستہ آہستہ مٹ چکے تھے اور اس کے بلند منصوبے لطیف خیالات کو شکست دے چکے تھے۔ ان حالات میں اس کے لیے تلوار کی جھنک جنس لطیف کی سہانی راگنی سے زیادہ دلکش ہوتی گئی اور بھائی اور عذرا کی خوشی کا تصور اپنی خوشی سے زیادہ محبوب نظر آنے لگا۔ اس کی دعائیں زیادہ تران ہی کے لیے ہوتیں۔

جب کبھی تھوڑی بہت فرصت ملنے پر اسے سوچنے کا موقع ملتا تو اسے خیال آتا: ’’شاید بھائی نے عذرا کو بتا دیا ہو گا کہ میں زندہ ہوں۔ شاید وہ اس میرے متعلق باتیں کرتے ہوں گے۔ عذرا کو شاید یہ یقین بھی آگیا ہو کہ میں کسی اور پر فدا ہو چکا ہوں۔ وہ مجھے دل میں کوستی ہو گی۔اب تو شاید مجھے بھول بھی گئی ہو۔ ہاں مجھے بھول جانا ہی اچھا ہے!‘‘

ان خیالات کا خاتمہ پر خلوص دعاؤں کے ساتھ ہوتا۔

تین سال اور گزر گئے۔ قتیبہ کی افواج فتح و نصرت کے پرچم اڑاتی ہوئی ترکستان کی چاروں اطراف پھیل رہی تھیں۔ نعیم ایک غیر معمولی شہرت کا مالک بن چکا تھا۔ قتیبہ نے ایک خط دربار خلافت میں لکھتے ہوئے نعیم کے متعلق تحریر کیا ’’میں اس نوجوان پر اپنی فتوحات سے زیادہ ناز کرتا ہوں۔‘‘

۱۹ھ میں ترکستان کے بہت سے ممالک میں بغاوت کی آگ کے شعلے بلند ہوئے، اس آگ کو سلگا کر دور سے تماشا دیکھنے والا وہی ابن صادق تھا جس کی شخصیت سے ہم کئی بار متعارف ہو چکے ہیں۔ ابن صادق کو نعیم کے رہا ہو جانے کے بعد اپنی جان کی فکر دامن گیر ہوئی۔ قلعہ چھوڑ کر بھاگا۔ راستے میں بد نصیب بھتیجی ملی لیکن اس نے چچا کی قید پر موت کو ترجیح دی۔

ابن صادق کو اب اپنی جان کا خطرہ تھا۔ اس نے اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ ترکستان کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر وہ اپنی منتشر جماعت کو منظم کرتا رہا اور کچھ تقویت حاصل کرنے کے بعد ترکستان کے شکست خوردہ شہزادوں کو مسلمانوں کے خلاف منظم کر کے ایک فیصلہ کن جنگ کی ترغیب دینے لگا۔

نزاق نامی ایک شخص ترکستان کے نہایت با اثر افراد میں سے تھا۔ ابن صادق نے اس سے ملاقات کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نزاق پہلے ہی بغاوت پھیلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے ابن صادق جیسے مشیر کی ضرورت تھی۔فطرتاً دونوں ایک ہی جیسے تھے۔ نزاق کو ترکستان کا بادشاہ بننے کی ہوس تھی اور ابن صادق نہ صرف ترکستان بلکہ تمام اسلامی دنیا میں اپنے نام کی شہرت چاہتا تھا۔ نزاق نے وعدہ کیا کہ اگر وہ ترکستان پر قابض ہو گیا تو اسے اپنا وزیر اعظم بنا لے گا اور ابن صادق نے اسے کامیابی کی امید دلائی۔

ترکستان کے باشندے قتیبہ کے نام سے کانپتے تھے اور بغاوت کے نام سے گھبراتے تھے لیکن ابن صادق کی چکنی چپڑی باتیں بے اثر ثابت نہ ہوئیں، وہ جس کے پاس جاتا یہ کہتا۔’’تمہارا ملک تمہارے واسطے ہے۔ کسی غیر کا اس پر کوئی حق نہیں۔ ایک عقل مند کسی غیر کی حکومت گوارا نہیں کر سکتا۔‘‘ ابن صادق اور نزاق کی کوششوں سے ترکستان کے بہت سے سرکردہ شہزادے اور سردار دریائے جیحوں کے کنارے ایک پرانے قلعہ میں اکٹھے ہوئے۔ اس اجتماع میں نزاق نے ایک لمبی چوڑی تقریر کی۔ نزاق کی تقریر کے بعد ایک طویل بحث ہوئی اور اس بحث میں چند عمر رسیدہ سرداروں نے مسلمانوں کی پرامن حکومت کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرنے کی مخالفت کی۔ ابن صادق نے اس موقع کی نزاکت کو محسوس کیا اور نزاق کے کان میں کچھ کہا۔

نزاق اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔’’عزیزان وطن! مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ میں اپنے اسلاف کا خون باقی نہیں۔ اس وقت ہمارا ایک معزز مہمان جسے آپ سے صرف اس لیے ہمدردی ہے کہ آپ غلام ہیں۔ آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ ’’نزاق یہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ ابن صادق نے اٹھ کر تقریر کی۔ اس تقریر میں پہلے تو اس نے مسلمانوں کے خلاف جس قدر نفرت کا اظہار کر سکتا تھا کیا۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ حاکم قوم شروع شروع میں محکوم قوم کو غفلت کی نیند سلانے کے لیے تشدد سے کام نہیں لیکن جب محکوم آرام کی زندگی کے عادی ہو کر بہادری کے جوہر سے محروم ہو جاتے ہیں تو حاکم بھی اپنا طرز عمل بدل لیتے ہیں۔‘‘ ابن صادق نے ترک سرداروں کو متاثر ہوتے دیکھ کر پر جوش آواز میں کہا ’’مسلمانوں کی موجودہ نرمی سے یہ نتیجہ نہ نکالو کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے عنقریب یہ لوگ تم پر ایسے مظالم کے توڑیں گے جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں۔

  آپ حیران ہوں گے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے میں بھی مسلمان تھا لیکن اب یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ ملک گیری کی ہوس میں دنیا بھر کی آزاد قوموں کو غلام بنانے پر تلے ہوئے ہیں میں نے ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ آپ ان لوگوں کو مجھ سے زیادہ نہیں جانتے۔یہ لوگ دولت چاہتے ہیں کہ اور عنقریب تم دیکھو گے کہ تمہارے ملک میں ایک کوڑی تک نہ چھوڑیں گے اور فقط یہی نہیں تم یہ دیکھو گے کہ تمہاری بہو بیٹیاں شام اور عرب کے بازاروں میں فروخت ہوا کریں گی!‘‘ ابن صادق کے ان الفاظ سے متاثر ہو کر تمام سردار ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

ایک بوڑھے سردار نے اٹھ کر کہا۔ ’’ہمیں تمہاری باتوں سے فساد کی بو آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم خود بھی مسلمانوں کی غلامی کو برا خیال کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنے دشمن کے متعلق بھی جھوٹی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہتان ہے کہ مسلمان محکوم قوم کی عزت اور دولت کی حفاظت نہیں کرتے۔ میں نے ایران جا کر دیکھا ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کی حکومت میں اپنی حکومت سے زیادہ خوش ہیں۔ عزیزان وطن! ہمیں نزاق اور اس شخص کی باتوں میں آ کر لوہے کی چٹان کے ساتھ پھر ایک بار ٹکر لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر مجھے اس نئی جنگ کی فتح کی تھوڑی سی بھی امید نظر آتی تو میں سب سے پہلے بغاوت کا جھنڈا بلند کرتا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہم اپنی بہادری کے باوجود اس قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتے جس کے سامنے روما اور ایران جیسی طاقتوں کو سرنگوں ہونا پڑا۔ جس قوم کے عزم کے سامنے دریا اور سمندر سمٹ کر رہ جاتے ہیں اور آسمان سے باتیں کرنے والے پہاڑ سرنگوں ہو جاتے ہوں تم اس قوم پر فتح حاصل کرنے کا خیال بھی دل نہیں لاؤ۔ میں مسلمانوں کی طرفداری نہیں کرتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس بغاوت کا انجام سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ ہماری رہی سہی طاقت بھی ختم ہو جائے۔ ہزاروں بچے یتیم اور ہزاروں عورتیں بیوہ ہو جائیں۔ نزاق قوم کے گلے پر چھری چلا کر اپنی شہرت چاہتا ہے اور اس شخص کو میں نہیں جانتا کہ اس کا مقصد کیا ہے؟‘‘

ابن صادق ایسے اعتراضات کا جواب پہلے ہی سوچ کر آیا تھا۔ اس نے ایک بار سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور تقریر شروع کی۔ وہ اس عمر رسیدہ سردار کے مقابلے میں بہت زیادہ خرانٹ تھا۔ بجائے اس کے وہ اشتعال میں آتا، اس نے چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے اس کے اعتراضات کا جواب دینا شروع کیا۔ اسکی منطق کچھ ایسی تھی کہ بوڑھے سردار کے دلائل لوگوں کو محض واہمہ نظر آنے لگے۔ تمام بڑے سردار اس کے الفاظ کے جادو میں آ گئے اور جلسہ آزادی اور بغاوت کے بلند نعروں پر ختم ہوا۔

قتیبہ بن مسلم کے خیمہ میں رات کے وقت چند شمعیں جل رہی تھیں اور ایک کونے میں آگ سلگ رہی تھی۔ قتیبہ خشک گھاس کے بستر پر بیٹھا ہوا ایک نقشہ دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر گہرے تفکرات کے آثار تھے۔ اس نے نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھا اور وہاں سے اٹھ کر کچھ دیر ٹہلنے کے بعد خیمے کے دروازے میں کھڑا ہو گیا اور برف باری کا منظر دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد چند درختوں کے پیچھے سے ایک سوار نمودار ہوا۔ قتیبہ اسے پہچان کر چند قدم آگے بڑھا۔ سوار قتیبہ کو دیکھ کر گھوڑے سے اترا۔ ایک پہرے دار نے گھوڑا پکڑ لیا۔

’’کیا خبر لائے نعیم؟ ‘‘قتیبہ نے سوال کیا۔

’’نزاق نے ایک لاکھ سے زیادہ فوج اکٹھی کر لی ہے۔ ہمیں بہت جلد تیاری کرنی چاہیے!‘‘

قتیبہ اور نعیم باتیں کرتے ہوئے خیمہ میں داخل ہوئے۔ نعیم نے نقشہ اٹھایا اور قتیبہ کو دکھاتے ہوئے کہا ’’یہ دیکھیے! بلخ سے کوئی پچاس کوس شمال مشرق کی طرف نزاق اپنی فوجیں اکٹھی کر رہا ہے۔ اس مقام کے جنوب کی طرف دریا ہے اور باقی تین اطراف پہاڑ اور گھنے جنگل ہیں۔ برفباری کی وجہ سے راستہ بہت دشوار گزار ہے۔ لیکن ہمیں گرمیوں تک انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ترکوں کے حوصلے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو بے رحمی وہ مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کر رہے ہیں۔ سمرقند میں بھی بغاوت کا خطر ہے !‘‘

قتیبہ نے کہا۔’’ہمیں ایران سے آنے والی فوجوں کا انتظار کرنا چاہیے۔ ان کے پہنچ جانے پر ہم فوراً حملہ کر دیں گے۔‘‘

قتیبہ اور نعیم یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک سپاہی نے خیمے میں آ کر کہا:

  ’’ایک ترک سردار آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘

’’بلاؤ!‘‘ قتیبہ نے کہا۔

سپاہی گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھا سردار خیمے میں داخل ہوا۔ وہ پوستین اوڑھے ہوئے تھا اور اس کے سر پر سمور کی ٹوپی تھی۔ اس نے جھک کر قتیبہ کو سلام کیا اور کہا:

’’شاید آپ مجھے پہچانتے ہوں۔ میرا نام نیزک ہے۔‘‘

’’میں آپ کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ بیٹھے!‘‘

نیزک، قتیبہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ قتیبہ نے آنے کی وجہ دریافت کی۔

نیز کے نے کہا۔ ’’ میں آپ س یہ کہنے کے لیے آیا ہوں کہ آپ ہماری قوم پر سختی نہ کریں۔‘‘

’’سختی؟‘‘ قتیبہ نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مسلمان عورتوں اور بچوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔‘‘

’’لیکن وہ باغی نہیں ہیں۔‘‘ نیزک نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’وہ بے وقوف ہیں۔ اس بغاوت کی تمام ذمہ داری آپ کے ایک مسلمان بھائی پر عاید ہوتی ہے۔‘‘

’’ہمارا بھائی! وہ کون ہے؟‘‘

’’ابن صادق۔‘‘ نیزک نے جواب دیا۔

نعیم جو اسوقت شمع کی روشنی میں نقشہ دیکھ رہا تھا۔ ابن صادق کا نام سن کر چونک پڑا۔’’ابن صادق!‘‘ اسنے نیزک کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔

’’ہاں۔ ابن صادق۔‘‘

’’وہ کون ہے؟‘‘ قتیبہ نے سوال کیا۔

نیزک نے جواب دیا۔’’ میں اس کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ اسے ترکستان آئے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں اور اس نے اپنی جادو بیانی سے ترکستان کے تمام سرکردہ لگوں کو آپ کی حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا ہے۔‘‘

’’میں اس کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں۔‘‘ نعیم نے نقشہ پلٹتے ہوئے کہا۔’’کیا آج کل وہ نزاک کے ساتھ ہے؟‘‘

’’نہیں۔ وہ قوقند کے کے قرب و جوار میں پہاڑی لوگوں کو جمع کر کے نزاق کے لیے ایک فوج تیار کر رہا ہے۔ ممکن ہے وہ حکومت چین سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔‘‘

نعیم نے قتیبہ کو مخاطب کرتے  ہوئے کہا۔’’میں بہت دیر سے اس شخص کی تلاش میں ہوں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ مجھ سے اتنا قریب ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں۔ اسے فوراً گرفتار کر لینا نہایت ضروری ہے!‘‘

’’لیکن مجھے بھی تو کچھ معلوم ہو کہ وہ کون ہے؟‘‘

’’وہ ابو جہل سے زیادہ دشمن اسلام اور عبد اللہ بن ابی سے زیادہ منافق ہے۔ وہ سانپ سے زیادہ خطرناک اور لومڑی سے زیادہ مکار ہے۔ ایسے حالات میں اس کا ترکستان میں ہونا خطرے سے خالی نہیں۔ ہمیں فوراً اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے!‘‘

’’لیکن اس موسم میں ! قوقند کے راستے میں برفانی پہاڑ حائل ہیں۔‘‘

’’کچھ بھی ہو۔‘‘ نعیم نے کہا۔’’ آپ مجھے اجازت دیں۔ وہ قوقند میں اس لیے مقیم ہے کہ وہاں اسے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ غالباً سردی کا موسم وہیں گزارے گا۔ گرمیوں کوئی اور جگہ تلاش کرے گا جو محفوظ ہو۔‘‘

’’تم کب جانا چاہتے ہو؟‘‘

’’ابھی۔ نعیم نے جواب دیا۔ مجھے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

’’اس وقت برف پڑ رہی ہے۔ صبح چلے جانا۔ ابھی ابھی تم ایک لمبے سفر سےا رہے ہو۔ کچھ دیر آرام کر لو!‘‘

’’مجھے اس وقت تک آرام نہیں آئے گا جب تک یہ موذی زندہ ہے۔ میں اب ایک لمحہ بھی ضائع کرنا گناہ خیال کرتا ہوں۔ مجھے آپ اجازت دیجئے!‘‘

یہ کہہ کر نعیم اٹھ کھڑا ہوا۔

’’اچھا اپنے ساتھ دو سو سپاہی لیتے جاؤ۔‘‘

نیزک نے حیران ہو کر کہا۔’’آپ انہیں قوقند بھیج رہے ہیں اور صرف دو سو سپاہیوں کے ساتھ! آپ پہاڑی قوموں کی لڑائی کے طریقوں سے واقف ہیں۔ وہ بہادری میں دنیا کی کسی قوم سے کم نہیں۔انہیں اچھی خاصی فوج کے ساتھ جانا چاہیے۔ ابن صادق کے پاس ہر وقت پانچ سو مسلح جوان رہتے ہیں اور اب تک پتہ نہیں اس نے کتنی افواج اکٹھی کر لی ہو گی۔‘‘ نعیم نے کہا۔’’ایک بزدل سالار اپنے سپاہیوں میں بہادری کے جوہر پیدا نہیں کر سکتا۔ اگر اس فوج کا سالار ابن صادق ہے تو مجھے اتنے سپاہیوں کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘

قتیبہ نے ذرا سوچنے کے بعد نعیم کو تین سو سپاہی لے جانے کا حکم دیا اور اسے چند ہدایات دینے کے بعد روانہ کیا۔

ایک ساعت گزر جانے کے بعد قتیبہ اور نیزک خیمہ کے باہر کھڑے نعیم کو مختصر سی فوج کے ساتھ سامنے ایک پہاڑ پر سے گزرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

’’بہت بہادر لڑکا ہے۔‘‘ نیزک نے قتیبہ سے کہا۔

’’ہاں وہ ایک مجاہد کا بیٹا ہے۔‘‘ قتیبہ نے جواب دیا۔

’’میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ لوگ اتنے بہادر کیوں ہیں ؟‘‘ نیزک نے پھر سوال کیا۔

’’کیونکہ ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ موت ہمارے لیے ایک اعلیٰ زندگی کا پیغام ہے۔ اللہ کے لیے زندہ رہنے کی تمنا اور اللہ کے لیے مرنے کا حوصلہ پیدا کرنے کے بعد کسی شخص کے دل میں بڑی بڑی سے طاقت کا خوف نہیں رہتا۔‘‘

’’ہاں ہر وہ شخص جو سچے دل سے توحید اور رسالت پر ایمان لے آتا ہے۔‘‘

ابن صادق قوقند کے شمال میں ایک محفوظ مقام پر پناہ گزین تھا۔ ایک وادی کے چاروں طرف بلند پہاڑ اس کے لیے ایک ناقابل تسخیر فصیل کا کام دے رہے تھے۔ پہاڑوں کے سرکش لوگ چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں اس وادی میں جمع ہو رہے تھے۔ ابن صادق ان لوگوں کو مختصر راستوں سے نزاق کے پاس روانہ کر رہا تھا۔ اس کے جاسوس اسے مسلمانوں کی نقل و حرکت سے باخبر رکھتے تھے۔ ابن صادق کو اس بات کی تسلی تھی کہ مسلمان سردیاں ختم ہونے تک لڑائی شروع نہیں کر سکیں گے۔ اسے اس بات کا بھی اطمینان تھا کہ اول تو اتنی دور رہ کر مسلمان اس کی سازشوں سے واقف نہیں ہو سکتے اور اگر یہ انکشاف ہو بھی جائے تو بھی وہ سردیوں میں اس طرف نہیں آ سکتے اور سردیوں کے بعد اگر انہوں نے ادھر کا رخ کیا تو خدا کی زمین بہت وسیع ہے۔

ایک دن ایک جاسوس نے آ کر خبر دی کہ نعیم پیش قدمی کر رہا ہے تو وہ سخت بد حواس ہوا۔

’’اس کے پاس کتنی فوج ہے؟‘‘ ابن صادق نے تھوڑی دیر کے بعد سنبھل کر سوال کیا۔

’’فقط تین سو سپاہی۔‘‘ جاسوس نے جواب دیا۔

’’کل تین سو آدمی!‘‘ایک تاتاری نوجوان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

ابن صادق نے کہا۔’’تم ہنستے ہوئے کیوں ہو؟وہ تین سو آدمی مجھے چین اور ترکستان کی تمام فوجوں سے زیادہ خطرناک نظر آتے ہیں۔‘‘

تاتاری نے جواب دیا۔’’آپ یقین رکھیں وہ یہاں پہنچنے سے پہلے ہمارے پتھروں کے نیچے دب کر رہ جائیں گے۔‘‘

نعیم کا تصور ابن صادق کو موت سے زیادہ بھیانک نظر آ رہا تھا۔ اس کے پاس سات سو سے زیادہ تاتاری موجود تھے لیکن اس پر بھی اسے اپنی فتح کا یقین نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کھلے میدان میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس نے تمام پہاڑی راستوں پر تاتاریوں کے پہرے مقرر کر دیے اور نعیم کا انتظار کرنے لگا۔

نعیم ابن صادق کا سراغ لگاتا ہوا قوقند کے شمال مشرق کی طرف جا نکلا۔ اس نا ہموار زمین پر گھوڑے بڑی دقت سے آگے بڑھ رہے تھے۔ بلند چوٹیوں پر برف چمک رہی تھی اور نیچے کہیں کہیں وادیوں میں گھنے جنگلات تھے۔ لیکن برفباری کے موسم میں ان پر پتوں کا نشان نہ تھا۔ نعیم ایک بلند پہاڑی کے ساتھ ساتھ ایک نہایت تنگ راستے میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک پہاڑ پر سے تاتاریوں نے پتھر برسانے شروع کر دیے۔ چند سوار زخمی ہو کر گھوڑوں سے گر پڑے اور فوج میں کھلبلی مچ گئی۔ پانچ گھوڑے سواروں سمیت لڑھکتے ہوئے ایک گہرے غار میں جا گرے۔نعیم نے سپاہیوں کو گھوڑوں سے اترنے کا حکم دیا اور پچاس آدمیوں کو کہا کہ وہ گھوڑوں کو پہاڑی سے کچھ دور ایک محفوظ جگہ پر لے جائیں اور خود باقی اڑھائی سو سپاہیوں کے ساتھ پیدل پہاڑی پر چڑھنا شروع کیا۔ پتھر بدستور برس رہے تھے۔مسلمان اپنے سروں پر ڈھا لیں لیے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے رہے۔ چوٹی پر پہنچنے تک نعیم کے ساتھ ساٹھ سپاہی پتھروں کا نشانہ بن کر گر چکے تھے۔ نعیم نے اپنے رہے سہے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑی کی چوٹی پر قدم جماتے ہی جان توڑ کر حملہ کیا۔ مسلمانوں کے عزم اور استقلال کی حالت دیکھ کر تاتاریوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ وہ چاروں طرف سے سمٹ کر اکٹھے ہونے لگے۔ ابن صادق درمیان میں کھڑا ان کو حملے کے لیے اکساتا رہا۔ جب نعیم کی نظر اس پر پڑی تو اس نے جوش میں آ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں نیزے سے اپنا راستہ صاف کرتا ہوا آگے بڑھا۔ تاتاریوں نے یکے بعد دیگرے میدان سے بھاگنا شروع کیا۔ ابن صادق کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ وہ اپنی رہی سہی فوج چھوڑ کر ایک طرف بھاگا۔ نعیم کی آنکھ اس پر تھی۔ اسے بھاگتے ہوئے دیکھ کر اس کے پیچھے ہو لیا۔ ابن صادق پہاڑی کے نیچے اترا۔ اس نے ضرورت کے وقت اپنے بچاؤ کا بندوبست پہلے ہی کر رکھا تھا۔ پہاڑی کے نیچے ایک شخص دو گھوڑے لیے کھڑا تھا۔ ابن صادق جھٹ ایک گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے ایڑ لگا دی۔ اس کے ساتھ نے ابھی رکاب میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ نعیم نے نیزہ مارکر اسے نیچے گرایا اور گھوڑے پر بیٹھتے ہی اسے ابن صادق کے تعاقب میں چھوڑ دیا۔

نعیم کے اپنے قول کے مطابق ابن صادق لومڑی سے زیادہ مکار تھا۔ اس نے شکست کھانے کی صورت میں اپنے بچاؤ کا پورا پورا انتظام کر رکھا تھا۔نعیم اور ابن صادق کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ لیکن نعیم کو تھوڑی دیر کے تعاقب کے بعد اس بات کا احساس ہوا کہ فاصلہ زیادہ ہو تا جا رہا ہے۔ اور اس کا گھوڑا ابن صادق کے گھوڑے کے مقابلے میں کم رفتار ہے تاہم نعیم نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔

ابن صادق پہاڑی پر سے اتر کر وادی کی طرف ہو لیا۔ اس وادی میں کہیں کہیں گھنے درخت تھے۔ ایک جگہ درختوں کے جھنڈ کے نیچے ابن صادق کے مقرر کیے ہوئے چند سپاہی کھڑے تھے۔ اس نے انہیں بھاگتے ہوئے اشارہ کیا اور وہ درختوں کی آڑ میں چھپ کر کھڑے ہو گئے۔ نعیم جب ان درختوں کے پاس سے گزرا تو ایک تیر نعیم کے بازو پر آ لگا لیکن اس نے گھوڑے کی رفتار کم نہ کی۔ چند قدم اور چلنے کے بعد دوسرا تیر اس کی پسلی میں لگا۔ ایک اور تیر گھوڑے کی پیٹھ پرا کر لگا اور گھوڑا پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑنے لگا۔ نعیم نے اپنے بازو اور پسلی سے تیروں کو کھینچ کر نکالا لیکن ابن صادق کا پیچھا نہ چھوڑا۔تھوڑی دور اور چلنے کے بعد ایک تیر نعیم کی کمر پر لگا۔ اس کا خون پہلے ہی بہت نکل چکا تھا۔ اب اس تیسرے تیر کے بعد اس کے جسم کی طاقت جواب دینے لگی۔ لیکن جب تک حواس قائم رہے اس مجاہد کی ہمت میں فرق نہ آیا اور اس نے گھوڑے کی رفتار کم نہ ہونے دی۔

درختوں کا سلسلہ ختم ہوا اور ایک وسیع میدان نظر آنے لگا لیکن ابن صادق بہت آگے نکل چکا تھا اور نعیم پر کمزوری غالب آ رہی تھی۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس کا سر چکرانے اور کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ وہ بے بس ہو کر گھوڑے سے اترا اور بے ہوش ہو کر منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ اس بے ہوشی میں اسے کئی ساعتیں گزر گئیں۔ جب اسے ذرا ہوش آیا تو اس کے کانوں میں کسی کے گانے کی آواز سنائی دی۔ نعیم کے کان ایسی لطیف آواز سے مدت کے بعد آشنا ہوئے تھے۔ وہ دیر تک نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا یہ راگ سنتا رہا۔ بالآخر ہمت کر کے سر اوپر اٹھایا۔ اس کے قریب چند بھیڑیں چر رہی تھیں۔ نعیم نے گانے والے کو دیکھنا چاہا لیکن ضعف کے باعث پھر آنکھو کے سامنے سیاہی طارق ہو گئی اور اس نے مجبوراً سر زمین پر ٹیک دیا۔ایک بھیڑ نعیم کے قریب آئی اور اس نے اپنا منہ نعیم کے کانوں کے قریب لے جا کر اسے سونگھا اور اپنی زبان میں آواز دے کر اپنی ایک اور ہم جنس کو بلا لیا۔ دوسری بھیڑ بھی مے مے کرتی اوری پیغام باقی بھیڑوں تک پہنچاتی آگے چل دی۔ ایک گھڑی کے اندر اندر بہت سی بھیڑیں نعیم کے ارد گرد جمع ہو کر شور مچانے لگیں۔ ایک کوہستانی دوشیزہ ہاتھ میں چھڑی لیے بھیڑوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہانکتی اور بدستور گاتی ہوئی چلی آ رہی تھی۔ وہ ایک جگہ بھیڑوں کا اجتماع دیکھ کر اس طرف بڑھی اور ان کے درمیان نعیم کو خون میں لپ پت دیکھ کر ایک ہلکی سی چیخ کے بعد نعیم سے چند قدم کے فاصلے پر انگشت بدنداں کھڑی ہو گئی۔

نعیم نے بے ہوشی کی حالت میں اپنا سر اوپر اٹھایا اور دیکھا کہ حسن فطرت کی ایک مکمل تصور ایک کوہستانی لڑکی کے وجود میں سامنے کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس کے لمبے قد کے ساتھ جسمانی صحت اور تناسب اعضاء اس کے معصوم حسن میں اضافہ کر رہے تھے۔ اس کا موٹے اور کھردرے کپڑے کا بنا ہوا لباس تصنع سے بے نیاز تھا۔ اس نے سمور کا ایک ٹکڑا گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ سر پر ایک ٹوپی تھی۔ حسینہ کا چہرہ ذرا لمبا تھا لیکن یہ لمبائی فقط اس قدر تھی جتنی کہ ایک حسین چہرے کو سنجیدہ بنا دینے کے لیے ضروری ہو۔ بڑی بڑی سیاہ اور چمک دار آنکھیں، پتلے اور نازک ہونٹ جن کی شگفتگی گلِ نو بہار سے کہیں زیادہ جاذب نظر تھی۔ کشادہ پیشانی اور مضبوط ٹھوڑی، تمام مل کر اس حسینہ میں بہار حسن کے علاوہ رعب حسن بھی پیدا کر رہے تھے اور یہ ظاہر ہوتا تھا کہ حسن کے متعلق مشرق اور مغرب کا تخیل رنگ و بو کے اس دلفریب پیکر پرا کر ختم ہو جاتا ہے۔نعیم کو ایک نگاہ وہ عذرا اور دوسری میں زلیخا دکھائی دی۔ نوجوان لڑکی نعیم کے جسم پر خون کے نشانات دیکھنے اور کچھ دیر بد حواسی کے عالم میں خاموش کھڑی رہنے کے بعد جرات کر کے آگے بڑھی اور بولی:

’’آپ زخمی ہیں ؟‘‘

نعیم ترکستان میں رہ کر تاتاری زبان پر کافی عبور حاصل کر چکا تھا۔ اس نے دوشیزہ کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن پھر ایک چکر آیا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

نرگس

جب نعیم کو دوبارہ ہوش آیا تو وہ کھلے میدان کی بجائے ایک پتھر کے مکان میں لیٹا ہوا تھا۔ چند مرد اور عورتیں اسے کے گرد کھڑی تھیں اور وہی نازنین جس کا دھندلا سا نقشہ اس کے دماغ میں تھا، ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ لیے دوسرے ہاتھ سے اس کے سر کو سہارا دے کر اوپر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔نعیم نے قدرے توقف کے بعد پیالے کو منہ لگایا۔ چند گھونٹ پینے کے بعد اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو لڑکی نے اسے دوبارہ بستر پر لٹا دیا اور خود ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئی۔ نعیم کمزوری کی وجہ سے کبھی آنکھیں بند کر لیتا اور کبھی متحیر ہو کر اس حسینہ اور باقی لوگوں کی طرف دیکھتا۔ ایک نوجوان مکان کے دروازے میں کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ اور دوسرے ہاتھ میں کمان تھی۔

لڑکی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔’’بھیڑیں لے آئے؟‘‘

’’ہاں لے آیا ہوں اور اب جا رہا ہوں۔‘‘

’’کہاں ؟‘‘ لڑکی نے سوال کیا۔

’’شکار کھیلنے جا رہا ہوں۔ میں نے آج ایک جگہ ریچھ دیکھا ہے۔ بہت بڑا ریچھ ہے۔ ان کو اب آرام ہے؟‘‘

’’ہاں ! کچھ ہوش آیا ہے۔‘‘

’’تم نے زخموں پر مرہم لگایا؟‘‘

’’نہیں۔ میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ مجھ سے یہ نہیں اترتی، لڑکی نے نعیم کی زرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

نوجوان آگے بڑھا اور نعیم کو سہارا دینے کے بعد اس کی زرہ کھول ڈالی۔ قمیص اوپر اٹھا کر زخم دیکھے۔ مرہم لگا کر پٹی باندھی اور کہا۔ ’’آپ لیٹ جائیں۔ زخم بہت خطرناک ہیں لیکن اس مرہم سے بہت جلد آرام آ جائے گا۔‘‘ نعیم بغیر کچھ کہے لیٹ گیا اور نوجوان باہر چلا گیا۔ اس کے بعد دوسرے لوگ بھی یکے بعد دیگرے چل دیے۔ نعیم اب اچھی طرح ہوش میں آ چکا تھا اور اس کا  یہ وہم دور ہو چکا تھا کہ وہ سفر حیات ختم کر کے جنت الفردوس میں پہنچ چکا ہے۔

’’میں کہاں ہوں ؟‘‘ اس نے لڑکی کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔

’’آپ اس وقت ہمارے گھر میں ہیں۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ ’’آپ باہر بے ہوش پڑے تھے۔ میں نے بھائی کوا کر خبر دی۔ وہ آپ کو یہاں اٹھا لایا۔‘‘

’’تم کون ہو؟‘ نعیم نے سوال کیا۔

’’میں بھیڑیں چرایا کرتی ہوں۔‘‘

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’میرا نام نرگس ہے۔‘‘

’’نرگس!‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

نعیم کو جہاں اس لڑکی کی شکل میں دو صورتیں اور نظر آ رہی تھیں، وہاں اب اس کے نام کے ساتھ دو اور نام بھی یاد آ گئے۔ اس نے اپنے دل میں عذرا، زلیخا اور نرگس کے نام دہرائے اور ایک گہری سوچ میں چھت کی طرف دیکھنے لگا۔

’’آپ کو بھوک لگ رہی ہو گی؟‘‘ لڑکی نے نعیم کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر مقابل کے کمرے چند سیب اور خشک میوے لا کر نعیم کے سامنے رکھ دیے۔ نعیم کے سر کے نیچے ہاتھ دے کر اٹھایا اور اسے سہارا دینے کی غرض سے ایک پوستین اس کے پیچھے رکھ دی۔ نعیم نے چند سیب کھائے اور نرگس سے پوچھا۔

’’وہ نوجوان جو ابھی آیا تھا وہ کون ہے؟‘‘

’’وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔‘‘

’’اس کا نام کیا ہے؟‘‘

’’ہومان۔‘‘ نرگس نے جواب دیا۔

نرگس سے چند اور سوالات پوچھنے پر نعیم کو معلوم ہوا کہ اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ اس چھوٹی سی بستی میں رہتی ہے اور ہومان اس گڈریوں کی بستی کا سردار ہے جس کی آبادی کوئی چھ سو انسانوں پر مشتمل ہے۔

شام کے وقت ہومان گھر آیا اور اس نے آ کر بتایا کہ اس کا شکار ہاتھ نہیں آیا۔

نرگس اور ہومان نے نعیم کی تیمار داری میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ رات کے وقت وہ بہت دیر تک نعیم کے پاس بیٹھے رہے۔ جب نعیم کی آنکھ لگ گئی تو نرگس اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور ہومان نعیم کے قریب ہی گھاس کے بستر پر لیٹ گیا۔ رات بھر نعیم نہایت خواب دیکھتا رہا۔عبد اللہ سے رخصت ہونے کے بعد یہ پہلی رات تھی جبکہ عالم خواب میں بھی نعیم کے خیالات کی پرواز اسے میدان جنگ کی علاوہ کہی اور لے گئی ہو۔ کبھی وہ دیکھتا کہ اس کی مرحوم والدہ اس کے زخموں پر مرہم پٹی کر رہی ہے اور عذرا کی محبت بھری نگاہیں اسے تسکین کا پیغام دے رہی ہیں۔ کبھی وہ دیکھتا کہ زلیخا اپنے رخ انور سے اسے کے قید خانے کی تاریک کوٹھڑی میں ضیا پاشی کر رہی ہے۔

صبح کے وقت آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ نرگس پھر اس کے سامنے دودھ کا پیالہ لیے کھڑی ہے اور ہومان اسے جگا رہا ہے۔

نرگس کے پیچھے کھڑی بستی کی ایک اور لڑکی اس کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ نرگس نے کہا۔’’بیٹھ جاؤ زمرد!‘‘ اور وہ چپکے سے ایک طرف بیٹھ گئی۔

نعیم ایک ہفتے بعد چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا اور اس اور اس معصوم ماحول میں دلچسپی لینے لگا۔بستی کے لوگ بھیڑوں اور بکریوں پر گزارہ کرتے تھے۔ قرب و جوار میں بہترین چراگاہ کی بدولت ان کی حالت بہت اچھی تھی۔ کہیں کہیں سیب انگور کے باغات بھی تھے۔ بھیڑیں اور بکریاں پالنے کے علاوہ ان لوگوں کا دلچسپ مشغلہ جنگلی جانوروں کا شکار تھا۔ بستی کے آدمی شکار کے لیے دور تک برفانی علاقوں میں چلے جاتے تھے اور بھیڑیں چرانے کا کام زیادہ تر نوجوان عورتوں کے سپرد تھا۔ ان لوگوں کو ملک کے سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ تاتاریوں کی بغاوت کی حمایت یا مخالفت سے بہت حد تک بے نیاز تھے۔ رات کے وقت گاؤں کی نوجوان عورتیں اور مرد ایک وسیع خیمے میں اکٹھے ہو کر گاتے اور رقص کرتے۔رات کا کچھ حصہ گزارنے پر عورتیں اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتیں اور مرد دیر تک چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے۔ کوئی پرانے زمانے کے بادشاہوں کی کہانی سناتا۔کوئی اپنے ریچھ کے شکار کا دلچسپ واقعہ بیان کرتا۔ اور کوئی جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کی من گھڑت داستانیں لے بیٹھتا۔ یہ لوگ کسی حد تک توہم پرست تھے، اس لیے بھوتوں کی کہانیاں بڑے شوق سے سنتے۔ اب چند دنوں سے ان لوگوں کی گفتگو کا موضوع ایک شہزاد بھی تھا۔

  کوئی اس کے قدو قامت اور شکل و صورت کا تذکرہ چھیڑ دیتا۔کوئی اس کے لباس کی تعریف کرتا۔ کوئی اس کے زخمی ہو کر اس بستی میں پہنچ جانے پر حیرانی کا اظہار کرتا۔ کوئی کہتا کہ ہم گڈریوں کے لیے دیوتاؤں نے ایک بادشاہ بھیجا ہے اور یہ ہومان کو اپنا وزیر بنا لے گا۔ الغرض بستی کے لوگ نعیم کا نام لینے کی بجائے اسے شہزادہ کہا کرتے تھے۔

ادھر بستی کی عورتوں میں یہ چرچا ہونے لگا کہ یہ نووارد شہزادہ نرگس کو اپنی ملکہ بنا لے گا۔ گاؤں کی لڑکیاں نرگس کی خوش نصیبی پر رشک کرتیں۔ کوئی اسے شہزادے کی محبوبہ بننے پر مبارکباد دیتی اور کوئی باتوں ہی باتوں میں اسے چھیڑتی۔ نرگس بظاہر برا مانتی مگر اس کا دل اپنی سہیلیوں کے منہ سے ایسی باتیں سننے پر دھڑکنے لگتا۔ سفید رخساروں پر سرخی رقص کرنے لگتی۔ اس کے کان نعیم کی تعریف میں گاؤں والوں کی زبان سے ہر نیا جملہ سننے کے لیے بے قرار رہتے۔

نعیم ان تمام باتوں سے بے خبر ہومان کے مکان کے ایک کمرے میں اپنی زندگی کے نہایت پرسکون لمحات گزار رہا تھا۔ گاؤں کے مرد اور عورتیں ہر روز آتے اور اسے دیکھ کر چلے جاتے۔ وہ اپنے تیمار داروں کا نہایت خندہ پیشانی سے شکریہ ادا کرتا۔ لوگ اسے ایک شہزادہ خیال کرتے ہوئے پاس ادب سے کافی دور ہٹ کر کھڑے ہوتے اور اس کے حالات معلوم کرنے کے لیے سوالات کرنے سے گریز کرتے لیکن نعیم کی شگفتہ مزاجی نے انہیں بہت جلد بے تکلف بنا لیا اور یہ لوگ ادب اور احترام کے علاوہ نعیم سے محبت بھی کرنے لگے۔

ایک روز شام کے وقت نعیم نماز پڑھ رہا تھا۔ نرگس اپنی سہیلیوں کے ساتھ مکان کے دروازے میں کھڑی اس کی حرکات کو بغور دیکھ رہی تھی۔

’’یہ کیا کر رہا ہے؟‘‘ ایک لڑکی نے حیران ہو کر سوال کیا۔

’’شہزادہ جو ہوا؟‘‘ زمرد نے بھولپن سے جواب دیا۔ ’’دیکھو کس شان سے اٹھتا اور بیٹھتا ہے....نرگس تم بھی اسی طرح کیا کرتی ہو؟‘‘

’’چپ۔‘‘ نرگس نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔

نعیم نے نماز ختم کر کے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے۔ لڑکیاں دروازے سے ذرا ہٹ کر باتیں کرنے لگیں :

’’چلو نرگس! ‘‘ زمرد نے کہا۔ ’’وہاں ہمارا انتظار ہو رہا ہو گا۔‘‘

’’میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ میں ان کو یہاں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘

’’چلو ان کو بھی ساتھ لے چلیں !‘‘

’’کہیں دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا۔ کم بخت وہ شہزاد ہ ہے یا کھلونا؟‘‘ دوسری لڑکی نے کہا۔

یہ لڑکیاں ابھی باتیں کر رہی تھیں کہ ہومان گھوڑے پر آتا دکھائی دیا۔ وہ نیچے اترا تو نرگس نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ ہومان سیدھا نعیم کے کمرے میں داخل ہوا۔

زمرد نے کہا۔ ’’چلو نرگس۔ اب تو تمہارا بھائی ان کے ساتھ بیٹھے گا۔‘‘

’’چلو نرگس!‘‘ دوسری نے کہا۔

’’چلو۔ چلو!‘‘ کہتے ہوئے تمام لڑکیاں نرگس کو دھکیل کر ایک طرف لے گئیں۔

ہومان کے اندر داخل ہوتے ہی نعیم نے پوچھا۔’’کہو بھائی کیا خبر لائے ہو؟‘‘

ہومان نے جواب دیا۔ ’’میں ان تمام مقامات سے پھر کر آیا ہوں۔ آپ کی فوج کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ ابن صادق بھی کہیں روپوش ہے۔ مجھے ایک آدم کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ کی فوجیں عنقریب سمرقند پر حملہ کرنے والی ہیں۔

‘‘میں ایک ہفتہ تک گھوڑے پر سوار ہونے کے قابل ہو جاؤں گا۔ میں بہت جلد چلا جاؤں گا۔ یہ بستی مجاہد کی دنیا سے بہت مختلف ہے لیکن یہ لوگ بہت سیدھے ہیں۔ انہیں نیک راستے پر لانے کی ضرورت ہے۔‘‘

نعیم ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ پیچھے سے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ نرگسا رہی تھی۔ وہ سوچ سوچ کر قدم اٹھاتی ہوئی نعیم کے قریب پہنچی اور سہمی ہوئی آواز میں بولی:

’’آپ سردی میں باہر بیٹھے ہوئے ہیں !‘‘

نعیم نے چاند کی دلفریب روشنی میں اس کے چہرے پر نظر دوڑائی۔ وہ حسین بھی تھی اور معصوم بھی۔ اسے نے کہا:

’’نرگس۔ تم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر کیوں آ گئیں ؟‘‘

’’آپا گئے تھے۔ میں نے سوچا....آپ....اکیلے ہوں گے۔‘‘

نعیم کو ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان گنت نغمے سنائی دینے لگے۔ ایک لمحہ کے لیے وہ بے حس و حرکت بیٹھا نرگس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اچانک اٹھا اور کچھ کہیے بغیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ نرگس کی آواز دیر تک اس کے کانوں میں گونجتی رہی اور وہ بستر پر لیٹ کر کروٹیں بدلتا رہا۔

علی الصبح نعیم کی آنکھ کھلی۔ اٹھ کر باہر نکلا۔ چشمے پر وضو کیا اور اپنے کمرے میں آ کر فجر کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد وہ سیر کے لیے باہر نکل گیا۔ جب واپسا کر کمرے میں داخل ہونے لگا تو دیکھا کہ اس جگہ جہاں وہ اکثر نماز پڑھا کرتا تھا، ہومان آنکھیں بند کیے قبلہ روہو کر رکوع اور سجود کی مشق کر رہا ہے۔ نعیم چپکے سے دروازے میں کھڑا اس کی بے ساختہ تقلید پر مسکرا رہا تھا۔ جب ہومان نے نعیم کی طرح بیٹھ کر تھوڑی دیر ہونٹ ہلانے کے بعد دائیں بائیں دیکھا تو اس کی نظر نعیم پر جا پڑی۔ وہ بدحواس ہو کر اٹھا اور اپنی پریشانی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔’’میں آپ کی نقل کر رہا تھا۔ گاؤں کی بہت سی لڑکیاں اور لڑکے اسی طرح کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کرتا ہوا انسان بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ میں آپ کے کمرے میں داخل ہوا تو نرگس بھی اسی طرح کر رہی تھی۔ میں بھی....!‘‘

نعیم نے کہا۔’’ہومان تم ہر بات میں میری نقل اتارنے کی کیوں کوشش کرتے ہو؟‘‘

’’کیونکہ آپ ہم سے اچھے ہیں اور آپ کی ہر بات ہم سے اچھی ہے۔‘‘

’’اچھا یوں کرو۔ آج تمام گاؤں کے لوگوں کو جمع کرو۔ میں ان سے کچھ کہوں گا!‘‘

وہ آپ کی باتیں سن کر بہت خوش ہوں گے۔ میں انہیں ابھی اکٹھا کرتا ہوں۔ یہ کہہ کہ ہومان چلا گیا۔

دوپہر سے پہلے گاؤں کے تمام لوگ ایک جگہ جمع ہو گئے۔ نعیم نے پہلے دن خدا اور اس کے رسولﷺ کی تعریف کی۔ انہیں بتایا کہ آگ اور پتھر وغیرہ تمام خدا کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں۔ چیزوں کے بنانے والے کو بھول کر اس کی بنائی ہوئی چیزوں کی پوجا کرنا عقلمندی نہیں۔ ہماری قوم کی حالت بھی تمہاری قوم جیسی تھی۔ وہ بھی پتھر کے بت بنا کر پوجا کر تی تھی۔ لیکن ہم میں خدا کا ایک برگزیدہ رسولﷺ پیدا ہوا جس نے ہمیں ایک نیا راستہ دکھایا۔ نعیم نے آقائے مدنیﷺ کی زندگی کے حالات بیان کیے۔ اس طرح چند اور تقریریں کیں اور تمام بستی والوں کو اسلام کی طرف کھینچ لیا۔ سب سے پہلے کلمہ پڑھنے والے نرگس اور ہومان تھے۔

چند دنوں میں اس بستی کے ماحول میں یکسر تبدیلی ہو گئی۔ ان دلکش مرغزاروں میں نعیم کی اذانیں گونجنے لگیں اور رقص و سرود کی بجائے پانچ وقت کی نمازیں ادا ہونے لگیں۔

نعیم اب مکمل طور پر تندرست ہو چکا تھا۔ اس نے کئی بار واپس لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن برفباری کی شدت سے پہاڑی راستے بند تھے اور اسے کچھ دیر قیام کے سوا چارہ نہ تھا۔

  نعیم بے کار بیٹھ کر دن کاٹنے کا عادی نہ تھا۔ اس لیے وہ کبھی کبھی ان لوگوں کے ساتھ شکار کے لیے باہر چلا جاتا۔ ایک دن ریچھ کے شکار میں نعیم نے غیر معمولی جرات کا مظاہر ہ کیا۔ ایک ریچھ ایک شکاری کے تیر سے زخمی ہونے پر اس قدر تندی سے حملہ آور ہوا کہ تمام شکاریوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بڑے بڑے پتھروں کی آڑ میں چھپ کر ریچھ پر تیر برسانے لگے۔نعیم نہایت اطمینان سے اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ ریچھ غضبناک ہو کر اس پر جھپٹا۔ نعیم نے بائیں ہاتھ سے اپنی ڈھال اٹھا کر اسے روکا اور دائیں ہاتھ سے نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ ریچھ الٹا ہو کر گرا لیکن پھر شور مچاتا ہوا اٹھا اور نعیم پر حملہ کر دیا۔ اتنی دیر میں وہ تلوار نیام سے نکال چکا تھا۔ ریچھ کے جھپٹنے کی دیر تھی کہ نعیم کی تلوار اس کی کھوپڑی پر لگی۔ ریچھ گرا۔ تڑپا اور ٹھنڈا ہو گیا۔ شکاری اپنی اپنی جائے پناہ سے نکل کر نعیم کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے۔ ایک شکاری نے کہا۔’’آج تک اتنا بڑا ریچھ کسی نے نہیں مارا۔ اگر آپ کی جگہ ہم میں سے کوئی ہوتا تو خیر نہ تھی۔ آپ نے آج کتنے ریچھ مارے ہیں ؟‘‘

’’یہ پہلا ہے۔‘‘ نعیم نے تلوار نیام میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’پہلا؟‘‘ وہ حیرانی سے بولا۔ ’’آپ تو بہت تجربہ کار شکاری معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

اس کے جواب میں ایک بوڑھے شکاری نے کہا۔’’دل کی بہادری، بازو کی ہمت اور تلوار کی تیزی کو تجربے کی ضرورت نہیں۔‘‘

نعیم کو اب ہر لحاظ سے اس گاؤں کے لوگ انسانیت کا بلند ترین معیار تصور کرنے لگے اور اس کی ہر بات اور ہر حرکت قابل تقلید خیال کی جانے لگی۔ اس بستی میں اسے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ قتیبہ موسم بہار سے پہلے نقل و حرکت نہیں کرے گا اس لیے بظاہر اس کے وہاں ٹھہرنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی لیکن ایک نیا احساس نعیم کو اب کسی حد تک بے چین کر رہا تھا۔

نرگس کا طرز عمل اس کے پرسکون دل میں پھر ایک بار ہیجان پیدا کر رہا تھا۔ وہ اپنے خیال میں ابتدائے شباب کے رنگین سپنوں سے بے نیاز ہو چکا تھا لیکن فطرت کی رنگینیاں ایک بار پھر اس کے دل کے سوئے ہوئے فتنوں کو بیدار کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔

نرگس اپنی شکل و شباہت اور اخلا ق و عادات کے لحاظ سے اسے اس بستی کے لوگوں سے بہت مختلف نظر آتی تھی۔ ابتدا میں جب بستی کے لوگ نعیم سے اچھی طرح واقف نہ تھے نرگس اس کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آتی رہی لیکن جب بستی کے لوگ اس سے بے تکلف ہونے لگے تو اس کی بے تکلفی تکلف میں تبدیل ہو گئی۔ شوق کی انتہا اسے نعیم کے کمرے تک لے جاتی اور گھبراہٹ کی انتہا اسے چند لمحات سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ دیتی۔ وہ اس کے کمرے میں اس خیال سے داخل ہوتی کہ وہاں سارا دن بیٹھ کر اسے بیتاب نگاہوں سے دیکھتی رہے گی لیکن نعیم کے سامنے پہنچ کر یہ خیال غلط ثابت ہوتا۔ اپنی امیدوں اور آرزوؤں کے مرکز کی طرف دیکھتے ہی وہ آنکھیں جھکا لیتی اور دھڑکتے ہوئے دل کی پر زور درخواستوں منتوں اور سماجتوں کے باوجود اسے دوبارہ نظر اٹھانے کی جرات نہ ہوتی اور اگر کبھی وہ یہ جرات کر بھی لیتی تو حیا نعیم اور اس کے درمیان ایک نقاب بن کر حائل ہو جاتی۔ ایسی حالت میں فقط یہ خیال اس کے دل کی تسکین کا باعث ہوتا کہ نعیم اس کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن جب کبھی وہ ایک آدھ نگاہ غلط انداز سے اس کی طرف دیکھ لیتی اور اسے گہرے خیال میں گردن نیچی کیے پوستین کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے یا گھاس کے تنکوں کو کھینچ کھینچ کر توڑتے ہوئے پاتی تو اس کے دل کے اندر سلگنے والی چنگاریاں بجھ جاتیں اور جسم کے ہر رگ و ریشے میں سردی کی لہر دوڑ جاتی۔ اس کے کانوں میں گونجنے والے شباب کی دلکش راگ کی تانیں خاموش ہو جاتیں اور اس کے خیالات منتشر ہو جاتے۔ وہ اپنے دل پر ایک ناقابل برداشت بوجھ لیے اٹھتی اور نعیم کو حسرت بھرتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی جاتی۔

ابتدا میں ایک معصوم لڑکی کی محبت جہاں انسان کے دل میں ارادوں کا طوفان اور تصورات و خیالات کا ہیجان پیدا کر دیتی ہے وہاں غیر معمولی توہمات اسے عمل اور حرکت کی جرات سے بھی نا کار کر دیتے ہیں۔

نعیم اس کے خیالوں، آرزوؤں اور سپنوں کی چھوٹی سی دنیا کا مرکزی نقطہ بن چکا تھا۔ اس کا حال مسرتوں سے لبریز تھا لیکن جب وہ مستقبل کے متعلق سوچتی تو ان گنت توہمات اسے پریشان کرنے لگتے۔ وہ اس سامنے جانے کی بجائے اسے چھپ چھپ کر دیکھتی۔ کبھی ایک خیال انبساط کی کیفیت اسکے دل کو مسرور بنائے رکھتی اور کبھی ایک خیالی خوف کا تصور اسے پہروں بے چین رکھتا۔

نعیم ایسے ذکی الحس انسان کے لیے نرگس کے دل کی کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ وہ اپنی قوت تسخیر سے نا آشنا نہ تھا لیکن اس اپنے دل میں اس بات کا فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اسے اس فتح پر خوش ہونا چاہیے یا نہیں۔

ایک دن عشا کی نماز کے بعد نعیم نے ہومان کو اپنے پاس بلایا اور اس پر واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہومان نے جواب دیا ’’میں آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو روکنے کی جرات تو نہیں کر سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ برفانی پہاڑوں کے راستے ابھی صاف نہیں ہوئے۔ آپ کم از کم ایک مہینہ اور ٹھہر جائیں۔ موسم بدل جانے پر آپ کے لیے سفر کرنا آسان ہو گا۔‘‘

نعیم نے جواب دیا ’’برفباری کا موسم تو اب گزر چکا ہے اور ویسے بھی سفر کا ارادہ میرے لیے ہموار یا دشوار گزار راستے ایک ہی جیسے بنا دیا کرتا ہے۔ میں کل صبح جانے کا ارادہ کر چکا ہوں۔‘‘

’’اتنی جلدی! کل تو ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘

’’اچھا۔ صبح کے وقت دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر نعیم بستر پر دراز ہو گیا۔ ہومان اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھا۔ راستے میں نرگس کھڑی تھی۔ ہومان کو آتا دیکھ کر وہ درخت کی آڑ میں کھڑی ہو گئی۔ ہومان جب دوسرے کمرے میں چلا گیا تو نرگس بھی اس کے پیچھے پیچھے داخل ہوئی۔

’’نرگس باہر سردی ہے۔ تم کہاں پھر رہ ہی ہو؟‘‘ ہومان نے کہا۔

نرگس نے جواب دیا۔ ’’کہیں نہیں۔یونہی باہر گھوم رہی تھی۔‘‘

یہ کمرہ نعیم کی آرام گاہ سے ذرا کھلا تھا۔ فرش پر سوکھی گھاس بچھی تھی۔ کمرے کے ایک کونے میں ہومان اور دوسرے میں نرگس لیٹ گئے۔ہومان نے کہا۔’’نرگس! وہ کل جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔‘‘

نرگس اپنے کانوں سے نعیم اور ہومان کی باتیں سن چکی تھی لیکن ایسے موضوع پر اس کی دلچسپی ایسی نہ تھی کہ وہ خاموش رہتی۔

وہ بولی۔’’تو آپ نے ان سے کیا کہا؟‘‘

’’میں نے تو انہیں ٹھہرنے کے لیے کہا ہے لیکن اصرار کرتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے۔ گاؤں والوں کو ان کے جانے کا بہت افسوس ہو گا۔ میں ان سے کہوں گا کہ وہ تمام مل کر انہیں ٹھہرنے پر مجبور کریں۔‘‘

ہومان نرگس سے چند اور باتیں کرنے کے بعد سو گیا۔ چند بار کروٹیں بدلنے اور سونے کی ناکام کوشش کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’اگر انہیں اس طرح چلے جانا تھا تو آئے ہی کیوں تھے؟‘‘ یہ خیال آتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ نعیم کے کمرے کا طواف کیا۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا لیکن آگے قدم اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔ اندر شمع جل رہی تھی اور نعیم پوستین اوڑھے سو رہا تھا۔ اس کا چہرہ ٹھوڑی تک عریاں تھا۔ نرگس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’میرے شہزادے! تم جا رہے ہو۔ نہ معلوم کہاں ! تم کیا جانو کہ تم یہاں کیا چھوڑ کر جا رہے ہو اور کیا کچھ اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔ ان پہاڑوں، چراگاہوں، باغوں اور چشموں کی تمام دلچسپیاں اپنے ساتھ لے جاؤ گے اور اس ویرانے میں اپنی یاد چھوڑ جاؤ گے....شہزادے....میرے شہزادے.... نہیں نہیں۔ تم میرے نہیں۔ میں اس قابل نہیں۔‘‘یہ سوچ کر نرگس سسکیاں لینے لگی۔ پھر وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی اور تھوڑی دیر بے حس و حرکت کھڑی نعیم کی طرف دیکھتی رہی۔

اچانک نعیم نے کروٹ بدلی۔ نرگس خوفزدہ ہو کر باہر نکلی اور دبے پاؤں اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی۔ ’’اف کتنی رات طویل ہے!‘‘ اس نے چند بار اٹھ اٹھ کر لیٹتے ہوئے کہا۔

علی الصباح ایک گڈریے نے اذان دی۔ نعیم بستر سے اٹھا اور وضو کے لیے چشمے پر پہنچا۔ نرگس پہلے سے وہاں موجود تھی۔ نرگس کی توقع کے خلاف نعیم اسے وہاں دیکھ کر زیادہ حیران نہ ہوا۔ اس نے کہا: ’’نرگس! تم آج بہت سویرے یہاں آ گئیں ؟‘‘

نرگس ہر روز نعیم کو ان درختوں کے پیچھے چھپ چھپ کر دیکھا کرتی تھی۔ آج وہ نعیم سے اس کی بے نیازی کا شکوہ کرنے کے لیے تیار ہو کر آئی تھی لیکن نعیم کے اس درجہ بے پروائی سے ہمکلام ہونے پر اس کے دل میں ولولوں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔ تاہم وہ ضبط نہ کر سکی۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا: ’’آج آپ چلے جائیں گے؟‘‘

’’ہاں ! نرگس مجھے یہاں آہوئے بہت دیر ہو گئی ہے۔ آپ نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ہے شاید میں شکریہ ادا نہ کر سکوں۔ خدا آپ لوگوں کو جزائے خیر دے !‘‘

نعیم یہ کہہ کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور چشمے کے پانی سے وضو کرنے لگا۔ نرگس کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی لیکن نعیم کا طرز عمل حوصلہ افزا نہ تھا۔ دل کا طوفان یکسر ٹھنڈا ہو گیا۔ جب گاؤں کے باقی لوگ وضو کے لیے اس چشمے پر جمع ہونے لگے تو نرگس وہاں سے کھسک آئی۔

گاؤں کا بڑا خیمہ جس میں یہ لوگ اسلام لانے سے پہلے فرصت کے لمحات میں رقص و سرود میں گزارا کرتے تھے اب نماز کے لیے وقف تھا۔ نعیم وضو کرنے کے بعد اس خیمے میں داخل ہوا۔ گاؤں کے لوگوں کو نماز پڑھائی اور دعا کے بعد انہیں بتایا کہ میں جا رہا ہوں۔

نعیم اور ہومان ایک ساتھ خیمے سے باہر نکلے۔ مکان پر پہنچ کر نعیم اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ ہومان نے نعیم کے ساتھ داخل ہوتے وقت اپنے پیچھے گاؤں کے لوگوں کو آتے دیکھا تو اندر جانے کی بجائے چند قدم واپس ہو کر ان کی طرف متوجہ ہو ا۔ ’’کیا وہ سچ مچ چلے جائیں گے؟‘‘ ایک بوڑھے نے سوال کیا۔

’’ہاں۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ نہیں ٹھہریں گے۔ہومان نے جواب دیا۔

’’اگر ہم اصرار کریں تو بھی؟‘‘

’’تو شاید ٹھہر جائیں لیکن مجھے یقین نہیں۔ تاہم آپ انہیں ضرور مجبور کریں۔ وہ جس دن سے آئے ہیں، میں محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے دنیا کی بادشاہت مل گئی ہے۔ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔ آپ ضرور کوشش کریں۔ شاید وہ آپ کا کہا مان لیں۔‘‘

نعیم زرہ بکتر اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر باہر نکلا۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے دیکھ کر ایک ساتھ شور مچانا شروع کیا۔’’ہم نہیں جانے دیں گے۔ ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘

نعیم اپنے مخلص میزبانوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ہاتھ بلند کیا۔ وہ تمام یکے بعد دیگرے خاموش ہو گئے۔

نعیم نے ایک مختصر سی تقریر کی:

’’برادران! اگر میں اپنے فرائض کی وجہ سے مجبور نہ ہوتا تو مجھے اس جگہ چند دن اور ٹھہر جانے پر اعتراض نہ ہوتا لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جہاد ایک ایسا فرض ہے جسے کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کی محبت کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے خوشی سے اجازت دے دیں گے۔‘‘

نعیم نے اپنی تقریر ابھی ختم نہ کی تھی کہ ایک چھوٹا سا لڑکا چلا اٹھا۔ ’’ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘ نعیم نے آگے بڑھ کر کمسن بچے کو اٹھا لیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔’’مجھے آپ لوگوں کے احسانات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اس بستی کا تصور مجھے ہمیشہ مسرور کرتا رہے گا۔ جب میں اس بستی میں آیا تھا تو ایک اجنبی تھا۔اب جبکہ چند ہفتوں کے بعد میں رخصت ہو رہا ہوں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ اپنے عزیز ترین بھائیوں سے جدا ہو رہا ہوں۔ اگر خدا نے چاہا تو ایک بار پھر میں یہاں آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘

اس کے بعد نعیم نے ان لوگوں کو چند نصیحتیں کیں اور دعا کے بعد لوگوں سے مصافحہ کرنا شروع کیا۔

ہومان بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنی مرضی کے خلاف راضی ہو چکا تھا۔ وہ نعیم کے لیے اپنا خوبصورت سفید گھوڑا لے آیا اور نہایت خلوص کے ساتھ یہ تحفہ قبول کرنے کی درخواست کی۔

نعیم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہومان اور گاؤں کے پندرہ نوجوانوں نے نعیم کے ساتھ جہاد پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ نعیم کے اس وعدے پر کہ وہ اپنے لشکر میں پہنچ کر ضرورت کے وقت انہیں بلا بھیجے گا۔ وہ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے۔ نعیم نے رخصت ہونے سے پہلے ادھر ادھر دیکھا لیکن نرگس نظر نہ آئی۔ وہ اسے الوداع کہے بغیر رخصت نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن اس وقت اس کے متعلق کسی سے سوال کرنا بھی مناسب نہ تھا۔

ہومان سے مصافحہ کرتے ہوئے نعیم نے عورتوں کے ہجوم پر سرسری نظر ڈالی۔ نرگس شاید اس کا مطلب سمجھ گئی اور ہجوم سے علیحدہ ہو کر نعیم سے کچھ دور کھڑی ہو گئی۔ نعیم گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے نرگس کے چہرے پر الوداعی نگاہ ڈالی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس کی آنکھیں نعیم کی آنکھوں کے مقابلے میں نہ جھپکیں۔ وہ پتھر کی ایک مورتی کی طرح بے حس و حرکت کھڑی آنکھیں پھاڑ کر نعیم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نعیم درد کی اس شدت سے واقف نہ تھا جس سے آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ وہ اس دلگداز منظر کی تاب نہ لا سکا۔ اس کا دل بھر آیا لیکن جانے سے ٹھہر جانا مشکل نظر آتا تھا۔ نعیم نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ ہومان اور گاؤں کے چند آدمی کچھ دور اس کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ لیکن اس نے انہیں منع کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔

لوگ اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھ کر نعیم کی آخری جھلک دیکھ رہے تھے لیکن نرگس وہیں کھڑی رہی۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاؤں زمین کے ساتھ پیوست ہو چکے ہیں اور اس میں ہلنے کی طاقت نہیں رہی۔ اس کی چند سہیلیاں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ زمرد جو سب سے زیادہ بے تکلف اور ہم راز تھی، مغموم صورت بنائے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس نے گاؤں کی عورتوں کو جمع ہوتے دیکھ کر کہا:

’’تم یہاں کیا دیکھ رہی ہو؟ جاؤ اپنے اپنے گھر!‘‘

چند عورتیں وہاں سے کھسک گئیں مگر بعض وہیں کھڑی رہیں۔ زمرد نے نرگس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: چلو نرگس!‘‘

نرگس نے چونک کر زمرد کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے زمرد کے ساتھ خیمے کے اندر داخل ہو گئی۔ وہ پوستین جسے نعیم اوڑھا کر تا تھا، وہیں پڑی ہوئی تھی۔ نرگس نے بیٹھتے ہوئے پوستین اٹھائی۔ اپنا چہرہ اس میں چھپا لیا۔ آنکھوں میں رکے ہوئے آنسو بہہ نکلے۔زمرد دیر تک اس کے پاس کھڑی رہی۔ بالآخر اس نے نرگس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔’’نرگس! تم مایوس ہو گئیں۔ میں نے انہیں کئی دفعہ وعظ میں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ہمیں خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ وہ مانگنے والوں کو ہر شے بخش سکتا ہے۔ اٹھو نرگس باہر چلیں ! وہ ضرور آئیں گے۔‘‘

نرگس آنسو پونچھتے ہوئے زمرد کے ساتھ باہر نکلی۔ بستی کی ہر چیز پر اداسی چھا رہی تھی۔

دوپہر کے وقت آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ بستی کے باہر کھجوروں کے ایک گھنے جھنڈ کے نیچے چند آدمی جمع تھے۔ ان میں سے بعض باتیں کر رہے تھے اور باقی سو رہے تھے۔ ان لوگوں کی گفتگو کا موضوع قتیبہؒ، محمد بن قاسمؒ اور طارقؒ کی فتوحات تھیں۔

’’بھلا ان تینوں میں سے بہادر کون ہے؟‘‘ ایک نوجوان نے سوال کیا۔

’’محمدؒ بن قاسم۔‘‘ ایک شخص نے ذرا سوچ کر جواب دیا۔ محمدؒ بن قاسم کا نام سن کر ایک شخص جو نیند کے نشے میں جھوم رہا تھا، ہوشیار ہو کر بیٹھ گیا۔

’’محمدؒ بن قاسم؟ ارے وہ کیا بہادر ہے؟ سندھ کے ڈرپوک راجاؤں کو بھگا دیا تو بہادر بن بیٹھا۔ لوگ تو اس سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ وہ حجاج کا بھتیجا ہے۔ اس سے تو طارق اچھا ہے۔‘‘ اس نے یہ کہہ کر آنکھیں بند کر لیں۔

اس پر محمدؒ بن قاسم کے مداح کو طیش آیا تو اس نے کہا۔’’چاند پر تھوکنے سے اپنے ہی منہ پر چھینٹے پڑتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا میں محمدؒ بن قاسم کے مقابلے کا کوئی آدمی نہیں ہے!‘‘

  تیسرا بول اٹھا۔ ’’ہم  محمدؒ بن قاسم کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن یہ کہنے کے لیے تیار نہیں کہ آج اسلامی دنیا میں اس کا کوئی مد مقابل نہیں۔ میرا خیال ہے طارقؒ کے مقابلے کا کوئی سپاہی نہیں۔‘‘

چوتھے نے کہا۔ ’’یہ بھی غلط ہے۔ قتیبہؒ ان دونوں سے بہادر ہے۔‘‘

طارقؒ کے مداح نے کہا۔’’لا حول و لا قوة۔ کہاں طارقؒ اور کہاں قتیبہ۔ یہ تو ہم مان لیتے ہیں کہ قتیبہؒ محمدؒ بن قاسم سے اچھا ہے لیکن طارقؒ سے اسے کوئی نسبت نہیں۔‘‘

’’تمہارا ذلیل منہ اس قابل نہیں کہ تم محمدؒ بن قاسم کا نام لو۔‘‘ ابنؒ قاسم مداح نے پھر طیش میں آ کر کہا۔

’’اور تمہارا ذلیل منہ اس قابل نہیں کہ تم میرے ساتھ کلام کرو!‘‘ طارقؒ کے مداح نے جواب دیا۔ اس پر دونوں تلواریں کھینچ کر ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔ ابھی لڑائی شروع ہی ہوئی تھی کہ عبد اللہ گھوڑے پر آتا دکھائی دیا۔ عبد اللہ نے کچھ فاصلے پر سے یہ منظر دیکھ کر گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اور آن کی آن میں ان کے درمیان آ کھڑا ہوا اور تیغ آزمائی کی وجہ پوچھی۔ ایک شخص نے جواب دیا۔ ’’یہ اس بات کا فیصلہ کر رہے ہیں کہ طارقؒ اچھا ہے یا محمدؒ بن قاسم۔‘‘

’’ٹھہرو! عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور لڑنے والے بھی عبد اللہ کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’تم دونوں غلطی پر ہو، محمدؒ بن قاسم یا  طارقؒ تمہاری تعریف یا مذمت سے بے نیاز ہیں۔ تم مفت میں ایک دوسرے کی گردن کیوں کاٹ رہے ہو؟ سنو! طارقؒ کبھی یہ گوارا نہیں کرے گا کہ کوئی اسے محمدؒ بن قاسم سے اچھا کہے اور محمدؒ بن قاسم بھی یہ سن کر خوش نہ ہو گا کہ کہ وہ طارقؒ سے اچھا ہے، وہ لوگ جو خدا کے حکم پر سب کچھ قربان کر دینے کی خواہش سے میدان جنگ میں جاتے ہیں، ایسی سطحی باتوں سے بے نیاز ہیں۔ تم اپنی تلواریں نیام میں ڈالو اور انہیں ان کے حال پر رہنے دو!‘‘

یہ سن کر تمام لوگ خاموش ہو گئے اور لڑنے والوں نے نادم ہو کر تلواریں نیاموں میں ڈالیں۔ اس کے بعد تمام لوگ اٹھ اٹھ کر عبد اللہ سے مصافحہ کرنے لگے۔ عبد اللہ نے ایک شخص سے اپنے گھر کا حال دریافت کیا۔ اس نے جواب دیا:

’’آپ کے گھر میں ہر طرح کی خیریت ہے۔ میں نے کل آپ کا بچہ دیکھا تھا۔ ماشاء اللہ آپ کی طرح جواں مرد ہو گا۔‘‘

’’میرا بچہ!‘‘ عبد اللہ نے سوال کیا۔۔

’’آپ کو ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی۔ آپ تو ماشاء اللہ تین چار ماہ سے ایک ہونہار بیٹے کے باپ بن چکے ہیں۔ کل میری بیوی آپ کے گھر سے اٹھا لائی تھی۔ میرے بچے اسے دیر تک کھلا رہے۔ بہت خوش طبع لڑکا ہو گا۔‘‘

عبد اللہ نے حیا سے آنکھیں جھکا لیں اور ان لوگوں کو چھوڑ کر گھر کی راہ لی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ ایک ہی جست میں گھر پہنچ جائے لیکن لوگوں سے شرماتے ہوئے گھوڑے کو معمولی رفتار سے جانے دیا۔جب وہ درختوں کی آڑ میں اس کی نظروں سے غائب ہو گئے تو اس نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑا دیا۔

عبد اللہ گھر میں داخل ہوا تو عذرا کھجور کے سایہ میں چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے دائیں طرف ایک خوبصورت بچہ لیٹا ہوا انگوٹھا چوس رہا تھا۔ عبد اللہ بغیر کچھ کہے ایک کرسی آگے بڑھا کر عذرا کے بستر کے قریب بیٹھ گیا۔ عذرا نے ایک شرمیلی نگاہ شوہر کے چہرے پر ڈالی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ عبد اللہ مسکرا دیا۔ عذرا نے آنکھیں جھکا لیں۔ بچے کو گود میں اٹھایا اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ عبد اللہ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر عذرا کا ہاتھ پکڑ کر چوما پھر آہستہ سے بچے کو اٹھایا۔ اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اپنی گود میں لٹا کر اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا اور جب اس نے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے اسے پکڑ لیا تو عبد اللہ نے اپنے خنجر کا دستہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ بچہ خنجر کے دستے کو منہ لگا کر چوسنے لگا۔

عذرا نے اس کے ہاتھ سے خنجر کا دستہ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’اچھا کھلونا لے کر آئے ہیں آپ!‘‘

عبد اللہ نے مسکرا کر کہا۔’’مجاہد کے بچے کے لیے اس سے اچھا کھلونا اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘۔  ’’جب ایسے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے کا وقت آئے گا تو انشاء اللہ اسے برا کھلاڑی نہ دیکھیں گے!‘‘

’’عذرا اس کا نام کیا رکھا؟‘‘

’’آپ بتائیں ؟‘‘

’’عذرا مجھے تو ایک ہی نام پیارا لگتا ہے۔‘‘

’’بتائیے!‘‘

’’نعیم۔‘‘ عبد اللہ نے مغموم سا ہو کر جواب دیا۔

یہ سن کر عذرا کی کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے کہا:

’’مجھے یقین تھا کہ آپ یہی نام پسند کریں گے۔ اس لیے میں نے پہلے ہی یہ نام رکھ دیا ہے۔‘‘

نرگس کی بستی سے رخصت ہو کر کوئی پچاس کوس کا فاصلہ طے کرنے کے بعد نعیم نے تاتاری چرواہوں کی ایک چھوٹی سی بستی میں رات بسر کی۔ وہ ان لوگوں کی راہ و رسم سے واقف تھا، اس لیے جائے قیام ڈھونڈنے میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئی۔ بستی کے سردار نے اسے اسلامی فوج کا ایک افسر خیال کرتے ہوئے اس کی ہر ممکن تواضع کی۔ شام کا کھانے کھانے کے بعد نعیم سیر کے لیے نکلا۔ وہ بستی سے زیادہ دور نہ گیا تھا کہ کچھ فاصلے پر فوجی نقاروں کی آواز سنائی دی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ گاؤں کے لوگ بدحواسی کی حالت میں اپنے گھروں سے نکل کر ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ نعیم بھاگتا ہوا ان کے قریب پہنچا اور ان سے اس پریشانی کی وجہ پوچھی۔

گاؤں کے سردار نے کہا۔’’ نزاق کی افواج مسلمانوں کے لشکر پر ایک ناکام حملہ کر کے پسپا ہونے کے بعد فرغانہ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ ان کے راستے میں جو بستی آتی ہے لوٹ لی جاتی ہے مجھے ڈر ہے اگر وہ اس راستے سے گزرے تو ہمیں سخت تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ یہیں ٹھہریں میں اس پہاڑی پر چڑھ کر ان کا پتہ لگاتا ہوں۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘

نعیم اور تاتاری سردار بھاگتے ہوئے پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے۔ وہاں سے انہیں ڈیڑھ کوس کے فاصلے پر تاتاریوں کا لشکر آتا دکھائی دیا۔ سردار کچھ دیر دم بخود کھڑا رہا۔ آخر وہ خوشی سے اچھل پڑا۔‘‘ ہم بچ گئے۔ وہ ادھر نہیں آ سکیں گے۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے میں یہ خیال کرتا تھا کہ آپ کی آمد ہمارے لیے ایک برا شگون ہے، لیکن اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ کوئی آسمانی دیوتا ہیں۔ یہ آپ کی کرامت ہے کہ بھوکے بھیڑیوں کے اس گروہ نے ہماری طرف سے توجہ پھیر لی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نعیم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے نیچے اترا۔ اس نے بستی کے لوگوں کو خوشخبری سنائی اور وہ تمام اس خبر کی تصدیق کے لیے پہاڑ پر چڑھ گئے۔

شام کا دھندلکا شب کی تاریکی میں تبدیل ہو رہا تھا۔ بستی سے کچھ دور فرغانہ کی طرف جانے والے راستے پر فوج کی خفیف سی جھلک نظر آ رہی تھی۔ لیکن گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز اور نقاروں کی گونج ہر لحظہ دھیمی پڑ رہی تھی اور یہ لوگ مطمئن ہو کر اچھلتے کودتے گاتے اور ناچتے بستی کی طرف لوٹ آئے۔

نعیم کو عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد لیٹتے ہی نینداآآ گئی۔ خواب کے عالم میں مجاہد ایک بار پھر تند گھوڑے پر سوار ہو کر تیروں کی بارش اور تلواروں کے سایہ میں دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ علی الصباح اٹھا اور نماز پڑھنے کے بعد منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گیا۔

چند منازل اور طے کرنے کے نعیم کو ایک دن اسلامی لشکر کا پڑاؤ دکھایا دیا۔ وہ مرو سے اپنے لشکر کی غیر متوقع پیش قدمی پر حیران تھا۔تاہم اسے خیال گزرتا کہ کہ تاتاریوں کے حملے نے انہیں قبل از وقت آگے بڑھنے پر مجبور کر دیا ہو گا۔ قتیبہ بن مسلم بابلی نے اپنے محبوب جرنیل کا نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا۔ فوج کے باقی سالاروں نے بھیا س کی آمد پر بے حد مسرت کا اظہار کیا۔

نعیم سے بہت سے سوالات پوچھے گئے۔ ان تمام کے جواب میں اس نے اپنی مختصر سی سرگزشت کہہ سنائی۔ اس کے بعد نعیم نے قتیبہ بن مسلم سے چند سوالات کیے جن کے جواب میں معلوم ہوا کہ وہ تاتاریوں کو شکست دے کر نزاق کا تعاقب کر رہا ہے۔

رات کے وقت قتیبہ بن مسلم اپنے چند جرنیلوں اور مشیروں کی مجلس میں پیش قدمی کے لیے مختلف تجاویز پر بحث کر رہا تھا۔نعیم نے اسے یقین دلایا کہ ابن صادق فرغانہ کو اپنی تازہ سازشوں کا مرکز بنائے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے تعاقب میں تاخیر نہ کریں۔

صبح کے وقت کوچ کا نقارہ بجایا گیا۔ قتیبہ نے فوج کودو حصوں میں تقسیم کر کے آگے بڑھنے کے لیے دو مختلف راستے تجویز کیے۔ نصف فوج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی اور دوسرا حصہ جس میں نعیم شامل تھا، اپنے بھائی کے سپرد کیا۔ نعیم چونکہ راستے کے نشیب و فراز سے واقف تھا، اس لیے قتیبہ کے بھائی نے اسے ہراول متعین کر دیا۔

نرگس ایک پتھر کی پر بیٹھی چشمے کے شفاف پانی سے کھیل رہی تھی۔ وہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھا کرپانی میں پھینکتی اور پھر انہیں آہستہ آہستہ تہہ تک جاتے دیکھتی رہتی۔ جب ایک کنکری پانی کی تہہ تک پہنچ جاتی تو وہ دوسری اٹھا کر پانی کی سطح پر چھوڑ دیتی۔ کبھی کبھی وہ اس کھیل سے اکتا کر سامنے میدان کی طرف دیکھتی جس کی وسیع حدود کے اختتام پر گھنے درختوں کے سبز لباس میں لپٹی ہوئی پہاڑیاں کھڑی تھیں۔ ان پہاڑوں کے پیچھے اونچے اونچے پہاڑوں کی سفید برفانی چوٹیاں نظر آ رہی تھیں۔ موسم بہار کے آغاز کی کیف آور ہوا چل رہی تھی۔ دائیں جانب سیب کے درختوں اور انگور کی بیلوں میں شگوفے پھوٹ رہے تھے۔

نرگس اپنے خیالات میں محو تھی کہ پیچھے سے زمرد نے دبے پاؤں آ کر ایک پتھر اٹھا کر پانی میں پھینکا۔ پانی اچھلنے سے چند چھینٹے نرگس کے کپڑوں پر پڑ گئے۔ نرگس نے گھبرا کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ زمرد نے قہقہہ لگایا لیکن نرگس کی طرف سے کوئی جواب نہ دیا۔ زمرد اپنی ہنسی کو روکتے اور چہرے کو نرگس کی طرح سنجیدہ بنائے ہوئے آگے بڑھی اور نرگس کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔

’’نرگس! میں نے تمہیں آج بہت ڈھونڈا۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘ نرگس نے پانی ایک ہاتھ سے اچھالتے ہوئے جواب دیا۔

’’تم کب تک اس طرح گھل گھل کر جان دو گی۔ تمہارا چہرہ پہلے سے آدھا بھی نہیں رہا۔کس قدر زرد ہو گئی ہو تم؟‘‘

’’زمرد! مجھے بار بار تنگ کرو۔ جاؤ!‘‘

’’میں مذاق نہیں کرتی نرگس، خدا جانتا ہے کہ میں تمہیں دیکھ کر بیحد پریشان ہوتی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر زمرد نے نرگس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور اس کا سر اپنی طرف کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔ نرگس نے ایک بیمار بچے کی طرح اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔

  ’’کاش میں تمہارے لیے کچھ کر سکتی۔‘‘ زمرد نے نرگس کی پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، نرگس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے درد بھری آواز میں کہا:

’’میرے لیے جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ میں نے پہاڑ کی چوٹی کے دلکش مناظر کو دیکھا لیکن راستے کی دشواریوں پر دھیان نہ کیا زمرد! وہ میرے لیے نہیں تھا۔ میں اس قابل بھی نہ تھی۔ مجھے اس سے شکایت بھی نہیں۔ میرے جیسی ہزاروں لڑکیاں اس کے پاؤں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کے لیے ترستی ہوں گی۔ لیکن وہ یہاں کیوں آیا؟ اگر آیا تو چلا کیوں گیا۔ میں اسے دیکھتے ہی بے قرار اور پریشان کیوں ہونے لگی؟ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا ہوتا لیکن اس میں کونسی ایسی طاقت تھی جو میری زبان پر اس طرح قابو پا لیتی تھی۔ میں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ہم لوگوں سے بہت مختلف ہے، اپنے آپ کو اس کے پاؤں میں ڈالنے کی کوشش کی۔ میں اس انجام سے ڈرتی تھی لیکن کاش خوف مجھے اس کنوئیں میں ڈرنے سے روک سکتا۔ زمرد! میں بچپن ہی سے یہ خواب دیکھا کرتی تھی کہ آسمان سے ایک شہزاد اترے گا اور میں اس پر دل و جان سے نثار ہو کر اسے اپنا بنا لوں گی۔ میرا شہزادہ آیا لیکن میں اسے اپنا بنانے سے ڈرتی رہی۔ زمرد! کیا یہ بھی ایک خواب تھا؟ کیا اس خواب کی کوئی تعبیر ہو گی؟ زمرد! زمرد!! مجھے کیا ہو گیا ہے؟ تم پھر یہی کہو گی کہ میں صبر سے کام نہیں لیتی۔ کاش صبر میرے بس کی بات ہوتی!‘‘

’’نرگس! ہر خواب کی تعبیر کے لیے وقت معین ہوتا ہے۔ انتہائی مایوسیوں میں بھی انتظار اور امید ہمارا آخری سہارا ہونا چاہیے۔ خدا سے دعا کیا کرو۔ اس طرح آہیں بھرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اب اٹھو آئیں سیر کر آئیں۔‘‘

نرگس اٹھ کر زمرد کے ساتھ چل دیا۔ وہ ابھی چند قدم گئی تھیں کہ دائیں طرف سے ایک سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا دکھائی دیا۔سوار نے لڑکیوں کے قریب آ کر گھوڑا روک لیا۔ زمرد اسے دیکھ کر چلا اٹھی۔’’نرگس نرگس۔ تمہارا شہزادہ آگیا!‘‘

نرگس وہیں کی وہیں کھڑی رہی۔ اس کی مملکتِ دل کا بادشاہ سامنے کھڑا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر شبہ ہو رہا تھا۔ اس کے دماغ پر ایک غنودگی سی طاری ہو رہی تھی۔ انتہائی خوشی یا انتہائی غم کی حالت میں جس کا سامنا کرنے کے بعد انسان بے حس سا ہو جاتا ہے، نرگس نے کسی خواب کی سی حالت میں چلنے والے کی طرح دو تین قدم اٹھائے اور لڑکھڑا کر زمین پر گری پڑی۔ نعیم فوراً گھوڑے سے اترا اور اس نے آگے بڑھ کر سہارا دے کر نرگس کو اٹھایا۔

’’نرگس کیا ہوا؟‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘ نرگس نے آنکھیں کھول کر نعیم کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا:

’’مجھے دیکھ کر ڈر گئیں ؟‘‘

نرگس کچھ جواب دیے بغیر دم بخود ہو کر نعیم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے اس قدر قریب سے دیکھنا اس کی توقع سے زیادہ تھا لیکن نعیم اس کی حالت سے مطمئن ہو کر اس سے دو قدم ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔نرگس دامن میں آئے ہوئے پھول کی جدائی کا تصور برداشت نہ کر سکی۔ اس کے جسم کے ہر رگ و ریشے میں ایک ارتعاش سا پیدا ہونے لگا۔ وہ نسوانی غرور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھی اور مجاہد کے قدموں پر جھک گئی۔

نعیم کی طاقتِ ضبط جواب دے رہی تھی۔ اس نے نرگس کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور زمرد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’زمرد! انہیں گھر لے جاؤ!‘‘

نرگس نے باری باری نعیم اور زمرد کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ پھر ایک بار مڑ کر نعیم کی طرف دیکھا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا اٹھا کر گھر کا رخ کیا۔ نعیم نے زمرد کی طرف دیکھا وہ اسی جگہ کھڑی تھی۔

نعیم نے غمگین لہجے میں کہا۔’’زمرد! جاؤ اسے تسلی دو!‘‘

  زمرد نے جواب دیا۔ ’’کیسی تسلی؟ آپ نے آ کر اس کا آخری سہارا بھی توڑ دیا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ آپ نہ آتے۔‘‘

’’میں ہومان سے ملنے آیا تھا۔ وہ کہاں ہے؟‘‘

’’وہ شکار کھیلنے گیا ہوا ہے۔‘‘

’’پھر میرا گھر جانا بے سود ہے۔ ہومان کو میرا سلام کہنا اور اسے بتا دینا کہ مجبوری کی وجہ سے نہیں ٹھہر سکا۔ ہماری فوج فرغانہ کی طرف جا رہی ہے۔‘‘

نعیم یہ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوا لیکن زمرد نے آگے بڑھ کر گھوڑی کی باگ پکڑ لی اور کہا۔’’میں تو سمجھا کرتی تھی کہ آپ سے زیادہ نرم دل انسان اور کوئی نہیں ہو گا لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ آپ مٹی کے بنے ہوئے نہیں ہیں۔ کسی اور چیز کے بنے ہوئے ہیں۔ اب تو اس بدنصیب کے جسم میں جان بھی نہیں رہی۔‘‘

’’زمرد! ادھر دیکھو۔‘‘ نعیم نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ زمرد نے اس طرح دیکھا۔ ایک لشکر آتا ہوا دکھائی دیا۔

اس نے کہا۔’’شاید کوئی فوج آ رہی ہے۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’وہ ہماری فوج آ رہی ہے۔ میں ہومان سے چند باتیں کرنے کے لیے فوج سے آگے نکل آیا تھا۔‘‘

زمرد نے کہا۔ ’’آپ ٹھہریں۔ شاید وہ آج راتا جائے۔‘‘

’’اس وقت میرا ٹھہرنا محال ہے۔ میں پھراؤں گا.... نرگس کے دل میں میرے متعلق شاید غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے۔ تم اسے جا کر تسلی دو۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اس قدر کمزور دل کی مالک ہے۔ اسے اطمینان دلاؤ کہ میں ضرور آؤں گا۔ میں اس کی دل کی کیفیت سے واقف ہوں۔‘‘

زمرد نے جواب دیا۔ ’’جہاں تک باتوں کا تعلق ہے۔ میں اسے پہلے بھی بہت تسلی دیا کرتی ہوں لیکن اب وہ شاید میری باتوں کا یقین نہ کرے۔کاش آپ نے اپنے منہ سے تسلی کا ایک لفظ ہی کہہ دیا ہوتا۔ اب اگر آپ اسے کے لیے کوئی نشانی دے سکیں تو اس کی تسلی کر سکوں۔‘‘

نعیم نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور جیب سے رومال نکال کر زمرد کو پیش کیا اور کہا:

’’یہ اسے دے دینا!‘‘

بستی کے لوگ فوج کی آمد سے باخبر ہو کر بدحواسی میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔نعیم نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور انہیں بتایا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں۔ وہ مطمئن ہو کر نعیم کے گرد جمع ہو گئے۔ نعیم گھوڑے سے اتر کر ہر ایک سے بغلگیر ہوا۔ اتنے میں فوج بستی کے قریب آ گئی۔ اخوت اسلام کا رشتہ عجیب تھا۔ یہ لوگ نعیم کے ساتھ اسلامی فوج کے استقبال کے لیے نکلے۔ نعیم نے سپہ سالار سے ان کا تعارف کروایا۔ فوج کے عزائم سے واقف ہو کر چند لوگوں نے جہاد پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ سپہ سالار نے انہیں فوراً تیار ہو جانے کا حکم دیا۔ ان سب لوگوں میں سے زیادہ بے تابی ظاہر کرنے والا نرگس کا ایک چچا برمک تھا جو اپنی زندگی کی پچاس بہاریں دیکھنے کے باوجود قوی ہیکل اور تنومند تھا۔ ان لوگوں کو تیاری کا موقع دینے کے لیے فوج کو کچھ دیر قیام کا حکم مل گیا۔

ایک ساعت کے بعد بیس آدمی تیار ہو گئے اور فوج کو آگے بڑھنے کا حکم ہوا۔ بستی کی عورتیں فوج کے کوچ کا منظر دیکھنے کے لیے ایک پہاڑ پر جمع ہو گئیں۔ نعیم سب سے آگے ہراول کی رہنمائی کر رہا تھا۔ نرگس اور زمرد عورتوں سے الگ اور راہ گزر سے ذرا زیادہ قریب کھڑی آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ نرگس کے ہاتھ میں نعیم کا رومال تھا۔

زمرد نے نعیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’نرگس تمہارا شہزادہ تو سچ مچ شہزادہ نکلا!‘‘

نرگس نے جواب دیا۔ ’’کاش وہ میرا ہو۔‘‘

  ’’تمہیں اب بھی یقین نہیں آتا؟‘‘

’’یقین آتا بھی ہے اور نہیں بھی۔ جب مایوسی کی گھٹائیں ایک بار امید کا چراغ بجھا دیتی ہیں تو پھر اس کو روشن کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر سچ پوچھو تو مجھے تمہاری باتوں کا پورا پورا یقین نہیں آتا زمرد! سچ کہو، تم مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہی ہو؟‘‘

’’نہیں۔ تمہیں اگر یقین نہیں آتا تو انہیں بلا لاؤں۔ وہ ابھی زیادہ دور نہیں گئے ہیں۔‘‘

’’نہیں زمرد تم قسم کھاؤ!‘‘

’’تمہیں کس قسم پر اعتبار آئے گا؟‘‘

’’تم اپنے شہزادے کی قسم کھاؤ۔‘‘

’’کون سے شہزادے کی؟‘‘

’’ہومان کی!‘‘

’’تمہیں کس نے بتایا کہ وہ میرا شہزادہ ہے؟‘‘

’’تم نے۔‘‘

’’کب؟‘‘

’’اس دن جب وہ ریچھ کے شکار سے زخمی ہو کر آیا تھا تو تم نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی۔‘‘

’’ اس سے تم نے کیا اندازہ لگایا؟‘‘

’’زمرد! بھلا تم مجھ سے کیا چھپا سکتی ہو۔ مجھ پر بھی ایسا وقت گزر چکا ہے۔ تمہیں یاد نہیں رہا کہ وہ بھی زخمی ہو کر آئے تھے۔‘‘

’’اچھا تو اگر میں ان کی قسم کھاؤں تو تمہیں یقین آ جائے گا؟‘‘

’’شاید آ جائے۔‘‘

’’اچھا میں ہومان کی قسم کھا تی ہوں کہ میں مذاق نہیں کرتی۔‘‘

’’زمرد! زمرد!! نرگس نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تم مجھے بار بار تسلی نہ دیتیں تو شاید میں مر گئی ہوتی۔ تم نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ کب آئیں گے؟‘‘

’’وہ بہت جلد آئیں گے۔ اگر جلد نہ آئیں گے تو....!‘‘

’’تو؟ نرگس نے بد حواس ہو کر پوچھا۔

زمرد نے شرماتے ہوئے کہا۔’’میں تمہارے بھائی کو انہیں لانے کے لیے بھیج دوں گی۔‘‘

سفیر

چھ ماہ گزر گئے نعیم نہ آیا۔ اس دوران میں قتیبہ، نزاق کو قتل کر کے ترکستان کی بغاوت کی آگ بہت حد تک ٹھنڈی کر چکا تھا۔ نزاق کا زبردست حلیف شاہ جرجان بھی قتل ہو چکا تھا۔ اس مہم سے فارغ ہونے کے بعد قتیبہ سغد کے بقیہ علاقوں کو فتح کرتا ہوا سیستان تک جا پہنچا۔ وہاں سے شمال کی طرف لوٹا اور خوارزم جا پہنچا۔ شاہ ِ خوارزم نے جزیہ ادا کرنے کا وعدہ کر کے صلح کر لی۔ خوارزم میں خبر ملی کہ اہل سمرقند عہد شکنی کی بغاوت کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

قتیبہ فوج کے چند دوستوں کے ساتھ یلغار کرتا ہوا سمرقند پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔یہ شہر محفوظ فصیل اور قلعے کی مضبوطی کے لحاظ سے بخارا کم نہ تھا۔ قتیبہ نے نہایت اطمینان سے محاصرہ جاری رکھا۔ مہینوں کے بعد شاہ سمرقند نے صلح کی درخواست کی، جواب میں قتیبہ نے صلح کی شرائط لکھ بھیجیں۔ بادشاہ نے یہ شرائط منظور کر لیں اور شہر کے دروازے کھول دیے گئے۔

سمرقند کے ایک صنم خانے میں ایک بت کا احترام کیا جاتا تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ جو شخص اسے ہاتھ لگاتا ہے فوراً ہلاک ہو جاتا ہے۔ قتیبہ اس صنم خانے میں داخل ہوا اور اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے کے بعد ایک ہی ضرب سے اس خوفناک مجسمے کے ٹکڑے اڑا دیے۔ اس بت کے شکم سے ۰۵ ہزار مثقال سونا برآمد ہوا۔ قتیبہ کی جرات دیکھ کر اسے اس مقدس دیوتا کے کے غضب سے محفوظ پا کر سمرقند کے بے شمار لوگوں نے کلمہ توحید پڑھ لیا۔

قتیبہ بن مسلمان اپنی فتوحات اور شہرت کی آخری حدود تک پہنچ چکا تھا۔ ۵۹ء میں اس نے فرغانہ کا رخ کیا اور بہت سے شہر فتح کیے۔ اس کے بعد وہ اسلامی پرچم لہراتا ہوا کاشغر تک جا پہنچا۔ آگے مملکت چین کی حدود تھیں۔

قتیبہ کاشغر سے چین کی شما لی مغربی سرحد پر حملے کی تیاری کرنے لگا۔ شاہ چین نے قتیبہ کے عزائم سے باخبر ہو کر اس کے پاس اپنا پاس بھیجا اور صلح کی شرائط لے کرنے کے لیے مسلمانوں کی ایک سفارت طلب کی۔سفارت کے فرائض انجام دینے کے لیے قتیبہ نے ہبیرہ اور نعیم کے علاوہ پانچ اور تجربہ کار افسر منتخب کیے۔

شاہ چین کے سفارت خانے میں ہبیرہ اور نعیم اور ان کے دوسرے ساتھی ایک خوبصورت قا لین پر بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔

’’قتیبہ کو کیا اطلاع بھیجی جائے؟‘‘ ہبیرہ نے نعیم سے سوال کیا۔

’’شاہ چین کا لشکر ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ کس رعونت سے ہمارے ساتھ پیش آیا ہے!‘‘

نعیم نے کہا۔’’ وہ شاہ ایران سے زیادہ مغرور نہیں ہے اور نہ طاقت میں ہی اس سے زیادہ ہے۔ اسکے آرام طلب سپاہی ہمارے گھوڑوں کی سموں کی آواز سن کر بھاگ جائیں گے۔ ہم نے اپنی شرائط پیش کر دی ہیں۔ اسکا جواب آنے تک انتظار کیجئے۔

  فی الحال قتیبہ کو لکھ دیجئے کہ چین کی تسخیر کے لیے نئی فوجوں ضرورت نہیں ہے۔ لڑائی کی نوبت آئی تو ہمارے سپاہی جو ترکستان میں موجود ہیں۔ اس ملک کو فتح کرنے کے لیے کافی ہیں۔‘‘

ایک درباری کمرے میں داخل ہوا اور اس نے جھک کر ہبیرہ اور اس کے ساتھیوں کو سلام کیا اور کہا۔’’جہاں پناہ پھر ایک بار آپ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ہبیرہ نے جواب دیا۔’’ آپ اپنے بادشاہ سے کہیں کہ ہم اپنی شرائط میں رد و بدل نہیں کر سکتے۔ اگر اسے ہماری شرائط منظور نہیں تو ہمارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی؟‘‘

’’جہاں پناہ شرائط کے علاوہ آپ سے چند باتیں اور بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے حکم ہوا ہے کہ آپ میں سے ایک صاحب کو ان کی خدمت میں لے جاؤں۔ جہاں پناہ اس بات محسوس کرتے ہوئے کہ آپ لوگ اتنی دور سے مال و زر کی ہوس میں لوٹ مار کرتے ہوئے آئے ہیں۔ آپ کو کچھ عطیہ دے کر دوستوں کی طرح رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ آپ کے ملک اور قوم کے متعلق بھی کچھ جاننا چاہتے ہیں۔‘‘

نعیم نے اپنی تلوار درباری کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’اسے لے جاؤ، یہ تمہارے بادشاہ کے ہر سوال کا جواب دے گی!‘‘

’’آپ کی تلوار؟‘‘ درباری نے حیران ہو کر کہا۔

’’ہاں، اپنے بادشاہ سے کہو کہ اس تلوار کی دھار پر ہماری قوم کی داستان لکھی ہوئی ہے اور اسے یہ بھی بتاؤ کہ ہم اس کے تمام خزانوں کے مجاہدوں کے گھوڑوں سے اڑنے والی گرد کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔‘‘

درباری نے نادم ہو کر کہا:’’ جہاں پناہ کا مقصد آپ کو ناراض کرنا نہیں۔ وہ آپ کی جرات کا اعتراف کرتے ہیں۔ آپ ایک بار ملاقات کریں۔مجھے یقین ہے کہ اس ملاقات کے نتائج خوش گوار ہوں گے۔‘‘

ہبیرہ نے نعیم سے عربی زبان میں کہا۔’’ہمیں بادشاہ کو ایک اور موقع دینا چاہیے۔آپ جا کر تبلیغ کریں۔‘‘

نعیم نے جواب دیا۔’’آپ مجھ سے زیادہ تجربہ کار ہیں۔‘‘

’’میں آپ کو اس لیے بھیج رہا ہوں کہ آپ کی زبان اور تلوار دونوں بہت تیز ہیں۔ آپ مجھ سے مؤثر گفتگو کر سکیں گے۔‘‘

نعیم یہ سن کر اٹھا اور درباری کے ساتھ ہو لیا۔

دربار میں داخل ہونے سے پہلے دروازہ پر ایک شاہی غلام سنہری طشتری میں ایک زرتار جبہ لے کر حاضر ہوا لیکن نعیم نے اسے پہننے سے انکار کر دیا۔

درباری نے کہا۔’’آپ کی قمیص بہت پرانی ہے۔ آپ بادشاہ کے دربار میں جا رہے ہیں۔‘‘ نعیم نے جواب دیا۔’’تمہارے قیمتی لباس میں تمہیں شاہوں کے دربار میں سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ لیکن تم دیکھو گے کہ میری پھٹی پرانی قمیص مجھے تمہارے بادشاہ کے سامنے گردن جھکانے کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘

نعیم کا موٹے اور کھردرے چمڑے کا جوتا گرد آلو دتھا۔ ایک غلام نے جھک کر اسے ریشمی کپڑے سے صاف کرنا چاہا۔ نعیم نے اسے بازو سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور کچھ کہے بغیر آگے چل دیا۔

شاہِ چین اپنی ملکہ کے ساتھ ایک سنہری تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے زرد چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔ ملکہ بھی اگرچہ ادھیڑ عمر تھی لیکن اس کا سڈول چہرہ گزری ہوئی جوانی کے حسن بہار کا پتہ دے رہا تھا۔ وہ فرغانہ کے شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور اس کے چہرے کے نقوش چینی عورتوں کی نسبت ذرا تیکھے تھے۔ ولی عہد گلے میں جواہرات کی ایک بیش قیمت مالا پہنے ہوئے تھا۔ بادشاہ کے بائیں جانب چند لونڈیاں شراب کے جام اور صراحیاں لیے کھڑی تھیں۔

  ان کے درمیان حسن آراء ایک ایرانی لونڈی اپنی شکل و شباہت سے دوسری لونڈیوں سے ممتاز نظر آتی تھی۔ اس کے لمبے لمبے سنہری بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ سر پر سبز رنگ کا ایک رومال تھا۔ وہ سیاہ رنگ کی ایک قمیص پہنے ہوئے تھی جو کمر سے اوپر جسم کے ساتھ اس حد تک پیوست تھی کہ سینے کا ابھار صاف طور پر نظر آ رہا تھا۔ نیچے رنگ کا کھلا پاجامہ تھا۔ حسن آرا باقی تمام عورتوں سے بلند قامت تھی۔

نعیم ایک فاتح کی طرح دربار میں داخل ہوا۔ بادشاہ اور درباریوں پر ایک نگاہ دوڑائی اور السلام علیکم کہا۔

بادشاہ نے اپنے درباریوں کی طرف اور درباریوں نے بادشاہ کی طرف دیکھا۔ نعیم نے سلام کا جواب نہ پا کر بادشاہ کے چہرے پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ بادشاہ نے مجاہد کی تیزی نظر کی تاب نہ لا کر آنکھیں جھکا لیں۔ ولی عہد اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے نعیم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ نعیم اس کے ساتھ مصافحہ کر کے اس کے اشارے سے ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔

بادشاہ نے اپنی ملکہ کی طرف دیکھا اور تاتاری زبان میں کہا۔’’مجھے یہ بہت دلچسپ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا ملک فتح کرنے آئے ہیں۔ ذرا ان کا لباس تو دیکھنا!‘‘

نعیم نے جواب دیا۔’’سپاہی کی طاقت کا اندازہ اس کے لباس سے نہیں بلکہ اس کی تلوار کی تیزی اور بازو کی طاقت سے لگانا چاہیے۔‘‘

شاہ چین کا خیال تھا کہ نعیم تاتاری زبان سے بے بہرہ ہے۔ لیکن اس جواب نے اسے پریشان کر دیا۔ اس کہا۔’’خوب! تم تاتاری زبان جانتے ہو۔ نوجوان! میں تمہاری جرات کی داد دیتا ہوں لیکن اگر تم اپنی طاقت کی آزمائش کے لیے کوئی اور مد مقابل چنتے تو شاید تمہارے لیے اچھا ہوتا۔ تم اس سلطنت کے بادشاہ کو ترکستان کے چھوٹے چھوٹے نام نہاد حکمرانوں جیسا سمجھنے میں غلطی کرتے ہو۔ میرے برق رفتار گھوڑے تمہارے مغرور سروں کو پیس ڈالیں گے، تم نے جو کچھ حاصل کیا ہے۔ اس پر قناعت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم چین کو فتح کرتے کرتے ترکستان بھی کھو بیٹھو!‘‘

نعیم جوش میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ تلوار کے قبضے پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’مغرور بادشاہ! یہ تلوار ایران اور روم کے شہنشاہوں کو خاک میں ملا چکی ہے۔تم اس کی ضرب کی تاب نہیں لا سکو گے۔ تمہارے گھوڑے ایرانیوں کے ہاتھیوں سے زیادہ طاقتور نہیں۔‘‘

نعیم کے الفاظ سے دربار پر ایک سناٹا چھا گیا۔ بادشاہ نے اپنے سر کو خفیف سی جنبش دی، حسن آراء نے آگے بڑھ کر جام شراب پیش کیا اور پھر اپنی جگہ پرا کھڑی ہوئی۔

ایک لونڈی نے حسن آرا کے کان میں حسن آراء کے کاں میں آہستہ سے کہا۔’’جہاں پناہ جلال میں آ رہے ہیں۔ یہ نوجوان حد سے تجاوز کر رہا ہے!‘‘

حسن آراء نے نعیم کو ایک دلفریب تبسم کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔’’یہ بے وقوفی کی حد تک بہادر ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ ایسی جرات کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟‘‘

بادشاہ نے شراب کے چند گھونٹ پیئے اور نعیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:

’’نوجوان! میں پھر ایک بار تمہاری جرات کی داد دیتا ہوں۔ ہمارے دربار میں آج تک کسی کو اس طرح بولنے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہ خیال نہ کرنا کہ ہم تمہاری دھمکیوں سے مرعوب ہو جائیں گے۔ تمہاری بہادری کا امتحان بھی ہو جائے گا لیکن ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ تم لوگ دنیا کی پرامن سلطنتوں میں بد امنی کیوں پیدا کرتے پھرتے ہو۔ تمہیں اگر حکومت کا لالچ ہے تو تمہاری سلطنت پہلے ہی بہت وسیع ہے۔ اگر دولت کی حرص ہے تو ہم خوشی سے تمہیں بہت کچھ عطا کر دیں گے۔ تمہارا دامن سونے اور چاندی سے بھر دینے کے باوجود ہمارے خزانوں میں کمی نہیں آ سکتی۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟‘‘

نعیم نے جواب دیا:

’’ہم اپنی شرائط پیش کر چکے ہیں۔ آپ نے ہمارے متعلق غلط اندازہ لگایا۔ ہم دنیا میں بد انتظامی پیدا کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم اس امن کے قائل نہیں جس میں ایک طاقت ور ملک کا ظلم ایک کمزور کو اپنی بے بسی پر قانع رہنے کے لیے مجبور کر دیتا ہے۔ ہم تمام دنیا کے امن کے لیے ایک عالم گیر قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں جس میں طاقت ور کا ہاتھ کمزور سے بلند نہ ہو، جس میں آقا و بندہ کی تمیز نہ ہو، جس میں بادشاہ اور رعایا کے درمیان کوئی وجہ امتیاز باقی نہ رہے اور وہ قانون اسلام ہے۔ ہمیں دولت اور حکومت کا لالچ نہیں بلکہ ہم دنیا کی اسبتدادی طاقتوں سے مظلوموں کے کھوئے ہوئے حقوق واپس دلانے کے لیے آئے ہیں۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ ہم دنیا کی مضبوط ترین حکومت کے مالک ہونے کے باوجود بھی دنیوی جاہ و حشمت سے بے نیاز ہیں۔‘‘

نعیم یہاں تک کہہ کر بیٹھ گیا۔ دربار پر ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔

حسن آراء نے اپنے ساتھ والی لونڈی سے کہا۔’’مجھے اس خوش وضع نوجوان پر رحم آتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زندگی سے تنگ آ چکا ہے۔ جہاں پناہ کے ہاتھ کا معمولی اشارہ اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دے گا لیکن میں حیران ہوں کہ جہاں پناہ آج ضرورت سے زیادہ رحم دل ثابت ہو رہے ہیں۔ دیکھیں اس کا کیا حشر ہوتا ہے! اس جوانی میں مفت کی موت خریدنا کتنی حماقت ہے!‘‘

بادشاہ نے نعیم کی تقریر کے دوران ایک دو مرتبہ بے چینی سے پہلو بدلا اور کوئی جواب دینے کی بجائے اپنے تمام درباریوں کی طرف نگاہ دوڑائی۔ پھر ملکہ کی طرف دیکھا اور چینی زبان میں چند باتیں کرنے کے بعد نعیم سے کہا۔’’ ہم اس معاملے پر پھر گفتگو کریں گے۔ آج ہماری مرضی کے خلاف بہت سی دل آزار باتیں ہوئی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مجلس میں کوئی دلچسپی کا سامان پیدا کیا جائے۔‘‘ یہ کہہ کر بادشاہ نے حسن آراء کی طرف دیکھا اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔ حسن آراء آگے بڑھی اور بادشاہ اور درباریوں کے درمیان آ کر کھڑی ہو گئی۔ نعیم کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ پاؤں کو جنبش دے کر ہاتھ دونوں طرف پھیلا دیے۔ ایک ریشمی پردے کے پیچھے سے طاؤس و رباب کی صدائیں سنائی دینے لگیں۔ حسن آراء دھیمے سروں کے ساتھ آہستہ آہستہ قدم اٹھائی ہوئی تخت کے قریب دو زانو ہو کر بیٹھ گئی۔ بادشاہ نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ حسن آراء نے ادب سے چوما اور اٹھ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ طاؤس و رباب کی صدائیں یک لخت بلند ہوئیں۔ حسن آراء بجلی کی سی تیزی سے اپنے گرد چکر لگا کر رقص کرنے لگی۔ اس کے جسم کا ہر عضو اپنی نزاکت اور جاذبیت کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ وہ کبھی سر کو جھٹکا دے کر لمبے لمبے بالوں کو اپنی حسین چہرے پر بکھیر لیتی اور کبھی سر کو جنبش دے کر بالوں کو پیچھے ہٹاتی اور اپنے حسین چہرے کو اچانک بے نقاب کر کے تماشائیوں کو محو حیرت دیکھ کر مسکراتی، کبھی اس کے سڈول اور سفید بازو سر سے اوپر بلند ہو کر زخم خوردہ سانپ کی طرح پیچ و بل کھاتے۔ کبھی وہ تھرکتی ہوئی آگے بڑھتی اور کبھی پیچھے ہٹتی۔ بعض اوقات وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر آگے اور پیچھے کی طرف اس حد تک جھکتی کہ اس کے بال زمین کو چھونے لگتے۔ غرض وہ اپنی ہر ادا سے ’’انا البرق‘‘ کہہ رہی تھی۔ وہ رقص کرتی ہوئی ایک سنہری پھول دان کے قریب پہنچی اور وہاں سے گلاب کا ایک پھول توڑ کر نعیم کے قریب آئی اور اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئی۔ نعیم آنکھیں جھکائے بیٹھا تھا۔ رقاصہ کی اس حرکت پر اس کا دل دھڑکنے لگا۔ وہ اپنے کانوں اور رخساروں پر جلن سی محسوس کرنے لگا۔ رقاصہ نے پھول کو اپنے ہونٹوں سے لگایا اور پھر دونوں ہاتھوں سے رکھ کر نعیم کو پیش کیا۔ جب نعیم نے آنکھیں اوپر نہ کیں تو رقاصہ نے ہاتھ اور آگے بڑھا دیے، یہاں تک کہ اس کی انگلیاں نعیم کے سینے کو چھونے لگیں۔ نعیم نے اس کے ہاتھ سے پھول لے کر نیچے پھینک دیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔رقاصہ تلملا کر اپنے ہونٹ کاٹتی ہوئی اٹھی اور نعیم کی طرف ایک لمحہ کے لیے قہر آلود نگاہوں سے دیکھنے کے بعد وہاں سے بھاگی اور ایک دروازے کے ریشمی پردے کے پیچھے غائب ہو گئی۔ حسن آراء کے قریب جاتے ہی رباب کی تانیں بھی بند ہو گئیں اور دربار پر سکوت طاری ہو گیا۔

  بادشاہ نے کہا۔’’آپ کو شاید یہ رقص و سرود پسند ہیں آیا؟‘‘

نعیم نے جوا ب دیا۔ ’’ہمارے کانوں کو صرف وہی اچھا لگتا ہے جو تلواروں کی جھنکار سے پیدا ہوتا ہو۔ ہماری تہذیب عورتوں کو رقص کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اب نماز کا وقت ہو رہا ہے، مجھے جانا چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کہ نعیم لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا دربار سے باہر نکلا۔ دروازے پر حسن آراء کھڑی تھی۔ اس نے نعیم کو آتے دیکھ کر تیوری چڑھائی اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ نعیم بے پروائی سے آگے نکل گیا۔ حسن آراء کو ایک بار پھر اپنی شکست کا احساس ہوا۔

’’تم بہت حقیر ہو۔ مجھے تم سے بہت نفرت ہے۔‘‘ اس نے تاتاری زبان میں نعیم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا لیکن نعیم نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ جب نعیم دور چلا گیا تو وہ مایوس ہو کر واپس نہ مڑی۔ اس کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اسے سرنگوں ہو کر چلنا پڑا۔

رات کے وقت نعیم اپنے بستر پر لیٹا سونے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ اس کے ساتھی گہری نیند سو رہے تھے۔ کمرے میں بہت شمعیں جل رہی تھیں۔ دن کے واقعات بار بار دماغ میں آ کر اسے پریشان کر رہے تھے۔ حسن آراء کے تصور سے اس کے خیالات کی پرواز اسے بار بار نرگس تک لے جاتی تھی۔ ان دونوں کی صورت میں بہت حد تک مناسب تھی، لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ حسن آراء حسین تھی اور اپنے حسن کا احساس بھی تھا۔یہ احساس اس خطرناک حد تک غالب آ چکا تھا کہ وہ اپنے حسن سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی خواہش میں پاکیزگی اور معصومیت سے محروم ہو چکی تھی۔ اس کی شکل و صورت میں سادگی کی بجائے تصنع کا پہلو غالب نظر آتا تھا۔ اس کے برعکس نرگس حسن فطرت کی ایک سادہ، معصوم اور غیر فانی تصویر تھی۔نرگس سے آخری بار رخصت ہونے کا منظر اسے بار بار یاد آتا تھا۔ نعیم پر جو کچھ نرگس ظاہر کر چکی تھی، وہ اسے بھولا نہیں تھا۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ نرگس کے معصوم دل کی گہرائیوں میں بے پناہ محبت کا طوفان بیدار کر چکا ہے۔گذشتہ چند مہینوں میں اس نے کئی بار نرگس کے پاس جانے کا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ کیا لیکن یہ ارادے ہر بار اس کی مجاہدانہ ولولوں میں دب کر رہ جاتے تھے۔ ہر فتح ایک نئی مہم کا دروازہ کھول دیتی اور نعیم ہر نئی مہم کو آخری مہم قرار دے کر نرگس کے پاس جانے کا ارادہ کسی اور وقت پر ملتوی کر دیتا تھا لیکن اس بے نیازی کی وجہ فقط یہی نہ تھی۔ اس کی حالت اس مسافر کی سی تھی جو ایک لمبے سفر میں اپنے زادہ راہ کی قیمتی اور ضروری چیزیں ڈاکوؤں کی نذر کرنے کے بعد اس قدر مایوس ہو جائے کہ اپنا تھوڑا سا بچا ہوا اثاثہ خود ہی زمین پر پھینک کر تہی دست آگے بڑھنے لگے۔ نعیم کے لیے زلیخا کی موت اور عذرا سے ہمیشہ کے لیے جدائی کے بعد اس اس دنیا میں سکھ چین اور آرام بے معنی الفاظ تھے۔ اگرچہ نرگس سے آخری ملاقات ان الفاظ کو کسی قدر معنی خیز بنا چکی تھی لیکن ان معنوں میں گہرائی اس قدر زیادہ نہ تھی کہ وہ غوطہ لگانے کے لیے بے قرار ہو جاتا۔ وہ نرگس کو جس رنگ میں چاہتا، اس کے لیے قربت یا بعد ایک ہی بات تھی لیکن پھر جب کبھی وہ نرگس کے متعلق سوچتا۔ وہ اسے زندگی کا آخری سہارا نظر آتی وارا س سہارے سے ہمیشہ کی جدائی کا تصور اسے خوفناک محسوس ہوتا۔ اسے بستر پر لیٹے خیال آیا کہ خدا معلوم نرگس کن حالات میں اور کن خیالات کے ساتھ اس کی راہ دیکھتی ہو گی۔ اگر وہ زلیخا.... یا عذرا کی طرح....نہیں، نہیں۔ خدا ایسا نہ کرے۔ نرگس کے متعلق ہزاروں توہمات اسے پریشان کرنے لگے اور وہ اپنے دل کو تسلیاں دینے لگا۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ ابتدا میں کسی شاندار کامیابی کا منہ دیکھ چکا ہو تو مایوسی کی خطرناک گھٹاؤں میں بھی امید کے چراغ جلا لیتا ہے۔ لیکن ایسا انسان جو ابتدا میں ناکامیوں کی انتہا دیکھ چکا ہو، اول تو کسی شے کو اپنی امیدوں کا مرکز نہیں بناتا اور اگر بنا بھی لے تو حصول مدعا کے یقین کے باوجود وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ منزل مقصود کی طرف اس کا ہر قدم اپنے ساتھ ہزاروں خطرات کا تصور لیے بغیر نہیں اٹھتا اور حصول مقصد کے بھی اس کی حالت اس مفلس آدمی کی سی ہوتی ہے جسے راہ میں پڑے ہوئے جواہرات کا انبار مل جانے پر مال دار ہونے کی خوشی کی بجائے دوبارہ لٹ جانے کا ڈر ہو۔

  ہزاروں پریشان کن خیالات سے گھبرا کر نعیم نے سو جانے کی کوشش کی لیکن دیر تک کروٹیں بدلنے کے بعد مایوس ہو کر اٹھا اور بے قراری سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ کمرے سے باہر نکلا اور چاند کی دلفریب منظر دیکھنے لگا۔

محل کی دوسری جانب ایک خوشنما کمرے میں حسن آرا آبنوس کی کرسی پر بیٹھی اپنے دیوتاؤں سے نعیم کے طرز عمل کا شکوہ کر رہی تھی۔ مروارید اس کی ایک خادمہ اس کے سامنے ایک قا لین پر بیٹھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ حسن آرا کے دل میں ابھی تک شکست کے انتقام کی آگ سلک رہی تھی۔

’’کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے مجھ سے زیادہ حسین عورت دیکھی ہو؟‘‘ یہ سوچتے ہوئے وہ کرسی سے اٹھی اور دیوار کے ساتھ ایک قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنا عکس دیکھنے کے بعد کمرے میں ٹہلنے لگی۔ مروارید اس کی تمام حرکات کو بغور دیکھ رہی تھی۔‘‘

’’آج آپ سوئیں گی نہیں ؟‘‘ مروارید نے پوچھا۔

’’جب تک میں اپنے پاؤں میں پڑا ہوا نہ دیکھوں گی۔ مجھے نیند نہیں آئے گی؟‘‘ یہ کہہ کر حسن آرا ذرا تیزی سے ادھر ادھر گھومنے لگی۔ مروارید اپنی جگہ سے اٹھی اور کمرے کی کھڑکی میں کھڑی ہو کر پائیں باغ کی طرف دیکھنے لگی۔ اچانک اسے باغ میں کوئی شخص گھومتا ہوا نظر آیا۔اس نے حسن آراء کہ ہاتھ کے اشارے سے اپنے قریب بلایا اور باغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔’’دیکھیے! بالکل آپ کی سی بے قراری کے ساتھ کوئی ٹہل رہا ہے!‘‘

حسن آراء نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا اور جب ٹہلنے والا درختوں کے سائے سے نکلا اور چاند کی پوری روشنی اس کے چہرے پر پڑنے لگی تو حسن آراء نے اسے پہچان لیا۔ وہ نعیم تھا۔ حسن آراء کے بجھے ہوئے چہرے پر ایک تبسم نمودار ہوا۔

’’مروارید! میں ابھی آتی ہوں !‘‘ یہ کہہ کر حسن آراء اپنے کمرے سے باہر نکلی اور آن کی آن میں باغ میں پہنچ کر ایک درخت کی آڑ سے نعیم کو دیکھنے لگی۔ جب نعیم ٹہلتا ہوا درخت کے قریب پہنچا تو حسن آرا اچانک درخت کی آڑ سے نکل کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ نعیم بھی ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا اور حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔

’’آپ گھبرا گئے! مجھے افسوس ہے۔‘‘

’’تم یہاں کیسے؟‘‘

’’یہی میں آپ سے پوچھنا چاہتی تھی۔‘‘ حسن آراء نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر کہا۔

’’میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘

’’خوب! تو آپ کی طبیعت بھی ناساز ہو جایا کرتی ہے۔ میں یہ خیال کرتی تھی کہ آپ ہماری طرح کے انسانوں سے مختلف ہیں۔ طبیعت ناساز ہونے کی وجہ پوچھ سکتی ہوں ؟‘‘

’’میں یہ ضروری خیال نہیں کرتا کہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیا جائے!‘‘ نعیم نے جانا چاہا۔

حسن آراء اپنے ساتھ یہ خیال لے کر آئی تھی کہ نعیم کا رات کے وقت ٹہلنا اس کی چشم فسوں سازی کا کرشمہ تھا۔ لیکن اس کا یہ وہم غلط ثابت ہوا۔ یہ نفرت تھی یا محبت؟ بہر حال حسن آراء جرات کر کے آگے بڑھی اور نعیم کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔نعیم نے دوسری طرف سے گزرنا چاہا مگر اس نے اس کا دامن پکڑ لیا۔ نعیم نے مڑ کر کہا۔’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘

  حسن آراء کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ اس کا غرور مجاہد کے قدموں پر نثار ہو چکا تھا۔ نعیم نے اس کے کانپتے ہاتھوں سے اپنا دامن چھڑایا اور کچھ کہے بغیر تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

حسن آراء کچھ دیر وہیں کھڑی رہی۔ بالآخر ندامت کا پسینہ پونچھتی اور غصے سے کانپتی ہوئی اپنے کمرے میں پہنچی۔ اپنا چہرہ ایک بار پھر آئینہ میں میں دیکھا اور غصے میں شراب کی ایک صراحی آئینے پر دے ماری۔

’’وہ جنگلی ہے۔ میں اس کے پاؤں پر کیوں گری؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ پھر ایک بار اسی طرح کمرے میں بے قراری سے ٹہلنے لگی۔ ’’میں اس کے پاؤں پر کیوں گری؟‘‘ میں اس کے پاس کیوں گئی؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹوٹے ہوئے آئینے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر اپنا چہرہ دیکھا اور اپنے منہ پر ایک تھپڑ مارکر شیشے کا ٹکڑا نیچے پھینک دیا اور نعیم کے علاوہ تمام دنیا کو گالیاں دیتی ہوئی بستر پر منہ کے بل گر پڑی اور سسکیاں بھرنے لگی۔

اس واقعے کے ایک مہینہ بعد نعیم نے کاشغر پہنچ کر قتیبہ سے چھ ماہ کی رخصت حاصل کی۔ عرب اور ایران کے چند مجاہدین جو رخصت پر گھر جانے والے تھے، اس کے ساتھ سفر میں شامل ہو گئے۔ اس مختصر قافلے میں وقیع، نعیم کا ایک دیرینہ دوست بھی تھا۔ نعیم نے چند منازل طے کرنے کے بعد قافلے سے جدا ہونا چاہا لیکن وقیع نے جسے وہ اپنے دل کا حال بتا چکا تھا، قافلے والوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ نعیم کو اس کی منزل مقصود تک چھوڑ کر آگے بڑھیں گے۔

نرگس پہاڑی کی ایک چوٹی پر بیٹھی اونچے اونچے پہاڑوں کے دلکش مناظر دیکھ رہی تھی۔ زمرد اسے نیچے دیکھ کر بھاگتی ہوئی پہاڑی پر چڑھی۔

’’نرگس! نرگس!!‘‘

نرگس نے اٹھ کر ادھر ادھر دیکھا اور زمرد کو آواز دے کر پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔

’’نرگس! نرگس!!‘‘ زمرد نے قریب آتے ہوئے کہا۔

’’نرگس وہ آگیا۔ تمہارا شہزادہ آگیا!‘‘

اگر اس پہاڑ کی مٹی اچانک سونے میں تبدیل ہو جاتی تو بھی نرگس شاید اس قدر حیران نہ ہوتی۔ اسے اپنے کانوں پر شبہ ہونے لگا۔ زمرد نے پھر وہی الفاظ دہرائے۔

’’تمہارا شہزادہ آگیا۔ تمہارا شہزادہ آگیا!‘‘

نرگس کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ وہ اٹھی لیکن دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتے جسم پر قابو نہ پا کر پھر ایک بار بیٹھ گئی۔زمرد نے آگے بڑھ کر اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھایا۔ وہ زمرد کے ساتھ لپٹ گئی۔ میرے خواب سچے نکلے!‘‘ نرگس نے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے کہا۔

’’نرگس! میں ایک اور خوش خبری لائی ہوں !‘‘

’’بتاؤ! زمرد بتاؤ!! اس سے زیادہ اچھی خبر کیا ہو سکتی ہے؟‘‘

’’نرگس آج تمہاری شادی ہو گی!‘‘

’’آج!........نہیں !‘‘

’’نرگس ابھی!‘‘

  نرگس جلدی سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کا خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ پھر زرد ہو گیا۔ اس نے کہا۔’’زمرد ایسا مذاق اچھا نہیں۔‘‘

’’نہیں نہیں، مجھے تمہارے شہزادے کی قسم وہ آگیا ہے۔ اس نے آتے ہی تمہارے متعلق پوچھا تھا۔ میں نے سب کچھ بتا دیا۔ اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی ہے۔ اس نے تمہارے بھائی سے علیحدگی میں کچھ باتیں کیں اور تمہارے بھائی نے مجھے تمہاری تلاش کے لیے بھیجا ہے، ہومان آج بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ چلو نرگس! ‘‘ نرگس زمرد کے ساتھ پہاڑی سے نیچے اتری، زمرد بہت تیز چلتی تھی لیکن نرگس کے پاؤں ڈگمگا رہے تھے۔ اس نے کہا۔’’زمرد! ذرا آہستہ چلو۔ مجھ سے تیز نہیں چلا جاتا!‘‘

گاؤں کے بہت سے لوگ ہومان کے گھر جمع تھے۔ وقیع نے نعیم اور نرگس کا نکاح پڑھایا۔ دولہا اور دلہن پر چاروں طرف سے پھولوں کی بارش ہونے لگی۔

زمرد ایک کونے میں کھڑی ہومان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ہومان کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ اس نے ایک بوڑھے تاتاری کے کان میں کچھ کہا اور اس نے زمرد کے باپ کے پاسا کر اس سے چند باتیں کیں۔ زمرد کے باپ نے اثبات میں سر ہلا دیا اور وہ ہومان کو پکڑ کر خیمے سے باہر لے گیا۔

’’آج؟‘‘ زمرد کے باپ نے کہا۔

’’اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو!‘‘

’’بہت اچھا! میں اپنے گھر والوں سے مشورہ کر آؤں۔‘‘ یہ کہہ کر زمرد کا باپ اپنے گھر چلا گیا۔

شام سے کچھ دیر پہلے یہ لوگ زمرد کے باپ کے گھر جمع تھے۔ ہومان اور زمرد کا نکاح پڑھانے کی خدمت بھی وقیع کے سپرد کی گئی۔

جب دلہن ہومان کے گھر لائی گئی اور زمرد کو تنہائی میں باتیں کرنے کا موقع ملا تو نرگس نے اپنی چمڑے کی ایک چھوٹی سی صندوقچی کھولی۔

’’زمرد! میں تمہاری شادی پر ایک تحفہ دینا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اسنے صندوقچی سے نعیم کا دیا ہوا رومال نکال کر زمرد کو پیش کیا اور کہا:

’’اس وقت اس سے زیادہ قیمتی چیز میرے پاس کئی نہیں۔‘‘

زمرد نے کہا۔’’اگر تمہارا شہزادہ نہ آتا تو اس قدر فیاضی سے کام نہ لیتیں۔‘‘

نرگس نے زمرد کو گلے لگا لیا۔’’زمرد اب مجھے اپنی خوش نصیبی کا اندازہ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ آج کے تمام واقعات ایک خواب کی طرح گزرے ہیں۔‘‘

زمرد نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’اگر یہ واقعی ایک خواب ہوا تو؟‘‘

’’ہم ایسے دلکش خواب کے بعد بیدار ہو کر زندہ رہنا کبھی گوارا نہیں کریں گی۔‘‘ نرگس نے جواب دیا۔

وقیع اور اس کے ساتھیوں نے اس رات وہیں قیام کیا اور صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد سفر کی تیاری کی۔ نعیم نے اسے رخصت ہوتے وقت بتایا کہ وہ بھی عنقریب بصرہ پہنچ جائے گا۔

ہومان کے مکان کا وہ کمرہ جس میں نعیم کچھ عرصے پہلے ایک اجنبی کی حیثیت سے ٹھہرا تھا اس نرگس اور اس کے لیے وقف تھا۔ ایک دوسرے کے پہلو میں دو دھڑکتے ہوئے دلوں کی داستان کی بتانے کی ضرورت نہیں۔ نعیم کے لیے یہ بستی ایک جنت تھی۔ اس ماحول میں اسے دنیا کی ہر چیز پہلے سے زیادہ دلچسپ نظر آنے لگی۔ پھولوں کی مہک، ہوا کے جھونکے، پرندوں کے چہچہے، غرض ہر چیز محبت اور سرور کے نغموں سے لبریز تھی۔

نیا دور

خلیفہ ولید کے عہد حکومت کے آخری ایام میں بحر اوقیانوس سے لے کر کاشغر اور سندھ تک مسلمانوں کی فتوحات کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ تاریخ اسلام کے تین سپہ سالار شہرت اور ناموری کی آخری حدود تک پہنچ چکے تھے۔ مشرق کی طرف محمدؒ بن قاسم دریائے سندھ کے کنارے ڈیرہ ڈالے ہندوستان کے وسیع میدانوں کی تسخیر کی تیاری کر رہا تھا۔

قتیبہؒ کاشغر کی ایک بلند پہاڑی پر کھڑا دربار خلافت سے مملکت چین کی طرف پیش قدمی کے حکم کا انتظار کر رہا تھا۔

مغرب میں موسیٰ کا لشکر پرے نیز کی پہاڑیوں کو عبور کر کے فرانس کی حدود میں داخل ہوا چاہتا تھا لیکن ۴۹ ھ میں خلیفہ کی وفات اور خلیفہ سلیمان کی جانشینی کی خبر نے اسلامی فتوحات کا نقشہ بدل دیا۔ سلیمان کے دل میں دیر سے خلیفہ ولید اور اس کے اہلکاروں کے خلاف حسد اور انتقام کی آگ سلگ رہی تھی۔ اس نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی ولید کے منظور نظر سپہ سالاروں کو واپس بلا لیا، سلیمان، حجاج بن یوسف کے لیے بد ترین سزا تجویز کر چکا تھا لیکن وہ اپنی زندگی کا عبرتناک دن دیکھنے سے پہلے ہی چل بسا۔ حجاج کی موت پر بھی سلیمان کا سینہ ٹھنڈا نہ ہوا اور اس نے چچا کا غصہ بھتیجے پر نکالا۔ محمدؒ بن قاسم کو سندھ سے بلا کر سخت اذیتیں دینے کے بعد مروا ڈالا۔موسیٰ کی خدمات کا صلہ یہ دیا گیا کہ اس کی تمام جائیداد ضبط کر لی گئی اور اس کے نوجوان بیٹے کا سر قلم کر کے اس کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس سفاکانہ کھیل میں ابن صادق سلیمان کا دایاں ہاتھ تھا۔ اس بوڑھی لومڑی نے طوفانِ حوادث کے ہزاروں تھپیڑے کھائے لیکن ہمت نہ ہاری۔ خلیفہ ولید کی وفات اس کے لیے ایک مژدہ جانفزا تھا۔ حجاج پہلے ہی راہی ملک عدم ہو چکا تھا۔ اس کے عزیز و اقارب یا تو قید کر لیے گئے یا موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اب اسے دنیا میں کسی سے خدشہ نہ تھا۔ وہ کسی گوشہ تنہائی سے پھر ایک بار نمودار ہو کر سلیمان کے دربار میں حاضر ہوا۔ سلیمان نے اپنے دوست کو پہچان کراس کی بے حد حوصلہ افزائی کی۔ ابن صادق چند ہی دنوں میں خلیفہ کے مشیروں کی صف اول میں شمار ہونے لگا۔

محمدؒ بن قاسم کے متعلق باقی مشیروں کی رائے تھی وہ بے گنا ہے اور بے گناہ کا قتل جائز نہیں لیکن ابن صادق ایسے مخلص لوگوں کا وجود اپنے لیے خطرناک سمجھتا تھا۔ اس نے محمدؒ بن قاسم کے قتل کو جائز بلکہ ضروری ثابت کرتے ہوئے کہا۔’’ امیر المؤمنین کے دشمنوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ حجاج کا بھتیجا ہے۔ ایسے لوگوں کو جب بھی موقع ملے گا، خطرناک ثابت ہوں گے!‘‘

محمدؒ بن قاسم کے باقی مشیروں کی رائے تھی وہ بے گناہ ہے اور بے گناہ کا قتل جائز نہیں لیکن ابن صادق ایسے مخلص لوگوں کا وجود اپنے لیے خطرناک سمجھتا تھا۔ اس نے محمدؒ بن قاسم کے قتل کو جائز بلکہ ضروری ثابت کرتے ہوئے کہا۔’’امیر المؤمنین کے دشمنوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ حجاج کا بھتیجا ہے۔ ایسے لوگوں کو جب بھی موقع ملے گا، خطرناک ثابت ہوں گے!‘‘

محمدؒ بن قاسم کے المناک انجام کے بعد موسیٰ کے زخمی دل پر نمک پاشی کی گئی۔ اس کے بعد سلیمان قتیبہ بن مسلم کو دام میں لانے کی تجاویز سوچنے لگا۔ قتیبہ کی شخصیت کا تمام اسلامی ممالک میں احترام کیا جاتا تھا۔ عربی اور ایرانی افواج کے علاوہ ترکستان کے نو مسلم بھی اس پر دل و جان سے نثار تھے۔ سلیمان کو ڈر تھا کہ گر وہ بگڑ بیٹھا تو ایک طاقت ور حلیف ثابت ہو گا اور بغاوت میں وہ تمام لوگ جنھیں وہ اپنے طرز عمل سے برگشتہ کر چکا ہے، اس کا ساتھ دیں گے۔ اس مشکل سے نجات حاصل کرنے کی کوئی تدبیر اس کے ذہن میں نہ آئی تو اس نے ابن صادق سے مشورہ لیا۔

    ابن صادق نے کہا:

’’حضور اسے دربار میں حاضر ہونے کا حکم بھیجیں۔ا جائے تو بہتر ورنہ کئی اور طریقے عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔‘‘

’’کیسے طریقے؟‘‘ سلیمان نے پوچھا۔

’’حضور یہ بات اپنے خادم پر چھوڑ دیں اور مطمئن رہیں کہ اسے ترکستان میں بھی قتل کروایا جا سکتا ہے۔‘‘

نرگس کے ساتھ رہتے ہوئے نعیم نے چند ہفتوں میں ایک سہانے خواب کی طرح گزار دیے۔ ان وادیوں اور پہاڑوں میں فطرت کا ہر منظر ان کے لیے اس کیف آور خواب کی کیفیت کو زیادہ مؤثر بنا رہا تھا۔ اس خواب کی رنگینی میں محو ہو کر نعیم نے گھر جانے کا ارادہ چند دنوں کے لیے ملتوی کر دیا لیکن اس کے دل کی کیفیت دیر تک نہ رہی۔ ایک دن اس نے نیند سے بیدار ہوتے ہی نرگس سے کہا۔’’نرگس! میں حیران ہوں کہ میں نے اتنے دن یہاں کیونکہ گزار دیے! اب میرے خیال میں ہمیں بہت جلد رخصت ہو جانا چاہیے۔ ہماری بستی یہاں سے سینکڑوں میل دور ہے۔ وہاں پہنچ کر تمہارا دل اداس تو نہ ہو جائے گا؟‘‘

’’اداس! کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ میرے دل میں آپ کا وطن دیکھنے کا کس قدر اشتیاق ہے اور میں اس مقدس خاک کو آنکھوں سے لگانے کے لیے کتنی بے قرار ہوں !‘‘

’’اچھا ہم پرسوں یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔‘‘ نعیم یہ کہہ کر اٹھا اور صبح کی نماز کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔اتنے میں ہومان داخل ہوا۔ اس نے بتایا کہ بستی کا ایک سپاہی برمک نامی قتیبہ بن مسلم کا پیغام لے کر آیا ہے۔ نعیم قدرے پریشان ہو کر باہر نکلا۔ برمک گھوڑے کی باگ تھامے کھڑا تھا۔ نعیم کو شک گزرا کہ وہ نیک خبر لے کر نہیں آیا۔ نعیم کی طرف سے کسی سوال کا انتظار کیے بغیر برمک نے کہا۔’’آپ میرے ساتھ چلنے کے لیے فوراً تیار ہو جائیں !‘‘

’’خیریت توہے؟‘‘ نعیم نے سوال کیا۔

برمک نے قتیبہ کا خط پیش کیا۔ نعیم نے خط کھول کر پڑھا۔ خط کا مضمون یہ تھا:

’’تمہیں سخت تاکید ہے کہ خط ملتے ہی سمرقند پہنچ جاؤ۔ تمہیں یہ حکم ان حالات کے پیش نظر دیا جاتا ہے جو امیر المؤمنین کی وفات کے باعث پیدا ہو رہے ہیں۔ تفصیلی حالات برمک بتلا دے گا۔‘‘

نعیم نے حیران ہو کر برمک سے سوال کیا ’’سمرقند سے بغاوت کی خبر تو نہیں آئی؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ برمک نے جواب دیا۔

’’تو پھر مجھے سمرقند پہنچنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟‘‘

’’قتیبہ اپنے تمام جرنیلوں سے کوئی مشورہ کرنا چاہتا ہے۔‘‘

’’لیکن وہ تو کاشغر میں تھے !‘‘

’’نہیں۔ وہ بعض حالات کی بنا پر سمرقند چلے گئے ہیں۔‘‘

’’کیسے حالات؟‘‘

برمک نے کہا۔’’امیر المؤمنین کی وفات کے بعد ان کے جانشین خلیفہ سلیمان نے حجاج بن یوسف کے مقرر کیے ہوئے بہت سے افسروں کو قتل کروا دیا ہے۔ موسیٰ بن نصیر کے بیٹے اور محمدؒ بن قاسم فاتح سندھ کو مروا دیا ہے۔ہمارے سپہ سالار کو بھی دربار خلافت میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ وہ وہاں جانے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ نئے خلیفہ سے بھلائی کی امید نہیں۔وہ اپنے تمام سالاروں کو جمع کر کے مشورہ لینا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کو بلانے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘

نعیم، برمک کی گفتگو کا آخری حصہ زیادہ توجہ سے نہ سن سکا۔ محمدؒ بن قاسم کے قتل کی خبر کے بعد اسے باقی گفتگو میں کوئی بات زیادہ اہم محسوس نہ ہوئی۔

  اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔‘‘ برمک تم بہت بری خبر لائے ہو۔ ٹھہرو میں تیار ہو آؤں !‘‘

نعیم واپس جا کر نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔ نرگس اس کا مغموم چہرہ دیکھ کر ہزاروں توہمات پیدا کر چکی تھی۔ جب نعیم نے نماز ختم کی تو اس نے جرات کر کے پوچھا۔ ’’آپ بہت پریشان ہیں۔ کیسی خبر لایا ہے وہ؟‘‘

’’نرگس ہم ابھی سمرقند جا رہے ہیں۔ تم فوراً تیار ہو جاؤ!‘‘

نرگس کا مغموم چہرہ نعیم کے اس جواب پر خوشی سے چمک اٹھا۔ اس کے دل میں نعیم کے ساتھ رہ کر زندگی کے تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کی جرات موجود تھی لیکن مصیبت میں اس سے تھوڑی دیر کے لیے جدا ہونا اس کے لیے موت سے زیادہ خوفناک تھا۔ اس کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ نعیم کے ساتھ جا رہی ہے۔کہاں اور کن حالات میں۔ وہ ان سوالات کا جواب پوچھنے سے بے نیاز تھی۔

سمرقند کے قلعے کے ایک کمرے میں قتیبہ اپنے منظور نظر سالاروں کے درمیان بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا۔ کمرے کی دیواروں کے ساتھ چاروں مختلف ممالک کے بڑے بڑے نقشے آویزاں تھے۔ قتیبہ نے چین کے نقشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ہم اس وسیع ملک کو چند مہینوں میں فتح کر لیتے، لیکن نئے خلیفہ نے مجھے برے وقت واپس بلایا ہے۔ تم جانتے ہو وہاں میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟‘‘

ایک جرنیل نے جواب دیا۔’’وہی سلوک جو محمدؒ بن قاسم کے ساتھ کی گیا ہے!‘‘

’’لیکن کیوں ؟‘‘ قتیبہ نے پر جوش آواز میں کہا۔ ’’مسلمانوں کو ابھی میری خدمات کی ضرورت ہے۔ چین کو فتح کرنے سے پہلے اپنے آپ کو خلیفہ کے حوالے نہیں کروں گا!‘‘ قتیبہ نے پھر نقشہ دیکھنا شروع کر دیا۔

اچانک نعیم کمرے میں داخل ہوا۔ قتیبہ نے بڑھ کر اس سے مصافحہ کیا اور کہا۔’’افسوس تمہیں بے وقت تکلیف دی گئی۔ اکیلے آئے ہو یا....؟‘‘

’’میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آیا ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ شاید مجھے دمشق جانا پڑے۔‘‘

’’دمشق؟‘‘ نہیں ایلچی نے شاید تمہیں غلط بتایا ہے۔ دمشق میں تمہیں نہیں مجھے بلایا گیا ہے۔ نئے خلیفہ کو میرے سر کی ضرورت ہے۔‘‘

’’اسی لیے تو میں وہاں جانا ضروری خیال کرتا ہوں۔‘‘

’’نعیم!‘‘ قتیبہ نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے تمہیں اس لیے نہیں بلایا کہ تم میری جگہ دمشق جاؤ۔ مجھے تمہاری جان اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، بلکہ میں اپنے ہر ایک سپاہی کی جان اپنی جان سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ تم بہت حد تک معاملہ فہم ہو۔ میں تم سے اور اپنے باقی جہاندیدہ دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟ امیر المؤمنین میرے خون کا پیاسا ہے۔‘‘

نعیم نے اطمینان سے جواب دیا ’’خلیفہ وقت کے حکم سے سرتابی ایک مسلمان سپاہی کے شایانِ شان نہیں۔‘‘

’’تم محمدؒ بن قاسم کا انجام جانتے ہوئے بھی مجھے یہ مشورہ دیتے ہو کہ میں دمشق جاؤں اور اپنے ہاتھوں سے اپنا سر خلیفہ کے سامنے پیش کروں ؟‘‘

’’میرا خیال ہے خلیفة المسلمین آپ کے ساتھ اس درجہ برا سلوک نہیں کریں گے لیکن اگر یہاں تک نوبت آ بھی جائے تو ترکستان کے سب سے بڑے جرنیل کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اطاعت امیر میں کسی سے پیچھے نہیں۔‘

قتیبہ نے کہا۔’’میں موت سے نہیں گھبراتا لیکن یہ محسوس کرتا ہوں کہ اسلامی دنیا کو میری ضرورت ہے۔ چین کو فتح کرنے پہلے میں اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنے سے گھبراتا ہوں۔ میں ایک اسیر کی موت نہیں بلکہ ایک بہادر کی موت چاہتا ہوں۔‘‘

’’دربار خلافت میں شاید آپ کے متعلق کوئی غلط فہمی پیدا ہو گئی ہو۔ بہت ممکن ہے وہ دور ہو جائے۔

  آپ فی الحال یہیں رہیں اور مجھے دمشق جانے کی اجازت دیں۔‘‘

قتیبہ نے کہا۔’’یہ کیا ہو سکتا ہے کہ میں اپنی جان بچانے کے لیے تمہاری جان خطرے میں ڈالوں ! تم مجھے کیاسمجھتے ہو؟‘‘

’’تو آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟‘‘

’’میں یہیں ٹھہروں گا۔ اگر امیر المؤمنین بلاوجہ میرے ساتھ محمدؒ بن قاسم کا سا سلوک کرنا چاہتے ہیں تو میری تلوار میری حفاظت کرے گی!‘‘

’’یہ تلوار آپ کو دربار خلافت سے عطا ہوئی تھی۔ اسے خلیفہ کے خلاف استعمال کرنے کا خیال تک بھی دل میں نہ لائیں۔ مجھے وہاں جانے کی اجازت دیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری بات سنیں گے اور میں ان کی غلط فہمی دور کر سکوں گا۔ میرے متعلق کوئی خدشہ دل میں نہ لائیں۔ دمشق میں مجھے جاننے والے بہت کم ہیں۔ وہاں میرا کوئی دشمن نہیں۔ میں ایک معمولی سپاہی کی حیثیت سے وہاں جاؤں گا۔‘‘

’’نعیم میں اپنے لیے تمہیں کسی خطرے میں پڑنے کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘

’’یہ آپ کے لیے نہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ امیر المؤمنین کی حرکات سے اسلامی جمعیت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ میرا فرض ہے کہ میں انہیں اس خطرے سے آگاہ کروں۔ آپ مجھے اجازت دیں !‘‘

قتیبہ نے باقی جرنیلوں کی طرف دیکھا اور ان کی رائے دریافت کی۔

ہبیرہ نے کہا۔’’تمام عمر کی قربانیوں کے بعد ہمیں زندگی کے آخری دنوں میں باغیوں کی جماعت میں نام نہیں لکھوانا چاہیے۔ نعیم کی زبان کی تاثیر سے ہم واقف ہیں۔ آپ اسے دمشق جانے کی اجازت دیں۔‘‘

قتیبہ نے تھوڑی دیر پیشانی پر ہاتھ رکھ کر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’اچھا نعیم، تم جاؤ! دربار خلافت میں میری طرف سے یہ عرض کر دینا کہ میں چین کی فتح کے بعد حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘

’’میں یہاں سے کل صبح روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘

’’لیکن تم نے ابھی ابھی بتایا تھا کہ تم اپنی بیوی کو ساتھ لائے ہو۔ تم اسے ....!‘‘

’’میں اسے اپنے ساتھ ہی لے جاؤں گا۔‘‘ نعیم نے بات کاٹتے ہوئے جواب دیا۔ ’’دمشق میں اپنا فرض پورا کرنے کے بعد میں اسے اپنے گھر پہنچا کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘

اگلے دن نعیم اور نرگس دس اور سپاہیوں کے ساتھ دمشق روانہ ہو گئے۔ نعیم نے بعض مصلحتوں کے پیش نظر برمک کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔

نعیم نے دمشق پہنچ کر ایک سرائے میں اپنے ساتھیوں کے قیام کا بندوبست کیا۔ اپنے لیے ایک مکان کرائے پر لیا اور برمک کو نرگس کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر خود خلیفہ کے محل میں حاضر ہوا اور باریابی کی اجازت چاہی۔ وہاں سے ایک دن انتظار کرنے کا حکم ملا۔ دوسرے دن دربار خلافت میں حاضر ہونے سے پہلے نعیم نے برمک سے کہا۔’’ا گر کسی وجہ سے مجھے دربار خلافت میں دیر لگ جائے تو گھر کی حفاظت کرنا اور جب تک میں نہ آؤں نرگس کا خیال رکھنا!‘‘

اس نے نرگس کو بھی تسلی دی کہ اس کی غیر موجودگی میں گھبرا نہ جائے۔ وہاں کوئی خطرناک معاملہ پیش نہیں آئے گا۔‘‘

نرگس نے اطمینان سے جواب دیا۔’’میں آپ کے آنے تک ان اونچے اونچے مکانوں کو گنتی رہوں گی۔‘‘

نعیم کو کچھ دیر قصر خلافت کے دروازے پر ٹھہرنا پڑا۔ بالآخر دربان کے اشارے سے وہ دربار خلافت میں حاضر ہوا اور خلیفہ کو سلام کر کے ادب سے کھڑا ہوا۔ خلیفہ کے دائیں اور بائیں جانب چند معززین بیٹھے تھے لیکن نعیم نے کسی کی طرف دھیان نہ دیا۔ خلیفہ سلیمان بن عبد المالک کے چہرے پر کچھ ایسا جلال تھا کہ بہادر سے بہادر لوگ بھی اس سے آنکھ ملا کر بات کرنے کی جرات نہ کر تے تھے۔

اژدہا شیروں کے نرغے میں

سلیمان مسند خلافت پر رونق افروز تھا۔ اس کے چہرے پر تفکرات کے گہرے اثرات تھے۔ اس نے ابن صادق کی طرف دیکھا اور کہا۔’’ ابھی تک ترکستان سے کوئی خبر نہیں آئی؟‘‘

’’امیر المؤمنین! بے فکر رہیں۔ انشاء اللہ ترکستان سے پہلی خبر کے ساتھ قتیبہ کا سر بھی آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔‘‘

’’دیکھیں ! سلیمان نے ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

کچھ دیر بعد ایک دربان نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ’’سپین سے ایک سالار عبد اللہ نامی حاضر ہوا ہے۔‘‘

’’ہاں اسے لے آؤ! ’’خلیفہ نے حکم دیا۔

دربان چلا گیا اور عبداللہ حاضر ہوا۔

خلیفہ نے ذرا اوپر اٹھتے ہوئے دایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ عبد اللہ آگے بڑھا اور خلیفہ سے مصافحہ کر کے ادب سے کھڑا ہو گیا۔

’’تمہارا نام عبد اللہ ہے؟‘‘

’’ہاں ! امیر المؤمنین!‘‘

’’میں نے سپین میں تمہارے معرکوں کی تعریف سنی ہے۔ تم تجربہ کار نوجوان معلوم ہوتے ہو، سپین کی فوج میں کب بھرتی ہوئے تھے ؟‘‘

’’امیر المؤمنین! میں طارق کے ساتھ سپین کے ساحل پر پہنچا تھا اور اس کے بعد وہیں رہا۔‘‘

’’خوب! طارقؒ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’امیر المؤمنین۔ وہ صحیح معنوں میں ایک مجاہد ہے۔‘‘

’’اور موسےٰ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘

’’امیر المؤمنین! ایک سپاہی دوسرے سپاہی کے متعلق بری رائے نہیں دے سکتا۔ میں بذات خود موسےٰ کا مداح ہوں اور اسکے متعلق کوئی برا لفظ منہ سے نکالنا گناہ سمجھتا ہوں۔‘‘

’’ابنؒ قاسم کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’امیر المؤمنین! میں اس کے متعلق اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ وہ ایک بہادر سپاہی تھا۔‘‘

’’تم یہ جانتے ہو کہ میں ان لوگوں سے کس قدر متنفر ہوں ؟‘‘ سلیمان نے کہا۔

’’امیر المؤمنین! میں آپ کا احترام کرتا ہوں لیکن میں منافق نہیں ہوں۔ آپ نے میری ذاتی رائے دریافت کی تھی، وہ میں نے بیان کر دی۔‘‘

’’میں تمہاری اس بات کی قدر کرتا ہوں اور چونکہ تم نے میرے خلاف کس سازش میں حصہ نہیں لیا۔ میں تم پر اعتماد کرتا ہوں۔‘‘

امیر المؤمنین مجھے اس اعتماد کے قابل پائیں گے۔‘‘

’’بہت اچھا۔ ہمیں قسطنطنیہ کی مہم کے لیے ایک تجربہ کار جرنیل کی ضرورت تھی۔ وہاں ہماری فوجوں کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ تمہیں سپین سے اسی لیے بلایا گیا ہے کہ تم بہت جلد یہاں سے پانچ ہزار سپاہی لے کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو جاؤ!‘‘

سلیمان نے ایک نقشہ اٹھا کر کھولا اور عبد اللہ کو اپنے قریب بلا کر قسطنطنیہ پر حملے کے مختلف طریقوں پر ایک لمبی چوڑی بحث شروع کر دی۔

دربان نے آ کر ایک خط پیش کیا۔

سلیمان نے جلدی سے خط کھول کر پڑھا اور ابن صادق کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:

’’قتیبہ قتل ہو چکا ہے اور چند دن تک اس کا سر یہاں پہنچ جائے گا۔‘‘

’’مبارک ہو!‘‘ ابن صادق نے خلیفہ کے ہاتھ سے خط لے کر پڑھتے ہوئے کہا۔’’اور آپ نے اس نوجوان کے متعلق کیا سوچا؟‘‘

’’کون سا نوجوان؟‘‘

’’وہی جو قتیبہ کی طرف سے پچھلے دنوں یہاں آیا تھا۔ بہت خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘

’’ہاں اس کے متعلق بھی ہم عنقریب فیصلہ کریں گے۔‘‘

خلیفہ پھر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہوا۔

’’تمہاری تجاویز مجھے کامیاب نظر آتی ہیں۔ تم فوراً روانہ ہو جاؤ!‘‘

’’میں کل ہی روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘ عبد اللہ سلام کر کے باہر نکل گیا۔

عبد اللہ دربار خلافت سے نکل کر زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ٹھہرا لیا۔ عبد اللہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک خوش وضع نوجوان اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ عبد اللہ نے اسے گلے لگا لیا۔

’’یوسف! تم یہاں کیسے؟ تم سپین سے ایسے غائب ہوئے کہ پھر تمہاری شکل تک دکھائی نہ دی۔‘‘

’’مجھے یہاں کوتوال کا عہدہ دیا گیا ہے۔ آج تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ عبد اللہ تم پہلے آدمی ہو جس کی بیباکی پر خلیفہ خفا نہیں ہوا۔‘‘

’’یہ اس لیے کہ اسے میری ضرورت تھی!‘‘ عبد اللہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔’’تم وہیں تھے؟‘‘

’’میں ایک طرف کھڑا تھا لیکن تم نے دھیان نہیں دیا۔‘‘

’’تم صبح جا رہے ہو؟‘‘

تم نے سن ہی لیا ہو گا؟‘‘

’’آج رات تو میرے پاس ٹھہرو گے نا؟‘‘

’’مجھے تمہارے پاس ٹھہرتے ہوئے بہت خوشی ہوتی لیکن علی الصباح لشکر کو کوچ کی تیاری کا حکم دینا ہے اس لیے میرا مستقر میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہو گا!‘‘

عبد اللہ چلو اپنی فوج کو تیاری کا حکم دے آؤ۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ ہم تھوڑی دیر میں واپسا جائیں گے۔ اتنی دیر کے بعد ملے ہیں۔ باتیں کریں گے؟‘‘

’’اچھا چلو!‘‘

عبد اللہ اور یوسف باتیں کرتے ہوئے لشکر کی قیام گاہ میں داخل ہوئے۔ عبد اللہ نے امیر لشکر کو خلیفہ کا حکم نامہ دیا اور  پانچ ہزار سپاہیوں کو علی الصباح کوچ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت دی اور یوسف کے ساتھ واپس شہر میں چلا آیا۔

رات کے وقت یوسف کے مکان پر عبد اللہ اور یوسف کھانا کھانے کے بعد باتوں میں مشغول تھے۔ وہ قتیبہ بن مسلم باہلی کی فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے حسرت ناک انجام پر اظہار افسوس کر رہے تھے۔

عبد اللہ نے سوال کیا۔ ’’وہ شخص کون تھا جس نے امیر المؤمنین کو قتیبہ کے قتل کی خبر آنے پر مبارکباد دی تھی؟‘‘

یوسف نے جواب دیا ’’وہ تمام دمشق کے لیے ایک معما ہے۔ میں اس کے متعلق اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ اس کا نام ابن صادق ہے اور خلیفہ ولید نے اس کے سر کی قیمت ایک ہزار اشرفی مقرر کی تھی، خلیفہ کی وفات کے بعد یہ کسی گوشہ سے باہر نکل کر سلیمان کے پاس پہنچا۔ نئے خلیفہ نے اس کا بے حد احترام کیا اور اب یہ حالت ہے کہ خلیفہ اس سے زیادہ کسی کی نہیں سنتا۔‘‘

عبد اللہ نے کہا۔ ’’مدت ہوئی میں نے اس کے متعلق کچھ سنا تھا۔ دربار خلافت میں اس کا اقتدار تمام مسلمانوں کے لیے خطرے کا باعث ہو گا۔ موجودہ حالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ہمارے لیے بہت برا وقت آ رہا ہے۔‘‘

یوسف نے کہا۔ ’’میں نے اس سے زیادہ سنگ دل اور کمینہ انسان آج تک نہیں دیکھا۔محمدؒ بن قاسم کے المناک انجام پر کوئی شخص ایسا نہ تھا جس نے آنسو نہ بہائے ہوں۔ خود سلیمان نے اس قدر سخت دل ہونے کے باوجود کسی سے کئی دن بات نہ کی۔ لیکن یہ شخص تھا جو اس دن بے حد بشاش تھا۔ اگر میرے بس میں ہو تو اسے کتوں سے نچوا ڈالوں۔ یہ شخص جس کی طرف انگلی اٹھاتا ہے، خلیفہ اسے جلاد کے سپرد کر دیتے ہیں۔ قتیبہ کو قتل کرنے کا مشورہ اسی نے دیا تھا اور آج تم نے سنا، یہ شخص خلیفہ کو ایک قیدی یاد دلا رہا تھا!‘‘

’’ہاں۔ وہ کون ہے؟‘‘

’’وہ قتیبہ کا ایک نوجوان جرنیل ہے۔ جب اس شخص کا خیال آتا ہے، میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس کا انجام محمدؒ بن قاسم سے زیادہ المناک نظر آتا ہے۔ عبد اللہ میرا جی چاہتا ہے کہ نوکری چھوڑ کر پھر فوج میں شامل ہو جاؤں۔ میرا ضمیر مجھے ہر وقت کوستا رہتا ہے۔ محمدؒ بن قاسم پر عرب کے تمام بچے اور بوڑھے فخر کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو بدترین مجرم کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔جب اسے واسط کے قید خانہ میں بھیجا گیا تو مجھے بھی اس کی نگرانی کے لیے وہاں پہنچنے کا حکم ہوا۔ واسط کا حاکم صالح پہلے ہی اس کے خون کا پیاسا تھا۔ اس نے محمدؒ بن قاسم کو سخت اذیتیں دیں۔ چند دن بعد ابن صادق بھی وہاں پہنچ گیا۔ یہ شخص ہر روز محمدؒ بن قاسم کا دل دکھانے کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ سوچتا۔ مجھے وہ وقت نہیں بھولتا جب محمدؒ بن قاسم قتل سے ایک دن پہلے قید خانے کی کوٹھڑی میں ٹہل رہا تھا، میں لوہے کی سلاخوں سے باہر کھڑا اس کی ہر حرکت کا معائنہ کر رہا تھا، اس کے خوبصورت چہرے کی متانت دیکھ کر میرا دل چاہتا تھا کہ اندر جا کر اس کے پاؤں چوم لوں۔ رات کے وقت مجھے سخت نگرانی کا حکم تھا۔ میں نے اس کی اندھیری کوٹھڑی میں شمع جلادی۔عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد اس نے آہستہ آہستہ ٹہلنا شروع کر دیا۔ رات گزر چکی تھی۔ یہ ذلیل کتا ابن صادق قید خانے کے پھاٹک پرا کر چلانے لگا۔ پہرے دار نے دروازہ کھولا اور ابن صادق نے میرے پاسا کر کہا ’’میں محمد بن قاسم سے ملنا چاہتا ہوں !‘‘

میں نے جواب دیا۔’’صالح کا حکم ہے کہ کسی کو بھی اس سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے۔‘‘

اس نے جوش میں آ کر کہا ’’تم جانتے ہو میں کون ہوں ؟‘‘

میں قدرے گھبرا گیا۔ اس نے لہجہ بدل کر مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ صالح تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔ میں نے مجبوراً محمدؒ بن قاسم کی کوٹھڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ابن صادق آگے بڑھ کر دروازہ کی سلاخوں میں سے اسے جھانکنے لگا۔ محمدؒ بن قاسم اپنے خیالات میں محو تھا۔ اس نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔ ابن صادق نے حقارت آمیز لہجے میں کہا:

’’حجاج کے لاڈلے بیٹے! تمہارا کیا حال ہے؟‘‘

محمدؒ بن قاسم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا لیکن کوئی بات نہ کی۔

’’مجھے پہچانتے ہو؟‘‘ ابن صادق نے دوبارہ سوال کیا۔

محمدؒ بن قاسم نے کہا۔ ’’مجھے یاد نہیں آپ کون ہیں۔‘‘

اس نے کہا۔’’دیکھا تم بھول گئے لیکن میں تمہیں نہیں بھولا!‘‘

محمدؒ بن قاسم نے آگے بڑھ کر دروازہ کی سلاخوں کو پکڑتے ہوئے ابن صادق کی طرف غور سے دیکھنے کے بعد کہا۔ ’’شاید میں نے کہیں آپ کو دیکھا ہے لیکن یاد نہیں۔‘‘

ابن صادق نے بغیر کچھ کہے اپنی چھڑی اس کے ہاتھ پر دے ماری اور اس کے منہ پر تھوک دیا۔

میں حیراں تھا کہ اس کے چہرے پر غصے کے آثار تک پیدا نہ ہوئے۔ اس نے اپنی قمیص کے دامن سے اپنے چہرے کو پونچھتے ہوئے کہا۔’’ بوڑھے آدمی! میں نے تمہاری عمر کے کسی آدمی کو کبھی تکلیف نہیں دی۔ اگر میں نے لا علمی میں تمہیں کوئی دکھ پہنچایا ہو تو میں خوشی سے تمہیں ایک بار اور تھوکنے کی اجازت دیتا ہوں۔‘‘

میں سچ کہتا ہوں کہ اس وقت محمدؒ بن قاسم کے سامنے اگر پتھر بھی ہوتا تو پگھل کر رہ جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ابن صادق کی داڑھی نوچ لوں۔ لیکن شاید یہ دربار خلافت کا احترام تھا یا میری بزدلی کہ میں کچھ نہ کر سکا۔ اس کے بعد ابن صادق گالیاں بکتا ہوا واپس چلا آیا۔ آدھی رات کے قریب میں نے قید خانے کا چکر لگاتے ہوئے دیکھا کہ وہ دو زانو بیٹھا ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں قفل کھول کر کوٹھڑی کے اندر داخل ہوا۔ اس نے دعا ختم کر کے میری طرف دیکھا۔

’’اٹھیے!‘‘ میں نے کہا۔

’’کیوں ؟‘‘ اس نے حیران ہو کر سوال کیا۔

میں نے کہا ’’میں اس گناہ میں حصہ نہیں لینا چاہتا۔ میں آپ کی جان بچانا چاہتا ہوں۔‘‘

اس نے بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے اپنے قریب بٹھا لیا اور کہا۔’’اول  تو مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ امیر المؤمنین میرے قتل کا حکم صادر فرمائیں گے۔ اگر یہ ہوا بھی تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اپنی جان بچانے کے لیے تمہاری جان خطرے میں ڈال دوں گا؟‘‘

میں نے کہا۔’’میری جان خطرے میں نہیں پڑے گی۔ میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ میرے پاس دو نہایت تیز رفتار گھوڑے ہیں۔ ہم بہت جلد یہاں سے دور نکل جائیں گے۔ ہم کوفہ اور بصرہ کے لوگوں کی پناہ لیں گے۔ وہ لوگ آپ کے لیے خون آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار ہیں۔ اسلامی دنیا کے تمام بڑے بڑے شہر آپ کی آواز پر لبیک کہیں گے۔‘‘

اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا۔’’تمہارا کیا خیال ہے کہ میں بغاوت کی آگ پھیلا کر مسلمانوں کی تباہی کا تماشہ دیکھوں گا؟ نہیں یہ نہیں ہو گا۔ میں اسے ایک بزدلی خیال کرتا ہوں۔ بہادروں کو بہادروں کی موت مرنا چاہیے۔ میں اپنی جان کی حفاظت کے لیے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ تم یہ چاہتے ہو کہ دنیا محمدؒ بن قاسم کو ایک مجاہد کے نام سے یاد کرنے کی بجائے ایک باغی کہے؟‘‘

میں نے کہا۔’’لیکن مسلمانوں کو آپ جیسے بہادر سپاہیوں کی ضرورت ہے۔‘‘

اس کہا۔’’مسلمانوں میں میرے جیسے سپاہیوں کی کمی نہیں۔ اسلام کو تھوڑا بہت سمجھنے والا شخص بھی ایک بہترین سپاہی کے اوصاف پیدا کر سکتا ہے۔‘‘

میرے پاس اور الفاظ نہیں تھے۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔’’معاف کیجئے۔ آپ میرے خیال سے بہت بلند نکلے۔ اس نے اٹھ کر میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور کہا۔’’دربار خلافت مسلمانوں کی طاقت کا مرکز ہے۔ اس سے بے وفائی کا خیال کبھی اپنے دل میں نہ لانا۔‘‘

  یوسف نے بات ختم کی۔ عبد اللہ نے اس کی اشک آلو آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’وہ ایک ہونہار مجاہد تھا۔‘‘

یوسف نے کہا۔’’ اب میرے لیے ایک اور بات سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ میں ابھی آپ سے قتیبہ بن مسلم باہلی کے ایک جرنیل کا تذکرہ کر رہا تھا۔ اس کی شکل و صورت آپ سے ملتی جلتی ہے۔ قد ذرا آپ سے لمبا ہے۔ مجھے اس کے ساتھ بہت انس ہو گیا ہے اور خدا نہ کرے اگر اس کا انجام بھی وہی ہوا تو میں بغاوت کا علم بلند کر دوں گا۔ اس بے چارے کا بس اتنا قصور ہے کہ اس نے محمدؒ بن قاسم اور قتیبہؒ کے متعلق چند اچھے الفاظ کہہ دیے۔ اب ابن صادق ہر روز قید خانے میں جا کر اس کا دل دکھاتا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اسے ابن صادق کی باتوں سے بے حد تکلیف ہوتی ہے، اس نے مجھ سے کئی بار پوچھا ہے کہ اسے کب آزاد کیا جائے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ ابن صادق کے اصرار سے خلیفہ اسے آزاد کرنے کی بجائے قتل کر ڈالے گا۔محمدؒ بن قاسم کے چند اور دوست بھی قید ہیں لیکن جو سلوک اس کے ساتھ کیا جاتا ہے، شرمناک ہے۔ اس کی تاتاری بیوی بھی اس کے ساتھ آئی ہے اور وہ اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ شہر میں رہتی ہے۔ اس نے چند روز ہوئے مجھے اپنی بیوی کا پتہ دیا تھا۔ اس کا نام شاید نرگس ہے۔ میری خالہ کا مکان اس کے مکان کے قریب ہی ہے۔ خالہ کو اس کے ساتھ بہت انس ہو گیا ہے۔ وہ سارا دن وہاں رہتی ہے اور مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں اس کے شوہر کو بچانے کی کوئی صورت نکالوں۔ میں حیران ہوں کہ کیا کروں اور کس طرح اس کی جان بچاؤں ؟‘‘

عبد اللہ ایک گہری سوچ میں ڈوبا یوسف کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہو رہے تھے۔ اس نے یوسف سے سوال کیا۔ اس کی شکل مجھ سے ملتی جلتی ہے؟‘‘

’’ہاں، لیکن وہ آپ سے ذرا لمبا ہے۔‘‘

’’اس کا نام نعیم تو نہیں ؟‘‘ عبد اللہ نے مغموم لہجے میں پوچھا۔

’’ہاں نعیم! آپ اسے جانتے ہیں ؟‘‘

’’وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ میرا چھوٹا بھائی۔‘‘

’’اف! مجھے یہ معلوم نہ تھا۔‘‘

عبد اللہ نے ایک لمحے کی خاموشی کے بعد کہا۔ ’’اگر اس کا نام نعیم ہے اور اس کی پیشانی میری پیشانی سے کشادہ، اس کی ناک میری ناک سے ذرا پتلی، اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے بڑی، اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں کے مقابلے میں پتلے اور خوب صورت، اس کا قد میرے قد سے ذرا لمبا، اس کا جسم میرے جسم کے مقابلے میں ذرا پتلا ہے تو میں قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ میرے بھائی کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ وہ کتنی دیر سے زیر حراست ہے؟‘‘

’’اسے قید ہوئے کوئی دو مہینے ہونے والے ہیں۔ عبد اللہ! اب ہمیں اسے بچانے کی تدبیر کرنی چاہیے!‘‘

’’تم اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟‘‘ عبد اللہ نے کہا۔

’’عبد اللہ! تمہیں یاد ہے کہ قرطبہ کے محاصرے میں جب میں زخموں سے چور تھا، تم نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر میری جان بچائی تھی اور تیروں کی بارش میں لاشوں کے ڈھیر سے مجھے اٹھا لائے تھے ؟‘‘

’’وہ میرا فرض تھا۔ تم پر احسان نہیں تھا!‘‘

’’میں بھی اسے اپنا فرض خیال کرتا ہوں۔ تم پر احسان نہیں سمجھتا۔’’

عبد اللہ کچھ دیر تک یوسف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا۔ وہ کچھ کہنے کو تھا کہ یوسف کے حبشی غلام زیاد نے آ کر اطلاع دی کہ ابن صادق دروازے پر کھڑا آپ سے ملنا چاہتا ہے۔

یوسف کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ اسے گھبرا کر عبد اللہ سے کہا۔’’آپ دوسرے کمرے میں چلے جائیں وہ شک نہ کرے !‘‘

عبد اللہ جلدی سے پچھلے کمرے میں چلا گیا۔ یوسف نے کمرے کا دروازہ بند کرنے کے بعد اطمینان کا سانس لیا اور زیاد سے کہا۔’’اسے اندر لے آؤ!‘‘

زیاد چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ابن صادق داخل ہوا۔ ابن صادق نے کوئی رسمی گفتگو شروع کرنے کی بجائے آتے ہی کہا۔’’آپ مجھے دیکھ کر بہت حیران ہوئے ہوں گے؟‘‘

یوسف نے اپنے ہونٹوں پر ایک معنی خیز تبسم لاتے ہوئے کہا۔ ’’اس جگہ کیا، میں آپ کو ہر جگہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں۔ آپ تشریف رکھیں !‘‘

’’شکریہ۔‘‘ ابن صادق نے چاروں طرف نظر دوڑا کر عقبی کمرے کے دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے کہا۔’’ میں آج بہت مصروف ہوں۔ وہ آپ کے دوست کہاں ہیں ؟‘‘

یوسف نے پریشان ہو کر کہا۔’’کون سے دوست؟‘‘

’’آپ جانتے ہیں میں کون سے دوست کے متعلق پوچھ رہا ہوں ؟‘‘

’’مجھے آپ کی طرح علم غیب نہیں ہے۔‘‘

’’میرا مطلب ہے کہ نعیم کا بھائی عبد اللہ کہاں ہے؟‘‘

’’نعیم کے متعلق معلومات مہیا کرتے ہوئے میں نے کئی سال گزار دیے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مجھے اس کے ساتھ کس قدر دلچسپی ہے؟‘‘

یوسف نے ترش لہجے میں جواب دیا۔’’یہ تو میں جانتا ہوں لیکن میں یہ پوچھنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ آپ کو عبد اللہ کے ساتھ کیا کام ہے؟‘‘

ابن صادق نے جواب دیا ’’آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا۔ پہلے آپ یہ بتائیں کہ وہ کہاں ہے؟‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ کو کسی کے ساتھ دلچسپی ہو تو میں بھی اس کی جاسوسی کرتا پھروں۔‘‘

ابن صادق نے کہا۔ ’’جب دربار خلافت سے باہر نکلا تھا آپ اس کے ساتھ تھے، جب لشکر کی قیام گاہ میں پہنچا تو آپ اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ واپس شہر کی طرف آیا تھا تو آپ اس کے ساتھ تھے۔ میرا خیال تھا کہ اب بھی وہ آپ کے ساتھ ہو گا!‘‘

’’وہ یہاں سے کھانا کھا کر چلا گیا ہے۔‘‘

’’کب؟‘‘

’’ابھی۔‘‘

’’کس طرف؟‘‘

’’غالباً لشکر کی قیام گاہ کی طرف۔‘‘

’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قید خانے کی طرف گیا ہو یا اپنے بھائی کی بیوہ کو تسلی دینے کے لیے گیا ہو۔‘‘

’’بھائی کی بیوہ؟ آپ کا مطلب ہے کہ ........؟‘‘

ابن صادق نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا ’’میرا مطلب ہے کہ وہ کل تک بیوہ ہو جائے گی۔ میں آپ کو امیر المؤمنین کا یہ حکم سنانے آیا ہوں کہ محمدؒ بن قاسم کے تمام دوستوں کی اچھی طرح نگرانی کریں۔ کل ان کے متعلق حکم سنایا جائے گا اور میں اپنی طرف سے آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اپنی جان عزیز رکھتے ہیں تو عبد اللہ کے ساتھ مل کر نعیم کی رہائی کی سازش نہ کریں !‘‘

’’آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں ایسی سازش کر سکتا ہوں ؟ ‘‘ یوسف نے غصے میں آ کر کہا۔

مجھ کو یقین تو نہیں لیکن شاید عبد اللہ کی دوستی کا پاس آپ کو مجبور کر دے۔ آپ نے قید خانے پر کتنے سپاہی مقرر کیے ہیں ؟‘‘

یوسف نے جواب دیا۔’’چالیس اور میں خود بھی وہاں جا رہا ہوں !‘‘

’’اگر ہو سکے تو چند اور سپاہی مقرر کر دیں کیونکہ وہ آخری وقت پر بھی فرار ہو جایا کرتا ہے۔‘‘

’’آپ اس قدر گھبراتے کیوں ہیں ؟ وہ ایک معمولی آدمی ہے۔ قید خانے پر اگر پانچ ہزار آدمی بھی حملہ کر دیں تو بھی اسے چھڑا کر لے جانا محال ہے۔‘‘

’’میری فطرت مجھے آنے والے خطرات سے آگاہ کر دیتی ہے۔ اچھا میں جاتا ہوں۔ چند اور سپاہی بھی آپ کے پاس بھیج دوں گا۔ آپ ان کو بھی نعیم کی کوٹھڑی پر متعین کر دیں !‘‘

یوسف نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔’’آپ مطمئن رہیں۔ نئے پہریداروں کی ضرورت نہیں۔ میں خود پہرہ دوں گا۔ آپ اتنے فکر مند کیوں ہیں ؟‘‘

ابن صادق نے جواب دیا۔’’آپ کو شاید معلوم نہیں۔ اس کی رہائی دوسرے معنوں میں میری موت ہو گی۔ جب تک اس کی گردن پر جلاد کی تلوار نہیں پڑتی، مجھے چین نہیں آ سکتا!‘‘

ابن صادق نے اپنا فقرہ ختم کیا ہی تھا کہ عقبی کمرے کا دروازہ یکا یک کھلا اور عبد اللہ نے باہر نکلتے ہوئے کہا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نعیم کی موت سے پہلے تم قبر کی آغوش میں سلا دیے جاؤ!‘‘

ابن صادق چونک کر پیچھے ہٹا اور چاہتا تھا کہ وہاں سے بھاگ نکلے لیکن یوسف نے آگے بڑھ کر راستہ روک لیا اور اپنا خنجر دکھاتے ہوئے کا:

’’اب تم نہیں جا سکتے!‘‘

ابن صادق نے کہا۔’’تم جانتے ہو میں کون ہوں ؟‘‘

’’ہم تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں اور اب تمہیں یہ جاننا ہو گا کہ ہم کون ہیں ؟‘‘ یہ کہہ کر یوسف نے تا لی بجائی اور اس کا غلام زیاد بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ وہ اپنے جسم کے طول و عرض اور شکل و شباہت کی ہیبت سے ایک کالا دیو معلوم ہوتا تھا۔ توند اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ چلتے وقت اس کا پیٹ اوپر نیچے اچھلتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ ناک نہایت لمبوتری اور موٹی تھی۔ نیچے کا ہونٹ اس قدر موٹا تھا کہ نچلے دانت مسوڑھوں تک نظر آتے تھے۔ اوپر کے دانت اوپر کے ہونٹ سے مقابلتاً لمبے تھے۔ آنکھیں چھوٹی لیکن چمکدار تھیں۔ اس نے ابن صادق کی طرف دیکھا اور اپنے آقا کے حکم کا انتظار کرنے لگا۔

یوسف نے ایک رسی لانے کا حکم دیا۔ زیادہ اسی طرح پیٹ کو اوپر نیچے اچھالتا ہوا باہر نکلا اور رسی کے علاوہ ایک کوڑا بھی لے آیا۔

یوسف نے کہا۔’’زیاد! اسے رسی سے جکڑ کر اس ستون کے ساتھ باندھ دو!‘‘

زیادہ پہلے سے زیادہ خوفناک شکل بنا کر آگے بڑھا اور اس نے ابن صادق کو بازوؤں سے پکڑ لیا۔ ابن صادق نے کچھ جدوجہد کی لیکن اپنے طاقت ور حریف کی گرفت میں بے بس ہو کر رہ گیا۔ زیاد نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر اس قدر جھنجھوڑا کہ اس کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ اس کے بعد نہایت اطمینان سے اس کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ایک ستون کے ساتھ جکڑ دیا۔ عبد اللہ نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور اس کے منہ پر کس کر باندھ دیا۔

یوسف نے عبد اللہ کی طرف دیکھا اور اس سے سوال کیا۔’’اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘

عبد اللہ نے جواب دیا۔ ’’میں نے سب کچھ سوچ لیا ہے۔تم تیار ہو جاؤ اور میرے ساتھ چلو۔ تمہیں اس مکان کا پتہ ہے جہاں نعیم کی بیوی رہتی ہے؟‘‘

’’ہاں وہ نزدیک ہی ہے۔‘‘

’’بہت اچھا یوسف تم ایک لمبے سفر پر جا رہے ہو۔ فوراً تیار ہو جاؤ!‘‘

یوسف لباس تبدیل کرنے میں مصروف ہو گیا اور عبد اللہ نے کاغذ اور قلم اٹھایا اور جلدی جلدی میں خط لکھ کر اپنی جیب میں ڈالا۔

’’یہ خط آپ کس کے نام لکھ رہے ہیں ؟‘‘

’’یہ بات اس ذلیل کتے کے سامنے بتانا قرین مصلحت نہیں۔ میں باہر نکل کر بتاؤں گا، آپ اپنے غلام سے کہہ دیں کہ میں جس طرح کہوں اس طرح کرے، اسے میں آج صبح اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

اور اس کا کیا ہو گا؟‘‘ یوسف نے ابن صادق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

عبد اللہ نے جواب دیا۔’’تم اس کی فکر نہ کرو۔ زیاد کو کہہ دو کہ جب تک میں واپس نہ آؤں، اس کی حفاظت کرے.... اور آپ کے ہاں لکڑی کا کوئی بڑا صندوق ہے جو اس خطرناک چوہے کے لیے پنجرے کا کام دے سکے ؟‘‘

یوسف عبداللہ کا مقصد سمجھ کر مسکرایا۔ اس نے کہا۔’’ہاں ایک بڑا صندوق دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ جو اس کے لیے اچھے خاصے پنجرے کا کام دے سکے گا۔ آئیے میں آپ کو دکھاتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر یوسف عبد اللہ کو اپنے ساتھ دوسرے کمرے میں لے گیا اور لکڑی کے ایک صندوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’میرے خیال میں یہ آپ کی ضرورت کو پورا کر سکے گا!‘‘

’’ہاں، یہ بہت اچھا ہے۔ اسے فوراً خالی کرو!‘‘ یوسف نے ڈھکنا اوپر اٹھایا اور صندوق کو اٹھا کر تمام سامان فرش پر ڈھیر کر دیا۔ عبد اللہ نے صندوق کے ڈھکنے میں چاقو سے دو تین سوراخ کر دیے اور کہا۔’’بس اب ٹھیک ہے۔ زیادہ سے کہو کہ اسے اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے جائے۔‘‘

یوسف نے زیاد کو حکم دیا اور وہ صندوق اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے گیا۔

عبد اللہ نے کہا۔ ’’اب تم زیاد سے کہو کہ اسکی پوری پوری نگرانی کرے اور اگر یہ آزاد ہونے کی کوشش کرے تو فوراً اس کا گلا گھونٹ دے۔‘‘

یوسف نے زیاد کی طرف دیکھا اور کہا۔’’زیاد! تم سمجھتے ہو تمہیں کیا کرنا ہے؟‘‘

زیاد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’ان کا حکم بالکل میرا حکم سمجھنا!‘‘

زیاد نے پھر اسی طرح سر ہلا دیا۔

عبد اللہ نے کہا۔’’چلو اب دیر ہو رہی ہے۔‘‘

یوسف اور عبداللہ کمرے سے باہر نکلنے کو تھے کہ یوسف کچھ سوچ کر رک گیا اور بولا۔’’شاید میں اس شخص سے دوبارہ نہ ملوں۔ مجھے اس سے کچھ کہنا ہے۔‘‘

عبد اللہ نے کہا۔’’اب ایسی باتوں کا وقت نہیں۔‘‘

’’کوئی لمبی بات نہیں۔ ’’یوسف نے کہا۔’’ذرا ٹھہریے!‘‘

یہ کہہ کر یوسف، ابن صادق کی طرف متوجہ ہوا۔’’میں آپ کا مقروض ہوں اور اب چاہتا ہوں کہ آپ کا تھوڑا بہت قرضہ ادا کر دوں۔ دیکھیے، آپ نے محمدؒ بن قاسم کے منہ پر تھوکا تھا، اس لیے میں آپ کے منہ پر تھوکتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ابن صادق کے منہ پر تھوک دیا۔

  آپ نے اس کے ہاتھ پر چھڑی بھی ماری تھی، اس لیے لیجئے۔‘‘ وی سف نے اسے ایک کوڑا رسید کرتے ہوئے کہا۔’’آپ کو یاد ہے کہ آپ نے نعیم کے منہ پر تھپڑ بھی مارا تھا، یہ اس کا جواب ہے۔‘‘یوسف نے یہ کہہ کر زور سے ایک تھپڑ رسید کیا۔’’اور آپ نے نعیم بال بھی نوچے تھے۔‘‘ یوسف نے اس کی ڈاڑھی کو زور زور سے جھٹکے دیتے ہوئے کہا۔

’’یوسف بچے نہ بنو۔‘‘ جلدی کرو!‘‘عبد اللہ نے واپس مڑ کر اسے بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔

’’اچھا۔ باقی پھر سہی۔ زیاد ! اس کا اچھی طرح خیال رکھنا!‘‘

زیاد نے پھر اسی طرح سر ہلایا اور یوسف عبد اللہ کے ساتھ باہر نکل گیا۔‘‘

راستے میں یوسف نے پوچھا۔ ’’آپ نے کیا تجویز سوچی ہے؟‘‘

عبد اللہ نے کہا۔’’سنو! تم مجھے نعیم کی بیوی کے مکان پر چھوڑ کر قید خانے کی طرف جاؤ اور نعیم کو وہاں سے نکال کر اپنے گھر لے جاؤ۔ وہاں سے نکالنے میں کوئی دقت تو نہیں ہو گی؟‘‘

’’کوئی دقت نہیں۔‘‘

’’اچھا، تم نے بتایا تھا کہ تمہارے پاس دو بہترین گھوڑے ہیں۔ میرا گھوڑا فوجی اصطبل میں ہے۔ تم ایک اور گھوڑے کا انتظام نہیں کر سکتے؟‘‘

’’انتظام تو دس گھوڑوں کا بھی ہو سکتا ہے لیکن نعیم کے اپنے تین گھوڑے بھی تو اس کے گھر میں موجود ہیں۔‘‘

’’اچھا تم نعیم کو نکال کر اپنے گھر لے آؤ۔ میں اتنی دیر میں اس کی بیوی کے ساتھ شہر کے مغربی دروازے کے باہر تمہارا انتظار کروں گا۔ تم دونوں گھر سے سوار ہو کر وہاں پہنچ جاؤ!‘‘

عبد اللہ نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو خط جیب سے نکال کر یوسف کو دیتے ہوئے کہا:

’’تم یہاں سے سیدھے قیروان جاؤ گے۔ وہاں کا سالار اعلیٰ میرا دوست ہے اور نعیم کا ہم مکتب بھی رہ چکا ہے۔ وہ تمہیں سپین تک پہنچانے کا بندوبست کر دے گا۔ سپین پہنچ کر طیطلہ کے امیر عسا کر ابو عبید کو یہ خط دینا۔ وہ تمہیں فوج میں بھرتی کر لے گا۔ وہ میرا نہایت مخلص دوست ہے، آپ کی پوری پوری حفاظت کرے گا۔ اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نعیم میرا بھائی ہے۔میں نے لکھ دیا ہے کہ آپ دونوں میرے دوست ہیں۔ کسی اور کو اپنے حالات سے آگاہ نہ کرنا۔ میں قسطنطنیہ سےا کر امیر المؤمنین کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘

یوسف نے خط لے کر جیب میں رکھ لیا اور ایک خوبصورت مکان کے دروازے پر پہنچ کر بتایا کہ نعیم کی بیوی اس جگہ رہتی ہے۔‘‘

عبد اللہ نے کہا۔’’اچھا، تم جاؤ اور اپنا کام ہوشیاری سے کرنا!‘‘

’’بہت اچھا۔خدا حافظ!‘‘

’’خدا حافظ!‘‘

یوسف کے چند قدم دور چلے جانے کے بعد عبد اللہ نے مکان کے دروازے پر دستک دی۔ برمک نے اندر سے دروازہ کھولا اور عبد اللہ کو نعیم سمجھتے ہوئے خوشی سے اچھل کر تاتاری زبان میں کہا۔’’آپا گئے؟ نرگس! نرگس! ! بیٹا وہ آ گئے!‘‘

عبد اللہ شروع شروع میں کچھ عرصہ ترکستان میں گزار چکا تھا۔ اس نے برمک  کا سمجھ کر کہا۔’’میں اس کی بھائی ہوں۔‘‘

اتنے میں نرگس بھاگتی ہوئی آئی۔ ’’کونا گئے!‘‘ اس نے آتے پوچھا۔

’’یہ نعیم کے بھائی ہیں۔‘‘ برمک نے جواب دیا۔

’’میں سمجھی تھی وہ....!‘‘ نرگس کا اچھلتا ہوا دل میں بیٹھ گیا اور وہ آگے کچھ نہ کہہ سکی۔

’’بہن! میں نعیم کا پیغام لے کر آیا ہوں۔‘‘ عبد اللہ نے مکان کے صحن میں داخل ہو کر دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔

’’ان کا پیغام؟ آپ ان سے مل کر آئے ہیں ؟ وہ کیسے ہیں ؟ بتائیے! بتائیے!!‘‘

نرگس نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا۔

’’تم میرے ساتھ چلنے کے لیے فوراً تیار ہو جاؤ!‘‘

’’کہاں ؟‘‘

’’نعیم سے ملنے کے لیے !‘‘

’’وہ کہاں ہیں ؟‘‘

’’وہ آپ کو شہر سے باہر ملیں گے۔‘‘

نرگس نے مشکوک نگاہوں سے عبد اللہ کو دیکھا اور کہا۔’’آپ تو سپین میں تھے!‘‘

عبد اللہ نے کہا۔’’میں وہیں سے آیا ہوں اور آج مجھے معلوم ہے کہ وہ قید میں پڑا ہوا ہے۔ میں نے اسے قید سے نکالنے کا انتظام کیا ہے۔ آپ جلدی کریں !‘‘

برمک نے کہا۔‘‘ چلیے آپ کمرے میں چلیں، یہاں اندھیرا ہے۔‘‘

برمک، نرگس اور عبد اللہ مکان کے ایک روشن کمرے میں پہنچے۔ نرگس نے عبد اللہ کو شمع کی روشنی میں غور سے دیکھا۔ نعیم کے ساتھ اس کی غیر معمولی مشابہت دیکھ کر اسے بہت حد تک اطمینان ہو گیا۔

’’ہم پیدل جائیں گے؟‘‘ اس نے عبد اللہ سے سوال کیا۔

’’نہیں گھوڑوں پر۔‘‘ یہ کہہ کہ عبد اللہ نے برمک کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’گھوڑے کہاں ہیں ؟‘‘

اس نے جواب دیا۔’’وہ سامنے اصطبل میں ہیں۔‘‘

’’چلو ہم گھوڑے تیار کریں۔‘‘

عبداللہ اور برمک نے اصطبل میں پہنچ کر گھوڑوں پر زینیں ڈالیں۔ اتنے میں نرگس تیار ہو کرا گئی۔ عبد اللہ نے اسے ایک گھوڑے پر سوار کرایا اور باقی دو گھوڑوں پر وہ اور برمک سوار ہو گئے۔ شہر کے دروازے پر پہریداروں نے روکا۔ عبد اللہ نے انہیں بتایا کہ وہ صبح کے وقت قسطنطنیہ جانے والی فوج کے ساتھ شامل ہونے کے لیے لشکر کی قیام گاہ کی طرف جا رہا ہے اور ثبوت میں خلیفہ کا حکم نامہ پیش کیا۔ پہریداروں نے ادب سے جھک کر سلام کیا اور دروازہ کھول دیا۔ دروازے سے چند قدم آگے چل کر یہ تینوں گھوڑوں سے اتر ے اور درختوں کے سائے میں کھڑے ہو کر یوسف اور نعیم کا انتظار کرنے لگے۔

’’وہ کب آئیں گے؟‘‘ نرگس بار بار بے چین ہو کر پوچھتی۔

عبد اللہ ہر بار شفقت آمیز لہجے میں جواب دیتا۔’’بس وہ آ ہی رہے ہوں گے!‘‘

انہیں انتظار میں تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ دروازے کی طرف سے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی۔ ’’وہ آ رہے ہیں !‘‘ عبد اللہ نے آہٹ پا کر کہا۔

سواروں کے آنے پر عبداللہ اور نرگس درختوں کے سائے سے نکل کر سڑک پر کھڑے ہو گئے۔

نعیم قریب پہنچ کر گھوڑے سے اترا اور بھائی سے لپٹ گیا۔

عبد اللہ نے کہا۔ ’’اب دیر نہ کرو۔ صبح ہونے والی ہے۔ قیروان پہنچنے سے پہلے دم نہ لینا۔ برمک میرے ساتھ چلے گا!‘‘

  نعیم گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ عبد اللہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چوما اور آنکھوں سے لگا لیا۔ نعیم کی آنکھوں میں آنسوا گئے۔

’’بھائی عذرا کیسی ہے؟‘‘ نعیم نے مغموم آواز میں سوال کیا۔

’’وہ اچھی ہے۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو ہم تمہیں سپین میں ملیں گے۔‘‘

اس کے بعد عبد اللہ نے یوسف کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر نرگس کے قریب جا کر اپنا ہاتھ بلند کیا۔ نرگس نے اس کا مطلب سمجھ کر سر نیچے جھکا دیا۔ عبد اللہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

نرگس نے کہا۔’’بھائی جان! عذرا سے میرا سلام کہیے!‘‘

’’اچھا۔خدا حافظ! عبد اللہ نے کہا۔

تینوں نے اس کے جواب میں خدا حافظ کہا اور گھوڑوں کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔ عبد اللہ اور برمک کچھ دیر وہیں کھڑے رہے اور جب نعیم اور اس کے ساتھی رات کی تاریکی میں غائب ہو گئے تو یہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر لشکر کی قیام گاہ میں پہنچے۔

پہریداروں نے عبد اللہ کو پہچان کو سلام کیا۔ برمک کا گھوڑا ایک سپاہی کے حوالے کیا اور اس کی سواری کے لیے اونٹ کا انتظام کر کے دوبارہ شہر کی طرف لوٹا۔

زیاد اپنے مالک سے ابن صادق کا پورا پورا خیال رکھنے کا حکم سن چکا تھا اور اس نے ابن صادق کا اس حد تک خیال رکھا کہ اس کے چہرے سے نظر تک نہ ہٹائی۔ جب نیند کا غلبہ ہوتا تو اٹھ کر اس ستون کے گرد چکر لگانا شروع کر دیتا جس کے ساتھ ابن صادق جکڑا ہوا تھا، وہ اس تنہائی سے تنگ آ چکا تھا۔ اسے اچانک خیال آیا اور وہ ابن صادق کے قریب جا کھڑا ہو گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔اس کے چہرے پر اچانک ایک خوفناک مسکراہٹ نمودار ہوئی، اس نے ابن صادق کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ دے کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور اس کے منہ پر تھوکنے لگا۔ اس کے بعد اس نے پوری طاقت سے ابن صادق کو چند کوڑے رسید کر دیے اور پھر اس کے منہ پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ تھوڑی دیر کے لیے اس پر بے ہوشی طاری ہو گئی، جب اسے ہوش آیا تو زیاد اس کی داڑھی پکڑ کر کھینچنے لگا۔ جب ابن صادق نے بے بس ہو کر گردن ڈھیلی چھوڑ دی تو زیاد بھی اس کی خلاصی کر کے تھوڑی دیر کے لیے اس کے گرد گھومنے لگا۔ابن صادق نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھولیں تو زیاد نے پھر وہی عمل دہرایا۔ چند بار ایسا کرنے پر جب اس نے محسوس کیا کہ اس کی طاقت کوڑے کھانے سے جواب دے چکی ہے تو ستون کے گرد چکر لگانے کے بعد وہ کبھی کبھی ابن صادق کی داڑھی پکڑ کر ایک آدھ جھٹکا دے دیتا۔ کبھی کبھی وہ تھک کر بیٹھ جاتا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد یہ دل لگی شروع کر دیتا۔

جس وقت صبح کی اذان ہو رہی تھی۔ زیاد نے دروازے سے باہر دیکھا۔ عبد اللہ اور برمک آتے دکھائی دیے۔ اس نے آخری بار جلدی جلدی تھوکنے، کوڑے مارنے، طمانچے رسید کرنے اور ڈاڑھی نوچنے کا شغل پورا کرنا چاہا۔ ابھی اس نے داڑھی نوچنے کی رسم پوری طرح ادا نہ کی تھی کہ عبد اللہ اور برمک آ پہنچے۔

عبد اللہ نے کہا۔’’بے وقوف تم کیا کرتے ہو، اسے جلدی سے صندوق میں ڈالو۔‘‘

زیادہ نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور اس ادھ موئے اژدہے کو صندوق میں بند کر دیا۔

سورج نکلتے ہی عبد اللہ اپنی فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کی طرف جا رہا تھا۔ سامان رسد کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ کی پیٹھ پر ایک صندوق بھی لدا ہوا تھا۔ اس اونٹ کی نکیل زیاد کی سواری کے اونٹ کی دم سے بندھی ہوئی تھی۔لشکر میں عبد اللہ، برمک اور زیاد کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس صندوق میں کیا ہے۔

  عبد اللہ کے حکم سے برمک بھی گھوڑے پر سوار اس صندوق والے اونٹ کے ساتھ ساتھا رہا تھا۔

نعیم، نرگس اور یوسف کے ہمراہ قیروان پہنچا۔ وہاں سے ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد قرطبہ پہنچا۔ قرطبہ سے طیطلہ کا رخ کیا۔وہاں پہنچ کر نرگس کو ایک سرائے میں ٹھہرایا اور یوسف کے ہمراہ امیر عسا کر ابوعبیدہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عبد اللہ کا خط پیش کیا۔

ابوعبیدہ نے خط کھول کر پڑھا اور یوسف اور نعیم کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا۔’’آپ عبداللہ کے دوست ہیں۔ آج سے مجھے اپنا دوست خیال کریں۔ کیا عبد اللہ خود واپس نہیں آئے گا؟‘‘

نعیم نے جواب دیا۔’’امیر المومنین نے انہیں قسطنطنیہ کی مہم پر روانہ کیا ہے۔‘‘

’’اس جگہ ان کی قسطنطنیہ سے زیادہ ضرورت تھی۔ طارقؒ اور موسیؒ کی جگہ لینے والا کوئی نہیں۔ میں ضعیف ہو چکا ہوں اور پوری تن دہی سے اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ملک شام اور عرب سے بہت مختلف ہے۔ یہاں پہاڑی لوگوں کے جنگ کے طریقے بھی ہم سے جدا ہیں۔ اس سے پیشتر آپ کو فوج میں کوئی اچھا عہدہ دیا جائے، اس جگہ معمولی سپاہیوں کی حیثیت سے کافی دیر تک تجربہ حاصل کرنا ہو گا۔ رہا آپ کی حفاظت کا سوال تو اس کے متعلق مطمئن رہیں۔ اگر امیر المومنین نے آپ کو یہاں تک تلاش کرنے کی کوشش کی تو آپ کو کسی محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے گا۔ میرا یہ اصول ہے کہ میں کسی شخص کی قابلیت کا امتحان لیے بغیر اسے کسی ذمہ داری پر مامور نہیں کرتا!‘‘

نعیم نے سپہ سالار کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا۔’’آپ اطمینان رکھیں، مجھے سپاہیوں کی آخری صف میں رہ کر بھی وہی مسرت حاصل ہو گی جو میں قتیبہؒ بن مسلم اور محمدؒ بن قاسم کے دائیں ہاتھ پر رہ کر محسوس کیا کرتا تھا۔‘‘

’’آپ کا مطلب ہے کہ آپ........!‘‘

ابو عبیدہ نے اپنا فقرہ پورا نہ کیا تھا کہ یوسف بول اٹھا۔’’یہ ابن قاسم اور قتیبہؒ کے مشہور سالاروں میں سے ایک ہیں۔‘‘

’’معاف کیجئے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں اپنے سے زیادہ قابل اور تجربہ کار سپاہی کے سامنے کھڑا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ابوعبیدہ نے پھر ایک بار نعیم سے مصافحہ کیا۔

’’میں اب سمجھا کہ آپ امیر المومنین کے زیر عتاب کیوں ہیں۔ یہاں آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ تاہم احتیاط کے طور پر آج سے آپ کا نام زبیر اور آپ کے دوست کا نام عبد العزیز ہو گا۔ آپ کے ساتھ اور کوئی بھی ہے؟‘‘

نعیم نے کہا۔’’ہاں ! میری بیوی بھی ساتھ ہے۔ میں اسے سرائے میں ٹھہرا کر آیا ہوں۔‘‘

’’میں ان کے لیے ابھی کوئی بندوبست کرتا ہوں !‘‘ ابوعبیدہ نے آواز دے کر ایک نوکر کو بلایا اور شہر میں کوئی اچھا سا مکان تلاش کرنے کا حکم دیا۔

چار مہینوں کے بعد نعیم زرہ بکتر پہنے نرگس کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور اس سے یہ کہہ رہا تھا ’’جس رات بھائی عبد اللہ اور عذرا کی شادی ہوئی تھی وہ اسی رات جہاد پر روانہ ہو گیا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ عذرا کے چہرے پر تفکرات اور غم کے معمولی آثار بھی نہ تھے۔‘‘

’’میں آپ کا مطلب سمجھتی ہوں۔‘‘ نرگس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’آپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ تاتاری عورتیں عرب عورتوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں لیکن میں آپ کا خیال غلط ثابت کر دوں گی۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’پرتگال کی مہم میں ہمیں قریباً چھ ماہ لگ جائیں گے۔ میں کوشش کروں گا کہ اس دوران ایک دفعہ آ کر تمہیں دیکھ جاؤں۔اگر میں نہا سکا تو گھبرا نہ جانا۔ آج ابوعبیدہ ایک لونڈی تمہارے پاس بھیج دے گا۔‘‘

’’میں آپ کو....!‘‘ نرگس نے اپنی آنکھیں نیچے جھکاتے ہوئے کہا۔’’ایک نئی خبر سنانا چاہتی ہوں۔‘‘

  ’’سناؤ!‘‘ نعیم نے نرگس کی ٹھوڑی پیار سے اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’جب آپ آئیں گے....!‘‘

’’ہاں ہاں کہو!‘‘

’’آپ نہیں جانتے؟‘‘ نرگس نے نعیم کا ہاتھ پکڑ کر دباتے ہوئے کہا۔

’’میں جانتا ہوں۔ تمہارا مطلب ہے کہ میں عنقریب ایک ہونہار بچے کا باپ بننے والا ہوں !‘‘

نرگس نے اس کے جواب میں اپنا سر نعیم کے سینے کے ساتھ لگا لیا۔

’’نرگس! اس کا نا م بتاؤں ....اس کا نا م عبد اللہ ہو گا۔ میرے بھائی کا نام!‘‘

’’اور اگر لڑکی ہوئی تو؟‘‘

’’نہیں وہ لڑکا ہو گا۔ مجھے تیروں کی بارش اور تلواروں کے سائے میں کھیلنے والے بیٹے کی ضرورت ہے۔ میں اسے تیر اندازی، نیزہ بازی اور شاہسواروں کے کرتب سکھایا کروں گا۔ میں اپنے آباؤ اجداد کی تلواروں کی چمک برقرار رکھنے کے لیے اس کے بازوؤں میں طاقت اور اس کے دل میں جرات پیدا کروں اگا۔‘‘

اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے خلیفہ ولید نے قسطنطنیہ کی تسخیر کے لیے جنگی جہازوں کا ایک بیڑا روانہ کیا تھا اور ایک فوج ایشیائے کوچک کے راستے بھیجی تھی لیکن اس حملے میں مسلمانوں کو سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ قسطنطنیہ کی مضبوط فصیل کی تسخیر سے پہلے اسلامی افواج کا سامان رسد ختم ہو گیا۔ دوسری مصیبت یہ نازل ہوئی کہ موسم سرما کے آغاز پر لشکر میں طاعون کی وبا پھیل گئی اور ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ ان مصائب میں اسلامی افواج کو ایک سال کے محاصرے کے بعد نا کام لوٹنا پڑا۔

محمدؒ بن قاسم اور قتیبہ بن مسلم باہلی کے حسرتناک انجام کے بعد سندھ اور ترکستان میں اسلامی فتوحات دور تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ سلیمان نے بدنامی کے اس بد نما دھبے کو دھونے کے لیے قسطنطنیہ کو فتح کرنا چاہا۔ اس خیال تھا کہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد خلیفہ ولید پر سبقت لے جائے گا لیکن بدقسمتی سے اس اس کام کی تکمیل کے لیے ان لوگوں کو چنا جنہیں سپاہیانہ زندگی سے کوئی سروکار نہ تھا۔ جب اس کے سپہ سالار کو پے درپے ناکامی ہوئی تو اس نے والی اندلس کو ایک بہادر اور تجربہ کار جرنیل بھیجنے کا حکم دیا۔ جیسا کہ ذکر آ چکا ہے۔ عبد اللہ اس کی تعمیل میں حاضر ہوا اور دمشق سے پانچ ہزار سپاہی لے کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوا۔ سلیمان نے خود بھی دمشق چھوڑ کر رملہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تاکہ وہاں سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والی فوج کی نگرانی کر سکے۔ اس نے خود بھی کئی بار حملہ آور فوج کی راہنمائی کی لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔

عبد اللہ کو سلیمان کی بہت سی تجاویز کے ساتھ اختلاف تھا۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ ترکستان اور سندھ کے مشہور جرنیل جو قتیبہ بن مسلمؒ اور محمدؒ بن قاسم کے ساتھ عقیدت کے جرم کی پاداش میں معزول کر دیے گئے تھے، دوبارہ فوج میں شامل کر لیے جائیں لیکن خلیفہ نے ان کی بجائے اپنے چند نا اہل دوست بھرتی کر لیے۔

عوام میں سلیمان کے خلاف جذبہ حقارت پیدا ہو رہا تھا۔ اسے خود بھی اپنی کمزوری کا احساس تھا۔ خدا کی راہ میں جان و مال نثار کرنے والی سپاہ محض خلیفہ کی خوشنودی کے لیے خون بہانا پسند نہیں کرتی تھی۔ اس لیے کشور کشائی کا وہ پہلا سا جذبہ آہستہ آہستہ فنا ہو رہا تھا ابن صادق کے اچانک غائب ہونے سے خلیفہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا۔اسے جھوٹی تسلیاں دے دے کر آنے والے مصائب سے بے پروا کرنے والا کوئی نہ تھا۔محمدؒ بن قاسم جیسے بے گناہوں کے قتل پراس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔ اس نے ابن صادق کی تلاش میں ہر ممکن کوشش کی۔ جاسوس دوڑائے، انعام مقرر کیے لیکن اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔

جزا اور سزا

عبد اللہ معلوم تھا کہ خلیفہ ابن صادق کی تلاش میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور اسے زندہ رکھنا خطرناک ہے مگر وہ ایسے ذلیل انسان کے خون سے ہاتھ رنگنا بہادر کی شان کے شایاں نہ سمجھتا تھا۔ جب قسطنطنیہ کے راستے میں اس کی فوج نے قونیہ کے مقام پر قیام کیا تو عبد اللہ عامل شہر سے ملا اور اس کے سامنے اپنے قیمتی سامان کی حفاظت کے لیے ایک مکان حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ عامل شہر نے عبد اللہ کو ایک پرانا اور غیرآباد مکان دے دیا۔ عبد اللہ نے ابن صادق کو اس مکان کے تہ خانے میں بند کیا اور برمک اور زیاد کو اس کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کا راستہ لیا۔

زیاد کو اپنی زندگی پہلے سے دلچسپ نظر آتی تھی۔ پہلے وہ محض ایک غلام تھا لیکن اب اسے ایک شخص کے جسم اور جان پر پورا پورا اختیار تھا۔ وہ جب چاہتا ابن صادق کے ساتھ دل بہلا لیتا۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ ابن صادق اس کے لیے ایک کھولنا ہے اور اس کھلونے کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس کا جی کبھی سیر نہ ہوتا۔ اس کی بے لطف زندگی میں ابن صادق پہلی اور آخری دلچسپی تھی۔ اسے اس کے ساتھ چڑ تھی یا پیار۔ بہر صورت وہ ہر روز اسے تھپڑ لگانے، اس کی ڈاڑھی نوچنے اور اس کے منہ پر تھوکنے کے لیے کوئی نہ کوئی موقع ضرور نکال لیتا۔ برمک اپنی موجودگی میں اسے ان حرکات کی اجازت نہ دیتا لیکن جب وہ کھانے کی چیزیں لینے کے لیے بازار جاتا تو زیاد اپنا جی خوش کر لیتا۔

عبد اللہ کے حکم کے مطابق ابن صادق کو اچھے سے اچھا کھانا دیا جاتا۔ اس کا یہ بھی حکم تھا کہ ابن صادق کو کوئی تکلیف نہ دی جائے لیکن زیاد اس حکم کو اتنا ضروری خیال نہ کرتا۔ اگرچہ عربی زبان سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا لیکن ابن صادق کے ساتھ وہ ہمیشہ اپنی مادری زبان میں گفتگو کرتا۔ ابن صادق کو شروع شروع میں دقت ہوئی لیکن چند مہینوں کے بعد وہ زیاد کی باتیں سمجھنے کے قابل ہو گیا۔

ایک دن برمک بازار سے کھانے پینے کی چیزیں لینے گیا۔ زیاد مکان کے ایک کمرے میں کھڑا کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا کہ اسے اپنا ایک ہم نسل ایک گدھے پر سوار شہر سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ دیو ہیکل حبشی کے بوجھ سے نحیف گدھے کی کمر دوہری ہو رہی تھی۔ گدھا چلتے چلتے لیٹ گیا اور حبشی اس پر کوڑے برسانے لگا۔ گدھا مجبوراً اٹھ کھڑا ہوا اور حبشی اس پر سوار ہو گیا۔ گدھا تھوڑی دور چل کر پھر بیٹھ گیا اور حبشی پھر کوڑے برسانے لگا۔ زیاد قہقہہ لگاتا ہوا کمرے سے ایک کوڑا اٹھا کر نیچے اترا اور ابن صادق کے قید خانے کا دروازہ کھل کر اندر داخل ہوا۔

ابن صادق زیاد کو دیکھتے ہی حسب معمول ڈاڑھی نچوانے اور کوڑے کھانے کے لیے تیار ہو گیا لیکن زیاد اس کی توقع کے خلاف کچھ دیر خاموش کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے آگے جھک کر دونوں ہاتھ زمین پرپر ٹیک دیے اور یک چوپائے کی طرح ہاتھ اور پاؤں کے بل دو تین گز چلنے کے بعد ابن صادق سے کہا۔’’آؤ!‘‘

ابن صادق اس کا مطلب نہ سمجھا۔ آج کسی نئی دل لگی کے خوف نے اسے بد حواس کر دیا تھا۔ وہ اتنا گھبرایا کہ اس کی پیشانی پر پسینہ آگیا۔

زیاد نے پھر کہا۔’’آؤ مجھ پر سواری کرو!‘‘

ابن صادق جانتا تھا کہ اسکے جائز اور نا جائز احکام کی اندھا دھند تکمیل ہی میں بہتری ہے اور اس کی حکم عدولی کی سزا اس کے لیے نا قابل برداشت ہو گی۔اس لیے ڈرتے ڈرتے زیاد کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ زیاد نے تہہ خانے کی دیوار کے ساتھ دو تین چکر لگائے اور ابن صادق کو نیچے اتار دیا۔ اس نے زیاد کو خوش کرنے کے لیے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔’’آپ بہت طاقتور ہیں !‘‘

  لیکن زیاد نے اس کے ان الفاظ پر کوئی توجہ نہ دی اور اٹھتے ہی اپنے ہاتھ جھاڑنے کے بعد ابن صادق کو پکڑ کر نیچے جھکاتے ہوئے کہا۔’’اب میری باری ہے!‘‘

ابن صادق کو معلوم تھا کہ وہ اس بھاری بھرکم دیو کے بوجھ تلے دب کر پس جائے گا لیکن اس نے مجبوراً اپنے آپ کو سپرد تقدیر کر دیا۔

زیاد اپنا کوڑا ہاتھ میں لے کر ابن صادق کی پیٹھ پر سوار ہوا۔ ابن صادق کی کمر دوہری ہو گئی۔ اس کے لیے اس قدر بوجھ لے کر چلنا ناممکن تھا۔ وہ بصد مشکل دو تین قدم اٹھانے کے بعد گر پڑا۔ زیاد نے کوڑے برسانے شروع کر دیے یہاں تک کہ ابن صادق بے ہوش ہو  گیا۔ زیاد نے اسے اٹھایا اور دیوار کا سہارا دے کر بٹھا دیا اور خود بھاگتا ہوا باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد قید خانے کا دروازہ پھر کھلا اور زیاد ایک طشتری میں چند سیب اور انگور لے کر اندر داخل ہوا۔ ابن صادق نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھولیں۔ زیاد نے اپنے ہاتھ سے چند انگور اس کے منہ میں ڈالے۔اس کے بعد اس نے اپنے خنجر کے ساتھ ایک سیب چیرا اور اس میں سے آدھا ابن صادق کو دیا۔ جب ابن صادق نے اپنا حصہ ختم کر لیا تو زیاد نے اسے ایک اور سیب کاٹ کر دیا۔

ابن صادق کو معلوم تھا کہ زیاد کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ مہربان بھی ہو جایا کرتا ہے، اس لیے اس نے دوسرا سیب ختم کرنے کے بعد خود ہی تیسرا سیب اٹھا لیا۔ زیادہ نے اپنا خنجر سیبوں کے درمیان رکھا ہوا تھا۔ ابن صادق نے قدرے بے پرواہی ظاہر کرتے ہوئے اس کا خنجر اٹھایا اور سیب کا چھلکا اتارنا شروع کر دیا۔ زیاد اس کی ہر حرکت کو غور سے دیکھتا رہا۔ ابن صادق نے خنجر پھر وہیں رکھ دیا اور بولا ’’یہ چھلکا نقصان دہ ہوتا ہے!‘‘

’’ہوں !‘‘ زیاد نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور ایک سیب اٹھا کر خود بھی ابن صادق کی طرح اس کا چھلکا اتارنے لگا۔ زیاد کے ہاتھ پر ایک معمولی سا زخم آگیا۔ وہ ہاتھ منہ میں ڈال کر چوسنے لگا۔

’’لائیے۔ میں اتار دوں !‘‘ ابن صادق نے کہا۔

زیاد نے سر ہلایا اور اپنا سیب اور خنجر اسے دے دیا۔

ابن صادق نے سیب کا چھلکا اتارا کر اسے دیا اور پوچھا۔’’اور کھائیں گے آپ؟‘‘

زیاد نے سر ہلایا اور ابن صادق نے ایک اور سیب اٹھا کر اس کا چھلکا اتارنا شروع کیا۔ ابن صادق کے ہاتھ میں خنجر تھا اور اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک دفعہ قسمت آزمائی کر کے دیکھ لے لیکن اسے یہ خوف تھا کہ زیاد اسے حملہ کرنے سے پہلے دبوچ لے گا۔ اسے نے کچھ سوچ کر اچانک دروازے کی طرف مڑ کر دیکھا اور پریشان سا منہ بنا کر کہا۔’’کوئی آ رہا ہے!‘‘ زیاد نے بھی جلدی سے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ ابن صادق نے نظر بچاتے ہی چمکتا ہوا خنجر اس کے سینے میں قبضے تک گھونپ دیا اور فوراً کود کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ زیاد غصے سے کانپتا ہوا اٹھا اور دونوں ہاتھ آگے کی طرف بڑھا کر ابن صادق کا گلا دبوچنے کے لیے آگے بڑھا۔ابن صادق اس کے مقابلے میں بہت پھرتیلا تھا۔ فوراً بھاگ کر اس کی زد سے باہر نکلا اور تہہ خانے کے دوسرے کونے میں جا کھڑا ہوا۔ زیاد اس کی طرف بڑھا تو وہ تیسرے کونے میں جا پہنچا۔ زیاد نے اسے چاروں طرف سے گھیرنا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا۔

زیاد کے قدم لحظہ بہ لحظہ ڈھیلے پڑ رہے تھے۔ زخم کا خون تمام کپڑوں کو تر کرنے کے بعد زمین پر گر رہا تھا۔ طاقت جواب دے چکی تھی۔ وہ سینے کو دونوں ہاتھوں میں دبا کر جھکتے جھکتے زمین پر بیٹھا اور بیٹھتے ہی نیچے لیٹ گیا۔ ابن صادق ایک کونے میں کھڑا کانپ رہا تھا۔ جب اسے تسلی ہوئی کہ وہ مر چکا ہے  بے ہوش ہو گیا ہے تو آگے بڑھ کر اس کی جیب سے چابی نکالی اور دروازہ کھول باہر نکل گیا۔

برمک ابھی تک بازار سے نہیں آیا تھا۔ ابن صادق یہاں سے خلاصی پا کر چند قدم بھاگا لیکن تھوڑی دور کر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اسے شہر میں کوئی خطرہ نہیں، اطمینان سے چلنے لگا اور شہر کے لوگوں سے باہر کی دنیا کے حالات معلوم کرنے کے بعد وہ خلیفہ کو اپنی آب بیتی سنانے کے لیے رملہ روانہ ہو گیا۔

ابن صادق کے رہائی کے چند دن بعد یہ خبر سنی گئی کہ خلیفہ نے عبد اللہ کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر دیا ہے اور وہ پا بہ زنجیر رملہ کی طرف لایا جا رہا ہے۔

  ابن صادق کے متعلق یہ خبر مشہور ہوئی کہ اسے سپین کا مفتی اعظم کا عہدہ دے کر بھیجا جا رہا ہے۔

۹۹ھ میں سلیمان نے اپنی فوج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا لیکن ابھی فتح کی حسرت پوری نہ ہوئی تھی کہ وہ دنیا سے چل بسا اور عمرؒ بن عبد العزیز تخت خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ عمرؒ بن عبد العزیز عادات و خصائل میں بنو امیہ کے تمام خلفا سے مختلف تھے۔ ان کا عہد خلافت اموی دور حکومت کا روشن ترین زمانہ تھا۔ نئے خلیفہ کا پہلا حکم مظلوموں کی داد رسی کرنا تھا۔ بڑے بڑے مجاہدین جو سلیمان بن عبد المالک کے جذبہ حقارت کا شکار ہو کر قید خانے کی تاریک کوٹھڑیوں میں پڑے ہوئے تھے، فورا رہا کر دیے گئے۔ سخت گیر حاکموں کو معزول کر دیا گیا اور ان کی جگہ نیک دل اور عادل حکام بھیجے گئے۔ عبد اللہ جو ابھی تک رملہ کے قید خانے میں محبوس تھا، وہاں سے رہا کر کے دربار خلافت میں بلایا گیا۔

عبد اللہ نے دربار خلافت میں حاضر ہو کر اپنی رہائی کے لیے شکریہ ادا کیا۔

امیر المومنین نے پوچھا۔’’اب تم کہاں جاؤ گے؟

’’امیر المومنین! مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر ہو گئی ہے۔ میں اب وہاں جاؤں گا۔‘‘

’’میں تمہارے متعلق ایک حکم نافذ کر چکا ہوں ‘‘

’’امیر المومنین! میں خوشی سے آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔‘‘

عمرؒ ثانی نے ایک کاغذ عبد اللہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’میں تمہیں خراسان کا گورنر مقرر کر  چکا ہوں۔ تم ایک مہینے کے لیے گھر رہ آؤ۔ اس کے بعد فوراً خراسان پہنچ جاؤ!‘‘

عبد اللہ سلام کر کے چند قدم چلا لیکن پھر رک کر امیر المومنین کی طرف دیکھنے لگا۔

’’تم کچھ اور کہنا چاہتے ہو؟‘‘ امیر المؤمنین نے سوال کیا۔

’’امیر المومنین! میں اپنے بھائی کے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اسے میں نے دمشق کے قید خانے سے نکالنے کی سازش کی تھی۔ وہ بے قصور تھا۔ اگر قصور کچھ تھا تو یہ کہ وہ قتیبہؒ بن مسلم اور محمدؒ بن قاسم کا دست راست تھا اور اس نے دربار خلافت میں حاضر ہو کر امیر المومنین کو قتیبہؒ کے قتل کے ارادے سے منع کیا تھا۔‘‘

عمرؒ ثانی نے پوچھا۔ ’’تم نعیم بن عبدالرحمن کا ذکر کر رہے ہو؟‘‘

’’ہاں امیر المومنین! وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔‘‘

’’اب وہ کہاں ہے؟‘‘

’’سپین میں۔ میں نے اسے ابو عبید کے پاس بھیج دیا تھا لیکن مجھے ڈر ہے کہ پہلے خلیفہ ابن صادق کا وہاں کا مفتی اعظم بنا کر بھیج چکے ہیں اور وہ نعیم کے خون کا پیاسا ہے۔‘‘

امیر المومنین نے کہا۔ ’’ابن صادق کے متعلق میں آج ہی والی سپین کو یہ حکم لکھ رہا ہوں کہ اسے پا بہ زنجیر دمشق بھیجا جائے اور میں تمہارے بھائی کے متعلق بھی خیال رکھوں گا۔‘‘

’’امیر المؤمنین نعیم کے ساتھ اسکا ایک دوست بھی ہے اور وہ آپ کی نظر کرم کا مستحق ہے۔‘‘

امیر المؤمنین نے کاغذ اٹھا کر والی سپین کے نام خط لکھا اور ایک سپاہی کے حوالے کرتے ہوئے کہا:

’’اب آپ خوش ہیں۔ میں نے آپ کے بھائی کو جنوبی پرتگال کا گورنر مقرر کر دیا ہے اور اس کے دوست کو فوج میں اعلیٰ عہدہ دینے کی سفارش کر دی ہے اور ابن صادق کے متعلق بھی لکھ دیا ہے۔‘‘

عبداللہ ادب سے سلام کر رخصت ہوا۔

  والی اندلس قرطبہ میں مقیم تھا۔ وہ جنوبی پرتگال میں ایک نئے جرنیل زبیر کی فتوحات کا سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے ابوعبید کے نام خط لکھا اور زبیر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ نعیم قرطبہ پہنچا اور والی اندلس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ والی اندلس نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا اور اپنے دائیں ہاتھ بٹھا لیا۔

والی اندلس نے کہا ’’مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ابو عبید نے اپنے خط میں آپ کی بہت تعریف کی ہے۔ چند دن ہوئے مجھے یہ خبر ملی تھی کہ شمال کے پہاڑی لوگوں نے بغاوت کر دی ہے۔ میں آپ کو ان کی سرکوبی کے لیے بھیجنا چاہتا ہوں۔ آپ کل تک تیار ہو جائیں گے؟‘‘

’’اگر بغاوت ہے تو مجھے آج ہی جانا چاہیے اور بغاوت کی آگ کو پھیلنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔‘‘

’’بہت اچھا۔ میں ابھی امیر عسا کر کو مشورے کے لیے بلاتا ہوں۔‘‘

نعیم اور والی اندلس آپس میں یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک سپاہی نے آ کر کہا۔’’مفتی اعظم آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

گورنر نے کہا۔ انہیں کہو تشریف لے آئیں !‘‘

’’آپ شاید ان سے نہیں ملے!‘‘ اس نے نعیم کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’انہیں آئے ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ہوا۔ وہ امیر المؤمنین کے خاص احباب میں سے معلوم ہوتے ہیں اور مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ وہ اس منصب کے اہل نہیں۔‘‘

’’ان کا نام کیا ہے؟‘‘

’’ابن صادق۔ ‘‘ گورنر نے جواب دیا۔

نعیم نے چونک کر پوچھا۔ ’’ابن صادق؟‘‘

’’آپ انہیں جانتے ہیں ؟‘‘

اتنے میں ابن صادق اندر داخل ہوا اور اسے دیکھتے ہی نعیم کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کوئی تازہ مصیبت سر پر کھڑی ہے۔

ابن صادق نے بھی اپنے پرانے حریف کو دیکھا اور ٹھٹھک کر رہ گیا۔

’’آپ انہیں نہیں جانتے؟‘‘ گورنر نے ابن صادق کو مخاطب کیا۔’’ان کا نام زبیر ہے اور ہماری فوج کے بہت بہادر سالار ہیں۔‘‘

’’خوب! ابن صادق نے یہ کہہ کر نعیم کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن نعیم نے مصافحہ نہ کیا۔

’’شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں آپ کا پرانا دوست ہوں۔ ‘‘ ابن صادق نے کہا۔

نعیم نے ابن صادق کی طرف توجہ نہ کی اور گورنر سے کہا۔’’آپ مجھے اجازت دیں !‘‘

’’ٹھہریے۔ میں سالار کے نام حکم نامہ لکھ دیتا ہوں۔ وہ آپ کے ساتھ جتنی فوج درکار ہو گی روانہ کر دے گا اور آپ بھی تشریف رکھیں !‘‘ اس نے ابن صادق کو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ابن صادق گورنر کے قریب بیٹھ گیا اور گورنر نے کاغذ پر حکم نامہ لکھ کر نعیم کو دینا چاہا۔

’’میں دیکھ سکتا ہوں ؟‘‘ ابن صادق نے کہا۔

’’خوشی سے۔‘‘ گورنر نے کہا اور کاغذ ابن صادق کے ہاتھ میں دے دیا۔

ابن صادق نے کاغذ لے کر پڑھا اور گورنر کو واپس دیتے ہوئے کہا۔’’اب اس شخص کی خدمات کی ضرورت نہیں۔ آپ اس کی جگہ کوئی اور آدمی بھیج دیں !‘‘

گورنر نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’آپ کو انکے متعلق کیسا شبہ ہو گیا۔یہ تو ہماری فوج کے بہترین سالار ہیں !‘‘

’’لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ یہ امیر المومنین کے بدترین دشمن ہیں اور ان کا نام زبیر نہیں نعیم ہے اور یہ دمشق کے قید خانے سے فرار ہو کر یہاں تشریف لائے ہیں۔‘‘

  ’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘ گورنر نے پریشان ہو کر سوال کیا۔

نعیم خاموش رہا۔

ابن صادق نے کہا۔’’آپ فوراً اسے گرفتار کر لیں اور آج ہی میری عدالت میں پیش کریں۔‘‘

’’میں ایک سالار کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار نہیں کر سکتا۔ آپ ایک دوسرے کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں اس طرح پیش آئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے درمیان کوئی پرانی رنجش ہے اور اس صورت میں اگر یہ مجرم بھی ہوں تو بھی میں ان کا مقدمہ آپ کے سپرد نہیں کروں گا۔‘‘

’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ سپین کے مفتی اعظم سے باتیں کر رہے ہیں۔‘‘

’’اور آپ کو معلوم ہے کہ میں سپین کا عامل ہوں۔‘‘

’’ٹھیک۔ لیکن آپ کو معلوم نہیں کہ میں سپین کے مفتی اعظم کے علاوہ اور بھی کچھ ہوں۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’یہ نہیں جانتے میں بتا دیتا ہوں۔ آپ امیر المومنین کے دوست قتیبہؒ بن مسلم، محمدؒ بن قاسم اور ابی عامرؒ کے قاتل ہیں۔ ترکستان کی کی بغاوت آپ کی کرم فرمائی کا نتیجہ تھی اور آپ وہ سفاک انسان ہیں جس نے اپنے بھائی اور بھتیجی کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا لیکن اس وقت آپ میرے مجرم ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر نعیم نے بجلی کی سی پھرتی کے ساتھ نیام سے تلوار نکال لی اور اس کی نوک ابن صادق کے سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔’’ میں نے تمہیں بہت تلاش کیا لیکن تم نہ ملے۔ آج قدرت خود ہی تمہیں یہاں لے آئی۔ تم امیر المؤمنین کے دوست ہو۔ انہیں تمہارے اس انجام سے صدمہ تو بہت ہو گا لیکن اسلام کا مستقبل مجھے خلیفہ کی خوشی سے زیادہ عزیز ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر نعیم نے تلوار اوپر اٹھائی۔ ابن صادق بید کی طرح کانپ رہا تھا۔ موت سر پر دیکھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ نعیم یہ حالت دیکھ کر تلوار نیچے کر لی اور کہا۔’’اس تلوار سے میں نے سندھ اور ترکستان کے مغرور شہزادوں کی گردنیں اڑا چکا ہوں۔ میں اسے تم ایسے ذلیل اور بزدل انسان کے خون سے تر نہیں کروں گا۔ نعیم نے تلوار نیام میں ڈال لی اور کمرے میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔

ایک فوجی افسر کی مداخلت نے اس سکوت کو توڑا۔ اس نے آتے ہی والی سپین کی خدمت میں ایک خط پیش کیا۔ والی سپین نے جلدی سے خط کھولا اور دو تین مرتبہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پڑھنے کے بعد نعیم کی طرف دیکھا اور کہا:

’’اگر آپ کا نام زبیر نہیں نعیم ہے تو اس خط میں آپ کے متعلق بھی کچھ ارشاد ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے نعیم کی طرف خط بڑھا دیا۔ نعیم نے خط پڑھنا شروع کر دیا۔

یہ خط امیر المومنین عمرؒ بن عبد العزیز کی طرف سے تھا۔

والی سپین نے تا لی بجائی۔ چند سپاہی نمودار ہوئے۔

’’اسے گرفتار کر لو!‘‘ اس نے ابن صادق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

ابن صادق کو وہم تک بھی نہیں تھا کہ اس کے مقدر کا ستارہ طلوع ہوتے ہی سیاہ بادلوں میں چھپ جائے گا۔

ادھر نعیم جنوبی پرتگال کی طرف گورنر کی حیثیت سے جا رہا تھا اور ادھر چند سپاہی ابن صادق کو پا بہ زنجیر دمشق کی کی طرف لے جا رہے تھے۔

چند دنوں بعد نعیم کو معلوم ہوا کہ ابن صادق نے دمشق پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔

نعیم نے عبد اللہ کو خط لکھ کر گھر کی خیریت دریافت کی۔ اس خط کا جواب دیر تک نہ آیا۔نعیم تنگ آگیا اور تین مہینے کی رخصت پر بصرہ کی طرف روانہ ہوا۔ چونکہ نرگس اس کے ہمراہ تھی اس لیے سفر میں دیر لگ گئی۔گھر پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ عبد اللہ خراسان جا چکا ہے اور عذرا کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ نعیم خراسان جانا چاہتا تھا لیکن سپین کے شمال کی طرف اسلامی افواج کی پیش قدمی کی وجہ سے اپنا ارادہ ملتوی کر کے واپس آنا پڑا۔

آخری فرض

وقت دنوں سے مہینوں اور مہینوں سے برسوں میں تبدیل ہو کر گزرتا چلا گیا۔ نعیم کو جنوبی پرتگال کی گورنری پر فائر ہوئے اٹھارہ سال گزر چکے تھے۔ اس کی جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہو چکی تھی۔ نرگس کی عمر بھی چا لیس سے تجاویز کر چکی تھی لیکن اس کے حسیں چہرے کی جاذبیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ آتی تھی۔

عبد اللہ بن نعیم، ان کا بڑا بیٹا عمر کے پندرھویں برس میں قدم رکھتے ہی سپین کی فوج میں بھرتی ہو چکا تھا۔ تین سال کے اندر اندر اس نے اس قدر شہرت حاصل کر لی تھی کہ نرگس اور نعیم اپنے ہونہار لال پر بجا طور پر فخر کر سکتے تھے۔ دوسرا بیٹا حسین اپنے بڑے بھائی سے آٹھ سال چھوٹا تھا۔

ایک دن حسین بن نعیم مکان کے صحن میں کھڑا لکڑی کے ایک تختے کو ہدف بنا کر تیر اندازی کی مشق کر رہا تھا۔ نرگس اور نعیم برآمدے میں کھڑے اپنے لخت جگر کو دیکھ رہے تھے۔ حسین کے چند تیر نشانے پر نہ لگے۔ نعیم مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور حسین کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ حسین نے تیر چڑھا کر باپ کی طرف دیکھا اور ہدف کا نشانہ لیا۔

’’بیٹا! تمہارے ہاتھ کانپتے ہیں اور تم گردن ذرا بلند رکھتے ہو!‘‘

’’ابا! جب آپ میری طرح تھے۔ آپ کے ہاتھ نہیں کانپا کرتے تھے؟‘‘

’’بیٹا! جب میں تمہاری عمر میں تھا تو اڑتے ہوئے پرندوں کو گرا لیا کرتا تھا اور جب میں تم سے چار سال بڑا تھا تو بصرہ کے لڑکوں میں سب سے اچھا تیر انداز مانا جاتا تھا۔‘‘

’’ابا جان! آپ نشانہ لگا کر دیکھیں !‘‘

نعیم نے اس کے ہاتھ سے کمان لے کر تیر چلایا تو وہ ہدف کے عین درمیان میں جا کر لگا۔ اس کے بعد نعیم اسے نشانہ لگانے کا طریقہ سمجھانے لگا۔ نرگس بھی ان کے قریب آ کھڑی ہوئی۔

ایک نوجوان گھوڑا بھگاتا ہوا مکان کے پھاٹک پرا کر رکا۔ نوکر نے پھاٹک کھولا۔ سوار گھوڑا نوکر کے حوالے کر کے بھاگتا ہوا صحن کے اندر داخل ہوا۔

نعیم نے ’’عبد اللہ‘‘ کہہ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ نرگس اپنی نگاہ کی ہر جنبش میں ہزاروں دعائیں لیے آگے بڑھی۔ ’’بیٹا! تم آ گئے۔ الحمد للہ!‘‘

نعیم نے سوال کیا۔ ’’کیا خبر لائے ہو بیٹا؟‘‘

’’ابا جان! عبد اللہ بن نعیم نے سر جھکا کر غمگین سا چہرہ بناتے ہوئے کہا۔’’کوئی اچھی خبر نہیں۔ فرانس کے معرکے میں ہمیں سخت نقصان اٹھا کر واپس ہونا پڑا۔ ہم سرحدی علاقے فتح کرنے کے بعد مزید پیشقدمی کی تیاری کر رہے تھے کہ ہمیں فرانس کی ایک لاکھ فوج کا سامنا کرنا پڑا۔ ہماری فوج اٹھارہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ہمارے سپہ سالار عقبہ نے قرطبہ سے مدد طلب کی لیکن وہاں سے خبر آئی کہ مراکش میں بغاوت ہو گئی ہے۔

   اس لیے فرانس کی طرف زیادہ فوجیں نہیں بھیجی جا سکتیں۔ ہمیں مجبوراً شاہ فرانس کے مقابلے میں صف آرا ہونا پڑا اور ہماری فوج کے نصف سے زیادہ سپاہی میدان میں کام آئے۔‘‘

’’اور اب عقبہ کہاں ہے؟‘‘ نعیم نے سوال کیا۔

’’وہ قرطبہ پہنچ چکا ہے اور عنقریب مراکش کی طرف کوچ کرنے والا ہے۔ بغاوت کی آگ کے شعلے مراکش سے تیونس تک بلند ہو رہے ہیں۔ بربریوں نے تمام مسلمان حکام قتل کر دیے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس بغاوت میں خارجیوں اور رومیوں کا ہاتھ ہے۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’عقبہ ایک بہادر سپاہی ہے لیکن قابل سپہ سالار نہیں۔ میں نے والی سپین کو لکھا کہ مجھے فوج میں لیا جائے لیکن وہ مانتے نہیں۔‘‘

’’اچھا  ابا جان! مجھے اجازت دیجئے۔‘‘

’’اجازت! کہاں جاؤ گے؟‘‘ نرگس نے پوچھا۔

’’امی جان! میں فقط آپ کو اور ابا جان کو دیکھنے کے لیے آیا تھا۔ مجھے فوج کے ساتھ مراکش جانا ہے۔‘‘

’’اچھا اللہ تمہاری حفاظت کرے!‘‘ نعیم نے کہا۔

’’اچھا امی خدا حافظ!‘‘ یہ کہہ کر عبد اللہ نے حسین کو گلے لگایا اور وہ جس تیزی سے آیا تھا اسی طرح گھوڑا دوڑاتا ہوا واپس چلا گیا۔

بربریوں کی بغاوت میں مسلمانوں کی ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ انہوں نے مسلمان حکام کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔

عقبہ مراکش کے ساحل پر اترا اور ۳۲۱ھ میں شام سے کچھ فوجیں اس کی اعانت کے لیے پہنچ گئیں۔ مراکش میں ایک گھمسان کا معرکہ ہوا۔ نیم عریاں بربریوں کی افواج چاروں طرف سے ایک سیلاب کی طرح نمودار ہوئیں۔ ہسپانیہ اور شام کی افواج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن حریف کی لاتعداد فوج کے سامنے پیش نہ گئی۔عقبہ اس لڑائی میں شہید ہوا اور مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ بربریوں نے انہیں گھیر گھیر کر قتل کرنا شروع کر دیا۔

نعیم کا بیٹا عبد اللہ دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا بہت دور نکل گیا اور زخمی ہو کر اپنے گھوڑے سے گرنے کو تھا کہ ایک عربی جرنیل نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا اور میدان جنگ سے باہر ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔

ہسپانیہ اور شام کے لشکر کا قریباً تین چوتھائی حصہ قتل ہو چکا تھا۔ رہے سہے سپاہی ایک طرف سمٹنے لگے۔ بربریوں نے انہیں پسپا ہوتے دیکھ کر کئی میل تک تعاقب کیا۔ شکست خورد فوج نے الجزائر میں جا کر دم لیا۔

والی سپین کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس نے ہسپانیہ کے تمام صوبوں سے نئی فوج فراہم کرنے کی کوشش کی اور اس نئے لشکر کی قیادت کے لیے نعیم کو منتخب کیا۔ نعیم کو اپنے بیٹے کے خط سے اسکے زخمی ہونے اور ایک مجاہد کے ایثار سے اس کی جان بچ جانے کا حال معلوم ہو چکا تھا۔ ۵۲۱ھ میں جب بربری تمام شما لی افریقہ میں مظالم برپا کر رہے تھے، نعیم اچانک دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ افریقہ کے ساحل پر اترا۔ بربری اس کی آمد سے بے خبر تھے۔نعیم انہیں شکست پر شکست دیتا ہوا مشرق کی طرف بڑھا۔

ادھر الجزائز سے شکست خوردہ افواج نے پیش قدمی کی اور بربریوں کی طرف سے سرکوبی ہونے لگی۔ ایک مہینے میں مراکش میں بغاوت کی آگ ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ لیکن افریقہ کے شمال مشرق میں ابھی یہ فتنہ کہیں کہیں جاگ رہا تھا۔ خارجیوں اور بربریوں نے مراکش شے پسپا ہو کر تیونس کو اپنا مرکز بنا لیا تھا۔ نعیم مراکش کے نظم و نسق میں مصروف تھا۔ اس لیے پیشقدمی نہ کر سکا۔ اس نے فوج کے چیدہ چیدہ افسروں کو اپنے خیمے میں اکٹھا کیا اور ایک پر جوش تقریر کرتے ہوئے کہا۔’’تیونس پر حملہ کرنے کے لیے ایک سرفروش جرنیل کی ضرورت ہے۔ آپ میں سے کون ہے جو اس خدمت کا ذمہ لے گا!‘‘

   نعیم نے اپنا فقرہ پورا نہ کیا تھا کہ تین جرنیل اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے ایک اس کا پرانا دوست یوسف تھا۔ دوسرا اس کا نوجوان بیٹا عبد اللہ۔ تیسرے نوجوان کی شکل عبد اللہ سے ملتی جلتی تھی لیکن نعیم اسے ناواقف تھا۔

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ نعیم نے سوال کیا۔

’’میرا نام نعیم ہے۔‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔

’’عبد اللہ؟ عبد اللہ بن عبدالرحمن؟‘‘ نعیم نے پوچھا۔

’’جی ہاں !‘‘

نعیم نے آگے بڑھ کر نوجوان کو گلے لگا لیا اور کہا۔’’تم مجھے جانتے ہو؟‘‘

’’جی ہاں ! آپ ہمارے سالار ہیں۔‘‘

’’میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہوں۔‘‘ نعیم نے جوان کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’میں تمہارا چچا ہوں۔ عبد اللہ یہ تمہارا بھائی ہے!‘‘

’’ابا جان! انہی نے مراکش کی لڑائی میں میری جان بچائی تھی۔‘‘

’’بھائی جان کیسے ہیں ؟‘‘ نعیم نے سوال کیا۔

’’انہیں شہید ہوئے دو سال ہو گئے ہیں۔ انہیں ایک خارجی نے قتل کر ڈالا تھا۔

نعیم کے دل پر ایک چرکا لگا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر ہاتھ اٹھا کر دعائے مغفرت کی اور پوچھا۔’’تمہاری والدہ؟‘‘

’’وہ اچھی ہیں۔‘‘

’’تمہارے بھائی کتنے ہیں ؟‘‘

’’ایک بھائی اور چھوٹی ہمشیرہ ہے۔‘‘

نعیم نے باقی افسروں کو رخصت کیا اور ان کے چلے جانے کے بعد اپنی کمر سے تلوار نکال کر نعیم بن عبد اللہ کو دیتے ہوئے کہا۔’’تم اس امانت کے حقدار ہو اور تم یہیں رہو۔ میں خود تیونس کی طرف جاؤں گا۔‘‘

’’چچا جان! آپ مجھے کیوں نہیں بھیجتے؟‘‘

’’بیٹا! تم جوان ہو۔ دنیا کو تمہاری ضرورت پڑے گی۔ آج سے تم یہاں کی افواج کے سپہ سالار ہو۔ عبد اللہ یہ تمہارے بڑے بھائی ہیں۔ انکا حکم دل و جان سے بجا لانا!‘‘

نعیم بن عبد اللہ نے کہا۔’’چچا جان میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں !‘‘

’’کہو بیٹا!‘‘

’’آپ گھر نہیں جائیں گے؟‘‘

’’بیٹا! تیونس کی مہم کے بعد میں فوراً وہاں جاؤں گا۔‘‘

’’چچا جان۔ آپ ضرور جائیں۔ امی جان اکثر آپ کا تذکرہ کیا کرتی ہیں۔ میری چھوٹی بہن اور بھائی بھی آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘

’’انہیں معلوم ہے کہ میں زندہ ہوں ؟‘‘

’’امی کو یقین تھا کہ آپ زندہ رہیں۔ انہوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ میں مراکش کی مہم کے بعد آپ کو سپین جا کر تلاش کروں اور آپ سے یہ کہوں کہ آپ چچی کے ہمراہ گھر تشریف لائیں !‘‘

’’میں بہت جلد وہاں پہنچ جاؤں گا۔ عبد اللہ تم اندلس جاؤ اور اپنی والدہ کو لے کر بہت جلد گھر پہنچ جاؤ۔ میں تیونس سے فراغت پاتے ہی آ جاؤں گا۔ میں والی اندلس کو خط لکھ دیتا ہوں۔ وہ تمہارے لیے بحری سفر کا انتظام کر دے گا۔‘‘

تیونس میں باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نعیم کو اپنی توقع کے خلاف بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بربری ایک جگہ سے شکست کھا کر بھاگتے تھے اور دوسری جگہ لوٹ مار شروع کر دیتے تھے۔نعیم چند مہینوں میں کئی جنگیں لڑنے کے بعد تیونس کی بغاوت فرو کرنے میں کامیاب ہوا۔ تیونس سے باغی جماعتیں پسپا ہو کر مشرق کی طرف پھیل گئیں۔ نعیم باغیوں کی سرکوبی کا تہیہ کر کے آگے بڑھتا گیا۔ تیونس اور قیروان کے درمیان باغی جماعتوں نے کئی بار نعیم کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ قیروان کے قریب آخری جنگ میں نعیم بری طرح زخمی ہوا۔ وہ بے ہوشی کی حالت میں قیرون لایا گیا اور وہاں کے عامل نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور اس کے علاج کے لیے ایک تجربہ کار طبیب بلا بھیجا۔ نعیم کو دیر کے بعد ہوش آیا لیکن بہت زیادہ خون بہ جانے کی وجہ سے وہ اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ اسے دن میں کئی بار غش آتا تھا۔ ایک ہفتے تک نعیم موت و حیات کی کشمکش میں بسترپر پڑا رہا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر والی قیروان نے فسطاط سے ایک مشہور طبیب کو بلا بھیجا۔ طبیب نے نعیم کے زخم دیکھ کر اسے تسلی دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انہیں دیر تک آرام کرنا پڑے گا!

تین ہفتوں کے بعد نعیم کی حالت میں قدرے افاقہ ہوا اور اس نے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی لیکن طبیب نے کہا۔’’زخم ابھی تک اچھے نہیں ہوئے۔ سفر میں ان کے دوبارہ پھٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے آپ کو کم از کم ایک مہینہ زیر علاج رہنا چاہیے۔مجھے ڈر ہے کہ یہ زخم زہر آلود ہتھیاروں لے لگے ہیں اور ممکن ہے کہ خون کی خرابی سے پھر ایک بار بگڑ جائیں !‘‘

نعیم نے ایک ہفتہ اور صبر کیا لیکن گھر جانے کے لیے اس بے قراری میں ہر لحظہ اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتے گزار دیتا۔ جی میں آتی کہ ایک بار اڑ کر اس جنت ارضی میں پہنچ جائے۔

اسے یقین تھا کہ نرگس وہاں پہنچ چکی ہو گی اور عذرا کے ساتھ ریت کے ٹیلوں پر کھڑی اس کی راہ دیکھتی ہو گی۔

بیس دن اور گزر جانے پر اس کے زخم جو کسی حد تک اچھے ہو چکے تھے بگڑنے لگے اور ہلکا ہلکا بخار آنے لگا۔ طبیب نے اسے بتایا کہ یہ تمام زہر آلود ہتھیاروں کا اثر ہے۔ زہر اس کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا ہے اور اسے کافی دیر تک یہاں ٹھہر کر علاج کرنے پڑے گا۔

ایک روز آدھی رات کے قریب نعیم اپنے بستر پر لیٹا ہوا سوچ رہا تھا کہ وہ گھر پہنچ کر عذرا کو کس حالت میں دیکھے گا۔ وقت نے اس کے معصوم چہرے پر کیا کیا تغیرات پیدا کر دیے ہوں گے۔ اس کی مغموم صورت دیکھنے پر اس کے دل کیا کیفیت ہو گی۔ اسے یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ شاید قدرت کو اب بھی اس کا گھر جانا منظور نہیں۔ وہ پہلے بھی کئی بار زخمی ہوا تھا لیکن ان زخموں کی کیفیت کچھ اور تھی۔ اس نے اپنے دل میں کہا ’’ہو سکتا ہے کہ یہ زخم مجھے موت کی آغوش میں لے جائیں۔ لیکن مجھے نرگس اور عذرا سے بہت کچھ کہنا ہے۔اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو چند وصیتیں کرنی ہیں۔ مجھے موت کا ڈر نہیں۔ میں ہمیشہ موت سے کھیلتا رہا ہوں لیکن یہاں لیٹے لیٹے موت کا انتظار کرنا میرے لیے مناسب نہیں۔ مجھے عذرا نے گھر آنے کا پیغام بھیجا ہے....وہ عذرا جس کی معمولی خوشی کے لیے میں کبھی جان پر کھیل جانا آسان سمجھتا تھا اور اس کے علاوہ نرگس کے دل کی کیا حالت ہو گی؟ میں ضرور جاؤں گا۔ مجھے کوئی نہیں روک سکتا!‘‘

نعیم یہ کہتا ہوا بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مجاہد کا عزم جسمانی کمزوری پر غالب آنے لگا اور وہ عمل کے ایک بے پناہ جذبے سے بے تاب ہو کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ وہ بھول چکا تھا کہ وہ زخمی ہے اور اس کی جسمانی حالت ایک لمبا سفر اختیار کرنے کے قابل نہیں۔ اس وقت اس کے دماغ میں فقط نرگس، عذرا، عبد اللہ کے کمسن بچے اور بستی کے حسین نخلستانوں کا تصور تھا۔ میں ضرور جاؤں گا! یہ اس کا آخری فیصلہ تھا۔

وہ اچانک کمرے میں ٹہلتا ٹہلتا رک گیا۔ اس نے اپنے میزبان کے نوکر کو آواز دی۔ نوکر بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور نعیم کو بستر پر  دیکھنے کی بجائے کمرے میں چکر لگتا دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے کہا۔ طبیب کا حکم ہے کہ آپ چلنے پھرنے سے گریز کریں !‘‘

’’تم میرا گھوڑا تیار کرو۔جاؤ!‘‘

’’آپ کہاں جانا چاہتے ہیں ؟‘‘

’’تم گھوڑا تیار کرو!‘‘

’’لیکن اس وقت؟‘‘

’’فوراً! نعیم نے سختی سے کہا۔

’’رات کے وقت آپ کہاں جائیں گے؟‘‘

’’تہیں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کر۔ فضول سوالات کا جواب میرے پاس نہیں !‘‘

نوکر گھبرا کر کمرے سے باہر نکلا۔

نعیم پھر بستر پر بیٹھ کر خیالات کی دنیا میں کھو گیا۔

تھوڑی دیر بعد نوکر واپس آیا اور بولا۔’’گھوڑا تیار ہے لیکن....!!‘‘

نعیم نے بات کاٹ کر جواب دیا ’’تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو۔ میں جانتا ہوں مجھے ایک ضروری کام ہے۔ اپنے مالک سے کہنا کہ میں نے اجازت حاصل کرنے کے لیے انہیں رات کے وقت جگانا مناسب خیال نہیں کیا۔‘‘

صبح ہونے سے پہلے نعیم قیروان سے کوئی دو منازل پگے جا چکا تھا۔ اس لمبے سفر میں اس نے یہ احتیاط ضرور برتی کہ گھوڑے کو تیز نہ کیا۔ اور تھوڑی تھوڑی منازل کے بعد آرام کرتا تھا۔ فسطاط پہنچ کر اس نے دور دن قیام کیا۔ وہاں کے گورنر نے پہلے تو نعیم کو اپنے پاس ٹھہرانے کے لیے اصرار کیا لیکن جب نعیم کسی صورت میں بھی رضا مند نہ ہوا تو اس نے راستے کی تمام چوکیوں کو اس کی آمد سے مطلع کرتے ہوئے اس کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

نعیم جوں جوں منزل کے نزدیک پہنچ رہا تھا اسے اپنی جسمانی تکلیف میں افاقہ محسوس ہو رہا تھا۔ کئی دنوں بعد ایک شام وہ ایک صحرائی خطے میں سے گزر رہا تھا۔ اس کی بستی فقط چند کوس کے فاصلے پر تھے۔ ہر نئے قدم پر نئی امنگیں بیدار ہو رہی تھیں۔اس کا دل مسرت کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا۔اچانک اسے افق مغرب پر ایک غبار سا اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ ایک ساعت کے اندر اندر یہ غبار چاروں طرف پھیل گیا اور فضا میں تاریکی چھا گئی۔نعیم ریگستان کے طوفانوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہ طوفان کی مصیبت میں مبتلا ہونے سے پہلے گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اس نے گھوڑے کی رفتار تیز کر دی اور ہوا کا پہلا جھونکا محسوس کرتے ہی اسے سرپٹ چھوڑ دیا۔ ہوا کی تیزی اور فضا کی تاریکی بڑھتی گئی۔ گھوڑا بھگانے کی وجہ سے نعیم کے سینے کے زخم پھٹ گئے اور خون بہنے لگا۔ اس نے اس حالت میں کوئی دو کوس فاصلہ طے کیا ہو گا کہ طوفان نے اسے پوری طاقت کے ساتھ گھیرا۔چاروں طرف سے جھلستی ہوئی ریت برسنے لگی۔ گھوڑا آگے نہ بڑھنے کا راستہ پا کر رک گیا۔ نعیم مجبوراً گھوڑے سے اترا اور ہوا کے مخالف پیٹھ کر کے کھڑا ہو گیا۔ گھوڑا بھی اپنے مالک کی طرح سر نیچا کر کے کھڑا تھا۔ نعیم نے اپنے چہرے کو جھلستی ہوئی ریت سے بچانے کے لیے نقاب اوڑھ کانٹے دار جھاڑیاں ہوا میں اڑتی ہوئی آتیں اور اس کے جسم میں کانٹے پیوست کرتی ہوئی گر جاتیں۔ نعیم ایک ہاتھ سے گھوڑے کی باگ تھامے، دوسرے ہاتھ سے اپنے دامن سے چمٹی ہوئی خاردار ٹہنیوں کو جدا کر رہا تھا۔گھوڑے کی باگ پر اس کے ہاتھ کی گرفت قدرے ڈھیلی تھی۔ببول کی ایک خشک ٹہنی اڑتی ہوئی گھوڑے کی پیٹھ پر زورسے آ  کر لگی۔ گھوڑے نے بدحواس ہو کر ایک جست لگائی اور نعیم کے ہاتھ سے باگ چھڑا کر کچھ دور جا کھڑا ہوا۔ ایک اور ٹہنی گھوڑے کے کانوں میں کانٹے پیوست کرتی ہوئی گزر گئی اور وہ بدحواس ہو کر ایک طرف بھاگ نکلا۔ نعیم دیر تک اسی جگہ بے بسی کی حالت میں کھڑا رہا۔  سینے کا زخم پھٹ جانے سے خون کے قطرے آہستہ آہستہ بہہ کراس کے گریبان کو تر کر رہے تھے۔ اور اس کی جسمانی طاقت لحظہ بہ لحظہ جواب دے رہی تھی۔ وہ مجبوراً ریت پر بیٹھ گیا۔ کبھی کبھی وہ ریت کے اس بے پناہ سیلاب میں دب جانے کے خوف سے اٹھ کر کپڑے جھاڑتا اور پھر بیٹھ جاتا۔ کچھ دیر بعد رات کی سیاہی طوفان کی تاریکی میں اضافہ کرنے لگی۔ ایک پہر سے زیادہ رات گزر جانے پر ہوا کا زور ختم ہوا۔ آہستہ آہستہ مطلع صاف ہو گیا اور آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستارے نظر آنے لگے۔

نعیم اپنی بستی سے آٹھ کوس دور تھا۔ اس کا گھوڑا ہاتھ سے جا چکا تھا اور ٹانگوں میں چلنے کی طاقت نہ تھی۔ وہ پیاس محسوس کر رہا تھا۔ اسے خیال گزرا کہ اگر صبح ہونے سے پہلے وہ ریت کے اس سمندر کو عبور کے محفوظ مقام پر نہ پہنچ گیا تو دن کی دھوپ میں اسے تڑپ تڑپ کر جان دینی پڑے گی۔

وہ ستاروں کی سمت کا اندازہ لگاتے ہوئے پیدل چل دیا۔ ایک کوس چلنے کے بعد اس کی طاقت نے جواب دے دیا اور وہ مایوس ہو کر ریت پر لیٹ گیا۔ منزل سے اتنا قریب آ کر ہمت ہار دینا مجاہد کے عزم و استقلال کے منافی تھا۔ وہ ایک بار لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور منزل مقصود کی طرف قدم اٹھانے لگا۔ ریت میں گھٹنوں تک اس کے پاؤں دھنسے جارے تھے۔ وہ چلتے چلتے تین بار گرا، لیکن پھر اسی عزم کے ساتھ اٹھا اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پیاس کی شدت سے اس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور کمزوری سے اس کی آنکھوں کے سامنے سیاہی طاری ہو رہی تھی۔ سر چکرا رہا تھا۔ بستی ابھی چار کوس دور تھی۔ اسے معلوم تھا کہ بستی کی طرف جانے والی ندی یہاں سے قریب ہے۔ اس نے ڈگمگاتے، گرتے اور سنبھلتے ایک کورس اور طے کیا تو ایک چھوٹی سی ندی دکھائی دی۔

ندی کا پانی طوفان کے گرد و غبار سے گدلا ہو رہا تھا اور سطح پر جھاڑیوں کی بیشمار ٹہنیاں تیر رہی تھی۔ نعیم نے جی بھر کر ندی سے پانی پیا۔ کچھ دیر ندی کے کنارے لیٹنے کے بعد کچھ تقویت محسوس ہوئی اور وہ اٹھ کر چل دیا۔

ندی کو عبور کرتے ہی بستی کے ارد گرد نخلستان دکھائی دینے لگے۔ نعیم کے دل سے تھکاوٹ اور جسمانی کمزوری کا احساس کم ہونے لگا اور ہر قدم پر اس کی رفتار زیادہ ہونے لگی۔ چند ساعتوں کے بعد وہ ریت کے اس ٹیلے کو عبور کر رہا تھا۔ جس پر بچپن میں وہ اور عذرا کھیلا کرتے تھے اور ریت کے چھوٹے چھوٹے گھر تعمیر کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ کھجور کے بلند درختوں میں سے گزرتا ہوا اپنے مکان کی طرف بڑھا۔ دروازے پر کچھ دیر دھڑکتے ہوئے دل کو دبائے کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے ہمت کر کے دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھر والے ایک دوسرے کو جگانے لگ گئے۔ ایک نوجوان لڑکی نے آ کر دروازہ کھولا۔نعیم نوجوان لڑکی کو متحیر ہو کر دیکھنے لگا۔ اس کی شکل ہو بہو عذرا جیسی تھی۔ لڑکی نعیم کو دیکھ کر کچھ کہے بغیر واپس اندر چلی گئی۔ تھوڑا دیر بعد اس کا بیٹا عبد اللہ اور نرگس نعیم کے استقبال کے لیے آ موجود ہوئے۔ عذرا، عبد اللہ اور نرگس کے پیچھے جھجکتی ہوئی آ رہی تھی۔

نعیم نے چاند کی روشنی میں دیکھا کہ کائناتِ حسن کی ملکہ کا شباب اگر چہ گردش ایام کی نذر ہو چکا تھا لیکن ابھی تک اس کے پژمردہ چہرے پر ایک غیر معمولی رعب دار اور وقار کی جھلک باقی تھی۔

’’بہن! نعیم نے ایک دردناک لہجے میں کہا۔

’’بھائی!‘‘ عذرا نے خوف زدہ چہرہ بنا کر کہا۔

وہ جسمانی طاقت جسے نعیم نے محض اپنے عزم کی بدولت ابھی تک قائم رکھا ہوا تھا۔ یکلخت جواب دے گئی۔

اس نے کہا۔’’عبد اللہ! بیٹا، مجھے سہارا دینا!‘‘

عبد اللہ اسے سہارا دے کر اندر لے گیا۔

صبح کے وقت نعیم بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ نرگس، عبد اللہ بن نعیم، حسین بن نعیم، خالد عذرا کا چھوٹا اور آمنہ عذرا کی لڑکی اس کے گرد کھڑے تھے۔ نعیم نے آنکھیں کھولیں۔ سب پر نگاہ دوڑائی اور اشارے سے خالد اور آمنہ کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا۔

  ’’خالد۔ چچا جان۔‘‘

’’اور تمہارا؟‘‘ لڑکی کی طرف دیکھ کر نعیم نے سوال کیا۔

’’آمنہ۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

خالد کی عمر سترہ سال کے لگ بھگ معلوم ہوتی تھی اور آمنہ اپنی شکل و شباہت سے چودہ پندرہ برس کی معلوم ہوتی تھی۔

نعیم نے خالد کی طرف دیکھ کر کہا:’’بیٹا! مجھے قرآن سناؤ!‘‘

خالد نے اپنی شیریں آواز میں سورہ یٰسین کی تلاوت شروع کی۔

دوسرے دن پھٹے ہوئے زخم زیادہ تکلیف دینے لگے اور نعیم کو سخت بخار ہو گیا۔ سینے کے زخم سے خون برابر جاری تھا۔ خون کی کمی کی وجہ سے اسے غش پر غش آنے لگے۔ ایک ہفتے تک اس کی یہی حالت رہی۔ عبد اللہ بصرہ سے ایک طبیب لے آیا۔ وہ مرہم پٹی کر کے چلا گیا مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔

ایک دن نعیم نے خالد سے پوچھا۔’’بیٹا! تم ابھی تک جہاد پر نہیں گئے؟‘‘

’’چچا جان! میں رخصت پر آیا تھا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔’’اور اب جانے والا تھا کہ........!‘‘

’’تم جانے والے تھے تو گئے کیوں نہیں ؟‘‘

’’چچا جان۔ آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر....!‘‘

’’بیٹا! جہاد کے لیے ایک مسلمان کو دنیا کی عزیز ترین چیزوں سے جدا ہونا پڑتا ہے۔ تم میری فکر نہ کرو۔ اپنا فرض پورا کرو! تمہاری والدہ نے تمہیں یہ سبق نہیں دیا کہ جہاد مسلمان کا سب اہم فرض ہے؟‘‘

’’چچا جان! امی ہمیں بچپن ہی سے یہ سبق دیتی رہی ہیں۔ میں صرف چند دن آپ کی تیمار داری کے لیے ٹھہر گیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر چلا گیا تھا تو آپ شاید خفا ہو جائیں گے۔‘‘

’’میری خوشی اسی بات میں ہے کہ جس میں میرے مولیٰ کی خوشی ہو۔ جاؤ عبد اللہ کو بلا تاؤ!‘‘

خالد دوسرے کمرے سے عبد اللہ کو بلا لیا۔

نعیم نے سوال کیا۔’’تمہارا بیٹا تمہاری رخصت ابھی ختم نہیں ہوئی؟‘‘

’’ابا جان! میری رخصت ختم ہوئے پانچ دن ہو چکے ہیں۔‘‘

’’تم گئے کیوں نہیں بیٹا؟‘‘

’’ابا جان! میں آپ کے حکم کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’خدا اور خدا کے رسولﷺ کے حکم کے بعد تمہیں کسی کے حکم کی ضرورت نہیں بیٹا! جاؤ‘‘ ’’ابا جان! آپکی طبیعت کیسی ہے؟‘‘

’’میں اچھا ہوں بیٹا!‘‘ نعیم نے اپنے چہرے کو بشاش بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’تم جاؤ!‘‘

’’ابا جان! ہم تیار ہیں۔‘‘

خالد اور عبد اللہ اپنے اپنے گھوڑوں پر زین ڈال رہے تھے۔ دونوں کی مائیں ان کے قریب کھڑی تھیں۔ نعیم نے اپنے بھتیجے اور بیٹے کو جہاد پر رخصت ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے اپنے کمرے کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے صحن کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آمنہ نے پہلے اپنے بھائی خالد اور پھر شرماتے ہوئے عبد اللہ کی کمر میں تلوار باندھ دی۔ نعیم نے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلنا چاہا لیکن دو تین قدم چلنے کے بعد چکر آیا اور گر پڑا۔

عبد اللہ اور خالد اسے اٹھانے کے لیے بھاگے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے نعیم اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

اس نے کہا۔’’میں ٹھیک ہوں۔ مجھے پانی لا دو!‘‘

آمنہ نے پانی کا پیالہ لا کر دیا۔نعیم پانی پی کر صحن میں آ کھڑا ہوا۔

’’بیٹا! میں تمہیں گھوڑوں کو بھگاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ تم جلدی سے سوار ہو جاؤ!‘‘

خالد اور عبد اللہ سوار ہو کر گھر کے احاطے سے باہر نکلے۔نعیم بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا مکان سے باہر آیا۔

نرگس نے کہا، ’’آپ آرام کریں۔ آپ کے لیے بستر سے اٹھنا مناسب نہیں۔‘‘

نعیم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔’’ نرگس! میں اچھا ہوں۔ فکر مت کرو۔‘‘

نخلستان سے باہر نکل کر خالد اور عبد اللہ نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑوں کو سرپٹ چھوڑ دیا۔ نعیم انہیں دیکھنے کے لیے ریت کے ٹیلے پر چڑھا۔ نرگس اور عذرا نے اسے منع کیا لیکن نعیم نے پرواہ نہ کی۔ اس لیے وہ بھی نعیم کے ساتھ ٹیلے پر چڑھ گئیں۔ جب تک کم سن مجاہدوں کی آخری جھلک نظر آتی رہی نعیم وہاں کھڑا رہا اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو زمین پر بیٹھ کر سر بسجود ہو گیا۔

جب نعیم کو سر بسجود ہوئے بہت دیر ہو گئی تو عذرا گھبرا کر اس کے قریب آئی اور سہمی ہوئی آواز میں اسے بھائی کہہ کر پکارا۔ جب نعیم نے اس کی آواز پر سر اوپر نہ اٹھایا تو نرگس نے خوف زدہ ہو کر نعیم کے بازو کو پکڑ کر ہلایا۔نعیم نے جسم نے حرکت نہ کی۔ نرگس نے اس کا سر اٹھا کر گود میں رکھ لیا اور بے اختیار ہو کر کہا:

’’میرے آقا! میرے آقا!‘‘

عذرا نے نبض دیکھ کر آمنہ سے کہا۔’’بیٹی ! یہ بے ہوش ہیں، جاؤ جلدی سے پانی لاؤ!‘‘

آمنہ بھاگ کر گئی اور تھوڑی دیر سے گھر سے پانی کا ایک پیالہ بھر لائی۔ عذرا نے نعیم کے منہ پر پانی چھڑکا۔ نعیم نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھول دیں اور پیالہ منہ سے لگا لیا۔

عذرا نے کہا۔’’حسین بیٹا! جاؤ اور بستی سے چند آدمیوں کو بلا لاؤ تاکہ انہیں گھر لے چلیں۔‘‘

نعیم نے کہا۔’’نہیں نہیں ٹھہرو۔ میں چل سکوں گا۔‘‘

نعیم نے اٹھنا چاہا لیکن اٹھ نہ سکا اور دل پر ہاتھ رکھ کر پھر لیٹ گیا۔

’’میرے آقا! میرے مالک! نرگس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

نعیم نے نرگس کے چہرے سے آنکھیں ہٹا کر عذرا، آمنہ اور حسین کی طرف دیکھا۔ ان سب کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ اس نے نحیف آواز میں کہا:

’’حسین بیٹا! تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مجھے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔ مجاہدوں کے بیٹے اس زمین پر آنسو نہیں بلکہ خون بہایا کرتے ہیں۔ نرگس! تم بھی ضبط سے کام لو۔ عذرا! میرے لیے دعا کرنا۔‘‘

زندگی کی ناؤ موت کے طوفان کی موجوں میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ نعیم کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد نہایت

 کمزور آواز میں چند مبہم الفاظ کہہ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔

ختم شد

٭٭٭

ماخذ:

http://www.kitaabghar.com/bookbase/naseemhijazi/dastanemujahid-1.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 2 تبصرے

احمد سعید
ناول بہت ہی اچھا لگا۔
محمد عبداللہ نقشبندی مجددی
ماشاءاللہ بہت عمدہ کہانی ھے جذبہ جہاد پیدا ھوتا ھے اور خلوصِ محبت ایثار وفادار ی اور انہی جذبوں میں پوشیدہ کامیابی جبکہ منافقین کا انجام اور بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ھے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔