خود کو قصائیوں سے بچائے کب تلک
بکرے کا باپ خیر منائے کب تلک
چھپتا پھرے گا تابکہ ریوڑ کے درمیاں
اور گاہکوں سے خود کو بچائے گا کب تلک
بیسن پکا کے تجھ پھلائیں گے تاجران
لاغر بھلا تو خود کو بنائے گا کب تلک
کب تک رہے گا اپنے عزیزوں کے آس پاس
سچ سچ بتا تو گھر مرے آئے گا کب تلک
کب تک نہ باز آئے گا اٹھکھیلیوں سے تو
سینگ اپنے بھائیوں سے لڑائے گا کب تلک
سونے نہ دے رات کو ’’میں میں‘’ کے شور سے
آخر محلے بھر کو جگائے گا کب تلک
وقتِ فنا بھی اپنی انا کا تجھ کو زعم
’’میں میں‘‘ کا فلسفہ تو سنائے گا کب تلک