02:02    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

1412 0 0 00

( 1 ) قابو چڑھنا، قابو میں آنا، قابو میں کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سب محاورات قریب قریب ایک ہی معنی میں آتے ہیں اور فارسی سے ماخوذ ہیں فارسی میں ’’قابو یا فتن‘‘ یا قابو حاصل کردن یا شدن کہتے ہیں اور مطلب ہوتا ہے تسلّط پانا یہ اچھے خاصے وسیع دائرہ میں اور  وسیع تر مفہوم کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔

بڑی مشکل سے حالات پر قابو پایا سو تدبیریں کیں تب وہ قابو چڑھا وغیرہ وغیرہ اُس کے مقابلہ کا محاورہ ہے قابو ہونا ہے چاہیے غصّہ کے باعث ہو چاہے غم کے چاہے کمزوری کے دل کے ساتھ بھی بے قابو کا لفظ آتا ہے جیسے میرا دل بے قابو ہو گیا یہ محاورے سماجی رشتوں اور جذباتی اُتار چڑھاؤ کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ کہ آدمی اپنے جذبے اپنے احساس اور ذہنی عمل ردِ عمل کو کس طرح پیش کرتا ہے۔

( 2 ) قارورہ ملنا، یا قارورہ دیکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ ایک طبی اِصطلاح بھی ہے یعنی بیماری کے عالم میں بیمار کے اپنے پیشاب یا  قارورے کو اِس اعتبار سے دیکھنا کہ اس کا معائنہ کرنا اور یہ دیکھنا کہ بیماری کیا ہے کتنی ہے اب یہ باتیں مشین کے ذریعہ ہوتی ہیں پہلے طبیب کی نظر ہی کام کر جاتی تھی۔ وہاں سے آگے بڑھ کر یہ محاورہ میں آئی تو یہ محاورہ بنا کہ ان کا قارورہ نہیں ملتا یعنی مزاج نہیں ملتا طبیعتیں نہیں ملتیں۔ اِس سے ایک بار پھر یہ بات ذہن کی سطح پر ابھرتی ہے کہ ایک فن کے محاورے لفظیات زبان کے مختلف استعمال اور موقع و محل کے لحاظ سے کس حد تک بدلتی ہے۔

( 3 ) قاضی، قاضی الحاجات قاضی قِدوہ، قاضی گِلہ نہ کر سکا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’قاضی‘‘ ایک ایسے آفیسر کو کہتے ہیں جو نکاح خوانی کا رجسٹر رکھتا ہے اور نکاح پڑھاتا ہے اور اس کا ریکارڈ اُس کے پاس رہتا ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں قاضی کو کچھ خاص طرح کے قانونی اختیارات بھی حاصل تھے اور کچھ مقدمات کا فیصلہ بھی اس کے اختیارات کی حدود میں ہوتا تھا ایک بڑا قاضی ہوتا تھا جو قاضی القضاۃ کہلاتا تھا محاورے قاضیوں سے متعلق عجیب و غریب ہیں مثلاً قاضی قدوہ ہونا،جونپور کا قاضی ہونا یہ روایتاً مشہور ہو گئے اور اب نمونے کے طور پر کہا جاتا ہے اور  اُس میں طنز شامل ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑے خاندان اور بہت بڑی چیز سمجھتا ہے۔

یہی معاملہ جونپور کے قاضی کا ہے کہ وہ اپنی مکاری میں مشہور ہو گیا اسی طرح یہ کہاوت کہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی اسی طرح قاضی تو کوئی گلہ نہیں کرتا وہ تو نکاح پڑھا دیتا ہے باقی معاملات سے اُسے کیا واسطہ قاضی کا پیادہ معمولی سپاہی کہ وہ کونسا قاضی کا پیادہ ہے یعنی قاضی کے پیادے کی بھی ایک زمانے میں بڑی اہمیت ہوتی تھی آخر تو وہ قاضی کا بھیجا ہوا شہ نہ ادنی درجہ کا سپاہی ہوتا تھا۔

اسی طرح قاضی ’’ماری حلال‘‘ یعنی کوئی چیز ذبح کئے بغیر مر جائے تو وہ جائز نہیں رہ جاتی مگر قاضی اگر کہہ دے تو وہ بھی جائز ہو گئی یہ سماج کی طرف سے قاضی کے کردار پر پھبتیاں ہیں۔

( 4 ) قافیہ تنگ ہونا، یا قافیہ بندی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ شاعری کی اِصطلاح ہے اور  اُس کے معنی یہ ہیں کہ شعر میں قافیہ ردیف کی پابندی کی جا رہی ہے اب شعر اچھا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے اسی طرح قافیہ تنگ ہونا ایسے قافیہ کے استعمال کو کہتے ہیں جس کے قافیہ بہت مشکل ہوں یا نہ ملتے ہوں جیسے شاخ شاخ کا قافیہ مشکل سے ملتا ہے اور مشکل ہی سے اُسے باندھا جا سکتا یہ ایسے موقع کو سماجی محاورے کے طور پر کہتے ہیں کہ قافیہ تنگ ہے اور جب کوئی دوسرے آدمی کو ستاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اُس نے قافیہ تنگ کر رکھا ہے وہ بیچارہ کچھ کہہ نہیں پاتا۔

( 5 ) قائل معقول کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی بات صرف منوائی نہ جائے اور غیر ضروری طور پر زور نہ دیا جائے بلکہ دلیلیں ثبوت و شواہد پیش کئے جائیں تاکہ دوسرا ذہنی طور پر اور دل سے مطمئن ہو جائے اور دل سے کسی بات کو تسلیم کر لے ہمارے معاشرے کا یہ عام رو یہ نہیں ہے اسی لئے اِس محاورے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ خواہ مخواہ کی باتوں پر زور نہ دیا جائے۔

قائل معقول دونوں عربی لفظ ہیں لیکن اُردو میں محاورے کے طور پر ذیل میں آیا ہے۔ اور اِس سے اُردو زبان کی قوتِ آخذہ (جذب کرنے کی قوت) کا پتہ چلتا ہے۔

( 6 ) قبالے لے ڈالنا، قبالے لے لینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’قبالا‘‘ دستاویز کو کہتے ہیں اور قبالا لکھوانے کے معنی ہیں کسی زمین و جائداد مکان یا دوکان کے کاغذ لکھوا لینا اِس کو محاورے کے طور پر قبالے لینا بھی کہتے ہیں جس کے معنی ہوتے ہیں قانونی طور پر قبضہ حاصل کر لینا مگر اس سے مراد لی جاتی ہے فریب دغا دھوکہ اور مکاری سے قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور یہیں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معاشرہ جب بددیانتی پر مائل ہوتا ہے تو کیا کیا مکاریاں اور جعل سازیاں کرتا ہے۔

( 7 ) قبر کھودنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قبر کھودنا  قبر تیار کرنے کو کہتے ہیں جو قومیں اپنے مردوں کو دفن کرتی ہیں انہی میں قبر تیار کرنے کا رواج بھی ہے لیکن قبر کھودنا محاورے کے طور پر دوسرے معنی میں آتا ہے یعنی تباہی و بربادی کا سامان کرنا وہ اپنے لئے ہو خاندان کے لئے ہو یا بہت سے لوگوں کے لئے ہو۔ طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اُس نے تو اپنی یا اپنے خاندان کی قبر کھود دی یعنی اُن کے مفاد کو سخت نقصان پہنچا اور تباہی کا سامان کر دیا یہ محاورہ بھی معاشرے پر اس کی غلط روشوں اور  کارکردگیوں کے اعتبار سے ایک طنز یا طنز یہ تبصرہ کا درجہ رکھتا ہے۔

( 8 ) قبر کے مُردے اُکھاڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مسلمانوں کے ہاں ایک مرتبہ دفن کرنے کے بعد دوبارہ قبر نہیں کھودی جاتی لیکن محاورتاً جب ہم قبر کے مردے اکھاڑنا کہتے ہیں تو اس سے معاملات کو سامنے لا رہے ہیں بقول شخص خاندانی جھگڑے ساری عمر بھی نہیں سمٹتے لیکن ہم اپنی نفسیاتی مجبوریوں کے تحت یہ ضرور چاہتے ہیں کہ اُن پر پردے پڑے رہیں اور پچھلی باتوں کو نہ دہرایا جائے اس میں خاندانی رشتوں پر چھائیاں پڑتی ہیں اسی لئے اس طرح کی باتوں کونہ پسندیدہ طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ تو قبر کے مردے اُکھاڑتے ہیں یعنی پرانی باتوں کو بار بار دہراتے ہیں۔

( 9 ) قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا، یا قبر کے کنارے ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اُن دونوں محاوروں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی موت سے قریب ہونا یا اُس عمر کو پہنچ جانا جس کے بعد آدمی خود کو زندگی سے دور اور موت سے قریب سمجھتا ہے اسی لئے اپنے لئے خود بھی کہتا ہے کہ ہم تو قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیں اور دوسرا بھی کبھی کبھی طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیں پھر بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ہمارے معاشرے میں طعنہ دینا اور طنز کرنا بہت عام ہے قریب قریب ہر بات کو طعنے اور طنز کے طور پر استعمال کرتے ہیں یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

( 10 ) قبلہ حاجات،قبلہ گاہ، قبلہ گاہی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قبلہ مسلم کلچر میں ایک بے حد اہم علامت ہے مذہبی اعتبار سے اور تہذیبی لحاظ سے بھی مسلمان قبلہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے ہیں اپنے لئے قابلِ احترام لوگوں کے لئے قبلہ و کعبہ کہتے ہیں اِس کے علاوہ اپنے مردے قبلہ رُخ دفن کرتے ہیں دعائیں بھی قبلہ رخ ہو کر مانگتے ہیں قبلہ کی طرف ہاتھ اٹھا کر قسم کھاتے ہیں اس سے قبلے کی مذہبی اور تہذیبی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس کے ذریعہ اُن کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اس پر محاورتاً قبلہ حاجات کہتے ہیں فارسی کا ایک شعر ہے جس میں روپے پیسے کے لئے کہا گیا ہے۔

(ترجمہ) اے سونے چاندی کے سکّوں تم خدا نہیں ہو لیکن  خدا کی قسم تم عیبوں کو چھپانے والے اور حاجتوں کو پورا کرنے والے ہو۔

اِس سے معلوم ہوا کہ قاضی الحاجات دولت اور زر زمین کو بھی کہتے ہیں اُردو کا محاورہ اسی کی طرف اِشارہ کرتا ہے قبلہ گاہ اور قبلہ گاہی نیز قبلہ متمنداں (امیدوار ان کا قبلہ)۔

( 11 ) قحط پڑ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غلّہ کی کمی اور خوراک کے طور پر کام آنے والی اشیاء کا فقدان قحط کہلاتا ہے ہمدردی خلوص اور اپنائیت کے جذبہ میں جب بہت کمی آ جاتی ہے تو اُسے قحط غمِ الفت بھی کہتے ہیں اور اُس سے بے مروتی اور بے توجہی مراد لیتے ہیں۔

( 12 ) قد نکالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بچوں کا قد کے اعتبار سے بڑا ہونا محاورتاً قد نکالنا کہا جاتا ہے اور ہمارے خوبصورت محاورات میں سے ہے اور ہمارا معاشرہ محاورے تراشنے یا کلمات کو خوبصورت محاورہ میں ڈھالنے کی صلاحیتوں کا یہاں اظہار ہوتا ہے یہ ایسے ہی محاورات میں سے ہے۔

( 13 ) قدم اٹھا کر چلنا،قدم بڑھانا، قدم بہ قدم چلنا، قدم بوس ہونا، قدم چومنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’قدم‘‘ آدمی کے پیر کو کہتے ہیں اور انسان کی زندگی کے بیشتر کام یا اُس کے قدموں سے متعلق ہیں یا ہاتھوں سے اسی لئے ہاتھ یا قدم علامت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے قدم شریف قدم رسولؐ حضرتِ آدمؑ کے قدم کا نشان مہاتما گوتم بدھ کے قدموں کے نشانات جو مذہبی علامتیں ہیں اور مقدس نقوش  و آثار میں شمار ہوتے ہیں۔ زندگی کے مختلف اعمال اور اقدامات کو ہم لفظی محاوروں سے ظاہر کرتے ہیں مثلاً قدم بڑھانا، قدم رکھنا قدم اٹھانا، قدم ملانا نشان قدم چراغِ نقش قدم وغیرہ یہ سب ہمارے چلنے پھرنے اور عمل و رد عمل کی نشاندہی کرنے والے محاورے ہیں واپسی کے لئے اٹھنے والے قدم بھی ہیں اسی ذیل میں آتے ہیں اور قدم چومنا قدموں کو بوسہ دینا قدموں کی خاک ہونا قدموں کے احترام کو ظاہر کرنے والے محاورے ہیں جو سماج کے اندازِ نظر اور طرزِ عمل کی نمایندگی کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ جیسے قدم باہر نکالنا، قدم قدم جانا، قدم گاڑنا، قدم مارنا، وغیرہ وغیرہ۔

( 14 ) قرآن اُٹھانا، قرآن رکھنا، قرآن پر ہاتھ رکھنا، قرآن کا جامہ پہننا، قرآن ہد یہ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قرآن کتاب اللہ کو کہتے ہیں اور مسلمان اسے آسمانی صحیفہ جانتے ہیں قرآن حفظ کرنے کا بھی مسلمانوں میں ایک زمانے سے رواج ہے۔ ناظرہ پڑھنا تو بہت سے مسلمان اپنا فرض سمجھتے ہیں اور حفظ نہیں کر سکتے تو ناظرہ پڑھتے ہیں بیمار کو قرآن کی ہوا دیتے ہیں اس کا ثواب پہنچاتے ہیں جب قسم کھانا ہوتا ہے تو یہ ظاہر کرنے کے لئے وہ خدا رسول کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا رہے ہیں قرآن پر ہاتھ رکھتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کا احترام مسلمان فرقے کے ذہن میں کس طرح رہتا ہے قرآن سے متعلق زیادہ تر محاورے مسلمانوں عقیدے اور مذہبی طرز عمل سے تعلق رکھتے ہیں  اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محاورے عام ہیں لیکن بعض محاورے وہ بھی ہیں جو کسی خاص طبقے کی مذہبی تہذیبی یا کاروباری زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔

( 15 ) قرحہ پڑ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

فنِ طب کی اصطلاح ہے اور اُس کے معنی ہوتے ہیں زخم پڑ جانا جو ایک صورت سے جسمانی تکلیف ہوتی ہے۔

( 16 ) قرعہ ڈالنا، قرعہ پڑنا، قرعہ پھینکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ چوسر کھیل سے متعلق ایک اصطلاحی لفظ ہے قرعہ دراصل پانسہ کو کہتے ہیں اور کھیلتے وقت پانسہ ہی پھینکا جاتا ہے اور اُس سے فال کے طور پر بھی کچھ باتیں اخذ کی جاتی ہیں قرعہ اندازی جھگڑے معاملہ میں فیصلہ کرنا یا فیصلہ پر پہنچنا ممکن ہو جاتا ہے کہ اگر زیادہ امیدوار ہوں جس کے حق میں قرعہ نکل آتا ہے اسی کو حق دیدیا جاتا ہے یا اُس کا نمبر آ جاتا ہے۔

( 17 ) قرض اُتارنا، قرض لینا قرض اٹھانا، قرض دینا، قرضِ حسنہ وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہماری سوسائٹی میں شخصی طور پر قرض لینے کا رو یہ عام ہے۔ بنئے کا سودا تنا ہوتا ہے کہ اس سے قرض لیکر اور وہ بھی کسی چیز رہن رکھ کر اتنا ہو جاتا ہے کہ وہ چیز ہی بیچنی پڑتی ہے اور قرض ادا نہیں ہوتا ایسے عالم میں عزیز رشتہ داروں یا جان پہچان کے لوگوں ہی سے قرض لیا جاتا ہے قرض اٹھانا۔ قرض دینا اسی سلسلہ کے محاورات ہیں۔

بعض لوگ یہ سوچ اور  ذہن میں رکھ کر کسی کو قرض دیتے ہیں کہ یہ واپس نہیں بھی کرے گا توہم یہ سمجھ لیں گے کہ ہم نے اُس کی مدد کی اس کو قرضِ حسنہ کہتے ہیں مگر اِس کا رواج آج کی سوسائٹی میں بہت کم ہے اس لئے کہ قرض لینے والے کی نیت یہ ہوتی بھی نہیں کہ واقعتاً قرض ادا کرے گا یا نہیں پس کہتا ہے کہ میرا ارادہ قرض ادا کرنے کا ہے بہرحال ہمارے سماجی تعلقات کو پرکھنے کا ایک پیمانہ قرض بھی ہے۔

( 18 ) قرقی بٹھانا،قُرقی بھیجنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب کوئی شخص قرض ادا نہیں کر پاتا  تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ اُس کی زمین و جائداد سے اسے وصول کیا جاتا ہے سرکار اپنا قرض اسی طرح وصول کرتی ہے اور  املاک کو قرق کروا لیتی ہے۔ اسی سلسلے میں قرقی آنا، قرق ہونا، قرقی بیٹھنا وغیرہ محاورے استعمال ہوتے ہیں اور اس ذریعہ سے بھی ہم اپنے سماج کی اسٹڈی (Study)کر سکتے ہیں۔

ہمارے یہاں ایک لفظ نا دہندہ ہے (نہ دینے والا) یہ ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے جو قرض نہ دیں اُس کی واپسی کا خیال نہ رکھیں آخر لڑائی جھگڑے اور قرقی کی نوبت نہ آئے۔

( 19 ) قسمت اُلٹ جانا، قسمت بازی، قسمت پھرنا، قسمت کا پھیر، قسمت کا دھنی، قسمت کا لکھا وغیرہ وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قومیں تقدیر کو مانتی رہی ہیں اور تقدیر کے معنی ہوتے ہیں غیبی علم غیب کا فیصلہ غیبی قوت کی کارفرمائی اس کی وجہ سے ہماری سوسائٹی میں ایکStructure Super ذہنی سطح پر ہمیشہ موجود رہتا ہے اور ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آدمی کی عقل بھی ناقص ہے اور اُس کا کیا دھرا بھی کام نہیں آتا اور ہوتا وہی ہے جو قدرت والا چاہتا ہے۔

حالات کی ناسازگاریوں اور شخصی طور پر نارسائیوں میں گھری ہوئی کوئی انسانی زندگی مجبوراً یہی سوچتی ہے یا سوچ سکتی ہے مشرقی قوموں کی سطح عام طور سے یہی رہتی ہے کہ جو تقدیر کا لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس کو مان کر چلنے میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ آدمی پھر دوسرے کے عمل اور سلسلہ عمل و رد عمل کو سمجھنے سے بھی قاصر رہتا ہے اور پورے معاملہ کو تقدیر کے سپرد کرتا ہے اور اپنے مذہبی نظام فکر سے وابستہ کر لیتا ہے۔

قسمت کے کھیل، قسمت کا دھنی، قسمت کی یاوری بدقسمتی وغیرہ وغیرہ جو محاورے یا محاوراتی انداز کی ترکیبیں اردو میں رائج ہیں

وہ سب اپنی نظام فکر کا نتیجہ ہیں جہاں تک تقدیری معاملات کو غیر ضروری تعمیم سے گزارا گیا ہے۔ (Over simplification)

( 20 ) قصائی کا پلاّ قصائی کے کھونٹے باندھنا، قصائی کی نظر دیکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’قصابی‘‘ مسلمانوں میں ایک قوم کا پیشہ ہے وہ جانور کاٹتی اور  اُن کا گوشت بیچتی ہے ظاہر ہے کہ قصائی کی نظر یا اس کے گھر پر ہونا ایک مخالف دشمن یا قاتل کے قبضے میں ہونا ہے وہ اگر دیکھے گا تو سخت اور کرخت نظر سے دیکھے گا سلوک کرے گا تو برا سلوک کرے گا جو گائے یا بکری قصائی کے کھونٹے بندھی ہو گی اس کو تو کٹ ہی جانا ہے ایسی صورت میں جو آدمی ہر طرح نقصان میں ہوتا ہے اور جسے کبھی بھی قتل کیا جا سکتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قصائی کے کھونٹے بندھا ہے اس سے معاشرے میں جو ظالمانہ سلوک ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے اس کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔

( 21 ) قصّہ پاک کرنا،قصبہ پاک ہونا، قصہ مختصر ہونا۔ قصّہ در قصہ ہونا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قصہ کہانی کا ہماری زندگی سے گہرا رشتہ ہے اور دیکھا جائے تو ہمارا پورا کلچر قصوں کہانیوں میں سمیٹا ہوا ہے کہانی مختصر بھی ہوتی ہے قصّہ در قصہ بھی داستان در داستان بھی کہیں کہیں قصّہ کو مختصر کر دیا جاتا ہے اور کہیں وہ رام کہانی بن جاتی ہے اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ قصہ کا اپنے مختلف اسالیب کے ساتھ ہمارے ذہن ہماری زندگی اور ہماری زبان سے کیا رشتہ ہے اسی کو ہم قصے کے بارے میں جو مختلف محاورے ہیں ان کے لفظ و معنی میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

قصّہ پاک ہونا یعنی بات ختم ہوئی قصہ سمٹ گیا جھگڑا ختم ہوا اور بات ایک طرف ہو گئی قصّہ کو تاہ کر دیا گیا یا قصّہ کو تاہ ہوا۔

( 22 ) قضا ادا کرنا، قضا پڑھنا، قضا عند اللہ، قضا و قدر، قضائے الہی، قضائے عمری۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’قضا‘‘ کا لفظ عربی ہے اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہماری زبان میں شامل ہے یا ہم قضا و قدر بولتے ہیں تو اس سے تقدیر کا فیصلہ مراد لیتے ہیں۔ جس سے انسان کے اپنے ارادے کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ قضائے الہی سے رشتہ ہوتا ہے یعنی خدا کی مرضی وہ مرضی جس کا تعلق کسی کے دکھ بھرے واقعہ سے ہو جیسے موت حادثہ۔ قضائے عمری اُن نمازوں کو کہتے ہیں جو زندگی میں قضا ہوئی ہوں اور  رات کو آدمی ادا کرنا چاہتا ہو نماز کا وقت گزر جاتا ہے اور نماز ادا نہیں کی گئی ہو تو اسے قضا ہونا کہتے ہیں روزوں کے ساتھ بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے روزہ اگر نہیں رکھا گیا تو اسے روزہ قضا ہونا کہتے ہیں۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان محاوروں کا رشتہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور اعمال سے ہے۔ یعنی سماج کے ایک خاص طبقے سے ہے اور اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جو باتیں سماج کی نفسیات کا حصّہ بن جاتی ہیں وہ محاوروں میں بدل جاتی ہیں۔

( 23 ) قلعی کھل جانا، قلعی کھولنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے سماج میں بات کو چھپانا اور دوسرے انداز سے پیش کرنا جس میں نمود و نمائش ہو اس کے ملمع کاری کہتے ہیں اسی کو قلعی کرنا سمجھ لیں اسی لئے جب بات کھل جاتی ہے اور مکّاری کا رو یہ ظاہر ہو جاتا ہے تو اسے قلعی کھلنا کہتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا آدمی بات کو کھولتا اور ملمع کاری کو ظاہر کرتا ہے تو قلعی کھولنا یا قلعی اتارنا بھی کہا جاتا ہے یعنی اصل حقیقت کھول کر سامنے رکھ دینا۔

( 24 ) قلم بنانا، قلم اُٹھا کر لکھنا، قلم پھیرنا، قلم چلانا، قلمدان دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تحریر نگارش تصویر حکومت کی نشانی ہے جب ہم’’ قلم رو‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد ہوتی ہے زیرِ حکم اور زیر حکومت اسی لئے قلم رو ہند کہلاتا ہے قلم مذہبی اور تہذیبی علامتوں میں سے بھی ہے کہ خدا نے قلم کے ذریعہ انسان کو تعلیم دی چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ ہم نے انسان کو قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور  وہ باتیں سکھلائیں جو وہ نہیں جانتا تھا لوح محفوظ کا تصور بھی قلم ہی سے وابستہ ہے یعنی وہ مقدس تختی جس پر قدرت کے قلم نے تمام دنیا کی تقدیر لکھ دی جو ازل سے ابد تک کے لئے ہے قرآن نے اپنے احکامات کے لئے کہا ہے کہ وہ لکھ دیئے گئے اس کا تعلق بھی قلم سے ہے۔

 ’’بھوج پتر‘‘ مٹی کی تختیاں یا لکڑی کی تختیاں بھی تحریر کے لئے کام آتی رہیں کاغذ کی ایجاد سے پہلے انہی تختیوں اور ’’بھوج پتروں ‘‘ پہ لکھا جاتا تھا جن کو آج بھی میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے تحریر قلم کے ہی ذریعہ ممکن ہے اور تصویر بھی قلم بیشک الگ الگ ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں قلم کے بہت سے محاوراتی الفاظ اور کلمات ہیں جیسے قلم اٹھانے کی ضرورت قلم برداشتہ لکھنا قلم چلانا قلم توڑ دینا یا قلم کی زبان میں کہنا اس سے ہم قلم کی تہذیبی تاریخ کو بھی جان سکتے ہیں۔ اور پڑھنے لکھنے کے معاملہ میں قلم کی اہمیت کو بھی اور تحریر کی خوبی اور خوبصورتی کا ذکر بھی قلم کے رشتہ سے کیا جاتا ہے جیسے خوش قلم مرصع رقم جس کے معنی ہوتے ہیں خوش قطعی اور خوبصورت تحریر کو کہتے ہیں۔

( 25 ) قل ہو اللہ پڑھنا، قل ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’قل ‘‘قرآن پاک کا لفظ ہے اور ’’قل ہونا‘‘ یا قل ہو اللہ پڑھا جانا اُردو کے محاورات میں سے ہے۔ قل ہونا دراصل قل پڑھا جانا ہی اور قل پڑھے جانے کے معنی ہیں فاتحہ کی دعائے خیر۔ ذوق نے اپنے ایک مصرعہ میں کہا ہے۔

؂ لا سا قیا پیالہ تے توبہ کا  قُل ہوا

یعنی توبہ ختم ہوئی اور ہم نے توبہ ہی کا ارادہ ترک کر دیا اب تو پینا پلانا ہی رہ گیا آنتوں کا قل ہو اللہ پڑھنا بھوگ لگنا ہے چونکہ بھوک کے وقت پیٹ میں آنتیں ایک خاص طرح کی حرکت کرتی ہیں ان کی آواز کو’ ’قراقر ‘‘کہتے ہیں اسی کو قل ہوا اللہ پڑھنا کہا جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلم معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم نے فارسی و عربی سے بھی اپنے خاص ماحول کے مطابق محاورات اخذ کئے ہیں۔

( 26 ) قہر توڑنا، قہر کی نظر دیکھنا، قہر نازل ہونا، قہر ٹوٹ پڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قہر غصّہ کوکہا جاتا ہے اور یہ لفظ مہر کے مقابلہ میں آتا ہے مہر محبت کو کہتے ہیں مسلمانوں میں لڑکیوں کا بھی اور لڑکوں کا نام مہر پر رکھا جاتا ہے قہر غضب ناک ہونا ہے اسی لئے جب کوئی غیر معمولی مصیبت آتی ہے تو اس  کو قہر الٰہی یا قہر آسمانی کہتے ہیں کوستے وقت بھی کہا جاتا ہے کہ تم پر قہر الٰہی نازل ہو یا خدا کا قہر ٹوٹ پڑے۔

ظاہر ہے آندھی طوفان سیلاب زلزلہ اولے برسنا سب ہی نقصان اور تکلیف کا باعث ہوتے ہیں اسی کو قہر الٰہی یا قہرِ آسمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

( 27 ) قیامت آنا، قیامت اٹھانا، قیامت توڑنا، قیامت ہونا، قیامت کا منظر، قیامت کی گھڑی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قیامت مسلمانوں کے عقائد کا ایک اہم جُز ہے جس کو حشر برپا ہونا کہتے ہیں قرآن نے اس کو ساعت بھی کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ گھڑی کب آئے گی اس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں۔

قیامت کے تصوّر کے ساتھ ایک طرف تو یہ خیال وابستہ ہے کہ قیامت آنے پر ہر شے تہس نہس ہو جائے گی پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ جائیں گے زمین آسمان تہہ و بالا ہو جائیں گے اسی کے ساتھ مسلمانوں میں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ قیامت کا دن ایک لاکھ برس کا ہو گا۔ اور اُس دن تمام انسانوں کے اعمال کا حساب کتاب ہو گا انہیں سزا اور جزا دی جائے گی اسی لئے انگریزی میں اسے Day of judgmentکہتے ہیں یعنی یوم الحساب جب کوئی بات کسی انسانی گروہ طبقہ قوم یا ملت کی نفسیات میں داخل ہو جاتی ہے تو اس کو محاوروں میں ڈھال لیا جاتا ہے مثلاً قیامت آنا، مصیبت نازل ہونا، قیامت گزرنا پریشانیوں میں بے طرح مبتلا ہونا اسی طرح قیامت برپا ہونا ہر بات کو اُلٹ پلٹ ہو جانا اس معنی میں قیامت کا تصور اور اس سے متعلق دوسری کسی زبان میں کم ہی نظر آتے ہیں۔

فارسی میں ایک دو محاورے مل جائیں تو دل مل جائیں یہ ہمارے اپنے معاشرے کی بات ہے اور اس سے تہذیب ومعاشرت کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

( 28 ) قید لگانا،قید میں رکھنا، قید میں عائد کرنا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’قید‘‘ ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حوالہ رہا ہے اور آج بھی ہے ہم دوسروں کو کسی بھی وجہ سے اپنا پابند اور محکوم بنا کر رکھنا چاہتے ہیں مثلاً غلام بنانا، باندی بنانا، نوکر کے آگے چاکر رکھنا ایک ایک بات سے انسان کی امتیاز پسندی ظاہر ہوتی ہے صدیوں تک محکوموں کے بارے میں جو قاعدہ قانون بناتے رہے وہ بھی اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آدمی مجرموں کو بھی قید میں ڈالتا ہے قید میں رکھتا ہے اور سزا کے طور پر اُن سے بدسلوکی کرتا ہے یہ بات اگر ایک حد تک جائز بھی ہو سکتی ہے تو اس کی اپنی کچھ اخلاقی حدیں ضرور ہونی چاہئیں لیکن وہ حدیں باقی نہیں رہیں اور اس طرح کے تصورات عام ہو گئے کہ اس نے قید میں ڈال رکھا ہے قیدی بنا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس سے سماج کے تاریخی اور تہذیبی رویوں کا بھی پتہ چلتا ہے اور قاعدہ قانون کی روش پربھی روشنی پڑتی ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔