جب کسی مرے ہوئے شخص کو یاد کیا جاتا ہے تو دُعا کے ساتھ یا د کیا جاتا ہے۔ ’’الحمد‘‘ جو سورہ فاتحہ کہلاتی ہے اور چاروں قل پڑھ کر مرنے والے کی رُوح کو ثواب پہنچایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں فاتحہ دینے کا بھی رواج ہے اور ایسے موقع پر بعض عزیزوں کو بُلایا بھی جاتا ہے۔ اور فاتحہ کا کھانا پکتا ہے غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیکن سماج میں اس کا ایک دوسرا تصور بھی ابھر آیا اور وہ ہے اظہارِ بے تعلقی کرنا اور ایک طرح سے لَعنت بھیجنا کہ اس پر فاتحہ پڑھ لو یعنی اس ذکر کو ختم کر لو اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مقدس معنی کس طرح سماجی رو یہ کے ساتھ غیر متبرک معنی میں بدل جاتے ہیں صلواۃ بھی اسی کی ایک مثال ہے کہ اس کے معنی درُود و سلام کے ہیں لیکن ہمارے اپنے محاورے میں لعنت و ملامت کے ہو گئے ہیں۔
فاختہ ایک پرندہ ہے جو آبادیوں میں رہتا ہے لیکن پالا نہیں جاتا آدمی اس سے بہت کم مانوس ہوتا ہے ہمارے ہاں کبوتر پالے بھی جاتے ہیں اور اُڑائے بھی جاتے ہیں شہروں قصبوں میں کبوتر اُڑانے کا رواج عام ہے۔ فاختہ کوئی نہیں اڑاتا مگر خلیل خاں ایک فرضی کردار ہے جو حماقت کی باتیں کرتے ہیں اور حماقت کی باتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ فاختہ اڑاتے ہیں اس طرح سے فاختہ اُڑانا بے وقوفی کا عمل ہے اور محاورے میں اسی کی طرف اشارہ ہوتا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کے محاورے خاص حاص کرداروں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔
زبان کے معاملہ میں شہری آبادی کا ایک خاص رو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے محاورے اور روزمرہ پر زور دیتے ہیں اور دوسروں کی بولی کو ٹکسال باہر قرار دیتے ہیں۔ میر تقی میرؔ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میرؔ کے کلام کے لئے جامع مسجد کی سیڑھیاں ہیں یا محاورۂ اہلِ دہلی ہے۔
انشاؔء اللہ خاں نے دہلی کے کچھ خاص محلے کی زبان کو مستند قرار دیا ہے اس سے زبان کے معاملہ میں اہلِ دہلی کی رائے اور ترجیحات کا پتہ چلتا ہے فارسی والے بھی ایسا ہی سوچتے تھے اور خاص طور پر ہم اردُو والوں میں غالبؔ کو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے فارسی والوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور اہلِ زبان کے مقابلے میں بہت کم تر درجہ دیتے ہیں یہی وہ ماحول ہے جب عام فارسی جاننے والوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ فارسی کی ٹانگ توڑتے ہیں۔
اِس کو عام لوگ اپنے لب و لہجہ میں فارخطی بھی کہتے ہیں اور یہ ایسی دستاویز ی تحریر کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ کسی کو آزاد کر دیا جاتا ہے۔ وہ چاہے قرض کی ادائیگی سے متعلق ہویا نکاح و شادی بیاہ کے بارے میں۔ اِس سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ اُس کی ذمہ داری اب کوئی نہیں رہی ہے اِسی کو فارغ خطی لکھنا کہتے ہیں۔
ہندوستان میں غربت و افلاس بہت ہے مغلوں کے آخری دور میں یہ صورتِ حال اور بھی زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کُن رہی ہے اکثر خاندانوں میں فاقہ ہوتے تھے اور لوگ انہی کے عادی ہو جاتے تھے اور اسی حالت کو فاقہ مستی کہا جاتا ہے۔ ایک سطح پر عیشِ امروز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’’فرد‘‘ دستاویزی تحریر کو بھی کہا جا تا ہے اس میں صلح نامہ کی شرطیں بھی ہو سکتی ہیں اور کوئی ضروری حساب کتاب بھی اب یہ ظاہر ہے کہ معاشرے میں جو بددیانتی موجود ہے اُس کے باعث یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی جعلی دستاویز تیار کر لی جائے یا کسی صحیح تحریر کو فرد باطل قرار دیا جائے یعنی جھوٹی دستاویز۔
ہمارے خاندانوں میں ماں با پ یا باپ دادا کی وِراثت کے حق دار بیٹے ہوتے ہیں لڑکیاں اپنا حصہ لے سکتی ہیں لیکن ایسا بھی دشوار ہو رہا ہے کہ وہ معاف کر دیتی ہیں شادی بیاہ یا دوسرے خوشی کے موقعوں اپنا حق یا نیگ وصول کرتی ہیں جب کہ اصولی طور پر یہ حق اپنی جگہ پر قائم ہوتا اور نیگ کی حیثیت اخلاقی اور رسماً ہوتی ہے شرعی نہیں۔
سماج کا ایک خاص کردار کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جواپنے آپ کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ بڑی چیز رکھتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ واسطے میں لوگ اپنے کئی رشتے دار عزیز یا پڑوسی کو اس طرح کا کردار ثابت کرانا چاہتے ہیں کہ وہ تو اپنے آپ کو بہت فرشتہ خاں سمجھتا ہے یہ کردار یا اِس طرح کی مصنوعی کردار کے ایک خاص سطح پر نفسیاتی رو یہ کی نشاندہی کرتی ہے۔
ویسے تو فرشتہ استعارے کے طور پر ایک نیک اور بھلے آدمی کو کہتے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی اپنے سادہ پن کی وجہ سے کسی بڑے آدمی کے بارے میں اچھا خیال رکھتا ہو تو طنز کے طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آ پ کو تو سب ہی فرشتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں اِس طرح کے خیالات بھی رائج رہے ہیں کہ موت سے پہلے فرشتے دکھائی دیتے ہیں یا قربانی کے جانور کو فرشتے چھُریاں دکھاتے رہتے ہیں اِس طرح کے خیالات اور توہمات ہماری سماجی زندگی میں موقع بہ موقع کا ر فرما نظر آتے ہیں۔
فرشتہ ایک غیبی مخلوق ہے ہم بہت سی ایسی مخلوقات کے قائل ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں وہ غیبی قوتوں کی علامتیں ہیں جن کو ہم نے ایک وجود کے ساتھ مانا ہے اُن میں دیوی دیوتا بھی ہیں اور فرشتے بھی مسلمان یہود اور عیسائی قومیں چار ایسے فرشتوں کی قائل ہیں جو خُدا کے بہت مُقرب فرشتے ہیں اُن میں جبریلؑ ہیں جبریلؑ خدا کا پیغام لے کر انبیاء اور رسولؐ کے پاس آتے ہیں۔ ’’میکائیل رزق پہنچانے والا فرشتہ ہے ‘‘عزرائیل موت کا فرشتہ ہے اور اسرافیل قیامت کا۔ ہم فرشتوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اور حضرت کہہ اُن کو یاد کرتے ہیں۔
عرب جو فرشتوں کا تصور رکھتے ہیں اس میں پربھی لگے ہوتے ہیں یعنی وہ پرندوں کی طرح ’’پروں ‘‘کے ساتھ اُڑ سکتے ہیں یہاں سے وہاں جا سکتے ہیں اسی لئے فرشتے اُن کے نزدیک بازوؤں والے ہیں۔
ہندوستان میں دیوی دیوتاؤں کے ’’پر‘‘ نہیں ہیں اسی لئے فرشتوں کے پر گننا شاید یہاں کا محاورہ بھی نہیں۔ بعد اس کے یہ کہ فلاں آدمی تو اتنا عقلمند اور غیر معمولی طور پر لائق ہے کہ جو فرشتے کسی کو نظر نہیں آتے یہ اُن کے ’پر‘ گِن لیتا ہے یہ نظر داری اور خبرداری کی بہت ہی غیر معمولی صُورت ہے مگر اس میں اظہار طنز کے طور پرکیا جاتا ہے۔
فرشتے کے ’’پر‘‘ کا تصور کرتے ہوئے ایک دو محاورہ اور بھی ہیں مثلاً وہاں فرشتہ پر نہیں مار سکتا یعنی اتنی پردہ داری یا پابندی اور پہرہ داری ہے کہ فرشتہ بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے۔ اسی سے ملتا جلتا یہ محاورہ بھی ہے کہ وہاں جانے میں تو فرشتوں کے پر جلتے ہیں اور غالباً اس محاورہ کی بنیاد یہ خیال ہے جو فارسی کے ایک شعر میں آیا ہے کہ معراج کی شب میں جبرائیلؑ حضور اکرم ؐکے ساتھ تھے اور سدرۃ المنتہیٰ تک ساتھ رہے لیکن یہاں پہنچ کر انہوں نے اپنا ساتھ اس لئے نہیں دیا کہ اس سے آگے جانا ان کے لئے سوئے ادب تھا۔
اگر یکسرے مُوئے برتر پَرم
فروغ تجلی بسوزد پرم
اگرمیں ایک سرِمُو بھی اور آگے بڑھوں تو تجلیات کا فروغ میرے پاؤں کو جلا دے گا
یہاں صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض محاورے اپنی بنیادی فکر کے اعتبار سے ہندوستان سے باہر کی تہذیبی فضاء اور عقائد و اعمال سے نسبت رکھتے ہیں کہ جس طرح اُردُو زبان میں الفاظ اور تصورات میں بین ایشیائی عناصر کو جمع کیا ہے اسی طرح اُن کا عکس محاورات میں بھی آتا ہے۔
نیزیہ کہ محاورہ تجربہ سے بھی پیدا ہوتا ہے ہمارے سماجی شعور سے اور تہذیبی روایتوں سے بھی اور جس طرح شعر لطیفے اور فنونِ لطیفہ کے مختلف نمونے ہیں جو ہمیں تاریخ کے مختلف مرحلوں سلسلوں اور جہتوں سے واقف کرتے ہیں۔
یہ فارسی ترکیب ہے اور ایک طرح کے محاوراتی معنی رکھتی ہے فرش زمین اور عرش آسمان درمیان میں وہ تمام مادی دنیا یا مختلف عناصر سے متعلق وہ ماحول جو خلاء میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ فرش سے عرش تک کہ تمام اَسرار منکشف ہو گئے تو اُس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اِس دنیا میں افق سے تابہ افق جو چکھ ہے و ہ ایک بھید بھری دنیا ہے۔ اور وہ سب بھید منکشف ہو گئے ہیں اکثر صوفیاء کے ذکر میں اِس صورت حال کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ویسے یہ کوئی محاورہ نہیں ہے بیان کا ایک خاص شاعرانہ اسلوب اور صوفیانہ طرزِ ادا ہے۔
یہ بھی محاورہ نہیں ہے بلکہ ایک اصطلاح ہے ایسے حقے کو فرشی حقہ کہتے ہیں جس کا وہ حصّہ جس میں پانی بھرا رہتا ہے فرش پر ٹِکا رہتا ہے اِس کے مقابلہ میں پیچواں ایک دوسری طرح کا حقہ ہوتا ہے جس کی نالی بہت لمبی ہوتی ہے اور پیچ در پیچ رہتی ہے اس کو فرش سے اُٹھا کر محفل میں اِدھر اُدھر گھمایا بھی جا سکتا ہے۔ یہی صورت فرشی سلام کی بھی ہے کہ بہت جھک کریا زمین کو چھُو کر جو سلام پیش کیا جاتا ہے اُسے فرشی سلام کہتے ہیں یہ بھی محاورے کے بجائے ایک اصطلاح ہے۔ معاشرتی اور تہذیبی اِصطلاح ہے۔
مسلمانوں میں بعض ایسے کرداروں کا بھی روایتی طور پر بطورِ محاورہ یا کسی شعر میں بطورِ تلمیح استعمال ہوتا رہتا ہے اُن میں سے افلاطون ایک کردار ہے جو اپنے زمانے کا بہت بڑا فلسفی طبیب اور ماہرِ اخلاقیات تھا یہ’’ ارسطو‘‘ کا اُستاد بھی تھا اسی لئے علمی کتابوں میں اِس کا ذکر بطورِ فلسفی اور حکیم آتا ہے ایک اردو محاورے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا افلاطون بنا ہوا ہے یعنی اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتا ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا کسی کی بات نہیں مانتا یہی صورت ’’فرعون‘‘ کے ساتھ ہے۔
وہ مِصر کا بادشاہ تھا اور مِصر کے بادشاہ ہوں کو اُن کے لقب کے طور پر فرعون کہا جاتا تھا ہم فرعون کا ذکر حضرت موسی کے زمانے میں جو فرعون تھا اُس کے حوالے سے کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تو بہت بڑا بادشاہ تھا اس کے پاس ساز و سامان بہت تھا۔ لاؤ لشکر بہت تھا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے رو یہ میں فرعونیت رکھتے ہیں بہت سفّاک بے باک اور بے رحم ہوتے ہیں یا خود پسند ہوتے ہیں وہ’’ فرعون‘‘ بے سامان کہلاتے ہیں یہ گویا تاریخی اور روایتی تصورات کے ساتھ اپنے سماجی کردار کو سمجھنے کی کوشش ہے اور اُس پر کمینٹ ہے۔
فرنٹ انگریزی لفظ ہے اور اُس کے معنی ہیں سامنے ہونا، اسی لئے جب فوج اپنے مقابل سے لڑتی ہے تو اُسے فرنٹ پر دشمن کا مقابلہ کرنا کہا جاتا ہے۔
اُردُو میں محاورہ کے طور پر یہ لفظ آیا تو اُس کے معنی دوسرے ہو گئے یعنی وہ مخالف ہو گیا اور ہمارا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گیا ویسے فرنٹ کا لفظ قصباتی یا دیہاتی زبان میں نہیں آتا لیکن محاورہ میں شامل ہو کر یہ بہت سے ایسے گھروں میں پہنچ گیا جو انگریزی سے بالکل ہی ناواقف ہیں اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ لفظوں کو اپنانے پھیلانے اور محفوظ کرنے میں محاورہ ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔
دوڑنے کا وہ خاص انداز ہے جو ہرِنوں کے دوڑنے سے تعلق رکھتا ہے اسی لئے جب کوئی جانور بہت تیز دوڑتا ہے تو اُسے فراٹے بھرنا کہتے ہیں۔ اب دوڑنا ایک محاوراتی لفظ خود بھی ہے۔ آدمی ایک معاملہ میں تیز دوڑتا ہے یعنی تیزی سے آگے بڑھتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اُس کا ذہن تو ہرنوں کی طرح فراٹے بھرنے لگا۔ یہاں پھر ذہن اِس طرح منتقل ہوتا ہے کہ انسان اپنے مُشاہدے کو زندگی میں تجربے اور تجزیے سے گزارتا تھا تو اسے کبھی شعر میں لا تا تھا کبھی کہانی میں کبھی لطیفے کے طور پر اور کبھی اُسے محاورے میں لاتا تھا اور یہاں پہنچ کر اُس کا مشاہدہ ایک ذہنی رو یہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور سماجی حیثیت میں بدل دیتا ہے۔
’’فساد‘‘ کے معنی اُردُو میں دنگا کرنا ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں دنگا فساد کرنا فتنہ پھیلانا خواہ مخواہ جھگڑوں کا سلسلہ شروع کرنا۔ یہ گھریلو سطح پر ہو کنبے قبیلے کی سطح پر ہو یا پھر عالمی سطح پر قرآن میں فتنہ پھیلانے یا فساد کے اسباب پیدا کرنے کو قتل سے زیادہ شدید بات بتلایا ہے۔
عام طور پر سماج میں بدنظمی کھینچا تانی باہمی کشمکش یا ہنگامے پیدا کرنے کو فساد برپا کرنا کہا جاتا ہے اور جو بات جو لوگ اس کا سبب ہوتے ہیں انہیں یا اُس بات کو سبب قرار دیا جاتا ہے اس سے ہم معاشرے کے مزاج اُس کے عمل اور ردِ عمل یا پھر اصل سبب یا
بنیاد کو دریافت کرنے کی کوشش یا صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔
بعض لوگ محفل نشینی کے باعث یونہی بے بنیاد بے تکی غیر سنجیدہ موقع بے موقع فقرے کسنے کی عادت ڈال لیتے ہیں اُسے فقرہ اڑانا بھی کہتے ہیں فقرے اُچھالنا بھی اور بعض موقعوں پر اس کی صورت فقرہ تراشی کی بھی ہو جاتی ہے فقرہ لگا نا بھی ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے موقع و محل کے لحاظ سے تھوڑا فرق بھی ہو سکتا ہے لیکن سماجی رو یہ کے لحاظ سے اس کے مزاج و معیار اور مقصدیت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
فقیر کے معنی بہت غریب اور بھوکے ننگے آدمی کے بھی ہیں اور ایسے شخص کے بھی جس نے درویشی اختیار کر لی مگر زیادہ تر محاوروں میں فقیر کر دینا فقیر ہو جانا بے سہار اور پیسے ٹکے کے لحاظ سے بالکل خالی ہاتھ ہو جانا ہے۔
بھُوکے ننگے فقیر ایک ساتھ استعمال ہوتا ہے اب کسی شہزادے یا شہزادی یا بڑے آدمی کا اپنے آپ کو فقیر لکھنا عاجزی و انکساری ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے اس محاورے کے دو رخ جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سماج زبان کا استعمال کن کن معنی اور پہلوؤں سے کرتا ہے۔ اور کس طرح سوچ کی سطح بدل جاتی ہے۔
فقیر کا لٹکا ایسے کسی شوق کو کہتے ہیں جو عام طور پر اُن فقیروں میں آ جاتا ہے جو دھُونی رمائے پیتے ہیں اور اِس طرح نشہ کرتے ہیں۔
آسمان پر چڑھنا، آسمان کی سیر کرنا، آسمانوں کو چھونا دراصل آسمان پر ہونا یہی سب محاورے فلک سے متعلق بھی ہیں مثلاً فلک بود میں پہاڑ یا عمارتیں فلک ایک کردار کے طور پر بھی اُردو شاعری میں آتا ہے آسمان کو بُرا کہا جا تا ہے دشمن قرار دیا جاتا ہے اسی طرح فلک کو بھی انسان کی عافیت کا دشمن کہا جاتا ہے۔
صوفیوں کی اصطلاح ہے اُردو میں ہی قریب قریب اسی معنی میں رائج ہے ’’فنا فی اللہ‘‘ یعنی اللہ کی مرضی اُس کی خواہش اور اُس کی محبت میں خودی کے تصور سے گزر جانا اور اُس مادّی دنیا اور اس کے علائق سے انکار کر دینا اور یہ کہنا کہ اللہ کے سوا یہاں کوئی موجود ہی نہیں ہے اور جب اس صورتِ حال کو پہنچ کرنا اس میں گم ہو کر آدمی حقیقت وجود کو تسلیم کرتا ہے تو وہ گویا اب بقایا اللہ کو جان رہا ہے یعنی اب میں اللہ کے تصوّر اور اُس کی حقیقتِ عالی کے افراد کے ساتھ جی رہا ہوں میرا اپنا کوئی وجود نہیں یہ محاورہ ایک طرح سے خانقاہی ماحول اور اہلِ خانقاہ کے فلسفیانہ رُوحانی تصورات کی ترجمانی ہے۔
قانون کی ایک اصطلاح ہے مقصد فوج رکھنا نہیں ہے جواس کے لفظی معنی ہیں بلکہ قانون کی نگاہ میں جُرم کرنا اور مجرمانہ کار روائیوں میں حصّہ لینا ہے مثلاً مار پیٹ قتل و غارت چوری ڈکیتی وغیرہ اس کو انگریزی میں Criminalکیس کہتے ہیں کہ فوجداری کیس بن گیا یا فوجداری کے سپرد کر دیا یا فوجداری میں چلا گیا اس کے مقابلہ میں جو کیس ہوتے ہیں اور مالیات سے متعلق ہوتے ہیں وہ دیوانی کے کیس کہلاتے ہیں اور کس کی نوعیت کے پیش نظر اُسے دیوانی یا فوجداری میں منتقل کیا جاتا رہے۔
یہ عجیب و غریب محاورہ ہے ’’فی ‘‘عربی کا لفظ ہے اور اُس کے معنی ہیں میں فنا فی اللہ میں فی اسی معنی میں ہے لیکن محاورے میں فی نکالنا اعتراض کرنے کو کہتے ہیں یا اختلاف رائے کی سی صورت کو پیدا کرنے کے معنی میں یہ محاورہ آتا ہے جیسے وہ تو ہر بات میں فی نکالتے ہیں۔
اس لفظ کی عربی اصلیت اور اُردو میں اِس کے مرادی یا محاوراتی معنی پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لفظ کے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے تک اُس کی ظاہر ہیئت اور معنوی توسیعات میں کتنی بڑی تبدیلیاں آ جاتی ہیں اور بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے۔