اسلام میں ناموں کی اہمیت:
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اچھے نام رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے زمانے میں ہر اُس صحابی رضی اللہ تعالی عنہٰ اور صحابیہ رضی اللہ تعالی عنہٰ کا نام تبدیل کر دیا جس کا مطلب اچھا نہ تھا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کے اللہ تعالٰی کے نزدیک بد ترین نام 'ملک الاملاک' ہے۔ ہم فارسی اور اردو میں جسے شہنشاہ کہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کے بادشاہوں کا بادشاہ تو صرف اللہ ہے اس لیے ایسا نام تو کوئی مشرک ہی رکھ سکتا ہے۔ مغل بادشاہوں کے نام کے ساتھ اکثر شہنشاہ لگایا جاتا ہے جو قطعی ممنوع ہے۔
دوسری طرف صحیح احادیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔ اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو نبیوں کے ناموں پر نام رکھنے کی بھی تلقین فرمائی ہے۔ اور ایک نام ایسا بھی ہے جسے قرآن کی روُ سے اللہ تعالٰی نے خود تجویز کیا ہے جو اس سے پہلے دنیا میں کسی کا نہیں رکھا گیا یعنی زکریا کے بیٹے یحیٰی علیہ السلام۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کے اللہ کو خدا بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ ایک فارسی کا لفظ ہے جو غالباً قدیم یونانی زبان سے فارسی میں لیا گیا ہے یا شائد زرتشت (پارسی) لوگوں کی قدیم زبان سے ہے۔ اگر ہم فارسی میں خدا کہنے کو صحیح مان لیں تو پھرہمیں سنسکرت کے ایشور یا بھگوان اور اسی طرح مختلف زبانوں میں رائج نام بھی قبول کرنے ہونگے۔ لیکن اس طرح اسلامی وحدت کا تو شیرازہ ہی نکل جاۓ گا۔
پاکستان میں بگاڑ:
پاکستان میں ہم سے پچھلی نسل کا تعلق فارسی سے کافی گہرا تھا اس وجہ سے کافی نام فارسی میں رکھے جاتے تھے (جیسا کہ میرا اپنا نام)۔ میرے نام 'سرفراز' کا مطلب وہی ہے جو عربی میں 'علی' کا ہے اس لیے بہتر ہوتا اگر میرا نام علی ہوتا اس طرح میرا اسلامی تشخص میرے پہلے نام سے ہی ظاہر ہوتا۔ فی زمانہ بلخصوص پاکستان میں اب عربی نام رکھے جانے لگے ہیں جوکہ اچھی روایت ہے مگر اس کے ساتھ ہی نت نئے نام رکھنے کا ایک ایسا رجحان چل نکلا ہے کے عجیب و غریب قسم کے نام سننے میں آرہے ہیں۔ ہر شخص کے ذہن پر منفرد نام رکھنے کا خبط سوارہے۔ اسکے علاوہ کافی عرصہ سے نام علاقائی اور مقامی زبانوں میں رکھے جانے لگے ہیں یعنی سندھی، بلوچی، پشتو، سرائکی وغیرہ، وغیرہ۔ کچھ نام تو ایسے بھی ہیں جن کو ہم نے افریقی زبان سے مستعار لے لیا ہے۔
یہ مسئلہ تو خیر اپنی جگہ اس کے علاوہ بھی ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نام رکھنے کا سرے سے کوئی اصول ہی نہیں ہے۔ جس نے جو چاہا جیسا چاہا نام رکھ دیا۔ امریکہ اور یورپ میں نام رکھنے کا اصول ہے یعنی پہلے فرد کا نام پھر اسکے باپ کا نام اور پھر خاندانی نام۔ یعنی اگر کسی کا نام 'ولیم' ہے اور باپ کا نام 'چارلس' ہے اور خاندانی نام 'برٹن' ہے تو اس آدمی کا پورا نام 'ولیم چارلس برٹن' ہو گا۔ یعنی ولیم جو چارلس کا بیٹا ہے اور جس کا خاندان برٹن ہے۔ ولیم کو فرسٹ نیم ﴿First Name﴾ کہا جاۓ گا، چارلس کومڈل نیم ﴿Middle Name﴾ اور برٹن کو لاسٹ نیم یا سر نیم ﴿Last Name or Surname﴾ کہا جاۓ گا۔ مڈل نیم رکھنے کے کئی دیگر طریقے بھی یورپ اور امریکہ میں رائج ہیں۔
عرب میں نام رکھنے کے اصول:
عربوں میں جونام رکھنے کا قدیم نظام رائج ہے وہ اس سے زیادہ سخت ہے یعنی باپ کے بعد دادا کا نام بھی لگتا ہے اور پھر آخر میں خاندانی نام لگایا جاتا ہے۔ پہلے عرب ناموں کے درمیان میں 'بن' ﴿یا ابن﴾ جسے ہم 'ولد' کہتے ہیں لگا یا کرتے تھے مگر اب یہ رواج تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اس لیے کہ اب کاغذی کاروائیوں میں اتنے لمبے چوڑے نام لکھنے میں کافی وقت صرف ہوجاتا ہے۔
عربوں کے یہاں نام رکھنے کے 5 طریقے ہیں:
1. اسم: جیسا کے محمد، موسیٰ، ابراہیم، وغیرہ
2. کنیت: عزت کا نام جو عموماً بڑے بیٹے کے نام پر رکھا جاتا ہے جیسے سرفراز کا بیٹا اُسامہ تو سرفراز کی کنیت ابو اُسامہ لکھی جا سکتی ہے یا سرفراز کی بیگم کو اُم اسامہ کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ کنیت رکھنے کا رواج ہی نہیں ہے اس لیے اس سے متعلق مزید کچھ نہیں لکھ رہا۔)
3. نسب: کنیت کی طرح اولاد اپنے نسبی نام پر اپنا نام رکھ سکتی ہے یعنی سرفراز کی بیٹی اپنے آپ کو بنت سرفراز اور بیٹا ابن سرفراز کہہ سکتا ہے۔
4. لقب: الفاظ کا مرکب جس سے کوئی اسلامی خاصیت ظاہر ہوتی ہوجیسے، ہارون 'الرشید'، عبداللہ۔
5. نسبت:یعنی قبیلے یا کاروبار یا جغرافیہ سے نسبت۔
• قبیلہ (جیسے سعودی عرب میں بسنے والا قبیلہ قریش یا بنی ہاشم)
• کاروبار (ایسا نام جس سے کاروبار کا اظہار ہو جیسے منصور الحلاج ۔ یعنی منصور جولاہا)
• جغرافیہ (ایسا نام جس سے رہائش یا پیدائش کا علاقہ ظاہر ہو جیسے محمد الاصفہانی)
بعض اوقات اوپر دیے ہوۓ طریقوں میں سے دو یا دو سے بھی زائد طریقے ایک ساتھ مستعمل ہوتے ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا پورا نام اس طرح تھا: ابو عبداللہ محمد ابن اسماعیل ابن ابراہیم ابن مغیرہ الجعفی البخاریؒ۔ یعنی عبدللہ اور محمد کا باپ، اسماعیل کا بیٹا جو ابراہیم کا بیٹا تھا جو مغیرہ کا بیٹا تھا جس کا قبیلہ الجعفی تھا اور جو بخاریٰ کا رہنے والا تھا۔
پاکستان میں کیا ہونا چاہئے؟
میرے خیال میں پاکستان میں آج کے اس مصروف دور میں نام رکھنے کا ایک ایسا با قاعدہ نظام رائج ہونا چاہیے جس میں کم از کم پہلا نام اور پھر خاندانی نام ضرور ہو۔ بہتر تو یہی ہو گا کے ہم پہلے نام کے ساتھ باپ کا نام اور پھر خاندانی نام لکھیں۔ اس طرح کم از کم ولدیت کا اظہار ہو جاتا ہے جس سے وراثت، سگے رشتے اور ایسے تمام مسائل جن کا تعلق 'نسب' سے ہے ان کے لیے واضح اشارہ مل جاتا ہے۔ لیکن آج کل کاغذی کاروائیاں کچھ اتنی زیادہ ہو گئی ہیں کہ چھوٹا نام ہی بہتر ہے اور پھر باپ کا نام تو ہر فارم پر الگ سے لکھا جانے لگا ہے اس لیے اگر پہلا نام اور خاندانی نام لکھ دیا جاۓ تو شاید کافی ہے۔
نسوانی ناموں کا مسئلہ:
لڑکیوں کے نام کا اصول بھی اسی طرح ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں لڑکیوں کے نام کا دوسرا حصہ شادی سے پہلے کسی فرضی نام پر ہوتا ہے اور شادی کے بعد شوہر کے پہلے نام پر۔ جو یقیناً غیراسلامی طریقہ ہے۔ لڑکی کا نام ہمیشہ اپنے باپ اور باپ کے خاندانی نام کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔ آزادی نسواں کےعلمبردار مغرب کے اکثر ممالک میں شادی کے بعد عورت کے نام میں باپ کا نام تبدیل کر کے شوہر کا نام ڈال دیا جاتا ہے۔ یعنی اس کا تشخص ہی مٹا دیا جاتا ہے۔ افسوس کے ہم جیسے پاکستانی اسلامی نظام کو چھوڑ کر اہل مغرب کی اندھی تقلید کر تے ہوۓ عورت کی شناخت مٹا رہے ہیں جس پر کوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا!
یہاں ایک اور مسئلہ غور طلب ہے کہ لڑکیوں کے نام میں خاندانی نام سے پہلے ایک سے زائد زنانہ نام نہیں آنے چاہیے۔ مثلاً جمیلہ بطول جمالی، زینب فاطمہ فاروقی۔ اسلامی نظام کے لحاظ سے ایک لڑکے یا لڑکی کے نام کا دوسراحصہ موئنث صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب باپ کا نام نا معلوم ہو، یا پھر وہ اولاد ایک ایسے جوڑے کی ہو جسکی شادی نہیں ہوئی۔ اب اگر کسی لڑکی کا نام نورین قدسیہ شمسی ہواور اسے کسی وجہ سے سعودی عرب یا کسی اور عرب ملک جانا پڑ جاۓ تو وہاں نورین کو قدسیہ شمسی کی نا جائز اولاد سمجھا جاۓ گا۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصیہ بنت عمر کا نام تبدیل کر کے جمیلہ رضی اللہ تعالٰی عنہہ رکھ دیا تھا۔ عاصیہ کے معنی نافرمان اور گنہگار کے ہیں۔
مرکب ناموں کا مسئلہ:
مرکب ناموں کی ابتداء بھی تیسری صدی ہجری میں ہوئی جب بادشاہوں نے اپنے درباریوں کو خطابات عطاء کرنے شروع کیے۔ مثال کے طور پر رکن الدین، شمس الدین، شہاب الدین، وغیرہ وغیرہ ورنہ اسلام کے ابتدائی دور میں اس قسم کے مرکب ناموں کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ خیال رہے کہ اللہ کے ناموں کے ساتھ 'عبد' کا سابقہ لگانا مرکبات کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اسلام کے مطابق یہ ایک پورا نام ہے۔ اس کو انگریزی میں لکھتے ہوۓ یا تو ایک ساتھ لکھنا چاہیے یا پھر ڈیش ﴿-﴾ کے ساتھ ملا دینا چا ہیے۔ مثلاً عبدالمعید کو یا تو Abdulmoeed یا پھر Abdul-Moeed لکھا جانا چاہیے۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر غیر مسلم لوگ اسے پڑہیں گے تو انہیں بھی معلوم ہو گا کہ یہ ایک مکمل لفظ ہے۔ ورنہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کی طرح حال ہو گا جہاں غیر مسلم کمنٹیٹر عبدالمنان ﴿Abdul Mannan﴾ کے 'عبدل' کو پہلا نام سمجھ کر عبدل کی گردان شروع کر دیتے ہیں یا پھر بشیرالاسلام ﴿ Bashirul Islam﴾ میں سے 'بشیراُل' کو پہلا نام سمجھ کر اسی کی گردان کرنے لگتے ہیں۔ عبدل ﴿جو دراصل 'عبد' اور 'ال' سے مل کر بنا ہے﴾ کے معنی تو 'کا غلام' یا 'کا بندہ' اور خالی 'ال' کے معنی ہیں 'کا' کے ہیں اب خود اندازہ لگائیں کے خالی 'عبدل' یا خالی 'بشیرال' کے معنی کیا ہوۓ؟ اور غیر مسلموں کی کیا بات ہے خود ہمارے ملک میں عبدل نام بہت ہی عام ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہۓ کے اگر انگریزی میں نام Abdul Moeed Siddiqui ہو تو امریکہ میں ٓ'عبدل' کو پہلا نام تسلیم کیا جاۓ گا اور 'معید' کو درمیانہ یعنی مڈل نیم اور'صدیقی' کو لاسٹ نیم۔ اب چونکہ امریکہ میں لوگوں کو یا تو ان کے پہلے نام سے پکارا جاتا ہے یا پھر مسٹر کے سابقے کے ساتھ خاندانی نام سے تو وہاں Abdul Moeed Siddiqui خود بخود صرف Abdul ہو جائیں گے۔
سرنیم یا خاندانی نام کی اہمیت:
جہاں تک ولدیت کی اہمیت کا تعلق ہے یہ بات قابل غور ہے کہ نومسلموں کا نام تبدیل کرتے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ولدیت کو نہیں بدلتے تھے چاہے وہ غیر اسلامی نام کیوں نہ ہوتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے خاندانی نام کی اسلام میں کتنی اہمیت ہے۔ آج بھی نو مسلموں کو اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا خاندانی نام نہیں بدلنا چاہیے گرچہ وہ بلکل ہی غیر اسلامی یعنی اسلام سے متصادم نہ ہو جیسا کہ اینگس - Angus (محبت کا دیوتا)۔ اس کے برعکس اگر خاندانی نام فلپس ہے تو اسکے معنی 'گھوڑوں سے محبت کرنے والا' جسے تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
محمد نام برکت کے لیے:
لڑکوں کا نام رکھتے وقت ہمارے ملک میں اکثر برکت کے لیے آگے یا پیچھے محمد یا احمد لگا دیا جاتا ہے۔ محمد اور احمد دونوں ہی بذات خود نہایت پیارے اور مکمل نام ہیں۔ انہیں صرف اکیلے نام کی حیثیت سے ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔ مگر برکت کے لیے لگانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں۔ مزید یہ کہ اسلام میں ایک ہی شخص کے دو نام کی کہیں بھی کوئی سند نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر محمد موسیٰ، محمد احمد جیسے نام اسلامی تاریخ میں کہیں بھی نہیں ہیں۔
نام کب رکھنا چاہیے؟
اس بارے میں دوصحیح احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں سے ایک کے مطابق روز عقیقہ یعنی ساتویں دن اور دوسری کے مطابق روز پیدائش نام رکھنا چاہیے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی طور پر ایک بچے کا نام پیدائش کے پہلے روز سے ساتویں دن تک کبھی بھی رکھا جا سکتا ہے۔
نام رکھنے کا حق کس کا ہے؟
نام رکھنے کا پہلا حق والدین کا ہے جو باہمی رضا مندی سے اپنی اولاد کا کوئی بھی خوبصورت اور بامعنی اسلامی نام تجویز کر سکتے ہیں ۔ اگر والدین کے درمیان نام رکھنے پر کوئی اختلاف ہو تو پھر باپ کا حق ہونا چاہیے کہ وہ کوئی نام تجویز کرے۔ سورۃ احزاب کی آیت سے جو مطلب نکلتا ہے اس سے بھی اسی طرف اشارہ ملتا ہے۔ نیز یہ کے ابوداؤد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بے شک قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں کے ساتھ بلاۓ جاؤ گے پس اپنے نام اچھے رکھو۔" اس کے علاوہ والدین باہمی رضا سے خاندان کے کسی صاحب علم بزرگ یعنی دادا، دادی، نانا، نانی، پھوپھا،ماموں، خالو، تایا وغیرہ کو بھی احتراماً یہ حق تفویض کیا جا سکتا ہے۔ مزید براں کسی عالم دین سے بھی اس سلسلہ میں مشورہ لیا جا سکتا ہے۔
کون سے نام رکھنے چاہیے؟
نام رکھتے وقت ان چار باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے:
• اللہ تعالٰیٰ کے مبارک اور بے عیب ناموں کے ساتھ 'عبد' لگا کر کوئی بھی نام رکھا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے وہ نام جو قرآن یا صحیح احادیث سے ثابت نہیں ان میں سے بعض کو بغیرعبد رکھا جا سکتا ہے۔
• نبیوں کے ناموں پر نام رکھے جا سکتے ہیں۔
• صحابی یا صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہٰ، شہداء، عالم دین، اور اسی طرح کی مشہور اسلامی شخصیات کے نام پر نام رکھا جا سکتا ہے۔
• اوپر دیے ہوۓ ناموں کے علاوہ کوئی بھی اچھا عربی نام جو اسلامی ہو یعنی اس کے معنی اچھے ہوں (یعنی بھلائی، خوشی، محبت، عقل و دانش، قوت و طاقت، سخاوت، خوبصورتی، شجاعت، سچائی، وغیرہ) اور جس سے یہ واضح اظہار ہو کے یہ فرد مسلمان ہے۔
کون سے نام نہیں رکھنے چاہیے؟
• اللہ تعالٰی کا کوئی بھی ایسا نام جو ہرعیب سے پاک ہو وہ بغیر عبد کے سابقے کے نہیں رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر احد، رحٰمن، باسط ۔ اور نا ہی پکارنا چاہیے۔
• اللہ کے کسی بھی ایسے نام کے ساتھ عبد لگانا جس کے بے عیب ہونے کی کوئی صحیح سند نہ ہو جیسا کہ عبدالموجود، عبدالمقصود، عبدالستار، وغیرہ۔
• کسی بھی غیر اللہ کے ساتھ عبد یا غلام لگا کر نام لکھنا جیسے عبد النبی، عبدالرسول، غلام نبی، غلام رسول، غلام علی، عبدالمطلب، اور اسی طرح کے دیگر نام۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہر انسان صرف اور صرف اللہ کا بندہ اور اللہ کا ہی غلام ہے۔
• اسی طرح عطا حسین ﴿حسین کا عطا کردہ﴾، عطا محمد ﴿محمد کا عطا کردہ﴾، انعام الحسن ﴿حسن کا انعام﴾، عنایت حسین ﴿حسین کا عنایت کردہ﴾ اور اسی قسم کے دیگر نام نہیں رکھنے چاہیے کیونکہ عطا اور انعام تو صرف اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔
• مزید نام جو بے معنی ہیں مگر بہت عام ہیں یعنی رحیم اللہ ﴿اللہ کا رحم کرنے والا﴾، رحیم الدین ﴿دین کا رحم کرنے والا﴾، اسلام الدین ﴿دین کا اسلام﴾۔ ان کو بھی رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
• عابد علی کا مطلب ہوا علی کا عبادت کرنے والا، سجاد حسین کا مطلب حسین کا سجدہ کرنے والا، ساجد علی کا مطلب بھی اسی طرح ہے۔ اس طرح کے نام بلاشبہ ممنوع ہیں۔
• 'الہ' ﴿زبر کے ساتھ﴾ کوئی لفظ نہیں ہے بلکہ 'علاؤ' کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ علاؤالدین کو 'الہ دین' بنا دیا گیا اور اسی طرح ہندوستان کے ایک مشہور علاقے کا نام 'الہ آباد' رکھ دیا گیا۔ چونکہ یہ غلط ہے اس لیے اس طرح کا کوئی نام نہیں رکھنا چاہیے۔
• ایسا کوئی بھی نام جس کے معنی اچھے نہ نکلتے ہوں۔ بعض حضرات قرآن سے نام نکالتے ہیں اور انکھ بند کر کے جس لفظ پر انگلی پڑجاۓ وہی رکھ لیتے ہیں۔ یہ طریقہ قطعی غلط ہے کیونکہ قرآن میں تو خنزیر، گدھا، سانپ، کوّا، ٹڈیاں، مکھی، عذاب، جہنم اور اس طرح کے دیگر الفاظ بھی شامل ہیں تو اگر اُنگلی ان پر پڑجاۓ تو کیا یہ نام رکھ لیے جائیں گے؟ دوسری بات یہ کے قرآن اللہ تعالٰی کا کلام ہے اور تمام عالم کے لیے رشد و ہدایت کی کتاب ہے نام رکھنے کی نہیں۔
• قرآن کی کسی سورة پر بھی نام رکھنے کو نا پسند کیا گیا ہے۔ جیسا کہ طہ، یٰسن، وغیرہ کیونکہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق ایسا کرنے کی سند کسی بھی صحیح حدیث، حسن حدیث، یا مرسل یا کسی بھی صحابی کی روایت سے ثابت نہیں۔ ال م، ح م، ال ر، یہ سب صرف اور صرف حروف ہیں۔
• مسلم سے روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پانچ نام رکھنے سے منع فرمانے کا ارادہ تھا مگر پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ یہ نام ہیں یاسر (آسانی)، نافع (منافع)، افلاح (خوشحالی)، یعلی اور برکة ﴿برکت﴾۔ کیونکہ اگر کوئی یہ نام لے کر ان کے بارے میں پوچھے گا اور وہ نہیں ہونگے توجو جواب ملے گا وہ اس طرح ہوگا "یہاں آسانی نہیں ہے،" یا "یہاں کامیابی، یا منافع یا خوشحالی نہیں ہے"۔ اس وجہ سے ان ناموں اور ان سے ملتے جلتے معنی والے ناموں کو رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اسی طرح 'اسلام' بھی نام نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ
اگر کسی نے سوال کیا کے اسلام زندہ ہے؟ اور اگر وہ شخص مر چکا ہو تو اسکا جواب کیا ہوگا؟
• 'تسمیئہ المولود' میں اسی بنیاد پر علماۓ دین نے ان ناموں کو بھی ناپسند فرمایا ہے۔ نورالدین ﴿دین کا نور﴾، ضیاالدین ﴿دین کی روشنی﴾، سیف الاسلام ﴿اسلام کی تلوار﴾، نور السلام ﴿اسلام کا نور﴾، شہاب الدین ﴿دین کا دہکتا ہوا اگ کا گولہ﴾۔ ذہب الدین ﴿دین کا سونا﴾۔ اسی کتاب میں لڑکیوں کے ایسے نام جن سے حسن وشباب کا مطلب نکلتا ہے وہ ناپسندیدہ قرار دیے گئے ہیں جیسا کہ احلام، اریج، عبیر، غادہ، نہاد، شادیہ وغیرہ۔
• رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نام رکھنے سے بھی منع فرمایا ہے جن کا مطلب بہت زیادہ پاک، متقی یا بہت دیندار نکلتا ہو۔ یعنی اپنے آپ ہی اپنی پاک دامنی کی تعریف کرنا۔ بخاری کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ 'برہ' (پاک دامن، پارسا، نیکی، بھلائی) کا نام بدل کر "زینب" رضی اللہ تعالٰی عنہہ رکھ دیا تھا۔ اسی طرح حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہہ کا نام بھی پہلے 'برہ' تھا جو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل فرما دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کہنا نا پسند تھا کہ جیسے 'پاک دامنی یا پارسائی یا بھلائی، یا نیکی چلی گئی'۔
• یہود اور نصاریٰ یا کسی بھی دیگر مذہب کے لوگوں جیسا یا اس سے ملتا جلتا نام رکھنا جیسے ڈیوڈ، پال، مشل، وغیرہ۔
• کفار کے نام پر نام رکھنا جیسے فرعون، شداد، کرشنا،
رام اور ایسا کوئی نام جسے کفار نے دیا ہو۔
• ملائکہ کے ناموں پر بھی نام رکھنے کو ناپسند کیا گیا ہے۔ یعنی جبرائیل، میکائیل، اسرافیل۔
• مرکب ناموں سے بلخصوص اردو الفاظ کے ساتھ اجتناب کرنا چاہیے ﴿مثال کے طور پر چراغ دین﴾ اور اگر عربی میں رکھیں بھی تو اس کو انگریزی میں لکھتے وقت ملا کر لکھیں یعنی مامون الرشید کو Mamoon-ur-Rasheed لکھیں۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کے ہارون الرشید اور مامون الرشید دراصل مرکب نام نہیں تھے۔ 'الرشید' ہاورن اور مامون کا خاندانی نام تھا۔ ہمارے یہاں اب یہ ایک پورے نام کے حیثیت سے رکھا جانے لگا ہے۔ مرکب ناموں میں ایک ہمارے یہاں بڑا مشہور ہے یعنی 'اسلام الدین' اس کے معنی ہوۓ 'دین کا اسلام'۔ اب کوئی پوچھے کہ یہ کس قسم کا نام ہے؟ اردو اور فارسی الفاظ کے ساتھ 'دین' کا لاحقہ تو بلکل بھی نہیں لگانا چاہیے۔ عربی الفاظ کے ساتھ بھی احتیاط کرنی چاہیے۔
• بعض نام ایسے ہیں جن کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں اس لیے ان کو بھی نہیں رکھنا چاہیے جیسا کہ رخسانہ ﴿نا عربی ہے نہ فارسی﴾، زرینہ ﴿نا عربی ہے نہ فارسی ہو سکتا ہے زر یا روسی زار سے کسی نے نکالا ہو﴾، ریشماں ﴿نا عربی ہے نہ فارسی﴾، شاہینہ ﴿شاید شاہین سے نکلا ہے مگر جس طرح چیتا کا موئنث چیتنی نہیں ہوتا اور بندر کا موئنث بندرنی نہیں ہوتا اسی طرح عربی لفظ شاہین کا موئنث بھی شاہینہ نہیں ہے﴾۔ نازلی ﴿نا عربی ہے نہ فارسی﴾، روبینہ ﴿شاید کسی نے انگریزی کے لفظ روبی Ruby سے نکالا ہے﴾، انیلہ ﴿کوئی لفظ نہیں بلکہ اردو میں ناتجربہ کار کو کہتے ہیں﴾، تہمینہ ﴿کسی زبان کا لفظ نہیں ہے﴾۔ 'علیزہ' جس کو کچھ لوگ علی کی بیٹی کے معنی پہناتے ہیں (کوئی نام نہیں ہے بلکہ ایلیزیبتھ کا مخفف ہے۔ آیان (افریقی نام ہے اسلامی نہیں)۔
• رحیمن، کریمن، شریفن، حبیبن کا صحیح موئنث رحیمہ، کریمہ، شریفہ، اور حبیبہ ہے اس لیے غلط نام رکھنے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔
• ہمارے یہاں آج کل انٹرنیٹ سے دیکھ کر نام رکھنے کا رواج کافی زور پکڑ گیا ہے۔ ہم یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کے ویب سائٹ کتنی معتبر ہے اور کس عالم نے وہ نام چھاپے ہیں؟
نام کے کیا جُز ہونے چاہیے؟
پہلے نام کے ساتھ خاندانی نام تو لازماً لگانا چاہیے لیکن احسن یہی ہے کے باپ کا نام بھی بیچ میں آۓ یعنی:
1. پہلا نام
2. باپ کا نام
3. خاندانی نام
اللہ تعالٰی کے ناموں کے ساتھ 'عبد' کا سابقہ لگانے کے بعد صحیح تلفظ کیا ہونا چاہیے؟
اللہ تعالٰی کے ناموں کے ساتھ عبد کی ترکیب پر جتنے نام رکھے جاتے ہیں ان کا تلفظ جاننے کے لیے عربی زبان اور اسکی گرامر کا تھوڑا بہت علم ضروری ہے۔ عربی زبان میں کل 28 حروف تہجی ہیں۔ جن میں 14حروف شمسی ہیں اور 14 قمری ہیں۔
___________________________________
قمری حروف: ا ب ج ح خ ع غ ف ق ک م ہ و ی
___________________________________
شمسی حروف:ت ث د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ل ن ___________________________________
اللہ تعالٰیٰ کے وہ تمام نام جو قمری حروف سے شروع ہوتے ہیں ان کے شروع میں عبد کے ساتھ 'ل' بھی پڑھا جاۓ گا یعنی 'عبدل' پڑھا جاے گا جیسا کے عبداللہ کو 'عبدل لہ' پڑھا جاۓ گا۔ عبدالباقی کو 'عبدل باقی' پڑھا جاۓ گا، عبدالمنان کو 'عبدل منان' پڑھا جاۓ گا۔ لیکن وہ تمام نام جن کی شروعات شمسی حروف سے ہوتی ہے ان میں 'ل' لکھا تو جاۓ گا مگر پڑھا نہیں جاۓ اور عبد کا 'د' اللہ کے نام کے پہلے حرف سے مل جاۓ گا جیسا کے عبدالرحمٰن کو 'عبدُر رحمٰن' پڑھا جاۓ گا، عبدالصمد کو 'عبدُص صمد' پڑھا جاۓ گا، عبدالشکور 'عبدُش شکور' پڑھا جاۓ گا اور عبدالسلام کو 'عبدُس سلام' پڑھا جاۓ گا۔ اسی طرح انگریزی میں لکھتے وقت بھی احتیاط کرنی چاہیے اور یوں لکھنا چاہیے:
Abdurrahman or Abdur-Rahman
Abdussamad or Abdus-Samad
Abdusshakoor or Abdus-Shakoor
Abdussalam or Abdus-Salam
اگر اوپر کہیں سہواً غلطی کا ارتکاب ہو گیا ہو تو معزرت خواہ ہوں۔ نیز اس میں کہیں کسی فقہہ کی دل آزاری کا مقصد قطعئی نہیں۔ بلکہ اس کاوش کے نتیجے میں اُمید ہے کہ اگر ان ہدایات پرعمل ہو تو یقیناً پاکستان میں نام رکھنے کا ایک ایسا نظام تشکیل ہو پاۓ گا جو اسلامی بھی ہو گا اور بین الاقوامی طور پر قابل قبول بھی ہو گا۔