عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھیں آنکھیں
وہ ایک خواب کہ اب تک نظر نہیں آیا
کریں تو کس سے کریں نا رسائیوں کا گلہ
سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا
دلوں کی بات بدن کی زباں سے کہہ دیتے
یہ چاہتے تھے مگر دل ادھر نہیں آیا
عجیب ہی تھا مرے دورِ گمرہی کا رفیق
بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا
حریمِ لفظ و معانی سے نسبتیں بھی رہیں
مگر سلیقۂ عرضِ ہنر نہیں آیا
٭٭٭
خوشگوار موسم میں
اَن گنت تماشائی
اپنی اپنی ٹیموں کو
داد دینے آتے ہیں۔
اپنے اپنے پیاروں کا
حوصلہ بڑھاتے ہیں۔
میں الگ تھلگ سب سے
بارہویں کھلاڑی کو
نوٹ کرتا رہتا ہوں۔
بارہواں کھلاڑی بھی
کیا عجب کھلاڑی ہے!
کھیل ہوتا رہتا ہے
شور مچتا رہتا ہے
داد پڑتی رہتی ہے۔
اور وہ الگ سب سے
انتظار کرتا ہے۔۔۔
ایک ایسی ساعت کا
ایک ایسے لمحے کا
جس میں سانحہ ہو جائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھُرمٹ میں۔
ایک جملۂ خوش کُن
ایک نعرۂ تحسین
اس کے نام پر ہو جائے۔
سب کھلاڑیوں کے ساتھ
وہ بھی معتبر ہو جائے۔
پر یہ کم ہی ہوتا ہے۔
پر یہ لوگ کہتے ہیں
کھیل سے کھلاڑی کا
عمر بھر کا رشتہ ہے۔
عمر بھر کا یہ رشتہ
چھُوٹ بھی تو سکتا ہے۔
آخری وِسل کے ساتھ
ڈوب جانے والا دل
ٹوٹ بھی تو سکتا ہے۔
تُم بھی افتخار عارف!
بارہویں کھلاڑی ہو۔
انتظار کرتے ہو،
ایک ایسی ساعت کا
جس میں حادثہ ہو جائے
جس میں سانحہ ہو جائے۔
تُم بھی افتحار عارف!
تُم بھی ڈُوب جاؤ گے
تُم بھی ٹُوٹ جاؤ گے۔
فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو
وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو
وہ کیا بہار کہ پیوندِ خاک ہو کے رہے
کشاکشِ روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو
کہاں ہے اور خزانہ بجز خزانۂ خواب
لٹانے والا لٹاتا رہے کمی بھی نہ ہو
یہی ہوا ، یہی بے مہرو بے لحاظ ہوا
یہی نہ ہو تو چراغوں میں روشنی بھی نہ ہو
ملے تو مل لئے بچھڑے تو یاد بھی نہ رہے
تعلقات میں ایسی رواروی بھی نہ ہو
پسِ گردِ جادۂ درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے
جو دلوں سے ہو کے گزر رہا ہے وہ راستہ بھی تو دیکھتے
یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے وہ جو آگ تھی ہو کہاں کی تھی
کبھی راویانِ خبر زدہ پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے
یہ گلو گرفتہ و بستۂ رسنِ جفا، مرے ہم قلم!
کبھی جابروں کے دلوں میں خوفِ مکالمہ بھی تو دیکھتے
یہ جو پتھروں میں چھپی ہوئی ہے شبیہ یہ بھی کمال ہے
وہ جو آئینے میں ہُمک رہا ہے وہ معجزہ بھی تو دیکھتے
جو ہوا کے رُخ پہ کھلے ہوئے ہیں وہ بادباں تو نظر میں ہیں
وہ جو موجِ خوں سے سے الجھ رہا ہے وہ حوصلہ بھی تو دیکھتے
یہ جو آبِ زر سے رقم ہوئی ہے یہ داستاں بھی ہے مستند
وہ جو خونِ دل سے لکھا گیا ہے وہ حاشیہ بھی تو دیکھتے
میں تو خاک تھا کسی چشمِ ناز میں آگیا ہوں تو مِہر ہوں
مرے مہرباں کبھی اک نظر مرا سلسلہ بھی تو دیکھتے
٭٭٭
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بولو تو وہ مجھ سے سچ بولے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نِسبت سے مُعتبر ٹھرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو
کرے کلام جو تجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھے دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو
٭٭٭
عجیب لوگ ہیں
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں
جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات
خواب دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے
جو نام بھولنے کا تھا
اس ایک نام کو گلی گلی پکارتے رہے
جو کھیل جیتنے کا تھا اس کو ہارتے رہے
عجیب لوگ ہیں
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں
کسی سے بھی قرضِ آبرو ادا نہ ہوا
لہو لہان ساعتوں کا فیصلہ نہ ہوا
برس گزر گئے کوئی معجزہ نہ ہوا
وہ جل بجھا کہ آگ جس کے شعلۂ نفس میں تھی
وہ تیر کھا گیا،کمان جس کے دسترس میں تھی
سپاہ ِ سر کو فصیلِ شب کا انتظار ہے
کب آئے گا وہ شخص جس کا سب کو انتظار ہے
ہم اہلِ نظر کتنے بدنصیب لوگ ہیں
عجیب لوگ ہیں
ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں
٭٭٭
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
میں زند گی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے
ستارۂ سحری ڈوبنے کو آیا ہے
ذرا کوئی مرے سورج کو باخبر کر دے
قبیلہ وار کمانیں کڑکنے والی ہیں
مرے لہو کی گواہی مجھے نڈر کر دے
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرے خدا
اجاڑ دے مری مٹی کو دربدر کر دے
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے
٭٭٭
جوہری کو کیا معلوم
کس طرح کی مٹی میں
کیسے پھول کھلتے ہیں
کس طرح کے پھولوں میں
کیسی باس ہوتی ہے
جوہری کو کیا معلوم
جوہری تو ساری عمر
پتھروں میں رہتا ہے
زر گروں میں رہتا ہے
جوہری کو کیا معلوم
٭٭٭
تھکن تو اگلے سفر کے لیئے بہانہ تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
وہی چراغ بجھا ، جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی ، جو شجر پرانا تھا
متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا
ہوا کی کاٹ شگوفوں نے جذب کر لی تھی
تبھی تو لہجۂ خوشبو بھی جارحانہ تھا
وہی فراق کی باتیں ، وہی حکایت ِ وصل
نئی کتاب کا اک اک ورق پرانا تھا
٭٭٭
فضا میں وحشت سنگ و سناں کے ہوتے ہوئے
قلم ہے رقص میں آشوبِ جاں کے ہوتے ہوئے
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
بضد ہے دل کہ نئے راستے نکالے جائیں
نشانِ رہگذرِ رفتگاں کے ہوتے ہوئے
میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوۂ حسنِ بیاں کے ہوتے ہوئے
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
٭٭٭
آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
دوش پر ترکش پڑا رہنے دے پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سوئے سینۂ احباب دیکھ
بوند میں سارا سمندر آنکھ میں کُل کائنات
ایک مشتِ خاک میں سورج کی آب و تاب دیکھ
افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں الجھتے خواب دیکھ
٭٭٭
جس روز ہمارا کوچ ہوگا
پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی
شیریں سخنوں کے حرف دشنام
بے مہر زبانیں بند ہوں گی
پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا
یادوں کا سراغ تک نہ ہوگا
ہمواری ء ہر نفس سلامت
دل پر کوی داغ تک نہ ہوگا
پامالیِ خواب کی کہانی
کہنے کو چراغ تک نہ ہوگا
معبود ! اس آخری سفر میں
تنہائ کو سرخ رو ہی رکھنا
جس آنکھ نے عمر بھر رلایا
اس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا
جس روز ہمارا کو چ ہو گا
پھو لوں کی دکانیں بند ہوں گی
٭٭٭
"ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
جو خلعتِ انتساب پہنا کے وقت کی رَو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
حجاب کو رمزِ نور کہتا ہے اور پَرتو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہو گا"
"کوئی نہیں ہے
کہیں نہیں ہے
یہ خوش یقینوں کے ، خوش گمانوں کے واہمے ہیں جو ہر سوالی سے بیعتِ اعتبار لیتے ہیں
ا س کو اندر سے مار دیتے ہیں"
"تو کون ہے وہ جو لوحِ آبِ ِ رواں پہ سورج کو ثبت کرتا ہے اور بادل اُچھالتا ہے
جو بادلوں کو سمندروں پر کشید کرتا ہے اور بطنِ صدف میں خورشید ڈھالتا ہے
وُہ سنگ میں آگ، آگ میں رنگ ، رنگ میں روشنی کے امکان رکھنے والا
وُہ خاک میں صوت، صوت میں حرف، حرف میں زندگی کے سامان رکھنے والا
نہیں کوئی ہے
کہیں کوئی ہے
کوئی تو ہوگا"۔
٭٭٭
میرا شرف کہ تو مجھے جوازِ افتخار دے
فقیرِ شہرِ علم ہوں زکوٰۃ ِ اعتبار دے
میں جیسے تیسے ٹوٹے پھوٹے لفظ گھڑ کے آگیا
کہ اب یہ تیرا کام ہے بگاڑ دے سنوار دے
مرے امین آنسوؤں کی نذر ہے قبول کر
مرے کریم اور کیا ترا گناہگار دے
نگاہداریِ بہار آرزو کے واسطے
ہمارے نخلِ جاں کو بھی کوئی نگاہدار دے
ترے کرم کی بارشوں سے سارے باغ کھل اُٹھیں
ہوائے مہر نفرتوں کا سارا زہر مار دے
قیامتیں گُزر رہیں ہیں کوئی شاہسوار بھیج
وہ شاہسوار جو لہو میں روشنی اُتار دے
وہ آفتاب بھیج جس کی تابشیں ابد تلک
میں داد خواہِ اجر ہوں جزائے انتظار دے
٭٭٭
کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے
ہوا بھی ہو گئی میثاقِ تیرگی میں فریق
کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے
اُسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرضِ ہنر میں رکھا جائے
نہ جانے کون سے ترکش کے تیر کب چل جائیں
نشانِ مہر کمانِ سپر میں رکھا جائے
وفا گمان ہی ٹھہری تو کیا ضرور کہ اب
لحاظِ ہمسفری بھی سفر میں رکھا جائے
ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذابِ در بدری کس کے گھر میں رکھا جائے
ہمیں بھی عافیتِ جاں کا ہے خیال بہت
ہمیں بھی حلقۂ نا معتبر میں رکھا جائے
٭٭٭
حریمِ لفظ میں کس درجہ بے ادب نکلا
جسے نجیب سمجھتے تھے کم نسب نکلا
سپاہِ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگارِ شب نکلا
ہماری گرمیِ گفتار بھی رہی بے سود
کسی کی چپ کا بھی مطلب عجب عجب نکلا
بہم ہوئے بھی مگر دل کی وحشتیں نہ گئیں
وصال میں بھی دلوں کا غبار کب نکلا
ابھی اُٹھا بھی نہیں تھا کسی کا دستِ کرم
کہ سارا شہر لئے کاسۂ طلب نکلا
٭٭٭
پتنگیں لوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا اور کس کی
ڈور ہلکی تھی
اُنھیں اس سے غرض کیا پینچ پڑتے وقت کن ہاتھوں میں لرزہ آگیا تھا
اور کس کی کھینچ اچھی تھی؟
ہوا کس کی طرف تھی، کونسی پالی کی بیری تھی؟
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم؟
اُنھیں تو بس بسنت آتے ہی اپنی اپنی ڈانگیں لے کے میدانوں میں آنا ہے
گلی کوچوں میں کانٹی مارنی ہے پتنگیں لُوٹنا ہے لُوٹ کے جوہر دکھانا ہے
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا
اور کس کی ڈور ہلکی تھی؟
٭٭٭
کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا
شِکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
دمشقِ مصلحت و کوچۂ نفاق کے بیچ
فغانِ قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا
مآلِ عزت ساداتِ عشق دیکھ کے ہم
بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا
فروغِ صنعتِ قد آوری کا موسم ہے
سبک ہوئے پہ بھی نکلا ہے قد و قامت کیا
٭٭٭
عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
تمام شہر مکّرم بس ایک مجرم میں
سو میرے بعد مرا خوں بہا نہ مانگے کوئی
کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے کوئی
عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی
٭٭٭
حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے
بیچ آئے سرِ قریۂ زر جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
لو دیتی ہوئی رات سخن کرتا ہو ا دن
سب اس کے لئے جس سے مخاطب بھی نہیں تھے
٭٭٭
جُنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو
سکُوتِ شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو
میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو
وُہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت
اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو
وہ جس کے ڈوبتے ہی ناؤ ڈگمگانے لگی
کسے خبر وہی تارہ ستارہ جو کا بھی ہو
ثبوت محکمی جاں تھی جس کی برّشِ ناز
اُسی کی تیغ سے رشتہ رُخِ گلو کا بھی ہو
وفا کے باب میں کارِ سخن تمام ہوا
مری زمیں پہ اک معرکہ لہو کا بھی ہو
٭٭٭
یہ ہے مشقِ تیر سنان و سنگ بہانہ کر
گہرِ کلاہِ امیرِ شہر نشانہ کر
یہی طنطنہ یہی دبدبہ یہی طمطراق
اس طمطراق کو ٹھوکروں میں روانہ کر
تجھے موت آئے جوازِ راہِ مفر نہ ڈھونڈ
ترے سر پہ خاک ، دل اس قدر بھی برا نہ کر
وہ بات جس سے نزار ہے تری جانِ زار
وہی بات کہہ کے ادائے قرضِ زمانہ کر
وہی خوف جس سے لرز رہا ہے ترا وجود
اُسی خوف کو ہدفِ دعائے شبانہ کر
ترا رزق ہی سببِ مرض ہے تو اب کے بار
ذرا جم کے ردّ ِ وبال درہم و دانہ کر
٭٭٭
جاہ و جلال, دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود
پیچ و خم و وجود و عدم اور کتنی دیر
دامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر
٭٭٭
سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی
سرِ شام کوئی جدا ہوا تو خبر ہوئی
مرا خوش خرام ، بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
مرے سارے حرف تمام حرفِ عذاب تھے
مرے کم سُخن نے سُخن کیا تو خبر ہوئی
کوئی بات بن کے بگڑ گئی تو پتہ چلا
مرے بےوفا نے کرم کیا تو خبر ہوئی
مرے ہمسفر کے سفر کی سمت ہی اور تھی
کہیں راستہ گُم ہوا تو خبر ہوئی
مرے قصہ گو نے کہاں کہاں سے بڑھا لی بات
مجھے داستاں کا سرا ملا تو خبر ہوئی
٭٭٭
سورج تھے ، چراغِ کفِ جادہ میں نظر آئے
ہم ایسے سمندر تھے کہ دریا میں نظر آئے
دنیا تھی رگ و پے میں سمائی ہوئی ایسی
ضد تھی کہ سبھی کچھ اسی دنیا میں نظر آئے
سرمایہِ جاں لوگ ، متاعِ دو جہاں لوگ
دیکھا تو سبھی اہل تماشا میں نظر آئے
خود دامنِ یوسف کی تمنا تھی کہ ہو چاک
اب کہ وہ ہنر ، دستِ زلیخا میں نظر آئے
٭٭٭
بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
چراغِ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہو ا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ اُلجھی ہے کہ اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھُلے گا جب تماشا ختم ہو گا
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور ٌ علیٰ نور
بنامِ مسلک و مذہب تماشا ختم ہو گا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
دلِ ما مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا
٭٭٭
غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا
گھر کو جلا کے خاک اُڑا دی گئ تو کیا
غارت گریِ شہر میں شامل ہے کون کون
یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئ تو کیا
اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اِک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئ تو کیا
میثاقِ اعتبار میں تھی اِک وفا کی شرط
اِک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئ تو کیا
قانونِ باغبانیِ صحرا کی سرنوشت
لکھی گئ تو کیا جو نہ لکھی گئ تو کیا
اس قحط و انہدامِ روایت کے عہد میں
تالیفِ نسخہ ہائے وفا کی گئ تو کیا
جب میر و میرزا کے سخن رائیگاں گئے
اِک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئ تو کیا
٭٭٭
حجرۂ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا
ہم نے میر سے رو تابی کی بدعت کا آغاز کیا
خوابوں کی پسپائ کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے
دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی دنیا کو ناراض کیا
جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد
اُ س گُل کو شادابی بخشی ہم کو دست دراز کیا
زندہ لفظ کے مدّ مقابل کیا اورنگ و طبل و علم
سارے سحر بکھر جائیں گے جب ہم نے اعجاز کیا
درد کی لئے کا مدھم رکھنا عین ہنر تھا اور ہم نے
باغِ نوا کے خلوتیوں کو خلق کا ہم آواز کیا
ستارہ وار چلے پھر بجھا دیئے گئے ہم
پھر اس کے بعد نظر سے گرا دیئے گئے ہم
عزیز تھے ہمیں نوواردان کوچہ عشق
سو پیچھے ہٹتے گئے راستہ دیئے گئے ہم
دعائیں یاد کرا دی گئیں تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دیئے گئے ہم
زمینِ فرش گل و لالہ سے سجائی گئی
پھر اس زمیں کی امانت بنا دیئے گئے ہم
شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثالِ مالِ غنیمت لٹا دیئے گئے ہم
کبھی کبھی دل یہ سوچتا ہے
نہ جانے ہم بے یقین لوگوں کو
نام حیدرؑ سے ربط کیوں ہے
حکیم جانے وہ کیسی حکمت سے آشنا تھا
شجیع جانے کہ بدر و خیبر کی فتح مندی کی راز کیا تھا
علیم جانے وہ علم کے کون سے سفینوں کا ناخدا تھا
مجھے تو بس صرف یہ خبر ہے
وہ میرے مولا کی خوشبوؤں میں رچا بسا تھا
وہ ان کے دامانِ عاطفت میں پلا بڑھا تھا
اور اس کے دن رات
میرے آقا کے چشم و ابرو و جنبشِ لب کے منتظر تھے
وہ رات کو دشمنوں کے نرغے میں سو رہا تھا تو ان کی خاطر
جدال میں سر سے پاؤں تک سُرخ ہو رہا تھا تو ان کی خاطر
سو اس کو محبوب جانتا ہوں
سو اس کو مقصود مانتا ہوں
سعادتیں اس کے نام سے ہیں
محبتوں کے سبھی گھرانوں کی نسبتیں اس کے نام سے ہیں
سخنِ حق کو فضیلت نہیں مِلنے والی
صبر پر دادِ شجاعت نہیں مِلنے والی
وقتِ معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل
ڈُوبا جاتا ہے کہ مُہلت نہیں مِلنے والی
زندگی نذر گزاری تو مِلی چادرِ خاک
اِس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں مِلنے والی
راس آنے لگی دُنیا تو کہا دِل نے کہ جا
اب تُجھے درد کی دولت نہیں مِلنے والی
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کِسی حرف کو حُرمت نہیں مِلنے والی
گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم
ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں مِلنے والی
زندگی بھر کی کمائی یہی مِصرعے دو چار
اِس کمائی پہ تو عزت نہیں مِلنے والی
اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے
دھوپ ہم پر ہی نہیں بے سائباں وہ بھی تو ہے
شکوۂ بیداد موسم اس سے کیجیے بھی تو کیوں
کیا کرے وہ بھی کہ زیر آسماں وہ بھی تو ہے
اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ دیکھیں تو سہی
در بدر ہم ہی نہیں، بے خانماں وہ بھی تو ہے
ایک ہی دستک جہاں چونکائے رکھے ساری عمر
ایک اندازِ شکستِ جسم و جاں وہ بھی تو ہے
اس طرف بھی اک نظر اے رہرو منزل نصیب
وہ جو منزل پر لٹا ہے کارواں وہ بھی تو ہے
میرے آباء و اجداد نے حرمت آدمی کے لیے
تا ابد روشنی کے لیے
کلمۂ حق کہا
مقتلوں، قید خانوں، صلیبوں میں بہتا لہو
ان کے ہونے کا اعلان کرتا رہا
وہ لہو حرمت آدمی کی ضمانت بنا
تا ابد روشنی کی علامت بنا
اور میں پا برہنہ سر کوچۂ احتیاج
رزق کی مصلحت کا اسیر آدمی
سوچتا رہ گیا
جسم میں میرے ان کا لہو ہے تو پھر یہ لہو بولتا کیوں نہیں؟
٭٭٭
تشکر: اردو ویب ڈاٹ آرگ/ محفل، اردو ورلڈ ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید