کسی ملک میں ایک راجا رہتا تھا۔ اس کے دربار میں ایک مرتبہ ایک سادھو آیا۔ راجا نے اُس سے پوچھا:’’ سادھو مہاراج! دنیا میں رہ کر جو اپنی زندگی صحیح طریقے سے خدا کی عبادت اور لوگوں کی خدمت کر کے گذارتے ہیں وہ بڑے ہیں یا وہ جو دنیا سے دور رہ کر جنگل بیابان میں جابستے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ بڑے ہیں ؟‘‘
سادھونے جواب دیا :’’ اے راجا! دونوں ہی اپنی اپنی جگہ بڑا کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔‘‘
راجا نے اُس کی کوئی مثال پوچھی۔ تو سادھو نے کہا :’’ ٹھیک ہے لیکن اس کے لیے آپ کو کچھ دن میرے ساتھ سفر کرنا پڑے گا۔‘‘
راجا نے سادھو کی بات مان لی اور وہ دونوں گھومتے گھومتے ایک دن ایک ملک میں پہنچے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک میدان میں کافی مجمع لگا ہو ا ہے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ آج اس ملک کی شہزادی کا سوئمبر ہے۔ وہاں کے راجا نے یہ منادی کروا دی تھی کہ:’’ جس کے ساتھ شہزادی کی شادی ہو گی اُسے میری موت کے بعد پوری سلطنت سونپ دی جائے گی اور وہ اس ملک کا راجا کہلائے گا۔‘‘
شہزادی بہت زیادہ خوب صورت تھی اور وہ اپنے ہی جیسے کسی خوب صورت شہزادے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ یوں تو سوئمبر میں حصہ لینے کے لیے ایک سے ایک شہزادے آئے لیکن کوئی بھی شہزادی کو پسند نہ آیا۔ تب ہی وہاں ایک نوجوان سادھو آیا۔ راج کماری نے جیسے ہی اس جوان سادھو کو دیکھا اسے پسند کر بیٹھی اور اس کے گلے میں مالا ڈالنے چل پڑی لیکن وہ سادھو وہاں سے جانے لگا۔
تب راجا نے نوجوان سادھو سے کہا :’’ اگر تم میری بیٹی سے شادی کر لو گے تو مَیں اسی وقت میری آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا اور میری موت کے بعد تم پورے ملک کے راجا کہلاؤ گے۔ ‘‘
’’ مَیں نے تو دنیا کو خیر باد کہہ دیا ہے اب مجھے شادی بیاہ اور دنیا سے کوئی مطلب نہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر سادھو وہاں سے چل پڑا۔
نوجوان سادھو کو جاتے ہوئے دیکھ کر شہزادی بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ یہ سب منظر راجا اور سادھو دونوں غور سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک جنگل میں جا کر وہ نوجوان سادھو کہیں غائب ہو گیا۔شہزادی ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔
اسی درخت پر ایک چڑیا اور چڑا اپنے تین بچّوں کے ساتھ رہتے تھے۔ سردی کا موسم تھا۔ چڑا نے چڑیا سے کہا:’’ یہ ہمارے مہمان ہیں، ہمیں ان کی خاطر مدارات کرنی چاہیے۔ انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ مَیں ایک جلتی ہوئی لکڑی لے کر آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر چڑا وہاں سے اڑ گیا اور کچھ دیر بعد کہیں سے ایک جلتی ہوئی لکڑی لے کر آیا۔ چڑے نے اُس لکڑی کو نیچے گرا دیا اُس کے بعد دونوں نے اس میں اور لکڑیاں ڈال کر اُسے جلا دیا۔
اُس کے بعد چڑیا نے چڑے سے کہا :’’ انھیں بھوک لگی ہو گی، لیکن ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ جب کہ یہ ہمارے مہمان ہیں اب ہم کیا کریں ؟‘‘ یہ سُن کر چڑا اُسی آگ میں کود پڑا اور بھون گیا۔
چڑیا نے سوچا کہ مَیں اپنے خاوند کی محنت کو ضائع نہیں جانے دوں گی۔ یہ لوگ تین افراد ہیں۔ جب کہ پرندہ ایک ہی۔ چڑیا بھی آگ میں کود پڑی۔
سادھو نے راجا سے کہا :’’ دیکھا آپ نے - اگر آپ کو دنیا ترک کرنا ہے تو اُس نوجوان سادھو کی طرح بنو جس کے لیے اس شہزادی نے محل اور سلطنت چھوڑ دی ہے اور اگر دنیا میں رہ کر کچھ اچھا کام بھی کرنا ہے تو چڑیا اور چڑے کی طرح بنو کہ ان لوگوں نے دوسروں کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔