حضرت سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک شہر بعلبک کی جامع مسجد میں قرآن پاک کی آیت کی تفسیر بیان کر رہا تھا اور سامعین کو اس آیت مبارکہ کے مفہوم و مطالب سے آگاہ کرنے کے لئے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا رہا تھا لیکن سامعین ، ذوق سے بے بہرہ تھے ۔ پتھر بنے بیٹھے تھے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ، اور کن سے کہہ رہا ہوں، بھینس کے آگے بین بجانے والی بات تھی اور یہ مثل مشہور ہے کہ
"اندھے کے آگے رونا اپنے نین کھونے کے مترادف ہے۔"
سامعین کی بے حسی اور بددلی کے باوجود میرا بیان گرم جوشی سے جاری رہا۔ اسی اثناء میں ایک شخص قریب سے گزرا میری تقریر کے چند جملے ہی سن کر بڑا خوش ہوا۔ اس کی زبان سے نعرہ ستائش بلند ہوا تو سناٹے میں آئے ہوئے سامعین چونکے۔ ان کے ہاؤ ہو سے مسجد کی فضاء گونج اٹھی۔ پتھر بولنے لگے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر میری زبان سے بے اختیار نکلا۔ سبحان اللہ جزاک اللہ دور رہنے والے باخبر نے فائدہ اٹھایا اور پاس بیٹھے ہوئے بے خبر بت بنے رہے۔
نصیحت: بات صرف اس شخص پر اثر کرتی ہے جس میں سمجھنے کی صلاحیت ہو۔ مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر۔
٭
ماخذ:
جمع و ترتیب، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید