کالج میں داخل ہوتے ہی گڑ بڑ دیکھ کر ہم نے اندازہ لگا لیا کہ وہاں شجاعت مرزا موجود ہیں ۔ وہ جہاں جاتے کوئی نہ کوئی گل کھلا کر رہتے۔ کالج جیسی خشک اور بنجر زمین بھی ان سے محفوظ نہ تھی۔ تبھی ہم کہتے۔
دشت تو دشت ہیں ، صحرا بھی نہ چھوڑے تم نے!
ہمارا خیال تھا کہ کالج میں ‘’سال’‘ بھر ‘’خشک سالی’‘ رہتی جبکہ مرزا کہتے کہ یہ لڑکوں کا کالج ہے یہاں خشک ‘’سالے’‘ رہتے ہیں ۔
اسکول کے مقابلے میں کالج اتنی بور جگہ تھی کہ وہاں مکھیاں اور مچھر تک نہ آتے تھے۔ اگر کوئی بھولی بھٹکی مکھی یا مچھر وہاں آ بھی گیا ہو گا تو اساتذہ کی خشک اور طویل بحث سن کر جانبر نہ رہ سکا ہو گا۔
وہاں سبزہ تھا نہ ہریالی، باغ تھا نہ کیاری۔ ریت اور مٹی کا ایک سمندر تھا جس سے دھول کی لہریں اٹھتی رہتی تھیں ۔ بیچوں بیچ ایک کچرا کنڈی تھی جو شجاعت کے مطابق کبھی فوارہ رہی ہو گی۔
گڑ بڑ کی وجہ معلوم کرنے ہم مجمع کی طرف بڑھے ہی تھے کہ ہمیں کچھ فاصلے پر شجاعت مرزا برے برے منہ بناتے دکھائی دیئے۔
‘’ کیا ہو گیا بھئی؟’‘ ہم نے سرسری انداز میں پوچھنے کی کوشش کی کیونکہ زور دے کر تو مرزا سے کچھ اگلوانا ناممکن تھا۔
‘’ یہ سب لوگ سِک روم کے باہر جمع ہو کر احتجاج کر رہے ہیں ۔’‘ ہم نے دیکھا کہ مجمع واقعی سِک روم کے باہر ہی کھڑا تھا۔
‘’کیوں ؟’‘ ہم نے پوچھا۔
‘’ ان کا کہنا ہے کہ جب سِک روم کے باہر ‘’بیمار کمرہ’‘ لکھا ہے تو باقی سب کمروں کے باہر ‘’صحت مند کمرہ’‘ لکھا ہونا چاہیے ورنہ وہ ان میں نہیں پڑھیں گے۔’‘
ہمارا منہ بن گیا۔ ہمیں خاموش دیکھ کر مرزا خود ہی بولے’’ ایک چپڑاسی کو آج صبح کسی بھوت نے ڈس لیا ہے۔ وہ اندر بے ہوش پڑا ہے۔’‘
‘’ ہائیں ! تم تو ڈنک مارتے تھے، یہ ڈسنا کب سے شروع کر دیا۔’‘ہم جل کر بولے اور تفصیلات کے لئے سِک روم کی طرف بڑھ گئے۔
معلوم ہوا کہ آخری منزل پر بنے کونے والے کمرے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ یہ کمرہ نہیں بارہ ڈی تھا، جسے اسٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ چپڑاسی صاحب جب وہاں سے فاضل کرسی لینے گئے تو ان کے سر پر نامعلوم اطراف سے اوپر تلے سات ڈنڈے پڑے جس سے ان کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ باہر نکل کر انہوں نے یہ واقعہ جلدی جلدی کچھ لوگوں کو سنایا اور زخموں کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئے۔
ابتدائی طبی امداد شاید اسی وقت دے دی گئی تھی، اب اختتامی طبی امداد دی جا رہی تھی۔ سیدھا سیدھا وہم اور خوف کا کیس تھا، جس کو ہوا بنا لیا گیا تھا۔
مجمع میں گھل مل کر ہم اندر پہنچے تاکہ چپڑاسی کی شکل دیکھ لیں اور بعد میں اسے سمجھا بجھا سکیں کہ یہ بھوت پریت محض خیالی کرائے دار ہوتے ہیں ۔ جس شخص کی اوپری منزل خالی دیکھتے ہیں ، ڈیرہ ڈال دیتے ہیں ۔
لیکن چپڑاسی کو دیکھنے کے بعد ہمیں اس کی باتیں سچ لگنے لگیں ۔ اس کے سر پر واقعی دو تین گومڑے موجود تھے۔ کمپاؤنڈر طلبہ پر اپنی قابلیت کا رعب جھاڑنے کی کوشش کر رہا تھا ‘’ جب چھوٹے مچھر انسان کو کاٹتے ہیں تو چھوٹے دانے نکلتے ہیں ، جب بڑے سے بھوت نے کاٹا ہے تو یہ بڑے بڑے دانے نکل آئے ہیں ۔’‘
لڑکوں کے چہروں پر بے یقینی دیکھ کر اس نے فوراً اپنا موضوع تبدیل کیا اور بولا۔
‘’بارہ ڈی کے کیسز پہلے بھی میرے پاس آتے رہے ہیں ، لیکن وہ اتنے سنجیدہ نہ تھے۔’‘‘’ کیا وہ بہت پر مزاح ہوتے تھے؟’‘ ایک لڑکے نے صدا لگائی۔
‘’وہاں خطرناک قسم کے جن بھوت رہتے ہیں اور بارہ ڈی ان کی پارلیمنٹ ہے۔ یہ جو کرسی اٹھا رہا تھا وہ یقیناً چیئرمین کی ہو گی۔’‘ ایسی کرسی کے لئے تو قتل تک ہو جاتے ہیں ، یہ تو پھر زخمی ہی ہوا ہے۔’‘
ہم باہر نکلے اور لگے مرزا کو تلاش کرنے، وہ ہمارے لیے بیساکھی کی مانند تھے ، جس کے بغیر ہم خود کو اپاہج خیال کرتے تھے۔ لیکن یہی بیساکھی مل جانے کے بعد ہم ہزار میٹر کی ریس میں بھی اچھے اچھوں کو ہرا سکتے تھے۔
مرزا کا کوئی سر پیر نہ ملا اور ہم اکیلے ہی بارہ ڈی کا جائزہ لینے چل پڑے۔وہاں پہنچے تو شجاعت مرزا کو دروازے کے باہر گہری سوچوں میں غرق پایا۔
‘’اسم بالمسمٰی ہونے کی وجہ سے تم سے یہ تو پوچھنا ہی فضول ہے کہ تم اندر کیوں نہیں گئے۔’‘ ہم نے فقرہ کسا۔
شجاعت کی خاص الخاص بات یہ تھی کہ اگر اسے اٹھا کر گھڑ میں بھی پھینک دو، تب بھی ناراض نہ ہوتا تھا، جبکہ ہم کسی کی ‘’ہونہہ’‘ پر ہی منہ بسور لیتے تھے۔
‘’یار.... دراصل میں وہ بھول آیا ہوں ۔’‘ انہوں نے اپنی کھوپڑی کی طرف اشارہ کیا۔
‘’ کیا چیز.... عقل؟؟؟’‘ ہم حیرت سے بولے۔
‘’ نہیں بھئی.... ہیلمٹ .... اس کے بغیر اندر گئے تو سر کو چار چاند لگ جائیں گے۔’‘
‘’ڈرپوک ! میں تو جا رہا ہوں اندر۔’‘ ہم یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھے لیکن یہ دیکھ کر ہمارا منہ بن گیا کہ وہاں ایک موٹا تازہ تالا پڑا خونخوار نظروں سے ہمیں گھور رہا تھا۔
٭....٭
انچارج نے تالا کھولنے سے صاف انکار کر دیا تو ہم نے اجازت طلب کرنے کے لئے پرنسپل صاحب کے دفتر کا رخ کیا۔
‘’تمہارا نام شجاعت ہے نا؟’‘ انہوں نے مرزا سے پوچھا۔ ہم شجاعت سے کسی تگڑے سے جواب کی توقع کر رہے تھے۔ مگر انہوں نے نظریں جھکا لیں اور خوب شرماتے ہوئے بولے۔ ‘’جج.... جی!’‘
ہم نے سرگوشی کی۔ اتنا بھی مت شرماؤ، یہ تمہارے سسر تھوڑا ہی ہیں ۔’‘
‘’ تمہارے اسکول کے کچھ کارنامے میں سن چکا ہوں ۔’‘ پرنسپل صاحب پھر بولے۔
‘’باقی سارے میں سناؤں ؟’‘ ہم ہاتھ کھڑا کر کے بے ساختہ بولے۔’’ مگر پھر پرنسپل صاحب کو گھورتا دیکھ کر جھینپ گئے اور ہاتھ نیچے کر لیا۔
‘’اب سنانے کا نہیں ، بلکہ کارنامہ دکھانے کا وقت ہے۔ بارہ ڈی کے اندر کافی فرنیچر پڑا ہے، کسی طرح اسے نکالنا ہے تاکہ پھر اس کمرے کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے۔’‘پرنسپل صاحب نے مسئلہ بتایا۔
‘’ کیوں کیوں کیوں ؟’‘ اس مرتبہ شجاعت سے رہا نہ گیا۔
‘’ وہاں واقعتاً خوفناک بھوت پریت ہیں ۔’‘ ایک دو عامل بھی اپنا سر پھڑوا کر ناکام واپس بھاگ چکے ہیں ۔’‘
‘’ اس کا حل تو بہت آسان ہے.... آپ نے کالج کے اندر سگریٹ پینے پر پابندی لگائی ہوئی ہے نا، بارہ ڈی میں اجازت دے دیجئے....’‘ شجاعت نے ہاتھ جھاڑے۔
‘’اس سے کیا ہو گا؟’‘ پرنسپل صاحب حیرت سے بولے۔
‘’بھوتوں کے اچھے بھی وہاں سے بھاگتے نظر آئیں گے۔ میری خالہ کہتی ہیں کہ کسی کمرے میں پانچ مچھر مار کوائل جلاؤ یا ایک سگریٹ پی لو بات برابر ہے، دونوں سے برابر زہر نکلتا ہے۔ میرے خالو اخبار پڑھنے کے دوران ایک سگریٹ ضرور پیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے دوسرا سلگایا تو چھت سے ایک چھپکلی بے ہوش ہو کر ٹپک پری۔ وہ بھی روزانہ اوپر بیٹھ کر دھواں سونگھا کرتی تھی، اس دن نشہ بڑھ گیا تو اپنے قدموں پر کھڑی نہ رہ سکی۔’‘
‘’ کیا بکواس کر رہے ہو میں نے بارہ ڈی کے متعلق پوچھا تھا؟’‘ پرنسپل صاحب جھلا کر بولے۔
‘’ بس یہ آخری دلیل ہے۔’‘ شجاعت مرزا بولے۔
‘’ ایک چوہا روزانہ خالو کی ڈبی سے ایک سگریٹ چرا کر بھاگ جاتا تھا۔ ایک مرتبہ کئی روز تک ایسا نہ ہوا تو خالو نے اس کے بل پر جا کر اس کی خبر لی۔ معلوم ہوا کہ کثرت تمباکو نوشی سے اس کے پھیپھڑے شدید متاثر ہوئے تھے اور اسے گردن کا کینسر بھی ہو گیا تھا۔ خالو نے بھی اس کے بعد سے سگریٹ پینے چھوڑ دیئے!’‘
‘’بارہ ڈی کالج کے اندر ہی آتا ہے، وہاں کسی کو نشہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔’‘ پرنسپل صاحب نے حتمی فیصلہ سنایا۔
‘’پھر آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم دونوں از خود اس معاملہ سے نمٹیں !’‘ ہماری خواہش زبان پر آ گئی۔
‘’ٹھیک ہے، لیکن میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا....’‘ پرنسپل صاحب نے حامی بھری۔ ہم نے دبے لفظوں میں ان کا جملہ مکمل کیا۔
‘’تاکہ تم لوگ اکیلے اکیلے ہی ہیرو نہ بن جاؤ۔’‘
٭....٭
انچارج نے تالا کھولا اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ جاتے جاتے ہمیں خوف کا ٹھیک ٹھاک تاثر دے گیا۔
‘’چلئے سر۔’‘ ہم ہاتھ آگے کر کے احتراماً بولے۔
‘’ نہیں بھئی پہلے تم لوگ.... سنا نہیں کہ عورتیں اور بچے پہلے!’‘ پرنسپل صاحب ایثار و قربانی کا پیکر بن گئے۔شجاعت دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ پیچھے پیچھے ہم تھے۔ اندر کا ماحول کافی پراسرار لگ رہا تھا۔ اندھیرا ماحول، دھول مٹی کی تہیں ، بے ہنگم انداز میں بکھری کرسیاں اور میزیں ایک عجیب سا تاثر قائم کر رہی تھیں ۔
‘’یہ اتنے بہت سے ڈنڈے یہاں کیوں پڑے ہیں ؟’‘ شجاعت نے ماحول کے رعب میں آنے کے بجائے اس کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
‘’ کسی زمانے میں یہاں کے اساتذہ انہیں بطور ‘’مولا بخش ‘‘ استعمال کیا کرتے تھے۔ مارا تو کم ہی جاتا تھا، صرف ڈرانے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔’‘ پرنسپل صاحب نے بتایا۔
‘’ اب یہ بارہ ڈی میں بند ہیں تو پورا کالج اس کمرے سے ڈرتا ہے۔’‘
ہم آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہر چیز کو بغور دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہماری غفلت کا فائدہ اٹھا کر شجاعت نے ایک ڈنڈا بھرپور طریقے سے ہماری کھوپڑی پر رسید کر دیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔ ہم غضب ناک ہو کر پیچھے مڑے تو دیکھا کہ شجاعت کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا نہیں ہے، وہ خود اپنا سر پکڑے پیچھے کھڑے پرنسپل صاحب کو دیکھ رہا ہے۔
‘’نامعقول پرنسپل.... کیا یہ تمہاری شرارت ہے؟’‘ ہم نے سوچا اور پرنسپل صاحب کو دیکھا۔ ان کے آس پاس تو کیا، دور دور تک کوئی ڈنڈا نہ تھا اور وہ خود اپنا سر تیز تیز سہلانے میں مصروف تھے۔
ہم تینوں ہی کے چہروں پر تشویش ابھر آئی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد شجاعت نے اوپر چھت کی طرف دیکھا۔ ہم نے بھی نظریں اٹھا دیں ۔
کوئی گویا اسی موقع کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ہم تینوں کے سر پر ایک ایک ڈنڈا اور بھرپور طاقت سے رسید کیا گیا۔ ہمارے تو تن بدن میں آگ لگ گئی ، جبکہ پرنسپل صاحب بے چارے اس مرتبہ ضبط کا مظاہرہ نہ کرسکے اور ان کی چیخ نکل گئی۔
‘’ بچاؤ بچاؤ¶!’‘ وہ بچوں کی طرح چلائے اور حواس باختہ ہو کر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ شاید ہوا ہی سے ہوا ہو.... مگر دروازہ بھی اسی وقت بند ہو گیا۔
کمرے کا اندھیرا مزید گہرا جبکہ ماحول مزید ڈراؤنا ہو گیا۔ اب تو ہمارے سروں پر تاک تاک کر ڈنڈے برسائے جانے لگے۔ یوں لگا کہ مارنے والوں کو بڑی فرصت ہے۔ ہمارے سروں پر گویا ڈرم بجا رہے تھے۔ ہماری تو ہوا اکھڑ گئی اور ہم ‘’امی! امی....’‘ کہہ کر رونا شروع ہو گئے۔ پرنسپل صاحب کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ شجاعت شاید اپنے نام کی لاج رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بولا۔
‘’ اپنے سوئٹر کو سر پر کر لو اور یہ ڈنڈے جلدی جلدی اٹھا کر کھڑکی سے نیچے پھینکو۔’‘
اس نے ایک کھڑکی کھولی تو کچھ روشنی اور تازہ ہوا اندر آئی۔ ہماری بھی کچھ جان میں جان آئی۔ ہم نے ڈنڈے اٹھا اٹھا کر نیچے پھینکنے شروع کر دیئے۔
سارے ڈنڈے پھینک چکنے کے بعد دروازے پر زور آزمائی شروع کی تو وہ بھی کھل گیا۔ پرنسپل صاحب ابھی تک اپنے کوٹ کے اندر سر چھپائے کپکپا رہے تھے۔
‘’سر! دروازہ کھل گیا، باہر چلیں ۔’‘
وہ کوٹ سے منہ نکالے بغیر ہی اندازے سے دروازے کی طرف لپکے اور اندھیرے میں دیوار سے ٹکرا کر چاروں شانے چت گر پڑے۔
وہ مدہوشی سے بے ہوشی کی طرف پرواز کر چکے تھے۔
٭....٭
‘’ پرنسپل صاحب بھوتوں سے معاملات طے کرنے گئے تھے، لیکن یہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔ بھوتوں کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پہلے کالج کے بجلی کے نظام کو بہتر بنایا جائے کیونکہ جگہ جگہ شاٹ سرکٹ ہونے سے بھوتوں کی قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔’‘ کمپاؤنڈر کہہ رہا تھا جبکہ پرنسپل صاحب کی مزاج پرسی کو آئی ہوئی طلبہ کی بڑی تعداد سِک روم اور اس کے باہر جمع تھی۔
پرنسپل صاحب ہوش میں آ کر بولے۔ ‘’ بارہ ڈی کو فوراً لاک کراؤ اور اس کی چابی کو آتش دان میں ڈال کر پگھلا دو.... جاؤ جلدی ۔’‘
‘’ لیکن کیوں .... ہم ایک بھوت سے کیوں ڈریں ۔’‘ شجاعت نے جرح کی۔
‘’ اس لیے کہ وہ بہت طاقتور ہے۔ اسے ایک کمرے ہی میں رہنے کی اجازت دے دو تاکہ وہ باقی سارے کالج میں دخل اندازی سے باز رہے۔’‘ پرنسپل صاحب خوفزدہ لہجہ میں بولے۔
‘’ اگر ہم نے اس سے ڈر کر ہار مان لی تو وہ ایک کمرے میں نہیں ہم سب کے ذہنوں پر راج کرے گا، ہم سب کو مل کر آج ہی اس کا بھرکس نکال دینا چاہیے۔’‘
‘’ کیونکہ دشمن کا کچومر نکال دینا عین عقل مندی ہے۔’‘ ہمیں بھی کہیں پڑھا ہوا قول یاد آ گیا۔
‘’ لیکن یہ ہو گا کیسے؟’‘ پرنسپل صاحب نے استفسار کیا۔
‘’ آپ کے بے ہوش ہونے کے بعد ہم نے بھوتوں کو ان بوریوں میں جکڑ دیا جن میں پرانی ردّی وغیرہ بھری تھی۔ مجھے کچھ خاص عمل آتے ہیں جنہیں میں نے استعمال کیا۔ اب اگر ان بوروں کو فوراً جلا نہ دیا گیا تو بھوت پھر سے آزاد ہو سکتے ہیں ۔’‘
پرنسپل صاحب نے سہمے سہمے انداز میں سر ہلا دیا۔ گویا کمانڈ شجاعت کے ہاتھ آ گئی۔ اسے لیڈر بننے کے لئے فقط چیونٹی کی پھونک درکار ہوتی تھیجس کے بعد وہ ہواؤں میں اڑنے لگتا ۔ وہ کسی سپہ سالار کی طرح اپنی فوج سے خطاب کر رہا تھا۔
‘’دوستو! خدا کو یہ کام تمہارے ہی ہاتھوں سے لینا منظور تھا۔ آج کے بعد بارہ ڈی میں کسی بھوت کا سایہ بھی پر نہیں مارے گا۔ تم سب لوگ ہاتھوں میں درخت کی ٹہنیاں وغیرہ تھام لو، پیچھے بہت سے ڈنڈے پڑے ہیں انہیں اٹھا لو اور میرے ساتھ ساتھ آؤ۔’‘
جب ہم آگے آگے بارہ ڈی کی طرف جا رہے تھے اور ہمارے پیچھے پر جوش نعرے لگاتا ڈنڈا برداروں کا لشکر تھا تو ہم نے مرزا کے کان میں سرگوشی کی۔
‘’ یہ کیا ڈرامہ کرنے جا رہے ہو؟’‘
‘’دنیا میں کوئی بھوت ایسا نہیں جس کے لئے لاتیں موجود نہ ہوں ۔’‘
‘’ مگر وہ تو یقیناً کسی گیس کا اثر تھا، جس سے سر میں ٹیسیں اٹھتی تھیں ، کھڑکی کھلنے کے بعد تو وہ ختم ہو گیا تھا۔’‘ہم نے گویا حقیقت بتانا چاہی۔
‘’ گومڑے کہاں سے نکل آتے تھے؟’‘ شجاعت نے گویا دلیل دی ۔
‘’ وہ تو خوف سے اِدھر اُدھر ٹکرانے کا نتیجہ تھے۔’‘ ہمارے پاس بھی مکمل توضیح تھی۔
‘’سچی مچ بھی بھوت ہوتے ہیں .... مان لو۔’‘
‘’ کہاں ہوتے ہیں ؟’‘ ہم نے پوچھا۔
‘’ کشمیر میں .... جنہیں یہ سوچ کر ظلم کرنے کی آزادی دے دی جاتی ہے کہ اگر ان کے کام میں مداخلت کی گئی تو پورے ملک میں گھس آئیں گے۔ اگر ان سے کشمیر میں لڑا گیا تو پورے ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ ہمارے حکمراں یہ بھول گئے کہ مومن اگر ثابت قدم رہے تو اپنے سے دس گنا بڑے دشمن پر قابو پا سکتا ہے۔ نتیجتاً بھارت کا قبضہ صرف کشمیر پر ہی نہیں بلکہ ہم سب کے ذہنوں پر بھی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہوا ہے، صرف ہوا.... ورنہ ہندوستان ایک ڈنڈے کی مار ہے.... صرف ایک ڈنڈے کی.... کوئی آنکھیں دکھانے والا تو ہو۔’‘ شجاعت کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آنکھیں شعلہ اگلنے لگیں ۔ خود ہمیں اس سے خوف محسوس ہونے لگا، اور ہم اس سے کچھ فاصلے پر ہو گئے۔
٭....٭
لڑکوں کو ایک مشغلہ ہاتھ آ گیا تھا۔ انہوں نے ردّی کے بوروں کی وہ دھنائی کی کہ وہ پھٹ پھٹ کر بکھر گئے۔ پھر انہیں بحفاظت نذرِ آتش کیا گیا اور قضیہ تمام ہوا۔ساری کھڑکیاں کھول دی گئی تھیں ۔ صفائی وغیرہ کرا کے وہاں سفید رنگ پھیرا گیا اور پھر بارہ ڈی کو لیبارٹری بنا دیا گیا، جو کسی بھی کالج کی مصروف ترین جگہ ہوا کرتی ہے۔ آج وہاں نہ بھوت ہے نہ بھوت زاد۔ بس کبھی کبھی شیلف میں رکھی شیشیاں کھڑکتی ہیں ، گویا کسی بہت بڑے بھوت کو اس کی بے بسی پر ہنس ہنس کر منہ چڑا رہی ہوں ۔
٭٭٭