گئے وقتوں کا ذکر ہے کہ ایک چڑی مار نے ایک نایاب چڑیا پکڑی۔ چڑیا نے پکڑے جانے کے بعد شکاری سے کہا: “ اے زیرک انسان! بالفرض اگر تُو مجھ جیسی ننھی سی چُڑیا کو کھا بھی گیا تو تجھے کیا فائدہ ہو گا؟ تُو تو نہ جانے اب تک کتنے بکرے، دنبے اور گائیں بلکہ اُونٹ تک ڈکار گیا ہو گا۔ اگر اتنے بڑے بڑے حیوان کھا کر بھی تیری طبعیت سیر نہ ہوپائی تو میرے چھٹانکی بھر گوشت اور نرم ہڈیاں تو داڑھ میں زیرہ ہی ثابت ہوں گی۔ اس لیے تیری دور اندیشی اور حوصلہ مندی کا تقاضا یہی ہے کہ تو مجھے اس جال سے آزاد کر دے۔”
چڑی مار بھی موج میں آگیا اور شرارت سے بولا: “یہ بتا اگر میں تیری بات مان لوں توبھلا اس میں میری کیا بھلائی ہے؟ مجھے اس کے بدلے کیا ملے گا؟ میں نے شبانہ روز محنت سے تجھے پکڑا ہے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں نے تجھے کھانے کے لیے نہیں بلکہ بیچنے کے لیے پکڑا ہو۔ وہاں سے تو مجھے کچھ نا کچھ مل ہی جائے گا۔ تُو بھلا مجھے کیا دے سکتی ہے؟” چڑیا بڑی دانا تھی اُس نے کہا: “ مجھے فروخت کر کے آخر تجھے کتنا مال نصیب ہوگا؟ بس دو چار ، دس درہم سے بات آگے کیا جائے گی؟ اب بھلا بتا وہ درہم کتنے دن تیرا ساتھ دیں گے؟ لہٰذا یہ گھاٹے کا سودا دل سے نکال دے اور دھیان سے میری بات سن۔ اگر تُو مجھے آزاد کرنے کا احسان کر دے تو اس کے بدلے میں تین ایسی بے بہا نصیحتیں تیرے گوش گزار کروں گی جن کا پھل تُو ساری زندگی کھائے گا اور تیرے اطمینان کےلیے کہ میں سچ بول رہی ہوں پہلی نصیحت میں تیرے ہاتھ پر بیٹھے بیٹھے کردوں گی۔ دوسری دیوار پر بیٹھ کر کروں گی اور وہ ایسی نصیحت ہو گی کہ مارے خوشی کے تیر ا ڈھیروں خون بڑھ جائے گا اور تیسری نصیحت جو اعلٰی ترین ہوگی، درخت کی اُونچی ڈال پر بیٹھ کر دوں گی۔ ان تین نصیحتوں پر عمل درآمد کر کے تُو زمانے میں بڑا نام حاصل کرنے گا۔”
چڑی مار کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر چڑیا کو آزاد کر دیا۔ چڑیا حسب وعدہ پھدک کر اُس کے ہاتھ پر آ بیٹھی اور بولی: “سن! پہلی نصیحت یہ ہے کہ ایسی بات جو کسی بھی صورت ممکن نہ ہو اس کے بارے میں عقلمند سے عقلمند آدمی بھی تجھے مشورہ دے تو اس پر بھروسہ نہ کرنا۔” یہ کہہ کر چڑیا منڈیر پر جا بیٹھی اور بولی: “دوسری نصیحت سن کہ جو مصیبت آکر گزر جائے اس کو یاد کر کے غمگین نہ ہو اور ایسے ہی جب کوئی آسائش آ کر ہاتھوں سے نکل جائے تو اس کے بارے میں سوچ کر مسرت حاصل کرنا فضول اور بے کار ہے۔” دوسری نصیحت چڑی مار کے سر سے گزر گئی۔ وہ جھٹ سے بولا: “ اس دوسری نصیحت کو ذرا تفصیل سے بتا میں سمجھ نہیں سکا۔” چڑیا پھدکتے ہوئے بولی: “اس وقت میرے پوٹے میں دس درہم وزن کا ایک بیش قیمت موتی چھپا ہوا ہے جس کی قیمت کادنیا میں کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ تُو یہ موتی حاصل کر کے زندگی بھر کے لیے فکرِمعاش سے بے خبر ہوجاتا بلکہ تیری نسلیں بھی شہزادوں کی سی زندگی بسر کرتیں۔ مگر افسوس! تو نے میری باتوں میں آ کر بیش قیمت موتی کھو دیا۔ یہ تحفہ شاید تجھ جیسے بدقسمت اور بے وقوف کی تقدیر میں نہیں تھا۔” یہ سننا تھا کہ چڑی مار دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گیا اور فریاد کرنے لگا: “ہائے میں تو تباہ ہو گیا! میں اس چالاک چڑیا کی باتوںمیں کیوں آگیا۔ اُسے کیوں آزاد کر دیا۔ وہ بھی کیسی منحوس گھڑی تھی جب میں نے جال ڈھیلا چھوڑا اور اس نایاب چڑیا کو اپنےہاتھوں سے گنوا دیا۔ اس نے مجھے ہتھیلی میں جنت کا لالچ دے کر لوٹ لیا۔” وہ واویلا کرتا رہا تب چڑیا بولی: “ارے او نا سمجھ انسان! میں نے پہلے ہی تجھے نصیحت کی تھی کہ گزری ہوئی مصیبت پر ماتم کناں مت رہیو۔ جب وہ بات ختم ہو گئی تو واویلا کیسا؟ لگتا ہے تو نے میری نصیحتوں کو اپنے بہرے پن یا لالچ کی جلد بازی میں پوری طرح نہیں سنا۔ میں نے تجھے کہا تھا کہ خواہ تیرے سامنے کوئی بھی ناممکن بات کو ممکن کر دکھانے کا دعویٰ کرے تو اُس پر کان مت دھرنا۔ ورنہ گمراہ ہو جائے گا۔ذرا عقل سے کام لے سوچ تو سہی مجھ ننھی سی جان کا کُل وزن ملا کر بھی تین درہم کے وزن سے زیادہ نہیں۔ بھلا دس درہم وزن کا موتی میرے ننھے سے پوٹے میں کہاں سے آسکتا ہے-”
یہ سنتے ہی چڑی مار یک دم رونا دھونا فراموش کر بیٹھا اور حیرت کی تصویر بنا چڑیا کو دیکھنے لگا کہ بلا شبہ یہ صحیح کہہ رہی ہے۔ میں نے پہلے اس طرف نظر کیوں نہ کی پھر بولا: “اے نازک چڑیا! اب براہ مہربانی وہ تیسری نصیحت بھی مجھ پر آشکار کر دے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔” چڑیا نے کہا: “خوب کہا! ارے او نا سمجھ تو نے میری پچھلی دو نصیحتوں کو کون سا پلّو سے باندھ لیا جو تیسری نصیحت کا خواستگار ہے۔ وہ اعلیٰ ترین نصیحت تجھ جیسے بےدماغ انسان کے لیے نہیں۔” یہ کہا اورچہچہاتی جنگل کو روانہ ہو گئی۔
اس حکایت سے یہ بات عقل میں آتی ہے کہ وہ فائدہ جو آپ کو اپنے زیادہ قریب نظر آرہا ہواس کو اس فائدے پر قربان کرنا عقلمندی نہیں جو وعدوں وعید کی مرہون منت ہو۔ آج کل وہ زمانہ ہے کہ کسی کے مشوروں پر بھی اندھا دُھند اعتبار کر لینا بے وقوفی ہے۔ پہلے اُسے اپنے نفع نقصان کے تناظر میں پرکھیں پھر اس مشورے کو اگر قابلِ عمل سمجھیں تو اس پر عمل کریں۔ دوسرا یہ کہ کسی بھی نصیحت کو ہمیشہ کان کھول کر اور دماغ کی کھڑکیاں وا کر کے سننا چاہیے۔ جلد بازی کا ہرکام شیطان کا ہوتا ہے۔