(دنیا کی تمام خواتین سے انتہائی معذرت کے ساتھ)
اللہ تعالیٰ کی پیدا کرده تمام تر مخلوقات میں سے عورت شاید وہ واحد تخلیق ہے کہ جس کو مکمل طور پرسمجھنا تقریباً نا ممکن ہے۔ عورت وہ گتھی ہے جسے مرد یومِ اول سے سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے مگر بیچارہ آج تک اس کام میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ حاصل کر سکا۔ انسان نے انواع اقسام کے چرند پرند، آبی حیات، کیڑے مکوڑوں کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا پھر وسوق سے بتا یا ہے کے فلاں فلاں مخلوق کسی خاص قسم کے ماحول یا صورتحال میں کس قسم کا ردعمل ظاہر کرے گی۔ تقریباً ہر جاندار کا زندگی گزارنے کا ایک مخصوص طریقہ کار ہےجو انسان جان چکا ہے اور اس کے بارے میں پیشگی بتا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک مرد کے بارے میں بھی بڑی آسانی سے بتایا جا سکتا ہے کے وہ کس طرح سوچتا ہے اور کیسے اپنی سوچ پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ذہین سے ذہین اور قابل سے قابل مرد بھی یہ سمجھنے سا قاصر ہے کہ کسی بھی دیے ہوئے وقت میں ایک عورت کے ذہن میں سوچ وبچار کا عمل آخر کس اصول پر چل رہا ہوتا ہے؟ اور جو کچھ اُس کے ذہن میں چلتا ہے اُس بات کا اُس عورت کی زبان سے کسی قسم کا کوئی ربط ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟ کہتے ہیں آج کا انسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجود اپنے ذہن کا صرف 10 فیصد استعمال کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں تو جن سائنسدانوں نے یہ مشاہدہ کیا ہے اُنھوں نے اپنے نمونوں (SAMPLES) میں عورت کو شامل ہی نہیں کیا ورنہ وہ اس قدر غلط نتیجہ کبھی نہ اخز کرتے کیونکہ عورت کا ذہن ایک مرد کے مقابلہ میں کہیں گنا زیادہ فعال ہوتا ہے۔
بظاہر ایک ہی طرح کی ہیئت کی حامل یہ دونوں جنسیں (مرد و عورت) اپنی اپنی سوچ کے اعتبار سے انتہائی مختلف ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کے دونوں کے درمیان قطبین کا فاصلہ ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ مرد کاذہن عورت کے دماغی صلاحیتیوں کا عشر عشیر بھی نہیں۔ مرد عام جانداروں کی طرح ایک وقت میں ایک ہی رو (TRACK) پر سوچتا ہے اور جو وہ سوچتا ہے اُسی کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ جبکہ عورت کا دماغ بالکل مختلف طریقہ پر کسی سوپر کمپیوٹر کی طرح کام کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بیک وقت ایک سے زیادہ اُمور پر سوچنے میں مہارت رکھتا ہے(یعنی ملٹی ٹاسکنگ) بلکہ ایک عورت کا جسم ایک مرد کے جسم کی طرح اپنے دماغ کا غلام بھی نہیں ہوتا۔ ایک مرد کا دماغ جب حکم دیتاہے توجسم اس کی فوراً ہی تعمیل شروع کر دیتا ہے اور پورے جی جان سے کرتا ہے۔ جیسا کہ دماغ اُسے دفتر سے گھر آنے پر حکم دیتا ہے : "صوفے پر بیٹھ جاؤ اور ٹی وی دیکھو" تو مجال ہے ایک مرد کی کہ وہ رات گئے تک ہل کر کوئی اور دوسرا کام تو کر لے! مگر یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ عورت کا کوئی عمل اُس کے اپنے دماغ کے تابع ہو۔ قدرت نے عورت کو اس صلاحیت سے نوازہ ہے کہ وہ بیک وقت اپنے جسم، زبان اور دماغ کو الگ الگ حیثیت میں استعمال کرنے پر قادر ہوتی ہے۔ یعنی بیک وقت وہ سوچ کچھ رہی ہوتی ہے، بول کچھ رہی ہوتی ہے اور عمل کچھ اور کر رہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر غصہ اُسے ساس پر ہوتا ہے، بچے کو وہ کسی اور بات پر پیٹ رہی ہوتی ہے اور سنا شوہر کو کچھ اور ہوتی ہے۔۔۔۔ سبحان اللہ !
کبھی آپ نے کسی میاں بیوی کی گفتگوُ پر غور کیا ہو تو آپ اقرار کریں گے کےبات کچھ اس طرح ہو تی ہے :
شوہر: "چھوٹے کے اسکول سےشکایت آئی ہے کہ آج کل وہ پڑھائی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہا۔ ہوم ورک بھی پوراکر کے نہیں لے جاتا۔"
بیوی: ہاں! انُ کی ٹیچر کا تو دماغ خراب ہے۔۔۔۔۔ آپ نے گل احمد والوں کی نئی لان دیکھی؟ بالکل بیکار ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے میری امی کے پاؤں میں شدید درد ہے۔۔۔۔۔ آپ کو اپنے لیے شلوار قمیض تو نہیں چاہیے؟
بادی النظر میں یہ ان چاروں جملوں کا بظاہر ایک دوسرے سے کوئی ربط نہیں لیکن یہ بات قطعی طور پر غلط ہے۔خواتین کی اس قسم کی تمام کی تمام گفتگونہ صرف یہ کہ اچھی طرح مربوط ہوتی ہے بلکہ اُس کا ایک گہرا مقصد بھی ہوتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مردکی عقل اُس اعلیٰ مقام تک پہنچ ہی نہیں پاتی کہ جہاں سے عورت کا ذہن چلنا شروع ہوتا ہے۔ اب اُوپر دی گئی مثال کو ہی سمجھنے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بیوی نے دراصل کہا کیا ہے:
بیوی: " بچوں کی پڑھائی کا ٹھیکہ ایک اکیلے میں نے نہیں لیا ہوا۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو آپ اُسے حل کیوں نہیں کرتے؟ بچوں کو کھلانا پلانا، نہلانا دھلانا، اوڑھنا پہنانا، جگانا سلانا کوئی آسان کام ہے کہ اب میں انہیں اچھی طرح سے پڑھاؤں بھی؟ میرے پاس ان کاموں کے لیےاب مزید وقت نہیں ہے۔ اور ہاں! کل امی نے مجھے گھر بلایا ہے اور میں اُن کی طرف جاتے ہوئے راستے سے اپنے لیےثنا سفیناز کا سوٹ پیس لینے جاؤں گی کیونکہ گل احمد کی لان پہن پہن کراب میرا دل بھرچکا ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ اپنے شلوار سوٹ کے لیے منع ہی کریں گے اس لیے میں نے ویسے ہی پوچھ لیا ہے تا کہ آپ امی کے گھر جانے اور سوٹ خریدنے پر کوئی اعتراض نہ کریں۔"
اس پر عورت کا بڑا پن دیکھیے کہ وہ اپنی پہیلی جیسی باتوں کے جواب میں ایک مرد سے بہت کچھ سننا بھی نہیں چاہتی بس ایک 'ہاں' اُس کے لیے کافی ہے۔ بصورت دیگر آپ یوں سمجھیں کہ آپ نے طبل جنگ بجا دیا ہے اور پھر شکست تسلیم کر لینے تک آپ میدان کارزار میں صرف اور صرف نوک دار باتوں سے زخمی ہی ہوتے رہیں گے۔ ساتھ ہی اپنا خون جلانے کے ساتھ ساتھ اُسے پیتے بھی رہیں گے۔ دوسری طرف اگر آپ عورت کی خواہش کے عین مطابق "ٹھیک ہے" کہہ کر چپ ہو جائیں تو بات ختم بھی ہو سکتی ہے لیکن اگربیگم کا موڈ خراب ہے تو پھر آپ پر ایک دوسرا الزام یہ بھی لگ سکتا ہے کہ آپ توسیدھے مُنہ بات ہی نہیں کرتے!
بیوی کے جملوں کا مفہوم سمجھنا ایک فن ہے جو ہر شوہر بلخصوص نئے نویلے شوہر وں کے بس کی بات نہیں۔ مندرجہ ذیل میں ہم نے بیویوں کے روزمرہ استعمال کے چند جملے تحریر کر دیے ہیں جن کو اگر شوہر حضرات یاد رکھیں تو اِن کے درمیان کی بات چیت میں جو خلا آجاتا ہے وہ باآسانی پرُ کیا جا سکتا ہے:
لفظ: شاید– مطلب: نہیں
لفظ: نہیں- مطلب: بالکل نہیں
لفظ: اچھا- مطلب: سن لیا ہے اب کوئی اور بات کریں
جملہ: ہو سکتا ہے- مطلب: نہیں ہوسکتا
جملہ:ٹھیک ہے- مطلب: ٹھیک نہیں ہے
جملہ: ہاں ہاں یہ میری ہی غلطی ہے – مطلب: بس ہر الزام مجھ پرہی لگا دیا کریں آپ۔
جملہ: جیسے آپ کی مرضی۔ مطلب: بحث مت کریں اور جو میں کہہ رہی ہوں وہ کریں۔
جملہ: مجھے افسوس ہے۔ مطلب: جلد ہی آپ کو افسوس ہو گا۔
جملہ: مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ مطلب: مجھے آپ سے شکایت کرنی ہے۔
جملہ: جو آپ بہتر سمجھیں۔ مطلب: اس بات کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
جملہ: اب آپ ہی فیصلہ کریں۔ مطلب: میں جو اتنی دیر سے کہہ رہی ہوں وہ سمجھ نہیں آیا ابھی تک؟
جملہ: ٹھیک ہے بولیں۔ مطلب: میں کہتی ہوں خاموش رہیں مجھے کچھ نہیں سننا!
جملہ: ہمیں چاہیے۔۔۔۔- مطلب: مجھے چاہیے۔۔۔۔
جملہ: کھانا اچھا نہیں پکایا؟ مطلب: تعریف کیوں نہیں کی ابھی تک؟
جملہ:میں کیسی لگ رہی ہوں؟ مطلب: میں کتنی خوبصورت لگ رہی ہوں؟
جملہ: میں بس ابھی تیار ہو کر آئی۔ مطلب: تین گھنٹے انتظار کریں!
جملہ: مجھے نیا سوٹ لینا ہے۔ مطلب: مجھے نیا سوٹ، نیا پرس، نئی سینڈل، نئی جیولری، نئی لپ اسٹک، نئی نیل پالش، نیا مسکارا، وغیرہ لینا ہے۔
جملہ: کیا آپ مجھ سےبہت پیار کرتے ہیں؟ مطلب: مجھے کوئی بہت مہنگی چیز چاہیے۔
جملہ: آج آپ بہت اسمارٹ لگ رہے ہیں۔ مطلب: آج شاپنگ پر چلیں؟
جملہ: آپ مجھے کتنا چاہتے ہیں؟ مطلب: میں نے آج کوئی بڑی غلطی یا نقصان کر دیا ہے۔
جملہ: مجھے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دیں۔ مطلب: میں آپ کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی ۔
جملہ: میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔ مطلب: آپ مجھ سے بات مت کریں اور برائے مہربانی یہاں سے چلے جائیں۔
جملہ: میں نے ابھی جو کہا وہ سنا آپ نے؟ مطلب: کیا آپ بہرے ہو گئے ہیں؟
جملہ: نہیں، میں غصہ میں تو نہیں! مطلب: کیا آپ نابینا ہیں؟ نظر نہیں آرہا میں کتنے غصہ میں ہوں اس وقت؟
جملہ: آپ میری بات نہیں سن رہے نا؟ مطلب: ٹھیک ہے بچوُ! اب میں آپ کو بتاتی ہوں۔
جملہ: اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ مطلب:جب میرا غصہ ٹھنڈا ہو گا تب بات کریں گے۔
جملہ: کوئی آواز سنی آپ نے؟ مطلب: یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہیں جائیے جا کر چیک کیجیے۔
جملہ: ناشتے میں کیا کھائیں گے؟ مطلب: جو ناشتہ کرنا ہے صبح خود ہی کر لیجیے گا۔
جملہ: رات کا کھانا کیا پکے گا؟ مطلب: آج کہیں باہر نہ کھائیں؟
جملہ: چھوٹوُ کا گلا خراب لگ رہا ہے۔ مطلب: کل اسکول کی چھٹی کروا دوں؟
جملہ: میں بوڑھی لگ رہی ہوں؟ مطلب: آپ اس بات کی تائید کریں کہ میں اب بھی خوبصورت دکھتی ہوں۔
اسی طرح اگر آپ بیگم سے پوچھیں کے "کیا کوئی مسئلہ ہے آج موُڈ آف لگ رہا ہے؟" تو جواب آئے گا: کچھ نہیں! جس کا اصل مطلب ہے : آپ دوبارہ پوچھیں۔ دوبارہ پوچھیں تو جواب آئے گا: کہا تو ہے کچھ نہیں! اس کا مطلب ہےتیسری بار پھر پوچھیں۔ اور پھر پوچھنے پر جواب آئے گا: اوہ ہو! آپ تو ایک ہی بات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ جس کا اصل مطلب یہ ہے ابھی مزید ایڑیاں رگڑیں! یعنی آپ بار بار پوچھتے جائیں اور یوں بالآخر کارکئی بار پوچھنے پر بتایا جائے گا کہ دراصل مسئلہ ہے کیا، اور مسئلہ بھی وہ جو عموماً سسرال سے ہی تعلق رکھتا ہے۔
عورت کا اپنے شوہر کے حوالے سےسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیک وقت اپنے شوہر میں کئی صفات دیکھنا چاہتی ہے ۔ مثال کے طور پر عورت چاہتی ہے کے اُس کا شوہر شکل و صورت میں اُس کے خوابوں کا شہزادہ نہیں توکم از کم اُس کا کوئی قبول صورت درباری ضرور ہو لیکن بات جب اُسی شخص کی سیرت کی آئے تو وہ اُسےکسی شہزادے کی نہیں بلکہ عین اُس کے اپنے پُر شفیق باپ کی طرح سے چاہیے۔ اب آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ کوئی خوبصورت شہزادہ کبھی شفیق نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی شفیق باپ کبھی خوبصورت ہوا ہے مگر عورت کو تو ہر صورت اِگلوُ کی ٹو- ان- ون آئیس کریم چاہیے۔ دوسری جانب وہ ایک مرد کی شخصیت کے ایک ہی پہلو میں ایک خوبی اپنے لیے چاہتی ہے اور ایک اسُ سے مختلف دوسروں کے لیے یعنی شوہر مادیت پسند نہ ہو مگر متمول ضرور ہو۔ غصہ والا نہ ہو مگر رعب دار ضرور ہو۔ اُس میں حس مزاہ تو ہو مگر سنجیدہ مزاج ہو۔ وہ نرم خو بھی ہو اور ساتھ ہی ایک مضبوط شخصیت کا بھی حامل ہو۔ حقیت پسند بھی ہو مگر ساتھ ہی رومینٹک بھی ہو۔ الغرض وہ اپنے لیے ایک ایسا مرد کامل چاہتی ہے جو تضادات کا مجمع ہو بلکہ در اصل چوں چوں کا مربہ ہو۔ اب ایسا متنجن اللہ تعالیٰ پیدا ہی نہیں فرماتا تو اس میں کسی مرد کا بھلا کیا قصور؟