منظر: ( غرناطہ میں قاضی یحییٰ بِن منصور کے مکان کا ایک ایوان ، جس کے دریچوں میں سے شہر کے چوک پر نظر پڑ سکتی ہے۔ دائیں ہاتھ کی دیوار میں ایک بڑا سا دریچہ ۔ سامنے کی دیوار میں ایک چوڑا مگر نیچا دروازہ، جس کے پیچھے ایک تنگ اور اندھیری گلی ہے۔ گلی کے دوسری طرف ایک چھوٹا دروازہ جس میں سلاخیں لگی ہیں۔ بائیں ہاتھ پتھروں کا بنا ہوا زینہ اوپر کے کمرے کے دروازے تک پہنچتا ہے۔ اوپر کے کمرے کی ایک کھڑکی ایوان میں کھلتی ہے۔
ایوان میں ایک بڑی میز ہےجس پر ایک شمعدان رکھا ہے۔ میز کے قریب ایک بنچ اور چند کرسیاں پڑی ہیں۔ دیواروں پر اسلحہ اور جانوروں کے سر لگے ہوئے ہیں۔
صبح کے دھندلکے میں حلاوہ بنچ پر بیٹھی ہے، سر گھٹنوں سے لگا رکھا ہے ۔ عبداللہ دروازے میں سے اندر آتا ہے۔)
عبداللہ: ( بھاری آواز میں) شمعیں گل کر دوں؟
حلاوہ: ( آہِ سرد کے ساتھ) کردے ۔ شمعیں صبح کو آنے سے نہیں روک سکتیں۔ ( عبداللہ پھونکیں مار کر شمعدان کی تین شمعیں گل کرتا ہے)
حلاوہ: کیسی کالی صبح۔ میرے رب کیسی کالی صبح!
عبداللہ: کالی اندھوں کے لیے! ان بد فالوں کے لیے جو گھٹنوں پر سر رکھے نحس کلمے منہ سے نکالتے ہیں۔ پر رب العالمین کے فضل و کرم سے ابھی آنکھوں والے بھی موجود ہیں۔ تیری طرح سب اندھے نہیں ہو گئے۔
حلاوہ: ( اس کی پرواہ نہیں کرتی) یہ صبح دیکھنے کو میں کیوں زندہ رہ گئی! جس کے دودھ کی دھاروں نے اسے جان بخشی تھی۔ الٰہی تین دن کا تھا جب بیگم نے آنکھیں بند کیں، صرف تین دن کا۔ تب میں نے۔۔۔ ۔۔۔ میرے سوا دودھ کس کے تھا۔ اسے دودھ دیا، اور زندگی دی۔ اور میرے رب آج کا دن تمام ہونے پر میرا لال کیا ہو گا!
عبداللہ: زندہ ہو گا، اور کیا ہو گا؟ عمر پائے گا۔ اور رب العالمین کے فضل و کرم ست تجھے اور مجھے ، دونوں کو قبرکے شگاف میں اتارے گا۔
(تکان کی ایک آہ کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے)
حلاوہ: میرے سینے پر اس کے ہونٹوں اور جبڑوں کی لذت ابھی تازہ ہے۔ وہ شیر کے بچے کی طرح اس سے دودھ کھینچتا تھا۔ اپنے بارہ بچوں کو دودھ پلایا۔ لیکن سب سے زیادہ حریص وہی تھا۔ اور پھر کیسا بے باک جوان بن گیا۔ دیکھتی تو جی چاہتا قربان ہو جاؤں۔ اس کے جسم میں خون جو میرا اپنا تھا۔ اور پروردگار ! آج سولی پر اس کی لاش لٹکتی رہ جائے گی!
عبداللہ: ( بے قابو ہوکر) نشتر زبان! یہ ہرگز نہ ہو گا۔
حلاوہ: ( گھٹنے سے سر اٹھا کر آہ بھرتی ہے) اب چارہ کیا رہ گیا؟
عبداللہ: سارے قرطبہ میں ایک شخص نہیں جو کسی کے حکم سے بھی اسے سولی پر چڑھائے، خواہ اس کے اپنے باپ کا فتویٰ ہو۔
حلاوہ: باپ قاضی ہے۔
عبداللہ: کہا جو کہ اس کے فتوے پر عمل نہ ہو گا۔
حلاوہ: باہر سے لوگ بلا لیے جائیں گے جو اسے ویسے نہیں جانتے ، جس طرح ہم سب جانتے ہیں۔ انہیں قانون جو کہے گا وہ کر ڈالیں گے۔
عبداللہ: ( چڑ کر) میں بک جو رہا ہوں نہیں کریں گے۔ آج کے دن شہر میں صرف وہی شخص داخل ہونے پائے گا جو کلام پاک کی قسم کھائے گا کہ اسے نوجوان زبیر کی سزا سے کچھ سروکار نہیں ہو گا۔ سمجھی کوڑھ مغز؟ ہمارے آدمی تمام راستوں پر پھیل چکے۔ ایک ایک ناکے کو روک چکے۔ جس شخص نے قسم نہ کھائی کہ زبیر کا خون اس کے دوش پر نہ ہو گا وہ اندر گھسنے نہ پائے گا۔ اور یہی جواب قاضی کے حکم پر خود اس کر دیا جائے گا۔ وہ قانون کا غلام ہو یا سلطان کا، آج کے دن اس کے فتوے کی تعمیل نہ ہونے پائے گی۔
حلاوہ: لیکن احمق، ہونی کو کون روک سکتا ہے؟ میرے یہی آنکھیں نہیں جنھیں آنسوؤں نے بے نور کر دیا ہے۔ میرے اور آنکھیں ہیں جو دیکھ سکتی ہیں اور جو دیکھ چکی ہیں۔ سولی اور اس سے لٹکتی ہوئی لاش۔ میرا ننھا! میری جان ننھا! میرا سجیلا نوجوان! جس کا جسم میرے دودھ نے بنایا، جس کے خون اور ہڈیوں میں میرا دودھ ہے۔ میں اسے مردہ دیکھ چکی! کہتی جو ہوں کہ یونہی ہو گا۔ سچ نہ ہوتا تو یہ بات میری میری زبان سے نکلتی؟
عبداللہ: لیکن اسے سولی کی سزا ملے گی کیوں، اس کا جرم کیا ہے؟
حلاوہ: میرے بتانے کی ضرورت ہے کہ اس نے خون کیا ہے؟
عبداللہ: ہاں مگر محبت کی خاطر۔ اپنی غیرت کی خاطر۔ اُس کے لیے اِس کے سوا چارہ نہ تھا۔ کون کہتا ہے یہ خون ناجائز تھا؟
حلاوہ: نہیں نہیں! اس نے جلن کے مارے خون کیا۔
عبداللہ: محبت جلن نہیں ہے تو پھر ہے کیا؟
حلاوہ: مقتول نے اسے کوئی آزار نہ پہنچایا تھا۔
عبداللہ: مقتول کو اس کی محبوبہ سے محبت جو تھی۔
حلاوہ: خوبصورت عورت سے کس کو محبت نہیں ہوتی۔
عبداللہ: لیکن محبوبہ نے مقتول کو محبت بھرا خط بھی تو لکھا تھا۔
حلاوہ: محبوبہ کو اس کا حق تھا۔ وہ زبیر کی منگیتر نہ تھی۔ جسے چاہتی پسند کرنے کا حق رکھتی تھی۔
عبداللہ: صرف اپنوں میں سے۔ اپنے ہم نسبوں میں سے۔ مقتول پرایا تھا اور دوسرے ملک کا باشندہ تھا۔
حلاوہ: زبیر کا باپ قاضی کا مہمان تھا۔
عبداللہ :اور شرافت کا یہ کون سا طور تھا کہ گھر کا مہمان اپنے گھر کے نوجوان کی محبت میں کود پڑے؟ اگر وہ نہ آتا اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ورغلا نہ لیتا تو زبیر اپنی محبت میں کامیاب نہ ہوتا؟
حلاوہ: شاید۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ پر لڑکی نے اس وقت تک ہاں نہ کی تھی ۔
عبداللہ: اسی بات کا تو زبیر کو خدشہ تھا کہ کہیں وہ اس کے رقیب کے پیغام پر ہاں نہ کردے۔
حلاوہ: اور اسی خدشے نے زبیر کو دیوانہ بنا دیا۔
عبداللہ: اور یہ کیونکر معلوم ہوا کہ زبیر نے اپنے رقیب کا کام برابر کی لڑائی میں تمام نہیں کیا؟
حلاوہ: زبیر نے یہ کہا نہیں۔ ایک بار بھی کہا نہیں۔ وہ یہ کہتا تو اس کا باپ باور کر لیتا۔ پر ان باتوں سے کیا؟ ارے حجتی! اب ان باتوں سے کیا؟ اس نے خون کیا ہے۔ اور خون کی سزا میں اسے دار پر لٹکا دیا جائے گا۔
عبداللہ: ( چڑ کر) اور اسے دار پر لٹکانے تو جائے گی؟
حلاوہ: ( ششدر ہو کر) میں؟
عبداللہ: تو نہ ہو تو اس بھرے شہر میں اور کوئی نہیں جو اپنے ہاتھ اس کے خون سے آلودہ کرے۔ ( اُٹھ کر دریچے کی طرف جاتا ہے) باہر دیکھ! اس ہجوم کو دیکھ جس نے چوک میں سولی کو گھیر رکھا ہے۔( حلاوہ اُٹھ کر کھڑکی کے پاس جاتی ہے) یہ سب کس بات کے منتظر ہیں؟
حلاوہ: ( جیسے سب جانتی ہو) بتا تو، کس بات کے؟
عبداللہ: سمجھتی ہے یہ سولی کا تماشا دیکھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں؟ یہ اس لیے کھڑے ہیں کہ کہ یہ نا پاک کام نہ خود کریں گے اور نہ ہونے دیں گے۔ ( ایک سیڑھی پر چڑھ کر کھڑکی کے پٹ کھول دیتا ہے) لوگو! سنو! تم میں سے کون ہے جو قاضی یحییٰ کے لیے اس کے بیٹے کو سولی پر لٹکا دے؟
(ہجوم میں سے ناراضی کی مخلوط آوازیں سنائی دیتی ہیں) کوئی ہے تو سامنے آئے اور کہے۔
(خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ عبداللہ کھڑکی کے پٹ بند کر دیتا ہے)
کیوں، بولا کوئی شخص؟ کہا کسی نے کہ وہ زبیر کو سولی پر لٹکا سکتا ہے؟ کہا جو کہ سارے قرطبہ میں کوئی ایک شخص کا ہاتھ نہیں جو اسے آزار پہنچانے کے لیے اُٹھ سکے۔
( قاضی یحییٰ بن منصور اوپر کی منزل کی کھڑکی کے سامنے سے گزرتا ہوا رکتا ہے۔ ذرا دیر بے حس و حرکت یوں کھڑا رہتا ہے گویا کچھ نہیں دیکھ سکتا)
چپ کیوں ہو گئی ؟ بول، اب بول نا؟ کون زندہ شخص ہے جو ان جانثاروں کی آنکھوں کے سامنے قانون یا سلطان کے حکم کی تعمیل کی جرات کرسکے؟
حلاوہ: چپ۔ دیکھ قاضی۔قاضی! وہ سیڑھیاں اتر رہا ہے۔ وہ پھر بھی آ رہا ہے۔
عبداللہ: ( آہستہ سے) آنے دے۔
حلاوہ: لاش کی طرح پیلا۔
عبداللہ: چُپ
حلاوہ: آنکھوں سے زندگی بجھی ہوئی۔
عبداللہ: چُپ
حلاوہ: جیسے تنہائی میں موت سے کھیلتا رہا ہے۔
عبداللہ: بک مت۔
حلاوہ: جیسے لاش روح کو چھوڑ کر آ رہی ہے۔
عبداللہ: عورت گونگی ہو جا۔
( قاضی سیڑھیاں اتر کر کمرے میں آ جاتا ہے، اور کچھ دیر خاموش کھڑا رہتا ہے)
قاضی: (بھاری آواز میں) موت کا ڈھنڈورا کیوں نہیں پِٹ رہا؟
(حلاوہ کے منہ سے سسکی نکل جاتی ہے۔ عبداللہ چُپ ہے)
میں نے کیا کہا جواب دو؟
عبداللہ: حضور ڈھنڈورا پیٹنے والا موجود نہیں۔ آج کے دن کوئی ڈھنڈورا پیٹنے والا نہیں۔
قاضی: کہاں گئے؟
عبداللہ: حضور مجھے علم نہیں۔ یہاں نہیں ہیں۔
قاضی: وہ کہاں ہے، وہ شخص ، جسے مجرم کو پھانسی دینا ہے؟
عبداللہ:حضور کہیں گیا ہوا ہے۔
قاضی: کہیں؟ تو نے کیا کہا؟’’ کہیں؟‘‘
عبداللہ : جی حضور۔
قاضی: معنی کیا؟ ‘‘ کہیں!‘‘
عبداللہ: چلا گیا تھا۔ منہ اندھیرے ہی۔ کہہ کر نہیں گیا کہاں جا رہا ہے۔ یہاں نہیں ہے۔
قاضی: اُدھر باہر کون ہے؟ اور کون ہے؟
عبداللہ: حضور ایسا کوئی بھی نہیں ہے جو آپ کے فتوے کی تعمیل کرسکے۔ ویسے میرے سوا قرطبہ کے سارے مرد گھر کے باہر کھڑے ہیں۔
قاضی: ( جلدی سے، جیسے یقین نہیں آتا) قرطبہ کے سارے مرد تیرے سوا؟ یہ معنی کہ تعمیل کے لیے تو آمادہ ہے؟
عبداللہ: نہیں حضور میں تعمیل نہیں کرسکتا۔ نہ کوئی اور شخص جسے میں جانتا ہوں کرسکتا ہے۔اگر حضور کو اس فتوے کی تعمیل کروانی ہے تو ابلیس ہی اس کی تعمیل کرسکتا ہے یا آپ خود۔
( قاضی نے پوری بات نہیں سنی لیکن حلاوہ نے سن لی ہے۔ اس کے منہ سے خوف کی دبی ہوئی آواز نکل جاتی ہے)
قاضی: کیا؟ ۔۔۔ ۔ کیا کہا تھا تو نے؟
عبداللہ: ( مرعوب ہو جاتا ہے) معاف کیجیے گا حضور میں صرف اپنے متعلق کہہ رہا تھا۔ رب العالمین میرا مدد گار ہو۔ میں جو بات حق سمجھتا ہوں کہہ رہا تھا۔
( خاموشی۔ نہ کوئی حرکت کرتا ہے، نہ بولتا ہے۔ باہر کے ہجوم میں سے ہلکے ہلکے بولنے کی مدھم آواز آ رہی ہے)
قاضی: ناظر عدالت کے آدمی کہاں ہیں؟
عبداللہ: نچلی منزل میں حضور۔
قاضی: انھیں یہاں بلا لاؤ۔
(عبداللہ جاتا ہے۔قاضی اضطراراً چند قدم چل کر رک جاتا ہے۔ حلاوہ سہمی ہوئی کھڑی ہے۔بے حد ہمت سے کام لے کر بولتی ہے)
حلاوہ: میں حضور سے کچھ پوچھ سکتی ہوں؟
قاضی: کیا ہے عورت؟
حلاوہ: میری بوڑھی زبان سے اللہ تعالیٰ کا عفو و رحم کئی بار بولا ، لیکن ہر بار اس نے سننے والے کانوں کو بہرا پایا۔ پر اب کی بار میری التجا سن لیجیے یا مجھے ہمیشہ کے لیے خاموش کر ڈالیے۔۔۔ ۔ میرے حضور یہ وہ بدنصیب بول رہی ہے جس نے مجرم کی ماں کے اُٹھ جانے کے بعد اپنی اولاد کی طرح اسے کلیجے سے لگایا۔ میرے حضور خود آپ نے اس کو مجھے دے ڈالا تھا۔ میں تھی جس نے اسے زندگی دی اور توانائی بخشی کہ وہ بڑھ کر مرد بن جائے۔ میرے حضور کیا آپ ہی مجھ سے وہ زندگی چھین لیں گے؟ اسے۔۔۔ جسے تب میں نے زندگی بخشی تھی ۔ اب کہ وہ جوان ہے، آپ کا اپنا گوشت اور خون ہے؟ اسے زندہ رہنا تھا تو یہ سب میں نے کیا کیوں تھا؟ فریاد سننے والا باپ ہے تو پروردگار! اولاد کے لیے التجا میں کیوں کر رہی ہوں؟ وہ آپ کا ہے میرا نہیں۔ آپ نے اسے پیدا کیا اور میں نے نہیں۔ ایک اور عورت اسے جننے میں اس دنیا سے گزر گئی تھی۔
قاضی: بس اور کچھ نہیں۔ تجھے جو کچھ کہنا تھا، تو کہہ چکی۔ میں بہرہ نہیں۔
(حلاوہ پھر بولنا چاہتی ہے)
قاضی: یہاں سے چلی جا عورت! مجھے اکیلا چھوڑ دے۔ چلی جا!
حلاوہ: بہت اچھا حضور۔ بہت اچھا۔
( سسکیاں روکتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ عبداللہ داخل ہوتا ہے)
عبداللہ: حضور ناظرِ عدالت کے آدمی آ گئے۔
قاضی: کیا؟ ۔۔۔ ۔ ہاں آ گئے۔ یہاں بلا لاؤ۔
( ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ناظرِ عدالت کے چار آدمی داخل ہوتے ہیں۔ پل بھر کی خاموشی)
تم لوگ سلطان کے نمک خوار ہو اور اطاعتِ سلطان کا حلف اٹھا چکے ہو۔ یہی صورت میری ہے۔ آج ایک شخص کو سولی دی جانی ہے۔ ۔۔۔ سولی دینے والا موجود نہیں۔۔۔ تم میں سے کون ہے ۔۔۔ سنتے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔ اس کی جگہ تم میں سے کون لے سکتا ہے؟
( کوئی جواب نہیں ملتا)
کوئی شخص آمادہ نہ ہوا۔ تو مجھے خود کسی کو حکم دینا پڑے گا۔ ۔۔۔ ہوں ! کوئی نہیں؟
۔۔۔ دیکھو۔ فرض ہم سب کو پکار رہا ہے۔ قانون کی اطاعت لازمی ہے۔ میں سمجھا۔ تم میں سے کوئی حامی نہ بھرے گا۔ بہت اچھا۔ قرعہ اندازی سے کام لیا جائے گا۔
افسر: نہیں حضورِ والا معاف کیجیے گا۔ ان میں سے کوئی بھی قرعہ اندازی نہیں چاہتا۔ ایک بھی نہیں۔ میں سب کی طرف سے بول رہا ہوں۔
قاضی: تو میں تم کو حکم دیتا ہوں۔
افسر: حضور اللہ تعالیٰ مجھے توفیق بخشے کہ آپ کی فرزند کو سولی پر چڑھانے سے پہلے میں خود سولی پر چڑھ جاؤں۔
قاضی: تمہیں اس بات کا خیال نہیں کرنا کہ مجرم میرا فرزند ہے۔ یہ سمجھنا ہے کہ ایک شخص نے خون کیا ہے اور اس کی سزا میں اسے سولی ملنے لازمی ہے۔
افسر: حضور جس شخص نے اسے مجرم قرار دیا اور اس کے قتل کا فتویٰ لکھا یہ کام وہ خود کرسکتا ہے تو کر لے، ہم زبیر کو قصور وار نہیں سمجھتے۔
(قاضی کرسی ہٹا کر اُٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ دریچے کے قریب جاتا ہے اور اس کے پٹ کھول دیتا ہے۔ پٹ کھُلنے پر ہجوم کی آوازوں کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی ہے جو قاضی کا چہرہ دیکھتے ہی بند ہو جاتی ہے)
قاضی : (بلند آواز سے) لوگو! ایک مجرم منتظر ہے کہ اسے سولی دی جائے اور سولی دینے والا کوئی نہیں۔ تم میں سے کوئی ہے جو یہ خدمت سر انجام دے سکے؟
( خاموشی۔ پھر استہزاء کی ایسی زیرِ لب آوازیں جن سے ظاہر ہے کہ ہجوم کے لوگ قانون کی شکست سے مسرور ہیں)
عبداللہ: کوئی نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ ایک بھی نہیں۔
قاضی: ( کھڑکی بند کر دیتا ہے اور ذرا دیر چپ رہتا ہے پھر بے اختیاری کی کیفیت میں اس کے منہ سے آہ نکل جاتی ہے۔) ناظر جاؤ۔ قیدی کو باہر لے جاؤ۔کنجیاں یہ رہیں۔( کنجیاں نکال کر میز پر پھینک دیتا ہے)
افسر: ( کنجیاں اُٹھا کر) باہر کہاں حضور؟
قاضی: سولی کے چبوترے پر، اور کہاں؟ جلد، وقت نہ ضائع ہو۔
(سپاہی جاتے ہیں)
(آہستہ سے) عبداللہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے اور اس کی روح کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ بخشے۔
عبداللہ: (ہیبت زدہ ہو کر منہ ہی منہ میں) رب العالمین۔ رب العظیم۔اسے سولی دینے کو کوئی مل گیا۔ اسے سولی دینے کو کوئی مل گیا۔
(عبداللہ باہر جاتا ہے۔ افسر سلاخوں والا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا ہے۔باقی ساتھی باہر ٹھہرے رہتے ہیں۔ گلی اندھیری ہے۔ سلاخوں والے دروازے کے اندر اور زیادہ اندھیرا ہے۔ اس اندھیرے میں صرف اتنا معلوم ہونے پاتا ہے کہ قیدی باہر آیا ہے۔ افسر اس کے پیچھے گلی میں آتا ہے ۔قاضی اس طرف پیٹھ کیے ساکت کھڑا ہے۔ قیدی سر پھیر کر اسے دیکھتا ہے۔ناظرِ عدالت کے آدمی اس کے آگے اور پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اسے گلی کے راستے باہر لے جاتے ہیں۔رفتہ رفتہ ان کے قدموں کی آواز غائب ہو جاتی ہے)
(قاضی اب تک بت بنا کھڑا ہے۔ کوسِ رحلت بجنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی آواز سن کر قاضی میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ مڑتا ہے اور آہستہ آہستہ باہر چلا جاتا ہے)
(باہر قیدی کو دیکھ کر ہجوم سے تاسف کی آوازیں آتی ہیں پھر قاضی کے نمودار ہونے پر خوف و دہشت کی چیخیں سی سنائی دیتی ہیں۔ پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔ کوسِ رحلت بجتا رہتا ہے)
(اِدھر ایوان میں حلاوہ گھبرائی ہوئی آتی ہے اور دریچے میں سے باہر جھانکتی ہے)
حلاوہ: لے گئے! لے گئے!
( کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگتی ہے۔ باہر کے ہجوم کا شور و غل سنائی دیتا ہے)
وہ آ یا! وہ اسے لے آئے! میرا بچہ! میری آنکھ کا تارہ! ارے دیکھو تو کیا تن کر چل رہا ہے۔ اس کا باہر نکلا ہوا سینا دیکھو۔ سانس کس بے خوفی سے آ جا رہا ہے۔ شاباش میرے لاڈلے شاباش! سر اُٹھائے رکھ، تجھ پر ہم سب کو ناز ہے۔ تجھ پر، میرے دلارے تجھ پر، جسے مر جانا ہے۔ ۔۔۔ دیکھ لو ۔ اسے دیکھ لو۔ جس کے بدن میں گرم خون لہریں مارتا تھا، پر جس کے دل میں قاتل کے لہو کی ایک بوند بھی نہیں۔۔۔ ہائے! پر قتل موجود ہے۔ آستینیں چڑھائے کھڑا ہے۔الٰہی آج کا آفتاب یہ کیا دیکھ رہا ہے! آج کی روشنی میں یہ کیا ہو رہا ہے! رب العالمین! تو خود اپنی آنکھیں بند کر لے۔ مت دیکھ۔ بیٹے کو باپ کے ہاتھ سولی دینے کو ہیں۔ تیری دنیاء میں کبھی یوں بھی ہوا تھا؟ ۔۔۔ ارے دیکھو تو! ارے دیکھو تو! میرا بچہ ہاتھ چوم رہا ہے۔ میرا بچہ ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا رہا ہے۔ اس شخص کے جو اسے سولی پر چڑھانے کو ہے۔ جلدی ، ارے جلدی۔میرے رب! اس کی روح کو جھٹ اپنے دامنِ رحمت میں لے لینا۔ اسے تڑپانا مت۔ اسے جلدی لے لے۔ ۔۔ ہا! ۔۔ مرے بچے ! اپنا دم دے دے۔ اس کے لیے اور نہ تڑپ ۔ مر جا مری جان۔ مر جا! مر جا!
( کوسِ رحلت تھم جاتا ہے۔ ہجوم میں سے گریہ و بکا کا ایک دلدوز شور اُٹھتا ہے اور بتدریج گھٹ جاتا ہے)
(حلاوہ گھٹنوں کے بل گِر پڑی ہے۔ چہرہ اونچا اور آنکھیں بند کیے منہ ہی منہ میں دعائیں مانگ رہی ہے۔ عبداللہ آتا اور اسے دیکھتا اور یوں بولتا ہے گویا اس سے غرض نہیں کہ وہ سنے گی بھی یا نہیں)
عبداللہ: اب بھی دعا مانگ سکتی ہے! رب العالمین اگر میں دعا مانگ سکتا اور میری دعا قبول ہوسکتی تو ایک موت اور ہوتی۔
( اس کے آخری الفاظ حلاوہ سن پاتی ہے۔ دعا بند کر کے آنکھیں کھولتی ہے اور اس کی طرف مڑتی ہے۔ اُسی وقت گلی میں قاضی کے بھاری اور آہستہ قد موں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ حلاوہ کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور بے حِس و حرکت مگر متوقع انداز میں کھڑی رہتی ہے۔ عبداللہ کو بھی قدموں کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ مڑ کر دیکھتا ہے اور ایک طرف ہٹ جاتا ہے)
عبداللہ: وہ آ رہا ہے۔ عورت دیکھ قاتِل آ رہا ہے۔ اور اس کی روح پر کالی رات چھائی ہوئی ہے۔
(قاضی داخِل ہوتا ہے۔ لڑ کھڑا رہا ہے مگر انتہائی قوتِ ارادی سے کام لے کر سنبھلنا چاہتا ہے۔ گلی میں سلاخون والے دروازے کو دیکھ کر رُک جاتا ہے۔ کھوئی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا اور پھر ضعف کو سنبھالتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ ایوان میں آتا ہے۔ مڑتا ہے اور سیڑھیاں چڑھنے لگتا ہے۔ اوپر کے دروازے تک پہنچتا ہے۔ اندر داخل ہوتا ہے۔ اندر زنجیر کھُلنے اور تالے میں کنجی گھومنے کی آواز آتی ہے۔ ذرا سی دیر میں اوپر کی منزل کی کھڑکی میں سے اس کا ہاتھ نکلتا ہے اور کھڑکی کو بند کر کے اسے مقفل کر لیتا ہے)
حلاوہ: اس نے دروازہ بند کر لیا! اس نے اپنے آپ کو بند کر لیا! یہ دروازہ اب کبھی نہ کھلے گا۔اب ہم اسے پھر کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔ کبھی زندہ نہ دیکھ سکیں گے۔
٭٭٭
٭٭٭
ٹائپنگ: محمد خلیل الرحمٰن
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید