02:06    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

1411 0 0 00

کشمکش(مجلس سوم) - ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق

منظر پنجم

(اختر کے مکان کا وہی ڈرائنگ روم جس کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے عابدہ ایک کونے میں کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس کے حاشیوں پروہ پنسل سے کچھ لکھتی جا رہی ہے۔ اختر داخل ہوتا ہے۔ وہ سفید پتلون  اور آسمانی رنگ کا بش کوٹ زیب تن کئے ہوئے ہے۔ ہاتھ میں ہیٹ ہے۔ وہ جیب سے کاغذ نکال کر پڑھتا ہے  اور  پھر رکھ لیتا ہے۔ عابدہ اسے دیکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ خاموش نظروں سے اختر کے چہرے کا جائزہ لیتی ہے۔)

عابدہ:تو واپسی کب ہو گی؟

اختر:(ترش روئی سے)جب بھی ہو، اس وقت کیا بتاؤں؟(اختر صوفے  پر بیٹھ جاتا ہے ، عابدہ بھی اپنی جگہ بیٹھ جاتی ہے۔)ارے چنو۔ (نوکر کو آواز دیتا ہے) جی حضور۔

اختر:یوسف سے کہو موٹر نکال لائے۔

نوکر:اچھا سرکار۔۔۔  یہ ڈاکٹر  صاحب تشریف لائے ہیں۔

اختر:(بلند آواز سے) آئیے تشریف لائیے ڈاکٹر صاحب۔

(عابدہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔)

اختر:(تحکمانہ لہجے میں) بیٹھی رہو۔(عابدہ خاموشی سے متصل کمرے کا رخ کرتی ہے۔ اختر عتاب آمیز نظروں سے اس کا پیچھا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نظروں سے غائب ہو جاتی ہے۔)کم بخت!

(ڈاکٹر عزیر داخل ہوتا ہے۔)

عزیر:(مسکرا کر) آداب عرض ہے۔ فرمائیے مزاج کیسا ہے؟

اختر:(ہاتھ ملاتے ہوئے) تسلیم(صوفے کی طرف اشارہ کرتا ہے) تشریف رکھئے۔

عزیر:(اختر کے چہرے کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے)  اور یہ کمبختی کس کی آئی ہے؟کیوں خیر توہے؟

اختر:اس زندگی میں آپ خیر پوچھتے ہیں؟(دونوں صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں) بس میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے ہی کو تھا۔

عزیر:(اختر کے چہرے کی طرف دیکھ کر)وہ تومیں بھی سمجھ رہا ہوں۔ لیکن یہ بے وقت کی برہمی کیسی؟

اختر:اب آپ سے کونسی بات چھپی ہوئی ہے۔

عزیر:بات یہ ہے کہ زندگی کی شیرازہ بندی کی صورت صرف یہ ہے کہ عورت، عورت بن کر رہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔

اختر:صحیح ہے۔

عزیر:یہی وجہ ہے کہ عورت کی معاشی محتاجی فطرۃً لازمی قرار دی گئی ہے۔

اختر:جی۔

عزیر:انسان اس زندگی میں جو بھی کرتا ہے ایک لگاؤ کی وجہ سے کرتا ہے۔ جس عورت کو اپنے شوہر سے لگاؤ نہ ہو، اس کی زندگی پر حیرت ہے  اور  حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے سب سے زیادہ آپ پر حیرت ہے۔

اختر:آپ مجھے اس قدر نادان نہ تصور نہ فرمائیں ، میں نے۔۔۔

عزیر:تمہاری بات میری سمجھ میں نہ آئی۔

اختر:اگر اس حد تک  میرا زور چلتا تو یہ نوبت ہی کیوں آتی۔ ابھی ابھی یہاں تشریف فرما تھیں ، نوکر نے آپ کے آنے کی خبر دی، بغیر کہے سنے دوسرے کمرے کی راہ لی۔ میں روکتا ہی رہا  اور آپ چلدیں۔

عزیر:(مسکراتا ہے)جی،  میں سن رہا تھا،  اور اس تقریب میں آپ نے کمبخت بھی تو کہا۔ پرسوں بیگم نے آپ سے یہی تو شکایت کی تھی۔

اختر:جی ہاں مجھے یاد ہے۔ اس عورت کا مزاج ہی دنیا سے نرالا ہے۔ خدمت گذاری میں وہ بے مثل ہے۔ لیکن اطاعت شعاری میں قابل نفریں۔ اس کے ارادوں کی عمارت کو کوئی ترغیب تحریض  اور تہدید منہدم نہیں کر سکتی۔ وہ کہتی ہے ’’میرے اندر عورت کی صحیح فطرت نے جنم لیا ہے۔ میں مرد کے ہاتھوں مسخ کی ہوئی فطرت کو بدل کر رہوں گی۔‘‘

عزیر:اللہ اکبر!محترمہ نے ابھی اس چاردیواری سے باہر قدم ہی کب نکالا ہے؟دنیا کی تاریخ نے ایسی کبھی پیش نہیں کی۔ وہ کون عورت ہے جو بہلائی  اور  پھسلائی نہ گئی ہو؟

اختر:یہ تمہاری لن ترانی اس بناء ہے کہ تمہیں اب تک ہوا کے اشاروں پر اڑنے والی، زمانہ کے ساتھ بدلنے والی، صلح جو مصلحت اندیش، سادہ لوح  اور تقلید پسند عورت سے سابقہ پڑا ہے۔

عزیر:میرے تجربے نے ایک نہیں سیکڑوں جلالی صفات والی عورتوں کو پیش کیا ہے۔ آخر یہی ثابت ہوا کہ مرد کے جادو کے سامنے عورت کو مسحور ہونا ہی پڑتا ہے۔ اس کے لیے وہ صرف مرد کے اشاروں کی منتظر ہے۔

اختر:لیکن تم نہیں جانتے ، یہاں عالم ہی کچھ  اور ہے۔ محترمہ مسکرائیں گی بھی تو اپنی طبیعت سے۔ اس کے لئے انھیں غیر کی دعوت بھی قبول نہیں۔ دنیا کی ستائش سے وہ بے پرواہ ہے  اور  زمانے کے بدلتے ہوئے اثرات سے بے حس۔

عزیر:(مسکراتے ہوئے) لیکن آپ تو فرماتے تھے کہ وہ بہت حساس ہیں  اور  ان کی گفتار سے شاعری ٹپکتی ہے۔ پھر یہ بے حسی کیا معنی؟

اختر: بھائی عزیز!کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا ہے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ گویا دنیا میں اس نے کسی سے محبت کرنی سیکھی ہی نہیں  اور جس طرح وہ اپنی عادات میں دنیا سے نرالی ہے۔ اس کا زندگی  کا نظریہ بھی جداگانہ  ہے۔ وہ اپنے نغموں میں صور اسرافیل کی قائل ہے۔ الہام کے لئے جبرئیل پر کمندیں ڈالتی ہے۔ اس کی فکر و نظر غیبی قوتوں کے حوالے ہے۔ یہی اس کی جان  اور یہی ایمان ہے۔ حسن ازل سے عشق کا دعویٰ بھی ہے ، بن دیکھے جمال عالم افروز کی شیدائی ہے۔ اسی ایک بارگاہ کی جبیں سائی اس کی زندگی کا حاصل ہے ، اس کی نظر میں کمال کی بخشش کا بس یہی ایک مقام ہے۔ سرتاپا جمال کا کرشمہ ہے۔ لیکن نگاہوں سے جلال ہی جلال ٹپکتا ہے۔ جہاں گفتگو میں منھ سے پھول جھڑتے ہیں ، وہاں شعلے بھی برستے ہیں۔ (ڈاکٹر عزیز تعجب سے اختر کی طرف دیکھتا ہے)اصل میں اس کی تعلیم و تربیت بہت برے طریقے پر ہوئی ہے۔ دقیانوسی باپ کی شفقت نے اس کی بے پایاں صلاحیتوں کو رہبانیت کے راستوں پر ڈال دیا۔

عزیر:(طنز آمیز مسکراہٹ کے ساتھ) تو آپ پھر شاعری فرمانے لگے ، واللہ تم مرعوب انسان معلوم ہوتے ہو۔

(نوکر داخل ہوتا ہے۔)

نوکر:(اختر سے) منشی صاحب ملنا چاہتے ہیں۔

اختر:(عزیر کی طرف دیکھ کر تامل کے بعد) اچھا  اندر بھیج دو۔

(نوکر  چلا جاتا ہے۔)

عزیر:جب دیکھئے بس سر پر سوا رہیں ، پریشان ساری دنیا ہے ، ایک منشی صاحب ہی نہیں۔ خیر تو یہ خوش خبری سنانا بھول گیا کہ آپ کے لئے رقم کا انتظام ہو چکا ہے۔

اختر:شکریہ، لیکن شرح سود بھی طے کر لی ہے؟

عزیر:سب کچھ طے ہو چکا ہے ، کل رقم آپ کومل جائے گی۔

(منشی منیر، الطاف  اور محمود داخل ہوتے ہیں۔ محمود کے چہرے پر تفکرات کے بادل گھرے ہوئے ہیں ، لیکن اس کی چمکدار آنکھیں اس ظاہری خستہ حالی پر مسکراتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ، اس لئے کہ اس کے عزائم مسلسل تصادم سے سخت سے سخت ترین ہو گئے ہیں۔ اس کے سابقہ حال میں ایک غیر معمولی تغیر پایا جاتا ہے۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ بھی مسکراہٹ نہیں معلوم ہوتی ہے ،  اور چہرے سے اندرونی مسرت  اور خوش دلی کا اظہار ہونے نہیں پاتا۔ وہ خاموش نظروں سے کمرے کا جائزہ لیتا ہے۔ اختر کی نظر محمود  پر پڑتی ہے۔ وہ قدرے قائل کے بعد مصافحے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔)

محمود:(اختر کی طرف بڑھتے ہوئے مسکراتا ہے) السلام علیکم۔مزاج مبارک!

اختر:(محمود سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے) اہا!آپ ہیں محمود صاحب۔ وعلیکم السلام۔ فرمائیے مزاج شریف۔

محمود:الحمد  للہ۔

اختر:(مسکراتے ہوئے) واللہ میری آنکھوں نے باور نہ کیا کہ وہ آپ ہی کو دیکھ رہی ہیں۔ میرا تامل درگزر ہے۔

محمود:(مسکرا کر) بجا۔ لیکن آپ کا بغل گیر نہ ہونا قابل درگزر نہیں۔

(دونوں بغلگیر ہوتے ہیں۔)

اختر:نوکر نے فقط منشی صاحب کی آمد کی خبر دی۔

محمود:اس لئے کہ منشی صاحب نے اس میں کچھ پیش قدمی بھی تو فرمائی۔

اختر:(ڈاکٹر عزیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمود سے) آپ ہیں میرے نہایت عزیز دوست۔ ڈاکٹر عزیر۔

منشی منیر:(مسکراتے ہوئے) تو گویا آپ ہی عزیر ہیں۔

عزیر:(مسکرا کر) جی ہاں میں خادم عزیر ہوں۔

منشی منیر:ماشاء اللہ۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔

(سب ہنستے ہیں۔)

عزیر:(آگے بڑھ کر محمود سے ہاتھ ملاتے ہوئے) آپ سے مل کر مجھے نہایت مسرت ہوئی۔

محمود:شکریہ، میں نے آپ کی تعریف بھائی الطاف کی زبانی سنی تھی۔ اسی لئے ملاقات کا اشتیاق تھا۔

اختر:(الطاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیر سے) آپ جناب الطاف صاحب سے مل ہی چکے ہیں  اور منشی صاحب سے تو آپ کی پرانی شناسائی ہے۔

(ڈاکٹر عزیر الطاف سے ہاتھ ملاتا ہے۔)

عزیر:(منشی منیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے)منشی صاحب کو بھلا کون نہیں جانتا۔ (مسکرا کر) خوب پہچانتا ہوں۔

منشی منیر:صحیح ہے۔’’ولی را ولی می  شناسد۔‘‘

عزیر:(مسکرا کر) لیکن منشی صاحب!ولی شیطان کو بھی تو جانتا ہے۔

منشی منیر:(چہرے پر مصنوعی حیرت پیدا کر کے ابروؤں کو جنبش دیتے ہوئے) اللہ اکبر!لیکن ڈاکٹر صاحب یہ کو ن نہیں جانتا کہ آنجناب عقیدۃً عملاً ہر طرح ولایت کے منکر ہیں۔ البتہ یہ خاکسار بفضلہ تعالیٰ اس باب میں حق الیقینی کا دعویدار ہے۔

(سب ہنستے ہیں۔)

الطاف:(ہنستے ہوئے ڈاکٹر عزیر سے) ڈاکٹر صاحب!اب تو منشی صاحب کی کرامت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔

(سب صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔)

عزیر:(خفت کو مٹانے کی کوشش میں ہنس دیتا ہے) بھئی منشی صاحب تو محفل کی جان ہیں۔ یہی کرامت ان کی کیا کم ہے کہ ان کے بغیر دلچسپی کا سامان ہونے نہیں پاتا۔

منشی منیر:(جھک کر ہاتھ کو خاص انداز سے جنبش دیتے ہوئے) آداب عرض، شکریہ، لیکن یہ دلچسپی آنجناب کی مبارک صحبت کی محتاج ہے۔

اختر:(محمود سے) کئی دنوں سے آپ سے ملنے کو جی چاہتا تھا۔ لیکن ملاقات کے اشتیاق نے صرف انتظار کی زحمت میں مبتلا رکھا۔

محمود:میں آپ سے معذرت خواہ ہوں  اور آپ کے خلوص کا شکر گذار ہوں۔ بات یہ ہے کہ زندگی کو از سر نو بسانے کے جھگڑوں ہی سے فرصت نہ مل سکی۔ اب کچھ اطمینان حاصل ہوا تو حاضر خدمت ہو گیا۔

اختر:یہ آپ کی نوازش ہے۔ اصل میں زندگی انسان کے ارادے کی پابند بھی تو نہیں رہی۔ انسان سوچتا کچھ ہے ہوتا کچھ ہے۔

محمود:صحیح ہے ، لیکن زندگی کی تگ و دو میں عزائم کو از سر نو استقامت بخشنے کی بھی تو ضرورت ہے۔

اختر:انسان کے خواب کی تعبیر جب غلط ہو جاتی ہے تو عزائم کو بھی متزلزل ہونا پڑتا ہے۔(مسکرا کر) آپ کا وہ اللہ اکبری جذبہ اب کبھی سنائی نہیں دیتا۔

محمود:(مسکرا کر) آخر میرے جذبے کی آپ کو کیوں فکر آ پڑی؟(اختر مسکراتا ہے)عزائم اپنی استقامت میں صرف انسان کے ارادے کے پابند ہیں۔ خارجی اثرات انھیں متزلزل نہیں کر سکتے۔ اگر ایمان کی ناقابل تسخیر قوت سے انہیں مستحکم کیا جائے۔

منشی منیر:قطع کلام معاف فرمائیں۔ مصیبت تو یہ ہے کہ آج کل ایمان ہی عنقا ہے۔ اس سیم و زر کی خدائی میں اللہ کی بندگی کے لئے کون تیا رہے؟

عزیر:(مسکرا کر) بحمد للہ، اللہ کی بندگی کے لئے کون کب تیار رہا ہے؟

الطاف:اب نہ انصار انصار رہے ، نہ مہاجر مہاجر۔

منشی منیر:(اختر سے) مجھے اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں۔

اختر:(مسکرا کر) نیکی  اور  پوچھ پوچھ۔

منشی منیر:بس اکبر مرحوم کا ایک شعر سن لیجئے۔

(سب منشی منیر کی طرف دیکھ  کر مسکراتے ہیں۔)

اختر:ارشاد!

منشی منیر:اکبر جو نہ تھا بت خانے میں زحمت بھی ہوئی  اور  گھر بھی گیا

کچھ نام خدا سے انس بھی تھا کچھ جو ر بتاں سے ڈر بھی گیا

اختر:واہ منشی صاحب واہ!

عزیر:خوب درمیانی راہ نکالی ہے۔

الطاف:سبحان اللہ۔

منشی منیر:(محمود کی طرف دیکھ کر)  اور جناب محمود صاحب، ایک شعر آپ کو  اور  سننا ہے (مسکرا کر) میں یہ نہیں کہتا کہ آپ داد بھی دیں۔

(محمود کی طرف دیکھ کر سب ہنستے ہیں۔)

محمود:(مسکراتے ہوئے) ارشاد!

منشی منیر:شعر ملاحظہ ہو:

کعبے سے جو بت نکلے بھی تو کیا ، کعبہ ہی گیا جب دل سے نکل

افسوس کہ بت بھی ہم سے چھٹے ، قبضے سے خدا کا گھر بھی گیا

اختر:کیا بات کہی۔

عزیر:بہت خوب۔

محمود:منشی صاحب ہنسی ہنسی میں کام کی بات بھی کہہ جاتے ہیں۔

منشی منیر:محمود صاحب!یہ وہ زمانہ ہے کہ آج شرنارتھی  اور مہاجر ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔

اختر:(ہنستے ہوئے)بہت خوب، بہت خوب۔

محمود:منشی صاحب نے اس میں بہت زیادہ مبالغے سے کام لیا ہے۔

منشی منیر:جی نہیں ، محمود صاحب!صورت حال کچھ یوں ہی ہے ، گو پریشان کن ضرور ہے۔

عزیر:(مسکرا کر منشی منیر سے) لیکن قبلہ!یہ آپ بلاوجہ پریشان بھی کیوں ہیں؟

منشی منیر:بلاوجہ نہیں صاحب!بات ہی کچھ ایسی ہے۔۱۹۴۷ء؁ کیا آیا ہماری تو گردنیں کٹ گئیں۔ معاشی پریشانی، معاشرتی بدحالی، اخلاقی بحران، ایک کو بناتے ہیں تو دس بگڑتے ہیں ایک کو پکڑتے ہیں تو دس ہاتھ سے نکلتے ہیں۔ جب زمانہ ہی بگاڑنے پر آ جائے توہم آپ کیا سدھار سکتے ہیں۔ لڑکیاں ہیں کہ اپنی جگہ اڑی جا رہی ہیں۔ بھلا لڑکوں لڑکیوں کا ایک ساتھ ملے جلے تعلیم پانا کس اسلام  اور اخلاق نے جائز قرار دیا ہے؟ ایک نیا اسلام پیدا ہو رہا ہے صاحب! ضرورت ہے کہ طوفان کو قوت پکڑنے سے پہلے دبا دیا جائے دراصل۔۔۔

اختر:دبا دیجئے ، اگر آپ دبا سکیں۔

عزیر:(تیز ہو کر) حق تو یہ ہے کہ اس نئے زمانے میں آپ کا دقیانوسی وجود ہی نامعقول ہے ، آخر آپ پریشان ہیں کیوں؟ اس لئے کہ زمانہ پریشانی کے اسباب دور کرنے کے لئے قدم بڑھا رہا ہے؟

منشی منیر:ڈاکٹر صاحب!میں آپ کی شان میں ایسی نامعقول گستاخی کی جرأت نہیں کر سکتا، البتہ اتنا معروضہ ضرور ہے کہ زمانہ پریشانی کے اسباب دور کرنے کے لئے وہی طریقے اختیار کرتا جا رہا ہے جو آں محترم نے اختیار فرما رکھے ہیں۔

(سب ہنستے ہیں۔)

عزیر:میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔

منشی منیر:(مسکرا کر) بھلا آپ  میرا مطلب کیوں سمجھنے لگے !افلاس، غربت، رشوت، وکیل، ڈاکٹر یہ سب موجودہ دور کی برکات ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ مفلوک الحال مریض کو مرتے دم تک سو دو سو انجکشن سے کم نہ لگنے چاہئیں۔میری جوان بچی اسی مصیبت کا شکار ہوئی  اور اسے سپرد خاک کرنے کے بعد اب تک ڈاکٹر سے منھ چھپاتا پھر تا ہوں  اور وہ قضا کا ہر کارہ برابر بل پربل بھیجے جاتا ہے۔

اختر:(عزیرکی طرف دیکھ کر) ڈاکٹر صاحب!بات منشی صاحب کی صحیح ہے۔ یہ۔۔۔

عزیر:مجھے منشی صاحب سے کامل ہمدردی ہے۔ ساتھ ہی مجھے اس کی پروا نہیں کہ آپ میرے نظرئیے سے کہاں تک متفق ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ناکارہ نفوس کو زندہ رہنے کاحق ہی حاصل نہیں۔یہ رینگتی ہوئی زندگیاں کس کام آئیں گی؟

منشی منیر:(ڈاکٹر عزیر کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے) ماشاء اللہ، معاف فرمائیں ، میں آپ کی اس ہمدردی کا ممنون نہیں ہوں۔ اب معلوم ہوا کہ آپ اسی لئے موت کے فرشتے کی نمائندگی فرما رہے ہیں۔ (سب ہنستے ہیں)واللہ ڈاکٹر صاحب!آپ نے اس طرح کتنی زندگیوں کا علاج کر دیا؟

(ڈاکٹر عزیر کی طرف دیکھ کر سب قہقہہ لگاتے ہیں۔)

عزیر:(خفت کو مٹانے کی کوشش میں منشی منیر سے) مجھے افسوس تو یہ ہے کہ میں آپ کا علاج نہ کر سکا۔

منشی منیر:(مسکرا کر) بخشئے حضور، خدا کے فضل سے اس کی نوبت بھی نہ آنے پائے گی۔ (اختر کی طرف دیکھ کر) آپ تو بس اختر صاحب کا علاج کیجئے۔ ایسے مریض کم ہاتھ آتے ہیں۔

(ڈاکٹر عزیر کے چہرے سے کچھ پریشانی ظاہر ہوتی ہے ، محمود  اور  الطاف مسکراتے ہیں۔)

اختر:(بات کا رخ بدلتے ہوئے) منشی صاحب! ایک ڈاکٹر صاحب ہی کو کیوں بدنام کیجئے۔ یہ تو دنیا کے مصائب کی داستان ہے۔

محمود:حقیقت میں دنیا کی مصیبت نہ تو ڈاکٹر ہے  اور نہ وکیل، زندگی کے ہر شعبے کو ایمان  اور دیانت کی ضرورت ہے۔

منشی منیر:اسی کاتو رونا رو رہا ہوں کہ اگر فرزندان اسلام کو دین فطرت نے ایک روح بخشی ہے تو اس اجتماعیت کی فریب خوردہ جماعت کو اپنا  درد محسوس کیوں نہیں ہوتا؟

اختر:(مسکرا کر محمود کی طرف دیکھتا ہے) اس کا جواب تو آپ کو محمود صاحب دے سکیں گے۔میں نہ تو حکومت الہیہ کا علمبردار ہوں  اور  نہ اسلام کی فرزندی کا دعوے دار۔

عزیر:(عزیر محمود کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے) ان کی خاموشی خود سراپا جواب ہے۔ اس کا جواب کسی کے بس میں نہیں ہے۔

محمود:ڈاکٹر صاحب معاف کیجئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مغالطے میں مبتلا ہیں۔ (مسکرا کر) یہ بیٹھے بیٹھے آپ قنوطی ذہنیت کا الزام کیوں دینے لگ گئے؟

عزیر:(تیز ہو کر) اس لئے کہ زمانہ آپ کی امیدوں کو پامال کر کے دم لے گا۔

محمود:یہ نہ کہئے۔ یہ فقط آپ کی تمنا ہے۔ ہاں یہ ایک کشمکش کا دور حاضر ہے  اور  زندگی کی صحیح تعمیر کشمکش ہی سے شروع ہوتی ہے۔

عزیر:لیکن اس کشمکش  کا نتیجہ آپ اپنی توقع سے مختلف پائیں گے۔زمانے کے بدلتے ہوئے تیور  اور  زندگی کے تقاضے کیا آپ نہیں دیکھتے؟

محمود:جی ہاں ، بندہ پرور!اللہ کا بڑا کرم ہے کہ میں اندھا نہیں ہوں ، اسی لئے تو میرا ایقان ہے کہ اب زندگی کی ہر حرکت اللہ کے لئے ہو جانی چاہئے۔

الطاف: اور خدانخواستہ ہم نے کفران نعمت سے کام لیا تو یہ بھی یاد رہے کہ قدرت کا انتقام اس عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔

منشی منیر:یہ حقیقت ہے کہ زندگی کا چین اسی میں ہے کہ خالق و مخلوق کا صحیح رشتہ قائم ہو جائے۔

عزیر:مولوی اپنے چین کو لئے مر رہا ہے  اور دنیا اپنے درد کا درمان چاہتی ہے۔

منشی منیر:(مسکرا کر) معاف کیجئے ڈاکٹر صاحب۔ اولاً میں مولوی نہیں ہوں۔ گو تھوڑی بہت داڑھی بڑھانے کا گنہگار ضرور ہوں۔(سب مسکراتے ہیں۔)دوم یہ کہ آپ کی تنک مزاجی سے تو کبھی زندگی چین نصیب نہ ہو جائے گا۔۔۔

(سب ہنستے ہیں۔)

اختر:(محمود سے)یہ جو آپ اللہ کے لئے حرکت، کے قائل ہو کر سارے نظام حیات کو اس کی بندگی میں منسلک کر دینا چاہتے ہیں۔تومیں اس کے جواب میں صرف یہ عرض کروں گا کہ یہ آپ کا مذہبی جنون ہے۔

منشی منیر:حقیقت میں۔۔۔

اختر:(بات کاٹ کر) میں اس کا جواب محمود صاحب سے چاہتا ہوں۔

محمود:(مسکرا کر) آپ کی اس عنایت کا ممنون ہوں۔ لیکن آپ اس جنون پر مجھ سے بہت زیادہ معرکہ آزما ہو چکے ہیں۔اب عقل کی باتیں کیجئے۔ بات صرف اتنی ہے کہ انسان کی زندگی خلوص کی محتاج ہے۔

اختر:(مسکراتے ہوئے طنز آمیز لہجے میں)  اور یہ خلوص صرف ایمان بالغیب سے حاصل ہو جائے گا؟

محمود:(مسکراتے ہوئے) آپ میری بات تو سنئے۔

اختر:اچھا فرمائیے۔

محمود۔:ایک دور فرد کی حکمرانی کا تھا، انفرادی حکومت، انفرادی ملکیت، انفرادی برتری،  افتخار، اقتدار سب کچھ فرد کے لئے تھا۔ اس میں کچھ پھیلاؤ پیدا ہوا تو یہی صورت رنگ، نسل  اور قومیت کی شکل میں جلوہ گر ہوئی جس کا نام جمہوریت قرار پایا۔ یہ نام نہاد جمہوریت قومیت کے نشے سے سرشار ہو کر دنیا کی  دیگر اقوام  اور جمہور کا خون ایک عرصے تک چوستی رہی۔ اب دنیا کی  نظر نے اس سے زیادہ وسعت کا تقاضا کیا تو چاروں طرف بین الاقوامیت کا راگ  الاپا جانے لگا۔ آج کل زندگی کی نئی قدروں نے دستور حیات  کا بڑا کمال اسے قرار دیا ہے کہ مادی اقتدار سے فرد کو زیادہ سے زیادہ بے دخل کر کے زندگی کو اجتماعیت  اور  اشتراکیت کا رنگ  دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس نظرئیے کا حال ماضی سے بہتر ہے۔ لیکن۔۔۔

اختر:یہ آپ موحد سے اشتراکی کب بن گئے؟

(سب مسکراتے ہیں۔)

محمود:ابھی آپ صرف سننے کی زحمت فرمائیں۔(اختر ہنستا ہے۔)لیکن اس نظرئیے کی یہ ظاہری وسعت  اور اخلاق کی بلندی، طبقاتی عالمی جنگ کو روکنے میں عملاً ناچار رہی ہے۔وہی انسانی فطرت مختلف زمانوں میں فقط بھیس بدل کر نئے روپ میں جلوہ گر ہوتی رہی ہے۔ تعصب ہمیشہ انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ انسانی فہم کا قائم کردہ نظام حیات اپنی انتہائی بلندیوں تک پہنچ کر بھی پستیوں سے نہ نکل سکا۔

اختر:جی ہاں ، اس وقت آپ کی فہم اسی پستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

(وہ مسکراتا ہے۔)

محمود:لیکن میں نے آپ کے فہم کوتو اس سے مستثنیٰ نہیں قرار دیا ہے۔(سب ہنستے ہیں۔)مجھے اس کا اعتراف ہے۔ اسی لئے تو معروضہ یہ ہے کہ مالکیت، حاکمیت، سلطانی، اقتدار، افتخار وغیرہ سب کچھ نہ صرف فرد سے بلکہ تمام بنی انسان سے چھین کر مالک حقیقی کے حوالے کر دینا چاہئے۔ تا کہ عالمی مساعی میں بنی نوع انسان کا احساس اس کے سوا  اور  کچھ نہ رہے کہ ’’جو کچھ ہے وہ رب العالمین کا ہے ،  اور جو کچھ میرے  پاس ہے وہ بھی اسی کا ہے ، میرا کچھ بھی نہیں۔ میری عبادت سے لے کر زندگی کی ہر حرکت یہاں تک کہ جینا  اور مرنا سب اسی کے لئے ہے۔‘‘ کار گاہ حیات میں فقط انھیں نفوس کا وجود رحمت عالم بن کر معرکہ آرا و ہو سکتا ہے ، ہم نے یہی دستور حیات اللہ کے رسولؐ  اور خلفائے راشدینؓ کے تحت جاری کردہ نظام حیات میں دیکھا ہے۔

منشی منیر:سبحان اللہ!جزاکم اللہ۔

عزیر:(مسکرا کر) جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی۔

محمود:(مسکرا کر ڈاکٹر  عزیر سے) ڈاکٹر صاحب!یہ آپ شعر خوانی چھوڑئیے  اور  میری بات سمجھئے۔

عزیر:آپ کی بات خدا ہی سمجھے۔

محمود:(مسکرا کر) گستاخی معاف، اگر آپ اس طرح سمجھ کے دشمن بن جائیں گے تومیں معروضہ کیوں کرپیش کر سکوں گا؟

(سب ہنستے ہیں۔)

اختر: بھائی عقل سے دشمنی کے تو آپ خود ہی دعوے دار ہیں۔ ڈاکٹر  غریب کو کیوں پریشان کریں۔

محمود:(مسکرا کر) حاشاوکلا!میر ا مطلب قبلہ ڈاکٹر صاحب کو پریشان کرنا ہرگز نہیں ہے۔ میرا معروضہ ان کی خدمت میں صرف یہ ہے کہ عقل ہی کا فیصلہ ہے کہ فقط علم و دانش کی رہنمائی دنیا کے درد درمان نہیں ہو سکتی۔

عزیر:آخر آپ نے عقل کو کیا سمجھ رکھا ہے؟عقل کو بے اصل قرار دے کر عقلمندی کا دعویٰ تو غلط ہے۔

منشی منیر:عقل بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں۔

عزیر:(منشی منیر سے)قبلہ شعر خوانی سے آپ کو کوئی منع نہیں کرتا، لیکن اس میں بھی ذرا عقل کو دخل رہے۔

(سب ہنستے ہیں۔)

منشی منیر:(ڈاکٹر عزیر کی طرف دیکھ کر) میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ آپ اپنی حد تک اس مطالبے میں حق بجانب نہیں ہیں۔(ہاتھ جوڑ کر) لیکن عالی جاہ!میرا روئے سخن فقط اہل ذوق حضرات کی طرف ہے۔ گستاخی معاف کیجئے۔

(سب قہقہہ لگاتے ہیں۔)

اختر:(مسکراتے ہوئے) منشی صاحب!آپ میری بات پر دھیان دیجئے۔ جناب محمود صاحب سے میرا معروضہ یہ ہے کہ فقط انسان کی عقل و دانش نے زندگی کا سامان کیا ہے۔

منشی منیر: اور موت  کا سامان بھی تو کیا ہے قبلہ!

اختر:آپ اس کے تعمیری پہلو کو کیوں نظرانداز کئے دیتے ہیں؟انسان کی فہم کے آگے ساری کائنات سہمی ہوئی ہے۔

محمود:شاید میں اپنا عندیہ گوش گذار کرنے سے قاصر رہا کہ جہاں انسانی فہم حیران رہ جاتی ہے وہاں اللہ کی کارسازی ہی کام آتی ہے۔

الطاف:دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کی کارسازی نے نظام زندگی کے پراگندہ گیسوؤں کوبارہا سنوارا ہے۔

منشی منیر: اور سچ پوچھئے تو زندگی کے اس انتشار میں انسان کے ضمیر کی صدا یہی ہے کہ الٰہی نظام کے بغیر زندگی کی گتھی سلجھ نہ سکے گی۔

عزیر:(طنز آمیز مسکراہٹ کے ساتھ) اللہ کی کارسازی کے حالیہ تماشے شاید آپ کی نظر نے نہیں دیکھے۔

منشی منیر:شکر ہے کہ میری نظر نے یہ تماشے آپ کی نظر سے نہیں دیکھے۔

اختر:کاشکے۔ آپ کو حق بینی نصیب ہوئی ہوتی۔

منشی منیر:(مسکرا کر) میں آپ کی اس  پر خلوص تمنا کا ممنون ہوں  اور میری بھی آپ کے لئے یہی دعا ہے۔

(سب ہنستے ہیں۔)

عزیر:نیاز مندی کے تقاضے۔۔۔

اختر:انسان کی یہی نیاز مندانہ ذہنیت اسے عقل سلیم سے محروم کر دیتی ہے۔

عزیر:انسان ٹھوکریں کھا کر بھی غیبی قوتوں کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔

الطاف:اصل میں ٹھوکریں کھا کر ہی یہ سہارا ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

اختر:جی نہیں ، انسان کی فکر و نظر جب مجہول ہو جاتی ہے تو وہ غیبی سہارے ڈھونڈنے لگتا ہے۔(منشی منیر کی طرف دیکھ کر) منشی صاحب آپ کا پسندیدہ شعر مجھے  یاد آ گیا:

کار سازِ ما بہ فکر کار ماست

فکر ما درکار آزار ماست

اسی بے بسی  اور بے چارگی کے احساس کی توہم پرستی مردے ازغیب بروں آید و کارے  بکند، کی ذہنیت پیدا کر کے زندگی کو مفلوج بنا دیتی ہے۔

منشی منیر:آپ نے جس شعر کو میری  پسند کی طرف منسوب فرمایا ہے اس کا مطلب یاتو میں نہیں سمجھا یا آپ میرا مطلب نہیں سمجھے۔

اختر:مطلب آپ کا میں خوب سمجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے گرد و پیش صرف انسانی توانائیوں کی کارفرمائی دیکھ رہے ہیں ، آپ انھیں غیر کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔(محمود کی طرف دیکھ کر) محمود صاحب! آپ کیوں خاموش ہو گئے؟

محمود:(مسکراتا ہے)میں سن رہا ہوں۔

اختر:آپ کو بولنا بھی تو چاہئے۔

(سب مسکراتے ہیں۔)

محمود:میں کیا عرض کروں ، آپ اصل بحث سے بہت دور جا پڑے۔

اختر:جی نہیں ، ہماری گفتگو کا  مرکز خیال وہی ہے۔ میں انسان کی توانائیوں پر ایمان رکھتا ہوں ، آپ اس کی بیچارگی کو  رو رہے ہیں۔

محمود:میں یہی تو عرض کر رہا ہوں کہ آپ مجھے اس مقام پر دیکھ رہے ہیں جہاں میں نہیں ہوں۔ اب میں کچھ عرض کرنے سے پہلے آپ کا نقطۂ نظر سمجھنے کی کوشش کروں گا۔

اختر:میرا نقطہ نظر واضح ہے۔ میں انسان کو غیر کی محتاجی سے آزاد دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ اسے کثرت کی غلامی سے آزاد کر کے وحدت کے حوالے کرنا چاہتے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ یہ وحدت کا طلسم بھی ٹوٹ جائے اس لئے کہ انسان غیر کی محکومی سے جتنا  بھی آزاد ہوتا جائے گا اس کی صلاحیتیں اتنی ہی آشکارا ہوتی جائیں گی۔اس کی زندگی کا کوئی پہلو خارجی محکومی قبول نہیں کرتا۔ اس کی فطرت آزاد کی سربلندیاں اسے معرکہ وجود میں ہمیشہ غلبہ بخش رہی ہیں۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا ادنیٰ خادم بنا ہوا ہے ہم جس تخلیق کو فطرت کی بخشش سمجھتے ہیں ، حقیقت میں اس کے تخریبی عنصر کو تعمیر کا رنگ دینے والا فقط انسان ہی ہے اس کی قبیح شکل کو حسن بخشنے والا  یہی بحر و بر  کا سلطان ہے فطرت کی تخلیق میں تاریک راتیں بھی ہیں جنھیں انسانی لیمپ ہی روشن کر سکتے ہیں۔ اس کی قلمرو میں بڑی بڑی ہیبت ناک چٹانیں بھی ہیں جن کی بے رونقی کو انسانی ہاتھ ہی خوبصورتی بخش سکتا ہے۔ پتھروں سے شیشے کی صنعت گری  اور نیش کو نوش کی تاثیر بخشنے کا کرشمہ اسی سے ظہور میں آیا ہے۔

(اختر محمود کی طرف دیکھتا ہے۔)

محمود:(مسکرا کر اختر سے) آپ فرمائیے میں ہمہ تن گوش ہوں۔

(سب مسکراتے ہیں۔)

اختر:میں آپ کی ہمہ تن گوشی کا ممنون ہوں۔

(سب ہنستے ہیں۔)

محمود:یہ آپ کی عنایت ہے۔

اختر:عرض کروں؟

محمود:ارشاد!

اختر:یہ گرجنے والی توپیں ، دندناتے ہوئے انجن، زبردست طیارے ، سمندر کے سینے کو چیرنے والے جنگی جہاز، برق رفتار آبدوزیں  اور اسی نوع کی ہزاروں لاکھوں انسانی کاوشیں  اور اس کی تخلیقی صلاحیتیں اپنی قیامت خیز تسخیری قوت کے ساتھ انسان کی خدائی کا اعلان کر رہی ہیں۔ پانی بھی مسخر ہے  ہوا بھی ہے مسخر۔ جوہری قوتوں والا انسان آپ کے خدائی تخیل کو دعوت  پیکار دے رہا ہے۔۔۔

محمود:(کچھ سکوت کے بعد مسکرا کر) تو آخر آپ نے ختم ہی کر دیا۔واللہ، آپ کی توپوں کی گرج  اور جوہری بم کی ہیبت سے ہم کیا ساری کائنات لرز رہی ہے۔ لیکن آپ نے یہ کیوں فرض کر لیا کہ انسان کی صلاحیتوں کے امکانات پرمیرا ایمان آپ کے ایمان سے کمتر ہے۔؟

اختر:اگر میں یہی جانتا ہوتا تو اتنی بکواس کیوں کرتا۔

محمود:(مسکرا کر)اچھا تو اگر آپ تجدید ایمان  کا مطالبہ ہی کر رہے ہیں تو یہ لیجئے میں آپ ہی کے ہاتھ پر تجدید بیعت کئے لیتا ہوں۔

(سب ہنستے ہیں۔)

اختر:(مسکرا کر) خوب!تو آپ اپنے اس ایمان کا مظاہرہ فرمائیے۔

محمود:انسان کی عظمت پرمیرا ایمان حق الیقینی  کا درجہ رکھتا ہے۔ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ قدرت کے عطا کردہ اسباب سے انسان سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سیمابی پتلے کی سرشت میں کوکبی  اور مہتابی شان جلوہ گر ہے۔ عالم ملکوت پراس کی برتری اس کے بلند مقام کو ظاہر کر رہی ہے۔ انسانی جلال کے آگے پہاڑوں کی بلندیاں سرنگوں ہیں۔ طوفانی دریا اس کی راہ سے گریزاں ہیں۔ سمندروں کے سینے اس کی ہیبت سے پھٹے جا رہے ہیں۔ زمین کا چپہ چپہ اس کے رزق کا سامان کرنے میں اس کا ادنیٰ خادم بنا ہوا ہے۔ آفتاب کی تمازت، ہواؤں کا چلنا  اور  ابر گہربار کا برسنا، آسمانی بزم کی آراستگی، ستاروں کی جگمگاہٹ  اور  مہتاب کی ضیا پاشی، یہ سب کچھ اسی کی خاطر ہے۔

منشی منیر:سبحان اللہ۔ آپ نے انسان کی عظمت میں چار چاند لگا دئیے۔

اختر:(مسکرا کر) طرز بیان کی شگفتگی ملاحظہ ہو۔

محمود:(مسکرا کر اختر سے) معاف کیجئے میں طرز بیان کی داد چاہنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ میرا مطالبہ اس سے بلند ہے۔

(اختر مسکراتا ہے۔)

عزیر:یقیناً  اور کچھ نہیں تو کم از کم رنگ تقریر ہی جاذب توجہ ہے۔

الطاف:(مسکرا کر) بہرحال رنگ تقریر ہی سہی۔ کچھ تو جاذب توجہ ضرور ہے۔

محمود:(ڈاکٹر عزیر سے مسکرا کر) آپ کی ستایش گری کی داد تومیں نہ دوں گا۔ البتہ اس زحمت فرمائی کا ممنون ضرور ہوں۔

اختر:(محمود سے) تو ارشاد فرمائیں۔ کیوں ، ختم کر دیا؟

محمود:(مسکرا کر) جی نہیں مجھے تو آپ کو تھکانا مقصود ہے۔

اختر:آپ یقین کیجئے میں زندگی میں بحث سے کبھی نہیں تھکا۔ آدمی حجتی واقع ہوا ہوں۔

محمود:(مسکرا کر) شکر ہے کہ اس کا آپ کو خود اعتراف ہے۔ اچھا تو اب اطمینان سے سنئے۔

اختر:ارشاد۔

محمود:جب انسان اپنی بے پایاں صلاحیتوں کے ساتھ اپنی جولان گاہ زیر آسمان ہی محدود کر لیتا ہے  اور  رنگ و بو کی تسخیر میں اندھا بن کر مادیت کے بت پرہر چیز کو بھینٹ چڑھانے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کی تسخیری قوتیں بے معنیٰ  اور بے نتیجہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔

اختر:اب آپ نے انسان کی سابقہ بیان کردہ عظمت کو مسخ کرنا شروع کر دیا ہے۔

محمود:جی نہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ انسان کی فطرت کے کمال کی داستان آپ اپنی زبان میں سنیں تو لیجئے میں الفاظ کی ترکیب و ترتیب کو بدلے دیتا ہوں۔ انسان کی فطرت بلند نظری کی دعوت دے کراس کے حوصلوں سے آسمان کے تارے اتار لانے  کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ اسے نیلگوں فضاؤں سے پرے کمندیں ڈالنے کے لئے ابھار رہی ہے جہاں نو کی تسخیر کا جنون انسان کی روح کو مادی آرائشوں سے پاک کر کے حیات سرمدی کی بخشش کے لئے بلند پروازی کا ناقابل تسخیر حوصلہ عطا کرتا ہے۔ جب طائر لا ہوتی کے یہ بند کھل جاتے ہیں تو اس کی سلطانی کے حدود بحر و برکی سطح تک ہی نہیں رہتے۔ اس کی زد  میں ساری کائنات آ جاتی ہے۔ انسان کی صلاحیتوں کو اس  حد  تک اجاگر  کئے بغیر بلندنظری کے دعوے باطل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ زندگی کی اس کیفیت کے بغیر کار ہستی کو زبونی سے مفر نہیں۔ انسان ازلی صداقتوں سے رشتہ جوڑ کر ہی اس بلند مقام کا دعویدار ہو سکتا ہے جس کا وہ واحد حقدار ہے۔

اختر:لیکن یہ ازلی صداقتوں کے پردے میں آپ آزادیِ افکار کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ نیاز مندانہ شان والا انسان ’’انا‘‘ کی توہین کر رہا ہے۔ کسی بارگاہ کی بندگی اس کی تسخیری قوتوں کو بے آبرو کر دیتی ہے۔

عزیر:(اختر کی طرف دیکھ کر) وہ کیا شعر تھا اختر صاحب!

بندگی میں گھٹ کے۔۔۔

(سب ڈاکٹر عزیر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔)

اختر:(مسکرا کر)

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب

 اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

منشی منیر:(مسکرا کر) ماشاء اللہ!ڈاکٹر صاحب، خوب یاددہانی فرمائی۔ (اختر کی طرف دیکھ کر) لیکن کم از کم اختر صاحب کو یہ  شعر نہیں پڑھنا چاہئے تھا۔

(سب ہنستے ہیں۔)

محمود:(اختر سے) ہاں تو آپ کو بندگی سے بیر ہے ، بہت اچھا۔ لیکن انسان کے فہم نے افراط و تفریط میں پڑ کر ہی ہمیشہ دھوکا کھایا ہے۔ دراصل انسان جو چیز اپنے اندر تربیت سے سنوارتا ہے وہ اس کی تخلیق نہیں کہی جا سکتی۔ وہ فقط فطرت کی ودیعت کردہ صلاحیت کا ظہور ہے  اور انسان کے یہ پوشیدہ خزینے جتنے کھلتے جائیں گے وہ اتنا ہی ظاہر ہو گا۔ ایک حقیر سا دانہ اپنے اندر برگ و بار پیدا کرنے کی پوری صلاحیت لے کر بھیجا گیا ہے۔ اس صلاحیت کی تخلیق اس دانے کا اپنا فعل نہیں ہے۔ صناعی صرف ایک ہی صانع  کا کام ہے۔

منشی منیر:وَحُدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ۔

محمود:اس ایک صانع کی خدائی کو تسلیم نہ کرنا، حق و صداقت سے منھ موڑنا ہے۔ اگر انسان خدا  ہوتا تو اس سے بہتر  اور کیا ہوتا؟ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ غریب خدا نہیں ہے۔

(سب مسکراتے ہیں۔)

منشی منیر:سبحان اللہ۔ جزاکم اللہ۔

اختر:(محمود سے) تو گویا آپ اپنے قتل کے محضر پر دستخط ثبت فرما چکے۔

محمود:(مسکرا کر) ابھی دستخط کا موقع نہیں آیا۔ تھوڑا سا بیان باقی ہے۔

(الطاف  اور عزیر مسکراتے ہیں۔)

اختر:تو وہ بھی سنا دیجئے۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔

محمود:سارا جھگڑا اسی قیاس کا توہے۔ میرا معروضہ یہ ہے کہ جہاں انسان کی برتری کے آگے ساری کائنات سہمی ہوئی ہے ، وہاں وہ بھی خود کو قانون فطرت کا زنجیری پاتا ہے۔ اس کی ولادت  اور موت کے علاوہ اس کے جسم میں مختلف اعضاء و جوارح کا عمل اس کی بے اختیاری کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ظاہر ہے کہ انسان اپنی بے پایاں آزادیِ عمل کے باوجود کائنات کے ذرے ذرے کے ساتھ طوعاً و کرہاً قانون فطرت کا پابند بھی ہے۔ اسی لئے اس بے اختیاری کو مد نظر رکھ کر آزادیِ عمل کے بے پایاں امکانات کوکسی بارگاہ کا عطیہ سمجھنا بھی ضروری ہے۔

اختر:آخر لے دے کر آپ نے وہی ایک بات دہرا دی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کے ارادوں کی بے پناہ قوتیں قانونی شکنجے  توڑ دیتی ہیں۔ اس کی فطرت آزاد پابندیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

محمود:انسان کا ہر عمل بے نتیجہ ہے اگر وہ بے لگام ہے۔

اختر:یہ بے لگامی کا لفظ آپ کو کہاں سے مل گیا؟اس گمراہ کن لفظ کو لغت سے خارج کر دینا چاہئے۔

(سب مسکراتے ہیں۔)

محمود:(مسکراتے ہوئے) یہ لیجئے میں خارج کئے دیتا ہوں انسانی حدود سے باہر اس کی ہر تدبیر بے نتیجہ ہے۔

(سب ہنستے ہیں۔)

اختر:انسانی تدابیر کی حدیں نہیں ہوتیں۔

محمود:تو ان کے لئے حدیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی تدبیر کی نا تربیت یافتہ کاوشوں نے اپنے انتہائی کمال کے باوجود گم کردہ راہی  اور  زبوں کاری کے سوا کیا پایا۔ اس کی قیامت خیز جد و جہد سے آسمان کانپ اٹھا، زمین تھرا گئی، انسان کے کلیجے ہیبت سے پھٹ گئے۔ لیکن آخر کا ر انسانی تدابیر کی بے پناہ قوتیں اپنے عمل کے تخریبی نتائج سے خود کو بھی نہ بچا سکیں۔ اسرار حیات کی تاریکیوں کو علم  و دانش کے  آفتابوں سے روشن کرنے والا انسان غلط بینی کا شکار ہو کر حرمان نصیبی کی آپ اپنی مثال بن کر رہ گیا۔ فطرت انسان کی نظروں سے فریب کے پردے یکے بعد دیگرے اٹھاتی جا رہی ہے کہ وہ غور و فکر سے نہیں تو مشاہدے ہی سے انسانی تدابیر کی رسوائیاں دیکھ لے۔

اختر:لیکن اس حقیقت کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو قوم اپنی توانائیوں کی ناقابل تسخیر کیفیت کو زندگی کی مصنوعی پابندیوں سے مغلوب کرنا چاہتی ہے ، اسے زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

محمود:(مسکراتے ہوئے) آپ کے اس نیک خیال سے کس بدبخت کو اختلاف ہے۔

اختر:اس عدم اختلاف کے باوجود اتفاق بھی تو نہیں ہے۔

محمود:یہ ہماری بدقسمتی ہے۔

منشی منیر:(مسکرا کر) اختر صاحب کی نفی میں بھی اثبات کا پہلو نکلتا ہے۔ (اختر سے) اگر اجازت ہو تو ایک شعر عرض کروں۔

اختر:(مسکراتا ہے) آپ کی عنایت کا ممنون ہوں۔ ارشاد۔

منشی منیر:آپ کی قدردانی کا شکر گذار ہوں۔

(سب مسکراتے ہوئے منشی منیر کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔)

(اختر سے) بھائی سید زادے ہو، برا نہ ماننا۔ شعر عرض کرتا ہوں :

شیخ کو بھی اب بت کافر نے اپنا کر لیا

دین سے کیا ہو سکا ایمان نے کیا کر لیا

(سب قہقہہ لگاتے ہیں۔)

***

ماخذ:  طویل ڈرامہ ’’کشمکش‘‘

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔