02:11    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ڈرامے

1397 0 0 00

عشق کے بعد - کرشن چندر

کردار

لیلیٰ۔۔۔ مجنوں۔۔۔ مجنوں کی ماں۔۔۔ رومیو

جولیٹ۔۔۔ ہیر۔۔۔ رانجھا۔۔۔ راوی

چپڑاسی۔۔۔ فلم ڈائریکٹر۔۔۔ کلرک وغیرہ

وقت۔۔۔۔۔۔ زمانہ حال

(جب پردہ اٹھتا ہے تو اسٹیج  پر اندھیرا ہے۔ صرف دائیں وینگ میں ایک چھوٹا سا لیمپ شیڈ روشنی کا ایک کمزور سا ہالہ بنائے ایک چھوٹی تپائی پر جھکا ہوا ہے اس تپائی کے سامنے ایک آرام کرسی پر ایک ادھیڑ عمر کا خوش پوش آدمی بیٹھا ہے  اور ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ جب پردہ اٹھتا ہے تو اس کے چند لمحوں کے بعد وہ آدمی اپنی عینک رومال سے صاف کرتے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کے کہتا ہے۔)

راوی:آپ نے سنا ہو گا کہ محبت لازوال ہے۔ ابدی ہے کبھی نہیں مٹتی کبھی نہیں مرتی۔ سچی محبت کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اگر  یہ سچ ہے تو لیلیٰ مجنوں ، ہیر رانجھا، سستی پنوں ، رومیو جولیٹ آج بھی زندہ ہیں  اور  محبت کر رہے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے لیکن پہلے میں اسے سچ نہیں سمجھتا تھا لیکن ایک دن کیا ہوا میں شام کے وقت شہر کے باہر چہل قدمی کو نکلا  اور  ذرا دور نکل گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک سے ذرا ہٹ کے خانہ بدوشوں کی دوچار جھونپڑیاں ہیں  اور ان میں سے آخری  اور  گندی جھونپڑی کے دروازے پر ایک آدمی دستک دے رہا ہے  اور  زور زور سے چلا رہا ہے۔

(دستک کی آواز آتے ہی اسٹیج پر دھیرے دھیرے روشنی پھیلنے لگتی ہے  اور  وینگ کے قریب کا لیمپ شیڈ بجھ جاتا ہے  اور کتاب پڑھنے والا آدمی کتاب لئے ہوئے ونگ کے اندر چلا جاتا ہے۔ اب اسٹیج کے اجالے میں ایک ٹوٹے ہوئے جھونپڑے کا اندرونی حصہ نظر آتا ہے۔ انتہائی مفلسی کا عالم ہے۔ دیواروں پر دھوئیں کی  کلونچ ہے۔ ایک کونے میں لیلیٰ چولھے میں گیلی لکڑیاں سلگانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ بار بار پھونک مارنے سے اس کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ  تمتما اٹھتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ جھونپڑا دھوئیں سے بھر رہا ہے۔ تیسری چوتھی دستک پر لیلیٰ چولھے سے اٹھ کر بائیں وینگ پرجا کر دروازہ کھولتی ہے۔)

مجنوں :لیلیٰ!اے لیلیٰ!اری کمبخت لیلیٰ!! کدھر مر گئی؟دروازہ کھول۔ کب سے کھڑا دروازے پر چلا رہا ہوں۔

لیلیٰ آئی مجنوں۔ آئی!

(دروازہ کھلتا ہے۔)

لیلیٰ:کیا بات ہے؟اتنے زور سے دروازہ پیٹ رہے ہو۔ اگر کہیں دروازہ ٹوٹ جاتا تو؟۔۔۔

مجنوں :تو نیا آ جاتا۔

لیلیٰ:(نقل کر کے) نیا آ جاتا۔۔۔ کہاں سے آ جاتا؟شادی ہوئے اتنے سال ہونے کو آئے ایک چاندی کا چھلا تولا کے دیا نہیں۔

مجنوں :محبت کو سونے  اور چاندی میں نہیں تولا کرتے میری جان!(کھانستا ہے) توبہ توبہ  کتنا دھواں ہو رہا ہے۔

لیلیٰ:جنگل میں گیلی لکڑیاں ہیں۔ دھواں نہ دیں گی تو کیا آگ برسائیں گی۔ تم سے تو اتنا نہ ہوا کہ مہینے میں ایک بوری کوئیلے ہی کی لا دیتے۔

مجنوں :لیلیٰ !لیلیٰ!میں آج بھی تمہارے لئے اپنی جان دے سکتا ہوں !

لیلیٰ:جان دے سکتے ہو لیکن  کوئیلے کی ایک بوری نہیں دے سکتے۔

مجنوں :کہو تو میں تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ لاؤں؟

لیلیٰ:لیکن چار گز لٹھا نہیں لا سکتے۔ دیکھتے نہیں ہو میری قمیص کا کیا حال ہو رہا ہے !

مجنوں :اماں کہاں ہیں؟

لیلیٰ:اونٹ کو چرانے لے گئی ہیں۔ بس تمہیں تو ہر وقت اپنی اماں کی فکر پڑی رہتی ہے۔ جب باہر سے آؤ گے پوچھو گے۔ اماں کہاں ہیں؟ باہر جاؤ گے میری امی! اچھی امی!تمہاری امی نہ ہوئیں میری جان کا روگ ہو گئیں۔ امی بڑھیا ہو گئیں لیکن کھانے میں دس جوانوں کو بھی مات کرتی ہیں۔ پرات کو ہاتھ لگائے تو روٹیاں غائب کر دے۔ ہانڈی کو ہاتھ لگائے تو سالن کی صفائی۔ جانے اس کا پیٹ ہے کہ شمعون  کا اصطبل۔ جتنا گھاس دانہ، چارہ  ڈالو سب ختم ہو جاتا ہے۔

مجنوں :میری اماں کو گالی نہ دوجی۔ میں تم سے ہزار بار کہہ چکا ہوں کہ میں تمہاری سب باتیں گوارا کر سکتا ہوں۔لیکن اپنی اماں کے لئے گالی نہیں سن سکتا۔نہیں سن سکتا(اور اونچی  آواز سے) نہیں سن سکتا۔سنتی ہو؟

لیلیٰ:سنتی ہوں۔ کوئی بہری نہیں ہوں۔ ہاں اگر اس جھونپڑی میں چند سال تمہارے ساتھ رہ گئی تو شاید بہری بھی ہو جاؤں۔ ہائے کیسی بری گھڑی تھی جب۔۔۔ جب۔۔۔ میں تمہاری میٹھی میٹھی محبت کی باتوں میں آ گئی  اور تمہارے ساتھ جنگل میں چلی آئی۔

(سسکی لے کر روتی ہے۔)

مجنوں :لیلیٰ!لیلیٰ! میری جان، مجھے معاف کر دو۔ میں ذرا غصے میں تھا۔ دن بھر کا تھکا ہارا چلا آ رہا تھا۔ یہاں آ کر تم سے کچھ کڑوی باتیں سننے کو ملیں۔ منہ کا  مزہ  اور بگڑ گیا۔ جان من!کیا کروں میرا دل خود نہیں چاہتا کہ اپنی نازوں سے پالی، شاہی محلوں میں رہنے والی لیلیٰ کو اس خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور کروں لیکن کیا کروں کہیں نوکری نہیں ملتی۔

لیلیٰ:آج Employment Exchange   کے دفتر میں نہیں گئے تھے؟

مجنوں :گیا تھا۔

لیلیٰ:پھر کیا ہوا؟

مجنوں :وہاں بے کارلوگوں  کا بہت بڑا کیؤ لگا تھا۔ کہیں دو گھنٹے کے بعد میری باری آئی۔

(مجنوں اپنے مکالمے کے دوران میں اسٹیج کے مرکزی پردے کی طرف ہٹتا ہے۔ مرکزی پردے کو ہاتھ لگاتے ہی وہ پردہ اوپر اٹھ جاتا ہے۔ جھونپڑے والے سیٹ کی روشنی گل ہو جاتی ہے  اور اندر والا سیٹ روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی روشنی چھن چھن  کر سامنے والے جھونپڑے کے سیٹ پر پڑتی رہتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیج کا اگلا حصہ اندھیرے میں ہے  اور اس اندھیرے میں لیلیٰ کھڑی گزشتہ منظر دیکھ رہی ہے۔ پیچھے حصے کے اسٹیج میں ایک Employment Exchange   کا دفتر دکھائی دیتا ہے۔ یہاں بے کار نوجوانوں کا کیؤ کے کچھ نوجوان آگے کی میزوں پر اپنے کاغذات مکمل کرا رہے ہیں۔ مجنوں بیچ والی میز کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اس میز کا کلرک اس سے سوال کرتا ہے۔)

کلرک:تمہارا نام؟

مجنوں :مجنوں !

کلرک:باپ کا نام؟

مجنوں :خلدون۔

کلرک:کہاں تک تعلیم پائی ہے؟

مجنوں :جی؟

کلرک:میرا مطلب ہے کہ میٹرک پاس ہو کربی اے ، ایم اے ، کون سی ڈگری لے چکے؟

مجنوں :فی الحال تو ایک پٹھان نے میرے خلاف ایک ڈگری لے لی ہے عدالت سے۔ ایک سال سے جھونپڑے کا کرایہ نہیں دیا تھا۔

کلرک:تو گویا تم پڑھے لکھے بالکل نہیں ہو؟

مجنوں :جی نہیں۔ البتہ مادر زاد شاعر ضرور ہوں۔

کلرک:شاعری کا نوکری سے کیا تعلق؟اچھا  اور کیا کام کرتے ہو؟

مجنوں :جی عشق کرتا ہوں  اور صحرا صحرا ریت چھانتا ہوں  اور جب اس سے جی اکتا جائے تو گریبان  پھاڑ کر لیلیٰ لیلیٰ چلانے لگتا ہوں :

(گاتے ہوئے)

لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بن میں

میری لیلیٰ بسی میرے من میں

(مجنوں گاتے گاتے چپ ہو جاتا ہے۔)

کلرک:میرے خیال سے مجنوں صاحب اگر آپ نوکری ڈھونڈنے سے پہلے کسی ڈاکٹر  سے رجوع کریں تو  اچھا رہے گا۔ آپ کی دماغی حالت مجھے بہت مخدوش دکھائی دیتی ہے۔Next۔

(جب کلرکNext   کہتا ہے تو مجنوں مایوسی سے ہٹتا ہے  اور اسٹیج کے پہلے حصے یعنی اپنے جھونپڑے کے سیٹ کی طرف چلتا ہے۔ پچھلے سیٹ کی روشنی گل ہو جاتی ہے  اور جب مجنوں اپنے جھونپڑے کے سیٹ میں داخل ہوتا ہے تو مرکزی پردہ پھر گر کر اسٹیج کے پچھلے حصے کو غائب کر دیتا ہے۔ مجنوں پریشان حال لیلیٰ کی طرف دیکھتا ہے جو آہستہ آہستہ سسکیاں لے رہی ہے۔)

مجنوں :تو یہ ہے آج کل کا زمانہ۔ یہ لوگ سچی محبت کرنے والے کو بے کار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بہت بڑا کام ہے۔ آپ ذرا چوکے  اور محبوب غائب۔

لیلیٰ:لیکن اب تو تم پہلی سی محبت بھی مجھ سے نہیں کرتے۔

مجنوں :مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ!

لیلیٰ:کیوں؟

مجنوں :دیکھو اب تم خود وہ پہلی سی نہیں رہیں بہت دبلی ہو گئی ہو۔

لیلیٰ:میں دبلی ہو گئی ہوں  اور تم موٹے ہو گئے ہو۔ ذرا آئینے میں اپنی صورت تو دیکھو کلے پر کلا چڑھتا آ رہا ہے۔تمہاری صورت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ دہی آوارہ مزاج، آشفتہ سر مجنوں ہے۔ جو صحرا صحرا جنگل جنگل اپنی محبوبہ کی محبت میں بے چین پھر تا تھا۔ ارے کچھ تو شرم کرو۔ میں تمہارے لئے گھر سے بھاگی۔ جنگل میں آ کے رہی۔ آج بھی تمہارے لئے فاقے کرتی ہوں۔ کھانا پکاتی ہوں۔ چولھے میں سر جھونکتی ہوں۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتی ہوں۔ تار تار چیتھڑوں میں رہتی ہوں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر تمہیں کھلاتی ہوں۔ لیکن ایک تم ہو کہ میرے لئے نخلستان کی کھجوریں بھی نہیں لاتے۔

مجنوں :کیا کروں لیلیٰ کھجوریں مہنگی ہو گئی ہیں۔

مجنوں کی ماں :اری او مردار چڑیل کیا  ٹھسکے سے کھڑی میرے بچے سے باتیں کر رہی ہے۔ اری دیکھتی نہیں چولھے پر ہانڈی ابلی جا رہی ہے۔

لیلیٰ:(آہستہ سے) تمہاری امی آ گئیں (زور سے) معاف کرو اماں ، باتوں ، باتوں میں دھیان نہ رہا۔

مجنوں کی ماں :باتوں باتوں میں دھیان نہ رہا۔ مردار چین سے پڑی کھاتی ہے۔

لیلیٰ:بہت لاڈ لڈاتی ہونا اماں مجھے۔ بہت سا زیور دیا تھا تم نے شادی میں مجھے۔۔۔ !

ماں :اری گھر سے بھاگنے والیوں کو بھی کوئی زیور دیتا ہے۔ وہ تو خود جہیز گھر سے لاتی ہیں۔ اتنے امیر باپ کی بیٹی  اور  دو کپڑوں میں اونٹ پر سوار ہو کر آ گئی۔ میں تو کہہ رہی تھی مجنوں سے ، برا پھنس رہا ہے۔ محبت میں دولت نہیں ملتی  اور  جہاں دولت نہ ہو وہاں آخر میں دلندری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

لیلیٰ:اچھا تو میں دلندر ہوں؟

ماں :میرا مطلب۔۔۔

لیلیٰ:پھر کہہ تو سہی۔ نک کٹی۔ ندیدی۔ چڑیل!

مجنوں :میری اماں کو گالی نہ دو۔۔۔

لیلیٰ:کیوں نہ دوں۔ کیا ملا ہے مجھے تمہارے گھر آ کے؟طعنے ، فاقے ، روزے ، دھکے ، مکے ، گالی گلوج!یہی تمہاری سچی محبت تھی۔۔۔؟ مجنوں کے بچے؟کیا کھا کے بھینس کی طرح پھیل گیا ہے  اور میں تمہاری خدمت کرتی کرتی سوکھ کر کانٹا ہوتی جا رہی ہوں۔ کیا میری خدمت کا یہی صلہ ہے؟لاؤ میرا اونٹ کس دو۔ اس پر کجاوا  اور  محمل میں ابھی اپنے میکے جاتی ہوں۔

ماں :جا جا!میکے کی دھمکی نہ دے۔ میرے لڑکے کے لئے ایک نہیں ہزار بیویاں ہیں۔

لیلیٰ:بکواس نہ کر!

ماں :تو بکواس نہ کر!

لیلیٰ:(چانٹا مار کر) مردار!

ماں :(جواب میں چانٹا مار کر) بھٹیل!

لیلیٰ:بللی!

ماں :بد قدمی!

(لیلیٰ  اور مجنوں کی ماں میں بڑی زوردار لڑائی ہوتی ہے۔ اس لڑائی کے دوران میں مجنوں کبھی اپنی ماں سے ، کبھی اپنی لیلیٰ سے پٹ جاتے ہیں ، آہستہ آہستہ پردہ گرتا ہے۔)

(جب دوسرے منظر پر پردہ اٹھتا ہے تو پہلے منظر کا راوی وکیل کے لباس میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ ایک خوش حال وکیل کا کمرہ نہیں ہے۔ زمانے کی ناقدری کے ستائے ہوئے غریب وکیل کا کمرہ معلوم ہوتا ہے۔ فرنیچر سے ، کتابوں کی جلدوں سے ، کمرے کی دیواروں سے  اور خود اس کے اپنے لباس سے اس ادھیڑ عمر کے وکیل کی غربت نمایاں ہو جاتی ہے۔

وکیل ہاتھ میں ایک کتاب لئے پڑھ رہا ہے۔ پردہ اٹھنے کے چند ثانیوں کے بعد تماشائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔)

راوی:آہ!کیا یہی ہے انجام وفا؟کیا یہی وہ لیلیٰ تھی جس کی شرمیلی نگاہوں  اور  لجائی ہوئی اداؤں نے مجنوں کو پاگل بنا دیا تھا  اور اسے دشت پیمائی کے لئے مجبور کر دیا تھا۔ کیا یہی وہ مجنوں تھا جو لیلیٰ کی قسم نہیں کھاتا تھا۔ جو جنگل کے درختوں سے ، صحرا کی چٹانوں  اور  ریت کے بگولوں سے لیلیٰ کا پتہ پوچھتا تھا۔ عقل حیران تھی یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ لیکن آدمی آنکھوں دیکھی بات پر کیسے یقین نہ کرے۔ پھر بھی میں نے یہ سوچ کر اپنے ذہن کو تسلی دے دی کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ برے حالات میں بعض آدمی برے بن جاتے ہیں یعنی جب آٹا مہنگا ہوتا ہے تو عشق سستا ہو جاتا ہے۔ بلکہ بالکل بے قدر ہو جاتا ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ چلو کیا ہوا اگر لیلیٰ مجنوں ایک دوسرے سے نباہ نہ سکے۔۔۔  ابھی محبت جوان ہے ، عشق زندہ  اور  پائندہ ہے۔ دنیا میں ایک اکیلا، واحد جذبہ ہے۔ جو دوسرے حالات کے ساتھ نہیں بدلتا۔ بلکہ ایک، چٹان کی طرح، روشنی کے مینار کی طرح مشعل ہدایت بن کر کھڑا رہتا ہے۔ کیا ہوا اگر لیلیٰ مجنوں کمزور  اور بودے نکلے۔ ابھی دنیا میں شیریں فرہاد سستی پنوں ، ہیر رانجھا  اور  رومیو جولیٹ کی لازوال محبت موجود ہے۔۔۔ یہی سوچ کر میں نے اپنے دل کو تسلی دے لی۔ لیکن پھر ایک دن کیا ہوا، میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ چپراسی نے ایک کارڈ لا کے دیا۔ کارڈ پر لکھا تھا۔

’’رومیومانٹگیو(Romeo Mantague) 

راوی:(چپراسی سے) رومیو مانٹگیو کون ہے؟

چپراسی:صاحب کوئی یورپین معلوم ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ میں ایک میم بھی ہے۔

راوی:اچھا تو انہیں اندر بلاؤ۔

رومیو:Good Morning 

جولیٹ:Good Morning 

راوی:گڈ مارننگ تشریف رکھئے۔

رومیو:معاف کیجئے گا۔ بغیر اپوائنٹ منٹ کے آپ کے پاس چلے آئے لیکن معاملہ ہی کچھ ایسا ہے۔ آپ وکیل ہیں۔ اس لئے آپ سے مشورہ کرنا بہت ضروری ہے۔

راوی:فرمائیے !

رومیو:جی وہ قصہ یہ ہے۔ مگر ٹھہرئیے۔ پہلے میں اپنا تعارف کرا دوں۔ میرا نام رومیو مانٹگیو ہے۔ یہ میری بیوی جولیٹ ہے۔

جولیٹ:(امریکن لہجے میں) ہائی یا گاگا!

رومیو:وہ ہمارا قصہ تو آپ نے سنا ہو گا؟

راوی:جی کچھ یاد تو آتا ہے۔

رومیو:ہم دونوں اٹلی کے ایک شہر دی اینا میں رہتے ہیں۔ میرا باپ  مانٹگیو قبیلے کا سردار تھا  اور میری بیوی جولیٹ  کا باپ کیہولٹ قبیلے کا سردار تھا۔

راوی:اچھا اچھا یاد آیا۔ آپ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن آپ کے ماں باپ۔۔۔ میرا مطلب ہے آپ دونوں کے قبیلے والے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔

رومیو:ابھی تک ہیں صاحب ابھی تک ہیں۔ محبت مر جاتی ہے لیکن ان کمبخت انسانوں کی دشمنی کبھی نہیں مرتی۔

راوی:آپ بہت مایوس معلوم ہوتے ہیں؟

رومیو:جی زندگی نے بہت تلخ تجربے سکھائے ہیں۔

راوی:یہ تو صحیح ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد آتا ہے۔ آپ دونوں کی خفیہ شادی ہوئی تھی لیکن اس میں جولیٹ یعنی آپ کی بیوی کے ماں باپ ان کی شادی نہیں کر رہے تھے  اور پھر کچھ ایسا کہ ایک قبرستان میں جب آپ جو لیٹ سے ملنے گئے وہاں آپ نے جولیٹ کی لاش دیکھی  اور  زہر کھا لیا  اور پھر شاید جولیٹ مری نہیں تھی۔ میرا مطلب ہے آپ جب اٹھیں تو آپ نے رومیو کو مردہ پایا  اور خنجر سینے میں چبھو کے مر گئیں۔

جولیٹ:(طنزاً) جی۔ جی۔جی۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس زہر کھانے کے بعد یہ رومیو صاحب بچ گئے۔ کیوں کہ انھوں نے جس ڈاکٹر  سے زہر لیا تھا۔ اس کمبخت نے اس زہر میں اس کا توڑ بھی شامل کر دیا تھا۔

راوی:بہت خوب!

رومیو:(طنزاً) جی ہاں۔  اور ان کے ساتھ یعنی میری بیوی کے ساتھ بھی یہی حادثہ ہوا کہ جب یہ میری محبت میں مرنے جا رہی تھیں تو خنجر ان کے سینے میں اترنے کے بجائے ذرا پسلیوں کی طرف چلا گیا  اور ہہ بچ گئیں۔

جولیٹ:بس اسی غلطی کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہوں۔

راوی:میڈم یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ آپ لوگوں کی محبت تو لا زوال ہے۔ ولیم شیکسپیئر ایسے عظیم ڈرامہ نگار نے آپ کی محبت کو زندۂ جاوید کر دیا ہے دنیا آپ کی محبت پر سر دھنتی ہے  اور  روتی ہے۔

جولیٹ:جیسے میں آج تک رو رہی ہوں۔

راوی:کیا بات کیا ہے میڈم؟

جولیٹ:جی بات صرف اتنی ہے کہ میں عاجز آ گئی ہوں  اور ان سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔

راوی:طلاق؟ اور رومیو سے؟میڈم یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟دنیا کیا کہے گی۔ خود ہمارا ولیم شیکسپیئر کیا کہے گا۔ اس بے چارے نے تو ایک پورا ڈرامہ آپ کی مدح سرائی میں۔۔۔

جولیٹ:چولھے میں جائے دنیا  اور  بھاڑ میں جائے شیکسپیئر!میں تو رومیو سے طلاق لے کر ہی چھوڑ دوں گی۔

راوی:لیکن اس میں رومیو کا قصور کیا ہے ، کیوں صاحب؟

(رومیو سے مخاطب ہو کر)

رومیو:اجی صاحب!میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے اس پھوہڑ عورت کے لئے اپنا وطن چھوڑ دیا  اور ہندوستان میں آ کر سر چھپایا تا کہ ہم اپنے قبیلے والوں کی دشمنی سے محفوظ رہیں۔

راوی:یہاں آپ کیا کام کرتے ہیں؟

رومیو:جی میں چمڑے کا سوداگر ہوں۔ خدا کے فضل و کرم سے میرا کاروبار اچھا چل رہا ہے۔ چمڑا کالا ہو، گورا ہو، میں سب بیچتا ہوں  اور  اپنا نفع نکالتا ہوں۔ میرے پاس ایک کا رہے۔ ایک کوٹھی ہے۔ نوکر چاکر اللہ کا دیا بہت کچھ موجود ہے۔

راوی:پھر میڈم آپ ان سے طلاق کیوں لینا چاہتی ہیں؟

جولیٹ:میں۔۔۔ میں۔۔۔ دیکھئے وکیل صاحب یہ ہر روز گھر پر رات کے ڈیڑھ بجے ، دو بجے شراب کے نشے میں دھت آتے ہیں  اور آتے ہی بستر پر جوتوں سمیت دراز ہو جاتے ہیں۔ میں کسی ایسے آدمی کی بیوی بن کے نہیں رہ سکتی جو جوتوں سمیت بستر پرسوتا ہو اور رات کے بارہ گھنٹوں میں دس گھنٹے خراٹے لیتا ہو۔

راوی:لیکن آپ تو ان سے شدید محبت کرتی ہیں نا؟مجھے یاد ہے جب آپ نے رومیو کو اس قبرستان میں مردہ پایا تھا، تو کہا تھا۔۔۔

جولیٹ:میں سناتی ہوں۔۔۔

What's Hear? A cup closed in my True love's Hand? Poison I see Hath been his timeless end o churl, drunk all, and left no friendly drop to help me after?

I will kiss thy lips .......

جولیٹ:یہی کہا تھا نا؟

راوی:جی کچھ ایسا ہی میں نے شیکسپیئر کے ڈرامے میں پڑھا تھا۔

جولیٹ:شیکسپیئر بے چارہ کیا جانے۔ اسے کبھی رومیو کے خراٹوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ اجی صاحب میں کہتی ہوں جب یہ خراٹے لیتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دو ہزار گھوڑے ایک ساتھ ہنہنا رہے ہوں۔ میری محبت اگر  کوہ ہمالیہ جتنی مضبوط ہوتی تو بھی ان خراٹوں کے سامنے کبھی نہ ٹھہر سکتی تھی۔ لیکن میں تو گوشت پوست کی بنی ہوئی ایک معمولی عورت ہوں۔

راوی:میرے خیال میں اگر  آپ کی محبت میں صرف ان کے خراٹے ہی حائل ہیں تو ان  کا تو بہت آسانی سے علاج ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اگر  آپ اپنے شوہر کی غذا میں تھوڑی سی اصلاح۔۔۔

رومیو:ہاہاہا۔ کیا کہا آپ نے غذا میں اصلاح؟میری ڈارلنگ جولیٹ کو وکیل صاحب، فرصت ہی کہاں ہے کہ اس غریب کی غذا پر دھیان دیں یہ تو دن بھر لپ اسٹک  اور پوڈر اور پھر پک نک  اور پھر شام کو کبھی اس کلب میں کبھی اس کلب میں کبھی اس پارٹی میں کبھی اس پارٹی میں کبھی اس شغل میں کبھی اس شغل میں  اور جانے کیا  کیا کچھ۔ اب میں کیا بتاؤں بس میں تو ابلے ہوئے آلو اور گوبھی کھا کر سور بن رہا ہوں۔

(ڈکارتا ہے)

جولیٹ:دیکھا آپ نے اس جانور کی ساری خصلتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔ ایک ڈکارنے پرہی کیا موقوف ہے۔ ان کی محبت بھی اسی طرح کی ہو گئی ہے۔ آج کل مجھے چھوڑ کراس حرافہ روزالین کے چکر میں گرفتار ہیں جسے چھوڑ کر انھوں نے مجھ سے شادی کی تھی  اور  اب مجھ سے شادی کر کے اب پھر اسی کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔

راوی:رومیو اور بے وفا!چچ چچ، مسٹر رومیو! شیکسپیئر کیا کہے گا؟

رومیو:اب کچھ بھی کہے صاحب!لیکن حق بات تو یہ ہے کہ روزالین  کو چھوڑ کر میں نے سخت غلطی کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ جولیٹ  کی طرح حسین نہیں ہے لیکن صاحب!دنیا میں صرف حسن ہی پر گزر نہیں ہو سکتی  اور سچ بات تو یہ ہے مسٹر کہ  روزالین میرا بہت خیال رکھتی ہے  اور کھانے تو اتنے اچھے پکاتی ہے کہ کیا کہوں۔ کسی روز آپ آئیے نا؟

جولیٹ:ہاں ہاں لے جاؤ ان کو بھی ساری دنیا کو دکھا لو کہ تم کتنے شریف ہو۔

رومیو: اور اپنی شرافت کی بھی تو بات کرو۔ میں عورت سمجھ کے چپ ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم سر پر چڑھتی جاؤ۔ میں اندھا نہیں ہوں کہ تمہاری حرکات پر نظر نہیں رکھ سکتا۔ مجھے معلوم ہے کہ تم کہاں کہاں جاتی ہو اور کن کن بہانوں سے ارل پیرس سے ملتی ہو۔

جولیٹ:ہاں ملتی ہوں !ملتی ہوں !اب تم اس طرح کہو گے تومیں بھی ساری دنیا کے سامنے چیخ چیخ  کر کہوں گی، میں ارل پیرس سے ملتی ہوں۔ وہ مجھے بہت پسند ہے۔ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔

راوی:ارل پیرس سے؟لیکن میڈم وہ تو عمر میں آپ سے زیادہ۔۔۔ شیکسپیئر نے تو یہی لکھا ہے۔

جولیٹ:اجی عمر زیادہ ہے تو کیا ہوا۔ عقل بھی زیادہ ہے۔ زندگی کا تجربہ بھی زیادہ ہے اس کے پاس  اور بڑی بات یہ ہے وکیل صاحب کہ وہ آدمی میرے جذبات کا انتہا سے زیادہ احترام کرتا ہے۔

رومیو:یوں کیوں نہیں کہتی کہ وہ ایک بالکل چغد ہے۔

جولیٹ:چغد تم ہو۔

رومیو:شٹ اپ۔

جولیٹ:یو شٹ اپ۔

رومیو:عدالت میں چلو۔

جولیٹ:چلو ابھی چلو۔

رومیو: اور طلاق؟

جولیٹ:طلاق وکیل صاحب؟

رومیو:طلاق؟

راوی:لیکن صاحب ولیم شیکسپیئر کیا کہے گا؟

جولیٹ:میں کچھ نہیں سنوں گی۔ مجھے فوراً طلاق چاہئے۔

رومیو:میں کچھ نہیں سنوں گا۔ مجھے فوراً طلاق چاہئے۔

(وہی کمرہ جو دوسرے منظر میں تھا۔ لیکن اس وقت کمرے میں اندھیرا ہے  اور ہمارا راوی اسی طرح پہلے منظر کی جگہ پر دائیں ونگ کے قریب ایک تپائی پر ایک لیمپ شیڈ کے سامنے جھکا ہوا ہے  اور ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ پردہ اٹھنے کے بعد کتاب سے نظریں اٹھا کر تماشائیوں پر گاڑ دیتا ہے  اور کہتا ہے۔)

راوی:میں نے ان کا مقدمہ نہیں لیا۔ اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ آگے چل کے رومیو جولیٹ  کا کیا ہوا۔ کیا انھوں نے طلاق لے لی؟یا پھر وہ دونوں ایک ہو گئے  اور محبت کی وادیوں میں کھو گئے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کی تلخ کلامی نے ایک گہرا اثر میرے ذہن پر چھوڑا  اور میں اس واقعے کے کئی دن بعد تک  مضطرب  اور  پریشان سا رہا۔ کیونکہ اس واقعے نے میرے دل کے بہت سے رومانی سپنے  اور  سہارے توڑ دئیے تھے۔

ایک روز میں اپنے کمرے میں بیٹھا بالکونی کے قریب کتاب پڑھ رہا تھا ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ جھکڑ بھی چل رہا تھا کبھی کبھی بجلی بھی کوند جاتی تھی۔ بہت خوشگوار سماں تھا۔ میں اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔ یکایک بجلی کا ایک روز کا کوندا لپکا  اور میرے دروازے کے پٹ زور سے کھل گئے  اور میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان مرد اور ایک نوجوان عورت دونوں پانی میں بھیگے ہوئے میرے کمرے میں داخل ہوئے۔ میں بالکونی میں اندھیرے میں تھا اس لئے ان کی نظر مجھ پرنہ پڑی۔

(راوی کی لیمپ شیڈ کی بتی گل ہو جاتی ہے۔ کمرے میں اندھیرا  اور  بڑھ جاتا ہے۔)

رانجھا:(ہنس کر)ہیرئیے !شکر کہ اس کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ نہیں تو بارش  اور  جھکڑ سے بھیگ جاتے۔

ہیر:یہ کمرہ کس کا ہے رانجھا؟

رانجھا:کسی کا بھی ہو ہیرئیے !اپنے کو کیا لینا۔ ذرا پل کی پل رک جائیں گے۔ بارش تھم جائے گی تو چلے جائیں گے۔

ہیر:کہاں؟

رانجھا:وہیں باہر فٹ پاتھ پر۔

ہیر:رانجھے !میں اسی لئے تم سے کہتی تھی۔ اپنا گاؤں چھوڑ کر بمبئی مت چلو۔

رانجھا:میرے گاؤں میں سب میرے دشمن تھے۔ کوئی مجھے نہیں چاہتا تھا تیرے سوا۔ وہاں اگر  ہم رہتے تو ہماری محبت کبھی زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔

ہیر:لیکن وہاں دو وقت روٹی تو ملتی تھی  اور لسی بھر اچھنا  اور مکھن سے بھرا ہوا  کٹورہ  اور سرسوں کا ساگ  اور کھلی ہوئی فضا  اور تم کبھی جو گی بن کر میرے پاس آ جاتے تھے ، تو میرے دل کے ہر کونے میں رنگین تتلیاں سی اڑنے لگتی تھیں۔

رانجھا: اور آج کل چوہے دوڑ رہے ہیں پیٹ میں (ہنس کر) سچ مچ ہیرئیے لسی پئے تو ایک عرصہ ہو گیا۔ سرسوں کا ساگ کھائے ہوئے کئی سال ہو گئے  اور مکھن یعنی مسکہ تو یہاں کھایا نہیں جاتا۔ صرف خوشامد میں لگایا جاتا ہے۔

ہیر:سچ مچ تم بہت دبلے ہو گئے ہو۔

رانجھا:یاد ہے جب ہم پہلے دن اس شہر میں آئے تھے  اور لسی پینے کے لئے ایک حلوائی کی دوکان پر آئے تھے  اور اسی سے لسی بنانے کو کہا تھا۔ اس نے پوچھا تھا لسی کتنے دہی کی بناؤں۔ میں نے کہا تھا، اس برتن میں جتنا دہی ہے سب کی بنا دو۔

ہیر: اور وہ حلوائی یہ سنتے ہی غش کھا کے گر گیا تھا۔

(دونوں ہنستے ہیں۔)

ہیر:یہاں اندھیرا بہت ہے رانجھا۔

رانجھا:دیکھتا ہوں۔ بتی بجلی کہیں ہو گی(سوچ کر) لو روشنی بھی ہو گئی۔

ہیر:یہ بجلی بھی خوب چیز ہے رانجھا۔ بٹن دباؤ  اور  روشنی ہو جاتی ہے۔ ہمارے زمانے میں بجلی نہیں تھی۔

رانجھا:لیکن ہمارے زمانے میں بٹن دبانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ ہم ایک لمحے میں تیرے رخ روشن سے اپنے دل میں اجالا کر لیتے تھے  اور  پھر اس روشنی پر کوئی ٹیکس بھی تو نہیں دینا پڑتا۔

ہیر:رانجھا مجھے بہت بھوک لگی ہے۔

رانجھا:تین دن سے میں نے بھی کچھ نہیں کھایا ہیرئیے !تین دن سے ایسی لگاتار بارش ہو رہی ہے کہ کسی کام پربھی نہیں جا سکتا۔ اس بارش کی وجہ سے بلڈنگ باندھنے کا کام بھی بند ہے۔ پہلے اینٹیں ڈھونے کی مزدوری تو مل جاتی تھی۔ اب وہ بھی بند ہے۔

ہیر:غریب آدمی بارش میں کیا کرتے ہوں گے؟

رانجھا:ہماری طرح بارش میں بھیگتے ہوں گے  اور بھوکے رہتے ہوں گے۔

ہیر:بڑی مصیبت ہے۔

رانجھا:مصیبت توہے لیکن ہمت کرو تو بڑی سے بڑی مصیبت بھی کٹ جاتی ہے۔ ارے ہاں۔۔۔ میں تو تم سے پوچھنا بھول ہی گیا۔ تم اس فلم کمپنی میں گئی تھیں؟

ہیر:کسی فلم کمپنی میں؟

رانجھا:وہ جہاں ہیر رانجھے کا فلم بن رہا ہے۔ یعنی اپنی محبت کی کہانی کا۔

ہیر:ہاں گئی تھی۔

رانجھا:ڈائرکٹر سے ملی تھیں؟

ہیر:ہاں ملی تھی۔

رانجھا:پھر۔۔۔؟

ہیر:وہ تو بہت ہی عجیب آدمی معلوم ہوتا ہے۔ وہاں تو سب کے سب بہت عجیب سے آدمی بیٹھے تھے میں اندر داخل ہوئی تو مجھے ایسے گھورنے لگے جیسے گوالا بھوری بھینس کو دیکھ کر گھورتا ہے۔ ڈائرکٹر نے مجھ سے پوچھا۔۔۔

(یکایک ہیر گھوم کر اپنے بیچ کے مرکزی پردے کی طرف چلنے لگتی ہے پردے کے قریب پہنچتے ہی پردہ اٹھ جاتا ہے  اور وکیل کے سیٹ پر اندھیرا چھا جاتا ہے  اور پچھلے سیٹ پر روشنی ہو جاتی ہے۔ یہ ایک فلم کمپنی کا دفتر ہے۔ جہاں چھ سات آدمی ٹوٹے ہوئے پیالوں میں چائے پی رہے ہیں۔ چائے پلانے والا نوکر صورت سے بالکل دلیپ کمار معلوم ہوتا ہے۔ بیچ کی میز پر ایک فلم ڈائریکٹر بیٹھا ہے۔ اس نے آوارہ ٹائپ کی پتلون  اور گہرے زرد رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی ہے صورت شکل سے وہ فلم ڈائریکٹر کم  اور دارا سنگھ پہلوان کا اسسٹنٹ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ پردہ اٹھنے کے بعد وہ چائے پلانے والے نوکر سے کہتا ہے۔)

فلم ڈائریکٹر:(صوفے پر بیٹھتے ہوئے ایک گنجے آدمی سے)صاحب کو ایک سنگل چائے مارو۔(دوسرے آدمی سے مخاطب ہو کر) ہاں بھئی کٹر رکر آج فنانسر کے پاس بھی جانا ہے۔ سالے نے آج ڈیڑھ لاکھ دینے کا وعدہ تو کیا ہے ، ایک چونی ہے تمہاری جیب ہیں؟اس چائے والے کودے دو۔

(کٹر رکر ایک سکہ نکال کر چائے والے کو دیتا ہے ، جو سکے کی طرف دیکھ کے کہتا ہے۔)

چائے والا دلیپ کمار:مگر یہ چونی تو کھوٹی ہے۔

فلم ڈائریکٹر:کوئی بات نہیں۔ کل لے جانا  اور  ہاں بھئی شرما جی! وہ نیگٹیو کا بندوبست کیا؟

شرما جی:کل ہو جائے گا۔ بچو بھائی سیٹھ اگر بھوندو بھائی سے کہہ دیں گے تو کام ہو جائے گا۔

فلم ڈائریکٹر:مگر بچو بھائی کیوں کہیں گے؟

شرما جی:ان کا راستہ بھی ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ ہے نا اپنی سائیڈ ہیروئن مس مدھر بالا۔

(سب لوگ زور سے قہقہہ لگاتے ہیں۔ اب فلم ڈائریکٹر میز کے سامنے کھڑی ہیر کی طرف مخاطب ہوتا ہے۔)

فلم ڈائریکٹر:کیا کام ہے تم کو؟

ہیر:پٹاخہ فلم کمپنی کا دفتر یہی ہے؟

ڈائریکٹر:ہاں ہاں یہی ہے۔ پھر؟

ہیر:سنا ہے آپ ہیر رانجھا فلم بنا رہے ہیں؟

ڈائریکٹر:ہاں ہاں بنا رہے ہیں۔ پھر؟

ہیر:میں اس فلم میں کام کرنے آئی ہوں۔

ڈائریکٹر:تم کو کیا کام آتا ہے؟کبھی کسی فلم میں کام کیا ہے پھر؟

ہیر:نہیں۔

ڈائریکٹر:تم کو ناچنا آتا ہے؟

ہیر:نہیں۔ لیکن ناچنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہیر تو نہیں ناچتی تھی۔

ڈائریکٹر:تم کو کیسے معلوم ہے کہ نہیں ناچتی تھی۔ ہماری فلم میں تو وہ ناچتی ہے ، کتھک، بھارت ناٹیم، منی پوری سب ناچتی ہے۔ رمبھا سمبھا بھی ناچتی ہے۔

ہیر:اس زمانے میں رمبھا  سمبھا نہیں تھا۔

ڈائریکٹر:تم کو کیا معلوم ہے۔ ہمارا فلم  رائٹر کیا گدھا ہے پھر؟اس نے دس کتاب دیکھ کے اس کا کہانی لکھا ہے۔ اچھا یہ بات چھوڑو۔ ہم تم سے مغز پچی نہیں کرے گا، تم کو اس فلم میں کام کرنے کا ہے۔ ہم تم کو اس فلم میں ہیر کی ماں کا پارٹ دے گا۔بولو منظور ہے؟

ہیر:ہیر کی  ماں کا؟مگر میں۔۔۔ میں ہیر  کی ماں کا پارٹ کیسے کر سکتی ہوں؟

ڈائریکٹر:کیوں؟

ہیر:کیونکہ میں خود ہیر ہوں۔

ڈائریکٹر:ہیر ہاہاہا!!او مگن بھائی، کٹر رکر، سدھا کر، بلی موریا، محمودخان ارے دیکھو خود ہیر ہماری فلم میں کام کرنے کو آئی ہے۔ ارے اس کی صورت دیکھو، شکل دیکھو، رنگ روپ دیکھو، ارے یہ ہیر معلوم ہوتی ہے۔ ہیر۔۔۔ !

(قہقہہ)

ہیر:ہاں ڈائریکٹر صاحب!سچ مچ میں ہیر ہوں ہیر۔ وارث شاہ کی ہیر! پانچ دریاؤں کی سرزمین کی ہیر۔ محبت  اور حسن کے لازوال گیتوں کی حسین ترین تعبیر!

(فلم ڈائریکٹر اور اس کے ساتھیوں کے طنزیہ قہقہے بڑھتے جاتے ہیں۔ ہیر کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے واپس آ جاتی ہے  اور پہلے سیٹ کی طرف بڑھتی ہے۔ پیچھے کی روشنیاں گل ہو جاتی ہیں۔ غریب ہیر اپنے پہلے سیٹ میں واپس آتی ہے۔ مرکزی پردہ گر جاتا ہے  اور اب وہ اپنی آنسوؤں بھری آنکھوں سے چپ چاپ رانجھے کی طرف دیکھ رہی ہے۔)

رانجھا:(آبدیدہ ہو کر) وہ لوگ تمہارے حسن کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہیر کے حسن کو کوئی رانجھا ہی دیکھ سکتا ہے۔

(ہیر سسکیاں لیتی ہے۔ رانجھا اس کے قریب آ جاتا ہے۔)

رانجھا:وہ لوگ محبت کرنے والے نہیں ہیں۔ محبت کو ایک  فیتے کی طرح لپیٹ کر بازار میں بیچنے والے ہیں۔ بس اپنے آنسو پونچھ ڈال۔

ہیر:سچ کہتی ہوں رانجھیا، مجھے زور کی بھوک لگی ہے۔ اب صبر نہیں ہو سکتا۔

رانجھا:دیکھتا ہوں۔ شاید یہاں کچھ مل جائے۔ لیکن یہاں ملے گاکیا۔ یہاں تو سب کاغذ ہی  کاغذ ہیں۔ کوئی بھوکا وکیل معلوم ہوتا ہے۔

(کھڑبڑ کی آواز)

رانجھا:مل گیا، مل گیا!آخر کچھ کھانے کومل گیا!

ہیر:کیا ہے؟

رانجھا:ڈبل روٹی جسے بمبئی کے لوگ پاؤ کہتے ہیں۔ حالانکہ وزن میں ایک چھٹاک بھی نہیں ہے۔

ہیر:مجھے دو!

رانجھا:ہیرئیے  ذرا ٹھہر!

ہیر:جلدی سے دو جلدی۔

(روٹی کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہے۔)

رانجھا:ذرا ٹھہر ہیرئیے ، ذرا سوچنے دے ہیرئیے ، یہ تو جانتی ہے۔ ہم یہاں صرف بارش سے پناہ لینے کے لئے آئے تھے۔

ہیر:ہاں لیکن یہ ڈبل روٹی؟

(پھر روٹی کی طرف بے قرار ہو کے بڑھتی ہے۔ رانجھا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔)

رانجھا:ذرا ٹھہر۔  اور یہ  ہمارا گھر نہیں ہے۔ تو جانتی ہے۔

ہیر:لیکن یہ روٹی جلدی سے دے دے۔ میں تین دن سے بھوکی ہوں۔

رانجھا:لیکن یہ چوری ہو گی ہیرئیے۔ اگر ہم یہ ڈبل روٹی کھائیں گے تو یہ چوری ہو گی۔

ہیر:لیکن مجھے بھوک لگی ہے رانجھا!

رانجھا:تجھے میری محبت کی قسم ہیرئیے !یہ روٹی نہ کھا۔

ہیر:اب میں کوئی قسم نہیں کھاؤں گی رانجھیا!میں تو صرف روٹی کھاؤں گی جلدی سے یہ روٹی دے دے۔

(ہیر آگے بڑھ کے جھپٹ کر روٹی چھین لیتی ہے۔)

رانجھا:نہیں نہیں ہیرئیے۔ دیکھو وہ سامنے دیوار پر ہم دونوں کی تصویر لگی ہے ، کوئی بھلا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ آج بھی بھوک، افلاس، بیکاری  اور  خود غرضی کے زمانے میں اس نے ہماری تصویر لگا رکھی ہے۔ دیکھ یہ آدمی کتنی عزت کرتا ہے ہماری محبت کی۔ ہم اس کے گھر میں چوری نہیں کریں گے۔ لا مجھے روٹی واپس کر دے۔ میں اسے اسی دراز میں رکھے دیتا ہوں جہاں سے اسے اٹھایا ہے۔

(ہیر کبھی روٹی کبھی دیوار سے لگی ہوئی تصویر کی طرف دیکھتی ہے۔ آخر میں روٹی واپس کر دیتی ہے۔ رانجھا میز کی دراز کھول کراس میں روٹی رکھ دیتا ہے۔ ہیر سسکیاں لیتی ہے۔)

رانجھا:نہ رو ہیرئیے۔ میری اپنی ہیرئیے !یہ بارش تھم جائے گی۔ پھر مجھے کہیں نہ کہیں کام مل جائے گا۔ پھر ہم دونوں پیٹ بھرکے کھانا کھائیں گے۔

(بارش  اور طوفان کی آواز باہر سے آتی ہے۔ کھڑکیاں بجنے لگتی ہیں)

ہیر:یہ بارش کبھی نہیں تھمے گی۔ یہ طوفان کبھی ختم نہ ہو گا۔ ہم سدا بھوکے رہیں گے۔

رانجھا:نہیں !ایک دن یہ بارش تھم جائے گی۔ ایک دن یہ طوفان ختم ہو جائے گا ایک دن یہ بادل چھٹ جائیں گے  اور سورج کی روشنی ساری زمین کے سارے آنسو چوس لے گی۔ اس دن کوئی بھوکا نہ ہو گا۔ کوئی کسی کی ڈبل روٹی نہ چرائے گا۔ اس دن سارے جذبے  اور ساری آرزوئیں  اور  ساری محبتیں مکمل ہو جائیں گی۔

(رانجھا بہت پیار سے ہیر کو اپنے بازوؤں کا سہارا دیتا ہے۔ دونوں دروازے کی طرف چلنے لگتے ہیں۔ اندھیرے میں اجالا آنے لگتا ہے۔ روشنی کی ایک کرن بالکنی سے بڑھتے ہوئے دیوار پر لگی ہوئی ہیر رانجھے کی تصویر کے گرد ایک منور ہالہ بنا دیتی ہے !)

(پردہ)

***

ماخذ:’’کتاب کا کفن‘‘

بیسویں صدی بکڈپو

دریا گنج، 

نئی دہلی

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔