دیسی کی بھی عجیب زندگی ہے۔ جو بھی کرنا چاہتی ہے بس وہی نہیں ہو پاتا اور جو جو بھی ہو جاتا ہے وہ اس نے کبھی نہیں چاہا ہوتا۔
ابھی کل کی ہی تو بات ہے جب باس نے دیسی کو کچھ پیپرز ہاتھ سے لکھ کر ٹھیک کر دئے اور نیا پرنٹ آؤٹ نکالنے سے منع کر دیا تاکہ بلاوجہ پیپرز ضائع نہ ہوں۔ تھوڑی دیر بعد جب باس وہاں سے گزرا تو دیسی کو اسی صفحے کی فوٹو کاپیاں بناتے پایا۔ یہ دیکھ کر باس پہلے تو حیرت سے بت بن گیا اور پھر غصے سے بولا
" میں نے کہا تھا نیا پرنٹ آؤٹ لینے میں بہت پیپرز ضائع ہوتے ہیں۔ ہمارا بجٹ پہلے ہی بہت کم ہے ، پھر تم یہ فوٹو کاپیاں کیوں بنا رہی ہو؟"
"تو میں نے کب پیپر ضائع کئے ہیں وہ شان بے نیازی سے گویا ہوئی اور نہ ہی نئے پرنٹ آؤٹ لئے ہیں۔ پیپر بچانے کے خیال ہی سے تو میں نے صرف فوٹو کاپیاں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ "
۔ دیسی نے اپنا فخریہ کارنامہ بتاتے ہوئے تائیدی نظروں سے باس کو دیکھا۔"
یہ سنکر باس نے اپنا سر پیٹ لیا اور دیسی کے ساتھ سر کھپانے کی بجائے وہاں سے غائب ہو جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
دیسی کو گھر سے روزانہ صبح ناشتہ نہ کرنے اور سیب کے فائدوں پر لیکچر سنتے جب کافی سارے سال گزر گئے تو تنگ آ کر اس نے سوچا چلو کچھ دن سیب کھا کر دیکھ ہی لیتے ہیں کیا پتہ اس بہانے کشمیر ہی آزاد کروانے کی طاقت آ جائے۔ اب مسلئہ یہ ہو رہا تھا کہ دیسی تو شاید سیب کو کسی نہ کسی طور پسند کر ہی لیتی مگر ہر قسم کے سیب خود دیسی کو سخت ناپسند کر نے لگے تھے اور اس کے پاس جانے کو کسی صورت راضی نہ ہوتے تھے۔ اگر وہ کھانے کی کوشش بھی کرتی تو سیب اندر جانے کی بجائے روٹھ روٹھ کر باہر کی طرف بنجی جمپنگ کی کوشش کرنے لگتے۔
دیسی کو سخت شکایت تھی کہ سیب بہت میٹھا ہوتا ہے اور اتنا میٹھا کھانا کسی عقلمند انسان کے لئے بعید از قیاس ہے اس لئے سیب کو کھا کر اپنی سمجھداری پر شبہ کروانا اس کو گوارا نہیں تھا۔ ادھر دوسری طرف سیب کو بھی بہت برا لگتا تھا جس طرح دیسی اسے دیکھتے ہی اتنے برے برے منہ بنانا شروع کر دیتی ہے۔ اس میں میں سیبوں کی سر عام توہین کا بہت بڑا پہلو نکلتا ہے۔ سارے سیبوں کی انٹرنیشنل کانفرنس کے بعد یہ طے پایا تھا کہ وہ دیسی سے جتنا ممکن ہو دور رہنے کی کوشش کریں گے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے دیسی کے خلاف اپنی بقا کی جنگ جاری رکھیں گے۔
لاکھ کوشش پر بھی دیسی اور سیب کی آپس میں نہ بن پائی تو کسی ناہنجار نے دیسی کو مشورہ دیا کہ تم اس پر کالا نمک ڈال لیا کرو۔ اس سے سیب کی مٹھاس کم اور کھٹاس بڑھ جائے گی۔
دیسی نے خوشی خوشی مان لیا اور بڑی دور 35 میل کی یاترا ڈرائیو کے بعد کالا نمک حاصل کیا گیا۔
اب اگلے دن جاب پر لنچ آور میں دیسی نے بہت اہتمام سے سیب کاٹا اور جیسے ہی کالے نمک کا تھیلا کھولا تو اس میں سے بڑی عجیب سی بو آئی۔ کچھ دیر کے لئے تو دیسی خود بھی گھبرا گئ مگر خیر جب چکھ کر دیکھا تو ٹیسٹ کافی اچھا لگا اور سیب بھی کھانے کے قابل ہو گیا۔
ابھی وہ بڑے ذوق و شوق سے سیب پر نمک چھڑک چھڑک کر ایسے خوش ہو رہی تھی جیسے دشمنوں کے زخموں پر چھڑکا ہو کہ اتنے میں جاب پر ایک عجیب سے ہنگامہ آرائی ہونے لگی۔ دیسی نے اپنے ہاتھوں کو روک کر اب کانوں کو کام پر لگا دیا، کانوں نے پہلی اطلاع جو بہم پہنچائی وہ اتنی خوش آئند ہرگز نہیں تھی۔
کوئی کہیں ذرا دور کھڑا بہت بری بدبو کی شکایت کر رہا تھا۔
بدلے میں ایک اور آواز نے تائید کی اور کہا
"میرا خیال ہے کسی کا ایگ سیندویچ خراب ہو گیا ہے "
"نہیں نہیں میرا خیال ہے سیوریج کا کوئی پائپ ٹوٹ گیا ہے۔ یہ بدبو باتھ روم کی طرف سے آتی لگ رہی ہے۔ " تیسری آواز نے خیال آرائی کی۔
مجھے تو لگتا تھا جیسے یہ بو دیسی کے آفس کی طرف سے آ رہی ہے چلو چل کر دیکھتے ہیں۔
بس بس یہ سننا تھا کہ دیسی کو فورا سمجھ میں آ گیا کہ کیا غضب ہوا ہے۔ اس نے پہلے تو نینو سیکنڈ میں کالے نمک کا مشورہ دینے والے کی شان میں کچھ ناقابل اشاعت مدح سرائی کی اور باقی کے نو سیکنڈ میں جلدی کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے سیبوں اور نمک کا پیک اپ پلس ریپ اپ کرنا شروع کیا۔ کاش کہ اس کے وہ ایکشن اور ری ایکشن اس وقت ریکارڈ کئے جا سکتے تو دنیا کو ایک ناقابل یقین حد تک پھرتیلا مظاہرہ دیکھنے کا موقع ملتا اور گنیز بک کی پہلی اشاعت کے پہلے صفحے پر اس کی تصویر چھپ جاتی۔ نو سیکنڈ کے اندر اندر دیسی نے اپنے سیبوں کی پلیٹ کو نمک کی تھیلی سمیت دو تین شاپنگ بیگ میں کس کے لپیٹا اور ٹریش میں ڈال کر ٹریش کین کے اوپر سی پی یو رکھ دیا تاکہ بو باہر نہ نکلے۔ وہ بچارے کٹے کٹائے سیب نمک کی تھیلی کو سینے سے لگائے لگائے ہمیشہ کے لئے ٹریش کی ا تھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے۔
جب وہ تفتیشی پارٹی سراغ لگاتے لگاتے اس کے آفس تک پہنچی تو وہ بہت انہماک سے جاب کا کام کرنے میں مصروف تھی۔ ان لوگوں کے استفسار پر کمپیوٹر سے نظریں ہٹائے بغیر اور کوئی جواب دئے بغیر بس ہلکے سے کندھے اچکا کر دوبارہ سے یوں اپنے کام میں مصروف ہو گئ جیسے ابھی اسی سیکنڈ میں ناسا کی طرف سے جو کوئی خلائی جہاز ہوا میں بھیجا جانے والا ہے اس کے آخری بٹن دبانے کی ذمہ داری دیسی کی تو ہے۔
جاب سے لے آف ہونے کے بعد اگر کوئی بندہ اگلے دن دوبارہ اسی بلڈنگ کے آس پاس نظر آئے تو اس کا یہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ وہ۔(نا کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کے سنہری اصول پر عمل کرتے ہوئے ) باقی سبکو گولیاں مارنے آیا ہے۔ ایسا تاریخ میں بہت بار ہو چکا ہے اس لئے اگر جاب سے کوئی فائر ہو تو اگلے دن باقی سب غور غور سے پارکینگ لاٹ چیک کرتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی گھات لگا کر تو نہیں بیٹھا؟
دیسی نے جیکی ٹیفٹ کو لے ٓاف کے اگلے دن صبح صبح پارکینگ میں اپنی کار میں کچھ ڈھونڈتے دیکھا تو بری طرح گھبرا گئ اور خود ہی فیصلہ کر لیا کہ ضرور کار میں سے اپنی گن نکال رہا ہے تاکہ سب کو گولی مار سکے۔ ۔ اس کا احساس ہوتے ہی وہ متوقع گولی سے بچنے کے لئے چیختی ہوئی اندر کی طرف بھاگی۔ اس کو اس طرح بدحواسی سے بھاگتا دیکھ کر جیکی بھی گھبرا گیا اور غیر ارادی طور پر اپنی تلاش ادھوری چھوڑ کر کچھ نہ سمجھتے ہوئے مدد کے خیال سے تیزی سے اس کی طرف لپکا۔
جیکی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر دیسی کا رہا سہا شک بھی جاتا رہا اور وہ بھاگ کر بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی چلائی
تھفٹ سب کو مارنے آ گیا ہے بھاگو۔ 911 کو کال کرو۔
اس کو بگٹٹ بھاگتے دیکھ کر سب لوگ کچھ بھی سمجھے بغیر ادھر ادھر بھاگنے کا مقابلہ کرنے لگے۔ کوئی سیدھے بھاگتے ہوئے ڈسپلے سے ٹکرایا تو کوئی کسی دروازے میں جا کر گنٹھی کی طرح بج اٹھا۔ کوئی ٹیبل سے گلے مل کر لم لیٹ ہوا تو کچھ لوگ آپس میں ہی ٹکرا کر زمیں بوس ہو گئے۔ غرض ایک منٹ کے اندر اندر پوری بلڈنگ میں ہنگامہ بپا ہو گیا اور ہر طرف بھگدڑ مچ گئ۔
911 کو کال کرو تھیفٹ نے حملہ کر دیا ہے اس کے پاس اتنی بڑی گن ہے۔
"تھیفٹ؟ یہ کون ہے ؟ ڈیسک کے نیچے چھپی ہوئی ریسپشنیٹ نے 911 کو کال کرتے کرتے کانپتے ہاتھوں کو روک کر دیسی سے پوچھا ؟"
وہ وہ جس کو کل لے آف کیا تھا اس کے پاس بہت بڑی گن ہے۔ دیسی نے تصوراتی گن کی لمبائی ہاتھوں کو پورا پھیلا کر بتانی چاہی۔وہ ہم سب کو مارنے آ رہا ہے۔
اوہ نو۔ اس کا نام تھیفٹ نہیں بلکہ ٹیفٹ ہے اور اس کو واپس بلا لیا ہے کمپنی نے پارٹ ٹائم کام کرنے کے لئے ویک میں 4 دن آیا کرے گا۔
یوں تو اپنی جاب پر دیسی کو دن میں کئ مسائل کا شکار ہونا پڑتا ہے مگر ایک دن نجانے بیٹھے بیٹھے دماغ میں کیا سودا سمایا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ جب امریکن باتھ روم میں دنیا جہاں کے باقی سارے لوازمات موجود ہیں تو آخر لوٹا بھی ہونے میں کیا قباحت ہے۔ اس کمی کو فی الفور پورا کیا جانا چاہیئے۔
جاب پر تو پوچھنا بے کار تھا اجازت ملنے کا امکان نہیں تھا الٹا لوگ مذاق ہی اڑاتے۔ کافی دیر سوچ بچار کے بعد اس نے یہ انوکھا ایڈوینچر اپنے رسک پر کرنے کی ٹھان لی اور باتھ روم میں کئ گھنٹے تحقیق کے بعد بے شمار ایکسٹرا کیبنیٹس میں سے آخری والی کو اپنے ہونے والے پیارے لوٹے کی مستقل جائے رہائش کے طور پر منتخب کر لیا۔
لیجیئے دیکھتے ہی دیکھتے لوٹے کی سکونت کا مسئلہ چٹکیوں میں حل ہو گیا اور دیسی نے اپنی عقلمندی پر خود کو تھپکی دی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ سب کی نظروں سے چھپا کر لوٹے کو منزل مقصود تک پہنچائے کیسے ؟
سب سے پہلے تو پاکستانی اسٹور سے ایک لوٹا ہیروں کے مول خریدا گیا پھر ریپینگ پیپر میں لپیٹ کر کرسمس گفٹ بیگ میں رکھ کر اس کی گردن میں ہار پھول اور ربن ڈالے گئے تاکہ دیکھنے والے کو وہ دور سے کرسمس گفٹ نظر آئے۔ لوٹا اپنی اس عزت افزائی پر پھولے نہیں سما رہا تھا بلکہ خوشی کے مارے اپنی اوقات بھول کر آپے سے باہر ہو ہو جاتا تھا اور اچھل اچھل کر اس کی ٹونٹی لفافے کو پھاڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب ہو رہی تھی تاکہ باہر نکل کر زمانے والوں کو چیخ چیخ کر بتا سکے دیکھو دیکھو لوگو! کوئی ہے میرے جیسا یہاں؟
مجھے کتنی عزت ملی ہے اور تم لوگوں کی میرے سامنے اوقات ہی کیا ہے ؟ حتی کہ اس وقت اگر کچھ سیاہ ستدان اس لوٹے کی شان دیکھ لیتے تو اپنے آپ کو کو لوٹا برادری سے ہونے پر بہت اعلی مرتبت محسوس کرنے لگتے۔
خیر دیسی نے جیسے تیسے کر کے لوگوں کی نظروں سے چھپا کر لوٹے کو اس کی جائے رہائش تک پہنچا دیا اور اس کے سامنے دوسرے ٹشو پیپرز کی دیوار بھی بنا دی تاکہ دیکھنے والوں کی بینائی پر بھی برا اثر نہ پڑے اور لوٹے کو بھی تنہائی کا جان لیوا احساس نہ تنگ کرتا رہے بلکہ ٹشوز کے ساتھ دل بہلا رہے۔
اب دن میں کئ بار دیسی اور لوٹے کی چوری چھپے ملاقاتیں ہوتیں۔ وہ چپکے چپکے لیڈیز روم میں جا کر اپنے لوٹے کا دیدار کرتی اور ادھر لوٹا بھی ہر وقت دیسی کے انتظار میں دیدہ دل فرش راہ کئے پڑا رہتا۔ جب بھی دونوں ملتے ایک دوسرے سے خوب شکوے شکایات کئے جاتے۔ کھبی روٹھا تو کھبی منایا جاتا۔ غرض ان کی محبت زوروں پر تھی اور بڑی کامیابی سے زمانے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ عشق پروان چڑھ رہا تھا۔
ابھی ان کا طولانی عشق شروع ہوئے صرف پانچ دن ہی ہوئے تھے کہ ایک دن دیسی کو اوورہیڈ پر اپنے نام کا پیج سنائی دیا۔ اس کو فورا کسی ایمیرجنسی میٹینگ کے لئے کہیں بلایا جا رہا تھا۔ یہ سنتے ہی ہمیشہ کی طرح اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور باری باری بھاگ بھاگ کر ہر ایک میٹینگ روم ،کانفرنس رومز میں ٹھوکریں اور ٹھڈے کھانے کے باوجود جب کہیں بھی میٹینگ کے آثار نظر نہیں آئے تو مزید پریشان ہونے لگی۔ اتنی دیر میں پیج دوبارہ سنائی دیا تو دیسی نے بھاگ کر ریسپشینسٹ سے پوچھا کہاں ہے میٹینگ؟
"تمھارے ڈیپارٹمنٹ کے لیڈیز روم میں"۔
یہ غیر متوقع جواب سن کر وہ ہکا بکا رہ گئ۔۔۔۔
ہائیں ! یہ کس ٹائپ کی میٹینگ ہے ؟ لیڈیز روم کا سن کر دیسی بھونچکی رہ گئ اور اس کے کے ہاتھ میں پکڑی فائل نیچے گر گئ اور پھر لوٹے کا خیال آتے ہی دیسی کے ہاتھوں کے طوطے کبوتر سب اڑ گئے۔ یہ تو بہت خطرناک بات ہے۔ وہیں تو میرا پیارا لوٹا بھی ہے اور وہ تو ہے بھی نظرباز لوٹا ، اتنی ساری عورتوں کو اکٹھا دیکھ کر کہیں باہر نہ نکل آئے۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی ادھر بھاگی۔ جیسے ہی دروازہ کھولا تو اندر ایک عجیب دل دہلا دینے والا منظر نظر آیا۔
بالکل سامنے اس کی پانچ ساتھی دائرے میں جھکی ہوئی زمین کو ایسے خوفزدہ انداز میں گھور رہی تھیں جیسے وہاں سے ابھی اسامہ بن لادن اَگا ہی چاہتا ہے۔ جب ان کی نظروں کے تعاقب میں دیسی نے زمین کو دیکھا تو تھرا کر رہ گئی۔ ان کے بیچوں و بیچ اس کا پیارا لوٹا بالکل بے پردگی کی حالت میں پڑا تھا اور پانچ نا محرم عورتوں کی نظریں تیر کی طرح اس کے آر پار ہو رہی تھیں جسکی وجہ سے لوٹا پہلے تو شرم سے سرخ ہو ہو کر اپنے آپ میں سمٹتا رہا مگر جب کسی نے اس کی نقشے بازی کو لفٹ نہیں کرائی تو شرمانے کا ارادہ ملتوی کر کے اب فکر و پریشانی سے نیلا ہونا شروع ہو گیا تھا۔
قدموں کی آہٹ پا کر سب نے مڑ کر دیسی کو دیکھا اور ایک ساتھی نے پوچھا
تمکو معلوم ہے یہ کیا ہے ؟
پہلے دیسی نے گھبرا کر سوچا منع کر دے۔ اجنبی بن جائے اور لوٹے سے اپنی تمام ملاقاتوں کا حال بھی چھپا لے مگر جب لوٹے پر نظر پڑی تو وہ بڑی عاشقانہ اور محبوبانہ نظروں سے دیسی کو ہی دیکھ رہا تھا۔( دیسی اس وقت بلیک ڈریس میں بہت کیوٹ لگ رہی تھی جس پر سلور بیل لگی تھی اس کے لانبے لانبے بال بھی ہوا میں لہرا رہے تھے (باتھ روم میں کوئی پنکھا بھی نہیں تھا اس لئے بال لہرانے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی) اس کی میچینگ بلیک اورسلور جیولری کی روشنی اس کے چہرے کو ایک الوہی چمک بخش رہے تھے۔ دیسی کی یہی سادگی تھی جو اسے باقی سب سے ممتاز کرتی تھی۔
( توجہ طلب بات یہ ہے کہ اپنے آخری وقت اور اتنی پریشانی کے عالم میں بھی لوٹا یہ سب اول الذکر نوٹس کئے بنا نہیں رہ سکا تھا)۔
ویسے تودیسی کی ساری حرکتیں بھی اس کو باقی سب سے بہت ممتاز کرنے کو کافی تھیں مگر لوٹا یہ سب گہری باتیں کہاں سمجھ سکتا تھا۔ اسی لئے وہ دنیا سے بے خبر ابھی بھی دیسی کوبڑی دلنواز نظروں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اسے اپنی حالیہ عاشقانہ کی بجائے مجرمانہ حیثیت کا جو احساس ہوا تو دل دھک سے رہ گیا اور بڑی ملتجیانہ نظروں سے دیسی کو دیکھ کر سوچا ایک یہی تو ہے جو مجھے میری شناخت دے سکتی ہے۔ مجھے اپنا نام دے کر بھرے باتھ روم میں بے آبرو ہونے سے بچا سکتی ہے ورنہ تو میرا انجام بہت بھیانک ہونے والا ہے۔
اپنے پیارے لوٹے کی جدائی کے خیال سے دیسی کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے بھی سچ بولنے کی ٹھان لی اور سوچا اب جو ہو گا دیکھا جائے گا میں اپنے قدم وآپس نہیں موڑ سکتی نہ لوٹے کا ساتھ چھوڑ سکتی ہوں۔
ھمممممممممممممممممممم
مممممممممممممممممممم
دیسی نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولی۔
ہاں یہ میرا۔ ۔۔۔۔۔لوٹا---- ہے۔
ویٹ ؟ ؟ ؟ ؟
ویٹ از دســـــــــــــــــــس؟ وہ پانچوں کورس کے انداز میں چلائیں۔
وہ۔ ۔۔۔یہ۔۔ میں۔۔۔ہاں۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔ ۔۔ یہ تو (جلدی جلدی اپنے گٹوں پر زور ڈال کر دیسی نے لوٹے کا کوئی انگلش نام یاد کرنے کی بڑی کامیاب، ناکام کوشش کی)
اب اسے اپنے آپ پر اپنے گھر والوں پر۔ اپنے اساتذہ پر پورے معاشرے پر بے تحاشا غصہ آنے لگا،جنہوں نے اس کو لوٹے کا کوئی انگلش نام نہیں بتایا تھا ابھی تک۔ خود وہ اپنے آپ کو بھی کوس رہی تھی کہ جب یہاں لانے کا رسک لیا تو نام کیوں نہیں پوچھا کسی سے۔ خیر ان کو کیا پتہ ہو سکتا ہے اس کے بارے میں۔ یہ کونسا یوز کرتے ہیں۔ میں کچھ بھی کہ دیتی ہوں۔
ھممممممممممم
دیسی نے کھنکار کر دوبارہ گلا صاف کیا اور اب کی باراس کو حتی الامکان امریکن لہجے میں بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے ان سب کو دیکھا اور کہا۔
"دس از مائی لوؤٹھا "۔
بٹ وٹ اٹ ڈز؟ وائے دس لوؤٹھا از ہئیر؟
(وہ سب ایک ساتھ چلائیں)
((لیکن اس کا کام کیا ہے اور یہ لوٹا یہاں کیا کر رہا ہے
وہ دن اور آج کا دن ہے ، دیسی ابھی تک ان کو لوٹے کی وجہ تسمیہ سمجھانے میں اتنی ہی ناکام ہے جتنا کہ ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ آپ بھی دعا کرنا یہ دونوں معاملے جلد سلجھ جائیں۔آمین
٭٭٭