برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے ورود سے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ جس وقت مسلمان برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوئے اُس وقت ہندوستان بُری طرح شکست و ریخت اور توڑ پھوڑ کا شکار تھا۔ مسلمانوں کے فاتحانہ ورود نے بہت جلد ہندوستانی سیاست، معاشرت اور تہذیب و ثقافت پر اثر انداز ہو کر پورے نظامِ زیست کو تغیر آشنا کر دیا ۔ اس فوری تبدیلی کا ایک اور باعث مسلمانوں کا وہ نظامِ فکر و عمل اور فلسفۂ اخلاق و مساوات ہے جس نے اچھوتوں اور کم حیثیت ہندوستانیوں کو پہلی بار مژدۂ انسانیت دے کر روشنی سے مستنیر کیا ، یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایسے تمام ہدفِ تحقیر طبقے پروانہ وار اس سرچشمۂ نور پر فدا ہونے کے لیے آگے بڑھے ۔ دو مختلف النوع تہذیبوں کے اختلاط و ارتباط اور اتحاد و موانست نے ایک نئی مخلوط تہذیب کے لیے زمین ہم وار کر دی اور بہت تھوڑے عرصے میں اس مخلوط تہذیب کا ہیولا وجود پذیر ہوا جو رفتہ رفتہ ایک کامل صورت اختیار کر کے ’’ ہند اسلامی تہذیب ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا ۔ ہند اسلامی تہذیب سراسر ہندی تھی نہ سراسر اسلامی، تاہم مسلمانوں کے فاتحانہ حیثیت کی وجہ سے اس مخلوط تہذیب میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے رنگ زیادہ گہرے اور نمایاں نظر آتے ہیں۔ جب یہ تہذیب اپنے پورے خد و خال کے ساتھ متشکل ہوئی تو ایک ایسی زبان کی ضرورت بیدار ہونے لگی جو اس مخلوط تہذیب کی ترجمانی کا فریضہ ادا کر سکے ۔ مسلمان جب ہندوستان میں وارد ہوئے تھے تو عربی، فارسی اور ترکی زبانیں ان کے ہم رکاب تھیں۔انہی زبانوں کے مقامی بولیوں کے ساتھ تال میل اور ربط و ضبط نے ایک نئی زبان کی داغ بیل ڈالی جو صدیوں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتی ، نگر نگر کی خاک چھانتی بالآخر اُردو کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی اور ہند اسلامی تہذیب کی ترجمان ٹھہری۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی اُردو کے سفر کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ( اُردو) کسی خاص علاقے ، مذہب ، کسی خاص فرقے ، قبیلے ، طبقے یا جماعت کی زبان نہیں ، اس کی تشکیل و ترویج میں برصغیر کے تمام صوبوں ، علاقوں اور ان کے لوگوں کی مقامی بولیوں ، لوک گیتوں، کہانیوں اور سنگیت نے حصہ لیا ہے۔ اس لیے اُردو قیدِ مقام سے آزاد ہے۔کبھی پنجاب کے لہلہاتے سبزہ زاروں میں اس نے بچپن گزارا اور کبھی دلی کی گلیوں اور بازاروں میں اسے پھرتے دیکھا گیا ۔ اس کی وانی کی اٹھان دکن اور گجرات میں ہوئی ۔ پھر یہ شمالی ہند میں لوٹی تو دلی کی شاہی اسے نصیب ہوئی ۔ دلی اجڑ کر فیض آباد اور لکھنؤ پر رونق آئی تو اس نے پُورب دیس کو اپنا مسکن بنایا لیکن اس کی آواز سرحد کے بلند پہاڑوں ، بنگال کے دریاؤں ، لہلہاتے دھانوں کے کھیتوں، سندھ کے روپہلے چمکتے ریتیلے میدانوں، کشمیر کے سبزہ زاروں اور جوئے باروں میں ہر جگہ سنائی دیتی رہی ۔ جدید ہندوستانی پاکستانی زبانوں میں یہ وسعت ، ہمہ گیری اور پھیلاؤ اُردو کے ہی حصہ میں آیا ہے اور آج بھی یہ اس کی ایک ممتاز روایت ہے۔‘‘ ( ۱)
اُردو زبان کی جنم بھومی کی طرح اُس کے زمانۂ تشکیل کے متعلق بھی محققین میں اختلاف ہے ۔ حافظ محمود شیرانی کے خیال کے مطابق اُردو نے محمد بن قاسم کے حملۂ سندھ(۷۱۲ء ) کے وقت جنم لیا ۔ ڈاکٹر موہن سنگھ اور سید سجاد ظہیر نے اُردو کی ابتدا کا زمانہ محمود غزنوی کا عہد ( ۹۹۸ء تا ۱۰۳۳ء ) متعین کیا ہے۔ محمد حسین آزاد اور سعید مارہروی کا خیال ہے کہ اُردو برج بھاشا اور فارسی کی ملاوٹ سے قطب الدین ایبک کے دور ( ۱۱۹۲ء تا ۱۲۱۰ء ) میں ظہور پذیر ہوئی۔ ڈاکٹر جان گل کرائسٹ کے بہ قول اُردو نے امیر تیمور کے حملے ( ۹۹۔ ۱۳۹۸ء) کے دوران میں واضح صورت اختیار کی ۔ میر امن دہلوی اور سید خدا بخش اسے عہدِ اکبری ( ۱۵۵۶ء تا ۱۶۰۵ء) میں مختلف قوموں کے آزادانہ میل جول کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ سر سید احمد خان ، امام بخش صہبائی اور محمد حسین آزاد کے نظریات کے مطابق اُردو عہدِ شاہ جہان ( ۱۶۲۸ء تا ۱۶۵۸ء ) میں دلی کے گرد و نواح میں پیدا ہوئی۔ سر جارج گریئرسن اور سر چارلس لائل کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے جب مقامی زبانوں میں فارسی الفاظ کی آمیزش شروع ہوئی تو اس کے نتیجے میں اُردو نے جنم لیا۔متذکرہ بالا محققین کی آرا کو باہمی اختلاف کے باوجود رد نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ زبان سماجی عمل کے نتیجے میں صدیوں کا سفر طے کر کے ایک واضح شکل اختیار کرتی ہے۔ اُردو زبان کی تشکیل بھی اسی فطری اصول کے تحت ہوئی اور یہ مختلف جگہوں پر پڑاؤ ڈالتی اور مختلف علاقوں کے رنگ و آہنگ کا اثر قبول کرتی بالآخر کامل صورت میں ظاہر ہوئی۔ تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اُردو نے ہندوستان میں مسلمانوں کے ورود کے بعد جنم لیا۔
مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں کئی زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں سنسکرت اور اُپ بھرنش خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں ۔ سنسکرت کا دائرۂ کار صرف خواص تک محدود تھا اس لیے اس زبان کی حیثیت ایک جامد زبان کی سی تھی،جب کہ اُپ بھرنش عوامی زبان تھی اور ملک کے طول و عرض میں بولی اور سمجھی جاتی تھی، پساچی، شور سینی، ماگدھی، اُرد ماگدھی اور مہاراشٹری وغیرہ ساری اُپ بھرنش کی ذیلی بولیاں تھیں جو مخصوص علاقوں میں لوگوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھیں۔ ان ساری بولیوں میں شور سینی اُپ بھرنش کا دائرۂ اثر سب سے زیادہ کشادہ تھا۔ شور سینی اُپ بھرنش نے بتدریج اپنے دائرے کو وسعت آشنا کیا یہاں تک کہ اس نے ارد گر د کی دیگر اُپ بھرنش بولیوں سے گہرے روابط قائم کر کے ملکی زبان کی سی حیثیت حاصل کر لی اور سنسکرت اپنے تقدس اور احترام کے باوجود اس رُتبے سے کاملاً محروم رہی۔ سنسکرت کو جدید ہند آریائی زبانوں کی اصل سمجھا جاتا ہے جو سراسر درست نہیں ہے کیوں کہ جدید ہند آریائی زبانوں کا مآخذ و منبع اُپ بھرنش ہے ، سر جارج گرئیرسن کا یہ کہنا صداقت سے خالی نہیں کہ :
’’ بر عظیم کی ساری جدید زبانیں اُپ بھرنش ہی کے بچے ہیں۔‘‘ (۲)
اُپ بھرنش ایک طرف تو برصغیر پاک و ہند کی قدیم زبانوں اور بولیوں کی وارث تھی اور دوسری طرف سنسکرت کے ساتھ بھی اس کے خوش گوار مراسم تھے ان سے بڑھ کر یہ کہ جدید ہند آریائی زبانوں کا جنم بھی اسی کی کوکھ سے ہوا ۔ یوں اُپ بھرنش بہ یک وقت برصغیر کے ماضی ، حال اور مستقبل سے پوری طرح وابستہ نظر آتی ہے اور یہی وابستگی اس کی عظمت کی دلیل بن جاتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی زبانوں (عربی، فارسی اور ترکی)کا جیسا استقبال اُپ بھرنش نے کیا ویسا کسی اور زبان سے نہ ہو سکا ۔ اُردو اسی والہانہ استقبال کا نتیجہ ہے۔ اُردو کی ساخت اور ہیئتِ ترکیبی کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں افعال کی کثرت اُپ بھرنش اور ہندوستان کی دیگر زبانوں سے مستعار ہے ، اُردو میں فارسی افعال بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ ترجمہ شدہ ہیں۔ اسی طرح عربی افعال کا اثر بھی نہ ہونے کے مترادف ہے اگر کہیں کچھ نظر آتا ہے تو وہ فارسی کے ذریعے اور وسیلے سے آیا ہے ۔ اُردو اپنی صرف و نحو کے اعتبار سے بھی فارسی، عربی اور سنسکرت سے مختلف ہے ، عین الحق فرید کوٹی فرماتے ہیں:
’’ اُردو زبان کا صرف و نحو کے اعتبار سے فارسی اور سنسکرت سے نہ صرف فروعی بلکہ اصولی اور بنیادی اختلاف ہے۔‘‘ ( ۳)
البتہ لفظیات میں اُردو نے عربی ، فارسی ، ترکی اور دیگر زبانوں کے وسیع ذخائر سے بہت استفادہ کیا اور اکثر و بیش تر لفظوں کو بہ عینہ قبول کر لیا اور کئی لفظ تارید کے عمل سے گزر کر اُردو کے سرمائے میں اضافے کا موجب ٹھہرے ۔ اُردو میں فارسی اور عربی زبانوں کے قواعد کے اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ، یائے نسبتی، اضافت ، جمع کے قواعد ، بیانیہ کے مرکبات بنانے کے طریقے وغیرہ انہی زبانوں کی خوشہ چینی کا نتیجہ ہیں۔
اُردوئے قدیم (ہندوی) جب بول چال کی حدوں سے آگے بڑھی تو جذبات و احساسات اور خیالات و واقعات کے اظہار کے لیے نئے راستے تلاش کرنے لگی۔ اس موڑ پر فارسی جیسی توانا اور وسیع زبان اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ اس کے سامنے موج زن تھی جس کے اثر اور تقلید سے بچ نکلنا اس کے بس میں نہ تھا ، یہ سچ ہے کہ اُردو نے اپنے ادبی سفر کے آغاز میں ہندوستان کی قدیم اصناف ِ شعر جیسے دوہا، کِبت، جکری، بارہ ماسہ ، شلوک، شبد وغیرہ کو اپنایا اور ان اصناف کے لیے ہندوستانی نظام الاوزان پنگل کو قبول کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ ابتدائی زمانے میں ہی اُردو نے فارسی اصنافِ سخن جیسے مثنوی ، قصیدہ، غزل ، رباعی ، مخمس وغیرہ کو بھی قبول کیا اور اس کے نظامِ عروض کو بھی ، مولانا محمد حسین آزاد کا یہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا کہ ’’فارسی کی بحریں اور فارسی کے خیالات ایک زمانہ تک اس (ہندوی) میں گھسنے نہیں پائے۔‘‘ ( ۴) اُردو کا ابتدائی ادبی منظر پوری تابانی میں نہیں ہے تاہم اب تک کی تحقیقات سے جو قدیم ادب سامنے آیا ہے اس کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اُردو کا ابتدائی ادب بھی فارسی اثرات سے آزاد نہیں ہے ، یہ درست ہے کہ ابتدا میں یہ اثر کم کم تھا اور بعد میں فارسی رنگِ ادب نے اسے پوری طرح اپنے رنگ میں رنگ لیا ۔ فارسی اثر کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُردوئے قدیم نے اپنے لیے فارسی رسمِ خط کو انتخاب کیا۔
غزل نے عربی قصیدے کی تشبیب سے اپنا سفر آغاز کیا ، رفتہ رفتہ تشبیب کی محدود فضا میں اس کا دم گھٹنے لگا اور وہ اپنے جداگانہ تشخص کا اظہار کرنے لگی۔ ایرانی شعرا نے اسے ایسا جامۂ رنگین پہنا دیا جو قصیدے کے لباسِ کہنہ کو شرمانے لگا۔ اول اول غزل عاشقانہ واردات اور خیالات کے اظہار کا ذریعہ تھی بعد میں جب متصوفانہ رویے اس کے وجود میں آ بسے تو اس کی چمک دمک میں اضافہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادب کی آبرو بن گئی۔اُردو ادب کی خوش نصیبی کہ اسے ابتدا میں ہی فارسی سے جو اصناف ورثے میں ملیں ان میں غزل بھی شامل تھی، غزل کے ساتھ اس کے تمام لوازمات یعنی ہیئت، اوزان و بحور ، تشبیہات و استعارات ، تلمیحات و کنایات اور مضامین و خیالات بھی اُردوئے قدیم میں بے تکلفی سے شامل ہو گئے ۔ غزل نے اُردو کے وجود میں بس کر ہندوستانی علائم و رموز اور تشبیہات و استعارات کو بھی قبول کیا یوں غزل کے عربی ایرانی مزاج میں ہندوستان کا رنگ و آہنگ بھی شامل ہو گیا اور غزل کے دائرے میں وسعت کا سبب ٹھہرا ۔ اگرچہ بابا فرید شکر گنج (۱۱۷۳ء تا ۱۲۶۵ء) سے لے کر حسن شوقی (م ۱۶۳۳ء) اور ولی دکنی(م ۱۷۲۰ء تا ۱۷۲۵ء) تک کر پانچ صد سالہ ادبی سفر میں غزل کی نسبت مثنوی زیادہ مقبول صنف ِ سخن کے طور پر سامنے آئی تاہم غزل کا یہ سفر اُردوئے قدیم کی ابتدائی لسانی صورتوں اور ہند ایرانی مزاجوں کے اتصال ِ اولیں کا عکاس ہے۔
اُردوئے قدیم میں غزل کی مندرجہ ذیل شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ ان شکلوں کو محققین نے ’’ ریختہ‘‘ کا نام دیا ہے:
الف: فارسی اشعار میں اُردو کا ایک آدھ لفظ یا محض ردیف ، قافیہ استعمال ہوا ہے۔
ب : نصف مصرع فارسی میں جب کہ نصف اُردو میں ہے۔
ج : ایک مصرع فارسی میں جب کہ دوسرا مصرع اُردو میں ہے۔
اُردوئے قدیم میں غزل کی متذکرہ صورتیں اس امر کی گواہ ہیں کہ ابتدا سے ہی اُردو غزل فارسی روایت کے تابع رہی ہے۔ ذیل میں بابا فرید شکر گنج سے ولی دکنی تک غزل کے تشکیلی سفر کے تکنیکی خدوخال کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
بابا فرید سے جو اُردو کلام منسوب ہے اس میں یہ ریختہ بھی شامل ہے :
وقتِ سحر ، وقتِ مناجات ہے
خیز در آں وقت کہ برکات ہے
نفس مبادا کہ بگوید ترا
خسپ چہ خیزی کہ ابھی رات ہے
با تنِ تنہا چہ روی زیں زمیں
نیک عمل کُن کہ وہی سات ہے
پند ِ شکر گنج بدل جاں شنو
ضائع مکن عمر کہ ہیہات ہے (۵)
یہ ریختہ فارسی غزل کے گہرے اثرات لیے ہوئے ہے ، ہیئت اور تکنیک میں بہ جُز اس کے کو ئی فرق نہیں کہ اس میں اُردوئے قدیم کے الفاظ شامل ہیں ۔ یہ ریختہ بحرِ سریع مطوی مکسوف ( مفتعلن مفتعلن فاعلن) میں ہے۔اس ریختے کے وزن اور خیالات سے مولانا محمد حسین آزاد کا یہ خیال باطل ہو جاتا ہے کہ :
’’ فارسی کی بحریں اور فارسی کے خیالات ایک زمانہ تک اس ( ہندوی) میں گھسنے نہیں پائے۔‘‘ (۶)
اگرچہ بعض محققین نے اس ریختے کو بابا فرید کی تخلیق تسلیم نہیں کیا ہے مگر وہ خود کسی نتیجے تک نہیں پہنچے کہ یہ ریختہ اگر بابا فرید کی تخلیق نہیں تو پھر اس کا خالق کون ہے؟ بابا فرید سے ولی دکنی تک ایسے کئی ریختوں کا سراغ لگایا جا چکا ہے جن میں اُردو اور فارسی شیر و شکر ہوتی نظر آتی ہیں۔یہ ریختے تکنیکی اعتبارات سے فارسی غزل کے تتبع میں ہیں ۔
اُردوئے قدیم کی خوش نصیبی کہ اسے ابتدا میں ہی امیر خسرو جیسا با کمال شاعر میسر آ گیا جس نے اس زبانِ سخن نا آشنا کو کو سخن آشنا کیا ، انہوں نے پہیلیاں ، کہہ مکرنیاں، دوہے اور ریختے کہہ کر اس زبان کو با ثروت بنایا ، ان سے یہ ریختہ بھی منسوب ہے:
ز حالِ مسکیں مکن تغافل دو رائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلش چو عمرِ کوتاہ
سکھی پیا کوں جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
بحقِ روز ِ وصالِ دلبر کہ داد ما ر ا فریب خسرو
پسیت من کہ درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں (۷)
یہ ریختہ متقارب مثمن مقبوض اثلم مضاعف( فعولُ فعلن فعولُ فعلن فعولُ فعلن فعولُ فعلن) میں ہے ، حافظ محمود شیرانی نے اولاً اسے امیر خسرو کی تخلیق بتایا ہے مگر بعد میں یہ کہہ کر اس کی تردید کرتے ہیں کہ:
’’ یہ وزن عہدِ امیر خسرو میں فارسی میں بھی موجود و مروج نہ تھا ، فارسی کے شاعر عصمت بخاری نے نویں صدی کے وسط میں اس بحر میں شعر کہے ہیں ، جب کہ امیر خسرو کا زمانہ سو ڈیڑھ سو سال پہلے کا ہے۔‘‘ ( ۸)
امیر خسرو مخترع اور صناع تھے، انہوں نے کئی میدانوں میں اپنی ذہانت اور طباعی کے سکے بٹھائے ہیں ، اس وزن کی ایجاد ان کے لیے چنداں مشکل نہ تھی پھر یہ کہ ریختۂ مذکور اور خسرو کے دوسرے کلام کی زبان اور تکنیک میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
خسرو کے ہم عصر اور پیر بھائی امیر حسن سنجری بھی شاعر تھے ۔ان کا ایک ریختہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے انجمن ترقی ٴ اُردو ، کراچی کے کتب خانۂ خاص میں موجود ایک قدیم قلمی بیاض سے نقل کیا ہے ، یہ ریختہ امیر خسرو کے رنگ اور اسلوب کی تقلید میں ہے۔ اس ریختے کی بحر رجز سالم ( مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن )ہے، دو شعر دیکھیے:
ہر لحظہ آید در دلم دیکھوں اوسے ٹُک جائے کر
گویم حکایت ہجر خود با آں صنم جیو لائے کر
بس حیلہ کردم اے حسن بے جاں شدم از دم بدم
کیسے رہوں تجھ جیئو بن تم لے گئے سنگ لائے کر (۹ )
حیرت کی بات ہے کہ محققین کو حسن دہلوی کے بعد شیخ جمالی کنبوہ ( م ۱۵۳۵ء) تک کوئی اُردو غزل ( ریختہ) دست یاب نہیں ہوئی، شیخ جمالی کنبوہ کے ریختے دیکھ کر یہ حیرانی دو چند ہو جاتی ہے کہ دو صدیوں کا طویل سفر کرنے کے بعد ریختہ کی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ شیخ جمالی کے ریختوں کی ظاہری شکل وہی ہے جو عہد خسرو میں تھی۔ شیخ جمالی کے دو شعر دیکھیے:
خوار شدم زار شدم لُٹ گیا
در رہِ عشق تو کمر ٹٹا ہے
آں پری رخسار چوں شانہ بہ چوٹی می کند
جاں درازِ عاشقاں را عمر چھوٹی می کند (۱۰ )
اوّل الذکر ریختہ بحرِ سریع مطوی مکسوف ( مفتعلن مفتعلن فاعلن) میں ہے ۔ ثانی الذکر کی بحر رمل مثمن محذوف / مقصور( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن/ فاعلات) ہے۔ ان ریختوں میں اُردو کے چند ایک الفاظ بہ طور قافیہ استعمال ہوئے ہیں۔ تکنیکی اور فنی حوالے سے ان ریختوں میں سوائے اس کے کوئی خوبی نہیں کہ یہ غزل کی تشکیلی روایت کے امین ہیں اور ان سے اس عہد کی زبان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اکبری عہد کے شعرا سقا بخاری، سیدن، جانی، اور فیضی کی جو غزلیں سامنے آئی ہیں ان کا انداز بھی شیخ جمالی کا سا ہے ، ان کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شعرا کی سنجیدہ کاوشیں نہیں ہیں بل کہ محض برائے تفنن کہی گئی ہیں ان سے اُردو زبان کی تنگ دامانی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بے محل نہ ہو گی کہ شعرا کی یہی غیر سنجیدہ کاوشیں اُردو کی باقاعدہ شعر گوئی کا محرک ٹھہریں اور ’چھیڑ چھاڑ ‘ کی یہ صورتیں اُردو زبان کو با ثروت بنانے کا ذریعہ ثابت ہوئیں۔سقا بخاری کے دو شعر دیکھیے، جو اکبری عہد میں اُردو زبان کی تنگ دامانی اور بے سر و سامانی کے غماز ہیں:
باز ہندو بچہ قصد دلم دھرتی ہے
کوچہ نہیں جانوں ازیں خستہ (کہ)کی کرتی ہے (۱۱ )
وہ بہ سوئے دیر بُردم بھُل پڑے
دُرد دُردِ بادہ خوردم بھُل پڑے (۱۲ )
شاہ جہان کے عہد حکومت ( ۱۶۲۷ء تا ۱۶۵۷ء) میں اُردو زبان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ، فوجیوں اور سرکاری ملازمین کے لیے لازم قرار پایا کہ وہ اُردو زبان سے آشنا ہوں ۔ اس عہد میں لکھی گئی غزلیات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُردو کو پہلی بار سنجیدگی کے ساتھ تخلیقی مقاصد کے لیے برتا گیا۔منشی ولی رام ولی اور پنڈت چندر بھان برہمن(۱۵۷۴ء تا ۱۶۶۲ء) کی غزلیں اس عہد کو دو مختلف لسانی صورتوں کی نمائندگی کرتی ہیں ، منشی ولی کی غزل پر فارسی کا غلبہ ہے ، تاہم مندرجہ ذیل مصرعے خالص اُردو میں ہیں :
بچھائی گاہ کی تیری وہی تیرا بچھانا ہے
دہینگے کفن کی چادر جو تیرا خاص بانا ہے
تو اپنے آپ کو بھولا ، کسی کو نا پچھانا ہے
مرن کو دور مت سمجھو عجب یہ ٹک بہانا ہے
پنڈت چندر بھان برہمن کی ساری غزل اُردو میں ہے ، اگر برہمن کی غزل کو اُردو کی پہلی باقاعدہ غزل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ برہمن نے فارسی علائم و رموز کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تلمیحات و الفاظ کا استعمال کچھ اس طرح کیا ہے کہ اُردو غزل فارسی غزل کے تابع مہمل نہیں رہی، ساقی ، شیشہ، تسبیح، مالا ، خوباں، خنجر ، باغ، سوسن اور لالہ جیسی فارسی علامات کے ساتھ ساتھ سمرن ، کنٹھی،دونا، مروا، برچھی، کرچھے، بھالا ، اشنان، بگیا ، گنگا اور جمنا کے استعمال سے مقامی رنگ ابھر کر سامنے آ گیا ہے جو بعد میں مزید نکھر کر اپنی علاحدہ شناخت کو منوانے میں کام یاب ہوا۔ غزل کے تکنیکی خدوخال شاعر کی مہارتِ سخن کی نشان دہی کرتے ہیں مگر افسوس کہ ہمیں برہمن کا اور کلام نہیں مل سکا۔ الفاظ کے درو بست اور بحر ( بحرِ ہزج مثمن سالم) نے غزل کو خوش آہنگ بنا دیا ہے ، ذیل میں برہمن کی غزل پوری نقل کی جاتی ہے:
خدا نے کس شہر اندر ہمن کو لائے ڈالا ہے
نہ دلبر ہے ، نہ ساقی ہے ، نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے
پیا کے ناؤں کی سمرن کیا چاہوں کروں کس سیں
نہ تسبی ہے ، نہ سمرن ہے، نہ کنٹھی ہے، نہ مالا ہے
خوباں کے باغ میں رونق ہوئے تو کس طرح یاراں
نہ دونا ہے ،نہ مروا ہے ، نہ سوسن ہے، نہ لالہ ہے
پیا کے ناؤں عاشق کوں قتل ۔۔۔ یا عجب دیکھے
نہ برچھی ہے، نہ کرچھے ہے، نہ خنجر ہے ، نہ بھالا ہے
برہمن واسطے اشنان کے پھرتا ہے بگیا سیں
نہ گنگا ہے ، نہ جمنا ہے، نہ ندی ہے ، نہ نالا ہے (۱۳ )
عہدِ عالم گیری (تا ۱۷۰۷ء) میں شیخ ناصر علی سرہندی نے دکنی اُردو میں غزل کہہ کر اُردو کے سرمائے میں اضافہ کیا ، ان کی مخصوص دکنی لفظیات بعد کے شعرا کے لیے نمونہ ٹھہریں۔ انہوں نے ایسی فارسی بحروں کا انتخاب کیا جن سے عجیب طرح کی جھنکار پیدا ہوتی ہے جو سماعت کو خوش گواریت عطا کرتی ہے۔ ناصر نے فارسی تراکیب بارِ ہستی، خالِ مشکیں، تیغِ ابرو، چشمِ نرگس اور بہ وصلِ دل دار وغیرہ کے ساتھ ساتھ چندر سے مکھ پر، ہوا ہے جیونا جگت میں مشکل ، نین کے ساغر، تمن کے بھیتر ، تمن کر ابرو کمان دستے جیسی دکنی بندشیں اور الفاظ استعمال کر کے فارسی اور دکنی کو باہم شیر و شکر کرنے کی سعی کی ہے ،ناصر کی ایک غزل کے دو شعر دیکھیے:
سجن کے حسن کا قرآں پڑھیا ہے میں نظر کر کر
نہیں پائی غلط اوس میں دیکھیا زیر و زبر کر کر
معانی اور بیاں بھیتر بدیع اس کو سمجھتا ہوں
پڑھی ہے حسن تیرے کی مطوّل جس فکر کر کر (۱۴)
بہمنی دور ( ۱۳۵۰ء تا ۱۵۲۵ء) میں شاعروں نے مثنوی کو ذریعۂ اظہار بنایا ، اس پورے دور میں کوئی ایک بھی ایسی غزل دکھائی نہیں دیتی جو اپنے تکنیکی خد و خال کے باعث جاذبِ نظر ہو۔ عادل شاہی دور(۱۴۹۰ء تا ۱۶۸۵ء) میں بھی مثنوی اہم صنف رہی تاہم اس کے پہلو بہ پہلو غزل بھی لائقِ توجہ بنی، شہباز حسین قادری بیجا پوری، سید محمد دہدار فانی اور ملک خوشنود نے غزل کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا انہوں نے دکنی معاشرت اور تہذیب کے رجحانات کو اپنی غزلوں میں پیش کیا ، انہوں نے ایسی تشبیہات وضع کیں جو آج بے رنگ نظر آتی ہیں مگر اُس دور میں یہ قدر و قیمت رکھتی تھیں، ملک خوشنود اپنے عہد کا قابلِ قدر شاعر تھا اس نے اپنے کلام میں تشبیہات کو اس عمدگی سے برتا ہے کہ معمولی خیال چمک چمک اٹھے ہیں:
اچپل چتر سکی کوں ہمارا سلام ہے
جس کے اُدھر میں شہد تے میٹھا کلام ہے
جئو جوں چکور ہوا تجے دیکہت چندر مکہی
منج من میں اشتیاق جو تیرا مدام ہے(۱۵)
عادل شاہی دور کا سب سے اہم اور نمائندہ شاعر حسن شوقی ہے ، شوقی نے دکنی زبان کو فارسی کے قریب کرنے کی کام یاب کوشش کی ، ڈاکٹر جمیل جالبی نے درست کہا ہے کہ ’’ حسن شوقی کی غزلیں اسی روایت کا حصہ ہیں جس کے فراز پر ولی دکنی کی غزل کھڑی ہے ۔‘‘ (۱۶) شوقی کی غزل اپنے مزاج کے اعتبار سے جدید غزل کی ابتدائی روایت کا معتبر نقش ہے۔ اس نے غزل کو اس ناہمواریت اور کھردرے پن سے آزاد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا جو دکنی زبان کی مخصوص لفظیات کے باعث شاعری میں در آیا تھا۔حسن شوقی کی غزل رمز و اشارات اور تشبیہات و کنایات میں فارسی روایت کی تقلید کے باعث مقامی (دکنی) غزل سے بالکل الگ دکھائی دیتی ہے۔گُل و بلبل، زاہد و ناصح ، شمع و پروانہ ، وامق و عذرا، لیلیٰ و مجنوں، شیریں و فرہاد، زلفِ پیچاں اور رقیب وغیرہ جیسے اشارات و تلمیحات دکنی غزل میں پہلی بار اپنا اظہار کرتے ہیں۔ شوقی نے غزل کے تکنیکی خدوخال کا خاص خیال رکھا ہے ، اس کے ہاں تجنیسِ لفظی، حسنِ تعلیل، تشبیہات کا خاص اہتمام ملتا ہے، اس نے صنائع بدائع کے استعمال سے غزل کے حسن میں اضافہ کیا ہے ، شوقی کو اپنی غزل کی خوب صورتی کا احساس تھا اسی لیے وہ کہتا ہے کہ:
شوقی کی ہے پیاری، ہنس ہنس کہے سو ناری
افضل غزل تمہاری، جوں سور ہے گگن میں
ڈاکٹر جمیل جالبی کے مرتب کردہ ’’ دیوانِ حسن شوقی ‘‘ میں کل اکتیس غزلیں ہیں ، جو مروجہ فارسی اوزان میں ہیں۔ زیادہ غزلیں بحرِ ہزج مثمن سالم( مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن) اور بحرِ رجز سالم (مستفعلن مستفعلن مستفعلن) میں ہیں ، یہ اوزان رواں دواں اور خوش آہنگ ہیں ، ان کے علاوہ شوقی نے تین اور اوزان بھی استعمال کیے ہیں ، جو یہ ہیں:
۱۔ بحرِ مضارع مثمن اخرب( مفعولُ فاعلاتن مفعولُ فاعلاتن)
۲۔بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف( مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن)
۳۔ بحرِ خفیف مخبون محذوف( فاعلاتن مفاعلن فعلن)
دوسرے اور تیسرے وزن میں صرف ایک ایک غزل کہی گئی ہے۔ حسن شوقی کے چند شعر دیکھیے:
اگر مجنوں کی تربت پر گذر جاؤں دیوانہ ہو
کہ مجنوں حال میرے کوں جو دیکھے در کفن لرزے
نرمل بدن نورانی ، ہے لیلة البدر تے
جگ میں ہوا اندھارا، تجہ زلفِ شب قدر تے
تجہ زلف کے رین میں جھمکے مرنگ عذارا
کوئی چاند کوئی زہرا کوئی مشتری کتے ہے
کہیں وامق، کہیں عذرا ، کہیں مجنوں ، کہیں لیلیٰ
کہیں خسرو، کہیں شیریں، کہیں فرہاد ہووے ہے
لباسِ خسروانی کر چھندوں سے سیم تر نکلے
سراسر ناز کا لشکر برابر بھار کر نکلے (۱۷)
حسن شوقی کے بعد غزل کا اہم شاعر قلی قطب شاہ (۱۵۶۵ء تا ۱۶۱۱ء) ہے۔ اس نے اُردو میں پہلی بار فارسی طرز پر اپنا دیوان مرتب کیا ، وہ نہایت پُر گو شاعر تھا اور اس کی شعروں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہے، اس نے سترہ کے قریب تخلص برتے ہیں ایسی مثال ادبیاتِ عالم میں کہیں اور نہیں ملتی۔ عشق و مستی میں ڈوبی ہوئی فضا اور حسن پرستانہ رویے نے اس کی غزل کو گیت کا مزاج عطا کر دیا، اس کی غزل میں کہیں کہیں نسائی مزاج ملتا ہے جو بعد میں لکھنؤ میں ریختی کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ، یہ مزاج ہندی لوک گیتوں کے اثر کا نتیجہ ہے۔ اس نسوانی طرز کی چند مثالیں دیکھیے:
چھبیلی ہے صورت ہمارے سجن کی
کیا پُوتلی اس کہوں آپ نین کی
پرم رنگ رسیلے کوں گُڑ سوں رجھا کر
لگا دوں گی چھاتی ، پلا دوں گی پیالے
ترے درسن کی میں ہوں سائیں ماتی
مجے لا دو پیا چھاتی سوں چھاتی (۱۸)
قلی قطب شاہ کے دیوان میں کثرت سے مسلسل غزلیں ملتی ہیں۔یہ تسلسل بارہ پیاریوں کے سراپے میں زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ اس نے ہندو دیو مالا اور لوک کتھاؤں سے تلمیحات کو چنا اور اپنی شاعری میں استعمال کیا تاہم اس کے باوجود اس کے دور میں فارسی کو زیادہ رواج ملا، ڈاکٹر محی الدین زور کے بہ قول قلی قطب شاہ نے حافظ شیرازی کی پچاس غزلوں کا منظوم اُردو ترجمہ بھی کیا ،(۱۹) اس کے دور میں عربی/ فارسی عروض کو پہلے کی نسبت زیادہ قبول ملا ، حافظ محمود شیرانی فرماتے ہیں:
’’ یہ فارسی عروض کی ہندی میں اشاعت تھی جس نے اُردو زبان کے مستقبل ہمیشہ کے لیے ایک ہنگامہ خیز انقلاب پیدا کر دیا۔ یہ انقلاب گیارہویں صدی ہجری( سترہویں صدی عیسوی) کے آغاز میں شروع ہوتا ہے اور اس کا پہلا نتیجہ محمد قلی قطب شاہ کا کلیات ہے۔‘‘ (۲۰)
قلی قطب شاہ نے تین سو کے قریب غزلیں کہی ہیں جو سب فارسی عروض میں ہیں ۔ اس نے بائیس کے قریب مختلف اوزان میں شعر کہے ہیں جو اس کی استادہ حیثیت کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ بحرِ ہزج سالم (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)اور متقارب مثمن سالم(فعولن فعولن فعولن فعولن)اس کے پسندیدہ اوزان ہیں اور ان میں اس نے سب سے زیادہ غزلیں کہی ہیں۔وہ علمِ عروض کا ماہر تھا ، اس کے دیوان میں کئی ایسے اوزان بھی ملتے ہیں جن کا اس سے پہلے اُردو میں چلن نہیں تھا، ڈاکٹر محمد اسلم ضیا کی تحقیق کے مطابق وہ چھ اوزان یہ ہیں(۲۱):
۱۔ ہزج مثمن محذوف/ مقصور( مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن/ مفاعیل)
۲۔ ہزج مثمن مکفوف الآخر( مفاعیلُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولن)
۳۔رمل مثمن مسبغ الآخر( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتان)
۴۔ رمل مسدس سالم( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن)
۵۔ متقارب مثمن مسبغ( فعولان فعولان فعولان فعولان)
۶۔ رجز مسدس سالم( مستفعلن مستفعلن مستفعلن)
حسن شوقی اور قلی قطب شاہ نے غزل کو جس منہاج پر چلانے کی کوشش کی اس کی کامل ترین شکل ہمیں ولی دکنی کے ہاں نظر آتی ہے ، ولی دکنی نے تکنیکی اور فنی حوالے سے غزل کو اس قدر چمکایا کہ وہ باقی اصنافِ سخن کی امام بن گئی۔
ولی دکنی(م ۱۷۲۰ء سے۱۷۲۵ء کے درمیان) جب نغمہ سرا ہوا اُس وقت اُردو کی شاعری تین صدیوں کا باقاعدہ سفر طے کر چکی تھی، ان تین صدیوں کے سفر میں اسے قدم قدم پر نئے زاویوں سے ہم کلام ہونا پڑا ، وہ ہر زاویے سے رنگ و آہنگ کشید کرتی اپنے وجود کو توانائی فراہم کرتی مسلسل آگے بڑھتی رہی۔ اس سارے عرصے میں جن دو اہم رجحانات نے اسے اپنے دام کا اسیر کیے رکھا انہیں ہم اپنی آسانی کے لیے ہندی اور ایرانی رجحان کا نام دے سکتے ہیں ، اولاً اُردو شاعری اپنے مزاج، اصناف اور تکنیکی خد و خال کے اعتبار سے ہندی رجحان کے تابع رہی اور بعد میں مختلف معاشرتی ، سماجی، سیاسی اور مذہبی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس رجحان کی جکڑ بھی ڈھیلی پڑتی چلی گئی اور اس کی جگہ بہ تدریج ایرانی رجحان نے لے لی اور یوں اُردو شاعری ابھی ہندی رجحان کے سحر سے پوری طرح آزاد بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایرانی رجحان کے دامِ خوش رنگ میں گرفتار ہوتی چلی گئی۔ہندی اصناف اور لفظیات کے ساتھ ساتھ فارسی اصناف، میلانات، اسالیب ، اساطیر اور لفظیات کے وسیع ترین ذخائر سے استفادہ نے اُردو زبان کو با ثروت بنا دیا اور ہندوی سے آغاز ہونے والا سفر گجری اور دکنی سے ہوتا ہوا ریختہ کی منزل تک آ پہنچا جہاں اسے ولی دکنی ایسا قادر الکلام فن کار میسر آ گیا جس نے اس کی اگلی منزل ’’اُردوئے معلیٰ‘‘ تک کا راستہ ہم وار کر دیا۔ عین اس وقت جب دہلی اور اورنگ آباد یا شمال اور جنوب آپس میں گلے مل رہے تھے،ولی دکنی فارسی اور دکنی کی آمیخت سے ریختہ کی تشکیل میں مصروف تھا، اس کی اس پیوند کاری کو ’’آبِ حیات ‘‘ کا مصنف خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’ ایک زبان کو دوسری سے ایسا بے معلوم جوڑ لگا یا کہ آج تک زمانے نے کئی پلٹے کھائے مگر پیوند میں جُنبش نہیں آئی۔‘‘ (۲۲ )
ولی دکنی نے سید ابو المعالی کی معیت میں دہلی کا جو سفر (۱۷۰۰ء) کیا وہ اُردو زبان و ادب کی تاریخ کا ایسا سنگِ میل ہے جس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُردو زبان و ادب کا رخ بدل دیا۔ شاہ سعد اللہ گلشن سے ولی کی ملاقات انتہائی منفعت بخش ثابت ہوئی۔شاہ گلشن نے ولی کا کلام سنا تو مشورہ دیا کہ:
’’ ایں ہمہ مضامینِ فارسی کہ بیکار افتادہ اند ، در ریختۂ خود بہ کار ببر، از تو کہ محاسبہ خواہد
گرفت۔‘‘(۲۳)
ولی دکنی کو شاہ سعد اللہ گلشن کی یہ بات اتنی پسند آئی کہ اس نے فارسی کے ذخیرے سے استفادہ کر کے اپنے رنگِ سخن کو فارسی رنگِ سخن سے ہم آہنگ کر دیا۔ ولی نے نہ صرف یہ کہ فارسی شاعروں کی زمینوں میں غزلیں کہیں بلکہ فارسی محاورات کے ریختہ میں ایسے کامیاب ترجمے کیے جو اب بھی اُردو زبان کا سرمایہ ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی نے ان محاورات کی ایک فہرست اپنی کتاب ’’ ولی گجراتی‘‘ میں دی ہے ، اس سے مشتِ نمونہ از خروارے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
دل بستن، دل باندھنا، ع : ولی جن نے نہ باندھیا دل کوں اپنے نونہالاں سے
دامن گرفتن، دامن پکڑنا، ع : تو بہتر یوں ہے جا دامن پکڑ عشقِ مجازی کا
روا داشتن، روا رکھنا، ع : رکھتا ہے کیوں جفا کو مجھ پر روا اے ظالم
آب کردن، آب کرنا، ع : اے ولی! دل کو آب کرتی ہے
گرم شدن بازار، بازار گرم ہونا، ع : ہوا ہے گرم تیرے عشق کا بازار ہر جانب
حساب گرفتن، حساب لینا ع : لیتا ہے اس کے ناز و ادا کا حساب آج
تماشا کردن، تماشا کرنا، ع : مجھ مکھ کا نور جب سوں تماشا کیا ولی
جا کردن، جا کرنا، ع : گوہر اس کی نظر میں جا نہ کرے
چشم داشتن، چشم رکھنا، ع : چشم رکھتا ہوں اے سجن کہ پڑھوں
جفا کشیدن، جفا کھینچنا، ع : سدا عاشقاں کھینچتے ہیں جفا (۲۴)
ولی دکنی کی یہ ترجمہ سازی صرف فارسی محاورات تک محدود نہ تھی بلکہ اس نے ضرب الامثال، روزمرہ اور شاعروں کے پورے پورے شعر ریختہ میں ترجمہ کیے ہیں ، ولی دکنی کی زبان بھی ان کی امتزاجی شخصیت کی آئینہ دار ہے ، صفیر بلگرامی نے ولی دکنی کی زبان کو تین قسموں میں بانٹا ہے ،(۲۵) پہلی قسم ایسے اشعار پر مشتمل ہے جن میں خالص دکنی، گجری اور ہندوی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، دوسری قسم ایسے اشعار کو محیط ہے جن کی زبان تو صاف ہے مگر کہیں کہیں مخصوص دکنی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، تیسری قسم کے اشعار کی زبان مقامی الفاظ سے مکمل طور پر پاک ہے اور جدید زبان کی طرح صاف اور شفاف ہے، ڈاکٹر جمیل جالبی ولی کی شاعرانہ زبان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ زبان کی سطح پر ایک طرف ولی نے گزشتہ دو سو سال کی زبان کو جدید رنگ سے ملا کر اپنی شاعری میں جذب کیا اور دوسری طرف اسے آئندہ آنے والی دو صدیوں کی زبان سے بھی ملا دیا ہے۔
اس طرح دسویں صدی ہجری سے لے کر تیرھویں صدی تک کی زبان ولی کے کلام میں موجود ہے، یہ وہ تعمیری صلاحیت ہے جس کی داد ہمیشہ دی جاتی رہے گی۔‘‘ (۶ ۲)
ولی دکنی نے غزل کے محدود تصور کو وسعت آشنا کیا اور پہلی بار غزل رسمی عاشقانہ موضوعات اور اکہری خارجیت سے آگے بڑھ کر تنوع اور داخلیت کے گہرے شعور کے ساتھ پوری انسانی زندگی پر پھیل گئی۔ تکنیکی حوالے سے بھی ولی نے غزل کو ’’کان ِ جواہر‘‘ بنا دیا ، صنائع و بدائع کی استادانہ رنگ آمیزی اس کے احساس و افکار کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ظہور پذیر ہوئی ۔ ولی کے ہاں تشبیہات و استعارات کا استعمال اتنا بھر پور اور بے تکلفانہ ہے کہ ایک طرف تو شعر جمالیاتی وفور کا مرقع بن جاتا ہے اور دوسرا اس کی روانی اور تأثر میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے، ولی کی تشبیہیں آج بھی نئی لگتی ہیں ، چند مثالیں دیکھیے:
مسندِ گل منزلِ شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدۂ بیدار کا
لوحِ محفوظ ہے ترا رخسار
زلف اس پہ مگر قلم دِستا
ولی اس گوہر ِ کانِ حیا کی کیا کہوں خوبی
مرے گھر اس طرح آتا ہے جیوں سینے میں راز آوے
مجھ دل کے کبوتر کوں پکڑا ہے تری لٹ نے
یہ کام دھرم کا ہے ٹُک اس کو چھڑاتی جا
زاہد کو مثلِ دانۂ تسبیح ایک دن
کوچے ستی ریا سوں نکلنا محال ہے
اے نورِ جان و دیدہ ترے انتظار میں
مدت ہوئی پلک سوں پلک آشنا نہیں (۲۷)
صنائع کے استعمال میں بھی ولی کی جمالیاتی حس اپنی موجودگی کا پتا دیتی ہے۔ اس کے کلام میں تجنیس، حسنِ تعلیل، صنعتِ عکس، صنعتِ تلمیح، مراة النظیر، تجاہلِ عارفانہ ، ایراد المثل اور ایہام جیسی صنعتوں کا استعمال ہوا ہے اور یہ صنعتیں ہر جگہ معانی کی ترسیل میں ایک اہم عنصر کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ولی دکنی جہاں لفظ کی قدر و قیمت اور آرائش پر نگاہ رکھتا ہے وہاں معنی کی حرمت اور وقعت کو بھی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔گویا لفظ کے خارجی اور داخلی پہلو بہ یک وقت اس کی نظر میں رہتے ہیں، اسی لیے وہ کہتا ہے:
گرچہ پابندِ لفظ ہوں لیکن
دل مر ا عاشقِ معانی ہے
آہنگ اور موسیقیت کے حوالے سے بھی ولی کی غزل اپنے عہد کی نمائندہ غزل قرار پاتی ہے ، اگرچہ اس نے انہی اوزان میں غزلیں کہی ہیں جو اس کے پیش رو برت چکے تھے مگر الفاظ کے در و بست سے اس نے ان اوزان میں ترنم کی ایک مخصوص کیفیت پیدا کر دی ہے۔اگرچہ اس نے بیس کے قریب بحریں استعمال کی ہیں مگر اس کا سب سے محبوب وزن ہزج مثمن سالم ( مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)ہے جو نہایت رواں دواں اور پُر تاثیر ہے، اس کے دیگر پسندیدہ اوزان یہ ہیں:(۲۸)
۱۔بحرِ خفیف مخبون محذوف (فاعلاتن مفاعلن فعلن)
۲۔ بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف/ مقصور( مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن)
۳۔ بحرِ رمل مثمن محذوف( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)
۴۔ بحرِ ہزج مسد س محذوف( مفاعیلن مفاعیلن فعولن)
ولی دکنی موسیقی کی تاثیر سے بہ خوبی آشنا تھا ، اس کی غزلوں میں نغمگی کی ایک مخصوص فضا موجود ہے جو اس کی شناخت بن گئی ہے اس مخصوص کیفیت کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی رقم طراز ہیں:
’’ ولی کی ایک اور خصوصیت ان کا وہ مخصوص راگ اور وہ لَے ہے جس سے اُردو شاعری پہلی بار بھر پور طریقے سے آشنا ہوئی اور یہ راگ اور لَے خود اُردو شاعری سے مخصوص ہو گئے، اس راگ کو مسلسل غزلوں میں واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، شعروں کا مجموعی راگ ایک ہی احساس کے پھیلاؤ سے ہم آہنگ ہو کر سروں کو بیدار کرتا ہے اور راگ کا نرم خرام دریا بہنے لگتا ہے۔ لمبی بحروں کی غزلوں میں یہ راگ پھیل گیا ہے اور اس میں ایک آہستہ روی پیدا ہو گئی ہے لیکن چھوٹی بحروں کی غزلوں میں یہ راگ اپنی تیزی سے اثر کو گہرا کر دیتا ہے ۔ ولی کی لَے ، اس کے ترنم اور لہجے سے اُردو شاعری کا مخصوص ترنم اور لہجہ قائم ہوتا ہے۔ اُردو شاعری کے قدرتی راگ (RHYTHM) کو دریافت کرنے میں بھی اولیت کا سہرا ولی کے سر بندھتا ہے۔‘‘(۲۹)
ولی دکنی نے لفظوں کی تراش خراش اور تکنیکی عناصر کے بر محل استعمال سے ایک ایسا جاذب نظر اسلوب وضع کیا جس کی چمک دمک نے بعد کے شاعروں کو بہت متأثر کیا ، اس کے اسلوب کی یہی رعنائی اس کے کلام کی حیاتِ جاوید کا ذریعہ بن گئی۔اس نے اُردو شاعری کے وجود میں تازہ روح پھونک کر اسے فارسی شاعری کا ہم سر بنا دیا ، اس کی شعر گوئی نے نئے آفاق روشن کیے اور نئے امکانات کے دریچے وا کر دیئے:
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن
ولی دکنی کے معاصرین میں سید محمد فراقی ( م۱۷۳۱ء) اور داؤد اورنگ آبادی( م ۱۷۴۴ء) کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، سید محمد فراقی کی زبان بیجا پوری اور دکنی اثرات سے بوجھل تھی اور فارسی اثرات سے بہت حد تک بے گانہ ،جب کہ داؤد اورنگ آبادی نے شعوری طور پر ولی کے رنگ سخن کو اپنایا وہ اپنے آپ کو جانشینِ ولی کہتا ہے:
حق نے بعد از ولی مجھے داؤد
صوبۂ شاعری بحال کیا
داؤد نے ایہام کو رواج دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اس نے اپنے دیوان میں صنعتِ ایہام میں کہے گئے اشعار کو ’’ فردیاتِ ایہام ‘‘ کے تحت مرتب کیا، اس کے نزدیک ایہا م ایک معتبر طرزِ کلام ہے:
عالم میں معتبر ہے اکثر سخن اوسی کا
مثلِ قلم جہاں میں جو’’ دو زباں‘‘ ہوا ہے
داؤد بے پناہ مقبولیت کے باوجود اس مقام کو نہیں پہنچتا جو اس کے معاصر سید سراج الدین سراج اورنگ آبادی ( ۱۷۱۵ء تا۱۷۶۳ء) کا مقدر ٹھہرا، ڈاکٹر جمیل جالبی کے نزدیک ولی کے بعد اور میر و سودا سے پہلے دور کا سب سے بڑا شاعر سید سراج اورنگ آبادی ہے۔(۳۰) فارسی روایت کی جلوہ گری جس نے ولی کے کلام کو تازگی اور چمک عطا کی تھی وہ سراج کے کلام میں اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ موج زن نظر آتی ہے۔ سراج نے ولی کی متابعت میں ایسی زندۂ جاوید ترکیبیں اور بندشیں وضع کیں جن سے اُردو غزل کی روایت جگمگا اٹھی، سراج کی چند تراکیب دیکھیے:خیالِ عارضِ گل رنگ ، تشنۂ زخمِ کفِ قاتل ، کمندِ پیچ و تابِ زلف ، خیالِ قامتِ گل رو ،
شکوۂ طرزِ تغافل، شرحِ بے تابی ٴ دل ، مشعلِ سوز ِ جگر، خیالِ عکسِ رخِ یار،
فارسی میں ایسی تراکیب کا مل جانا مشکل نہ ہوگا مگر اُردو میں سراج سے پہلے ان کا وجود نہیں ملتا، سراج نے غزل کے تکنیکی خدوخال کو وہ دل کشی اور جاذبیت عطا کی جو متاخرین کے لیے سرمایہ ٹھہری، سراج نے تشبیہات و استعارات اور محاورات و ضرب الامثال کو اتنی برجستگی اور خوش سلیقگی سے برتا ہے کہ معنوی وسعت کے ساتھ ساتھ اس کی ظاہری صورت بھی چمک چمک اٹھی ہے:
آج کی رات مرا چاند نظر آیا ہے
چاندنی دود سی چھٹکی ہے مرے آنگن میں
کیا ہوا گرچہ یار ہے نزدیک
آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل ہے
عشق دونوں طرف سے ہوتا ہے
کیا بجے ایک ہاتھ سوں تالی
مشتاق ہوں تجھ لب کی فصاحت کا ولیکن
رانجھا کے نصیبوں میں کہاں ہیر کی آواز
مسجد میں تجھ بھنوؤں کی اے قبلۂ دل و جان
پلکیں ہیں مقتدی اور پتلی امام گویا (۳۱)
سراج نے مترنم اور خوش آہنگ بحروں میں شعر کہے ہیں ، لفظوں کے در و بست اور تکرار سے اس نے نغمگی اور موسیقیت کی ایسی فضا پیدا کی ہے جو اپنی مثال آپ ہے:
ادائے دل فریب ِ سر و قامت
قیامت ہے ، قیامت ہے، قیامت
کبھی سمتِ غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہال ِ غم ،جسے دل کہیں سو ہری رہی
نغمہ و آہنگ سے گہری شناسائی کے باعث اس نے دو تین ایسے اوزان میں بھی شعر کہے ہیں جو اس سے پہلے اُردو میں مستعمل نہیں تھے، ان اوزان میں روانی اور تاثیر یک جان دو قالب ہو گئے ہیں، اس کے وضع کردہ اوزان یہ ہیں:
۱۔ متقارب سالم مضاعف( فعولن ایک شعر میں سولہ بار):
خیالاتِ نیرنگِ چشمِ صنم سیں ہے شیشے میں دل کے پری کا تماشا
ہمیں صحنِ گلشن میں تم مت دکھاؤ۔ گلِ نرگسِ عبہری کا تماشا
۲۔ ہندی وزن ’’ابھار‘‘ جسے ڈاکٹر گیان چند نے سویا چھند کی قسم بتایا ہے اس کا وزن ارکان عروض میں یہ ہے۔( فعلن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن) ، اس وزن میں اور متقارب مضاعف میں بہ جز اس کے کوئی فرق نہیں کہ اس کا رکن اول وتد مجموع اور سببِ خفیف سے مل کر بنا ہے جب کہ اس کا رکنِ اول دو اسبابِ خفیفہ سے مرکب ہے:
ع دل میں خیالاتِ رنگیں گزرتے ہیں جیوں باس پھولوں کے رنگوں میں رہیے
اس وزن میں ایک ایسی غزل بھی ملتی ہے جس کا آخری رکن ’’فعولان ‘‘ آتا ہے:
ع روشن فتیلے میں آہوں کے شعلوں کے سینے میں کورے سکوروں کی مانند(۳۲)
(۴)
ولی دکنی کا دیوان ۱۷۲۰ء میں دہلی پہنچا ، اس وقت دہلی کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کا تانا بانا بکھر چکا تھا۔ پیہم شورشوں، مسلسل خانہ جنگیوں اور روز کی اکھاڑ پچھاڑ نے افرادِ معاشرہ سے زندگی کی حقیقی خوشی چھن لی تھی۔تلخی ِ حیات سے نجات اور سکون و قرار کی خواہش نے لوگوں کو عیش و نشاط اور کیف و سرور کی محفلوں کا راستہ دکھایا، ان محفلوں نے ان کی بچی کھچی صلاحیتوں کو بھی برباد کر ڈالا، بادشاہ، رؤسا، امرا، اکابرینِ سیاست اور عوام و خواص شراب و کباب کی رنگینیوں میں ڈوب کر احساسِ ذمہ داری سے کاملاً سبک دوش ہو گئے، اس عیاشانہ ماحول میں تصنع اور نمود و نمائش کو فروغ ملا ۔ تلواریں کند اور زبانیں تیز ہو گئیں، پھبتی، فقرے بازی، ضلع جگت اور لطیفوں کی تجارت ہونے لگی، ایہام، رعایتِ لفظی، اشارے، کنائے اور ذو معنی لفظوں کا استعمال اتنا بڑھا کہ ذہانت اور کام یابی کی دلیل بن گیا۔ ولی دکنی کا دیوان جس وقت دہلی میں پہنچا وہاں کی معاشرتی فضا جیسے اس کے انتظار میں تھی، دیکھتے ہی دیکھتے ولی کا کلام محفلوں کی جان بن گیا اور بڑے چھوٹے ولی کا کلام پڑھنے اور اس پر سر دھننے لگے، مصحفی نے شاہ حاتم کے حوالے سے ’’تذکرۂ ہندی‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’ روزے پیشِ فقیر نقل می کرد کہ در سنِ دویم فردوسِ آرام گاہ دیوانِ ولی در شاہ جہان آباد آمدہ و اشعارش بر زبانِ خورد و بزرگ جاری گشتہ۔‘‘(۳۳)
دیوانِ ولی کے اس والہانہ استقبال کی ایک وجہ صنعتِ ایہام بھی تھی کیوں کہ اس معاشرے میں ذومعنی لفظوں کا استعمال عام تھا ، ہر چند کہ ولی کا سارا کلام اس صنعت کا مظہر نہ تھا مگر عوام و خواص کے زاویہ ہائے نظر اسی ایک نقطے پر مرکوز ہو کر رہ گئے ، ڈاکٹر محمد حسن اس دور کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ اس دور کے افراد کو انفرادی طور پر ایک ایسے نشے ، ایسے ذریعۂ نجات کی تلاش تھی جو ماحول کی ناخوش گواری اور ان کی بے بسی کو گوارا بنا سکے اور بے چینی و اضطراب کے دور میں ان کے لیے چھوٹی چھوٹی مسرتوں اور عیش پرستیوں کے لیے گنجائش نکال سکے جو ان کی شخصیتوں کو شکنجے میں نہ کسے بلکہ ان کے لیے مناسب ذریعۂ اظہار فراہم کر سکے۔ ریختہ میں انہیں نشہ اور نجات کا یہ وسیلہ مل گیا۔‘‘ (۳۴)
ایہام گوئی کا لغوی اور اصطلاحی مطلب بیان کرتے ہوئے مولوی نجم الغنی نے لکھا ہے کہ:
’’ صنعتِ ایہام کو توریہ بھی کہتے ہیں ، ایہام کے معنی وہم میں ڈالنے اور توریہ کے معنی چھپانے کے ہیں۔۔۔ اصطلاح میں ایہام اس کو کہتے ہیں کہ ایک لفظ ایسا کلام میں واقع ہو جس کے دو معنی ہوں ،ایک قریب کے دوسرے بعید کے اور سامع کا گمان معنیِ قریب کی طرف جاوے اور شاعر کی مراد معنیِ بعید ہوں۔ معنیِ قریب سے مراد یہ ہے کہ وہ معنی اس مقام کے مناسب ہوں اور معنیِ بعید سے یہ مراد ہے کہ وہ معنی اس مقام کے مناسب نہ ہوں لیکن ان کا مقصود ہونا بہ اعتبارکسی قرینۂ خفی کے ہو۔‘‘ (۳۵)
مولانا محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق اُردو میں ایہام گوئی کو ہندی دوہوں کے زیرِ اثر رواج ملا (۳۶) جب کہ ملک حسن اختر نے اپنی کتاب’’ تاریخِ ادبِ اُردو ‘‘ میں ایہام گوئی کا سبب فارسی کو ٹھہرایا ہے ان کے بہ قول ولی سے ذرا پہلے غنی کاشمیری( م ۱۶۷۹ء) ایہام گوئی کا پرچم لہرا لہرا کر داد وصول کر چکے ہیں۔(۳۷) ایہام گوئی کا سبب کچھ بھی ہو یہ بات اہم ہے کہ وہ دور ایہام گوئی کے لیے انتہائی موزوں تھا ۔ اس رجحان کو تحریک کی شکل دینے میں اہم ترین کردار سراج الدین آرزو کا ہے ، ایہام گو شاعر آبرو، یقین، یک رنگ، احسن اللہ اور دیگر انہی کے حلقۂ شاگردی میں شامل تھے، ان شاعروں نے ایہام گوئی کو ایک مختصر عرصے میں اتنا مقبول بنا دیا کہ یہی صنعت شاعری کا بنیادی وصف قرار پائی۔ اس تحریک کے زیر اثر شاعروں نے اُردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ کو کھنگالا اور الفاظ ِ گم گشتہ و مردہ کو حیات ِ نو بخشی۔اس تکنیکی مہارت کے باعث زبان میں اظہار کی قوتیں بیدار ہوئیں اور لفظوں کے کئی زاویے چمک چمک اٹھے، ذیل میں چند اہم ایہام گو شاعروں کے اشعار نقل کیے جاتے ہیں ، یہ اشعار ایہام گو شاعروں کی تکنیکی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور ان کے آئینے میں اس دور کی زبان کا مکمل سراپا دیکھا جا سکتا ہے:
یہ ناز یہ غرور لڑکپن میں تو نہ تھا
کیا تم جوان ہو کے بڑے آدمی ہوئے
جان تجھ پر کچھ اعتبار نہیں
زندگانی کا کیا بھروسہ ہے (۳۸) (آرزو)
خاصے سجن کا ملنا تن سکھ ہے عاشقوں کو
گاڑھے رقیب سارے مرتے ہیں ہاتھ مل مل (۳۹) ( شاہ حاتم)
جدائی کے زمانے کی سجن کیا زیادتی کہیے
کہ اس ظالم کی جو ہم پر گھڑی گزری سو جگ گزرا
ہر ایک سبز ہے ہندوستان کا معشوق
بجا ہے نام کہ بالم رکھا ہے کھیروں کا (۴۰) ( آبرو)
اُس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں
عارضی میری زندگانی ہے
کیوں منڈاتا ہے زلف کوں پیارے
دیکھ تجھ کوں کہے ہیں سب مو رکھ (۴۱) ( شاکر ناجی)
شرم سے پانی ہو جاویں سب رقیب
جو مرا یوسف ملے آ چاہ سیں (۴۲) ( مضمون)
اب تو دیدار دے تجلی کو
غم سیں گل کر ترے ہو امو سا
زلف تیری سیاہ ناگن ہے
چھین لیتی ہے ہر کسی کا مَن (۴۳) ( یک رو)
یہی مضمونِ خط ہے احسن اللہ
کہ حسنِ خوبرویاں عارضی ہے
لام نستعلیق کا ہے اس بتِ کافر کی زلف
ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اسلام کے (۴۴) (احسن اللہ)
ایہام گو شاعروں نے صنعتِ ایہام ہی کو مقصود بالذات سمجھا جس کے نتیجے میں شاعری پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ، شاعری کا فطری اور قدرتی دھارا تکنیک کی پیچیدگی اور صنعت گری کے شوق نے خشک کر دیا۔ذو معنی لفظوں کی تلاش و جستجو نے شاعروں کو دیگر عناصر شعری سے بے گانہ کر دیا، یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک بہت جلد اپنے انجام کو پہنچی، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے لکھا ہے کہ:
’’ ظاہر ہے کہ تخلیقِ شعر جب کسی خاص صنعت کے التزام کی پابند ہو جائے تو جذبے کا خلوص ختم ہو جا تا ہے اور شاعری الفاظ کے خوش نما گھروندے بنانے تک محدود ہو جاتی ہے۔ ایہام گوئی کے رجحان نے حدِ اعتدال سے تجاوز کر کے شعریت اور تغزل کو متأثر کیا۔ اس وجہ سے اس کے خلاف اتنا تند و تلخ ردِ عمل ہوا کہ آج تک اُردو ادب کی تاریخوں میں اس دور کا ذکر بالعموم اچھے الفاظ میں نہیں کیا جاتا ہے۔‘‘ (۴۵)
اس تحریک کا سفر اگرچہ محض چوتھائی صدی پر پھیلا ہوا ہے تاہم اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اس تحریک نے اُردو زبان کو بہت فائدہ پہنچایا، شاعروں نے ایہام کی دھن میں ایسے لفظ کھوج نکالے جو زمانے کی گرد میں دھندلا چکے تھے،انہوں نے لفظوں کے پیکر تراشنے اور ان کے اندر چھپے امکانات کو اجاگر کرنے میں شعوری کوششیں کیں، انہوں نے لفظ کا جائزہ لے کر ان کی معنوی جہات اور حیثیات واضح کیں ، ان کے نزدیک لفظ گنجینۂ معنی کے طلسم کی حیثیت رکھتا تھا انہوں نے اُردو میں سب سے پہلے زبان کے مطالعہ کی بنیاد ڈالی۔
ایہام گوئی کی چمک دمک نے وقتی طور پر شاعروں کو اپنا اسیر کر لیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گرفت ڈھیلی پڑتی چلی گئی اور ماحول کی تبدیلی کے باعث یہ طرز اپنے انجام کو پہنچی ۔نادر شاہ درانی کے حملے(۱۷۳۹ء) نے عیش و عشرت اور کیف و سرور کی اس فضا کو تہ و بالا کر ڈالا جو ایہام گوئی کے لیے از حد ساز گار تھی ، دہلی کی خون آشام گلیاں فقرے بازی، قہقہے اور بذلہ سنجی کے ماحول کے خاتمے کا سبب ٹھہریں نتیجتاً ایہام گوئی بے وقت کی راگنی بن گئی۔ ایہام گوئی کے خاتمے کا ایک سبب انسانی طبیعت کا یک سانیت سے نفور بھی ہے ۔
ایہام گوئی کے ردِ عمل میں سب سے نمایاں نام مرزا مظہر جانِ جاناں کا ہے تذکرہ نویسوں نے ردِ عمل کی تحریک میں اولیت کا تاج انہی کے سر سجایا ہے ، قدرت اللہ شوق اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
’’ سب سے پہلے جس شخص نے طرزِ ایہام گوئی ترک کیا اور ریختہ کو اُردوئے معلی شاہ جہان آباد کی زبان میں، کہ آج کل عوام و خواص میں مقبول ہے ، مروج کیا ، زبدةالعارفین ، قدوة الواصلین جان ِ جاناں مرزا مظہر ہیں۔‘‘ (۴۶)
مرزا مظہر اور ان کے شاگردوں( یقین، تاباں، دردمند، حزیں وغیرہ)نے ردِ عمل کی اس تحریک کو مقبول بنانے میں بہت محنت سے کام کیا ،ان کی محنت رنگ لائی اور وہ لوگ بھی ان کے ہم نوا بن گئے جو ایہام گوئی میں نہایت بلند درجہ رکھتے تھے ، مثال کے طور پر شاہ حاتم کا نام لیا جا سکتا ہے جن کا نام ایہام گوئی کے بانیوں اور سرخیلوں میں آتا ہے انہوں نے بہ بانگِ دہل اس تحریک کا ساتھ دیا اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ:
کہتا ہے صاف و شستہ سخن بس کہ بے تلاش
حاتم کو اس سبب نہیں ایہام پر نگاہ
شاہ حاتم نے اپنے مرتب شدہ دیوانِ قدیم کو مسترد کر کے نیا دیوان ’’ دیوان زادہ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ۔ ’’ دیوان زادہ‘‘ کا دیباچہ ردِ عمل کی تحریک میں اس کی سرگرم کاری کا گواہ ہے ۔ اس نے اس دیباچے میں اصلاحِ زبان کے چند اصول اور قاعدے وضع کیے اور ایسے لفظوں کو ترک کرنے کی تجویز پیش کی جو مقامی زبانوں کے تال میل سے اُردو میں عام مستعمل تھے۔ ڈاکٹر انور سدید نے ’’دیوان زادہ‘‘ کے دیباچے کو اصلاحِ زبان کی تحریک کا اولین تحریری منشور قرار دیا ہے ۔(۴۷) شاہ حاتم کی ان تجاویز اور اصلاحِ زبان کے قواعد کو تحریک میں شامل شاعروں نے قبول کیا اور ان پر عمل پیرا ہو کر ان کو ہمیشہ کے لیے اُردو زبان کا جزو بنا دیا۔ اصلاحِ زبان کی اس اولین تحریک نے جو قاعدے مقرر کیے اور جن لفظوں کو ترک کیا ان کی تفصیل یہ ہے:
۱۔ فارسی کے فعل و حرف مثلاً در ، بر ، از، او وغیرہ اُردو میں عام استعمال ہوتے تھے ان کو ترک کر دیا گیا۔
۲۔ عربی اور فارسی کے الفاظ کو شاعر ضرورت کے مطابق ساکن کو متحرک اور متحرک کو ساکن باندھنا روا رکھتے تھے جیسے مَرَض ، غَرَض کو مَرض ، غَرض اور خَتم ، ظُلم کو خَتَم، ظُلَم ۔ اس کو عیب قرار دیا گیا اور ان کو ترک کر دیا گیا۔
۳۔ ردِ عمل کی تحریک سے قبل قواعد و صحتِ املا کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا، عربی فارسی کے الفاظ بول چال کے مطابق لکھ دیئے جاتے تھے جیسے تسبی بہ جائے تسبیح، عبس بہ جائے عبث، صحی بہ جائے صحیح ، امبر بہ جائے عنبر وغیرہ۔ ان کو صحتِ املا کے ساتھ لکھنے کا رواج ہوا۔
۴۔ زیر ، زبر یا پیش کو بہ طور قافیہ استعمال کیا جاتا تھا اور رائے فارسی (ر) کے ساتھ رائے ہندی(ڑ) کا عام استعمال تھا جیسے پکار کا قافیہ پہاڑ اور سر کا قافیہ دھڑ۔ اس کو عیب کہا گیا اور ترک کر دیا گیا۔
۵۔ ایسے الفاظ جو ہائے ہوز پر ختم ہوتے ہیں ان کو ’’ الف‘‘ سے بدلنا جائز قرار پایا جیسے بندہ،پردہ،شرمندہ کو بندا ، پردا ، شرمندا۔
۶۔ عام بول چال کے الفاظ اور محاورات کا استعمال جائز قرار پایا۔
۷۔ انکھیاں، نین، جُھٹا، ستی ، مُکھ ، درپن، جیو، سُرج، دیا، سنسار، اگے، سوں، بیجلی، کوئے گال، ایتی، آنجھو،نزیک، من ، رین اور پنڈا جیسے الفاظ جو اصلاحِ زبان کی تحریک سے قبل عام مستعمل تھے، متروک قرار پائے اور ان کی جگہ آنکھیں، چشم، جھوٹا، سے، منہ ، آئینہ، جی، سورج، چراغ، دنیا،آگے، سے ، بجلی، کوئی۔ رخسار، آتی،آنسو، نزدیک، دل ، رات اور بدن کا استعمال لازم ٹھہرا۔
ردِ عمل کی اس تحریک کے نتیجے میں موضوع ، مزاج، لہجے اور زبان میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئیں، فارسی کے الفاظ و محاورات، ترکیبات و تشبیہات اور صنائع و بدائع کے استعمال سے اُردو زبان وسعت آشنا ہوئی اور وہ زبان جو اب تک محض اپنے تشکیلی مراحل طے کر رہی تھی یک لخت ایک ایسے دور میں داخل ہوئی جو اس کا دورِ شباب کہلایا، اس دور میں اُردو زبان میں ایسی شاعری تخلیق ہوئی جو فارسی شاعری سے مقام و مرتبہ میں کسی طرح گھٹ نہ تھی۔ شاعری کا یہ عہد عہدِ زریں کے نام سے موسوم ہوا۔
اُردو شاعری کے عہدِ زریں میں اگرچہ قصیدہ ، مثنوی، واسوخت، قطعہ، رباعی، ہجواور نظم کی دیگر اصناف مقبول رہیں اور ان میں شاعروں نے اپنی مہارتِ فن اور تخلیقی ہنر مندی کا کامل اظہار کیا تاہم غزل بہ وجوہ ان تمام اصنافِ شعر سے سر بلند رہی۔ اس عہد میں غزل کا موضوعاتی کینوس عشق ومحبت کی محدود چار دیواری سے نکل کر پوری حیاتِ انسانی پر محیط ہو گیا۔ موضوعات کے تنوع کے باعث غزل کی تکنیک اور اسالیب میں بھی رنگا رنگی پیدا ہوئی ، مرزا رفیع سودا، خواجہ میر درد ، میر تقی میراور ان کے دیگر معاصرین نے غزل کو ایک ہی وقت میں مختلف ذائقوں سے روشناس کرایا۔
مرزا رفیع سودا( ۷۔۱۷۰۶ء تا ۱۷۸۱ء) اگرچہ اُردو میں قصیدہ کے امام تسلیم کیے گئے ہیں تاہم انہوں نے غزل کی صورت میں بھی وہ سرمایہ یادگار چھوڑا ہے جو معیار اور مقدار ہر لحاظ سے قدر و منزلت کا حامل ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ:
سخن کو ریختے سے پوچھا تھا کوئی سودا
پسندِ خاطرِ دل ہا ہوا یہ فن مجھ سے
کب اس کو گوش کرے تھے جہاں میں اہلِ کمال
یہ سنگ ریزہ ہوا ہے درِ عدن مجھ سے
محض تعلی اور دعوے نہیں بلکہ جیتی جاگتی حقیقتیں ہیں۔ سودا کے مزاج میں گداختگی اور انفعالیت کے بہ جائے قوت ، زور،امید ، نشاط اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ مزاج کی یہ فعالیت قصیدہ اور دیگر اصناف میں ڈھل کر سودا کے رنگِ سخن کی غماز ٹھہری۔ انہوں نے جوش انگیز مضامین کے لیے رعب دار لفظیات کا انتخاب کیا ۔ اپنے ہم عصروں( میر ، درد اور میر سوز وغیرہ) کے برعکس ان کے کلام میں شان و شوکت اور جلال و شکوہ کا عنصر اپنے جوبن پر ہے۔ اسی عنصر کی وجہ سے قدیم اندازِ نقد میں ان کے کلام کو ’’ واہ‘‘ کہا گیا ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد رقم طراز ہیں:
مرزا (سودا) کی طرز کو جلسہ گرمانے میں اور لوگوں کے لب و دہن سے واہ وا نکال لینے میں ایک عجیب جادو کا اثر ہے۔ چناں چہ مشکل طرحیں ، چست بندشیں، معانی کی بلندی ، الفاظ کی شکوہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کا جوش ، سُننے والے میں خروش۔۔۔۔۔‘‘ (۴۸)
سودا نے اپنی قادر الکلامی کی دھاک بٹھانے کے لیے مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہے ہیں ۔ مگر ان میں بھی معانی کی ترسیل کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں پایا۔ سودا لفظ شناسی میں اپنے ہم عصروں سے ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ہاں لفظ کا استعمال فنکارانہ اور ماہرانہ ہے ۔ لفظوں کے درو بست اور بندشوں کی چستی سے انہوں نے معمولی مضامین کو نادر اور اچھوتا بنا دیا ہے، دو مثالیں دیکھیے:
ضعف و نا طاقتی و سستی و اعضا شکنی
ایک گھٹنے سے جوانی کے بڑھا کیا کیا کچھ
آنکھیں بہ رنگِ نقشِ قدم ہو گئیں سفید
اس سے زیادہ خاک کروں انتظارِ خط
سودا تشبیہات و استعارات کی قدر و قیمت سے بہ خوبی آگاہ تھے ان کے اسلوبِ بیان کی رعنائی اور دلآویزی میں تشبیہات و استعارات کا عنصر بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، سودا نے اپنی اختراعی صلاحیتوں کے باعث ایسی نادر اور اچھوتی تشبیہیں وضع کی ہیں جو ایک زمانہ تک متاخرین کے زیرِ استعمال رہیں، سودا کا اندازِ تشبیہ ملاحظہ کیجیے:
چشم و ابرو کو ترے یوں دیکھ کر کہتی ہے خلق
تل رہے ہیں کھینچ کر آپس میں دو تلوار مست
جب لبوں پر یار کے مسی کی دھڑیاں دیکھیاں
جوں زحل کی ساعتیں اس دل پہ کڑیاں دیکھیاں
گیا میں گھر سے ترے اور آ بسے ہیں رقیب
مکانِ مرغِ چمن ، آشیاں ہے زاغوں کا
گزرے ہے چشمِ تر سے مری یوں وہ سیم تن
جیسے کنارِ بحر کے ہووے عبور صبح
آویزۂ گہر ہے بنا گوشِ یا ر میں
یاسر نگوں ہے اس کے مقابل غرورِ صبح
سودا نے غزل کی تکنیک میں ایسے عناصر بھی شامل کر دیئے ہیں جو ان سے پہلے کم کم دکھائی دیتے ہیں مثال کے طور پر ان کے ہاں قطعہ بند غزلوں کا رجحان زیادہ نظر آتا ہے ، ان کے کلیات کی جلد اول میں شامل ساڑھے چار سو غزلوں میں سو کے قریب غزلیں قطعہ بند ہیں اور کئی غزلوں میں دو دو قطعات بھی شامل ہیں۔ ان کے ہاں مسلسل اور غیر مردف غزلوں کی بھی کمی نہیں ، قصیدے کی طرف فطری جھکاؤ نے ان کی غزل میں ایسے تکنیکی عناصر شامل کیے ہیں جو ان سے پہلے عام نہ تھے۔
سودا نے اپنے اسلوب کے جلال کو برقرار رکھنے کے لیے بلند آہنگ اوزان کا استعمال کیا ۔ اگرچہ انہوں نے اپنی غزلوں میں اٹھارہ کے قریب اوزان برتے ہیں (۴۹ )تاہم ان میں سودا کے پسندیدہ اوزان وہی ہیں جو اپنی بلند آہنگی اور پر شور موسیقیت کے باعث ممتاز ہیں،جیسے:
۱۔ بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف( مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن)
۲۔ بحرِ رمل مثمن محذوف( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)
۳۔ بحرِ ہزج سالم( مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)
چھوٹی اور لمبی بحروں میں سودا نے بہت کم شعر کہے ہیں، میر کے تتبع میں انہوں نے شانزدہ رکنی بحروں( متقارب مقبوض اثلم اور متقارب مقبوض اثرم) میں بھی چند ایک غزلیں کہی ہیں مگر یہ غزلیں سودا کے رنگِ سخن اور اسلوب کی نمائندگی نہیں کرتیں۔
خواجہ میر درد(۱۷۲۰ء تا ۷۸۵ٍء) اُردو شاعری کے عہدِ زریں کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، ان کے نزدیک اگرچہ شاعری ہنر ہے تاہم اس کو بہ طور پیشہ اپنا کر ناز کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ کلام ِ موزوں و مربوط ایک عجیب لذت رکھتا ہے جس سے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے، اسی لیے انہوں نے اپنی کیفیات اور وارداتِ روحانی کے اظہار کے لیے شاعری کو ایک ذریعہ بنایا ۔ ان کے کلامِ معرفت نشاں کے تکنیکی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے خیالات اور کیفیات کے اظہار میں تکلف اور تصنع سے حذر کیا ہے، ان کے ہاں مبالغہ اور دیگر صناعانہ عناصر دکھائی نہیں دیتے ، ان کی زبان سادہ ، شستہ اور صاف ہے لیکن اس میں وہ عوامیت نہیں پائی جاتی جو میر کے ہاں نظر آتی ہے۔خواجہ میر درد کے ہاں ایسی تشبیہات مل جاتی ہیں جن میں ندرت اور ایک طرح کا اچھوتا پن ہے تاہم ان تشبیہات سے معانی کی تاثیر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان سے شعر کے خارجی پیکر میں جاذبیت پیدا ہوتی ہے۔ تشبیہات کی ایک دو مثالیں دیکھیے :
تارِ نگہ پہ دل یاں دونوں طرف سے دوڑے
دو نٹ مقابل آویں جس طرح ریسماں پر
جوں نورِ نظر ، ترا تصور
تھا پیشِ نظر جدھر گئے ہم
یہ کس نے ہم سے کیا وعدۂ ہم آغوشی
کہ مثلِ بحر سراسر کنار رکھتے ہیں
خواجہ میر درد نے اپنے کلام میں تصوف کے تصورات اور اصطلاحات کو اتنی برجستگی سے برتا ہے کہ وہ کہیں بھی اجنبی نہیں لگتیں۔ اُردو شاعری میں ان سے پیش تر ان اصطلاحاتِ تصوف کا اتنا بھر پور اور مسلسل استعمال دکھائی نہیں دیتا ، درد کے ہاں ماہئیت، اعیان، مظاہر، بت خانہ،شہود، غیب ، ہستی ِ بے بود، کعبہ ، دیر ، صورت، کنشت، عدم ، وجود، ہستی ِ موہوم، نیستی، قضا ، بیعت، حیران ، نقش، فنا فی اللہ، کثرت، عکس ، آئینہ، معرفت ،وحدت، امکان ، واجب ، ممتنع،سرائے ، منفعل، حدوث ، تسبیح ، زنار، قدیم ، حجاب، خلوت اور ان جیسے کئی دوسرے الفاظ و تراکیب صوفیانہ رنگ میں ڈھل کر کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں کہ ان کے امکاناتِ معنوی چمک چمک اٹھتے ہیں۔
خواجہ میر درد کے زمانے میں اصلاحِ زبان کی تحریک رو بہ عمل تھی ، اگرچہ وہ بہ راہِ راست اس تحریک میں شامل نہ تھے مگر اصلاحِ زبان کی اس تحریک نے ان کی زبان کو بھی متأثر کیا ، درد کی زبان کی شستگی اور صفائی اس اثر کی شاہد ہے۔ اگرچہ میر اور سودا کی طرح ان کے ہاں بھی ایسے الفاظ کا استعمال دکھائی دیتا ہے جو بعد میں غیر فصیح اور متروک ٹھہرائے گئے جیسے ایدھر، اودھر، ٹُک ، کبھو ، تئیں، کنے ، نت، ہیں گے، ان نے ، ہو جیو وغیرہ تاہم مجموعی طور پر ان کی زبان اور عہدِ رواں کی زبان میں کوئی غیریت نہیں ہے۔
خواجہ میر درد نے اپنے طبعی رجحان کے باعث ایسی بحروں کا انتخاب کیا جو رواں دواں تو ہیں مگر بلند آہنگ نہیں ، ان کے کلام میں موسیقیت اپنے دھیمے مگر پُر تاثیر سُروں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے جو سننے والوں کو ابھارتی اور چونکاتی نہیں مگر ان کے قلب و نظر میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔درد کے پسندیدہ اوزان میں بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف( مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن) اور بحرِ خفیف مسد س مخبون( فاعلاتن مفاعلن فعلن) شامل ہیں ۔ (۵۰) میر کی طرح خواجہ میر درد نے چھوٹی بحروں میں کئی ایسے شعر نکالے ہیں جو سہلِ ممتنع کی عمدہ مثالیں ہیں ، جیسے:
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
ڈھونڈے ہے تجھے تمام عالم
ہر چند کہ تو کہاں نہیں ہے
اُردو شاعری کے عہدِ زریں کے سب سے بڑے معمار میر تقی میر (۱۷۲۵ء ۱۸۰۹ء) کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ، انہوں نے کئی اصناف میں کلام کہا مگر غزل کے ساتھ ان کی طبعی مناسبت نے وہ گل زار کھلائے ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی ، انہوں نے غزل کو وہ رنگ و آہنگ عطا کیا جو اُردو زبان میں تو کیا فارسی میں بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ میر اپنے ادبی مقام و مرتبہ سے خود آگاہ تھے انہوں نے کئی اشعار میں اپنے استادانہ مقام و مرتبے کا جو ذکر کیا ہے وہ محض تعلی نہیں بلکہ حقیقت ہے ، جیسے:
ریختہ رُتبے میں پہنچایا ہوا اُس کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
جو دیکھو مرے شعرِ تر کی طرف
تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
میر نے چھ دیوان یادگار چھوڑے، ان دیوانوں میں غزلوں کی تعداد اٹھارہ سو سے متجاوز ہے، اگرچہ میر کے کلام میں بے رنگ اور بے رس شعروں کی کمی نہیں تاہم ان کے منتخب کلام میں وہ تاثیر اور لذت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے شاعروں نے ان کی استادی اور قادر الکلامی کا لوہا مانا ہے اور ان کے شیوۂ گفتار پر رشک کا اظہار کیا ہے ۔ واضح رہے کہ ان کے منتخب شعروں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے ، قدیم تذکرہ نویسوں نے میر کے بہتر نشتروں کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا ہے کہ عام طور پر یہ مشہور ہو گیا ہے کہ ان کے ہاں بہتر شعر ہی ہیں جو پیوستِ رگِ جاں ہوتے ہیں ،اس رائے کی حیثیت ایک گم راہ کُن مفروضے کے سوا کُچھ نہیں ہے۔
میر نے غزل کے تکنیکی عناصر کو اپنی فکر سے کُچھ اس طرح آمیخت کر دیا ہے کہ ان کا الگ الگ تجزیہ ممکن نہیں رہا، تشبیہ ، استعارہ، کنایہ ، محاورہ اور صنائع بدائع کا استعمال اگرچہ کثرت سے نظر آتا ہے مگر کہیں بھی شعوری کاوش کا نتیجہ معلوم نہیں ہوتا ، غزل کے یہ آرائشی عناصر بھی تجربے کا حصہ دکھائی دیتے ہیں کلام میر میں تشبیہات و استعارات اور صنائع و بدائع قاری کو چونکاتے نہیں بل کہ خیال کے ساتھ مربوط ہو کر ایک ایسا تأثر پیدا کر دیتے ہیں جس سے شعر میں جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے جو ذہن کو ان آرائشی عناصر کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتی ، اس بات کی وضاحت کے لیے کلام ِ میر سے چند مثالیں دیکھیے:
شام ہی سے بُجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
عہدِ جوانی رو رو کاٹا ، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے ، صبح ہوئی آرام کیا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
مرگِ مجنوں سے عقل گُم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے
پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
کُچھ نہ دیکھا پھر بہ جز اک شعلۂ پُر پیچ و تاب
شمع تک ہم نے تو دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
متذکرہ مثالوں میں علی الترتیب تشبیہات ، محاورات اور تراکیب کا استعمال ہوا ہے اور یقینی طور پر ان کے استعمال سے شعروں میں تاثیر اور جاذبیت پیدا ہوئی ہے مگر یہ عناصر خیال کے ساتھ یوں ہم آہنگ ہیں کہ قاری فی الفور ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور یہ خیال اور معنی کے تابع رہتے ہیں۔
میر تقی میر کی گفت گو چوں کہ عوام سے تھی اس لیے انہوں نے اپنی شاعری میں وہ زبان برتی ہے جو عام بول چال کی زبان تھی ۔ عوامی زبان کے استعمال سے شاعری کا معاشرے سے بہ راہِ راست تعلق پیدا ہوا بول چال کی معمولی زبان تخلیقی تجربے کا حصہ بن کر شائستگی کے جوہر سے متصف ٹھہری۔میر نے فارسی کے ذخیرۂ الفاظ سے بہت فائدہ اٹھایا لیکن مجموعی طور پر ان کے کلام میں فارسیت کا غلبہ نہیں ہے، بہ قول ڈاکٹر جمیل جالبی:
’’ میر کی زبان فارسی کے زیرِ اثر نہیں ہے بل کہ فارسی الفاظ و تراکیب اُردو کے مزاج میں ڈھل کر ایک نئی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ میر کی زبان فارسی کے اقتدار کو ختم کر کے اُردو کی حاکمیت قائم کر دیتی ہے۔ میر کی شاعری خالص اُردو کی شاعری ہے۔‘‘ (۵۱)
میر کے ہاں ہندی اور دیگر پراکرتوں کے الفاظ کا استعمال شروع میں زیادہ دکھائی دیتا ہے مگر تحریکِ اصلاحِ زبان کے زیرِ اثر یہ رجحان کم ہوا، اسی طرح ابتدا میں میر فارسی طرز کی ترکیب سازی کی طرف متوجہ رہے ، ان کی ترکیب پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دیوانِ اول کی ردیف الف میں سینکڑوں تراکیب استعمال ہوئی ہیں جن میں سے اکثر خود میر کی وضع کردہ ہیں، چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
سرِ پُر غرور، سوئے چشمکِ انجم، نفسِ باز پسیں، یوسفِ زندانی، جامۂ مستیِ عشق، امیدوارِ وعدۂ دیدار، جوشِ اشکِ ندامت، رشکِ مۂ عید، کارگۂ شیشہ گری، صید ِ ناقبول، مانندِ شمعِ مجلسِ شب، طالعِ زلیخا، قدِ خم گشتہ، تشنۂ خوں، ذوقِ خدنگ، پائمالِ صد جفا، نمونۂ یوم الحساب، ناکامیِ صد حسرت، مانعِ نشوونما، دعویٰ خوش چشمی، ناظمانِ حال، بے خودانِ محفل، زیرِ شمشیرِ ستم، سر نشینِ رہِ مئے خانہ،شعلۂ پُر پیچ و تاب، سبزۂ بے گانہ، کفِ چالاک،تخمِ یاس، آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ، بسملِ درخوں تپیدہ، صفحۂ تصویرِ بے ہوشاں،یادگارِ چہرۂ خوباں، خندۂ ساغر، سیلِ اشک، قصدِ طریقِ عشق، مشتِ غبار۔
مگر رفتہ رفتہ ترکیب سازی کا یہ رجحان کم ہوتا گیا اور میر کے آخری دیوانوں میں ترکیبوں کا کم سے کم استعمال دکھائی دیتا ہے۔
میر کی شعری زبان میں بعض ایسی صورتیں دکھائی دیتی ہیں جو بعد میں اصلاحاتِ زبان کے نتیجے میں متروک قرار دی گئیں، ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب ’’ تاریخِ ادبِ اُردو ۔۔جلد ثانی ‘‘ میں میر کی زبان کی ان صورتوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔(۵۲) ہم ذیل میں ان صورتوں کا ملخص پیش کرتے ہیں تاکہ عہدِ میر کی زبان کے اہم خدوخال پیشِ نظر رہیں۔ان صورتوں میں سے کچھ کا استعمال اُس دور میں عام تھا مگر کچھ ایسی بھی ہیں جو میر سے مخصوص ہیں:
۱۔کبھی کے لیے کدھیں، کدھی، کدھیں مدھیں اور کسی کے لیے کسو کا استعمال۔
۲۔ گویا کی جگہ گوئیا کا استعمال۔
۳۔ ٹُک، تئیں، کنے، ووہیں، تب تک، تب سے، جہاں کا تہاں، واں، کاہے کو، کاہے کے،تد، زور، اُپراور تِس کا استعمال۔
۴۔ کدھر، اِدھر ، اُدھر اور جدھر کی جگہ کیدھر، ایدھر ، اودھر اور جیدھر کا استعمال۔
۵۔ لوہو بہ جائے لہو۔
۶۔ بعض لفظوں میں ہائے مخلوط کا اضافہ جیسے ہونٹ کی جگہ ہونٹھ، جھوٹ کی جگہ جھوٹھ، بھیک کی جگہ بھیکھ اور تڑپا کی جگہ تڑپھا وغیرہ۔
۷۔ علامتِ فاعلی ’’نے ‘‘ کا حذف۔
۸۔ تذکیر کو تانیث جیسے قلم، تانیث کو تذکیر جیسے جان ، شام ، سیر وغیرہ۔
۹۔ صفت اور اسمِ فاعل بنانے کے لیے عربی فارسی اسما کے آخر میں ’’ی‘‘ کا اضافہ جیسے سفری، حیرتی، خطر ناکی، زنجیری، آزادگی وغیرہ ۔
۱۰۔ تراکیب میں فارسی عربی لفظوں کے ساتھ ہندی الفاظ کا استعمال جیسے خویش و بھائی ، طفلِ ناسمجھ وغیرہ۔
۱۱۔جمع بنانے کی نئی صورتیں جیسے : ’وں ‘ لگا کر : منتظروں ، سبھوں ، کوہوں، ایکوں وغیرہ۔ ’اں ‘ لگا کر : بے لطفیاں ، جانیاں ، ساریاں ، لیاں وغیرہ۔
میر تقی میرعلمِ عروض سے کاملاً آگاہ تھے وہ بحروں کے اسرار و رموز اور ان کے اثر و آہنگ سے بہ خوبی واقف تھے، انہوں نے جو یہ دعویٰ کیا ہے بہ جا کیا ہے کہ:
کہے میں نے اشعار ہر بحر میں
ولیکن قیامت روانی کے ساتھ
ان کے کلام کے عروضی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رجز، ہزج ، رمل اور دوسری بلند آہنگ اور ولولہ انگیز بحروں کا مزاج تبدیل کر دیا ہے ، یہ بحریں بالعموم رزمیہ اشعار کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہیں مگر میر نے ان میں حزنیہ شعر کہہ کر ان بحروں کے صوتی امکانات میں اضافہ کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم ضیا کی تحقیق کے مطابق انہوں نے اپنی غزلوں میں چھبیس (۵۳)اوزان برتے ہیں ۔ ان اوزان میں سے کئی تو ایسے ہیں جن میں بہت کم شعر ملتے ہیں جیسے : بحرِ سریع مطوی مکشوف (مفتعلن مفتعلن فاعلن) اور بحرِ ہزج اخرب مکفوف سالم الآخر ( مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ مفاعیلن ) میں صرف ایک ایک غزل ملتی ہے۔میر کے پسندیدہ اوزان یہ ہیں:
۱۔ بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف/ مقصور( مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن/ فاعلات)
ٍ ۲۔ بحرِ خفیف مخبون محذوف( فاعلاتن مفاعلن فعلن)
۳۔ بحرِ مضارع مثمن اخرب ( مفعولُ فاع لاتن مفعولُ فاع لاتن)
۴۔ بحرِ متقارب مثمن اثرم مضاعف( فاعِ فعولن فاعِ فعولن)
۵۔ بحرِ رمل مثمن محذوف/مقصور( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن/ فاعلات)
۶۔ بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف( فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن)
متذکرہ بالا اوزان میں بالترتیب ۳۹۵، ۲۵۹، ۲۵۳، ۱۸۹، ۱۶۵ اور ۱۲۶ غزلیات ملتی ہیں جو کل غزلیات کا تقریباً ۷۰فی صد بنتی ہیں۔
میر کو چھوٹی بحر کا بادشاہ کہا گیا ہے انہوں نے بحرِ خفیف مخبون محذوف ( فاعلاتن مفاعلن فعلن)رمل مسدس محذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)اور ہزج مسدس محذوف ( مفاعیلن مفاعیلن فعولن) میں جو غزلیں کہی ہیں وہ اثر آفرینی میں اپنا جواب نہیں رکھتیں، مولانا محمد حسین آزاد فرماتے ہیں کہ ’’ ان (میر) کی غزلیں ہر بحر میں کہیں شربت اور کہیں شیر و شکر ہیں مگر چھوٹی چھوٹی بحروں میں فقط آبِ حیات بہاتے ہیں، جو لفظ منہ سے نکلتا ہے تاثیر میں ڈوبا ہوا نکلتا ہے۔‘‘ (۵۴)چھوٹی بحر کے ماہرانہ اور استادانہ استعمال سے ان کے اکثر شعر سہلِ ممتنع کی خوبی سے متصف ہیں اور ان میں بہ قول محمد حسن عسکری زندگی کا جوہر سمٹ آیا ہے۔(۵۵) چھوٹی بحروں میں کہے گئے اشعار نشتروں کی طرح قلب و جگر میں اتر جاتے ہیں۔چند مثالیں دیکھیے:
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
یہ جو مہلت، جسے کہیں ہیں عمر
دیکھو تو انتظار سا ہے کُچھ
سرسری تم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں ا ٹھا لایا
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
مرگِ مجنوں سے عقل گُم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
طویل بحروں میں بھی میر نے وہ کمال دکھایا ہے جو صرف انہی سے یادگار ہے ۔ بحرِ متقارب کی مضاعف شکل کو انہوں نے کثرت سے استعمال کیا ہے اس بحر میں لوک گیتوں جیسی روانی اور لوچ ہے ، اس بحر میں میر کی غزلیں پڑھتے ہوئے بہ قول سید عبداللہ ذہن کو ’جھولے‘ کا لطف مہیا ہو جاتا ہے ، میر کو اس بحر کا موجد و واضع بتایا جاتا ہے جو درست نہیں کیوں کہ ان سے پہلے اُردو اور فارسی میں کئی شاعر دادِ سخن دے چکے ہیں ،دو مثالیں دیکھیے:
ع غوث قطب سب عالم گیرے، واری جاویں تُجھ پر پیارا شاہ علی محمد جیو
ع درد مصیبت عابد تم پر، آج کے دن بسیاری ہے شاہی
لیکن اس بحر کو جس خوش نمائی اور تسلسل سے میر نے برتا ہے اسی وجہ سے اس بحر کو ’بحرِ میر‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔بحرِ میر کو ڈاکٹر گیان چند ، عظمت اللہ خان اور کئی دوسروں نے ہندی وزن قرار دیا ہے اور پنگل کے قواعد کے مطابق اس کی تقطیع کی ہے۔ (۵۶) اس بحر کا مزاج چوں کہ ہندوستانی ہے اس لیے اسے ہندی وزن قرار دینے کی کوششیں ہوئی ہیں ورنہ یہ بحر ہر لحاظ سے عروضی دائرے میں شامل ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب میں اثر لکھنوی کی ایک رائے نقل کی ہے کہ:
’’ میر نے بحرِ متقارب و بحرِ متدارک میں بجائے سالم ارکان کے مختلف زحافات میں غزلیں کہہ کر ( نہ صرف) اُردو کو ہندی سے بہت قریب کر دیا (بل کہ) آج کل جو ہندی نما گیت کہے جاتے ہیں وہ (عام طور پر) انہی بحور میں ہوتے ہیں۔‘‘(۵۷)
اثر لکھنوی لغت، قواعد اور عروض کے جید عالم تھے مگر مندرجہ بالا رائے میں ان سے سہو ہوا ہے۔ میر نے بحرِ متدارک کی خوش آہنگی کے باوجود اس میں شعر نہیں کہے۔ ان کے کلیات میں بحرِ متدارک کی سالم یا مزاحف وزن کی حامل کوئی غزل موجود نہیں، البتہ بحرِ متقارب کی سالم اور مزاحف صورتوں کو میر نے کثرت سے استعمال کیا ہے۔
میر اور سودا کے عہد میں کئی اور شعرا نے بھی اصلاحِ زبان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اُردو زبان کے چشمے کو کثافتوں سے پاک کرنے کی کوشش کی ، ان شعرا میں قائم چاند پوری( م۱۷۹۳ء) ، میر سوز ( م۱۷۹۸ء) ، میر اثر ( م۱۷۹۴ء) اور میر حسن( م۱۷۸۷ء) کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس میں کُچھ کلام نہیں کہ متذکرہ شعرا کی غزل اُس مقام و مرتبے کو نہیں پہنچتی جو سودا ، درد اور میر کی غزل کا مقدر تھا لیکن ان شعرا کی غزل اُس دور کے معیارات اور تکنیکی خصائص کے رنگ رس میں رچی بسی دکھائی دیتی ہے،ان شعرا کی آوازیں مشاہیر کی گمبھیر آوازوں میں دب گئیں لیکن غزل کے سفر کو آگے بڑھانے اور اسے نئے منطقوں سے روشناس کرانے میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ میر اثر کا کلام خواجہ میر درد کے تتبع میں ہے ، انہوں نے غزل کے لیے مثنوی کی بحریں استعمال کیں جو روانی اور سرشاری میں لاجواب ہیں۔ میر سوز نے اصلاحِ زبان کی تحریک کے زیرِ اثر زبان کو سنوارنے اور چمکانے کا کام کیا ، ان کے کلام کا زیادہ حصہ لکھنوی انداز ِ سخن کی بنیاد گردانا جا سکتا ہے، ان کی شاعری کے تکنیکی اوصاف کے ضمن میں ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے لکھا ہے کہ:
’’ کلام ان کا بہت سیدھا سادا تھا، تکلف اور تصنع نام کو نہیں یہاں تک کہ تشبیہ و استعارے، اضافت اور فارسی ترکیبیں بھی شاذ ہی پائے جاتے ہیں جو کُچھ لطف ہے وہ محض صفائی ِ محاورہ اور شیرینیِ زبان کا ہے۔ طرحیں بھی آسان ہی اختیار کرتے ہیں۔ اکثر ردیف کو نظر انداز کر کے قافیے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔‘‘(۵۸)
میر حسن کی شہرت کا دار و مدار اگرچہ ان کی مثنوی ’’ سحر البیان‘‘ کے باعث ہے تاہم وہ صفِ اوّل کے غزل گو بھی تھے، ان کی غزلیں متانت اور شائستگی کی مظہر ہیں ، ان کی زبان میں دہلی کا رنگ رس اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہیں۔
نہ جانے کون سی ساعت چمن سے بچھڑے تھے
کہ آنکھ بھر کے نہ پھر سوئے گلستاں دیکھا قائم چاند پوری
منزلِ بے خودی میں آپ کو بھی
ہم نے اپنا نہ ہم سفر دیکھا میر حسن
میرے احوال پر نہ ہنس اتنا
یوں بھی اے مہربان پڑتی ہے میر اثر
رات کو نیند ہے نہ دن کو چین
ایسے جینے سے اے خدا گزرا میر سوز
سلطنتِ مغلیہ کے آخری فرماں روا عیش و عشرت کے دل دادہ اور کیف و سرور کے متوالے تھے۔ امورِ سلطنت سے زیادہ ان کی دل چسپیاں بزمِ ناؤ نوش اور محافلِ نغمہ و طرب سے وابستہ ہو گئی تھیں۔ان حالات کو بیرونی طاقتوں کو حملہ آور ہونے کا موقع ملا، اکثر صوبے مرکز کی کم زوری سے فائدہ اٹھا کر بغاوت پر اُتر آئے، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی کی فضا نے دہلی کی تہذیب و معاشرت پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے، خوف و خطر نے لوگوں کو دہلی سے ہجرت پر مجبور کر دیا ۔ سلطنت کے دامنِ دولت سے وابستہ شعرا مفلوک الحالی کا شکار ہوئے تو ایسے علاقوں کا رُخ کرنے لگے جہاں شعرو ادب کے قدر دان اور مربّی موجود تھے۔ میر اور سودا جیسے عظیم اساتذۂ فن کو دہلی سے نکلنا پڑا اور ان کا آخری دور کرب ناکی اور پریشانی میں بسر ہوا۔لکھنؤ نے شعرو ادب کی قدر دانی کے باعث شعرا کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس طرح دہلی کی بربادی لکھنؤ کی آبادی کا سبب بن گئی۔مصحفی ، انشا اور جرأت اگرچہ دہلی دبستانِ شعر کے پروردہ تھے مگر لکھنؤ میں انہوں نے ایک نئے دبستانِ شعر کی داغ بیل ڈالی جسے بعد میں ناسخ اور آتش نے تقویت دے کر دبستانِ دہلی کے مقابل لا کھڑا کیا۔ماحول کی تبدیلی نے شعر و ادب کو بھی متأثر کیا ۔ اُردو غزل نے اس دور میں جن تکنیکی صورتوں کو اپنایا اس کا اجمالی جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
قلندر بخش جرأت (۱۷۴۹ء تا ۱۸۰۹ء) اُردو میں معاملہ بندی کے مسلم الثبوت استاد مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے معاملہ بندی کے آئینے میں اپنے زمانے کی ہوس پرستی، سفلی جذبات، رنگین صحبتوں اور عاشقانہ مزاجوں کی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ ان کی شاعری کو میر نے ’’ چوما چاٹی‘‘ ( ۵۹ )کہا ہے، اس میں کُچھ کلام نہیں کہ ان کی فکر اور ان کے موضوعات پر ابتذال اور چھچھورے پن کا غلبہ ہے مگر ان کی فنی مہارت اور شاعرانہ صلاحیت کا ایک زمانہ معترف ہے۔ مولانا حسرت موہانی ان کے فکر و فن کا تجزیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’جرأت کا کلام سادگی ٴ زبان کے ساتھ حسن و عشق کے معاملات سے لبریز ہے، مگر کیسا عشق، جس کو ہوس کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔۔۔۔۔ جن جذبات کی تصویر جرأت نے کھینچی ہے ان کے حیوانی اور نفسانی ہونے میں کُچھ شُبہ نہیں، لیکن چوں کہ یہ تصویر بالکل صحیح کھینچی گئی ہے اس لیے اہلِ نظر اس کے حسن کی ستائش پر مجبور ہیں۔‘‘ (۶۰)
جرأت نے انشا اور مصحفی کے زیرِ اثر غزلِ مستزاد بھی لکھی،مگر اس کی حیثیت ایک تجربے سے زیادہ نہیں،یہ ہیئت اگرچہ ان کے مزاج سے پوری مطابقت رکھتی ہے مگر انہوں نے اس پیمانۂ غزل کو پسند نہیں کیا۔غزلِ مستزاد میں سراپے کی جھلک دیکھیے:
جادو ہے نگہ، چھب ہے غضب، قہر ہے مُکھڑا اور قد ہے قیامت
غارت گر ِ دیں وہ بت ِ کافر ہے سراپا اللہ کی قدرت
اٹھکیلی ہے رفتار میں ، گُفتار کی کیا بات ہر بات جگت ہے
اور رنگ ِ رُخِ یار ہے گویا کہ بھبھوکا پھر تِس پہ ملاحت
جرأت کی غزل کے عروضی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں’’ بحرِ رمل‘‘ سے خصوصی دل چسپی رہی، اس بحر کے دو اوزان (۱) بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف/ مقصور(فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن) اور
(۲) بحرِ رمل مثمن محذوف/ مقصور(فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن/ فاعلات)
میں ان کی چار سو سے زیادہ غزلیات ملتی ہیں۔ بحرِ رمل اپنی خوش آہنگی اور دل آویزی کے لیے معروف ہے۔ جرأت نے الفاظ کی تکرار سے بھی شعری آہنگ میں اضافہ کیا ہے،تکرارِ الفاظ کا حسین استعمال دیکھیے:
چھُپتا نہیں چھپائے سے بد ذات ، نیک ذات
پاوے کہاں گُہر کی طرح سنگ، رنگ ڈھنگ
گاہ جیتا ہوں گاہ مرتا ہوں
آنا جانا ترا قیامت ہے
ہم تو کہتے تھے دمِ آخر ، ذرا سستا ، نہ جا
لے چلے ہم جان سے ، مختار ہے ،اب جا ،نہ جا
سرسری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے
صحبتِ غیر میں گاہے ، کبھی راہے گاہے
یہ حال ہے ترے وحشی کے جیب و داماں کا
کہ چاک چاک میں ہے اور رفو رفو میں ہے
غلام ہمدانی مصحفی ( ۱۷۵۰ء تا ۱۸۴۷ء) اُردو کے سب سے پُر گو شاعر مانے جاتے ہیں۔ مصحفی نے لفظ کو گنجینۂ معنی کا طلسم جانا اور زبان ِ شعر کو ان نزاکتوں اور خوب صورتیوں سے روشناس کیا جو ان کے ہم عصروں میں خال خال پائی جاتی ہیں۔ وہ خیال اور مواد کی بہ جائے اظہار اور پیش کش کی جلوہ طرازیوں کے قتیل تھے ،بہ قول ڈاکٹر سید عبداللہ:
’’ مصحفی پہلا شاعر ہے جس نے تجربات و احساسات کے مقابلے میں زبان اور طرزِ ادا کو اہمیت
دی اور صوت و صورت کی خوبی اور آرائش و زیبائش پر انہوں نے خاص نظر رکھی۔ انہیں ایسے حسیں الفاظ کے انتخاب پر بڑی قدرت ہے جن کی جذباتی و صوتی کیفیتیں پہلے سے تسلیم شدہ ہیں یہ وہ حسیں الفاظ ہیں جن کو فارسی شاعری ان جذباتی حالتوں سے وابستہ کر چکی ہے جن کے خلوص اور سچائی میں شُبہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے علاوہ ان تراکیب و الفاظ کی صوتی خوش نمائی اپنا سکہ بٹھا چکی ہے۔ مصحفی کے کلام میں جب ترکیبیں ان کے عام مانوس اور با مزہ زبان اور سادہ محاوروں کے پہلو بہ پہلو بیٹھتی ہیں تو ان سے خوش رنگی اور لطافت کا ایسا نفیس نمونہ تیار ہوتا ہے جس سے محظوظ نہ ہونا شاید دشوار ہو گا۔‘‘ (۶۱)
مصحفی نے فارسی کی ایسی خوش آہنگ اور خوش نما ترکیبیں برتی ہیں جن سے ان کے شعروں میں سج دھج کے ساتھ ساتھ لطافت اور نزاکت کا وصف پیدا ہوا ہے۔ ان کی چند ترکیبیں دیکھیے:
آوارگانِ شوق، آسودگانِ خاک، دلِ سودا زدہ، دیدۂ حیرت زدگاں، کشتۂ وفا، فتنۂ برخاستہ، روکشِ ابرِ بہار، غم زدۂ بے سرو ساماں، شوقِ نظارۂ دیدار، جرسِ غنچہ، قافلۂ نو بہار، چشمِ خمار آلودہ، خیالِ تزئین، لذتِ آسودگی، غارت گرِ جاں، معرکۂ عشق وغیرہ۔
مصحفی کی غزل لَے کاری اور غنائیت کا عمدہ نمونہ ہے۔ انہوں نے الفاظ کے در و بست ، طویل مگر شیرازہ بند ردیفوں اور خوش آہنگ و متین بحروں کے انتخاب سے غزل کو آہنگ کی چاشنی عطا کی ہے۔ان کی بحروں میں جوش و خروش اور شدت نہیں بل کہ غنودگی، سکون اور لطیف غنائیت پائی جاتی ہے ۔ انہوں نے بلند اور کوتاہ اوزان میں بہت کم غزلیں کہی ہیں ان کی زیادہ تر غزلیں متوسط اوزان میں ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم ضیا کی تحقیق کے مطابق مصحفی کے پسندیدہ اوزان یہ ہیں۔ (۶۲):
۱۔بحرِرمل مثمن مخبون مقصور/ محذوف( فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن)
۲۔ بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف/ مقصور( مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن)
۳۔ بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف/ مقصور( مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولن)
۴۔ بحر ِمضارع مثمن اخرب( مفعولُ فاعِ لاتن مفعولُ فاعِ لاتن)
۵۔ بحرِ خفیف مسدس مخبون( فاعلاتن مفاعلن فعلن)
۶۔ بحرِ ہزج مثمن سالم ( مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)
مندرجہ بالا اوزان میں بالترتیب ۴۹۲، ۴۱۷، ۳۴۲، ۱۴۴،۱۱۷ اور۱۱۰ غزلیں ملتی ہیں۔
مصحفی نے اپنے ہم عصروں کے برعکس متروک الفاظ اور جمع مؤنث کے قدیم صیغوں کو استعمال کیا ہے ۔ متروک الاستعمال الفاظ کا استعمال بھی ان کے صوتی ذوق کی گواہی دیتا ہے، ان الفاظ نے بھی ان کے کلام کی نغمگی اور موسیقیت میں اضافہ کیا ہے، متروک الاستعمال الفاظ کا ورتارا دیکھیے:
اُس نازنیں کی باتیں، کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھُریاں، آنکھیں کٹاریاں ہیں
کیا پوچھتے ہو ہم دم ، احوال مصحفی کا
راتیں اندھیریاں ہیں ، اختر شماریاں ہیں
بِن دیکھے جس کے پل میں آنکھیں بھر آئیاں ہوں
کیا قہر ہے جو اُس سے برسوں جدائیاں ہوں
از بس کہ چشم ِ تر نے بہاریں نکالیاں
مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں
اے مصحفی تو ان سے محبت نہ کیجیو
ظالم غضب کی ہوتی ہیں یہ دِلی والیاں
انشا اللہ خان انشا ( ۱۷۵۲ء تا ۱۸۱۷ء) اپنے عہد کے مشاق اور قادر الکلام شاعر تھے ۔ تخلیقی وفور اور اختراعی صلاحیت میں وہ اپنے ہم عصروں پر سبقت رکھتے تھے۔ مرزا سلیمان شکوہ اور نواب سعادت علی خان کی محفلوں میں انشا نے اپنی ذہانت، ذکاوت اور فہم و فراست سے وہ رنگ بھرا کہ ہر طرف ان کی استادی کا ڈنکا بجنے لگا۔ نواب سعادت علی خان تو ان کی باتوں سے ایسا محظوظ ہوا کہ پھر کسی اور کی گفت گو سے اُسے مطلق دل چسپی نہ رہی۔لیکن آخر آخر انشا اسی نواب سعادت علی خان کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے اور حرماں نصیبی کا مرقع بن گئے۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ انشا کے علم و فضل کو شاعری نے ڈبویا اور شاعری کو نواب سعادت علی خان کی مصاحبت نے۔ اس میں کُچھ شبہ نہیں کہ وہ اپنے علم و فضل کے اعتبار سے یگانۂ عصر تھے لیکن ان کا کلام دربار کے تقاضوں اور فرمائشوں میں ڈھل کر ابتذال، پھکڑ پن اور فحاشی کا مرقع بن گیا۔
انشا زبان کے اسرار و رموز سے کاملاً آشنا تھے ،لفظ کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے تصرف میں تھا اور وہ ہر طرح کی کیفیت اور حالت کو کئی رنگوں میں پیش کرنے پر قادر تھے۔ ان کی قوتِ ایجاد و اختراع نے نئے استعارے، تشبیہات، تراکیب اور الفاظ وضع کیے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق خیال کی ترسیل کا ذریعہ بنایا۔ استادی کی دھاک بٹھانے کے لیے انہوں نے کئی ایسے الفاظ و مرکبات بھی استعمال کیے جو دقیق، غریب اور پیچیدہ ہونے کے باعث غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھے اس طرح ان کی اکثر غزلیں شعریت و تغزل کی سرشاری سے محروم رہیں۔
انشا نے سنگلاخ زمینوں اور مشکل ردیف و قوافی میں اپنی قدرتِ بیان کے حیرت انگیز کمالات دکھائے ہیں۔ محل میں بیٹھا۔۔ جبل میں بیٹھا، نبیڑے جا ۔۔چھیڑے جا، باغ ٹھنڈا۔۔ چراغ ٹھنڈا، دستار کی گیند۔۔ تیار کی گیند، بلبل نے غش کیا۔۔ قلقل نے غش کیا، جادو پہ اتنا گھمنڈ۔۔ گیسو پہ اتنا گھمنڈ، کوہ قاف کا جوڑا۔۔ اوصاف کا جوڑا،طلسمات کے بیج۔۔ سقر لات کے بیج، لعابِ عنکبوت۔۔ زبابِ عنکبوت، پھنساوٹ سے لپٹ۔۔ کھوسٹ سے لپٹ، خاک اینڈ اینڈ۔۔ تاک اینڈ اینڈ، ابلیس کی ٹوپی۔۔ فراسیس کی ٹوپی، جبیں کی تہ میں۔۔ نہیں کی تہ میں، وغیرہ جیسے ردیف و قوافی میں طویل غزلیں کہنا انشا کی قادر الکلامی اور صنعت گری کی دلیل ہے۔ مشکل طرحوں میں شعر کہنا ان کا دل چسپ مشغلہ تھا، مصحفی کی رقابت نے ان کے اس انداز کو مزید مہمیز کیا۔ بعد کے شعرا جیسے ناسخ ، شاہ نصیر اور ذوق دہلوی پر انشا کے کلام کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ انشا کے اس انداز نے اگرچہ غزل کی نزاکت و لطافت کو گہنایا مگر اسی انداز کے باعث زبان و بیان کے کئی امکانات بھی اجاگر ہوئے جس سے بعد کی غزل کو فائدہ پہنچا۔
انشا نے غزلِ مستزاد کا تجربہ بھی کیا ، دیوان میں شامل ان کی مستزاد غزلیں اسی تکنیکی وصف کی حامل ہیں جو انشا کی دوسری غزلوں میں پایا جاتا ہے ،بل کہ مستزاد ٹکروں نے اشعار کی شوخی، جوش اور تاثیر میں اضافہ کیا ہے:
میں خاک نشیں ہوں گا گروہِ فقر ا سے کیا سمجھے ہو مجھ کو
رومال، چھڑی لے کے جو ٹک کھینچوں ادا سے دکھلاؤں کرامت
لینے جو بلائیں لگے ہم آپ کی چٹ پٹ تو بول اٹھے جھٹ پٹ
چل جا ابے رے واؤ زبر ہو کے پرے ہٹ ہے یہ بھی بناوٹ
میں روپ بدل اور ہی،چُپکے سے جو پہنچا بیٹھے تھے جہاں وہ
سُن کہنے لگے ،میرے دبے پاؤں کی آہٹ ہے ایک تو نٹ کھٹ
انشا عروض کے اسرار و رموز سے گہری واقفیت رکھتے تھے، ان کی عروض آشنائی کا اندازہ مرزا عظیم بیگ کے واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جب انشا میدانِ سخن میں مبتدی اور نووارد تھے۔(۶۳) انشا کے مزاج سے کُچھ بعید نہ تھا کہ وہ اپنی عروض آشنائی کو اپنی استادی کا ایک ذریعہ بناتے اور مشکل اور پیچیدہ اوزان میں طبع آزمائی کرتے ،لیکن ان کے کلام کے عروضی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے سوائے بحرِ جدید مسدس ( فعِلاتن فعِلاتن مفاعلن) کے سب مروج اوزان برتے ہیں، اس وزن میں بھی ان صرف ایک غزل ملتی ہے ۔ انشا کے پسندیدہ اوزان میں دو متوسط اوزان رمل مثمن مخبون(فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن) اور مضارع اخرب مکفوف مقصور/ محذوف( مفعولُ فاعِ لاتُ مفاعیلُ فاعلن) شامل ہیں۔(۶۴)
مصحفی اور انشا کے دور میں نسائی مزاج کی حامل شاعری کی طرز کو رواج ملا جسے اُس کے بنیاد گزاروں نے ’’ ریختی‘‘ کا نام دیا۔ انشا نے’ دریائے لطافت‘ میں سعادت یار خاں رنگین کو ریختی کا موجد بتایا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ سعادت یار خاں، رنگین تخلص، خلف طہماسپ جو دوست داری کے شعار اور سپاہ گری و شجاعت وغیرہ مردانہ اشغال میں اعلیٰ درجہ رکھتا ہے ا س کو پردہ نشیں مخدرات سے واسطہ رہا ہے ایک جُز اس نے اپنی تالیف کی ہوئی کتاب میں ان کی زبان میں لکھا ہے بل کہ اسی زبان میں ایک دیوان بھی کہا ہے۔ وہ ریختی کا موجد ہے اور اس دیوان کا نام بھی ’ریختی‘ رکھا ہے۔‘‘ (۶۵ )
ریختی کے فروغ میں رنگین سے بھی بڑھ کر خود انشا نے حصہ لیا اور اپنی شوخی اور شگفتہ مزاجی سے اس صنف کو مقبول بنا دیا ، رنگین اور انشا کے بعد جس شاعر نے ریختی گوئی میں نام پیدا کیا وہ جان صاحب ہیں۔ ریختی کے نمونہ دیکھیے:
میں ترے صدقے نہ رکھ، اے مری پیاری روزہ
بندی رکھ لے گی ترے بدلے ہزاری روزہ انشا
اپنی ہی بیتی کہا کرتی ہوں میں راتوں کو
دھیان قصہ کا مجھے ہے نہ کہانی کی ہوس رنگین
رات کو خواب میں لیلیٰ نے کہا بندی سے
تو نے پھر زندہ مر ا نام کیا میرے بعد جان صاحب
ریختی کو ہیئت کا تجربہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ یہ موضوعاتی اور لسانی تجربہ تھا جو شاعری کے مروج سانچوں میں کیا گیا۔رُباعی، قصیدہ(قصیدی)، غزل، قطعہ اور خمسہ(خمسی) کی ہیئتوں کو بعینہ قائم رکھا گیا۔ریختی مبتذل اور فحش موضوعات کے باعث بدنام صنفِ شعر ٹھہری اور شرفا نے اس طرزِ کلام کو پسند نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ بعد کے شعرا نے بھی اس صنف کو منہ نہیں لگایا۔ اس میں شُبہ نہیں کہ ریختی گو شاعروں نے اپنے عہد کی تہذیب و معاشرت کے جنسی اور جذباتی رویوں کی سچی تصویر کشی کی ہے مگر اس موضوعاتی اور لسانی التزام کے باعث شاعری کی روایت سے بغاوت ہوئی جس سے مجموعی طور پر شاعری کو نقصان پہنچا، تاہم ریختی کے تجربے سے زبان کو توانائی ملی، شریف گھرانوں کی خواتین کے مخصوص الفاظ اور محاورات پہلی بار شاعری میں استعمال ہوئے جو زبان کے سرمائے میں اضافے کا سبب ٹھہرے۔ ریختی کا تجزیہ کرتے ہوئے محمود الہیٰ رقم طراز ہیں:
’’ ریختی کو ریختہ کی تانیث کہنا یا اسے تفریحِ خاطر اور تفننِ طبع کا ایک ذریعہ سمجھنا اپنے وقیع لسانی اور ادبی سرمائے سے منحرف ہونے کے علاوہ اور کُچھ نہیں۔ ریختی کو ایک زوال آمادہ تہذیب کا مظہر سمجھنا بھی غلط ہے، دراصل ریختی اُردو زبان و ادب کے تشکیلی دور کے اُن فعال عناصر میں ہے جنہوں نے اسے اتمام و تکمیل کے درجے تک پہنچایا۔‘‘ (۶۶)
مصحفی ،انشا اور جرأت نے جس نئے دبستانِ شعر کی بنیادیں رکھی تھیں ان کی تکمیل ناسخ اور آتش کے دور میں ہوئی۔ اوّل الذکر شعرا چوں کہ دہلی کے پروردہ تھے اس لیے ان کی زبان اور موضوعات جدید رنگوں کی آمیزش کے باوجود دہلوی رنگ و آہنگ کے حامل تھے اور دہلی و لکھنؤ کے محاورے میں فرق کے باوجود ان میں آویزش یا ٹکراؤ نہ تھا۔لیکن ثانی الذکر شعرا کے عہد میں لکھنوی اور دہلوی زبان اور رنگِ سخن کی حدود متعین ہوئیں،اس حد بندی کے نتیجے میں لکھنؤ اور دہلی کے شعری دبستانوں میں مقابلے اور آویزش کی فضا پیدا ہوئی۔ لکھنؤ میں اس فضا کو پروان چڑھانے والوں میں ناسخ ، آتش اور ان کے تلامذہ شامل ہیں۔لکھنوی دبستان سے وابستہ شعرا نے غزل کو تکنیکی حوالے سے جن نئی صورتوں سے روشناس کرایا وہ بعد میں غزل کی مقبولیت کا سبب ٹھہریں۔
شیخ امام بخش ناسخ ( ۱۷۷۲ء تا ۱۸۳۸ء ) لکھنوی دبستانِ سخن کے سرخیل اور مخترع،قادر الکلام اور مسلم الثبوت استاد تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں غزل کو ایک نئے لسانی ذائقے سے روشناس کیا۔ سادہ گوئی کے ردِ عمل میں تازہ گوئی کی داغ بیل ڈالی، اس تحریک نے اردو شاعری بالخصوص غزل کو نئے اسالیب سے متعارف کرایا۔ ناسخ کے اجتہادی کارناموں کا اعتراف ہوا ۔ مصحفی جیسے بزرگ شاعر نے ناسخ کے رنگ کی تقلید کی۔ دہلی میں ناسخ کا دیوان پہنچا تو کہنہ مشق استاد اس کے رنگ میں رنگے گئے۔ صرف شاہ نصیر( جنہیں دہلی کا ناسخ کہا جاتا ہے) ، ذوق اور مومن نے ہی ان کے رنگِ سخن کا اتباع نہیں کیا بل کہ مرزا غالب جیسے انا دار شاعر نے بھی ناسخ کی زمینوں میں غزلیں کہیں اور انہیں رنگِ جدید کا موجد تسلیم کیا ، نساخ کے نام ایک خط میں رقم طراز ہیں:
’’ شیخ امام بخش طرزِ جدید کے موجد اور پرانی روشوں کے ناسخ تھے۔‘‘ (۶۷ )
ناسخ کے کلام کے تکنیکی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے سنگلاخ زمینوں میں صناعی کے ایسے نمونے پیش کیے ہیں جو انہی سے خاص ہیں۔ان کا یہ کہنا صداقت سے خالی نہیں کہ:
جی لڑا دیتا ہے، کیسی ہو زمینِ سنگلاخ
خامہ تیشہ ہے تو ناسخ کوہکن سے کم نہیں
صنعتِ ترصیع اگر دیکھو مرے اشعار میں
پھر پسند آئے نہ صنّاعی مرصع ساز کی
ادق الفاظ و تراکیب، پُر پیچ تشبیہات و استعارات، سنگلاخ زمینوں، مشکل ردیفوں اور انوکھے قافیوں کے استعمال میں اگرچہ ان کا کوئی مثیل نہیں تاہم ان عناصر نے ان کی غزل کو ثقیل اور بے رس بنا دیا ہے۔ ان کی نازک خیالیاں ’’کوہ کندن و کاہ برآوردن ‘‘ کی مظہر ہیں۔ ان کی غزل پر آورد اور تکلف کی ایسی فضا مسلط ہے جس میں شعریت اور تغزل کے قافلے کا بہت کم گزر ہوتا ہے۔چند اشعار بہ طور مثال دیکھیے:
آگے مجھ کامل کے ناقص ہے کمالِ مدعی
درمیاں ہے فرق استدراج اور اعجاز کا
مل گیا ہے عشق کا آزار قسمت سے مجھے
ہوں جو عیسیٰ بھی ارادہ ہو نہ استعلاج کا
قمر ہی کیا ترے آگے محاق میں آیا
کہ آفتاب بھی تو احتراق میں آیا
باعثِ گریہ ہوئی فرقت میں مجھ کو مے کشی
ساقیا ! اشکوں سے مے کا استحالہ ہو گیا
کوئے جاناں میں ہوں پر محروم ہوں دیدار سے
پائے خفتہ خندہ زن ہیں دیدۂ بیدار سے
ناسخ نے بحرِ رمل کے دو اوزان رمل مثمن محذوف / مقصور اور رمل مثمن مخبون میں ساڑھے چار سو کے قریب غزلیں کہی ہیں(۶۸ )۔ یہ متوسط اوزان خوش آہنگی اور سبک رفتاری میں اپنا جواب نہیں رکھتے مگر ناسخ کے اسلوب کی ثقالت نے ان رواں دواں اور متحرک اوزان کو جامد بنا دیا ہے۔
خواجہ حیدر علی آتش ( ۱۷۷۸ء تا ۱۸۴۶ء) لکھنوی دبستانِ سخن کے مسلم الثبوت استاد تھے مگر اپنی فطری درویشی اور قلندر مزاجی کے سبب انہوں نے دہلوی رنگِ سخن سے بھی استفادہ کیا۔آتش نے اپنی سلامتِ طبع سے لکھنوی شاعری کو منفرد خصوصیات سے مالا مال کیا اور بڑھی ہوئی خارجیت، لفظی شعبدہ گری ، صنائع و بدائع کے بے ہنگم استعمال اور زبان و بیان کے مبتذل عناصر سے لکھنوی شاعری کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ ناسخ اگرچہ علم و فضل کے اعتبار سے بلند مرتبہ کے حامل تھے اور انہوں نے اصلاحِ زبان کی تحریک میں اپنی اختراعی صلاحیتوں کے باعث اُردو زبان و ادب کو بہت فائدہ پہنچایا مگر ان کا کلام تغزل کی چاشنی ، سوز و گداز اور متانت و سنجیدگی میں آتش
کے کلام کا مقابلہ نہیں کرتا۔ آتش کی شاعری میں یہ تمام عناصر بہ تمام و کمال موجود ہیں۔ آتش نے لکھنوی شاعری کی اہم خصوصیت رعایتِ لفظی کو بھی سادگی اور اثر آفرینی کا مرقع بنا دیا ۔ آتش کی شاعری کے تکنیکی محاسن کا ذکر کرتے ہوئے رام بابو سکسینہ رقم طراز ہیں:
’’ ترشے ہوئے الفاظ آب دار موتیوں کی لڑی میں پروئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اکثر اشعار میں روانی موسیقیت کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ محاورات ایسے برمحل استعمال کیے ہیں کہ شاعری مرصع سازی معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔ فوق البھڑک الفاظ ان کے یہاں بہت کم ہیں۔ زبان مزے دار اور روزمرہ کی بول چال ہے جس میں ابتذال نہیں۔‘‘ (۶۹)
آتش کے مخصوص قلندرانہ اسلوب کی تعمیر میں ان کی لفظ آشنائی کا گہرا عمل دخل ہے، انہیں احساس ہے کہ شاعری کا کام کسی مرصع ساز کے کام سے کسی طرح کم نہیں اور بندشِ الفاظ کا جڑاؤ نگینے جڑنے سے زیادہ ریاضت اور محنت کا طالب ہے۔(۷۰ ) لفظوں کے در و بست سے وہ اپنے شعر میں ایسی تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں جو دامنِ قلب و نظر کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے، ان کے اسلوب میں ایسی سرشاری، وجاہت اور متانت پائی جاتی ہے جو اُردو شاعری میں کسی اور کو حاصل نہیں۔تغزل کی چاشنی اور زبان کے عمدہ استعمال کے باعث ان کے کئی اشعار میں ضرب الامثال کی خصوصیت ابھر آئی ہے ۔ چند مثالیں دیکھیے:
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تُجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
تکلف سے بری ہے حسنِ ذاتی
قبائے گُل میں گُل بوٹا کہاں ہے
نہ پوچھ حال مرا چوبِ خشکِ صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
آتش نے مترنم اور رواں دواں بحروں میں شعر کہے ہیں ان کے پسندیدہ اوزان یہ ہیں۔(۷۱)
۱۔ بحرِ رمل مثمن مخبون (فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن)
۲۔ بحرِ رمل مثمن محذوف/ مقصور( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن/ فاعلات)
۳۔ بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف/ مقصور( مفعولُ فاعلاتُ مفاعیلُ فاعلن)
۴۔ بحرِ ہزج مثمن سالم ( مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)
سید ولی محمد نظیر اکبر آبادی(۱۷۳۵ء تا ۱۸۳۰ء) اُردو کے عوامی شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ، انہوں نے شاعری کے تین مختلف ادوار( میر و سودا ، مصحفی و انشا اور ناسخ و آتش)دیکھے تاہم وہ اپنی فطری آزادہ روی کے باعث کسی کے مقلد نہ تھے، نظیر نے دہلی اور لکھنؤ کے شعری دبستانوں سے الگ اپنا راستہ نکالا جو رنگ و آہنگ میں منفرد ہے۔ نظیر نے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی کو تمام جزئیات اور خصوصیات کے ساتھ اپنی شاعری کا موضوع بنایا، گُل و بلبل کی روایتی داستانوں اور وصال و ہجر کے فرضی قصوں کی بجائے جیتے جاگتے انسان اس کی توجہ کا مرکز ٹھہرے۔مروجہ ادبی معیارات سے بغاوت اور شعری دبستانوں سے یک سر اغماض کے نتیجے میں قدیم تذکرہ نگاروں نے انہیں شاعروں کی صف میں جگہ نہیں دی۔بیسویں صدی میں نقطۂ نظر کی تبدیلی اور موضوعات کے پھیلاؤ کے باعث ان کا کلام گفت گو کا موضوع بنا اور ان کے مقام و مرتبے کے تعین کی کوششیں ہوئیں۔انہیں غزل گو سے زیادہ نظم نگار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے تاہم ان کے کلیات میں چھے سو سے زیادہ غزلیں موجود ہیں۔
نظیر نے غزل میں ہندی معاشرت اور تہذیب کو اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ عکس انداز کیا ہے،تہذیب و معاشرت کی جلوہ گری کا یہ انداز نظیر سے پہلے محمد قلی قطب شاہ اور امیر خسرو کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ غزل کے روایتی الفاظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ نظیر نے مقامی بولیوں کے الفاظ اور ہندی تلمیحات و اشارات جیسے برہمن، بھان متی، سانولیا، چھل بلیا، چنچل، اچپل، جُگنی، رانجھا، ہیر وغیرہ کو بڑی خوبی سے غزل میں برتا ہے۔ مولانا عبدالباری آسی نے کلیاتِ نظیر کے جائزے میں مشہور مستشرق ڈاکٹر فیلن کی رائے نقل کی ہے کہ:
’’ اس نے لفظوں کو نئی ترکیبوں اور نئے معنوں میں استعمال کرنے کی جرأت کی ہے اور یہ ترکیبیں اور معنی ہمیشہ خوش آیند ہیں۔‘‘(۷۲)
نظیر کے ہاں ایسی تشبیہات کثرت سے ملتی ہیں جو ان کی اختراعی صلاحیت کا نتیجہ ہیں۔ یہ تشبیہات اپنی نُدرت اور حسن کے باعث شعر کی داخلی اور خارجی جہتوں کو چمکانے کا سبب ٹھہری ہیں۔ نہ جانے ہمارے قدیم تذکرہ نگاروں کی نظر سے اس طرح کے اشعار کیوں نہیں گزرے؟
فرصتِ عمر قطرۂ شبنم
وصلِ محبوب گوہرِ نا یا ب
ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثالَ قطرۂ شبنم رہے، رہے نہ رہے
ہیں یہ زلفیں منہ پہ یا بدلی کے دو ٹکڑے سیاہ
چلتے چلتے تھم رہے آ کر قمر کے متصل
نظیر نے سنگلاخ زمینوں اور مشکل ردیف و قوافی میں استادی اور قادرالکلامی کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ انشا اور ناسخ سے کسی طرح کم نہیں۔ اگر بہ نظرِ انصاف دیکھا جائے تو نظیر کے کلام میں تکلف اور تصنع کی وہ صورت دکھائی نہیں دیتی جو ہمیں انشا اور ناسخ کے ہاں نظر آتی ہے۔ مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں اس کی طبعِ ہمہ رنگ نے طرح طرح کے پھول کھلائے ہیں ورنہ: ’’ حیا اہاہا ہا۔۔ کہا اہاہاہا، یاس کا لگا ۔۔ الماس کا لگا، داغ ٹھنڈا۔۔ چراغ ٹھنڈا، جھمک جھمک کے چلنا۔۔ چمک چمک کے چلنا، محبوب خوب صورت۔۔ اسلوب خوب صورت،انگشتری در دست چُپ۔۔ پروری در دست چُپ، پسند بند۔۔ چھند بند، بیداد کی فریاد۔۔ ایجاد کی فریاد، کمان کا تعویذ۔۔ جاں کا تعویذ، تقصیر پر نوازش۔۔ زنجیر پر نوازش، چاہ سے محفوظ ۔۔ کلاہ سے محفوظ،ملال خوش محظوظ۔۔کمال خوش محظوظ، کافور کی شمع ۔۔ نور کی شمع، ہوا تیسرے دن۔۔ جلوہ نما تیسرے دن، چاہ کی گٹھری۔۔ گُناہ کی گٹھری، جاں ہمہ تن چشم۔۔ حیران ہمہ تن چشم، لڑی تب خبر پڑی۔۔ جھڑی تب خبر پڑی، فقط زمیں کے تلے۔۔ خط زمیں کے تلے‘‘
جیسی زمینوں میں شعر کہنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں کیوں کہ ایسی زمینوں میں سوائے استادی کے اظہار کے کُچھ نہیں ملتا۔نظیر نے ایسی زمینوں میں بھی تغزل اور رچاؤ سے بھرپور شعر نکالے ہیں:
ہوں تیرے تصور میں مری جاں،ہمہ تن چشم
دل ہے مرا جوں آئنہ ، حیراں ہمہ تن چشم
ہے شبِ مہ میں وہ رخشاں ترے عارض کی جھلک
جس کے پرتو سے خجل ہو شب ِ دیجور کی شمع
نظیر کے ہاں غزل کی ہیئت میں بھی کُچھ تجربات ملتے ہیں جن کی حیثیت اگرچہ تجربات سے بڑھ کر کُچھ اور نہیں تاہم ان کا ذکر ضروری ہے:
۱۔ غزلِ مستزاد میں ایک ٹکڑے کی بجائے دو ٹکڑے بہ طور مستزاد ملتے ہیں ، مستزاد کا قافیہ اصل مصرع کے قافیہ سے مختلف ہے۔
یوں ہجر میں روتا ہوں میں اس گل کے شب و روز کر نالہ و فریاد جیسے کہ کسی وقت
یوسف کے لیے روئی تھیں یعقوب کی آنکھیں ہر شام و سحر کو خونناب میں بھر بھر
خط میں نے جو بھیجا اسے با حسرتِ دیدار لکھ خونِ جگر سے اور داغ کو کر مُہر
تکتی رہیں جا کر مرے مکتوب کی آنکھیں اُس رشک ِ قمر کو حسرت سے سراسر
۲۔ ایک دو ایسی غزلیں بھی شاملِ دیوان ہیں جن میں مطلع کا مصرعِ ثانی غزل کے باقی تمام اشعار میں بہ طور مصرعِ ثانی آتا ہے۔
میں ہوں اور مہ رو ہے اور ساقی ہے اور بزمِ شراب
پر خدا جانے یہ بیداری ہے اے دل یا کہ خواب
جوشِ عشرت ، دورِ ساغر ، رقصِ خوباں ، صحنِ باغ
پر خدا جانے یہ بیداری ہے اے دل یا کہ خواب
۳۔نظیر کی اکثر غزلوں میں مکالمہ کی فضا ملتی ہے مگر ایک غزل تو مکمل طور پر مکالماتی ہے۔
کہا جو ہم نے ’’ ہمیں در سے کیوں اٹھاتے ہو؟‘‘
کہا کہ ’’ اس لیے تم یاں جو غُل مچاتے ہو‘‘
کہا کہ ’’ عرض کریں ہم پہ جو گزرتی ہے‘‘
کہا’’ خبر ہے ہمیں ، کیوں زباں پہ لاتے ہو‘‘
نظیر موسیقی کا گہرا شعور رکھتے تھے اسی شعور کے باعث ان کے کلام میں نغمگی اور موسیقیت کا عنصر اپنے جوبن پر ہے، تراکیب کی بندش، لفظوں کا در و بست اور ہم آہنگ لفظوں کی تکرار نے ان کی غزل میں نیا صوتی آہنگ پیدا کیا ہے جو ان کے اسلوب کی شناخت میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے مروجہ دس بحروں کے تئیس اوزان میں شعر کہے ہیں ،تاہم متوسط اوزان سے انہیں دل چسپی رہی۔(۷۳ ) انہوں نے متقارب اور متدارک کی مضاعف شکلوں میں بھی غزلیں کہی ہیں، خاص طور پر متدارک مثمن مخبون مقطوع کی مضاعف شکل کو انہوں نے اتنی خوب صورتی اور تسلسل سے برتا ہے کہ حافظ محمود شیرانی نے اس بحر کا نام ہی ’’ بحرِ نظیر ‘‘ (۷۴)رکھ دیا ہے۔ اس بحر کا فنکارانہ استعمال غزلوں کی بجائے ان کی طویل نظموں میں دکھائی دیتا ہے۔
دبستانِ دہلی کے دورِ متاخرین میں اُردو غزل زبان و بیان کی نئی لطافتوں اور نزاکتوں سے روشناس ہوئی، اس دور میں اصلاحِ زبان کی تحریک نے اردو کو ایک نئے ذائقے سے سرشار کیا،ولی دکنی نے جس لسانی تحریک کی بنیاد ڈالی تھی وہ مختلف شکلوں سے گزرتی بالآخر دہلی پہنچ کر مکمل ہوئی، اس دور کے شعرا میں شاہ نصیر، ذوق اور ظفر نے غزل کی زبان کو تازگی اور صفائی کا کامل نمونہ بنا دیا ، مزرا غالب ، مومن اور شیفتہ نے معنی آفرینی، بلند خیالی اور تغزل کی سرشاری سے ہم کنار کیا ، اس عہد کی غزل نے فکر اور فن کی معراج پالی۔
شاہ نصیر( م ۱۸۳۸ء) کا شمار دہلی کے سربرآوردہ شعرا میں ہوتا ہے۔ مشکل طرحوں اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنے کے باعث انہیں دہلی کا ناسخ کہا جاتا ہے۔ شاہ نصیر زبان کے اسرار و رموز سے کاملاً آگاہ تھے ، مشکل زمینوں میں بڑی آسانی اور روانی سے شعر کہتے تھے (۷۵) اور اسے زبان و بیان کی لطافتوں کا مرقع بنا دیتے۔ مضمون آفرینی، خیال بندی ، تشبیہ و استعارہ سازی میں کمال کے باعث ان کی استادی کا لوہا مانا گیا۔ ذوق اور مومن کے علاوہ بیسیوں شاگردوں نے ان سے کسبِ فیض کیا۔ شاہ نصیر کی تشبیہات میں ندرت اور صناعت کا دل کش امتزاج دکھائی دیتا ہے:
جوں کاغذ ِ آتش زد ہ ہم بہرِ تماشا
ہنس ہنس کے جلے رات جلائے سے کسی کے
جوں نقش ِ قدم خاک نشینانِ رہ ِ عشق
تا حشر نہ اٹھیں گے اٹھائے سے کسی کے
شاہ نصیر نے اگرچہ ’’ تماشا ہمہ تن چشم۔۔ مینا ہمہ تن چشم، تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں۔۔ گھر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں، پیدا سر پہ طرہ ہار گلے میں۔۔ تنہا سر پہ طرہ ہار گلے میں، پیرہنِ سرخ ترا۔۔ دہنِ سرخ ترا، علم اٹھ نہیں سکتا۔۔ قدم اٹھ نہیں سکتا، قرینے ساون بھادوں کے ۔۔ مہینے ساون بھادوں کے، عسل کی مکھی۔۔ جبل کی مکھی، عبادت گاہ خدنگ و گاہ کماں۔۔ قامت گاہ خدنگ و گاہ کماں‘‘ جیسی زمینوں میں شعر کہے ہیں جن میں غزل کا شعر نکالنا بہ ظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے مگر شاہ نصیر نے اپنی خدا داد صلاحیتوں سے ان زمینوں کو بھی شعریت اور تغزل کے ذائقے سے مالا مال کیا ہے، سید عابد علی عابد رقم طراز ہیں:
’’ میرا یہ دعویٰ ہے کہ نصیر کے کلام کا انتخاب کیا جائے تو ذوق سے کہیں زیادہ ایسے اشعار ملیں گے جو موسیقی کے اعتبار سے درِ گوش پر بھی دستک دیتے ہیں اور اثر کے لحاظ سے چُپکے چُپکے حریمِ دل میں بھی در آتے ہیں۔‘‘ (۷۶)
شیخ محمد ابراہیم ذوق ( ۱۷۸۹ء تا ۱۸۵۴ء) دہلی کے طبقۂ متاخرین کے قادرا لکلام استاد شاعر تھے، انہوں نے کم سنی میں مشقِ سخن آغاز کی اور شاہ نصیر کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوئے مگر براقیِ طبع کے باعث بہت جلد شاہ نصیر سے بگاڑ پیدا ہو گیا اور اپنے کلام کی خود ہی اصلاح کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ مشق و ممارست سے اس قابل ہو گئے کہ انہیں ’ملک الشعرا ‘اور ’خاقانیِ ہند ‘کے القابات سے نوازا گیا اور شاہ نصیر کے دہلی چھوڑنے کے بعد بہادر شاہ ظفر کے کلام کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ سودا و ناسخ کے اتباع اور شاہ نصیر کی شاگردی کے باعث انہیں سنگلاخ زمینوں اور مشکل طرحوں میں شعر کہنے کا شوق ہوا جو عمر بھر باقی رہا، ان کا بیش تر سرمایہ ٴ شاعری ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں میں تلف ہو گیا ، مولانا محمد آزاد کی کوشش سے ان کا جو کلام بچ رہا اس میں غزلوں کی تعداد دو اڑھائی سو سے زیادہ نہیں تاہم اس مختصر دیوان سے بھی ان کی سنگلاخ زمینوں سے دل چسپی اور وابستگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ذوق کی غزل کے تکنیکی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زبان کے بہت بڑے جوہری تھے۔ انہوں نے صفائیِ زبان کی وہ قندیل روشن کی جو داغ دہلوی کے ہاں مہرِ درخشاں کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ الفاظ کی نشست، ترکیب کی بندش، امثال و محاورات کے استعمال اور روزمرہ کے برتاؤ میں وہ اپنے زمانے کے تمام مقتدر شعرا پر فوقیت رکھتے ہیں،انہوں نے دہلی کی ٹکسالی زبان کا ایک واضح ادبی معیار قائم کیا ۔ سید عابد علی عابد ان کی لسانی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ذوق نے اُردو زبان کو اس طرح سنوارا، سنگھارا اور نکھارا ہے کہ اس کے ہاتھوں میں پہنچ کر وہ فارسی کی ایک شاخ، نو رس نہ رہی بل کہ ایک تناور درخت بن گئی۔۔۔ جو گھلاوٹ، روانی،سادگی اور صفائی ذوق کی غزلوں میں ہے وہ اس سے پہلے غزلوں میں کہیں نظر نہیں آتی۔ اس اعتبار سے ذوق منفرد ہے ۔ وہ صحیح معنی میں اُردو زبان کا پہلا غزل گو ہے اس کے ہاں فارسی اُردو کا ماخذ اور منبع نہیں بل کہ ایک زبان ہے جس سے گاہ گاہ اُردو فیض حاصل کرتی ہے اور بس!‘‘ (۷۷)
ذوق کے ہاں صنائع و بدائع کا استعمال فن کارانہ ہے انہوں نے فنِ شعر کے ان آرائشی عناصر میں اپنی اختراعی صلاحیت کے باعث شعریت اور نغمگی کی تاثیر بھر دی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے شعر ضرب المثل کی حیثیت سے زباں زدِ عوام و خواص ٹھہرے، ذوق کے چند ایسے مقبول زمانہ مصرعے دیکھیے:
یہ نصیب اللہ اکبر ، لوٹنے کی جائے ہے
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
تُجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مرجھا گئے
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
تُم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے
ذوق کے مطلعے اپنی یک آہنگی کے باعث لاجواب ہیں۔ ردیف و قافیہ کے اسرار و رموز سے کامل واقفیت اور زبان و بیان کی نزاکتوں سے گہری آشنائی کے بغیر اس شان کے مطلعے نہیں کہے جا سکتے۔ داغ کے سوا اس میدان میں کوئی شاعر ذوق کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔چند مطلعے دیکھیے:
ماتھے پہ ترے چمکے ہے جھومر کا پڑا چاند
لا بوسہ چڑھے چاند کا وعدہ تھا چڑھا چاند
وقتِ پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسی خواب کی باتیں
مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا، نہیں آ تا
مرزا اسد اللہ خان غالب( ۱۷۹۷ء تا ۱۸۶۹ء)اُردو شاعری کے مجتہد اور مجدد ہیں ، انہوں نے اپنے فکری نظام اور فنی مہارت سے اُردو شاعری بالخصوص اُردو غزل کو وہ وقار اور اعتبار بخشا جس نے ’’ریختہ ‘‘کو ’’رشکِ فارسی ‘‘ بنا دیا:
جو یہ کہے کہ ’ ریختہ‘ کیوں کر ہے رشکِ فارسی؟‘
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ ’یوں‘
مرزا غالب کا منتخب دیوان صرف دو صد پینتیس غزلیات( بہ شمول فردیات) پر مشتمل ہے مگر فکر و فن کی ہُنر مندانہ آمیزش نے اس مختصر دیوان کو رفعت و عظمت کے اُس مقام پر پہنچا دیا جہاں ضخیم اور بھاری بھرکم دواوین کا گُزر نہیں۔ غالب نے حیات و کائنات کے مسائل کو اپنے مخصوص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا اور پھر انہیں تغزل کی چاشنی میں یوں گھُلا مِلا کر پیش کیا کہ فلسفہ شعر اور شعر فلسفہ کے ذائقے سے سرشار ہوا۔ غالب نے غزل کے تکنیکی عناصر کو ایک ایسی شان عطا کی جس نے غزل کے تکنیکی اُفق کو روشن اور اس کے فنی امکانات کو وسیع کر دیا۔
مرزا غالب اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے انفرادیت پسند تھے ، روشِ عام پر چلنا اُن کے مزاج کے خلاف تھا۔ اُن کے عہد میں سنگلاخ زمینوں، مشکل ردیفوں ، انوکھے قافیوں، صنائع و بدائع کے کثیر استعمال اور دیگر لسانی نزاکتوں کو شعر کی آبرو اور جان سمجھا جاتا تھا ۔ غالب نے اس جادۂ شعر کو قبول نہیں کیا۔ ان کی فطری مشکل پسندی اور مضمون آفرینی کو فارسی کے بے بدل شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کا ’’ رنگِ بہار ایجادی‘‘ ( ۷۸) پسند آگیا اور انہوں نے اس رنگ کے اتباع سے اپنے لیے نیا راستہ بنانے کی کوشش کی ۔ بلند پروازی کی خواہش اور بیدل کے تتبع کے باعث اُن کا ابتدائی دور کا کلام اغراق کا شکار ہوا۔ انوکھی تشبیہات، مبہم استعارات، پیچیدہ تراکیب، غیر مانوس الفاظ اور فارسیت کے غلبے نے ان کے کلام کو بعید الفہم بنا ڈالا۔ منتخب دیوان میں اُس دور کا سارا کلام شامل نہیں تاہم کئی اشعار ایسے دکھائی دیتے ہیں جو اُس دور کے طرزِ سخن کے گواہ ہیں ،جیسی:
شمارِ سجہ ، مرغوبِ بت ِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل پسند آیا
بہ فیضِ بیدلی ، نومیدیِ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا
ہوائے سیرِ گُل آئینۂ بے مہریِ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا
مذاقِ عام نے کلام کی اس پیچیدگی اور ابہام کو پسند نہیں کیا، غالب کا کلام ہدفِ تنقید بنا اور ان کی مہمل گوئی کا تذکرہ جا بہ جا ہونے لگا۔ میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کے طرزِ کلام سے ہٹ کر کسی نئی طرز کو قبول کرنا شعرائے دہلی کے مزاج کے خلاف تھا، مشاعروں میں چوٹیں ہونے لگیں۔حکیم مرزا جان عیش نے غزل میں قطعہ کہا جو دہلی کی ادبی محفلوں میں گونجنے لگا:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلامِ میر سمجھے ا ور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
مرزا غالب نے ’’ گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی‘‘ کہہ کر معترضین کو خاموش کرنے کی کوشش کی مگر رفتہ رفتہ وہ کود اس رنگِ سخن سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس رنگِ سخن کی تبدیلی میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی اور مفتی صدر الدین آزردہ کی صحبتوں کا بھی دخل ہے۔مشق و ممارست اور ذوقِ سلیم نے غالب پر یہ ظاہر کر دیا تھا کہ:
طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
اسداللہ خاں قیامت ہے
طرزِ بیدل میں غالب کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالغنی رقم طراز ہیں:
’’غالب، بیدل کا تتبع کیوں کامیابی سے نہ کر سکے۔ یہ سوال بھی بڑا دل چسپ ہے۔ میرے خیال کے مطابق غالب نے بیدل کے رنگ میں غزل کہنا اُس وقت شروع کیا جب کہ وہ ابھی نو مشق تھے، فکر پختہ نہ تھی اور ان کی روح اُن تجارب سے نا آشنا تھی جو تصوف کی عملی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے بیدل کو حاصل ہوئے تھے۔ علاوہ بریں علمی لحاظ سے بھی جو وسعت ِ نظر اور عمیق نگاہ بیدل کو میسر تھی، وہ غالب کے حصے میں نہ آئی اور پھر زمانے کے حالات بھی مختلف تھے جن سے بیدل ایک طرف تو فکری اور عملی لحاظ سے عظمت اور سربلندی کے علم بردار بنے اور دوسری طرف جہاں دار شاہ اور مغل امرا کی پستیِ فطرت کو دیکھ کر انہیں ایک حیات افروز انقلاب کا داعی بننا پڑا۔ غالب کے سامنے ایک از کار رفتہ،بے کار اور معطل معاشرہ تھا جس کی مایوس کن تباہ حالی کے زیرِ نظر غالب کو گوشۂ عافیت کی تلاش کے بغیر اور کُچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔‘‘ (۷۹)
غالب کی غزل کے تکنیکی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زبان اور اس کے استعمال کا گہرا شعور رکھتے تھے اگرچہ ان کے معاصرین میں زبان کا استادانہ استعمال ہی شاعر کا ہُنر گردانا جاتا تھا اور شاہ نصیر، استاد ذوق اور دیگر شعرا اس ہُنر میں طاق تھے مگر ان شعرا کے ہاں لفظ کا استعمال ایک میکانکی عمل کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جب کہ غالب کے ہاں لفظ تخلیقی رچاؤ کا مظہر ہے۔ اسی تخلیقی رچاؤ کے باعث لفظ ’’ گنجینۂ معنی کا طلسم ‘‘ دکھائی دیتا ہے۔غالب کو احساس تھا کہ نُدرتِ خیال کی ترسیل معمولی لفظوں میں ممکن نہیں اس لیے انہوں نے لفظ کے معنوی امکانات کو وسعت سے ہم کنا ر کیا۔ لفظ کی یہی معنوی وسعت ان کے غزل کی تہ داری اور رمزیت میں اضافے کا سبب ٹھہری ہے۔ زبان کے اسرار و رموز سے گہری واقفیت اور لفظ کی معنوی قدر و قیمت کے بھر پور احساس کے نتیجے میں غالب کے ہاں ابہام وضاحت اور اجمال تفصیل کے سانچے میں ڈھلتے نظر آتے ہیں۔(۸۰) غالب کی لفظ شناسی کے متعلق رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے:
’’ لفظوں کے استعمال کا جیسا غیر معمولی شعور غالب کو ہے اُردو کے بہت کم شعرا کو ہے۔ ایک طرف ان کا فارسی فرہنگ و آہنگ پر عبور ، دوسری طرف دلی کے روز مرہ اور محاورہ پر دسترس۔ اس طرح وہ ایک نئے انداز سے بساطِ شعر آراستہ کرتے ہیں۔‘‘ ( ۸۱)
غالب کے ہاں صنائع و بدائع کا استعمال صنعت گری اور بازی گری کے شوق کا نتیجہ نہیں بل کہ تخلیقی عمل میں گندھا ہوا ہے۔ غالب نے موقع و محل کی مناسبت سے بدیع و بیان کی کئی صورتوں کو اپنایا ہے بل کہ ان کے ہاں بعض ایسی صنعتیں بھی دکھائی دیتی ہیں جن کا کتبِ بلاغت میں ذکر نہیں لیکن اس کے باوجود ان کے ہاں کہیں بھی صنائع و بدائع کا استعمال محض آرائش یا بناوٹ کے لیے نہیں ہے جیسا کہ اُس دور کے اکثر شعرا کے ہاں ملتا ہے۔ انہوں نے تراکیب کے استعمال میں بھی اسی اصول کی پیروی کی ہے۔ فارسی زبان و ادب کے گہرے مطالعے اور بیدل کے زیرِ اثر غالب اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں ہی ترکیب کے اسرار و رموز سے آشنا ہوئے ، انہوں نے بیدل کی تراکیب کو اُردو میں رواج دیا اور کئی تراکیب خود انہوں نے وضع کیں ۔ یہ ترکیبیں ان کے خیال کی گہرائی اور فکر کی گیرائی کی ترسیل میں مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔ ان تراکیب کے ذریعے ہی وسعتِ خیال جو کئی سطروں میں بھی اد ا نہ ہو صرف چند لفظوں میں سمٹ آئی ہے۔(۸۲) غالب کی بعض چار یا پنج لفظی ترکیبیں ناگواریت کا احساس پیدا کرتی ہیں اور طویل اضافتیں شعر کے صوتی آہنگ کو مجروح کرتی ہیں مگر اکثر طویل ترکیبیں اس عیب سے خالی ہیں۔ غالب کے ہاں ترکیب سازی کا عمل تخیل کی کارفرمائی کا نتیجہ ہے ۔ان کی غزلوں میں مستعمل ترکیبیں تخلیقی تجربے میں رچی بسی دکھائی دیتی ہیں۔ مروجہ دیوان کی ابتدائی بیس غزلوں میں دو لفظی ، سہ لفظی اور چہار لفظی تراکیب کی بہار دیکھیے، یہ ترکیبیں محض لفظوں کا مجموعہ نہیں بل کہ خیال و فکر کے ایسی جمالیاتی صورتیں ہیں جو لباسِ شعر کی زیب و زینت اور قدر و منزلت کا سبب ٹھہرتی ہیں:
دو لفظی : شوخیِ تحریر، سینۂ شمشیر، دامِ شُنیدن، نقشِ سویدا، ننگِ وجود، آتشِ خاموش، بالِ عنقا، جوہرِ اندیشہ، رقیبِ سر و ساماں، مجموعۂ خیال، نومیدیِ جاوید، فیضِ بیدلی، عقدۂ مشکل، نقشِ وفا، کاکلِ سرکش، اندوہِ وفا، طاقِ نسیاں، پرتوِ خورشید، برقِ خرمن،دیدۂ اختر، گنبدِ بے در،پنبۂ بالش، تارِ نگہ، سرِ پُر شور، موجِ رنگ، پہلوئے اندیشہ،دیوانگیِ شوق، عیدِ نظارہ، جوہرِ آئینہ، غرقِ نمک داں، مرہونِ حنا، رہنِ غازہ،یادگارِ نالہ، دیوانِ بے شیرازہ، گرفتارِ وفا۔
سہ لفظی: موئے آتش دیدہ، تنگیِ چشمِ حسود، مکتبِ غمِ دل، داغِ عیوبِ برہنگی،دودِ چراغِ محفل، مائدۂ لذتِ درد ، ہمتِ دشوار پسند، عشقِ نبرد پیشہ، آئینۂ بے مہریِ قاتل، نو آموزِ وفا، حریفِ دمِ افعی، حریفِ دمِ عیسیٰ، حبابِ موجۂ رفتار، ناگزیرِ الفتِ ہستی، صبحِ بہارِ نظارہ، شگفتنِ گل ہائے ناز، گرہِ نیم باز، درِ گنجینۂ گوہر،عناں گیرِ خرام، محوِ بالشِ کم خواب،شمعِ بزمِ بے خودی، بساطِ صحبت ِ احباب، ذوقِ کاوشِ ناخن، وقفِ بسترِ سنجاب، ودیعتِ مژگانِ یار، مثلِ جوہرِ تیغ، داغِ تمنائے بہار، عشرتِ پارۂ دل، لذتِ ریشِ جگر، خمارِ شوقِ ساقی، درسِ دفترِ امکاں، اوراقِ لختِ دل،خانہ زادِ زلف، قحطِ غمِ الفت۔
چہار لفظی: جذبۂ بے اختیارِ شوق، غم خوارِ جانِ دردمند، سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود، ذوقِ وصل و یادِ یار،طرزِ
تپاکِ اہلِ دنیا، تالیفِ نسخہ ہائے وفا، منت کشِ گلبانگِ تسلی، گزرگاہِ خیالِ مے و ساغر، صدمۂ یک جُنبشِ لب، بیدادِ کاوش ہائے مژگاں، پرتوِ نقشِ خیالِ یار، تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں، سپندِ بزمِ وصلِ غیر، نازشِ ایامِ خاکستر نشینی، رو کشِ خورشیدِ عالم تاب، جاں دادۂ ہوائے سرِ رہ گزار،موجِ سرابِ دشتِ وفا،ماتمِ یک شہرِ آرزو،عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنا، مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلیٰ، خانۂ مجنونِ صحرا گرد، رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن۔
غالب نے ردیف اور قافیہ کے فن کارانہ استعمال سے ہیئت کے امکانات کو وسعت دی ہے،ردیف اور قافیے کی ہم آہنگی خیال کی مؤثر پیش کش کا ایک ذریعہ ہے اور غالب کے ہاں ردیف قافیے کا یہ ارتباط اپنے عروج پر ہے۔ ان کے منفرد اور مخصوص اسلوب کی تعمیر میں ان کی ردیفوں اور قافیوں کا عمل دخل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق:
’’غزل کی شیرازہ بندی میں قافیہ ،ردیف کا بڑا حصہ ہے۔ غالب نے ردیف کے معاملے میں بھی تناسب اور اعتدال کا بڑا خیال رکھا ہے۔ غالب کی غزل کی ردیف ان کے مضمون کے وقار اور ان کے جذبے کی صمیمیت کا بڑا خیال رکھتی ہے ۔ ان کی ردیف میں وہ بے ضرورت دھما چوکڑی اور ہیجان موجود نہیں جو غالب کے زمانے کی غزل میں عموماً پایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ غالب نے قافیے سے ردیف نکالنے کی بہت کم کوشش کی ہے اور یہ ان کے حسنِ ذوق کا ایک بین ثبوت ہے کیوں کہ ایسی ردیفیں عموماً بہری اور گونگی ہوتی ہیں۔ غالب قوافی کے معاملے میں بھی انتخابیت کے اصول پر کاربند ہیں۔‘‘ (۸۳)
غالب کے منتخب و مروج دیوان میں آخری غزل کا ایک شعر:
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگ نائے غزل
کُچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کئی اہلِ علم نے اس غلط فہمی کو رواج دیا ہے کہ غالب غزل کی ہیئت سے مطمئن نہ تھے اور وہ
اس تنگ نائے کے ہیئتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ اس غزل کے آخری اشعار میں نواب تجمل حسین خاں والئیِ فرخ آباد کی مدح کی گئی ہے ۔ غزل کے مخصوص موضوعات کے حامل اشعار سے ان مدحیہ اشعار کو ملانے کے لیے غالب نے یہ ’’ گریز ‘‘ کا شعر کہا ہے۔ غالب کو احساس تھا کہ غزل رمز و ایما اور ایجاز و اختصار کی حامل صنفِ شعر ہے جب کہ قصیدہ اپنے دامن کی کشادگی کے باعث تفصیل اور وضاحت کا تقاضا کرتا ہے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مذکورہ شعر کی ذیل میں رقم طراز ہیں:
’’ (غالب) چوں کہ غزل میں قصیدے کا پیوند لگانا چاہتے ہیں اس لیے بہ طور تمہید یہ بات کہی کہ ظرفِ غزل ، بقدرِ شوق نہیں۔ اس لیے غزل میں وسعت پیدا کر رہا ہوں، یعنی غزل میں قصیدہ شامل کر رہا ہوں، اسی بات کو مقطع میں ’’ ادائے خاص‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔‘‘ (۸۴)
غالب کے ذہن میں غزل کی کسی نئی ہیئت کا تصور نہ تھا اور نہ ہی وہ اس ہیئت کو تبدیل کرنا چاہتے تھے جو صدیوں سے مستعمل و مروج رہی ہے اور جس میں سعدی، خسرو، حافظ، بیدل ، نظیری ، میر اور دیگر شعرا نے حیاتِ انسانی کے تمام رنگوں کو پیش کیا تھا۔ غالب جانتے تھے کہ غزل کی خوب صورتی اس کی ہیئت میں ہے اور اس ہیئت میں کسی قسم کی خارجی تبدیلی ممکن نہیں۔
غالب کی غزلیں ایک خاص قسم کے صوتی آہنگ کی حامل ہیں ، انہوں نے حروفِ علت اور حروفِ صحیح کے مناسب و متوازن امتزاج، لفظوں کی تکرار اور خوش آہنگ بحروں کے انتخاب کے باعث اپنی غزل کو موسیقیت اور نغمگی کے جوہر سے سرشار کیا ہے۔ انہوں نے چار خوش آہنگ بحروں ( مضارع، رمل، ہزج اور مجتث)کے چھے اوزان میں دو سو کے قریب غزلیں کہی ہیں ۔(۸۵) ان متوسط اوزان میں روانی اور تیزی پائی جاتی ہے مگر غالب نے ان اوزان کو متانت اور ٹھہراؤ کی کیفیت سے بھی مالا مال کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم ضیا نے غالب کی تین غزلوں:
۱۔کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
۲۔ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
۳۔ کارگاہِ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
کی بحر کو ’’ بحرِ مقتضب مثمن مطوی ( فاعلاتُ مفعولن فاعلاتُ مفعولن)‘‘ قرار دیاہے۔(۸۶) جب کہ یہ غزلیں’’ بحرِ ہزج مثمن اُشتر ( فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن)‘‘ میں ہیں ۔
حکیم مومن خان مومن ( ۱۸۰۰ء تا ۱۸۵۱ء) غالب کے معاصر شعرا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، شاہ نصیر کی شاگردی کے باعث ان کا ابتدائی کلام پر رعایتِ لفظی کی کثرت اور تشبیہ و استعارہ کی پیچیدگی سایہ فگن ہے مگر سلامتیِ طبع کے باعث بہت جلد اس رنگ سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا۔ غالب کی طرح مومن بھی فارسیت کے دلدادہ تھے اور اسی عنصر کے باعث ان کا کلام کہیں کہیں پیچیدہ اور مبہم ہو جاتا ہے۔معنی آفرینی اور جدتِ بیان کے لحاظ سے اُردو میں بہت کم شعرا مومن کے مرتبہ تک پہنچتے ہیں۔ مومن بات سے بات نکالنے اور چند لفظوں میں معنی کا ایک وسیع جہان آباد کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور یہی صلاحیت ان کے اسلوب کی شناخت ٹھہرتی ہے۔انہوں نے غالب کی طرح بیدل کی تراکیب سے استفادہ کیا اور نیاز فتح پوری کے مطابق’’ غالب کے کلام میں جتنی ثقیل اور نا خوش گوار ترکیبیں پائی جاتی ہیں اتنی کلام ِ مومن میں نہیں ہیں۔‘‘(۸۷)ترکیب کے حسن سے چمکتے ہوئے شعر دیکھیے:
اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
لگی نہیں ہے یہ چُپ لذتِ ستم سے کہ میں
حریفِ کش مکشِ نالہ و فغاں نہ ہوا
مومن نے غزل کی زبان میں کسی تکلف اور تصنع سے کام نہیں لیا ، اس لیے ان کی زبان میں سادگی کا حسن موجود ہے۔ محاورہ اور روزمرہ کے استعمال کا انہیں بڑا سلیقہ ہے۔ مومن کے اشعار میں فطری روانی، برجستگی اور بے ساختگی کا جوہر اپنے عروج پر ہے۔ زبان کی اس سادگی اور تغزل کے اس رچاؤ کے باعث ان کے اشعار دلوں میں اتر جاتے ہیں:چند مثالیں دیکھیے:
میں بھی کُچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
تُم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تُم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دُنیا میں کیا نہیں ہوتا
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تُجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
مومن نے روشِ زمانہ کے مطابق تمام مروجہ بحروں میں اشعار کہے ہیں تاہم متوسط اوزان میں ان کی زیادہ غزلیں ملتی ہیں ،متوسط اوزان سے ان کی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے:
’’مومن جھولتی ہوئی اور جھومتی ہوئی بحروں کے بھی زیادہ دل دادہ نہیں۔ وجہ یہی ہے کہ وہ محض صوتی اثرات میں زیادہ اعتقاد نہیں رکھتے۔ نہ ان کے ذہن کو اتنی فرصت ہے کہ لمبی بحروں کی تاب لا سکیں، عام طور سے متوسط طول کے افاعیل تفاعیل سے غزل بنا لیتے ہیں اور اس میں اپنے رنگِ خاص کا مزاج اور مزاجِ خاص کا رنگ پیدا کر لیتے ہیں۔‘‘ (۸۸)
بہادر شاہ ظفر( ۱۷۷۵ء تا ۱۸۶۲ء) مغلیہ سلطنت کے آخری تاج دار تھے۔ انہوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ شعر و نغمہ سے رچا بسا تھا اور فنونِ لطیفہ کے کاملین محفل آرا تھے، کم سنی میں وہ شعر کہنے لگے ،ان کی طبیعت کی جولانی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہزاروں اشعار کہے اور ان کا شمار اُردو کے انتہائی پُر گو شاعروں میں ہوتا ہے۔شاہ نصیر ، بے قرار، ذوق اور غالب شاعری میں ان کے استاد رہے،ان سربرآوردہ شاعروں سے انہوں نے فن کے اسرار و رموز سیکھے مگر کسی کے رنگ میں شعر نہ کہے اور اپنے لیے اظہار کا ایک منفرد اسلوب پیدا کیا۔ البتہ ان کے اسلوب پر شاہ نصیر اور ذوق کے گہرے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ان استادوں کے زیرِ اثر ہی انہیں سنگلاخ زمینوں میں شعر گوئی کا شوق رہا، ظفر کی چند زمینیں ملاحظہ ہوں:
’’خونناب کا پھاہا۔۔ شاداب کا پھاہا، خبر دونوں کی دو جانب۔۔ سحر دونوں کی دو جانب، جامِ معکوسِ حباب۔۔ نامِ معکوسِ حباب، زباں میں سانپ۔۔ جہاں میں سانپ، قدم جھپا جھپ۔۔ ہم جھپا جھپ، پیر کی گڑہت۔۔ زنجیر کی گڑہت، کباب میں سیخ۔۔ شباب میں سیخ، زنجیر کے حلقے ہیں گول۔۔ شمشیر کے حلقے ہیں گول، نشاں دونوں کے دونوں ہیں۔۔ مکاں دونوں کے دونوں ہیں، زمیں کی ہڈیاں ۔۔ حزیں کی ہڈیاں، پیہم بات چیت یوں کی ووں۔۔ ہم بات چیت یوں کی ووں، آنسو کے پاؤں۔۔ قابو کے پاؤں،تریڑے پانی کے ۔۔ الجھیڑے پانی کے، فرغل منہدی کے ۔۔ تجمل منہدی کے‘‘
لیکن ظفر نے اس طرح کی سنگلاخ زمینوں ، بے لطف قافیوں اور خشک ردیفوں میں بھی مترنم اور رواں دواں شعر نکالے ہیں جو ہمیں شاہ نصیر اور استاد ذوق کے ہاں دکھائی نہیں دیتے۔سید ضمیر حسن دہلوی کا یہ کہنا خارج از آہنگ نہیں کہ:
ظفر کی کسی زمین میں کوئی نیا تیور یا ردیف کی کوئی نئی نشست اختراع کرنا اور کسی شعر کی فصاحت یا سلاست میں اضافہ کرنا محال ہے۔ گویا یہ سہلِ ممتنع بھی ہے اور ’’ دشوارِ ممتنع‘‘ بھی۔ ظفر کے کلام کی سادگی اور بے تکلفی کی مثال میں ان کا سارا دیوان پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘(۸۹)
ظفر کی غزل زبان و بیان کے اعتبار سے نہایت بلند مرتبہ کی حامل ہے انہوں نے دہلی کی ٹکسالی زبان کو بے تکلفی اور روانی سے برتا ہے۔ وہ پُرانی زبان کے بھی دل دادہ تھے اس لیے متروکات کا استعمال بھی ان کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ فارسی تراکیب اور بندشوں سے انہوں نے عموماً وہ گریز کرتے تھے مگر اس کے باوجود ان کے کلام میں فارسی تراکیب کا استعمال جا بہ جا موجود ہے۔ بہادر شاہ ظفر کا کلام ان کی زندگی کا جیتا جاگتا مرقع ہے اس لیے ان کے کلام میں سوز و گداز کی جو کیفیت نظر آتی ہے وہ ان کے معاصرین کے ہاں موجود نہیں۔
کشتۂ تیغِ غم سے پوچھ
تو نے جی سے گزر کے دیکھا ہے
برسوں گزرے کہ ہوئی خاک ہماری برباد
اب تو اس کوچہ میں اے بادِ سحر خاک نہیں
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
ظفر کے کلام کے عروضی مطالعے سے ان کی عروض شناسی کا پتا چلتا ہے، انہوں نے اگرچہ متوسط اوزان میں زیادہ کلام کہا ہے تاہم بلند اور کوتاہ اوزان میں بھی ان کی غزلیں موجود ہیں ، انہوں نے کئی ایسی اوزان میں بھی شعر کہے ہیں جو اُردو میں پہلے مروج نہ تھے ، جیسے بحرِ ہزج مثمن محذوف/ مقصور الآخر( مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن/ مفاعیل) ، ہندی نظام الاوزان سے بھی ظفر واقف تھے انہوں نے ۳۰ ماتروں کی حامل ایک ہندی بحر میں بھی غزل کہی ہے جو اپنے رنگ و آہنگ میں بحرِ میر اور بحرِ نظیر سے مماثل ہے۔ ظفر کے ہاں شانزدہ رکنی بحروں کا استعمال ان کے پُر سوز لب و لہجے کا عکاس ہے ۔انور سدید کا یہ کہنا درست ہے کہ’’ ان کی لمبی بحر کی غزلوں پر المیہ گیتوں کا گماں گزرتا ہے۔‘‘ (۹۰)ظفر نے پہلی بار اردو غزل کے لیے مربع اوزان کا بھی تجربہ کیا ہے۔
نواب مصطفی خان شیفتہ( ۱۸۰۹ء تا ۱۸۶۹ء) دورِ متاخرین کے آخری نمائندہ شاعر ہیں۔ شاعری میں وہ مومن کے شاگرد تھے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے غالب و مومن کے اسالیب کے امتزاج سے اپنے لیے ایک نیا رنگ وضع کیا۔ ان دونوں اساتذہ کے زیرِ اثر شیفتہ کے ہاں تراکیب سازی کا رجحان غالب نظر آتا ہے، شیفتہ کی اکثر تراکیب شگفتگی اور تازگی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ ترکیب کے استعمال سے ان کا شعر چمک چمک اٹھتا ہے۔ شیفتہ کی چند تراکیب ملاحظہ ہوں:
بارقۂ ہوش سوز، تقویمِ سالِ رفتہ، اخترِ بختِ نژند، پیمانِ ترکِ جاہ، نصیحتِ ناسود مند، نالۂ بے اختیار، سلسلۂ تاب دار، خاصیتِ اخگرِ سوزاں، الطافِ جرأت آزما، قلزمِ گریہ، وہمِ بے خوابیِ اغیار، ستم کشِ چشمِ غضب، آفتِ روئے زمیں، جوشِ نگاۂ دیدۂ حیراں۔
شیفتہ کے مزاج میں سنجیدگی اور متانت کا عنصر غالب تھا اس لیے انہیں اپنے ہم عصروں کی طرح سنگلاخ زمینوں اور انوکھے قافیوں کے استعمال سے کبھی دل چسپی نہ رہی، مولانا حالی ان کے رنگِ طبیعت سے بہ خوبی آگاہ تھے وہ لکھتے ہیں:
’’ وہ(شیفتہ) مبالغہ کو ناپسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادی اور سچی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دل فریب بنانا ۔۔ اسی کو منتہائے کمالِ شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھورے اور بازاری الفاظ اور عامیانہ خیالات سے متنفر تھے۔‘‘ (۹۱)
شیفتہ کی طبیعت کا یہی رنگ ان کی شاعری میں بہ تمام و کمال ملتا ہے۔ دور از کار تشبیہات و استعارات، پُر پیچ صنائع و بدائع اور لفظی بازی گری کا ان کے کلام میں دُور دُور تک نشان نہیں ملتا۔ انہوں نے اپنے مزاج کی مناسبت سے متوسط الاوزان خوش آہنگ بحروں( مضارع ، رمل اور مجتث) میں شعر کہے ہیں ۔ان کی غزلیں تہذیب و نفاست اور سادگی و دل کشی کے عمدہ نمونے ہیں۔ چند شعر بہ طور مثال دیکھیے:
وہ طرزِ فکر ہم کو خوش آتی ہے شیفتہ
معنی شگفتہ، لفظ خوش، انداز صاف ہو
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
وہ قطرہ ہوں کہ موجۂ دریا میں گُم ہوا
وہ سایہ ہوں کہ محو ہوا آفتاب میں
(۱) ادب و لسانیات، کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، اول جنوری ۱۹۷۰ء ، ص ۲۰۴۔
(۲)بہ حوالہ دی امپیریل گزیٹیئر آف انڈیا (جلد اوّل) ،آکسفورڈ، ۱۹۰۹ء، ص ۳۶۲۔
(۳)اردو زبان کی قدیم تاریخ ،لاہور، عزیز بُک ڈپو، طبعِ چہارم ،۱۹۹۶ء،ص ۹۱۔
(۴) آبِ حیات،لاہور، عشرت پبلشنگ ہاؤس، س ن ، ص
(۵) بہ حوالہ پنجاب میں اُردو، حافظ محمود شیرانی،لکھنؤ،اُتر پردیش اُردو اکادمی،اوّل ۱۹۸۲ء، ص۲۳۱۔
(۶) آبِ حیات، ص
(۷) تاریخِ ادبِ اُردو (جلد اول)، ڈاکٹر جمیل جالبی ، لاہور، مجلسِ ترقیِ ادب، اوّل ،جولائی ۱۹۷۵ء، ص ۲۸۔
(۸)مقالاتِ شیرانی (جلد دوم)،مرتبہ مظہر محمود شیرانی، لاہور، مجلسِ ترقیِ ادب ، ص ۹۴،۹۱۔
(۹) تاریخِ ادبِ اُردو (جلد اول)، ص۳۵۔
(۱۰)ایضاً ص ۵۲، ۵۳۔
(۱۱) ایضاً ص ۵۹۔
(۱۲) بہ حوالہ اُردو غزل،ڈاکٹر کامل قریشی، دہلی، اُردو اکادمی، دوم، ۱۹۹۲ء،ص ۸۲۔
(۱۳) بہ حوالہ تاریخِ ادبِ اُردو (جلد اول)، ص ۷۲۔
(۱۴)ایضاًص ۸۱۔
(۱۵)ایضاً ص ۲۵۹۔
(۱۶)ایضاً ص ۲۹۰۔
(۱۷) دیوانِ حسن شوقی، مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی،کراچی، انجمن ترقیِ اُردو، اوّل ۱۹۷۱ء۔
ّ(۱۸)کلیاتِ سلطان محمد قلی قطب شاہ، مرتب ڈاکٹر محی الدین زور، حیدر آباد دکن، مکتبۂ ابراہیمیہ،۱۹۴۰ء۔
(۱۹)ایضاً ص ۳۳۔
(۲۰)مقالاتِ شیرانی (جلد اوّل )، ص ۲۰۰۔
(۲۱) علمِ عروض اور اُردو شاعری،اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان،اوّل،۱۹۹۷ء،ص۱۳۷۔
(۲۲) محمد حسین آزاد، آبِ حیات ، ص۷۷،۷۸۔
(۲۳) نکات الشعرا، میر تقی میر ، بدایوں،نظامی پریس،۱۹۲۲ء،ص۹۴۔
(۲۴)ولی گُجراتی ،بمبئی، مطبوعاتِ انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ۱۹۵۰ء، ص ۳۴تا ۳۹۔
(۲۵) جلوۂ خضر،آرہ، مطبع نور الانوار، اوّل،۱۳۰۲ھ ،ص۶۹۔
(۲۶)تاریخِ ادبِ اُردو(جلد اوّل)، ص۵۵۱،۵۵۲۔
(۲۷)کلیاتِ ولی، مرتبہ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی، کراچی، انجمنِ ترقیِ اردو، بارِ سوم،۱۹۵۴ء۔
(۲۸)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۱۵۲۔
(۲۹) تاریخِ ادبِ اُردو(جلد اوّل)، ص۵۵۰،۵۵۱۔
(۳۰)تاریخِ ادبِ اُردو(جلد اوّل)، ص۵۶۶۔
(۳۱)کلیاتِ سراج،مرتبہ عبدالقادر سروری، حیدر آباد دکن، ۱۳۵۷ھ۔
(۳۲) علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۱۶۴۔
((۳۳) تذکرۂ ہندی، اورنگ آباد دکن،انجمنِ ترقیِ اُردو، ۱۹۳۳ء، ص۸۰۔
(۳۴) دہلی میں اُردو شاعری،ص۲۸۷۔
(۳۵) بحر الفصاحت، لکھنؤ، منشی نول کشور،اوّل ۱۹۱۷ء،ص ۹۳۰۔
(۳۶) آبِ حیات،ص۷۰۔
(۳۷) تاریخِ ادبِ اُردو،ملک حسن اختر،لاہور،یونیورسٹی بُک ایجنسی، ۱۹۷۹ء،ص
ّ(۳۸)بہ حوالہ اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک، ڈاکٹر ملک حسن اختر،گوجرانوالہ،فروغِ ادب اکادمی،۱۹۹۲ء،ص۱۷۴،۱۷۵۔
(۳۹) ایضاً ص۱۸۳۔
(۴۰) انتخابِ غزلیاتِ آبرو،ڈاکٹر محمد ذاکر(مرتب) ، دہلی، اُردو اکادمی، ۱۹۹۱ء، ص ۴۶،۴۷۔
(۴۱)بہ حوالہ اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک، ص۲۰۵۔
(۴۲)ایضاً ص۲۱۲۔
(۴۳)ایضاً ص۲۱۹۔
(۴۴)ایضاً ص ۲۳۰،۲۳۲۔
(۴۵)پنجاب تحقیق کی روشنی میں،لاہور ، سنگ ِمیل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء، ص۸۱۔
(۴۶)بہ حوالہ اُردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک،ص۱۶۲۔
(۴۷) اُردو ادب کی تحریکیں ،کراچی، انجمن ترقیِ اُردو،سوم، ۹۷۔۱۹۹۶،ص۱۹۹۔
(۴۸)آبِ حیات،؟
(۴۹)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۲۱۱۔
(۵۰)ایضاً ص ۲۱۸۔
(۵۱) تاریخِ ادبِ اُردو (جلد دوم)، لاہور، مجلسِ ترقیِ ادب، طبعِ سوم ۱۹۹۴ء، ص۶۰۵۔
(۵۲)ایضاً ص۶۱۰تا۶۱۹۔
(۵۳)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۲۲۰۔
(۵۴)مولانا محمد حسین آزاد، آبِ حیات، ص۱۸۸۔
(۵۵) مجموعہ محمد حسن عسکری،لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء، ص۳۳۶۔
(۵۶)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص۲۲۸۔
(۵۷)تاریخِ ادبِ اردو (جلد دوم) ص ۵۹۹۔
(۵۸) دلی کا دبستانِ شاعری ، لکھنؤ، ادارۂ فروغ ِ اُردو،طبعِ دوم ۱۹۶۵ء ،ص ۱۵۷
(۵۹) بہ حوالہ آبِ حیات، ص ۲۱۳۔
(۶۰)بحوالہ ’’اُردو شاعری پر ایک نظر ‘‘،محمد جمیل احمد، کراچی، غضنفر اکیڈیمی پاکستان،۱۹۹۶ء،․ ص ۱۲۹۔
(۶۱) ولی سے اقبال تک، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز ،۲۰۰۰ء،ص۱۵۸۔
(۶۲)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۲۶۵۔
(۶۳) آبِ حیات، ص۲۳۱۔
(۶۴)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۲۵۹۔
(۶۵)دریائے لطافت،(ترجمہ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی)،نئی دہلی،انجمنِ ترقیِ اُردو ہند،دوم۱۹۸۸ء، ص۳۷/۱۳۶۔
(۶۶)’’ پیش لفظ‘‘ انتخابِ ریختی،مرتبہ سید سبط محمد نقوی،لکھنؤ، اتر پردیش اُردو اکادمی، اوّل ،۱۹۸۳ء، ص۴۔
(۶۷)مکتوب بہ نام عبدالغفور نساخ مشمولہ خطوطِ غالب(جلد دوم)، مرتبہ غلام رسول مہر، لاہور، مجلسِ یادگارِ غالب، ۱۹۶۹ء، ص ۸۸۱۔
(۶۸)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۲۸۶۔
(۶۹)تاریخِ ادبِ اُردو(ترجمہ ،مرزا محمد عسکری)،لاہور، لاہور اکیڈمی،س ن ، ص ۲۴۴۔
(۷۰) بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا (خواجہ حیدر علی آتش)
(۷۱)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۲۸۲۔
(۷۲)بہ حوالہ کلیاتِ نظیر اکبر آبادی، مرتبہ عبدالباری آسی و اشرف علی لکھنوی، لکھنؤ، رام کمار پریس بک ڈپو، سوم ۱۹۵۱ء،ص ۲۹۔
(۷۳)علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۲۷۴۔
(۷۴)بہ حوالہ لسانی و عروضی مقالات، جابر علی سید، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، اوّل مارچ ۱۹۸۹ء، ص ۱۶۰۔
(۷۵)دہلی کا دبستانِ شاعری، ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی، ص ۱۹۸۔
(۷۶)مقالاتِ عابد، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء، ص ۴۴۔
(۷۷)ایضاًص ۴۷۔
(۷۸) اسد ہر جا سخن نے طرحِ باغِ تازہ ڈالی ہے
مجھے رنگِ بہار ایجادیِ بیدل پسند آیا (غالب)
(۷۹)روحِ بیدل،لاہور ،مجلسِ ترقیِ ادب، اوّل، ۱۹۶۸ء، ص ۱۴۰۔
ّّ(۸۰) میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے ترشح تفصیل (غالب)
(۸۱) غالب کی شاعری(خطبۂ دوم ) مشمولہ اُردوئے معلی( غالب نمبر)، دہلی،شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی، مرتب،خواجہ احمد فاروقی، فروری ۱۹۶۹ء ، ص۷۷۔
(۸۲)انتخاب آلِ احمد سرور، مرتب فقیر احمد فیصل، لاہور، لاہور اکیڈمی،س ن، ص۱۹۰۔
(۸۳)ولی سے اقبال تک ،ص ۱۹۶،۱۹۷۔
(۸۴) شرحِ دیوانِ غالب،لاہور، عشرت پبلشنگ ہاؤس، اوّل،جنوری ۱۹۵۹ء، ص۷۷۵،۷۷۴ ۔
(۸۵)غالب کے پسندیدہ اوزان مضمون،مغیث الدین فریدی، مشمولہ اُردوئے معلی( غالب نمبر)،ص۳۰۲۔
(۸۶) علمِ عروض اور اُردو شاعری، ص ۲۳۲۔
(۸۷)غالب فن وشخصیت،کراچی، اُردواکیڈمی سندھ،اوّل دسمبر ۱۹۸۷ء، ص۱۱۷۔
(۸۸)ولی سے اقبال تک،ص۲۴۵۔
(۸۹)بہادر شاہ ظفر کا تغزل(مضمون)مشمولہ ’اُردو غزل‘، مرتبہ ڈاکٹر کامل قریشی،ص۱۷۶۔
(۹۰)اردو ادب کی مختصر تاریخ، لاہور، اے۔ ایچ پبلشرز،اوّل۱۹۹۶ء،ص ۲۲۵۔
(۹۱)تذکرۂ حالی، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، ص ۵۷/۵۶۔
***
تشکر القلم لائبریری (شاکر القادری، تفسیر احمد)
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید