ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
سب سے اونچا تھا جو سر نوکِ سناں پر دیکھا
ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں
ہم نے سورج بھی ترے شہر میں آکر دیکھا
پیاس یادوں کو اب اس موڑ پہ لے آئی ہے
ریت چمکی تو یہ سمجھے کہ سمندر دیکھا
ایسے لپٹے ہیں دروبام سے اب کےجیسے
حادثوں نے بڑی مدت میں میرا گھر دیکھا
زندگی بھر نہ ہوا ختم قیامت کا عذاب
ہم نے ہر سانس میں برپا نیا محشر دیکھا
اتنا بے حس کہ پگھلتا ہی نہ تھا باتوں سے
آدمی تھا کہ تراشا ہوا پتھا دیکھا
دکھ ہی تھا ایسا کہ رویا تیرا محسن ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا