01:54    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

منیر نیازی کا تعارف

( 1928-2006 )

منیر نیازی کا شمار اردو اور پنجابی کے اہم تر شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری قیام ساہیوال کے ایام کی یادگار ہے۔ منٹگمری (اب ساہیوال)میں انھوں نے ..سات رنگ...کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھ جاری کیا۔ لاہور منتقلی کے بعد فلمی گانے بھی لکھے۔ منیر نیازی کی غزل میں حیرت اور مستی کی ملی جلی کیفیات نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں ماضی کے گمشدہ منظر اور رشتوں کے انحراف کا دکھ نمایاں ہے۔ منیر نیازی کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر محمد افتخارشفیع اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

منیر نیازی بیسویں صدی کی اردوشاعری کی اہم ترین آواز ہیں۔ ان کا شعری لب ولہجہ اپنی انفرادیت کے ساتھ ہمیشہ انھیں نمایاں مقام عطا کرے گا۔

اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر اور ادیب۔ 9 اپریل، 1928ء کو ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آ گئے۔

منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔ منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔

اردو کے معروف ادیب اشفاق احمد نے منیر نیازی کی ایک کتاب میں ان پر مضمون میں لکھا ہے کہ منیر نیازی کا ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ آہستہ آہستہ ذہن کے پردے سے ٹکراتاہے اور اس کی لہروں کی گونج سے قوت سامعہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔

ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔