03:22    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

حفیظ جالندھری کی شاعری

1431 1 0 00

ہوا بھی خوش گوار ہے ، گلوں پہ بھی نکھار ہے​

ترنّمِ ہزار ہے ، بہارِ پُر بہار ہے​

 

کہاں چلا ہے ساقیا ، اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ​

یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا اٹھا سبُو، سبُو اٹھا​

 

سبُو اٹھا، پیالہ بھر پیالہ بھر کے دے اِدھر​

چمن کی سمت کر نظر ،سماں تو دیکھ بے خبر​

 

وہ کالی کالی بدلیاں افق پہ ہو گئیں عیاں​

وہ اک ہجومِ مے کشاں ،ہے سوئے مے کدہ رواں​

 

یہ کیا گماں ہے بد گماں ، سمجھ نہ مجھ کو ناتواں​

خیالِ زہد ابھی کہاں ابھی تو میں جوان ہوں​

 

عبادتوں کا ذکر ہے ،نجات کی بھی فکر ہے​

جنون ہے ثواب کا ،خیال ہے عذاب کا​

 

مگر سنو تو شیخ جی ، عجیب شے ہیں آپ بھی​

بھلا شباب و عاشقی ، الگ ہوئے بھی ہیں کبھی​

 

حسین جلوہ ریز ہوں ،ادائیں فتنہ خیز ہوں​

ہوائیں عطر بیز ہوں ، تو شوق کیوں نہ تیز ہوں​

 

نگار ہائے فتنہ گر ،کوئی اِدھر کوئی اُدھر​

ابھارتے ہوں عیش پر ،تو کیا کرے کوئی بشر​

 

چلو جی قصّہ مختصر ،تمھارا نقطۂ نظر​

درست ہے تو ہو مگر، ابھی تو میں جوان ہوں​

 

نہ غم کشود و بست کا،بلند کا نہ پست کا​

نہ بود کا نہ ہست کا ،نہ وعدۂ الست کا​

 

امید اور یاس گم ، حواس گم، قیاس گم​

نظر کے آس پاس گم ،ہمہ بجز گلاس گم​

 

نہ مے میں کچھ کمی رہے ،قدح سے ہمدمی رہے​

نشست یہ جمی رہے ،یہی ہما ہمی رہے​

 

وہ راگ چھیڑ مطربا ، طرَب فزا، الَم رُبا​

اثر صدائے ساز کا ، جگر میں آگ دے لگا​

 

ہر ایک لب پہ ہو صدا ، نہ ہاتھ روک ساقیا​

پلائے جا پلائے جا ، ابھی تو میں جوان ہوں​

 

یہ گشت کوہسار کی ، یہ سیر جوئبار کی​

یہ بلبلوں کے چہچہے ، یہ گل رخوں کے قہقہے​

 

کسی سے میل ہو گیا ، تو رنج و فکر کھو گیا​

کبھی جو بخت سو گیا ، یہ ہنس گیا وہ رو گیا​

 

یہ عشق کی کہانیاں ،یہ رس بھری جوانیاں​

اِدھر سے مہربانیاں ،اُدھر سے لن ترانیاں​

 

یہ آسمان یہ زمیں ، نظارہ ہائے دل نشیں​

انھیں حیات آفریں ، بھلا میں چھوڑ دوں یہیں​

 

ہے موت اس قدر قریں ، مجھے نہ آئے گا یقیں​

نہیں نہیں ابھی نہیں ، ابھی تو میں جوان ہوں

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔