02:00    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

احمد فراز کی شاعری

1749 0 0 00

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کرلو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا

دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز

جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔