ہاشم خان اٹھایئس برس کا کڑیل جوان ، لمبا تڑنگا ، سرخ و سفید جسم آن کی آن میں چٹ پٹ ہو گیا۔ کمبخت مرض بھی آندھی و ہاندی آیا۔ صبح کو ہلکی حرارت تھی، شام ہوتے ہوتے بخار تیز ہو گیا۔ صبح جب ڈاکٹر آیا تو پتہ چلا کہ سرسام ہو گیا ہے۔ غریب ماں باپ نے اپنی سی سب کچھ کر ڈالی۔ دن بھر میں ڈاکٹر سے لے کر پیروں فقیروں تک سب کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن نہ دوا دارو نے اثر کیا اور نہ تعویذ گنڈے کام آئے۔ پہر رات ہوئی تھی پھر حالت بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ صبح پکڑنی دشوار ہو گئی۔ ماں باپ نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی اور بلک بلک کر دعا مانگی کہ کسی طرح صبح ہو جائے۔ ان کی دعا قبول ہوئی تو سہی مگر ادھر صبح کا گجر بجھا ادھر مریض نے پٹ سے دم دے دیا۔ آناً فاناً مرنے والوں کی خبر بھی آناً فاناً پھیلتی ہے سارے محلہ میں ملک پڑ گیا۔ جس نے سنا سناٹے میں آگیا۔ حلیمہ بوا کے گھر خبر نبو نے پہنچائی۔ دہلیز میں قدم رکھتے ہی بولی’’ اجی حلیمہ بوا قہر ہو گیا۔ ہاشم ختم ہو گیا ‘‘ حلیمہ بوا کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ہئے ہئے ‘‘ حلیمہ بوا اس وقت چولہے پہ بیٹھی بچوں کے ناشتہ کے لئے روٹی ڈال رہی تھی۔ مگر ہاتھ پیر ہاتھ ہی میں رہ گیا۔ فوراً نہوں نے الٹا چولہے کی آگ ٹھنڈی کر دی۔ کلثوم کی بیٹی کی خانصا حبنی سے ایسی لڑائی تھی کہ آپس کا بھاجی بخرا بھی بند تھا۔ چنانچہ کلثوم کی بیٹی کا منہ کھلا ہوا ہے۔ "نابی بی میں ضرور جاؤں گی ‘‘۔ یہ کہہ کر چادر اٹھا فوراً خانصاحب مبنی کے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ صوبیدارنی بھی خبر سنتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ مگر پھر انہیں کچھ خیال آیا۔ صوبیدار صاحب کو مردانے سے بلوا کر ہدایت کی کہ ایک وقت کی روٹی ہماری طرف سے ہو گی۔ اس کا انتظام کرواؤ میں جا رہی ہوں ‘‘ پھر انہوں نے چلتے چلتے نوکرانی کو بھی ایک ہدایت کر ڈالی کہ ارے دیکھ ری رات کی روٹیاں رکھی ہیں لونڈے کو بھوک لگے تو گھی بورا سے اسے روٹی کھلا دیجو ‘‘۔
صوبیدارنی نے خانصا حبنی کے گھر تک کا راستہ عجلت سے لیکن خاموشی سے طے کیا۔ انہوں نے عورتوں کی تقلید مناسب نہ سمجھی جنہوں نے مردوں کے ہجوم سے گزرتے ہوئے گلی ہی سے اپنے جذبات کا دبا دبا اظہار شروع کر دیا تھا۔ ہاں دہلیز سے گھسنے کے بعد ان سے ضبط نہ ہو سکا۔ ان کے بین صرف چند لمحوں تک سنے جا سکے۔ گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ اس میں صوبیدارنی یا کسی کی آواز بھی الگ سنائی نہیں دے سکتی تھی۔
گھرمیں کہرام مچا ہوا تھا لیکن باہراسی قدر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بیٹھک سے کرسیاں اٹھا دی گئی تھیں۔ اب وہاں صرف جاجم بچھی ہوئی تھی۔ ایک شخص خاموشی سے بیٹھا کفن سی رہا ہے۔ اس کے چہرے پہ نہ تو حزن و ملال کی کیفیت تھی اور نہ اطمینان اور خوشی کی جھلک تھی۔ ایسی جاندار چیزیں بھی ہوتی ہیں جو احساس سے سرے سے ہی عاری ہوتی ہیں اور ایسی بے جان چیزیں بھی ہوتی ہیں جو ہر دم ایک نئی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ سفید لٹھا عید کی چاندنی رات کو درزی کی جس دکان اور جس گھر میں نظر آتا ہے اس سے حرکت اور روشنی پیدا ہوتی ہے۔ جب اس کا کفن سلتا ہے تو سفید غبار کی طرح بیٹھنے لگتا ہے۔ بیٹھک میں سب سے نمایاں چیز تو یہ کفن ہی تھا۔ ویسے اس سے الگ ایک کونے میں خان صاحب گھٹنوں میں سر دئے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ اکا دکا اور لوگ بھی وہاں نظر آتے لیکن زیادہ لوگوں نے بیٹھک سے باہر گلی میں ٹھہرنا مناسب سمجھا تھا۔ دبی دبی آواز میں گفتگو ہوتی اور خود بخود ختم ہو جاتی۔ پھر کوئی نیا شخص گلی میں داخل ہوتا۔ آہستہ سے کسی کے پاس جا کھڑا ہوتا۔ سرگوشی کے انداز میں کچھ سوال کرتا۔ کچھ غم اور حیرت کا اظہار کرتا او ر پھر چپ ہو جاتا۔ صوبیدار سب سے الگ بیٹھک کی دہلیز پر اکڑوں بیٹھے کسی سوچ میں گم تھے۔ بیٹھک کے سامنے ذرا ہٹ کر ایک دوسرا مکان تھا جس کے پتھر پہ باقر بھائی اور تجمل بیٹھے بڑے سنجیدہ انداز میں ہولے ہولے باتیں کرتے تھے۔ ان کے اندازِ گفتگو نے علی ریاض کو کئی مرتبہ للچایا تھا ، لیکن ان کے پاس جانے کا اسے کوئی بہانہ ہاتھ نہ آیا۔ البتہ جب چھنوں میاں وہاں پہنچے تو ہمت کر کے وہ بھی آہستہ سے ادھر ہولیا۔ چھنوں میاں ہاشم کی خبر سن کر گھر سے بہت لپ کے چلے تھے لیکن گلی میں داخل ہوتے ہی ان کی رفتار دھیمی پر گئی شاید انہیں اپنے قدموں کی آہٹ سے بھی کچھ الجھن ہو رہی تھی۔ چھنوں میاں جب تجمل اور باقر بھائی کے پاس پہنچے تو اس وقت تجمل ہاشم خاں کے تھانیداری کے انتخاب کا ذکر کر رہا تھا۔ ‘‘ ہاشم خاں کی چھاتی تھی غضب تھی مجھ سے تو دو اس میں سما جائیں۔ بس باقر بھائی سمجھ لو کہ سپرنٹنڈنٹ نے جو دیکھا تو دنگ رہ گیا ‘‘۔ علی ریاض آہستہ سے بولے ‘‘ کیا خبر ہے بھائی اسی کی نظر لگ گئی ہو ‘‘
‘‘ ہاں کیا خبر ہے ‘‘ تجمل نے تائید کی۔
باقر بھائی دھیمے سے لہجے میں بولے ‘‘ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ موت کا بہانہ ہوتا ہے ۔
کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃِ الْمَوْتٍ۔
چھنوں میاں نے ٹھنڈا سا سانس لیا ’’ کیا خدا کی قدرت ہے ؟‘‘ باقر بھائی دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے اکڑوں بیٹھے تھے۔ نگا ہیں زمین پہ جمی ہوئی تھیں۔ اسی کیفیت میں بیٹھے بیٹھے پھر بولے
’’آدمی میں کیا رکھا ہے۔ ہوا کا جھونکا ہے آیا اور گیا‘‘
علی ریاض کی آنکھوں میں ایک تحیر کی کیفیت پیدا ہوئی ‘‘ باقر بھائی کیا ہوتا ہے۔ آدمی اچھا خاصا بیٹھا کہ ہچکی آئی پٹ سے دم نکل گیا۔ جا رہا ہے۔ جا رہا ہے۔ ٹھوکر لگی۔ آدمی ختم کچھ عجب کرشمہ ہے ‘‘
باقر بھائی سوچتے ہوئے بولے ‘‘بس بھائی سانس کا ایک تار ہے جب تک چلتا ہے ، چلتا ہے۔ ذرا ٹھیس لگی ، تار ٹوٹا آدمی ختم ‘‘
باقر بھائی اور چھنوں میاں دونوں کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ چند لمحوں تک علی ریاض بھی چپ رہا۔ مگر وہ بولا بھی تو کچھ اس انداز سے گو یا خواب میں بڑ بڑا رہا ہے ’’زندگی کا کیا بھروسہ۔ آنکھ بند ہوئی کھیل ختم ....کیسا ستم ہے ادھر نوکری کا پروانہ آیا ادھر موت کا تارِ برقی آگیا۔ اس کے بھید وہی جانے، عجب کارخانہ ہے اس کا ’’ پھر علی ریاض بھی کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ ایک ڈیڑھ منٹ تک مکمل خاموشی رہی۔ علی ریاض اور چھنوں میاں دونوں بت بنے ہوئے تھے۔ باقر بھائی بہ دستور ہاتھوں میں سر تھامے کہنیاں گھٹنوں پہ ٹیکے بیٹھے تھے۔ مگر ان کی آنکھیں شاید اب بند ہوتی جا رہی تھیں۔ علی ریاض پھر چونکا اور باقر بھائی سے مخاطب ہوا’’ باقر بھائی .... خدا ہے بھی یا نہیں ؟ باقر بھائی نے اپنی آنکھیں کھولیں ’’ بھائی میرے ....‘‘.... وہ رکے اور پھر بولے ’’ موت ہی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ خدا ہے ‘‘۔
علی ریاض باقر بھائی کی صورت تکتا رہا۔ پھر خیال کی نہ جانے کونسی دنیا میں پہنچ گیا۔ تجمل اور چھنوں میاں پھر کسی خیال میں گم تھے۔ پھر چھنوں میاں نے گھٹنے سے اپنی ٹھوڑی اٹھائی اور نیم محسوس سے انداز میں پھر چھا گئی۔ باقر بھائی اس طرح بے حس و حرکت بیٹھے تھے۔ البتہ علی ریاض اور تجمل نے ان کی طرف دیکھا مگر کچھ بولے نہیں۔ چھنوں میاں کی زبان سے ایک فقرہ پھر نکلا ’’ بار بار اس کی شکل آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ وہ مرگیا۔
’’یقین کیسے آئے یار ‘‘تجمل آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا ‘‘ ترسوں تک تو اچھا بھلا تھا۔ بازار میں مجھ سے مڈھ بھیڑ ہوئی۔ میں پوچھنے لگا ’’ہاشم خاں کب جا رہے ہو نوکری پہ ’’بولا‘‘ یار تقرری تو ہو گئی ہے اس ہفتے میں چلا ہی جاؤں گا ‘‘۔
علی ریاض نے ٹھنڈا سانس لیا۔ ’’ ہاں غریب چلا ہی گیا ‘‘چھنوں میاں نے علی ریاض کے فقرے پر دھیان نہیں دیا۔ وہ تجمل سے مخاطب تھے ’’ بھئی پچھلی جمعرات کو میں اور وہ دونوں شکار کو گئے ہیں ‘‘ شکار کے لفظ کے ساتھ ساتھ مختلف انمٹ بے جوڑ تصویریں چھنوں میاں کی آنکھوں کے سامنے ابھر آئیں۔ پھریری لے کر بولے ’’ کیا نشانہ تھا نیک بخت کا۔ صبح کی دھند میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ قازیں ہڑبڑا کر اٹھی ہیں۔ پروں کی پھڑ پھڑ پھڑاہٹ پہ دھوں سے گولی چلائی اور قازیں ٹپ ٹپ گر رہی ہیں۔ اب اسی دفعہ کا ذکر ہے صاحب مجھے تو پتہ چلا نہیں کہ ہرنی کدھر سے اٹھی اور کدھر چلی۔ بندوق کو تانتے ہوئے بولا ’’ وہ ہرنی چلی ‘‘ میں نے کہا کہ بہت دور ہے ، مگر وہ بھلا مانس کہا سنتا تھا دھن سے گولی چلا دی۔ ہرنی بیس قدم گری، چلی اور پھر لڑکھڑا کے گر پڑی ‘‘۔
چھنوں میاں چپ ہو گئے۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے بولے ’’ وقت کی بات ہے۔ بعض وقت منہ سے ایسی آواز نکلتی ہے کہ پوری ہو کر رہتی ہے۔ شکار سے واپسی میں کہنے لگا ’’ چھنوں میاں اپنا یہ آخری شکار تھا۔ اب ہم چلے جائیں گے غریب سچ مچ چلا گیا ‘‘
باقر بھائی کے جسم کو آخر ذرا جنبش ہوئی۔ سوچتے ہوئے بولے ’’ جمعرات کا دن تھا .... وقت کیا تھا ؟ علی ریاض اور تجمل دونوں بھائی کو تکنے لگے۔ باقر بھائی اک ذرا تامل سے ہچکچاتے ہوئے بولے ’’ ایسے وقت میں جانور کو نہیں مارنا چاہئے ‘‘
آہستہ آہستہ اٹھتے قدموں کے افسردہ شور سے ساری بزریا میں ایک خاموشی سی چھا گئی۔ کالے پنواڑی کی دکان پہ جو قہقہے بلند ہو رہے تھے وہ ایکا ایکی بند ہو گئے۔ سامنے کے کوٹھے والی نکئی پہاڑن کے سلسلہ میں شبراتی کے ذہن میں ایک بہت پھڑکتا ہوا فقرہ آیا تھا۔ اسے اس اچھے فقرے کا گلا گھونٹ دینا پڑا۔ سامنے ایک سائیکل سوار گزر رہا تھا۔ میت دیکھ کر وہ بھی سائیکل سے اتر پڑا۔ سمی حلوائی اس وقت موتی چور کے لڈو بنا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ یک بیک رک گئے اور آنکھوں میں ایک حیرت انگیز افسردگی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ملا پنساری کے اعصاب پر مذہب سوار تھا شائد اس لئے وہ موت کی سنجیدگی سے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مرعوب ہو جاتا تھا۔ بڑھیا کو تین پیسے کا دھنیا تولتے تولے وہ ایک ساتھ اٹھ کر کھڑا ہوا اور جب تک جنازے کو کاندھا دینے کا ثواب حاصل نہ کر لیا پلٹ کر نہیں آیا۔ یوں تو اس نے واپس آتے ہی کام میں لگ جانے کی کوشش کی تھی۔ مگر بڑھیا کے بھی آخر کچھ روحانی مطالبات تھے۔ ملاں کے واپس آتے ہی اس نے سوال کیا’’ بھیا رے یوکس کی میت تھی ؟‘‘
ملاں نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے جواب دیا ’’ خانصاحب ہیں نا ، ان کا لونڈا گذر گیا۔‘‘بڑھیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ’’ ہائے اللہ ‘‘
ہیرا سنار ابھی ابھی گلال لینے کی نیت سے دکان پہ پہنچا تھا۔ خانصاحب کا سن کر وہ چونکا ’’ خانصاحب جی کا پتر ....؟ وامر گیسو ؟ بڑی گھٹنا ہو گئی ‘‘ پھر ذرا تامل سے بولا ’’ واکی دیئی تو بڑی بنی ہوئی تھی کیسے مرگیو؟‘‘
ملاں نے پھر ٹھنڈا سانس لیا ’’ مہاراج موت بڑی بلوان ہے وہ بوڑھے جوان کسی کو نہیں چھوڑتی ‘‘ ہیرا بھی بہک نکلا ’’ ملاں یو تو سچ کیہوے ہے۔ موت تو جوگیوں اور مہارشیوں کو بھی آئی اور شکستی مان راجوں مہاراجوں کو بھی آئی ‘راجہ کنش ادہک‘ چتر ہنو تھا پر موت نے داکو بھی داب ہی لیو ‘‘۔
ملاں کے لہجے میں اب توانائی پیدا ہوئی ’’ لالہ رشی منی ہوں یا پیر پیغمبر، موت نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ سنا کیا کہ افلاطون نے ایک بوٹی تیار کی۔ اپنے شاگرد سے مرتے وقت کہا کہ مجھے دفن مت کیجیو۔ یہ بوٹی چراغ میں ڈال کے میرے سرہانے چالیس دن تک جلا ئیو۔ چراغ بجھنے نہ پائے۔ چالیسویں دن میں اٹھ کھڑا ہوں گا۔ مگر چالیسویں دن کیا ہوا کہ شاگرد کی آنکھ لگ گئی اور چراغ بجھ گیا۔ افلاطون مرا کا مرا رہ گیا۔ تو لالہ موت بڑی ظالم ہے ‘‘
ہیرا کا سر جھک گیا۔بڑھیا کے لہجہ میں افسردگی پیدا ہو گئی ’’ ہاں بابا موت پر کسو کا کیا بس ہے۔ ’’ بڑھیا چپ ہو گئی مگر جب کوئی کچھ نہ ملا تو ایک فقرہ پھر اس کی زبان سے نکل گیا ’’ خانصاحب مبنی کے دونوں کڑیل جوان گئے .... اس کے غضب سے ڈرتا ہی رہے۔‘‘
ملاں نے بڑے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا ’’ بڑی بیوہ امتحان لیوے ہے۔‘‘
شبراتی نہ جانے کس لہر میں کالے کی دکان سے اٹھ کر ملاں کی دکان پر آ بیٹھا تھا۔ ملاں کے اس فقرے سے وہ گرما گیا ’’ملاں بے! یوں تیرا خدا بڑی زہری ہے، جو اس کے امتحان کے اڑنگے میں آگیا۔ اس کا کباڑا گیا۔‘‘
ملاں کو ٹوٹ کر غصہ تو شاید ہی زندگی میں آیا ہو۔ مگر اس کے لہجے میں ہلکی سی برہمی ضرور پیدا ہو گئی کہنے لگا ’’ بھیا خدا تو میرا بھی ہے اور تیرا بھی ہے۔
شبراتی کی بغاوت کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ جواب وہ کیا دیتا۔ اس کا سر جھک گیا اور اس کی ٹھوڑی کھسک کر گھٹنوں پہ آن ٹکی۔ ملاں اب شبراتی سے قطعاً بے نیاز ہو کر فضا میں گھورنے لگا تھا۔
بڑھیا کنجڑی، ہیرا، شبراتی، ملاں چاروں کے چاروں چند لمحوں کے لئے بالکل گم سم ہو گئے اور ان کے چہروں پہ کچھ ایسی کیفیت پیدا ہو گئی جو زندگی کی بے ثباتی اور کسی بڑی طاقت کے وجود کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔
آخر بڑھیا کنجڑی چونکی ’’ لا میرے بیرا دھنیا باندھ دے۔ میں چلی‘‘
ملاں نے ہڑبڑا کر ترازو اٹھائی اور دھنیا تول کر کاغذ میں باندھنے لگا۔ اب ہیرا بھی ہوش میں آگیا تھا۔ اس نے تقاضا کیا ’’ ملاں موکو بھی گلال باندھ دے ‘‘
’’کتنے کا دوں؟‘‘
’’اکنی کا۔‘‘
’’ لالہ اکنی کے گلال میں آگیا بینک لگے گی تہوار روز روز تھوڑ اہی آوے ہے ‘‘
پہاڑن نکٹی اب بن ٹھن کر اپنے چھجے پہ آ کھڑی ہوئی تھی۔ کسی جلے تن کے نے پچھلے برس اس کی بے مروتی سے بھن کر دن دہاڑے دانتوں سے اس کی ناک کاٹ لی تھی۔ یوں اس کے سیاہ چہرے کی پھبن تو ضرور بگڑ گئی تھی مگر اس سے نہ تو اس کی قہر بھری گات کا جادو زائل ہوا تھا اور نہ اس کے ٹھسے میں فرق پڑا تھا۔ شبراتی نے اسے دیکھ کر زور سے انگڑائی لی اور اونچی لے میں گانے لگا۔
یارب نگاہِ ناز پہ لائسینس کیوں نہیں ؟
بنو کو یہ فائدہ تھا کہ خانصابنی کی دیوار سے اس کی دیوار ملی ہوئی تھی بلکہ اس مشترک دیوار میں باہمی سمجھوتے سے ایک الٹی سیدھی کھڑکی بھی پھوڑی گئی تھی۔ آج یہ کھڑکی بنو کے بہت کام آئی۔ آنسوؤں کا غلبہ جب بھی کم ہوا اور طبیعت رونے سے جب بھی ذرا چاٹ ہوئی بنو اس کھڑکی سے نکل کر اپنے گھر پہنچ گئی۔
حلیمہ بوا نے تو الٹتے وقت اپنے ننھے نواسے کا خیال ہی نہیں کیا تھا۔ اب اس نے بھوک بھوک کا غل مچانا شروع کیا۔ جنازہ اٹھنے کے بعد وہ بھی اس کھڑکی سے نکل بنو کے گھر جا پہنچیں۔ ان کا مقصد تو صرف اتنا تھا کہ بنو کے گھر رات کا کوئی ٹکڑا نوالہ بچا ہو تو نواسے کو کھلا کر اس کا حلق بند کر دیں۔ وہاں وہ بنو سے باتوں میں لگ گئیں۔ حلیمہ بوا کی آنکھوں میں ہاشم خاں کی تصویر بار بار پھر جاتی تھی۔ خانصاحبنی کی بد نصیبی کا خیال بھی انہیں رہ رہ کر آ رہا تھا۔ بنو پر بھی تقریباً کچھ یہی عالم گزر رہا تھا۔ چنانچہ جب حلیمہ بوا نے یہ کہا ’’ ڈوبی خانصا حبنی تو جیتے جی مرگئی ‘‘تو بنو کی آواز میں بھی درد پیدا ہو گیا بولی ’’ بد نصیب کی کوکھ اجڑ گئی دو پوت تھے دونوں ختم ہو گئے۔ آنگن میں جھاڑو سی دل گئی۔
حلیمہ بوا کچھ دیر چپ رہیں پھر کھوئے کھوئے سے انداز میں بولیں۔ حضوں کی قسمت ہی ایسی ہووے ہے۔ خانصاحبنی کمبخت کو عہدے راس نہیں آئے۔ یاد نہیں جب خانصاحب کو مجسٹریٹی ملی تھی تو کیسے کھٹیا پہ پڑے تھے۔
’’ ہاں آ ! حاکم ہوتے موئے مرض کی بھینٹ چڑھ گیا عہدہ ‘‘
حلیمہ بوا کو خانصاحبنی کے بڑے بیٹے کا واقعہ یاد آگیا ’’ اس کا بڑا پوت بھی ایسے ہی جوانی کی بھری بہار میں گیا۔ اے بی بی یہ سمجھو کہ چاند کی پہلی کو تحصیلداری کا خط آیا اور ستائیسویں کو اس غریب کا تار آگیا۔ وہ بھی آناً فاناً گیا۔ خانصاحبی کی ساری موتیں ایسے ہی ہوئیں۔‘‘
بنو کسی اور عالم میں کھو گئی تھی۔ اس کی آنکھیں خلا میں گھور رہی تھیں اور ان آنکھوں میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ چند لمحے بالکل چپ رہی پھر ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے بولی ’’با........ پالیں پوسیں چھاتی پہ سلا سلا کے بڑا کریں اور پھر قبر میں سلا آئیں غضب ہے۔‘‘
بنو پھر اس عالم میں کھو گئی۔ حلیمہ بوا بھی کچھ متاثر ہوئیں اب وہ بھی چپ تھیں۔ حلیمہ بوا کو پھرکچھ یاد آیا۔ بولیں ’’کمبخت ہاتھوں میں دل رکھتی تھی پوت کا۔ اس عید پہ اس کے لئے وہ بھاری اچکن بنوائی کہ کیا کوئی بیاہ میں بنو ائے گا۔ بنو اسی کھوئے کھوئے انداز میں پھر بولی ’’رزق برق پوشاکیں سب رکھی رہ جاویں ہیں۔ چاند کے سے ٹکڑوں پہ دم کے دم میں سینکڑوں من مٹی پڑ جاوے ہے ‘‘ بنو چپ ہو گئی تھی۔ حلیمہ بوا گم متھان بنی بیٹھی تھی۔
بنو ایک ساتھ پھر چونکی اور حلیمہ بوا سے مخاطب ہوئی۔ ’’حلیمہ بوا یہ خدا کا کیا انصاف ہے جسے اولاد دے گا، دیئے چلا جاوے گا جس سے چھینے گا وس کا گھر اجڑ ک ردے گا ‘‘۔
حلیمہ بوا بولیں ’’ اری میا شکایت کیا ہے اس کی چیز تھی اس نے لے لی۔ بنو نے اک ذرا تلخی سے جواب دیا ’’ اجی اولاد نہ ہو تو صبر ہے کہ بھئ تقدیر میں اولاد نہ تھی نہ ہوئی مگر کلیجے کے ٹکڑے یوں مٹی میں ملانے کے لئے کہاں سے جگر آوے ‘‘۔
حلیمہ بوا کو کوئی جواب بن نہ آیا تو وہ خاموش ہو گئیں لیکن پھر جلد ہی ان کی سمجھ میں بات آ گئی بولیں ’’اجی سب اپنے اپنے اعمال ہووے ہیں ‘‘انہوں نے اک ذرا تامل کیا اور پھر کہنے لگیں ’’ بی بی ہم نے تو کسی لڑنے والی کو پھلتے نہ دیکھا۔ کمبخت دانتا کِل کِل کوئی اچھی بات تھوڑائی ہے۔ کلثوم بات بات پہ اس کے بیٹے کو یاد کرتی تھی۔ آخر بیٹا بدنصیب ختم ہو گیا ‘‘اس سلسلے میں حلیمہ بوا بھی کچھ کہنا چاہتی تھیں لیکن ان کے لاڈلے نواسے نے پھر وہی رٹ لگانی شروع کر دی کہ ’’ بوا جی بھوک لگی ہے ‘‘ حلیمہ بوا نے اسے بہت بہلایا پھسلایا۔ مگر وہ کہاں ماننے والا تھا۔ حلیمہ بوا کو خود بھی اس کی بھوک کا احساس تھا۔ بنو سے کہنے لگیں ’’ میرا بچہ آج بھوک سے ہلکان ہو گیا ‘‘بنو کو بھی دبی دبی شکایت پیدا ہوئی ’’ اجی ابھی تو میت گئی ہے کب لوگ واپس آئے اور کب روٹی ملی ‘‘۔
حلیمہ بوا کو یکایک ایک سوال یاد آیا ’’ اری روٹی کس کی طرف سے ہے ؟‘‘
’’صوبیدارنی دے رہی ہے‘‘
’’پھرتو اچھی روٹی دے گی ‘‘
بنو تنگ آ کر بولی ’’ اجی ہاں ہاں اچھی روٹی دے گی۔ قبولی پک رہی ہے ‘‘۔
’’ قبولی ؟ ‘‘ حلیمہ بوا کو بڑا تعجب ہوا ’’ ڈوبا یہ الغاروں پیسہ جو ہے وہ کیا چھاتی پہ دھر کے قبر میں لے جاویگی ‘‘۔
بنو کہنے لگی ’’حلیمہ بوا ! یہ تو سب دل کی بات ہووے ہے۔ ہمارے باپ کی کیا حیثیت تھی مگر تمہیں تو یاد ہو گا ہماری ساس کے مرنے پہ گوشت روٹی دی تھی ‘‘۔ حلیمہ بوا تائیدی لہجے میں بولیں ’’ارے بھئی برادری کا تو لحاظ کرنا ہی پڑے ہے اور قبولی؟ قبولی تو بڈھوں ٹھڈوں کے مرنے میں دی جاوے ہے ‘‘۔
قبر تیار ہونے میں ابھی خاصی دیر تھی۔ علی ریاض، تجمل، باقر بھائی اور چھنوں میاں قبرستان سے نکل کر کربلا کی طرف ہولئے۔ یہ کربلا ایسی لمبی چوڑی عمارت تو نہیں تھی۔ بس ایک بڑے رقبہ میں پکی چار دیواری کھینچی ہوئی تھی۔ شاید دانستہ یہ اہتمام کیا گیا تھا۔ کہ اس میں درخت نہیں ہونے چاہیں۔ پھر بھی ایک کونے میں نیم کے دو گھنے درخت نظر آتے تھے۔ اس کے عقب میں آموں کا ایک گھنا باغ تھا۔ بائیں سمت صرف بیریاں ہی نہیں بلکہ اس سے پرے املی کے بلند و بالا درخت بھی نظر آتے تھے۔ ایسے ماحول میں یہ کربلا لق و دق صحرا کا تاثر بھلا کیا پیش کرتی مگر اس کی فضا ایک گہری اداسی کا رنگ لئے ہوئے ضرورتھی۔
یہ چار دیواری تو پست ہی تھی لیکن اس کے پھاٹک کا آہنی کٹہرہ خاصا بلند تھا اور اس سے ایک ایسا وقار ٹپکتا تھا جواس قسم کی عمارتوں کے دروازوں سے مخصوص ہے۔ مگر یہ آہنی کٹہرہ عمارت کی سب سے بلند چیز نہیں تھی۔ اس دروازے میں دو مینار بھی تو شامل تھے جو آہنی کٹہرے سے کہیں بلند تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کھلی فضا میں وہ دور سے پست ہی نظر آتے تھے اس کھلی فضا میں ایک وسیع و عریض چار دیواری کے ساتھ ان دو میناروں کو دیکھ کر کچھ اس قسم کی کیفیت گزرتی تھی جسے بعض لوگ کوئی صحیح لفظ موجود نہ ہونے کی وجہ سے حساس تنہائی کہنے لگے۔آہنی دروازے کے عین سامنے ایک پکی قبر تھی جو زمین کی سطح سے بالکل ہموار تھی۔ باقر بھائی کو آج ہی نہیں اس سے پہلے بھی اکثر مرتبہ اس قبر پر شک ہوا تھا کہ ہر سال دلدل کی ناپیں اور ماتمیوں کے قدم دونوں اسے مس کرتے ہیں۔ یہ تو خیر سب جانتے تھے کہ یہ قبر مولانا حیدر امام کی تھی اور ان کے زہد کا احترام کرتے ہوئے ہی انہیں مناسب مقام پردفن کیا گیا تھا۔ مگر علی ریاض اس شعر کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا جو اس قبر پر نقش تھا۔ پہلا مصرعہ تو صاف تھا۔ بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ!لیکن دوسرے مصرعہ کے آخری لفظ بالکل مٹ گئے تھے۔ ہمیں سوگئے داستاں .... .... علی ریاض نے بہت بہت سر مارا مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ آخر باقر بھائی نے اس معمے کو حل کیا۔ کچھ تو انہیں مٹے ہوئے لفظ پڑھنے کی اٹکل تھی پھریوں بھی انہوں نے مذہبی کتابوں کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا وقت شاعری کے مطالعے پر بھی صرف کیا تھا۔ آخر بہت سوچ سمجھ کر انہوں نے دوسرا مصرعہ پڑھا۔ ہمیں سو گئے داستان سنتے سنتے۔ علی ریاض نے ہی نہیں تجمل اور چھنوں میاں نے بھی شعر کی داد دی۔ علی ریاض نے بڑے اہتمام سے اپنے لہجے میں افسردگی کا رنگ پیدا کیا اور شعر پڑھنے لگا۔
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستان سنتے سنتے
’’واہ‘‘ چھنوں میاں کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’کس کا شعر ہے ‘‘
علی ریاض تھوڑا سا چکرایا پھر سوچتے ہوئے بولا ’’انیس کا معلوم ہوتا ہے ؟کیوں باقر بھائی ؟‘‘
باقر بھائی نے جواب دیا ’’بھئی شعر تو منہ سے بول رہا ہے کہ میں میر انیس کا ہوں ‘‘
’’واہ واہ میر انیس بھی کیا کیا شعر کہہ گئے ہیں ‘‘چھنوں میاں نے پھر داد دی۔
’’باقر بھائی ‘‘علی ریاض کا لہجہ یکایکی بدلا ’’سنتے ہیں کہ میرا نیس شعر خود نہیں کہتے تھے ‘‘۔
چھنوں میاں کا چہرہ سرخ پر گیا تڑخ کر بولے ’’پھر کیا جنید خاں لکھ کے دے جاتے تھے۔‘‘
علی ریاض نے جلدی سے اپنی بات کی تشریح کی ’’ابھی ہم نے تو یہ سنا ہے کہ محرم کے دنوں میں میر انیس جب سوکے اٹھتے تھے تو ان کے سرہانے امام حسین علیہ السلام کا لکھا ہوا مرثیہ رکھا ہوتا تھا ‘‘۔
چھنوں میاں کے چہرے پہ سرخی جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے غائب ہو گئی۔ ہاں اسی تیزی کے ساتھ ان کی آنکھوں میں حیرت کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ ’’اچھا ؟‘‘
تجمل نے براہ راست باقر بھائی سے سوال کیا ’’کیوں بھائی۔ سچ ہے یہ ؟‘‘
باقر بھائی نا معلوم کس قماش کی آدمی تھے، کسی بات کی نہ تو زور شور سے تائید کرتے تھے اور نہ زور شور سے تردید کرتے تھے۔ ان کے جواب میں ہاں اور نہیں دونوں پہلو شامل ہوتے تھے۔ کہنے لگے ’’ہاں لکھنؤ جا کے کسی سے پوچھ لو اور یہ واقعہ تو لکھنؤ کے بچے بچے کی زبان پہ ہے ........‘‘
تجمل نے بے صبرے پن سے پوچھا ’’کیا واقعہ ؟‘‘
یہی کہ ایک دفعہ میر انیس اور مرزا دبیر میں بحث ہو گئی کہ دیکھیں مولاؓ کو کس کا مرثیہ پسند ہے۔ دونوں نے مرثیہ لکھا اور اپنا اپنا مرثیہ بڑے امام باڑے میں عالموں کے پاس رکھ آئے۔ صبح کو جو جا کے دیکھیں ہیں تو میر انیس کا مرثیہ تو ویسا ہی لکھا ہے اور مرزا دبیر کے مرثیے پہ پنجے کا نشان۔
پنجے کا نشان ؟ ’’تجمل اور چھنوں میاں دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
علی ریاض نے بڑے اعتماد سے کہا ’’ہاں پنجے کا نشان۔ بس جناب میر انیس کا تو برا حال ہوا سمجھے کہ مولؓا کی شان میں کوئی گستاخی ہو گئی۔ پھر رات ہوئی۔ ذرا آنکھ جھپکی ہو گی کہ گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز آئی۔ میر ا نیس چونک پڑے۔ علی ریاض رکا اور تجمل اور چھنوں میاں دونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے باری باری دیکھا۔ تجمل اور چھنوں میاں دونوں حیرت سے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے تھے۔ اور تو اور باقر بھائی کی بے نیازی میں بھی فرق آ چلا تھا۔ علی ریاض پھر بولا ’’گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز پاس آتی گئی۔ بس سمجھو کہ سارا امام باڑہ گونجنے لگا۔ میر انیس کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سفید گھوڑا ہے۔ اس پہ ایک بزرگ سوار ہیں۔ چہرے پہ سیاہ نقاب پڑی ہوئی، کمر میں تلوار۔ میر انیس کے برابر آئے اور ان کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بولے ’’ کہ انیس تو میری اولا د ہے۔ دبیر میرا عاشق ہے اس کا دل ٹوٹ جاتا ‘‘ .... .... میر انیس کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ آنکھ کھلی تو نہ گھوڑا نہ گھوڑا سوار۔ تڑکا نکل آیا تھا۔ مسجد میں اذان ہو رہی تھی۔‘‘
علی ریاض کی داستان ختم ہو چکی تھی۔ تجمل اور چھنوں میاں ایک ڈیڑھ منٹ تک علی ریاض علی ریاض کو تکتے رہے پھر ان کی نگاہیں باقر بھائی پہ جم گئیں۔ باقر بھائی نے اک ذرا لاپرواہی سے کھنکار کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس داستان سے کچھ ایسے زیادہ متاثر نہیں ہیں۔ پھر آپ ہی آپ کہنے لگے ’’ مگر اس روایت سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ انیس خود مرثیہ لکھتے تھے۔‘‘
’’ مگر صاب ‘‘ باقر بھائی اب قمچی کے اشارے کے بغیر چل رہے تھے ’’ انیس کی شاعری واقعی انسانی کلام نہیں ہے ........ معجزہ ہے ‘‘۔ باقر بھائی چند لمحوں کے لئے بالکل خاموش رہے اور پھر آپ ہی آپ بڑبڑانے لگے۔
’’ گودی ہے کبھی ماں کی، کبھی قبر کا آغوش
سرگرمِ سخن ہے کبھی انسان، کبھی خاموش
گل پیرہن اکثر نظر آئے ہیں کفن پوش
گہہ سخت ہے اور گاہ جنازہ بہ سرِ دوش ‘‘
باقر بھائی اک ذرا رکے۔ ان کی آواز ڈوبنے لگی تھی ’’ ہا کیا شعر ہے ‘‘۔
اک طور پہ دیکھا نہ جواں کو نہ مسن کو
شب کو تو چھپر کھٹ میں ہیں تابوت میں دن کو
باقر بھائی چپ ہو گئے۔ اب وہ پھر بت بن گئے تھے۔ علی ریاض، تجمل اور چھنوں میاں پہ بھی سکتہ چھا گیا تھا۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ البتہ آس پاس کے نیم اور املی کے درختوں میں دھیما دھیما شور ضرور برپا تھا۔ ہوا بہت تیز تو نہیں تھی۔ اسے موسم کا اثر کئے کہ ہوا کا کوئی جھونکا اگر دبے پاؤں بھی آتا تو زرد پتوں کو بہانہ مل جاتا اور ٹہنیوں سے بچھڑ کر فضا میں تیرنے لگتے۔ بہتی ہوئی ریت کے ریلے میں نیم کے بہت سے ننھے ننھے زرد پتے بھی آ گئے تھے اور قبر پہ بڑے قرینے سے بچھ گئے تھے۔
اس نیم بیدار نیم خوابیدہ فضا میں نیم کے درختوں سے لے کر کربلا کی دیواروں کی منڈیروں تک ہر چیز کچھ اجڑی اجڑی سے نظر آ رہی تھی اور علی ریاض، تجمل، چھنوں میاں گم متھان بنے بیٹھے تھے اور باقر بھائی پر مراقبہ کی کیفیت طاری تھی۔
آخر چھنوں میاں نے اس سکوت کو توڑا۔ انہوں نے بڑے مرے ہوئے انداز میں انگڑائی لی۔’’بھئی دھوپ میں چٹخی آ گئی۔ یہاں سے اٹھو‘‘۔
چھنوں میاں کھڑے ہوئے۔ دوسرے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ چھنوں میاں نے اس سلسلے میں مشورے یا اطلاع کی ضرورت نہیں سمجھی۔ شاید نا دانستہ طور پر ان کے قدم بیریوں کی طرف اٹھ گئے تھے۔ یہ بیریاں اس سال اللہ دیے نے لے رکھی تھیں۔ اس نے اس برگزیدہ قافلہ کو بیریوں کی طرف آتے دیکھا تو بے تحاشا پکا ہوا تھا۔ قریب پہنچ کر ا س نے چھوٹتے ہی سلام کیا ’’میاں سلام ‘‘۔۔
’’سلام ‘‘صرف چھنوں میاں نے سلام کا جواب دینا ضروری سمجھا۔
بیریوں میں داخل ہوتے ہوئے چھنوں میاں کہنے لگے ’’ صاب موسم اب بدل ہی گیا۔ دھوپ میں اچھی خاصی تیزی آ گئی ہے۔‘‘
’’ہاں‘‘ تجمل بولا ’’ جاڑے تو اب گئے ہی سمجھو۔ میں ہولی کے انتظار میں ہوں۔ ہولی چلی اور میں نے باہر سونا شروع کیا ‘‘۔
چھنوں میاں اللہ دیے کی طرف متوجہ ہو گئے ’’ ابے اللہ دیے کب جل رہی ہے ہولی ؟‘‘
’’ اگلے شکر کو جل جاوے گی جی۔ بس چھنوں میاں بیر بھی اگلے شکر تک کے ہیں۔ ہولی کے بعد ان میں کنڈار پڑ جاوے گی ‘‘ پھر ذرا رک کر بولا ’’میاں بیر کھا لو‘‘
چھنوں میاں بیزار ہو کر بولے ’’میرے یار دم تو لینے دے ‘‘
اللہ دیا چپ ہو گیا۔ اس نے اپنی رفتار دھیمی کر دی اور پیچھے تجمل کے برابر برابر ہولیا۔ کچھ دیر وہ خاموش چلتا رہا پھر آہستہ سے بولا ’’تجمل میاں کتنی دیر ہے دفن ہونے میں ؟‘‘
’’آدھ گھنٹے سے کم کیا لگے گا ‘‘
اللہ دیا خاموش چلتا رہا پھر ذرا ہچکچا کر بولا ’’ تجمل میاں جو ہونی ہو وے ہے وے ہو کے ہی رہوے ہے ۔ میرا ماتھا وسی وخت ٹھنکا تھا۔ میں نے ہاشم میاں کو منع بھی کیا پر ونہوں نے میری سنی نہیں ‘‘۔
علی ریاض چپ چاپ پیچھے چلے آ رہے تھے۔ ان فقروں پر ان کے کان کھڑے ہوئے۔ انہوں نے چال تیز کر دی اور پاس آ کر بولے ’’کیا بات ؟‘‘
’’امی میں دس روزا کے شکار کی بات کر رہا ہوں ‘‘ اللہ دیےکی آواز اب ذرا بلند ہو گئی تھی ’’چھنوں میاں تو ساتھ تھا۔ پوچھ لو میں نے منع کیا تھا یا نہیں۔ سالا نیل کنٹھ رستہ کاٹ گیا۔ میں نے کہا کہ ہاشم میاں لوٹ چل پھر ونہوں نے مجھے ڈپٹ دیا۔ جب ہرنی اٹھی تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا ‘‘ اللہ دیا چپ ہوا اور جب وہ پھر بولا تو اس کی آواز نے تقریباً سرگوشی کا رنگ اختیار کر لیا تھا۔ ’’ اجی دس کے ہرن کو پچھلے مہینے ہاشم میاں نے مارا تھا۔ میرا دل اندر سے یو کیوے کہ اللہ دیے آج کچھ ہووے گا۔ میں نے کہا کہ ہاشم میاں گولی مت چلاؤ۔ پر جی ونہوں نے مجھے پھر جھڑک دیا ‘‘
اللہ دیا چپ ہو گیا۔ بیریوں کے پتے خاموش تھے، ہوا شاید بہت دھیمی ہو گئی تھی۔ صرف قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ اللہ دیے کی جھونپڑی کے قریب پہنچ کر سب لوگ چارپائی پر بیٹھ گئے۔ اللہ دیے نے حقہ بھی تازہ کر کے رکھ دیا تھا۔ چھنوں میاں نے دو گھونٹ خاموشی سے لئے۔ پھر آپ ہی آپ کہنے لگے۔ بھئی اب کچھ ہی کہہ لو مگر ہم تو بچپن سے شکار کھیلتے آ رہے ہیں۔ ہم نے تو کبھی شگن وگن کی پروا نہیں کی ‘‘۔
علی ریاض بولے ’’ بھائی یہ نئی روشنی کا زمانہ ہے۔ آج ہم کہتے ہیں کہ صاحب بڑے بوڑھے لوگ بڑے دقیانوسی تھے، تو ہم پرست تھے ............ مگر صاحب ان کا کہا ہوا آج بھی پتھر کی لکیر ہے ‘‘۔
تجمل نے بے ساختہ ٹکڑا لگایا ’’یہ واقعہ ہے‘‘۔
علی ریاض کی بات جاندار تھی۔ چھنوں میاں کو مجبوراً باقر بھائی سے رجوع کرنا پڑا ’’باقر بھائی آپ کا کیا خیال ہے؟ ‘‘
باقر بھائی پھر اپنے اسی مذبذب سے لہجے میں بولے ’’ اللہ بہتر جانتا ہے کیا بھید ہے ........ ویسے ہم نے بہت سی رسمیں ہندوؤں سے لی ہیں۔ اسلام تو شگون وگون کا قائل ہے ہی نہیں ‘‘
چھنوں میاں کی بات کی تائید ہوئی تھی۔ پھر بھی انہوں اس جواب پہ کچھ بے اطمینانی سی محسوس کی۔ علی ریاض چند لمحوں تک بالکل گم سم رہا پھر بڑبڑانے لگا ’’اس کے بھید وہی جانے۔ عجب طلسمات ہے یہ دنیا ‘‘۔
باقر بھائی کی نیت جواب دینے کی نہیں تھی بس یونہی بیٹھے بیٹھے کہنے لگے ’’ میاں ہم تویہ جانتے ہیں کہ تقدیر میں جو لکھ گیا وہ مٹ نہیں سکتا ‘‘۔
باقر بھائی پھر کسی دوسری دنیا میں جا پہنچے، علی ریاض، تجمل اور چھنوں میاں گم متھان بنے بیٹھے تھے۔ ہوا کا تنفس بہت دھیما ہو گیا تھا مگر بیریوں کے پتوں میں ایک دبا دبا سا شور تھا۔ کچھ ایسا شور کہ بچے چوری چھپے کچھ کتر کتر کر کھا رہے ہیں۔ اللہ دیے نے جلدی سے گوپھیا اٹھائی اور اس میں اینٹ رکھ کر آگے چلا بیریوں کے بیچوں بیچ۔ درختوں کے گھنے سائے میں پہنچ کر اس نے گوپیا گھمائی اور ساتھ میں حلق سے للگانے کی آواز بھی نکالی۔ بیریوں کے پتوں میں یکایک ایک ہنگامہ پیدا ہوا اور طوطوں کی ایک ڈار چیختی چلاتی تیزی سے پتوں کی تہہ سے اٹھی اور فضا میں ایک الٹی سیدھی سبز دھاری بن کر پھیل گئی۔ گوپیا نے دوہرا طلسم پیدا کیا اس کے اشارے سے سبز طوطے آسمان کی طرف اٹھے اور سبز سرخ بیر زمین پہ گرے۔ اللہ دیے نے سرخ سرخ بیریوں سے گود بھری اور اسے مہمانوں کے سامنے جا کر خالی کر دیا۔ کہنے لگا ’’ میاں پونڈا بیر ہے پکے پکے بین کے لایا ہوں۔ ذرا یوں چکھ کے دیکھو‘‘۔
باقر بھائی نے کسی قسم کا اظہارِ خیال نہیں کیا۔ ہاں علی ریاض نے ان کی کھٹ مٹھے ہونے کی تعریف کی۔ چھنوں میاں کا خیال تھا اگر پسا ہوا نمک ہوتا تو لطف آ جاتا۔ تجمل بیر کھاتے کھاتے پوچھنے لگا۔ ’’ ابے اللہ دیے بیریوں سے تو تو نے اچھا کما لیا ہو گا ؟‘‘
اللہ دیا بڑے افسردہ سے لہجے میں بولا ’’ اجی تجمل میاں ان بیروں سے کیا بینک لگے گی۔ اب کی برس بڑا گھاٹا آیا ہے۔ آموں کی فصل سوکھی نکل گئی۔ ساری رقم ڈوب گئی۔ سنگھاڑوں کی بیل لی تھی، دسے جونک لگ گئی۔ تجمل میاں بس اپنی تو بدھیا بیٹھ گئی۔‘‘ سنگھاڑوں کی بیل سے اللہ دیا کا ذہن کسی اور طرف منتقل ہو گیا۔ اس کا رخ چھنوں میاں کی طرف ہو گیا۔ ’’ اجی چھنوں میاں وے پوکھر تھی نہیں اپنی دس پہ آج کل مرغابی بہت گر رئی اے ‘‘۔
چھنوں میاں چونکے ’’اچھا ‘‘
’’ہاں میاں‘‘
’’دیکھ لیں کسی دن ‘‘
اللہ دیا بولا ’’ تو چھنوں میاں اس سالے جانور کا بھروسہ نہیں اے۔ بس چلنا ہے تو جلدی چلے چلو۔ کسی دن پوہ پھٹنے سے پہلے تاروں کی چھاؤں میں چلو ۔ تڑکے تڑکے گھر پہ آن لگیں گے ‘‘۔
چھنوں میاں جواب دینے ہی والے تھے کہ علی ریاض بیچ میں بول اٹھا۔ اس کی آنکھیں دور قبرستان کی طرف دیکھ رہی تھیں اور وہ کہہ رہا تھا ’’یار لوگ تو واپس جا رہے ہیں۔ حد ہو گئی، ہم یہی بیٹھے رہ گئے۔
چھنوں میاں، علی ریاض، تجمل، باقر بھائی چاروں اٹھ کھڑے ہوئے۔ بیریوں سے باہر نکلتے ہوئے اللہ دیے نے پھر چھنوں میاں کو ٹھوکا ’’تو چھنوں میاں کب چل رئے او؟‘‘
چھنوں میاں دل ہی دل میں حساب لگاتے ہوئے بولے ’’کل ؟ کل نہیں ........ پر سوں نتیجہ ہے۔ ہاں ترسوں آجائیو۔ مگر دن چڑھے سے پہلے پہلے واپس آنا ہے ‘‘
اللہ دیا گرما کر بولا ’’ دن چڑھے، ؟ کیا کہہ رئے او چھنوں میاں۔ اجی۔ فجر کی نماز مسجد میں آ کے پڑھیں گے‘‘۔